Friday, July 2, 2010

ذائقہ ماتم معروف بہ چہل مجلس شبیر علیہ السلام
بسم اللہ الرحمن الرحیم
روز ازل نور سے انبیا علیہم السلام کی پیدائش اور حسین علیہ سلام مظلوم کا بار

شہادت اٹھانا
ثابت قدم ایسا کوئی زنہار نہ ہوگا
شبیرسا تو صادق الاقرار نہ ہوگا
دل میں ہے حمد خالق کون ومکان کروں
پڑھ کر درود نعت رسول زماں کروں
وصف علی وفاطمہ ورد زباں کروں
وجہ حسن سے مدح حسن کچھ بیاں کروں
پھر آرزو ثنائے شہ بے کفن کی ہے
اس ایک تن کی مدح ثنا پنجتن کی ہے
مومنین آگاہ ہوں کہ شہید کربلا کی مدح وثنا لا انتہا ہے۔ جس کے تصور سے عقل

انسانی تو ایک طرف تمام ملائک ونبی مرسل حیران ہیں۔ اس جناب کی عظمت

وجلالت اس درجہ کمال پر ہے۔ جس کا احاطہ تحریر وتقریر سے باہر ہے۔چنانچہ

اس جناب کے فضائل کا ایک شمہ عرض کرتا ہوں۔ کہ جس وقت خالق کون

ومکان کو اپنی قدرت کاملہ سے بنی آدم کی خلقت منظور ہوئی۔ تمام انبیا واولیا کی

ارواح طیبہ کو جو عالم نور میں موجود تھیں۔ کو جمع کیا مصائب بھی پیش نظر

کیے۔
سب نے بقدر حوصلہ منظور کی بلا
درجہ خدا نے اس کے موافق کیا عطا
تقدیر نے جو اسم لکھے تھے جدا جدا
ظالم ہوا کوئی، کوئی مظلوم بے خطا
دیوانہ کوئی اور کوئی ہوشیار ہو گیا
مجبور کوئی اور کوئی مختار ہوگیا
افضل ہر اک سے درجہ ہمارے نبی کا تھا
ہم پایہ رسول نہ پایہ کسی کا تھا
پھر ان کے بعد مرتبہ اعلیٰ علی کا تھا
درجہ وہی ورائے نبوت وصی کا تھا
درجہ ہر اک نبی کا علے قدر حال تھا
قرب خدا موافق رنج وملال تھا
بعد از وقار شاہ رسل سید البشر
اک درجہ سب کو ارفع واعلیٰ پڑا نظر
ہر دل میں آرزو ہوئی اس کی زیادہ تر
لیکن بغور اس کو جو دیکھا پڑا نظر
ہم پلہ اس سے پایا بلائے عظیم کو
ڈر ڈر کے دیکھنے لگے عرش کریم کو
یقین ہے کہ مومنین کے گوشہ خاطر میں یہ کنایہ آگیا ہوگا۔ بنظر حصول ثواب

گوش گزار کیا جاتا ہے۔ کہ وہ بلند مرتبہ شہادت کا مرتبہ تھا۔ اور قریب اس کے

جو بلا تھی۔ وہ بلائے کرب وبلا تھی۔ یعنی روز ازل معائنہ کیا کہ ایک صحرائے

لق ودق جس میں نہ پانی نہ سایہ درخت،حدت آفتاب سے جلتا ہوا ہر ایک بشر مثل

ماہی بے آب تڑپتا ہوا، ایسی گرم وہ زمین تھی کہ شعر
سجدہ کرو تو چھالے ہوں پیدا جبین سے
اٹھتے تھے شعلے گرد کے بدلے زمین سے
نہ سبزہ گیاہ ہے۔ بلکہ ہر ایک جگہ حدت کے سبب سیاہ دھواں اٹھتا ہے۔ اور اس

دشت پر وحشت میں ایک بشر بے خطر مع لشکر قلیل کے پہنچا۔
پر تو فگن جو عارض پر نور ہوگیا
سارا وہ دشت نور سے معمور ہو گیا
اس کا نور کرامت ظہور دیکھ کر جملہ حاضرین پکار اٹھے کہ بے شک یہ امام

زمن ہے۔ غریب الوطن ہے۔ اس صحرائے ہول ناک میں تشنہ دہن کھڑا ہے۔اور

ہزاروں پانی سے سیراب ہو کر اس مظلوم کے قتل پر آمادہ ہیںاور اس یک وتنہا

کے نظم۔
لشکر میں تھوڑے لوگ ہیں پر سب شریف ہیں
کچھ بچے،کچھ جوان ہیں اور کچھ ضیعف ہیں
گل رو ہے کوئی اور ہے غنچہ دہن کوئی
گل پیرھن ہے کوئی تو ہے گل بدن کوئی
رنگ چمن کوئی ہے بہار چمن کوئی
شوق عروس مرگ میں پہنے کفن کوئی
معشوق ہیں رسول کے عاشق خدا کے ہیں
سب عندلیب گلشن آل عبا کے ہیں
اور ہمراہ اس بزرگوار کے اہلبیت اطہار عماریوں میں سوار،لیکن گرمی کی شدت

سے بے قرار ہیں۔شعر
دریافت کرکے نام زمین کا ٹھہر گیا
فرمایا اب مقام یہیں کا ٹھہر گیا
اس لشکرکثیر نے جس وقت اس کم سپاہ کا یہ حال دیکھا تو تلواریں تول کر آئے

پوچھنے لگے کہ تم کس کی اجازت سے یہاں پر اترے ہو۔یہ ہمارے ٹھہرنے کی

جگہ ہے۔ اپنے خیمے اٹھا لے جاو۔ یہ سن کر علمدار جرار آگے بڑھا اور بصد

غیظ وغضب فرمایا۔
سمجھے ہو دل میں فوج ہماری قلیل ہے
غصہ ہمارا قہر خدائے جلیل ہے
دوڑا یہ سن کے خیمے سے وہ غم کا مبتلا
روکا اسے اور اہل شقاوت سے یہ کہا
خیمے اٹھائے لیتے ہیں ہے اس میں ہرج کیا
یہ کہہ کے خیمے ریتی پہ لا کر کیے بپا
فرمایا ہم پہ آب رواں بند ہو گیا
محروم ماں کے مہر سے فرزند ہو گیا
اس پر بھی بانی جفا باز نہ آئے۔ تمام رات شب خون کی تجویز کرتے رہے۔دریا

کے گھاٹ روک دیئے۔ تین شب وروز پانی کا ایک قطرہ نہ آنے دیا۔ اور اس

سردار لشکر کو عجب اضطرا ب تھا۔ کبھی فکر آبرو اور کبھی تجسس آب تھا۔
وہ ننھے ننھے بچوں کی پیاس،وہ بیبیوں کی بےقراری چاروں طرف سے ہجوم

یاس۔ تمام ہمراہی بے چین۔لیکن اس پریشانی میں صبر استقلال سے فرمایا
بچے ہوں قتل سر ہو قلم گھر تباہ ہو
سب کچھ مجھے قبول ہے پر خوش الہٰ ہو
اسی تردد وتشویش میں تمام رات بسر کی۔صبح نمودار ہوئی ۔تو وہ سردار فوج

قلیل جنگ کے لئے آمادہ ہو کر اپنے اہل بیت سے جا کر رخصت ہوا۔ اور خیمہ

سے باہر نکل کر مع اصحاب وانصار وخویش واقربا میدان کار زار میں آیا۔
لے کر قلیل فوج کو رن میں کھڑا ہوا
نو لاکھ کے مقابلہ میں وہ شہ ہدا
یاں فاقہ تیسرا تھا مہیا تھی واں غذا
سیراب وہ یہ پیاس کی آفت میں مبتلا
چتر زری تھا واں سر افسر کے واسطے
یاں سایہ دھوپ کا سر اطہر کے واسطے
باوجود ان شدائد کے اس لشکر کفار سے سختی ودرشتی کے بدلے شفقت ونرمی

کے ساتھ کلمات ہدایت کے ارشاد فرماتا تھا۔ کہ میں سید تشنہ لب ہوں۔ رسول خدا

کا لخت جگر ہوں۔ میرے حال پر رحم کھاو۔بچوں کو تھوڑا سا پانی دے دو۔

سیدانیوں کو نہ رلاو۔ تمہارے بلانے سے آیا ہوں۔ لیکن ان باتوں کا جواب وہ خانہ

خراب کچھ بھی نہ دیتے تھے۔ آخرش جنگ وجدل شروع ہوئی۔
تا ظہر رن میں خون بہتر کا بہہ گیا
تنہا غریب قتل کے میداں میں رہ گیا
جس وقت وہ غریب الوطن سردار اپنے اعزہ وانصار کی لاشوں کو دیکھتا۔اشک

خونین بہاتا۔کبھی فرزند نوجوان کی لاش پر گر کر آہ وفغاں کرتا اور کبھی برادر

کی لاش سے لپٹ کر گریہ کرتا۔ یہ حال دیکھ کر اس کے اہل بیت میں کہرام برپا

پوا۔ تو وہ میدان سے خیمہ میں گیاا۔ اور اہل بیت اطہار کو تشفی ودلاسہ دے کر

باہر آیا۔ اور گھوڑے پر سوار ہو کر میدان کارزار کو روانہ ہوا۔ اور درگاہ خدا میں

نظم۔
کی عرض اس طرح سے کہ اے رب ذوالجلال
راحت ہے تیری راہ میں جو ہوں غم وملال
سر نیزے پہ پھرے میرا لاشہ ہو پائمال
خیمہ جلے ،اسیر ہو کنبہ،تلف ہو مال
پر ہے یہ التجا کہ شہادت قبول ہو
اور روز حشر بخشش امت قبول ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آئی ندا کہ تیری شہادت قبول ہے
بندے سوال بخشش امت قبول ہے
دونوں جہاں میں تیری حکومت قبول ہے
شاہی تیری بروز قیامت قبول ہے
مالک ہے کار خانہ رب جلیل کا
مختار نار وخلد کا اور سلسبیل کا
یہ سن کر اس سردار کا زرد چہرہ فرط مسرت سے سرخ ہوگیا۔اور فوج ستم گار

مثل ابر سیاہ چاروں طرف سے اس پر ٹوٹ پڑی۔ دشت کارزار کی تمام زمین تھرا

گئی۔ اور اس مظلوم وبے کس کو نیزہ وشمشیر و تیر سے مجروح کرکے گھوڑے

سے زمین پر گرا دیا۔ اس وقت نظم
آئی ندا کہ رحل سےقران گر پڑا
رکن رکین کعبہ ء ایمان گر پڑا
آیا جو ہوش سر پہ سجدہ جھکا دیا
قاتل نے بڑھ کے حلق پہ خنجر چلا دیا۔
پانی نہ پیاسے کو تہہ تیغ جفا دیا
آخر اجل نے جام شہادت پلا دیا
افسر کو نذر کاٹ کے پیاسے کا سر دیا
دوڑا کے گھوڑے لاش کو پائمال کر دیا
پھر اس مظلوم کو شہید کرنے کے بعد خیموں میں آگ لگا دی۔سیدانیوں کو لوٹ

کر اسیر کیا۔
اس کے مریض بیٹے کی گردن میں طوق،پاوں میں بیڑیاں پہنائیں۔اور لاش ہائے

شہدا کے سر قلم کرکے نیزوں پر چڑھائے۔اہل حرم کو بے مقنعہ اور چادر اونٹوں

کی برہنہ پشت پر سوار کیا۔ اس عظیم رتبہ کے قریب یہ بلا انبیا ،اوصیا کو نظر

آئی۔
درگاہ خدا سے سب روحوں کو خطاب ہوا۔نظم
تھا حکم جو اس بار شہادت کو اٹھا لے
گرمی میں وطن چھوڑ کے پردیس کو جائے
چوبیس پہر بوند وہ پانی کی نہ پائے
اس حال میں زخم تبر وتیر بھی کھائے
پانی کا بدل آب دم تیغ کو جانے
محراب عبادت کی خم تیغ کو جانے
منظور جسے ہو کمائی کا لٹانا
اور چاند سے بچے کا تہہ خاک چھپانا
پیری میں جواں بیٹے کی میت کا اٹھانا
ناموس کا سر کھولے ہوئے بلوے میں جانا
یہ بھی سہے وہ رنج اس اندوہ ومحن میں
اک بیٹی ہو پاس اک تڑپتی ہوئی وطن میں
نکلے جو بہن خیمے سے باہر رہے راضی
سب خورد کلاں ہوں تہہ خنجر رہے راضی
گھائل جو ہو تیروں سے برادر رہے راضی
باقی نہ رہے کوئی بھی یاور رہے راضی
ہر چند کہ بے تاب ہو درد جگری سے
دل چاک ہو ناموس کا بھی پردہ دری سے
پیکاں کلیجہ میں تو سینہ میں سناں ہو
نیزے کی انی سے دل مجروح طپاں ہو
نے ہاتھ ہو ں قابو میں نہ کہنے میں زباں ہو
پر حمد الہیٰ میں وہ مصروف بیاں ہو
اس طرح سے بندہ جو کوئی حق پہ فدا ہو
خود اس کی دیت روز جزا رب علا ہو
لہذا تم میں سے جو نبی یا وصی اس بلا کو قبول کرے۔میں روز قیامت اس کو کلید

نار وجنت دوں گا۔ اور دو عالم کی حکومت کا تاج بخشوں گا۔وہ امت کا شافع

ہوگا۔اور معافی کا پروانہ اس کی مہر سے مکمل ہوگا۔ شعر
قاسم ہو وہی کوثر وفردوس جناں کا
مختار ہو سرکار خدائے دوجہاں کا
تو جس وقت کے یہ خطاب سرکار کبریا سے آیا۔ کہ اے گروہ انبیا واوصیا اے

فرقہ شاہ وگدا نظم
جس دم خطاب عالم بالا سے یوں سنا
تفصیل وار دیکھ چکے تھے وہ سب بلا
سنتے ہی اس ندا کے ہر اک تھرتھرا گیا
یارا جواب کا نہ ہوا سر جھکا لیا
ہر ایک تھا سکوت میں تاب وتواں نہ تھی
گویا کسی کے منہ میں وہاں پر زباں نہ تھی
جب ایک عرصہ تک تمام روحوں کو سکوت رہا۔نہ کسی نے سر اٹھایا،نہ جواب

دیا۔تو بحکم ذوالجلال منادی نے ندا دی ،کہ جب تک تم میں سے کوئی اس بلا کو

قبول نہیں کرے گا۔آدم کی خلقت کا حکم ہر گز صادر نہ ہوگا۔ کیونکہ جب خلقت

انسان ہو گی ۔ تو ان سے جرم وخطا دم بدم سرزد ہوں گی۔پس بقدر گناہ موجب سزا

متصور ہوں گے۔اس واسطے خدا وند کریم چاہتا ہے کہ پہلے ہی سے بخشش کا

سامان مہیا کردے۔
کفارہ گناہ یہ درجہ بلا کا ہے
مقبول جو کرے وہی عاشق خدا کا ہے
اور جب تک کوئی اس بلا کو قبول نہیں کرے گا۔کونین کی نجات کا سامان نہ

ہوگا۔اور ایک انسان پیدا نہ کیا جائے گا۔ نظم
جس دم سنا سبھوں نے یہ ارشاد کبریا
حیرت سے ایک ایک کو بس دیکھنے لگا
کہتے تھے دیکھیں کون ہے وہ عاشق خدا
بے عذر جو اٹھائے یہ کوہ غم وبلا
جس کو کہ ان بلاوں سے خوف وخطر نہیں
قدرت ہے کبریا کہ فقط وہ بشر نہیں
اللہ اللہ بار شہادت کیا سخت منزل ہے۔کہ ابھی آدم کی خلقت نہ ہوئی تھی۔نیزہ

وشمشیرکے زخموں کی تکلیف اور بھوک پیاس کا مزہ روحوں نے نہ چکھا تھا۔

مگر اس قدر خوف وبیم چھایا تھا کہ سر نہ اٹھاتے تھے۔ قربان ہو جانیں شیعیاں

علی ابن ابی طالب کی اس مظلوم کربلا پر کہ ہنوز جملہ انبیا واوصیا نظم
حیرت سے سب یہ کہتے تھے اس دم کہ ناگہاں
لبیک کہہ کے صف سے بڑھا ایک نوجوان
سردار جن وحور وملک شاہ دوجہاں
خوش خلق وخوش جمال وخوش اسلوب وخوش بیان
نام اس کا ہے کتب میں لکھا شاہ مشرقین
یاقوت گوشوارہ عرش بریں حسین
وہ صفوف انبیا واوصیا سے نکل کر بکمال مسرت وشاد مانی خوشی خوشی
کی بارگاہ حق میں ادب سے یہ التجا ء
یارب قبول دل سے ہے بندے کوسب بلا
جوش ولا میں کہتا ہوں تیری یہ برملا
کیا یہ بلا ہے اس سے بھی ہوئے اگر سوا
تیری ولا میں سب ہے گوارا حسین کو
ہر گز نہ سر نہ کنبہ ہے پیارا حسین کو
میں تجھ سے عہد کرتا ہوں اے رب ذوالمنن
گرمی میں لے کے بچوں کو چھوڑوں گا میں وطن
آوارہ کوہ ودشت میں ہوں گا میں خستہ تن
ریتی پہ ذبح ہو کے رہوں گا میں بے کفن
رن میں یہ شان سجدہ آخر دکھاوں گا
خنجر پھرے گلے پہ نہ میں سر اٹھاوں گا
داغ جوانی علی اکبر اٹھاوں گا
اک دوپہر میں لاشے بہتر اٹھاوں گا
رنج اسیری زن ودختر اٹھاوں گا
شہ رگ پہ اپنی صدمہ خنجر اٹھاوں گا
پانی سے مرتے دم بھی زباں تر بہ ہووئے گی
لیکن تیرے شکر سے کبھی باہر نہ ہووئے گی
آئی ندا رب ھدا واہ واہ حسین
احسنت وآفریں ہے تجھے مرحبا حسین
منظور تونے کی جو ہماری رضا حسین
مختار دو جا ہمارا عاشق صادق ہوا نہیں
بندے سوا خدا کے ترا خوں بہا نہیں
اب اس مطلب کو آگے تحریر کروں گا۔یہاں اس قدر گزارش ہے۔کہ مومنین یہ مقام

رونے اور سر پیٹنے کا ہے۔کس زبان سے عرض کروں۔یعنی جس برگزیدہ حق

سے وہ خالق کونین رب مشرقین یہ فرمائے کہ تیرا خون بہا سوائے میری ذات

کے کچھ نہیں ہے۔ اس برگزیدہ کونین کا سر زیر تخت یزید پلید لعین رکھا

جاوئے۔اور ان لب ہائے مبارک پر جن سے وعدہ ایسی بلائے سخت اٹھانے کا کیا۔

کہ جس کو دیکھ کر تمام انبیا واوصیا خاموش ہو رہے۔ چوب بید لگائی جاوئے۔اس

سے بالاتر یہ ستم ہو کہ وہ ملعون جناب زین العابدین علیہ السلام سے ایسا کلمہ

کہے معاذ اللہ کہ سید سجاد حسین کا خون بہا جس قدر چاہو لے لو۔صاحبان عزا وہ

وقت یاد کیجیے۔کہ جب یزید لعین پلید کہتا تھا کہ بیت
مالک ہوں خزانہ کا حاکم ہوں شام کا
لو خون بہا حسین علیہ السلام کا


مال ومتاع وگوہرویاقوت سیم وزر
حاضر ہے سب حضور کا
ایما ہو جس قدر
عابد نے رو کے یاس سے زینب پہ کی نظر
زینب نے بھی جھکا لیا بے چارگی سے سر
سر پیٹ کر کہا سر شاہ شہید سے
کیوں بھائی خونبہا میں تیرا لوں یزید سے
حاکم سے پھر خطاب کیا اے زبوں خصال
اب تو جگر میں رانڈوں کے ناسور تو نہ ڈال
زہرا کے لعل کی دیت افسوس درو ولعل
دولت کہاں علی کی کہاں یہ متاع ومال
نادار ہیں پر ایسے بھی نادار ہم نہیں
خواہاں خوں بہائے امام امم نہیں
کس کس کا اہل بیت کوتو دے گا خوں بہا
تو جانتا ہے پنجتن پاک کو جدا
زہرا کا ،مرتضےٰ کا پیمبر کا خوں بہا
اے یزید لعین کیا یہ بے کس وناچاراسی واسطے زندہ رہی ہے کہ بھائی کا خوں

بہا لے جب میں مدینہ جاوں گی ۔اہل وطن کو کیا منہ دکھاوں گی۔ نا گاہ جناب

فاطمہ کی آواز آئی کہ میں حسین کا خوں بہا محشر میں لوں گی۔ الغرض۔ جب امام

مظلوم نے بار شہادت اٹھانے کا وعدہ کیا۔ اور پرور دگار عالم نے ہمارے مولا کو

دو جہان کی شہنشاہی عطا فرمائی۔ نظم
یہ سن کے بس حسین تو سجدے میں خم ہوئے
تقدیر میں تمام مصائب رقم ہوئے
غل پڑ گیا حسین شفیع امم ہوئے
امت کے لوگ مورد لطف وکرم ہوئے
قالب میں روح حکم خدا سے رواں ہوئی
جب آب وگل سے صورت آدم عیاں ہوئی
نظم
ابلیس بھی اس دن مع اتباع تھا حاضر
مولا کے مراتب ہوئے مردود پہ ظاہر
حضرت کے فضائل سے ہوا خوب وہ ماہر
کہتا تھا کہ اپنی تو یہاں عقل ہے قاصر
شبیر علیہ سلام نے وہ بار اٹھایا ہے غضب کا
بندوں کو وسیلہ یہ ملا رحمت رب کا
افسوس کہ بگڑا ہوا امت کا بنا کام
شبیر کے کام آنے سے میں ہوگیا ناکام
لیکن ہے بہت سخت اس آغاز کا انجام
اس دن سے اسی فکر میں تھا وہ سحر وشام
کیا ہوتا ہےاور دیکھیے کیا کرتے ہیں شبیر
جس وقت کہ بنی آدم کی خلقت ہوئی ہر ایک پیغمبر اور نبی کو مراتب کا خیال

تھا۔اور مصائب حسین میں تشویش تھی۔
چنانچہ خاکی جسم مل جانے کے بعد ہر نبی کو صحرائے کربلا کے معائنہ کا

اشتیاق ہوا۔ اور جس جس نبی کا گزر اس دشت ہول ناک میں ہوا۔تھوڑے تھوڑے

مصائب سب پر گزرے۔ چنانچہ حال حضرت آدم کا خراب ہوا۔حضرت نوح کی

کشتی گرداب میں مبتلا ہوئی۔ حضرت سلیمان کا تخت اسی دشت میں گرا۔
نظم
القصہ وہ دن وعدہ وفائی کا بھی آیا
واللہ انہیں صادق الاقرار ہی پایا
سب مان گئے صبر وتحمل وہ دکھایا
وہ ظلم اٹھائے کہ فرشتوں کو رولایا
یہ حوصلہ یہ دل یہ کلیجہ تھا کسی کا
حقا کہ یہ حصہ تھا حسین ابن علی کا
عاشور کی جب صبح ہوئی جلوہ کناں آہ
جبریل امین حاضر خدمت ہوئے ناگاہ
تسلیم بجا لا کے کہا اے شاہ ذیجاہ
کیا قصد ہے فرمایا کہ جو مرضی اللہ
آیا ہوں یاں وعدہ وفائی کرنے کو بھائی
لایا ہوں یہ سر نذر خدا کرنے کو بھائی
رضائے حق کے لئے سب کچھ گوارا ہے۔اس کی مرضی کے آگے

بیٹا،بھائی،بھتیجا کوئی پیارا نہیں۔ لیکن ایک اندیشہ لا حق ہے۔کہ وعدہ وفائی کا

وقت قریب آپہنچا ہے۔پیغمبران ما سلف کا حال یاد آتا ہے۔ قلب بے چین ہے۔
دنبہ نہ کہیں عرش سے میرے لئے آئے
اسماعیل کے مانند اماں بندہ نہ پائے
پھر سوئے وطن پھر کے یہ جانباز نہ جائے
اللہ میری عزت وتوقیر بڑھائے
سر میرا کٹے تیغ سے اس دشت بلا میں
پر فرق سر مو نہ ہو وعدے کی وفا میں
یہ سن کر فرط غم سے حضرت جبرئیل بے ہوش ہو گئے۔اور حضرت کی ایام

طفلی کی محبت یاد آ ئی ۔ یعنی جھولا جھلانا،ثمرات خلد بریں لانا،عرش اعلیٰ پر

حضرت کو لے جانا۔ پوشاک عید خازن جنت سے لانا۔ان امور کو یاد کرکے بہت

روئے۔ اور عرض کی نظم
اندیشہ ہے خود مجھ کو کہ اس جورو جفا میں
کن آنکھوں سے دیکھوں گا تمہیں کرب وبلا میں
یہ کہہ کر حضرت جبرائیل رخصت ہوئے اور جناب امام حسین علیہ سلام مع

عزیز ورفقا کے آمادہ پیکار ہوئے۔ درجہ بدرجہ ہر ایک نے شہادت پائی۔آخر وہ

مظلوم اس گروہ اشقیا کے مقابل یک وتنہا وہ گیا۔ اور وہ جنگ کی کہ چوبیس پہر

کی پیاس کے باوجود ہزاروں اعدائے بد شعار کو واصل جہنم کیا۔ نظم
مصروف تھےیوں جنگ میں سلطان دو عالم
جو وعدہ وفائی کا خیال آگیا ااس دم
تلوار کو روکا سر پر نور کیا خم
آواز یہ دی لشکر کفار کو پیہم
لو آو کرو قتل حسین ابن علی کو
منظور شہادت ہے جگر بند علی کو
ہے ہے کلمہ گویوں کو کچھ رحم نہ آیا
مظلوم کو سید کو مسافر کو ستایا
اک قطرہ ترس کھا کے نہ پانی کا پلایا
پانی کے عوض پیاسے کا خون بہایا
فوارے لہو کے تن اطہر سے رواں تھے
تشنہ دہن اس خون میں شبیر طپاں تھے
اسی حالت میںدرگاہ رب العزت میں عرض کرتے تھے۔کہ اے خدائے دوجہان تیرا

بندہ شہادت پر تیار ہے۔ وعدہ وفائی کو حاضر ہے۔صرف تیرے فضل کی امید

رکھتا ہے۔اب نہ عباس دلاور ہیں، نہ ہم شکل پیمبرہیں، نہ عون وجعفر ہیں اور نہ

ہی علی اصغر۔ نظم
اب میں ہوں فقط ایک بقیہ شہدا کا
خواہاں ہوں تیرے فضل وکرم لطف وعطا کا
لاریب کہ تو صادق الاقرار ہے مولا
بندے سے کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا
اب اس کے سوا کوئی تمنا نہیں اصلا
شیعوں کو میرے بخش دے اے خالق یکتا
دنیا میں عزاداروں کی تو عمر سوا کر
عقبیٰ میں انہیں کوثر وتسنیم عطا کر
پیدا ہوئی اس وقت یہ آواز الہیٰ
اے مالک ومختار سفیدی وسیاہی
خود صبر تیرے صبر پہ دیتا ہے گواہی
کی تونے میری راہ میں سب گھر کی تباہی
واقف ہیں کہ سو جان سے تو ہم پہ فدا ہے
خوشنودی حق کے لئے پابند بلا ہے
مسرور ہو اے عاشق جانباز ہمارے
تو پیارا ہے ہم کو تیرے پیارے بھی ہیں پیارے
ناجی تیرے زوار وعزادار ہیں سارے
لو بخش دی آج ہی شعیوں کو تمہارے
بندے میرے تو مالک سرکار خدا ہے
جو تیری رضا ہے وہی خالق کی رضا ہے
حضرت نے کہا اب مجھے مرنے کا نہیں غم
اب اپنی شہادت پہ ہے بندہ خوش وخرم
جو چاہیں کریں ظلم وستم کافراظلم
حاضر ہوں تیری راہ میں اے خالق اکرم
ہیں اہل وعیال اور یہ گھر بار تصدق
اس بندہ نوازی پہ میں سو بار تصدق
اس وقت تھی سب خلق خدا ششدر ومضطر
جن غش تھے زمین پر تو ملک چرخ بریں پر
لکھا ہے کہ ابلیس نے دیکھا جو یہ محشر
سمجھا یہ مہم آج قیامت کی ہوئی سر
اندیشہ تھا جس کا وہی ساماں نظر
آلودہ بخوں شاہ شہیداں نظر آیا
سوچا کیا تدبیر مگر کچھ نہ بن آئی
چلایا کہ دوزخ سے ہوئی سب کی رہائی
جنت کی سند آج گنہگاروں نے پائی
شبیر ہوئے مالک ومختار خدائی
حالت جو یہ ابتر ہوئی مردود خدا کی
مابین زمین وفلک آکر یہ ندا دی
یارب یہ بلا جو پئے شاہ شہدا ہے
ہو مغفرت کل یہ نہیں اس کا صلا ہے
پر اس کی جزا سلطنت روز جزا ہے
ہاں کوئی بلا اس سے فزوں ہو تو بجا ہے
ہو فوق جسے قوت زور بشری پر
نازل وہ بلا ہووئے حسین ابن علی پر
ہنوز شیطان لعین اپنی عرض تمام نہ کرچکا تھا،کہ ناگاہ ایک گرم ہوا اس شد ومد

کی چلی کہ کسی کوتاب وبرداشت اس گرمی کی نہ ہوئی۔ درخت جل گئے۔ زمین

سے شعلے اٹھنے لگے۔دریا کا پانی مثل حمام کے گرم ہو گیا۔لشکر یزید آب سرد

کے باوجود پریشان ہوا۔ قلب سینوں میں تڑپنے لگے۔اللہ رے صبر وتحمل جناب

امام حسین کا کہ آپ نے عشق راہ خدا میں باد سموم کو نسیم سحری تصور فرما

کر بند قبا کھول دیئے۔پس نظم
شق ہو گیا ہر زخم جو حدت کی تعب سے
پر شہ نے کچھ بھی نہ کہا سوکھے ہوئے لب سے
مایوس ہوا دیکھ کے اس صبر کو شیطان
یاں قبلہ کی جانب کو مڑے شاہ شہیداں
مشغول ہوئے شکر خدا میں بدل وجاں
اتنے میں بڑھا شمر لعین دشمن یزداں
مردود ہوا مرتکب اس بے ادبی کا
دل ہل گیا سینہ میں جگر بند نبی کا
کافی یہ اشارہ ہے مجنوں کے لیے آہ
سینہ جو دبا اور بھی تڑپے شہ ذیجاہ
فرمایا لب خشک سے اے ظالم وگمراہ
اک بوند پلا دے مجھے پانی کی تو للہ
اب کوچ ہے دنیا سے حسین ابن علی کا
پھر تو نہ سنے گا یہ بیاں تشنہ لبی کا
یہ سنتے ہی ظالم نے ہلایا سر انکار
ریتی پہ رہے پاوں رگڑتے شہ ابرار
لکھا ہے یہ زیر قدم خاصہ غفار
اک چشمہ ہوا پانی کا فے الفور نمودار
ہو کر متعجب یہ کہا شمر لعین نے
کیوں پانی طلب مجھ سے کیا قبلہ دیں نے
پانی کی تو قدموں کے تلے نہر ہے جاری
اک گھونٹ کی خاطر یہ عبث منت وزاری
شہ بولے یہ اعجاز نمائی ہے ہماری
سب کچھ ہمیں قدرت ہے سن اے دشمن باری
کونین کے مختار ہیں پرواہ ہمیں کیا ہے
پوری یہ ہوئی حجت حق شکر خدا ہے
اعجاز کا قائل ہوا شمر ستم ایجاد
پر قتل سے سید کے نہ باز آیا وہ جلاد
اللہ ونبی سے نہ ڈرا بانی بےداد
فریاد ہے فریاد ہے،فریاد ہے فریاد
کس ملت ومذہب میں یہ بے داد روا ہے
پہنے ہوئے موزے کوئی سینے پہ چڑھا ہے
آہ حضرات اب کس زبان سے عرض کروں وہ ملعون سینہ اقدس پہ چڑھا۔ایک

حشر برپا ہو گیا۔
یہ واقعہ لکھتے ہیں یہاں راقم اخبار
جب زانوئے قاتل کے تلے تھے شہ ابرار
منہ پیٹ رہے تھے حرم احمد مختار
آثار قیامت کے ہوئے ناگاہ نمودار
دیکھا کہ سوئے ابن علی آتی ہے زہرا
کالی کفنی پہنے چلی آتی ہے زہرا
کیوں حضرات سمجھے یہ کون بی بی تھی۔اسی عرصہ میں نظم
دوڑی ہوئی مقتل کے وہ نزدیک جو آئی
ثابت ہوا اس د م کہ یہ زہرا کی ہے جائی
چلائی کہ اے دشت کدھر ہے میرا بھائی
اے خاک کدھر ہے میری اماں کی کمائی
اے چرخ محمد کے نواسے کو بتا دے
اے نہر کئی روز کے پیاسے کو بتا دے
سر پیٹ کے کہتی تھی کبھی ہائے برادر
کیا تجھ پہ بنی اے میرے ماں جائے برادر
مظلوم برادر مرے دکھ پائے برادر
کیوں کر تیرے لاشے پہ بہن آئے برادر
تلواروں میں رستا بھی نہیں پاتی ہے زینب
محروم زیارت سے رہی جاتی ہے زینب
لو مومنو سرپیٹو گریبان کرو چاک
نکلے ہیں نبی قبر سے چہرے پہ ملے خاک
ہلتی ہے زمیں اور لہو روتے ہیں افلاک
ظالم نے کیا خاتمہ پنجتن پاک
کونین میں اس واقعہ سے حشر بپا ہے
جبریل کا شہزادہ زمانے سے اٹھا ہے
اب مومنین سے امیدوار اس دعا کا ہوں
دے دے خدا وزیر کودوزخ سے تو نجات
عزت جہاں میں ہووئے تو راحت پس ازوفات
لعنت اللہ علے القوم الظالمین وسیعلمون الذین ظلمواای منقلب ینقلبون
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment