Tuesday, August 10, 2010

آٹھویں مجلس امام حسین علیہ سلام کی مدینہ سے روانگی

آٹھویں مجلس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بصد درد ومحن جناب امام حسین علیہ سلام کی وطن سے روانگی احباب با وفا کا

اضطراب اور جناب صغریٰ کی بے قراری
واقف ہے مسافر کا دل اس رنج ومحن سے
دشمن کو بھی اللہ چھڑائے نہ وطن سے
روایت ہے کہ ایک روز ہند مادر معاویہ وقت صبح دولت سرائے جناب رسول خدا

میں آکر پہلوئے عائشہ میں بیٹھی اور بیان کرنے لگی،کہ اے دختر ابی بکر آج

رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ کہ ایک آفتاب جہاں تاب بلند ہوا، جس

سے تمام عالم روشن ہو گیا۔ پھر دیکھا کہ اس آفتاب سے ایک چاند پیدا ہوا ۔جس

کے نور سے عالم منور ہوا، پھر دیکھا کہ اس چاند سے دو تارے درخشاں نکلے

کہ جن سے مشرقین روشن ہو گئے۔ ابھی میں یہ دیکھ ہی رہی تھی کہ ناگاہ ایک

ابر سیاہ پیدا ہوا۔اور اس سے ایک سانپ ابلق رنگ پیدا ہوا،اور ان دونوں تاروں

کو نگل گیا۔اس وقت تمام عالم میں ایک عجیب طرح کا حشر برپا ہو گیا۔راوی کہتا

ہے کہ عائشہ نے ہند کا یہ خواب جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے

بیان کیا۔جناب رسول خدا نے سنا تو فرط غم سے رنگ چہرہ مبارک کا متغیر ہو

گیا۔ اور رو کر فرمایا کہ اے عائشہ وہ آفتاب تو میں ہوں اور وہ ماہ منیر میری

دختر نیک اختر فاطمہ زہرا ہے۔ اور وہ دونوں ستارے حسنین میری آنکھوں کے

تارے ہیں۔ اور وہ ابر سیاہ معاویہ پسر ہند ہے۔اور وہ ابلق سانپ یزید پلید پسر

معاویہ ہے۔ کہ میرے فرزند پر حملہ کرے گا،جب میری نوردیدہ فاطمہ دنیا سے

گزر جائے گی۔ اور علی بھی تیغ ستم سے شہید ہوں گے۔ تو میرے حسن حسین

سے لوگ دشمنی کریں گے۔ یہاں تک کہ جب حسن کو شہید کریں گے تو حسین

کے درپئے ہو کر اس کو مدینہ سے نکالیں گے، مکہ میں بھی رہنے نہ دیں

گے۔اور بھوکا پیاسا قتل کریں گے۔اور تمام شیعہ ومحب ان کو روئیں

گے۔حضرات مقام غور وتامل ہےکہ جناب رسول خدا کو اس وقت کیا صدمہ ہوا

ہوگا کہ جس وقت جناب امام حسین ظلم اشقیائے بے دین سے مجاورت مزار

اقدس سے مجبور ہو کر عازم عراق ہوئے۔مومنین امام مظلوم کی وہ کیفیت ذاکر

کیا بیان کرے۔کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ نظم
گرمی میں گرفتار محن ہوتے ہیں شبیر
بچے لیے آوارہ وطن ہوتے ہیں شبیر
گردش ہے اب اور فاطمہ زہرا کا قمر ہے
ہر ایک قدم راہ میں لٹ جانے کا ڈر ہے
بستی ہے نہ رستے میں کسی جا پہ شجر ہے
درپیش ہے سختی کہ پہاڑوں کا سفر ہے
گلرو چمن دہر سے جانے کو چلے ہیں
گھر چھوڑ کے جنگل کے بسانے کو چلے ہیں
غربت کی بھی ہوتی ہے عجب صبح عجب شام
کرتا ہے سفر قافلہ ء راحت وآرام
وہ دشت نوردی وہ غم وصدمہ والام
منزل پہ بھی ممکن نہیں راحت کا سر انجام
نیند آتی نہ تھی لاکھ وہ پٹکے جو سر اپنا
یاد آتا ہے منزل پہ مسافر کو گھر اپنا
وہ لوں وہ طپش وہ گرمی کا مہینہ
سردی میں ہو ذکر اس کا تو آجائے پسینہ
دشوار ہے اس دھوپ میں معصوموں کاجینا
ویرانہ ہے بستی میں اجڑتا ہے مدینہ
حضرت بھی گھلے جاتے ہیں تشویش سفر میں
ہیں ساتھ وہ بچے کہ جو نکلے نہیں گھر سے
امام مظلوم روتے ہوئے روضہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں

تشریف لائے،اور عرض کی سلام ہو اے نانا،میں آپ کی پیاری بیٹی کا فرزند

ہوں،اور اب آپ کا یہ دل بند ظلم اعدا ء سے تنگ آکر آمادہ سفر غربت ہے۔قبر

مطہر سے رخصت ہونے کو آیا ہے۔
نظم
برپا ہے مدینہ میں طلاطم کئی دن سے
ہے راحت وآرام طرب گم کئی دن سے
ہر گھر میں ہے اک شور تظلم کئی دن سے
منہ ڈھانپے ہوئے روتے ہیں مردم کئی دن سے
وہ غم ہے کہ آرام کا جویا نہیں کوئی
راتیں کئی گزری ہیں کہ سویا نہیں کوئی
پھر حضرت کی روتے روتے آنکھ لگ گئی۔ تو جناب رسول خدا کو خواب میں

دیکھا کہ آپ تشریف لائے ہیں اور چھاتی سے لگا کر فرماتے ہیں۔
کہ اے میرے لخت جگر حسین گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تو زمین کربلا میں ذبح

کیا گیا ہے۔ اور اے فرزند تو اس وقت پیاسا بھی ہے اور کوئی پانی نہیں دیتا۔جناب

امام حسین نے عرض کی کہ اے نانا مجھے دنیا میں رہنے کی کوئی ضرورت

نہیں،اپنی قبر میں لے لیجیئے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اے فرزند اے میرے پارہ

جگر یہ امر لازمی ہے کہ تو جا کر شہید ہو۔ اور اپنے درجات عالیہ کو حاصل

کر۔ یہ خواب دیکھ کر آپ چونکے اور گھر میں تشریف لا کر سفر غربت پر آمادہ

ہوئے۔اس وقت مدینہ میں عجب کہرام برپا ہوا،ہر طرف یہ شور تھا۔ نظم
یثرب کے زن ومرد ہیں سب بے خورو بے خواب
شبیر کی فرقت کی کسی دل کو نہیں تاب
ہمسایہ میں ماتم میں بکا کرتے ہیں احباب
غل ہے کہ مدینہ میں خوشی ہو گئی نایاب
اس شاہ میں خو بو ہے شاہ عقدہ کشا کی
اب کون خبر راتوں کو لے گا فقرا کی
کہتا ہے کوئی کیا ہوا یہ بیٹھے بٹھائے
کیا جانیئے خط کوفہ سے کس طرح کے آئے
روضہ پہ نبی کے شاہ دیں رہنے نہ پائے
کچھ ایسا ہو یا رب کہ یہ مظلوم نہ جائے
کوفہ میں محبت نہ مروت نہ وفا ہے
خط مکر کے لکھے ہیں بلانے میں دغا ہے
اعدا نے شاہ یثرب وبطحا کو ستایا
بے کس کو نبی زادے کو تنہا کو ستایا
یاں بیٹھے بٹھائے شہ والا کو ستایا
افسوس عجب تارک دنیا کو ستایا
اس گوشہ نشیں پہ یہ تعدی نہ روا تھی
کیا قبر پیمبر کے مجاور کی خطا تھی
حضرت کا بھی احباب وطن کی فرقت سے عجب حال تھا۔ با چشم اشکبار درستی

اسباب میں مشغول تھے۔ اور در دولت پر اہل مدینہ کا مجمع تھا۔سب روتے تھے

اور کہتے تھے کہ افسوس اب مدینہ اجڑتا ہے۔ جناب ام سلمیٰ سفر کی تیاری دیکھ

کر بولیں کہ اے پارہ جگر کہاں کا قصد ہے؟۔ اس وقت آپ رونے لگے اور

فرمایا کہ نانی جان عراق کی طرف جاتا ہوں۔ بی بی ام سلمیٰ عراق کا نام سن کر

بولیں کہ اے حسین تمہارے عراق جانے سے مجھے خوف ہے ۔اس واسطے کہ

میں نے رسول خدا سے اکثر سنا ہے کہ میرا فرزند حسین عراق کی سرزمین جس

کو کربلا کہتے ہیں پیاسا شہید ہوگا۔ یہ سن کر جناب امام حسین بہت روئے اور

فرمایا کہ نانی جان میں بخدا اس سے زیادہ جانتا ہوں کہ وہاں جا کر مع عزیز

واقارب قتل ہوں گا۔ اور کربلا پر ہی کیا موقوف ہے۔ جہاں جاوں گا،اگر سوراخ

مار ومور میں چھپ جاوں تو بھی یہ قوم جفا کار مجھے جیتا نہ چھوڑے گی۔
پھر بی بی ام سلمیٰ نے پوچھا کہ کون کون ہمراہ جائے گا۔ حضرت نے ہر ایک

کی طرف اشارہ کیا کہ یہ سب میرے ہمراہ جائیں گے۔ بی بی ام سلمیٰ دیر تک

روئیں اور فرمایا اے حسین اگر ارادہ مصمم کوفہ کا ہے۔ تو عورتوں کو ہمراہ نہ

لے جاو۔ تاکہ تمہاری شہادت کے بعد یہ سب تباہ وبرباد نہ ہوں۔ خصوصا یہ ننھے

بچے،جناب امام حسین یہ سن کر شدت سے روئے۔اور فرمایا نانی جان ان لڑکوں

میں سے اکثر میرے سامنے بھوکے پیاسے قتل کیے جائیں گے۔اس وقت سب

حضور کے سامنے کھڑے تھے۔ ہر ایک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ نیزہ

سے اور یہ تلوار سے مارا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ لڑکا جو ابھی اپنی ماں کی

گود میں دودھ پیتا ہے۔ تیر ستم سے شہید ہوگا۔اس وقت علی اصغر کا سن ڈیڑھ

مہینے کا تھا اور کم وزیادہ بھی منقول ہے۔ جب مادر علی اصغر نے یہ خبر سنی

تو روتے روتے بے ہوش ہو گئیں،اور اسی روز سے دودھ مارے صدمہ کے کم

ہو گیا۔ راوی کہتا ہے کہ اس زمانہ میں جناب صغرٰی دختر جناب امام حسین علیہ

سلام نہایت بیمار تھیں۔اس وجہ سے آنحضرت نے اس کو چھوڑ جانا مناسب

سمجھا۔ اور جناب ام سلمیٰ کے سپرد فرمایا۔جس وقت جناب صغرٰی نے سنا کہ بابا

مجھے اس گھر میں تنہا چھوڑے جاتے ہیں۔باوجود نقاہت وناتوانی کے عصا

ٹیکتی ہوئی حضرت کے پاس آئیں اور عرض کیا بابا میں نے سنا ہے کہ آپ نے

عزم سفر کیا ہے۔ اور اس بیمار کو چھوڑ جایئے گا۔ اے بابا جائے انصاف ہے کہ

آپ میرے بھائی شیر خوار اصغر تک
کو لیے جاتے ہیں۔اور مجھے یہیں چھوڑتے
اگر مجھ سے کوئی قصور سرزد ہوا

ہے تو آپ کریم ابن کریم ہیں مجھے بخش دیجیئے۔ یہ سن کر حضرت کو تاب

ضبط نہ رہی۔ بے اختیار ہو گئے
صغرا کا تو یہ حال تھا مولا کو تھا سکتا
سینہ سے لگاتے تھے اٹھا کر سر صغرا
فیہرماتے تھے کیوں روتی ہے اے باپ کی شیدا
وہ کہتی تھی تم چھوڑے چلے جاتے ہو بابا
کبریٰ وسیکنہ تو چلیں ساتھ سفر میں
صغرٰی رہے رونے کو اس اجڑے ہوئے گھر میں
شہ نے کہا اے جان پدر یہ تیری قسمت
پر کی جیو گوارا تری بہنو کی رفاقت
کبریٰ حسن سبز قبا کی ہے امانت
عباس دلاور کو سکینہ سے ہے الفت
زینب پھوپھی تیری میرے اکبر پہ فدا ہے
اصغر مری بانو کی ضعیفی کی عصا ہے
صغرٰٰی نے کہا گر یہی قول شہ دیں ہے
سب کنبے میں میرا بھی کوئی ہے یا نہیں ہے
یا بے کس و بےوارث ووالی یہ حزیں ہے
اب یاس ہوئی جینے سے مرنے کا یقین ہے
صدقے گئی بیمار کو عیسیٰ سے ملادو
بابا مجھے بھیا علی اکبر سے ملادو
آئے علی اکبر تو پکاری وہ دل فگار
پیاری تھی سکینہ چلی ہمراہ علمدار
دعویٰ ہمیں ہے تم پہ گواہ اس کا ہے غفار
لے چلتے ہو بھیا ہمیں یا کرتے ہو انکار
گر بالی سکینہ علی اصغر کی بہن ہے
صغریٰ کو یہ فخر ہے کہ اکبر کی بہن ہے
بولے علی اکبر کہ یہ دشوار ہے بھینا
پر کوفہ میں آرام اگر پائیں گے بابا
ہم آن کے واں سے تمہیں لے جائیں گے صغریٰ
تقدیر پکاری نہ وفا ہوگا یہ وعدہ
سینہ سے تیرے پار انی ہوئے گی اکبر
یہ سنتے ہی بے آس ہوئی فاطمہ صغریٰ
منہ دیکھا عجب یاس سے ہم شکل نبی کا
آنسو تھے جو امڈے ہوئے بہنے لگا دریا
دل سے تو نہ نکلا پہ زبان سے کہا اچھا
بچ جاونگی گر موت سے لے جائیوبھائی
مختار ہو جب چاہیو تب آئیو بھائی
پھر وہ مغموم مایوس ہو کر باپ کی طرف بحسرت ویاس دیکھنے لگی۔ اور کہ اکہ

اے بابا بغیر آپ کے مجھے کیوں کر چین آئے گا۔ جب یہ بھرا گھر خالی ہوگا تو

کیا حال ہوگامیرا ۔اے بابا کسی طرح صبر نہیں آئے گا۔یہ کہہ کر حضرت کے

قدموں پر گر پڑی۔جناب امام حسین علیہ سلام بھی بہت روئے،اور سر اٹھا کر

چھاتی سے لگایا اور فرمایا کہ اے نور نظر میں عجیب تردد میں ہوں۔ کہ نظم
گھر میں تمہیں چھوڑوں یہ نہیں دل کو گوارا
لے جاوں تو جینا نہیں ممکن ہے تمہارا
بچوں میں کوئی تم سے زیادہ نہیں پیارا
مجبور ہوں بے ہجر ہوں کوئی اب نہیں چارا
فرقت میں سدا نالہ وفریاد کرو ں گا
اتروں گا جو منزل پہ تمہیں یاد کروں گا
صغرٰی نے کہا آپ کی الفت کے میں قربان
پھر کس کو ہو گر آپ کو لونڈی کا نہ ہو دھیان
صدقے گئی صحت کا بھی ہو جائے گا سامان
مولا کی توجہ ہے ہر اک درد کا درمان
جس پہ نظر لطف مسیح دوسرا ہو
برسوں کا جو بیمار ہو اک پل میں شفا ہو
قربان گئی اب تو بہت کم ہے نقاہت
تپ کی بھی ہے شدت میں کئی روز سے خفت
بستر سے میں اٹھ کے ٹہلتی بھی ہوں حضرت
پانی کی بھی خواہش ہے غذا کی بھی ہے رغبت
حضرت کی دعا سے مجھے صحت کا یقین ہے
اب تو مرے منہ کا بھی مزہ تلخ نہیں ہے
جناب فاطمہ صغرا ابھی یہ باتیں کر رہی تھیں، کہ جناب ام سلمیٰ تشریف لائیں اور

جناب امام حسین علیہ سلام کا بازو پکڑ کر فرمایا کہ اے بیٹا میں ضعیف

ہوں،میری زیست کی کوئی امید نہیں ہے۔اور تم آمادہ سفر ہو۔ یہ تو بتاو کہ کون

میری بالیں پر دم واپسین یاسین پڑھے گا۔ اور قبر میں شانہ ہلا کر کون تلقین

پڑھے گا۔ صغرا کو تو تم منالو گے تمہاری بیٹی ہے۔ لیکن میں تو حشر تک نہیں

مانوں گی۔ کہ تم چلے جاو اور میں اکیلی گھر میں پڑی رہوں۔ میرا تابوت اٹھا

لو،اور قبر بنالو تو سدھارو،یہ سن کر آنحضرت رونے لگے۔ اور فرما یا کہ نانی

جان وقت اجل ایسا ہے کہ کوئی اس سے واقف نہیں ہے۔ آپ کیا فرماتی ہیں
نظم
دنیا کا سفر یہ نہیں عقبیٰ کا سفر ہے
اول سے ہمیں منزل اخر کی خبر ہے
لے چلنے کو حاضر ہوں پر اے خاصہ قیوم
فرد اسرا میں نہیں نام آپ کا مرقوم
درپیش ہیں واں مرحلہ خنجر وحلقوم
اس رنج کی شایاں ہیں فقط زینب وکلثوم
اک رسی میں تم بارہ گلے دیکھ سکو گی
شبیر کو خنجر کے تلے دیکھ سکو گی
جس دم سر اقدس سے ردا چھینیں گے ناری
تم لاو گی ان پہ غضب خالق باری
اس غم کی سزاوار تو ہیں بہنیں ہماری
زہرا کی طرح امت جد ہے انہیں پیاری
کچھ لوٹنے میں فوج تاسف نہ کرے گی
زینب کا کلیجہ ہے کہ وہ اف نہ کرے گی
جناب ام سلمیٰ نے فرمایا کہ اے نور عین زینب وکلثوم کو تو حال معلوم ہوا،جن

الام کا کوئی فرد بشر متحمل نہیں ہو سکتا،اس میں گرفتار ہو کر صبر کریں

گی،اور یہ جو بیبیاں ساتھ جاتی ہیں ان کا کیا حال ہو گا۔ حضرت نے فرمایا آہ ان

کا بھی وہی حال ہوگا۔ کہ سرو پا برہنہ جنگلوں میں پھرائی جائیں گی اور کوئی ان

کا پرسان حال نہ ہوگا۔اور کوئی ان کی فریاد کو نہ پہنچے گا۔ اور پہلی مصیبت تو

ہم پر یہ ہوگی کہ جب اس دشت بلا خیز میں مع اہل بیت کے ورود ہوگا تو سات

محرم سے دشمن دین ہم کو پانی کا ایک قطرہ نہ لینے دیں گے۔ یہاں تک کہ چار

روز کامل ہم پر اور سب اہلبیت اور چھوٹے چھوٹے بچوں پر بے آب گزر جائیں

گے۔ا ور عباس سکینہ کی سقائی کریں گے۔غرض کہ اے مادر ذیجاہ کہاں تک

شرح مصیبت بیان کروں،خلاصہ یہ کہ وہ ستم ہم پر گزریں گے کہ کسی نے دیکھا

اور نہ دیکھے گا۔اور نہ سنا اور نہ سنے گا۔ اور زمین کربلا وہ زمین ہے کہ نظم
وارد جو رسولان سلف ہوتے تھے اماں
اس دشت میں غربت پہ مری روتے تھے اماں
یہ کہہ کے سوئے ماریہ ہاتھ اپنا بڑھایا
اور مادر غمخوار کو پاس اپنے بلایا
ام سلمیٰ نے جو ادھر منہ کو پھرایا
دو انگلیوں کے بیچ میں مقتل نظر آیا
رنگ اڑ گیا شدت یہ ہوئی درد جگر کی
آنکھوں نے کہا ہم کو نہیں تاب نظر کی
ہاتھوں سے جگر تھام کے دیکھا تو یہ دیکھا
دریا کے کنارے ہے رواں خون کا دریا
ریتی پہ خیام شہ لولاک ہیں برپا
کشتہ پہ تو کشتہ ہے طپاں لاشہ پہ لاشہ
حیران حرم صورت تصویر کھڑے ہیں
زہرا کے مرقع کے کے ورق رن میں پڑے ہیں
سقا لب دیا کوئی بی جاں نظر آیا
اک بچہ کے حلقوم میں پیکاں نظر آیا
نوشاہ کوئی خون میں غلطاں نظر آیا
نیزے پہ سر شاہ شہیداں نظر آیا
خیمہ شاہ لولاک کا جلتے ہوئے دیکھا
بیواوں کو سرا سیمہ نکلتے ہوئے دیکھا
دیکھا کوئی سر پیٹتی ہے اور کوئی سینہ
کہتی ہے کوئی ہائے شہنشاہ مدینہ
آیا ہے تباہی میں پیمبر کا سفینہ
سیلی ستمگار ہے اور روئے سکینہ
نالے حرم قبلہ دیں کھینچ رہے ہیں
چادر سر زینب سے لعیں کھینچ رہے ہیں
یہ دیکھتے ہی جناب ام سلمیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔اور حرم میں اک شور

رونے کا بلند ہوا۔ کہ چلتے وقت یہ کیا مصیبت نازل ہوئی۔تھوڑی دیر بعد آپ کو

ہوش آیا تو فرمایا کہ اے پارہ جگر نور نظر یہ کیا سانحہ دکھایا۔ہائے افسوس

تیری یہ صورت وہاں ہو جائے گی۔ آہ میری زینب یہ صدمے اٹھائے گی۔ اور

سکینہ پیاری ننھے منہ پر طمانچے کھائے گی۔ پھر فرمایا کہ اے حسین مجھے

بتلاو کہ وہ دولھا کون تھا ،جس کی لاش پامال نظر آئی۔حضرت نے فرمایا وہ

میرے بھائی کا لال قاسم ہے۔ پھر فرمایا اے نور نظر وہ بچہ کون ہے جس کے

گلوئے نازک میں پیکان ستم پیوست ہے۔ حضرت نے فرمایا آپ نہیں جانتیں وہ

میرا شیر خوار اصغر ہے۔ اور وہ جو چھاتی پہ ہاتھ دھرے سوتا ہے۔ وہ پر ارمان

بن بیاہا علی اکبر ہے۔بیت
یہ سنتے ہی دل ہل گیا تھرا گئے اعضا
بولیں کہ خدا خیر کرے ہائے نصیبا
آخر بیبیوں نے جناب ام سلمیٰ کو سمجھا بجھا کر رخصت کیا۔ مگر صغرا کسی

طرح علیحدہ نہ ہوتی تھی۔ اور کسی کا کہنا نہ سنتی تھی۔اور حضرت سے لپٹ کر

کہتی تھی۔ نظم
بے آپ کے اس گھر میں نہ یا شاہ رہوں گی
اچھا میں کنیزوں کے ہمراہ رہوں گی
سب رونے لگے سن کے یہ بیمار کی تقریر
چلائی سکینہ کہ میں صدقہ میری ہمشیر
گھبرا کے یہ فرمانے لگے حضرت شبیر
تم بیٹی کو سمجھاو کچھ اے بانوئے دل گیر
کم سن ہیں مسافر مجھے تشویش بڑی ہے
دن چڑھ گیا آج کی منزل بھی کڑی ہے
یہ سنتے ہی بس ماں کی تو چھاتی امڈ آئی
چلائی وہ ناشاد کے ہے ہے مری جائی
زینب نے کہا گھر سے نکلتی ہوں میں بھائی
مر جانے سے کچھ کم نہیں صغرا کی جدائی
گھر لٹتا ہے کس طرح قیامت نہ بپا ہو
پہلا ہے یہ الم آگے خدا جانے کہ کیا ہو
آغاز سفر میں تو یہ ماتم ہے یہ کہرام
کیا دیکھیں دکھاتا ہے اس آغاز کا انجام
جنگل ہو کہ بستی ہو کہاں راحت وآرام
ماں روئے گی بیٹی سے بچھڑ کر صبح وشام
گلشن بھی ہے جنگل جو کلیجہ نہ ہو بر میں
بہلے گی وہ چھوڑیں گے اکیلی جسے گھر میں
صغرا نے کہا آپ کی باتوں کے میں قربان
تم جان بچا لو کہ میں لونڈی ہوں پھوپھی جان
بیٹی ہو علی کی میری مشکل کرو آسان
جیتی رہی صغرا تو نہ بھولے گی یہ احسان
کچھ بات بجز گریہ وزاری نہیں کرتیں
اماں تو سفارش بھی ہماری نہیں کرتیں
ہائے میں اپنا حال دل کس سے کہوں۔وہ دو بیٹیاں جو باپ کو پیاری ہیں جاتی

ہیں۔اور میں گور کنارے ہوں ،اس واسطے مجھے نہیں لے جاتے۔ جانے کیا وقت

ہے کہ بیماری کے سبب والدین اور بہنوں سے کسی کو میری محبت نہیں رہی۔

خیر نہ پوچھے کوئی بیمار کا اللہ تو ہے۔ اس وقت نہ پوچھیں گے، لیکن جب میں

قبر میں سووں گی تو البتہ یاد کریں گے۔ ارے لوگو انصاف تو کرو کیا دنیا میں

کوئی بیمار نہیں ہوتا۔مجھ سے کون سی تقصیر ہوئی ہے کہ سب دفعتہ بےزار ہو

گئے ہیں۔ ابھی تو زندہ ہوں ،مگر مردہ کی طرح بھاری ہوں۔مجھے کون

ساعارضہ ہے کہ لوگ مجھ سے بھاگتے ہیں، کچھ اس کا بھید نہیں کھلتا کہ جس

کی طرف دیکھتی ہوں وہ آنکھ چراتا ہے۔ نظم
تپ کیا مجھے آئی کہ پیام اجل آیا
ہے ہے مری راحت کی بنا میں خلل آیا
چھوڑا مجھے سب نے جو سفر کا محل آیا
کیا خوب مری نخل تمنا میں پھل آیا
دل سخت کیا ماں نے مجھے غم ہے اسی کا
سچ کہتے ہیں دنیا میں نہیں کوئی کسی کا
وہ چاہنے والا ہے جو مصیبت میں کام آئے
میں سب کی ہوں اور کوئی میرا نہ ہوا ہائے
اس راہ میں ہمراہ کنیزیں تو ہوں اے وائے
کنبے کی جو ہو چاہنے والی وہی رہ جائے
بیماری مزمن کی دوا خوب ہوئی ہے
تجویز مرے واسطے کیا خوب ہوئی ہے
تنہائی میں رونے سے اتر جائے گی یہ تپ
ہاں درد بھی سر میں مرے ہونے کا نہیں اب
تڑپوں گی تو ہو جائے گی اعضا شکنی سب
بہتر یہی ترکیب ہے نسخہ یہی انسب
کم ہوگی حرارت الم رنج ومحن میں
غم کھانے سے آجائے گی طاقت مرے تن میں
راتوں کو رونے سے دماغ کی پیوست کم ہو جائے گی۔ منہ اشکوں سے دھونے

سے بیمار تسکین پائے گی۔کیا تسلی کی صورت یہی ہے۔ کہ بالین پر عزیزوں میں

سے کوئی نہ ہو۔ اور جب غش سے آنکھ کھلے تو جز بے کسی وتنہائی کے کوئی

پاس نہ ہو بیت
راحت سے شب وروز علاقہ مجھے ہوگا
فاقہ جو کروں گی تو افاقہ مجھے ہوگا
کیا خوب دوا مری تجویز ہوئی ہے۔ سچ ہے تنہائی میں شدت خفقان بھی نہ

ہوگی۔اور دل بیمار ویرانی مکان سے بہلے گا۔ بابا کا بھی خیال نہ رہے گا۔اور نہ

کبھی ماں کی شفقت مجھے یاد آئے گی۔ کیا خوب تجویز ہوئی ہے۔ اس تجویز کے

قربان
فرقت میں مری طرح جگر کس سے سنبھلتا
میں گھر میں نہ ہوتی تو یہ گھر کس سے سنبھلتا
کس کی شکایت کروں۔ سب تو چاہنے والے ہیں۔ اماں کی محبت معلوم ہوئی۔ بابا

کی وہ تقریر ہے۔ اور بہنوں کی یہ صورت ہے۔ پھوپھی جان بھی کچھ نہ بولیں۔ یہ

میری قسمت ہے۔ سب اچھے ہیں میری تقدیر بری ہے۔ بھیا علی اکبر کو تو دیکھو

کہ اس رنجور بہن کے عاشق مشہور ہیں۔اور دودن سے خبر بھی نہ لی۔ اور قاسم

کو کیا غرض کہ میری گریہ وزاری سن کر رحم کریں۔ سکینہ بھی اپنے چچا جان

کو پیاری ہے۔ بیت
اللہ تو ہے گر کوئی غمخوار نہیں ہے
مٹی مری کچھ قبر کی دشوار نہیں ہے
اچھا بابا ہمیں نہ لے جائیں۔ لیکن اس وقت مری محبت معلوم ہوگی جب راہ میں

مری وفات کا خط پہنچے گا۔اور فرمائیں گے کہ لو کنبے کی چاہنے والی مر

گئی۔ افسوس قسمت نے سفر میں خبر مرگ سنائی۔ہائے جسے گھر میں چھوڑ آئے

تھے۔ وہ سب سے پہلے منزل مقصود پر پہنچ گئی۔اور پھر کوئی لاکھ کوشش

کرے ۔ میں نہ ملوں گی۔اس وقت سب افسوس کریں گے۔ کہ اسے ہاتھ سے کھویا،

پر جب میں قبر میں سوئی تو مجھے کیا کوئی رویا یا کڑھا اور پرسے کے لئے

لوگ آئیں گے۔ اور پردیس میں سب کنبہ نے سوگ کیا، تو ہم کو کیا یہ کہہ رہی

تھیں کہ جناب علی اکبر روتے ہوئے گھر میں آئے۔چہرہ انور شدت بکا سے زرد

تھا ۔اور آنکھیں سرخ تھیں۔ جونہی جناب صغرا نے دیکھا چلا کر بھائی کی چھاتی

سے لپٹ گئی۔ اور کہنے لگی کہ اے بھیا یہ بہن ان ہاتھوں اور اس سینہ کے قربان

ہو۔ فریاد ہے اے بھیا علی اکبر کہ میں بن موت مرتی ہوں۔اور کوئی خبر نہیں لیتا

تقدیر تم سے بھی جدا کرتی ہے۔ نظم
بھیا مری تنہائی پہ آنسو نہ بہاو
وہ دن ہو کہ پھر خیر سے اس شہر میں آو
ہر چند ہے مشکل یہ کہ جیتا مجھے پاو
صدقے گئی پھر آنے کا وعدہ کیے جاو
عرصہ ہو تو خط لکھ کے طلب کیجیئو بھائی
پر بیاہ میں مجھ کو نہ بھلا دیجیئو بھائی
وہ دن ہو کہ بوٹا سی تمہاری دلہن آئے
تم جیسے ہو بس ویسی ہی پیاری دلہن آئے
ہمشیر کو تربت میں نہ ترسائیو بھائی
بھابھی کو مری قبر پہ لے آئیو بھائی
یہ باتیں درد آمیز سن کر جناب علی اکبر زار زار رونے لگے۔ اور فرمایا کہ اے

بہن کیا کریں، قسمت سے مجبور ہیں یہی تقدیر میں ہے۔ کہ ہم تم سے اور تم ہم

سے جدا ہوں۔ مگر جدائی ایسی شاق ہے کہ ہم اپنی جان یہیں چھوڑے جاتے ہیں۔

خدا تجھے صحت عطا کرے،اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جب بابا کوفہ میں پہنچیں

گے اور اطمینان نصیب ہوگا، تو ہم آکر تمہیں لے جائیں گے۔ خاطر جمع رکھو۔

مگر اے بہن تقدیر سے مجبوری ہے۔ اگر خدا نخواستہ تقدیر نے یاری نہ کی،اور

زیست نے کمی کی تو میری وعدہ خلافی معاف کرنا۔ یہ سن کر جناب صغرا بہت

روئیں، اور قریب تھا کہ غش آجائے پھر کہا بھیا علی اکبر فدا ہو جان صغرا کی تم

پر اور تمہاری بلا لے کر میں مرجاوں ۔ یہ کیا کلمہ کہا کہ جس سے کلیجہ شق ہو

گیا۔ارے بھیا تمہاری جدائی سے صغرا زندہ نہ بچے گی۔ امید ہے کہ جب تم

مجھے لینے آو گے تو میری قبر پر فاتحہ پڑھ کر پچھتاو گے۔ ممکن نہیں کہ تم

مجھ سے جدا ہو۔ اور میں زندہ رہوں۔بھیا جب خیال فرقت آتا ہے۔ تو میرا کلیجہ

پھٹ جاتا ہے۔ اور جب میں تمہیں اس گھر میں نہ دیکھوں گی تو آہ کے ساتھ میری

جان نکل جائے گی۔ کیا وقت ہے کہ کوئی مری خبر نہیں پوچھتا، جس سے کچھ

کہنا چاہتی ہوں منہ چرا لیتا ہے۔اپنا درد دل کس سے کہوں۔ ایک تم سے امید تھی

تمہارا یہ حال ہے کہ سوائے رونے کے کچھ جواب نہیں دیتے۔اور اپنی مجبوری

بیان کرتے ہو۔ بابا سے مجھ غم زدہ کی سفارش نہیں کرتے۔ سب بیبیاں بہن بھائی

کی یہ باتیں سن کر روتی تھیں، اور ایک عجیب کہرام تھا۔ نظم

رونے کا ادھر غل تھا کہ فضہ یہ پکاری
تیار ہے ناموس محمد کی سواری
دروازے کے نزدیک ہے زینب کی عماری
کیا دیر ہے اب اے اسد اللہ کی پیاری
ہر بار قناتوں کے قریں آتے ہیں عباس
اب جلد ہوں اسوار یہ فرماتے ہیں عباس
شبیر نے رو کر کہا لو جاتے ہیں صغرا
جلد آتے ہیں یا خود تمہیں بلواتے ہیں صغرا
ہم سب تیری تنہائی کا غم کھاتے ہیں صغرا
جان اپنی نہ کھونا تمہیں سمجھاتے ہیں صغرا
قربان پدر آب وغذا ترک نہ کرنا
بڑھ جائے گا آزار دوا ترک نہ کرنا
بیٹی سے یہ فرما کے چلے قبلہ عالم
ناموس محمد بھی چلے ساتھ بصد غم
صغرا جو چلی جاتی تھی روتی ہوئی باہم
ہمسائیاں باندھے ہوئے تھیں حلقہ ماتم
راحت تھی جوسب کو شہ ذیجاہ کے دم سے
اک پیٹتی تھی ایک لپٹتی تھی قدم سے
غل تھا شاہ ابرار خدا حافظ وناصر
رانڈوں کے مدد گار خدا حافظ وناصر
اے خلق کے سردار خدا حافظ وناصر
محتاجوں کے غم خوار خدا حافظ وناصر
دکھ فاقوں کے عسرت کے الم کس سے کہیں گے
مشکل کوئی اب ہو گی تو ہم کس سے کہیں گے

شہ کہتے تھے اللہ مددگار ہے سب کا
انساں کی ہے کیا آس بھروسا ہے تو رب کا
ساماں کبھی غم کا کبھی عیش وطرب کا
مضطر نہیں فرزند شہنشاہ عرب کا
مانگو یہ دعا صبر سے وہ وقت بسر ہو
جس روز کہ شبیر کادنیا سے سفر ہو
اے ہم وطنو اب صبر کرو۔مشیت ایزدی سے چارہ نہیں۔انشا اللہ اگر خریت شامل

حال ہے۔ تو جلد واپس آئیں گے۔ اور تم سب کا دیدار دیکھیں گے۔ میرے لئے

دعائے خیر کرنا۔ جس کی خدا وند عالم تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے گا۔اور

صبر کرنا خدا صابروں کو دوست رکھتا ہے۔ نظم
یہ کہہ کے برآمد ہوا وہ خلق کا والی
ناقوں پہ چڑھے سب حرم سید عالی
احباب بلکتے تھے تڑپتے تھے موالی
غل تھا کہ محمد کا بھرا گھر ہوا خالی
یوں روتے تھے سب گرد حسین ابن علی کے
جس طرح سے ماتم تھا جنازے پہ نبی کے
کہتے تھے جوانان مدینہ سبھی رو کر
اب ہم سے بچھڑ جائیں گے ہے ہے علی اکبر
بے تاب ہیں احباب علمدار دلاور
روتا ہوا گرتا ہے کوئی آکے قدم پر
ہر مرتبہ اشک آنکھوں میں بھر لاتے ہیں عباس
چھاتی سے ہر اک دوست کو لپٹاتے ہیں عباس
قاسم کے جو ہم سن ہیں وہ سب کرتے ہیں زاری
ایک ایک پہ اندوہ غم ورنج ہے طاری
کہتے ہیں کہ اب تلخ ہوئی زیست ہماری
کیا ہوگا چلی جائے گی جس وقت سواری
جب آئیں گے یاں نالہ وفریاد کریں گے
سب روئیں گے جب خلق حسن یاد کریں گے
ہمجولیوں کا عون ومحمد کے ہے یہ حال
بے تاب ہیں سب روتے ہیں اس درد سے اطفال
ایک ایک سے فرماتے ہیں وہ صاحب اقبال
لو بھائیو بس رونے سے آنکھیں تو ہوئیں لال
عزت ہے اطاعت میں امام دوسرا کی
پھر آئیں گے گر زیست نے اس سال وفا کی
در پہ کوئی روتا ہے کوئی راہ گزر میں
تاریک ہے دنیا کسی غمگیں کی نظر میں
ہیں جمع محلے کی جو سب بیبیاں گھر میں
اک حشر ہے ناموس شاہ جن و بشر میں
سب مل کے بکا کرتی ہیں جب آتا ہے کوئی
یوں روتی ہیں جس طرح کہ مر جاتا ہے کوئی
سب کہتی ہیں زینب سے کہ اے بھائی کی شیدا
کس طرح کے خط آئے یکایک یہ ہوا کیا
پانی کی کمی گرمی کے دن خوف کا رستا
وہ دھوپ پہاڑوں کی وہ لو اور وہ صحرا
کیا سوچ کے اس فصل میں شبیر چلے ہیں
بچوں پہ کریں رحم کہ نازوں کے پلے ہیں
سنتے ہیں یہ ہر واردو صادر کی زبانی
جھیلوں میں بھی حوضوں میں بھی سب خشک ہے پانی
اس فصل میں ہوتی ہے بہت تشنہ دہانی
کس طرح جئیں گے اسد اللہ کے جانی
تونسا ہوا بچہ کوئی جانبر نہیں ہوتا
جب خشک ہوا پھول تو پھر تر نہیں ہوتا
ہے ہے چھ مہینے کے بھی بچے کا سفر ہے
کچھ تم کو پہاڑوں کی بھی گرمی کی خبر ہے
غربت میں جوانوں کے تلف ہونے کا ڈر ہے
رحم اس پہ ہے لازم کہ یہ بچہ گل تر ہے
اصغر کو جو دکھ ہو تو قلق ماں کو سوا ہو
گرمی ہے بہت دودھ جو گھٹ جائے تو کیا ہو
فرماتی تھیں زینب نہیں بہنو کوئی چارا
قسمت میں تباہی ہے تو کیا زور ہمارا
گھر چھوڑ کے جانا ہےکسی کو بھی گوارا
مجبور ہے مضطر ہے ید ا للہ کا پیارا
پیام مصیبت کے ہیں تنہائی کے دن ہیں
غربت کی شبہیں بادیہ پیمائی کے دن ہیں
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ یکایک شور سواری کا ہوا۔ اور ناموس محمد سوار

ہونے لگے۔ تو اس وقت اس ستم دیدہ ہجر کا عجب حال تھا۔ نظم
صغرا کو نقاہت سے نہ تھی طاقت رفتار
اٹھی کئی بار اور گری در پہ کئی بار
جس ناقہ پہ تھی بانوئے ناشاد دلفگار
اس ناقہ کے پاس آکے یہ چلائی وہ بیمار
قربان گئی آخری دیدار دکھا دو
اماں مجھے اصغر کو پھر اک بار دکھا دو
مضطر ہوئی سن کر یہ سخن بانوئے بے پر
پردے سے جگر بند کا منہ کر دیا باہر
بیٹی سے کہا دست پسر ماتھے پہ رکھ کر
لو آخری تسلیم بجا لاتے ہیں اصغر
منہ زرد ہے رخساروں پہ آنسو بھی بہے ہیں
یہ نرگسی آنکھوں سے تمہیں دیکھ رہے ہیں
تھرائے ہوئے ہاتھ اٹھا کر وہ پکاری
اس ہاتھ کے اس چاند سے ماتھے کے میں واری
اصغر نہیں جینے کی میں فرقت میں تمہاری
آخر ہے کوئی دم میں بہن درد کی ماری
کب آکے پھر اس جھولے کو آباد کرو گے
تم بھی کبھی گودی کو میری یاد کرو گے
عباس سے یہ شاہ نے کہا اے ثانی حیدر
مر جائے گی اب فاطمہ صغرا میری دختر
جمالوں سے کہہ دو کہ بڑھیں اونٹوں کو لے کر
اسواریوں کے ساتھ رہیں قاسم و اکبر
یہ سنتے ہیں سب لوگ روانہ ہوئے اکبار
غش کھا کے گری خاک پہ صغرا جگر افگار
گھر میں اسے پہنچا کے چلے سید ابرار
غل شہر میں تھا ہائے دو عالم کے مددگار
خدام جو روتے تھے نواسے کو نبی کے
اک حشر تھا روضہ پہ رسول عربی کے
آتی تھی صدا اے میری تربت کے مجاور
صدقے تری مظلومی کے اے صابر وشاکر
اے فاقہ کش اے منزل اول کے مسافر
ہے ہے میری امت نے ستایا تجھے آخر
دشمن کو بھی اس طرح اذیت نہیں دیتے
ظالم مجھے مرنے پہ بھی راحت نہیں دیتے
صغرا اکیلی رہ گئی روتی ہوئی وزیر
اور کربلا کی سمت گئے شاہ بے نظیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment