Friday, July 30, 2010

سا تویں مجلس شہادت حضرت امام حسن علیہ سلام

ساتویں مجلس فضائل وشہادت امام حسن علیہ السلام
ہے ذکر شہادت حسن سبز قبا کا
پھٹتا ہے جگر جوش سے یہ آہ وبکا کا
معتبر کتابوں میں جناب سلمان فارسی سے روایت ہے کہ ایک روز جناب رسالت مآب کی خدمت میں ایک شخص غیر موسم میں انگور تازہ لایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میری آنکھوں کے نور حسنین کو بلاو۔ میں جناب سیدہ کے دولت سرا پر شاہزادوں کو لینے گیا۔ مگر وہاں حسنین موجود نہیں تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ حضور کی خدمت میں آئے ہیں۔ میں نے واپس آکر حقیقت حال سے سرکار دو عالم کو آگاہ کیا۔ اس خبر کے سنتے ہی جناب رسالت مآب مضطربانہ اصحاب کے ہمراہ صاحبزادوں کی تلاش میں اٹھے۔ اور فرمانے لگے جو شخص خبر حسنین سے مجھے خوش کرے گا،میں اسے فردا ئے قیامت خوش کروں گا۔ کہ ناگاہ جبریل امین نازل ہوئے اور عرض کی کہ اے فخر پیغمبران فرزند آپ کے فلاں باغ میں سوتے ہیں۔ یہ سنتے ہی آنحضرت اس باغ میں پہنچے تو دیکھا آپ نے کہ وہ دونوں نونہال بوستان امامت وغنچہء سربستہ چمنستان رسالت وگلہائے گلستان ہدایت ایک دوسرے کی گردن میں باہیں ڈالے سو رہے ہیں۔ اور سر بالین ایک اژدہائے مہیب مروحہ جنبانی کر رہا ہے۔
نظم
کیا مرتبے خالق نے کیے آل عبا کے
سوتے تھے جو دلدار بتول عذرا کے
ہر طرح سے مبذول تھے الطاف خدا کے
حاضر تھے حفاظت کو ملک عرش سے آکے
تا خواب میں غمگیں کہیں حسنین نہ ہوئیں
آئے نہ خلل نیند میں بے چین نہ ہوئیں
پر ہائے یہ خالق کی عنایات ہو جن پر
لکھا ہے کہ امت نے انہیں بعد پیمبر
رہنے نہ دیا چین سے نانا کی لحد پر
ہر طرح سے اعدا نے کیا بے کس وبے پر
شبر کو تو مارا ستم زہر دغا سے
شبیر کو مذبوح کیا تیغ جفا سے
غرض جوں ہی آنحضرت نزدیک پہنچے،تو اژدہے نے آپ کا استقبال کیا اور کہا السلام علیک یا رسول اللہ، میں آسمان کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں۔ اور عبادت معبود میں کچھ کوتاہی ہو جانے کے سبب عتاب الہی سے اژدہے کی شکل میں مسخ ہو کر زمین پر بھیج دیا گیا ہوں۔ اور کئی سال سے اسی حال میں بسر کر رہا ہوں۔ آج یہ امید لے کر حضور کےفرزندوں کی خدمت گزاری کرنے آیا ہوں کہ ان کی شفاعت کی برکت سے ارحم الراحمین میری توبہ قبول فرمائے۔آنحضرت تو حسنین کے سرہانے بیٹھ گئے اور اپنے پارہ ہائے جگر کے بوسے لینے اور بو سونگھنے لگے۔ یہاں تک کہ حسنین بےدار ہوئے،ان کو جناب رسول خدا اپنی گود میں بیٹھا کر پیار کرنے لگے۔ پھر فرمایا کہ اےبرگزیدگان درگاہ الہیٰ مولف
ہے یہ ملک مقرب درگاہ کبریا
حاضر ہے جو کہ روبرو ہم شکل اژدہا
صادر ہوئی اس سے عبادت میں کچھ خطا
نازل ہوا عتاب خدا مسخ ہو گیا
قابو نہیں اسے ذرا قلب حزین پر
پھینکا گیا خدا کے غضب سے زمین پر
یہ سن کے کانپنے لگے سبطین مصطفےٰ
اور جلد آب پاک سے پہلے وضو کیا
پھر دو رکعت نماز کھڑے ہو کے کی ادا
اور ننھے ہاتھ اٹھا کے خدا سے یہ کی دعا
رنج وملال دور ہو اس دل ملول کا
اس اژدہے کو بخش دے صدقہ رسول کا
ابھی دعا تمام نہ ہوئی تھی کہ جبریل امین با گروہ ملائکہ نازل ہوئے۔اور فرشتہ معتوب کو رحمت الہیٰ کی خوشخبری دی۔ اور اسی دم مثل سابق بال وپر نکل آئے۔ اور وہ دعا دیتا ہوا فرشتوں کے ہمراہ آسمان کی جانب پرواز کر گیا۔بسند صحیح منقول ہے کہ ایک روز جناب رسول خدا امام حسن کو اپنے دوش مبارک پر سوار کیے تشریف لے جا رہے تھے، کہ ایک شخص نے کہا صاحب زادے کتنا اچھا تمہارا مرکب ہے۔ یہ سنتے ہی آنحضرت نے فرمایا کہ سوار بھی کس قدر بہتر ہے۔ اس طرح اس شخص کو جناب رسول مقبول نے آگاہ فرمایا مولف
کیا جانے کوئی اس کے مراتب بجز خدا
یا تو میں جانتا ہوں ویا جانے مرتضےٰ
کہتا ہوں اتنی بات میں اس وقت برملا
ہو گا انہی کے ہاتھ سے امت کا بھی بھلا
مقبول ہیں عطائے خدائے کریم سے
امت بچے گی ان کی بدولت جحیم سے
منقول ہے کہ ایک روز جناب رسالت مآب صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم مجمع اصحاب میں رونق افروز تھے، کہ جناب امام حسن تشریف لائے۔ آنحضرت نے جونہی اپنے جگر گوشہ کے روئے مبارک پر نظر کی ،بے اختیار روئے اور فرمایا کہ اے میرے فرزند دل بند اے میری آنکھوں کے نور جلد آو۔حضرت امام حسن تشریف لائے تو ان کو داہنے زانو پر بٹھا لیا۔ اصحاب میں سے کسی نے پوچھا کہ حسن کو دیکھتے ہی رونے کا سبب کیا ہوا۔ آپ نے فرمایا حسن میرا فرزند پسندیدہ اور میرے دل کا ٹکڑا ہے اور بہترین جوانان اہل بہشت ہے۔ جوں ہی میں نے جمال حسن پر نظر کی،مجھ کو اس کی بے کسی ،مظلومی اور مصیبت جو میرے بعد اس پر پڑے گی یاد آگئی۔ اور میں بے چین ہو گیا۔اس سبب سے کہ میرے بعد اس غریب وبے دیار کو دشمنان جفا کار نہ چھوڑیں گے،اور ہمیشہ درپے رنج وعناد رہیں گے۔ اور زہر سے شہید کریں گے۔اور ملائکہ آسمان وزمین اور کروبیان ملاء اعلیٰ اس کے ماتم میں روئیں گے۔ اور مرغان ہوا اور ماہیان دریا اس کی غریبی اور بے کسی پر آہ ونالہ کریں گے۔ اور جو اس کی تعزیت میں اندوہ گیں ہوگا،فردا قیامت خرم وشاداں حوروں کے ہمراہ خلد بریں میں مسکن گزین ہوگا۔مولف
روز ازل سے کاتب قدرت نے ہے لکھا
کچھ رمز کی یہ بات نہیں سب پہ ہے کھلا
جو دوست ان کے ہیں وہ بہشتی ہیں برملا
دشمن کا گھر نہیں ہے جہنم کے ماسوا
ان کے فضائلوں کا نہیں کچھ شمار ہے
سرکار کبریا میں انہیں اختیار ہے
منقول ہے کہ جب وصی جناب رسالت مآب یعنی جناب علی مرتضیٰ مشکلکشائے عالم کی شہادت کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے تمام اسرار امامت جناب امام حسن کو تلقین فرمائے۔ چنانچہ کتب معتبرہ میں وارد ہے کہ امام کونین امیر المومنین کی شہادت کے بعدجناب امام حسن منبر پر تشریف لائے۔ اور بکمال فصاحت وبلاغت حمد خدا ونعت محمد مصطفیٰ ومدح جناب علی مرتضیٰ میں ایک خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ حاضرین آگاہ ہوں کہ میرے نانا وبابا جس طرح دین کی دعوت فرماتے تھے۔ میں بھی تم کو اسی طرح دعوت دین کرتا ہوں۔تھے۔ تو سب نے برضا ورغبت بیعت کی۔ لکھا ہے کہ اسی روز چالیس ہزار اشخاص بیعت سے مشرف ہوئے۔اس وقت آپ کا سن مبارک سینتیس برس کا تھا۔ جب جناب امام حسن کی خلافت کی خبر حاکم شام کو پہنچی تو نظم
ہو کر وہ غضبناک چلا شام سے غدار
سادات کی مظلوم کی خون ریزی پہ تیار
ہمراہ تھے ہشتاد ہزار اس کے جفا کار
تھا خوف نبی کا نہ جنہیں دہشت قہار
کہتا تھا کہ شبر کو میں بے جان کروں گا
احمد کے نواسے کو میں قربان کروں گا
پہیم یہی سنتا ہوں وہاں کا میں افسانہ
بیعت کا حسن کی متمنی ہے زمانہ
لازم ہے یہ مجھ پر کہ کروں فوج روانہ
دب جائے گا بیعت کی حسن کا یہ ترانہ
آغاز ابھی ہے جو خبر آج نہ لیں گے
گزریں گے جو کچھ دن کف افسوس ملیں گے
جب امام حسن علیہ سلام کو اس کا یہ ارادہ معلوم ہوا تو آپ بھی کوفہ سے باہر تشریف لائے۔ تو لکھا ہے کہ حاکم شام نے تحریر خفیہ اس مضمون کے پیغامات روسائے لشکر امام علیہ سلام کو خفیہ طور سے بھیجے۔کہ جو کوئی امیر المومنین یعنی حسن علیہ سلام سے منحرف ہو کر میراساتھ دے گا۔وہ میرے نزدیک عزیز ومحترم ہوگا،اور میرے لطف وکرم سے سرفراز ہو کر بہت سا مال وزر پائے گا۔ اور مناصب لائق پر ممتاز ہوگا۔اور جو کوئی انہیں قتل کرے گا یا گرفتار کرکے میرے پاس لائے گا،تو اپنی دختر اس کے نکاح میں دوں گا ۔ اسی طرح اس بدین کی متواتر تحریریں بی ایمان وبد کرداروں کے پاس پہنچتی رہیں،پھر تو اکثر روسائے کوفہ راہ جنت سے پھر کر مائل جہنم ہوئے۔جناب امام حسن علیہ سلام نے چند نفر امیر معاویہ کے سر راہ تعینات فرمائے،جو دین کو دنیا سے بدل کرکے اس کے شریک ہوتے رہے۔ آخر جب حضرت نے دیکھا کہ کوفیان بیحیا ستمگاران پر وغا مکر وفریب پر آمادہ ہیں ۔اور حاکم شام سے ملے جاتے ہیں توحضرت بہت متردد وپریشان ہوئے،اور ان بے وفاوں کے دلوں کا امتحان لینے کے لئے سب کو ساباط مدائن میں جمع کیا۔ اور فرمایا کہ مجھے مسلمانوں کی سلامتی مد نظر ہے۔ حتی الامکان جدال وقتال سے پرہیز کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں نے جب یہ سنا سمجھے حضرت آمادہ صلح ہیں،جس وقت یہ خبر معاویہ کو پہنچی،اس نے فرصت کو غنیمت جان کر اور اکثر کوفیوں کو ساتھ لے کر جو بیعت امام سے منحرف ہو گئے تھے۔ حضرت پر یورش کی۔ آخر حضرت مجبور ہو کر مع چند شیعوں کے مدائن کی جانب متوجہ ہوئے۔اثنائے راہ میں جراح ابن سنان اسدی نظم
بیٹھا تھا سر راہ کمیں میں وہ جفا کار
دل میں تو حسد ہاتھ میں اک خنجرخونخوار
دیکھا جونہی حضرت کو کیا ظلم کا اک وار
بس ران میں ہڈی تک اتر آئی وہ تلوار
صدمہ ہوا حضرت کے دل پاک کے اوپر
سنبھلا نہ گیا بیٹھ گئے خاک کے اوپر
حضرت کے رفیقوں کا عجب حال تھا اس دم
روتا تھا کوئی اور کوئی کرتا تھا ماتم
سر پیٹ کے کہتا تھا کوئی کیا کریں اس دم
جنگل میں مصبیت کا عجب ہم پہ ہے عالم
کہتا تھا کوئی قاتل خونخوار کو مارو
ذلت سے اذیت سے جفا کار کو مارو
پھر شاہ کے غم خواروں نے ملعون کو مارا
تلوار سے سر دشمن شبر کا اتارا
اور جسم نجس بھی کیا مردود کا پارا
باقی نہ رہا غازیوں کو جب کوئی یارا
بٹھلا کے عماری میں شہنشاہ زمن کو
زخمی تھے بہت لائے وہ گودی میں حسن کو
الغرض روسائے مرتدین کوفہ نے معاویہ کو لکھا کہ ہم سب تیرے مطیع ومتعقد ہیں۔ جلد سوئے عراق متوجہ ہو کہ امام حسن علیہ سلام کو تیرے حوالے کردیں۔ لکھا ہے کہ جب زخم حضرت کا اچھا ہوا تو آپ نے کوفیان بے ایمان کو بنظر تمام حجت لکھا کہ تم لوگ خوف خدا سے ڈرو،نقص عہد مت کرو،میرے پاس مجتمع ہو کر شریک جہاد ہو مگر وائے ہو ان ملاعین پر کسی نے ارشاد امام پر توجہ نہ کی۔ اس وجہ سے مجبورا آپ نے بمقتضائے مصلحت چاہا کہ معاویہ سے صلح کریں۔چنانچہ چند شرطوں کے ساتھ کچھ دن صلح رہی۔ مگر معاویہ نے عہد شکنی کی۔مجبورا امام حسن علیہ سلام مدینہ واپس ہوئے تو لکھا ہے کہ اثنائے راہ میں آپ ایک شخص کے گھر مہمان ہوئے، جو بظاہر اظہار محبت کرتا تھا۔ اور حضرت کے پہنچنے سے پہلے معاویہ نے اس شخص کو زرومال کا لالچ دے کر اس پر آمادہ کر لیا تھا کہ زہر وغا سے حضرت کاکام تمام کردے۔چنانچہ نظم
منقول ہے شبر جو ہوئے آن کے مہمان
آمادہ عداوت پہ ہوا شہ کی بد ایمان
مہمان کی ضیافت میں ہوا جان کا خواہان
کھانے میں دیا زہر تاکہ آپ ہوں بے جان
دعوت میں عداوت سے نہ بے دیں نے کمی
پر جان سلامت رہی دل بند علی کی
پھر بار دوم شاہ کو زہر اس نے کھلایا
پیغمبر یزداں سے حیا دل میں نہ لایا
اس مرتبہ دل زہر کے صدمے نے ہلایا
اور حدت سم نے جگر پاک ہلایا
اس مرتبہ بھی پائی شفا سبط نبی نے
پھر بار سوم زہر دیا ہائے شقی نے
بالاخر حضرت اس سے آمادہ جنگ ہوئے۔چنانچہ حضرت کے چند اصحاب نے اس نابکار کو واصل جہنم کیا۔پھر حضرت رنجور وعلیل وہاں سے مدینہ روانہ ہوئے۔اس زمانے میں مروان بن حکم مدینہ کا حاکم تھا۔ معاویہ نے اس ملعون کے پاس ایک شیشی زہر بھیج کر لکھا کہ اگر اس میں سے ایک قطرہ دریا میں پڑے تو تمام جانوران آبی بے جان ہو جائیں۔لہذا جس تدبیر سے ممکن ہو حسن علیہ سلام کو زہر دے کر ان کے آباواجداد سے ملحق کر۔ چنانچہ مروان ملعون نے ایسونیہ اور لالہ کے ذریعے سے بہ ہزار مکر وفریب زن امام حسن علیہ سلام یعنی جعدہ بنت اشعث کو جس کا نام اسما بھی مشہور ہے۔ زر کثیر اور یزید بے پیر سے تزویج کا لالچ دے کر ہموار کیا۔اور وہ ملعونہ اس بات پر راضی ہو گئی۔
چنانچہ اس بے حیا نے حشم وجاہ دینوی پر فریفتہ ہوکر حق مظلوم فراموش کرکے شہد خالص میں زہر ملا کر حضرت کو کھلایا۔آپ اس کے کھانے سے ساری رات قے کرتے رہے۔ اور شدت سے درد شکم تھا۔ علی الصبح بعین حالت درد مندی قبر مطہر حضرت رسول خدا پر تشریف لے گئے۔ بارے آپ نے شفا


پائی۔ بار دیگر اس ملعونہ نے رطب زہر آلود حضرت کو کھلایا۔اس مرتبہ کچھ پہلے سے زیادہ تکلیف ہوئی۔ لیکن پھر پیغمبر کی قبر مطہر کی برکت سے شفا پائی۔
اور حضرت کو اس ملعونہ پر شبہ ہوا۔ اور دوستوں کی ایک جماعت کے ساتھ آب وہوا تبدیل کرنے کی غرض سے موصل تشریف لائے۔ منقول ہے کہ وہاں ایک نابینا شام کا رہنے والا اہلبیت کا بہت بڑا دشمن تھا۔ جب اس نے سنا کہ حضرت موصل تشریف لائے ہیں۔ تو اس نے ایک عصا کے نیچے ایک سنان آہنی میں زہر لگا کر عزم موصل کیا۔اور جناب امام حسن علیہ سلام کی خدمت میں حاضری کے لئے اظہار عقیدت میں نہایت کوشش کی،اور نماز جماعت میں حضرت کے پیچھے شریک ہوا کرتا تھا،اور بکمال مکر پند وموعظہ سن کر رویا کرتا تھا۔ اتفاقا نظم
اک دن ہوئے مسجد سے برآمد شہ والا
موجود تھے احباب بھی سب آپ کے اس جا
بے درد نے موقع جو ذرا ظلم کا پایا
پس پائے مبارک پہ عصا رکھ کت دبایا
صدمہ ہوا ایسا کہ نہ پھر شہ کو کل آئی
اور آہ انی پیر کے نیچے نکل آئی
پھر تو وہ رنج وغم ہوا شہ پہ طاری
فوارا خوں پائے مبارک سے تھا جاری
فرماتے تھے دشوار ہے اب زیست ہماری
جراح ومعالج بھی ہوئے دیکھ کے عاری
حیرت تھی حکیموں کو کہ اب دیکھیے کیا ہو
یہ زخم ہے ایسا نہیں ممکن کہ شفا ہو
حضرت کے اصحاب نے جب یہ کلمہ سنا،تو نہایت بے تاب ہوئے ،لکھا ہے کہ جب اس بے دین نے ظلم کیا تو آنحضرت کے رفقا نے اس ملعون کو گرفتار کرکے چاہا کہ قتل کردیں۔ قربان ہوں ہماری جانیں اس مظلوم کے صبر پر کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگرچہ یہ مستحق سزا ہے۔ لیکن اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ اس کو چھوڑ دو تاکہ خلق میں بد نام ہو۔ اور فردائے قیامت میری شفاعت سے محروم رہے۔ اس کے بعد جراح آپ کے معالجہ میں مشغول ہوئے۔اور زہر کا اثر عروق جسم مطہر سے دواوں کے ذریعے سےرفع ہو گیا۔ اور آنحضرت صحیح وتندرست ہو گئے۔ راوی لکھتا ہے کہ ایک روز جناب عباس علمدار حسین مظلوم موصل میں سیر کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ آپ نے اس بے بصر ملعون کو مع اسی اعصا کے شہر کے ایک کنارے جاتے ہوئے دیکھا۔ جونہی اپنے برادر عالی وقار کی اذیت و تکلیف یاد آئی۔ آپ کو تاب ضبط نہ رہی۔ فی الفور اس مردود ازلی کو اس کے اعصا سے واصل جہنم کیا۔ غرض موصل سے امام حسن علیہ سلام مدینہ تشریف لائے۔ اور جعدہ ملعونہ سے فی الجملہ احتیاط فرمانے لگے۔مروان پلید نے جو حضرت کی تشریف آوری کی خبر سنی۔ اسما ملعونہ کے پاس الماس کو سفوف زر کثیر کے وعدہ کے ساتھ پھر بھیجا۔وہ ملعونہ شب وروز اسی فکر میں رہتی تھی کہ شب جمعہ اٹھائیس صفر کو وہی سفوف لے کر آنحضرت کی خوابگاہ میں آئی،تو دیکھا کہ وہ جناب آرام فرماتے ہیں،اور آپ کی بہنیں اور بیٹیاں چپ وراست اور لونڈیاںپائیں پا سو رہی ہیں۔ وہ ملعونہ آہستہ آہستہ قریب حضرت کے آئی دیکھا کہ ایک کوزہ آب سر بمہر آنجناب کے سرہانے رکھا ہوا ہے۔ ہائے افسوس اس شقیہ ملعونہ نے دہن کوزہ پر جو پارچہ بندھا ہوا تھا۔اس پر وہی سفوف الماس رکھ کر ملا۔ کہ کل برادہ کوزہ کے اندر چھن گیا۔اور پھر اپنے حجرہ میں آکر سو گئی۔
راوی کہتا ہے کہ تھوڑی دیر گزری تھی کہ آنحضرت خواب سے بےدار ہوئے اور اپنی بہن جناب زینب کو آواز دے کر فرمایا کہ اے خواہر محترم میں نے آج خواب میں جد بزرگوار رسول دوسرا وپدر عالی مقدار علی مرتضیٰ ومادر عالیہ فاطمہ زہرا کو دیکھا ہے۔پھر آپ نے کوزہ اٹھا کر ملاحظہ فرمایا تو بجنسہ سر بمہر پایا۔آہ افسوس: وہی پانی تھوڑا سا نوش فرمایا تھا کہ کوزہ زمین پر پھینک دیا۔ اور ارشاد فرمایا کہ آہ یہ کیسا پانی تھا کہ حلق سے ناف تک پارہ اورپارہ ہو گیا ۔اور یہ حالت آپ کی ہوئی۔نظم
جب زہر لعینہ نے دیا شاہ زمن کو
حیدر نے کیا چاک گریبان کفن کو
اور درد جگر نے کیا بے تاب حسن کو
زینب نے رکھا سامنے منگوا کے لگن کو
حلقہ کیے بیٹھے تھے سب اندوہ ومحن میں
اور گرتے تھے ٹکڑے دل شبر کے لگن میں
کس منہ سے کہوں میں کہ نہیں ضبط کا یارا
تاثیر یہ کی زہر ہلاہل نے قضارا
دل ہو کے گرا یکصد وہفتاد ودوپارا
دل تھام کے تب بازوئے شبر یہ پکارا
برباد کیا چرخ جفا جو نے ستم سے
مارا مرے بھائی کو ستم گاروں نے سم سے
زہرا کی صدا آئی کہ میں ہو گئی بے آس
گھیرے ہے میرے دل کو ہجوم الم ویاس
اعدا نے کچھ روح محمد کا کیا پاس
اے لوگو میرے لال کا قاتل ہوا الماس
رخ رنگ زمرد ہوا زہرا کے خلف کا
ٹکڑے کیا ہیرے نے نگیں در نجف کا
یہ سنتے ہی اکبار بپا ہو گیا محشر
روتا تھا کوئی اور کوئی پیٹتا تھا سر
سر تا بہ قدم سبز ہوا جسم مطہر
شبیر پکارے کہ میں قربان برادر
طوبیٰ کا تمہیں شوق ہے پہچان گئے ہم
ہو عازم گلزار جناں جان گئے ہم
یہ سن کر امام حسن اپنے عزیز بھائی امام حسین نے لپٹ گئے۔اور فرمایا کہ سچ ہے ہماری تمہاری ملاقات اب قیامت پر ہے۔ میں نے ایسا ہی خواب دیکھا ہے کہ جد بزرگوار باغ جنت میں ٹہل رہے ہیں،اور فرماتے ہیں کہ اے حسن اے نور نظر خوش ہو کہ تو نے دشمنان بے ایمان کے دست ظلم سے خلاصی پائی۔ کل شب کو تو میرے پاس ہو گا۔ اور دوسری طرف میں نے دیکھا کہ مادر گرامی نہایت پریشان حور غلمان کے ساتھ کھڑی ہیں،جونہی مجھے دیکھا فرمایا کہ اے نور دیدہ تمہارے نانا اور باپ تمہارے انتظار میں ہیں۔اور قصر زمردی تمہارے واسطے آراستہ کیا گیا ہے۔ نظم
اس ذکر سے بس گھر میں بپا ہو گیا محشر
زینب سے یہ فرمانے لگے حضرت شبر
کس سمت کو ہیں والدہ قاسم مضطر
لے آو ذرا پاس میرے تم انہیں جاکر
کچھ کہہ لوں میں ان سے کہ جدائی کی گھڑی ہے
زینب نے کہا رو کے سر ہانے وہ کھڑی ہے
آئیں جونہی وہ سامنے با دیدہ پر نم
فرمایا حسن نے کہ زمانے سے چلے ہم
مہمان ہیں ہم آپ کے دنیا میں کوئی دم
اس ذکر کے سنتے ہی بپا ہو گیا ماتم
شبر نے کہا صبر کرو رونے میں کیا ہے
معلوم ہے یہ صابروں کے ساتھ خدا ہے
پھر قاسم گلفام کو پاس اپنے بلایا
کچھ پرچہ قرطاس پر لکھ کر اسے بخشا
فرمایا کہ بازو پہ اسے باندھ لو بیٹا
جس وقت کہ شبیر پہ ہو نرغہ اعدا کا
ہاتھوں سے نہ ہمت کی عناں دیجیو بیٹا
اس میرے نوشتے پہ عمل کیجیو بیٹا
قاسم کو سراسیمہ بہت غم سے جو پایا
آنسو شہ مسموم کی آنکھوں میں بھر آیا
پھر راز امامت شہ بے کس کوبتایا
سینہ سے برادر کو لگا کر یہ سنایا
دنیا سے میرا کوچ ہے اب دار بقا کو
سونپا تمہیں گھر بار کو اور تم کو خدا کو
پھر آپ نے جناب امام حسین سے ارشاد فرمایا کہ دیکھو میرے چہرے کا رنگ کیسا ہے۔ عرض کی سبز ہو گیا ہے۔ یہ سن کر جناب امام حسن نے اپنے بھائی حسین کے گلے میں ہاتھ ڈال کر منہ پر منہ رکھ دیا۔اور دونوں بھائی ایسا روئے کہ کہ اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ جناب امام حسین نے پوچھا کہ بھائی جان یہ تو فرمایئے کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے۔ فرمایا جان برادر جس نے زہر دیا ہے ۔وہ خود اپنی سزا کو پہنچے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ اسے رسوا کروں۔ پھر آپ نے اسما ملعونہ کو خلوت میں طلب کیا اور فرمایا کہ اے ناہنجار وبے وفا مجھ سے کیا بد سلوکی ہوئی تھی کہ تونے میرے بچوں کو یتیم کیا۔ناحق تو نے آخرت کی ذلت اختیار کی۔ بے سبب مجھے شہید کیا،اور فرمایا کہ جا تو خود سزا پائے گی۔
اور تیرا مقبےصود حاصل نہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ،جب کہ وہ ملعونہ یزید لعین کے ساتھ نکاح کی امید میں معاویہ کے پاس گئی اور کہا کہ میں نے تیرے کہنے کے مطابق امام کا کام تمام کر دیا ہے۔ اب تو بھی وعدہ وفا کر۔ اس ناہنجار نے کہا جب تو نے سبط رسول سے وفا نہیں کی تو میرے بیٹے سے کیا کرے گی۔ اور حکم دیا کہ بدترین موت سے اسے مارو۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ الغرض امام حسن علیہ سلام خلوت سے اٹھ کر باہر تشریف لائے۔اور جناب قاسم کو سینہ سے لگا کر زار زار روئے۔ اور جناب امام حسین سے فرمایا کہ بھیا میرا لال تمہارے حوالے ہے۔
یہ کہہ کے حسن گلشن جنت کوسدھارے
میت سے لپٹ کر شہ بے کس یہ پکارے
اب کوئی بزرگوں میں نہیں سر پہ ہمارے
چھوڑا ہمیں اے عرش الہیٰ کے ستارے
بے کس کیا ہم کو سوئے کوثر گئے بھائی
بن باپ کے بھائی سے یہ کیا کر گئے بھائی
گھرمیں ہوا خاتون قیامت کے تلاطم
غل تھا کہ اٹھا خلق سے معصوم چہارم
بے تابی تھی ایسی کہ نہ تھی تاب تکلم
تاریک ہوا مہر نظر آگئے انجم
بدلی کی طرح دل پہ الم چھا گیا ہائے ہائے
خورشید امامت پہ زوال آگیا ہائے ہائے
کلثوم پکاری کہ میرے جان برادر
اس چہرہ انور کے میں قربان برادر
مرنے پہ ہے کیا واہ تیری شان برادر
دنیا سے گئے ہائے یہ پرارمان برادر
حسرت ہی رہی بیٹے کو نوشاہ نہ دیکھا
لاتے ہوئے قاسم کو دلہن آہ نہ دیکھا
سیدانیاں سر پیٹتی تھیں غش میں تھے شبیر
ہوش آیا تو عباس سے کی رو کے یہ تقریر
کیا دیکھتے ہو غسل وکفن کی کرو تدبیر
اب دیر مناسب نہیں اے صاحب توقیر
بھائی تھے شہ یثرب وبطحا کی امانت
سونپ آوں میں بابا کو یہ بابا کی امانت
یہ کہہ کے ساتھ میں لیا عباس علی کو
اور غسل دیا حیدر صفدر کے وصی کو
پہنا چکے جس وقت کفن حق کے ولی کو
دی مڑا کے ندا تب یہ رسول عربی کو
صدمے دیے امت نے بہت آل عبا کو
مارا مرے بھائی حسن سبز قبا کو
حضرت کی وصیت کوئی خاطر میں نہ لایا
اور مرتبہ آل پیمبر کا بھلایا
بے رحموں نے خاتون قیامت کو رلایا
بابا کو مرے جام شہادت کا پلایا
باز آئے نہ حیدر کو بھی یہ لوگ ستا کر
بے جان کیا بھائی کو میرے زہر پلا کر
نانا یہ حسین آپ کا اب ہو گیا تنہا
نہ تم ہو زمانے میں نہ حیدر ہیں نہ زہرا
شبر بھی قضا کر گئے کوئی نہیں میرا
فر ما کے یہ تابوت میں مردے کو جو رکھا
تھا شور کہ آیا ہے قمر برج شرف میں
تابوت میں مردہ ہے کہ گوہر ہے صدف میں
رخصت کیا سیدانیوں نے آکے حسن کو
تابوت لیے گھر سے چلے سید خوشخو
مردوں میں تھا یہ شور کہ تعظیم کو اٹھو
اور لخت جگر فاطمہ کی شان کو دیکھو
رہنے کو مکیں آتا ہے اپنے مکاں میں
آمد گل زہرا کی ہے گلزار جناں میں
کس حسن سے تابوت حسن واں ہوا راہی
پریوں نے کہا تخت سلیمان ہوا راہی
کہتے تھے حرم قبلہ ایماں ہوا راہی
کعبہ نے کہا دین کا سلطاں ہوا راہی
چلایا فلک خاک میں یہ چاند ملے گا
تھا قدسیوں میں شور کہ اب عرش ہلے گا
کہتے تھے ملک لٹ گیا زہرا کا گلستان
بے جاں ہوا جان نبی بولے بنی جان
اب خاک ہے اور فاطمہ کا نیر تابان
یں خلد میں محبوب خدا چاک گریبان
سرتاج جو دنیا سے اٹھا ارض وسما کا
ہر ایک جگہ شور ہے فریاد وبکا کا
الغرض امام حسین وحضرت عباس تابوت کو لے کر نظم
آئے جو بقیعہ کی طرف کو شہ خوشخو
یہ قلب پہ صدمہ تھا کہ تھمتے تھے نہ آنسو
زہرا کی صدا آئی کہ آ اے میرے مہ رو
خالی ہے میری جان تیرے بن میرا پہلو
آنے سے مسیحا کے دوا ہو گئی بیٹا
اب درد جدائی سے شفا ہو گئی بیٹا
بس دفن کیا سرور مرداں کے خلف کو
مٹی میں چھپایا قمر برج شرف کو
صدمہ تھا عجب لخت دل شاہ نجف کو
روتے ہوئے شبیر پھرے گھر کی طرف کو
سب کہتے تھے کیا چرخ ستمگر کا ستم ہے
اک پنجتن پاک میں شبیر کا دم ہے
شبر کا واسطہ تمہیں اے بنت مصطفےٰ
شبیر کے وزیر کو روضے پہ لو بلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment