Thursday, July 15, 2010

تیسری مجلس

بسم اللہ الرحمن الرحیم
تیسری مجلس
ایام طفلی میں پیش خدا ورسول امام حسین علیہ السلام کے مراتب
شبیر ساوزیر کوئی دوسرا نہیں
جیسے بجز خدا کے کوئی خدا نہیں
آگاہ ہوں مومنین کہ فضائل اور مراتب جناب امام حسین علیہ السلام کے اس قدر لاتعداد ہیں کہ جن کا احاطہ انسان تو ایک طرف نبی جان اور فرشتگان آسمان سے بھی ممکن نہیں ہے۔تو یہ کمترین کب اس کی مدح لکھ سکتا ہے۔اور کیا اس کے مدارج بیان کر سکتا ہے۔ مولف
یا شاہ کربلا تری مدحت محال ہے
میں کیا زبان طوطی سدرہ کا لال ہے
دعوےٰ جو اس کا کیجیئے نقص کمال ہے
تو فاطمہ کا ماہ ہے حیدر کا لال ہے
قرآں میں وصف جب تیرا رب ہدیٰ کرے
بندے کی کیا مجال جو مدح وثنا کرے
روایت میں ہے کہ جس وقت آپ پیدا ہوئے۔ صفیہ دختر عبد المطلب فرماتی ہیں۔کہ میں نے آپ کو گود میں لیا۔اسی وقت رسول مقبول تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا کہ میرے نور چشم کو میرے پاس لاو۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ابھی غسل نہیں دیا گیا۔ اس وقت آپ نے فرمایا افسوس ہے اے پھوپھی تم واقف نہیں ہو۔ کہ یہ فرزند میرا درگاہ خدا سے پاک وطیب پیدا ہوا ہے۔ تم اس کو کیا پاک کروگی۔یہ فرما کر میری گودی سے حسین کو لے لیا۔ اور اس کی نورانی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر اس کے دہن مبارک اپنی زبان مبارک دے دی۔اور جب آپ جھولے میں جھولنے کے لائق ہوئے تو اکثر جبرائیل امین عرش سے آتے تھے۔اور ملاحظہ فرماتے تھے کہ کاروبار خانہ داری سے تھک کر بنت رسول سوگئی ہیں۔اور امام حسین علیہ السلام روتے ہیں۔ اس وقت جبارئیل آپ کا جھولا جھلاتے تھے۔ اور لوریاں دیتے تھے۔ جب آپ بیدار ہوتیں تو آواز لوری دینے کی سماعت فرماتی تھیں۔ مگر کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ اتفاقا ایک روز آپ حجرہ عبادت میں اپنے معبود کی عبادت کر رہی تھیں۔ کہ لوریوں کی آواز سنی۔ کوئی کہہ رہا تھا۔
مخمس
ان فی الجنتہ نھرا برحیق ولبن
لعلی ولزھرا وحیسن وحسن
یعنی جنت میں شراب اور دودھ کی ایک نہر ہے۔ جو علی وفاطمہ اور حسن وحسین کے لئے ہے۔فاطمہ زہرا نے یہ قصہ جناب رسول خدا سے بیان کیا۔ کہ اے بابا اکثر جب میں سوجاتی ہوں۔ یا عبادت پروردگار میں مشغول رہتی ہوں ۔اور حسین میرا روتا ہے۔ اس وقت میں لوری دینے کی آواز سنتی ہوں۔ مگر کوئی نظر نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا جان پدر پروردگار عالم کو حسین کا رونا گوارا نہیں ہے۔ اسی واسطے بحکم رب جلیل جبرائیل آتے ہیں اور لوری دیتے ہیں۔ اور اکثر روایت میں یہ بھی تحریر ہے۔ کہ حضرت جبرائیل آپ کو بہلانے کے واسطے جھولے سے عرش پر لے جاتے تھے۔
جبریل نے شرف تیری خدمت سے پائے ہیں
میوے طبق طبق تمہیں جنت سے آئے ہیں
اور کتب ہائے معتبرہ میں لکھا ہے طبری سے اور اس نے طاوس یمانی سے کہ جس وقت امام حسین علیہ سلام کو مکان تاریک میں لے جاتے تھے۔ تو گلوئے مبارک سے ایسا نور ساطع ہوتا تھا۔کہ تمام مکان روشن ہوجاتا تھا۔ اور ابن شہر آشوب نے حسن بصری اوربی بی ام سلمیٰ سے روایت لکھی ہے کہ اکثر حضرت
جبرائیل بشکل وحیہ کلبی آپ کے پاس وحی لے کر نازل ہو تے تھے۔ایک روز کچھ وحی الہیٰ لائے ۔ اور جناب امام حسین ان کو وحیہ کلبی سمجھ کر جبرئیل کی گود میں جا بیٹھے۔ اور دامن وآستین میں کچھ ڈھونڈھنے لگے۔ کیونکہ وحیہ کلبی اکثر آپ کے واسطے میوے لایا کرتے تھے۔ رسول خدا نے چاہا کہ حسین کو جبرئیل کی گود سے اتار لیں ۔عرض کی یا رسول اللہ ان کو بے چین نہ کیجیئے۔
فرمایا حضرت نے اے اخی میں شرمندہ ہوں کہ تمہاری گود میں گستاخانہ جا بیٹھے ہیں۔ جبرائیل نے عرض کی۔آپ ایسا نہ فرمائیں۔یہ برگزیدہ خدا ہیں۔ اور ان کی ماں فاطمہ زہرا خاص کنیز پروردگار مالک محشر ہیں۔ جب چکی پیستے پیستے تھک کر سو جاتی ہیں۔تب مجھے حکم پروردگار ہوتا ہے کہ زمین پر جلد جا ۔فاطمہ سوتی ہیں۔ حسین نہ روئیں جھولا جھلا۔ اور جب تک وہ سو کر اٹھیں۔آٹا پیس کر تیار کر۔ فاطمہ کے آرام میں فرق نہ آئے۔ یا نبی اللہ جب پیش خدا ان کی یہ خاطر ہے کہ مجھ کو گہوارا جنبانی اور چکی چلانے کی خدمت ملے۔تو اگر میری گود میں آبیٹھے تو کیا مضائقہ ہے۔ مگر ارشاد فرمایئے کہ میرے دامن اور آستین میں کیا ڈھونڈتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ اے اخی تم کو اس وقت حسین نے وحیہ کلبی جانا ہے۔ کیونکہ جب وہ سفر سے آتے ہیں۔تو ان کے واسطے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت جبرائیل نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیا۔اور ایک سیب اور ایک بہی اور ایک انار لے کر دونوں صاحبزادوں کو دیئے۔اس وقت صاحب زادے بہت خوش ہوئے۔ وہ سب بزرگوار ان میووں کو کھاتے۔مگر تھوڑا سا باقی رکھتے تھے۔ تو پھربقدرت الہیٰ وہ میوے اصلی حالت پر ہو جاتے تھے۔ چنانچہ لار غائب ہو گیا۔ اور بہی بوقت شہادت جناب امیر علیہ سلام اور سیب باقی رہا تا معرکہ کربلا اور جس وقت تشنگی سے امام مظلوم بے چین ہوتے تھے۔ تو اس سیب کو سونگھ لیتے تھے۔ کہ تشنگی کم ہو جاتی تھی۔ اور وقت سفر خلد بریں اس کو نوش فرمایا۔اور ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک روز جناب رسول خدا نماز پڑھ کر سجدے میں گئے۔اتفاقا امام حسین مسجد میں کھیلتے کھیلتے وارد ہوئے۔اور پشت مبارک پر چڑھ کرگردن پر آبیٹھے۔آپ نے سجدے کو طول دیا۔ سوچا اصحاب نے کہ سبب طول کیا ہے۔
پس دیکھا کہ امام حسین علیہ سلام آپ کی گردن پرسوار ہیں۔ بعد تھوڑی دیر کے آپ گردن سے اترے۔تب حضرت نے سجدے سے سر اٹھایا۔ اور نماز کو تمام کیا۔ اصحاب نے عرض کی یا رسول اللہ اس قدر طول سجدے میں جائز ہے۔فرمایا آپ نے کہ جس وقت حسین میری گردن پر سوار ہوا۔میں نے بعد فراغت ذکر سجدے سے سر اٹھانا چاہا۔ تو حضرت جبرائیل نازل ہوئے۔اور وحی لائے کہ یا رسول اللہ سر نہ اٹھایئے۔ کہ ہمارا پیارا آپ کی گردن پر سوار ہے۔ بے چین ہو گا۔ بیت۔
ایجاد کائنات برائے حسین علیہ سلام ہے
مرضی کردگار رضائے حسین علیہ سلام ہے نظم
وصف گل زہرا میں ہے بلبل کی زبان لال
بلبل کا بھلا ذکر ہے کیا گل کی زباں لال
کیا گل کی حقیقت ہے جزو کل کی زباں لال
فہم وخرد وعقل وتحمل کی زباں لال
گر ہفت فلک کے بھی ملک ایک زباں ہوں
شبیر علیہ سلام کے اوصاف بیاں ہوں نہ بیاں ہوں
سر جس نے دیا حق پر وہ سردار یہی ہے
فوج غم واندوہ کا سالار یہی ہے
ہر بے کس وعاجز کا مددگار یہی ہے
مختار کی سرکار کا مختار یہی ہے
یکتائی کا یہ راز دوعالم پہ جلی ہے
ہے ایک خدا اور ایک حسین ابن علی ہے
باوجود اس جاہ ومنزلت کے ہمیشہ دنیا دنی کے تزک واحتشام سے کچھ تعلق نہ تھا۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک سال عید قریب آگئی۔اور جناب فاطمہ زہرا علیہ سلام کو کچھ سامان بوجہ عسرت بچوں کی پوشاک کی تیاری کے واسطے میسر نہ ہوا۔ نظم
برپا ہر ایک گھر میں ہوا عید کا اساس
ساماں کیا امیروں نے بے حد وبے قیاس
رنگوائے خرد سالوں کے ہر ایک نے لباس
سب طفل شادماں تھے حسن وحسین اداس
رنگیں لباس سے تو یہ خود ناامید تھے
نیرنگ دیکھنا کہ نہ رخت سفید تھے
ساماں عید کرتے تھے اطفال نیک ذات
مہندی لگا کے ماں کو دکھاتا تھا کوئی ہاتھ
چلا کے فرط شوق سے کہتا تھا اک یہ بات
جائیں گے عید گاہ کو کل ہم پدر کے ساتھ
تھا دوسرے کا قول کہ عیدی جو پائیں گے
اپنی بہن کے واسطےسوغات لائیں گے
اہل محلہ کے تمام لڑکے شوق عید میں خوش وخرم پھرتے تھے۔کہ جناب حسنین سب لڑکوں کی مسرت دیکھ کرلباس کے شوق میں اپنی ماں کے پاس آئے۔ اور لپٹ کر عرض کرنے لگے۔ مادر گرامی ہر طرف عید کی دھوم ہے۔ہر شخص واقف ہے کہ ہمارے نانا سید البشر ہیں۔ لیکن نظم
ساماں اب تلک نہیں عیش وسرور کے
کیا کل نہ عید ہووئے گی گھر میں حضور کے
عسرت پہ اپنی رو کے یہ معصومہ نے کہا
قربان جاوں عید سے فاقہ کشوں کو کیا
اہل دول کے واسطے ہے عید کا مزہ
آل نبی علیہ سلام کی عید ہے خوشنودی خدا
زہرا کو چاند عید کا پیاروں کی دید ہے
تم جب گلے سے لپٹے میں سمجھی کہ عید ہے
یہ سن کر جناب حسنین علیہ سلام نے عرض کی کہ آپ کی بے حساب شفقت کا حال معلوم ہے۔ مگر ہمارے پاس پوشاک نہ ہو تو ہم چشموں میں کس قدر شرم وحجاب کا مقام ہے۔ بیت
درجے ملے تمہاری بدولت بڑے بڑے
لیں گے اسی گھڑی نئے کپڑے کھڑے کھڑے
نظم
اماں لباس عید بنا دو ابھی ابھی
تیار ہوں تو لا کے دکھا دو ابھی ابھی
کیا جانیں ہم کہیں منگا دو ابھی ابھی
رکھ کر سرہانے سوئیں گے لادو ابھی ابھی
سرتاج اوصیائے سلف کے پسر ہیں ہم
آپہنچی سر پہ عید اور ننگے سر ہیں ہم
بچوں کی یہ باتیں سن کر جناب سیدہ بہت ملول ہوئیں۔ اور بچوں کی خاطر داری کے لئے مصلحتا فرمانے لگیں۔کہ اے میرے دل کے ٹکڑوں اطمینان رکھو تمہارے کپڑے،بیت
خیاط لے گیا ہے وہ اب سی کے لائے گا
میں دوں گی میرا ذمہ کوئی دم میں آئے گا
غرض دن گزرا ،شام ہوئی حسنین نے پھر جناب فاطمہ علیہ سلام سے تقاضا پوشاک کیا۔تو آپ نے فرمایا بچوں آرام کرو،پوشاک آتی ہوگی۔ یہ سن کر جناب حسنین با اطمینان سو گئے۔ اور جناب فاطمہ علیہ سلام نے نماز پڑھ کر دعا کی۔ کہ پالنے والے صبح حسنین کو کیا منہ دکھاوں گی۔ مدینہ کے تمام بچے آپس میں ملیں گے۔ میرے بچے روئیں گے۔ پوشاک کہاں سے لاوں۔نظم
صدیقہ نام رکھا ہے تونے بتول کا
جھوٹا نہ مجھ کو کیجیئو صدقہ رسول کا
مشغول تھیں دعا میں ابھی اشرف النساء
زنجیر در ہلا کے کسی نے جو دی ندا
زہرا پکاریں کون کہا بندہ خدا
فدوی غلام وخادم اولاد مصطفےٰ
خیاط ہوں حضور کے ہر نور عین کا
لے جایئے لباس حسن اور حسین کا
خیبر کشا کی زوجہ نے در کو جو وا کیا
رومال اک بندھا ہوا اس نے بڑھا دیا
کھولا جو لاکے پھیل گئی نگہت وضیا
کپڑے وہ تہہ بہ تہہ تھے کہ اسرار کبریا
خیر النساء تھیں صرف دعا درد ویاس میں
نازل ہوئی تھی رحمت حق اس لباس میں
وہ موزے تھے وہ تحفہ زمیںجن سے سرفراز
شمس وقمر کے ہاتھوں سے دستانہ تھے دراز
دو کرتے تھے وہ عمدہ کہ بصد شکوہ وناز
جن کو پہن کے عید پڑھے عید کی نماز
فانوس شمع طور کے دو زیر جامے تھے
پر نور دو عبائیں تھیں اور دو عمامے تھے
صبح کو وہ پوشاک شہزادی نے بچوں کو پہنائی۔جناب رسول خدا جب گھر میں تشریف لائے۔ اور لباس نواسوں کے ملاحظہ فرمائے۔ تو پوچھا بچو تم نے یہ پوشاک کہاں سے پائی۔ دونوں شہزادوں نے عرض کیا کہ اماں جان نے دی ہے۔
پھر آپ نے جناب فاطمہ سے دریافت فرمایا کہ اے لخت جگر تم جانتی ہو کہ یہ پارچے کہاں سے آئے ہیں۔ جناب فاطمہ نے عرض کی۔ بابا جان آپ رسول خدا ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے۔ تو آنحضرت نے فرمایا کہ اے نور دیدہ یہ پوشاک بہشت سے خازن جنت دے گیا ہے۔ پس عرض کی نواسوں نے کہ نانا جان سب لڑکوں کے لباس تو رنگین ہیں۔ ہمارے پارچے سفید ہیں۔ امیدوار ہیں کہ ہمارے پارچے بھی رنگین ہوں۔ یہ گزارش سن کر آنحضرت خاموش ہو گئے۔ اور سر مبارک کو خم کر لیا۔ کہ اسی عرصہ میں حضرت جبرائیل نازل ہوئے۔ اور عرض کی یا رسول اللہ خدائے عز وجل نے بعد سلام کے ارشاد کیا ہے۔ حسنین کو رنگ کی خواہش ہے۔ تو جو رنگ پسند ہوں پارچے رنگ دیئے جائیں۔ بیت
حضرت نے حلہ حسن مجتبیٰ لیا
ابریق کو ادب سے ملک نے اٹھا لیا
پوچھا نبی نے رنگ تو وہ بولا خوش خرام
نانا میں سبز رنگ کا عاشق ہوں والسلام
تب پانی ڈالنے لگے جبرائیل نیک نام
محبوب نے نچوڑا تو وہ سبز تھا تمام
ہم رنگ خضر سبط نبی کی قبا ہوئی
اس پیرھن سے قدر زمرد سوا ہوئی
اس رخت سبز گوں نے حسن کو یہ خوش کیا
تسلیم کرکے ہاتھ سے نانا کے لے لیا
چاہا کہ پہنیں تن میں وہ ملبوس پر ضیا
جو ماں پکاری دونوں ہو تم خاص کبریا
کرتا ابھی ہے سادہ میرے کربلائی کا
ٹھہرو حسن کہ دل نہ کڑھے چھوٹے بھائی کا
پھر حلہ جلد جلد اتارا حسین نے
پیش نبی لگن میں سنوارا حسین نے
ہنس کر کیا نبی سے اشارہ حسین نے
بھائی پہ دیکھا پیار تمہارا حسین نے
پیش نبی تھا طشت میں حلہ پڑا ہوا ہے
کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے نواسا کھڑا ہوا
کی عرض جلد رنگیئے نہ دیر اب لگایئے
بڑھ کر رسول حق نے کہا آگے آیئے
رنگتے ہیں ہم جمال مبارک دکھایئے
کس رنگ کا لباس ہو یہ تو بتایئے
ہنس کر کہا کہ آل کا درجہ بلند ہے
ہم کو تو سرخ رنگ ازل سے پسند ہے
جس وقت وہ رنگین کپڑے جناب حسنین نے پہنے۔نظم
مشغول شکر میں ہمہ تن پنجتن ہوئے
اور سبز پوش خضر کی صورت حسن ہوئے
گلگوں قبا حسین بوجہ حسن ہوئے
بے ساختہ رسول خدا خندہ زن ہوئے
بولے کہ خوب حلہ نور وضیا دیئے
قدرت کے رنگ خوب خدا نے دکھا دیئے
اللہ اکبر کس قدر حسنین کی خاطر معبود کو منظور تھی۔ مومنین اب دوسری عنایت کا حال سنیں ۔ نظم
ممدوح مرے پھر مجھے بندش کا صلا دے
ہے شرط کہ مضمون کہن لطف بنا دے
بیٹھے ہوئے اک روز تھے مسجد میں پیعمبر
تا بندہ رخ پاک تھا مثل مہہ امور
انجم کی طرح گرد تھے اصحاب بھی اکثر
مصروف تھے تہلیل میں تکبیر میں یکسر
غل عرش پہ تھا صل علی صل علے کا
پروانہ تھا خورشید فلک نور خدا کا
ناگاہ ایک عربی ایک بچہ آہو لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا۔اور عرض کیا یا حضرت میں نے اس کو شکار کیا ہے۔ اور بطور تحفہ حسنین علیہ سلام کے واسطے لایا ہوں۔ آنحضرت نے اس کو لے لیا۔اسی اثناء میں امام حسن آئے۔ اور اپنے نانا سے اس بچے کو لے لیا۔ اور گھر میں تشریف لائے۔امام حسین نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو یہ بچہ کس نے دیا ہے۔ فرمایا نانا جان نے عطا فرمایا ہے۔ تم بھی کھیلو۔ امام حسین نے جواب دیا
کھیلو تمہیں نانا نے دیا ہے یہ خوشی سے
ہم اپنا بھی حصہ لیے آتے ہیں نبی سے
مسجد میں گئے اور پھرے ڈھونڈتے ہر سو
پر دوسرا پایا نہ کہیں بچہ آہو
یہ دیکھتے ہی نانا سے روٹھے شہ خوشخو
نہ جا کے گلے لپٹے نہ بیٹھے سر زانو
روئے تو نہ تھے رونے کا پر قصد کیا تھا
کیا کیا تہ وبالا دل محبوب خدا تھا
گھبرا کے اٹھے اور محمد یہ پکارے
اے میرے نواسے میرے جانی میرے پیارے
خاموشی یہ کیوں آج سوا ہے مرے پیارے
کیا والدہ روتی ہے تیری فاقہ کے مارے
یا کھیلنے میں کچھ کسی لڑکے نے کہا ہے
ناداری کا طعنہ مرے پیارے کو دیا ہے
اے نور نظر کیا علی نے آنکھ دکھائی ہے۔ یا فاطمہ نے کوئی بات سنائی ہے۔یہ چاند سا چہرہ آج کیوں اترا ہوا ہے۔ غصہ سے تیوری کیوں چڑھی ہوئی ہے۔ نظم
فاقہ سے ہو گر خلد کی سوغات کھلا دیں
پیاسے ہو تو ہم انگلیوں سے دودھ پلا دیں
مشتاق سواری ہو تو ہم کاندھے پہ چڑھا دیں
کرتا نہ ہو تو حلہ فردوس منگا دیں
راغب ہو جو سیر فلک وعرش بریں پر
بھجوادیں بٹھا کر پر جبرائیل امیں پر
کیوں بات نہیں کرتے۔ منہ سے نہیں بولتے۔ میرے دل کو کڑھاتے ہو۔ دل ہی دل میں پیچ وتاب کھاتے ہو۔ کچھ بیاں تو کرو۔ گو مال دنیا سے بجز عبا کے اپنے پاس کچھ نہیں۔ لیکن خدا کا رسول ہوں۔ جو مانگو ، خدا سے دلا دوں۔ جو منہ سے کہو ابھی موجود ہو۔ یہ فر ما کر شبیر کی طرف ہاتھ بڑھائے کہ گود میں لے لیں۔ جناب امام حسین علیہ سلام کو ،نظم
بیٹھے تو نہ زانوئے شہ پاک کے اوپر
آہو کہا اور لوٹ گئے خاک کے اوپر
کچھ ہو کے خجل بولے یہ پیغمر خوشخو
لو اب یہ کھلا مجھ پہ کہ مجھ سے خفا ہے تو
میں اپنے نواسے کو ابھی دیتا ہوں آہو
نانا کی قسم تجھ کو بہائے اگر آنسو
بات اتنی سی غصہ یہ بڑا واہ میری جان
لو اٹھو جگر پھٹ گیا واللہ میری جان
سمجھا کے حسن کو وہی بچہ میں دلادوں
وہ کہنے لگے بھائی سے وہ بچہ میں کیوں لوں
گر آپ نہیں دوسرا دیتے تو خفا ہوں
لاریب ہے کم پیار میرا بھائی کا افزوں
کیا میں نہیں حضرت کا نواسہ ہوں بتائیں
مجھ پہ وہی شفقت ہے تو بے شبہ منگائیں
شہ نے کہا اک دوسرا ہم تم کو بھی دیں گے
وہ بولے کہ وعدہ نہیں ہم تو ابھی لیں گے
حضرت نے کہا آپ کہیں جو وہ کریں گے
کیا اب بھی نہ نانا کے گلے آکے ملیں گے
وہ بولے کہ میں رووں گا اگر گود میں لو گے
مانوں گا اسی وقت جب آہو مجھے دیں گے
حضرت کو قلق ہوتا تھا سن سن کے یہ گفتار
قبلہ کی طرف ہاتھوں پہ گہ رکھتے تھے دستار
گہ کھول کے گیسو کے تھے آہو کے طلبگار
کہتے تھے نواسے سے کبھی اے میرے دلدار
لے خوش ہو مری جان کہ ابھی آتا ہے آہو
تیرے لیے جبرائیل امیں لاتا ہے آہو
ہر چند جناب رسول خدا بہلاتے اور دل جوئی کرتے تھے۔ مگر حسین کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے ۔اور فرماتے تھے کہ جب تک بچہ آہو نہ ملے گا۔ہم ہرگز آپ کی گود میں نہ آئیں گے۔ یہاں تو نانا اور نواسے میں یہ گفتگو ہو رہی تھی،وہاں جناب فاطمہ گھر میں متفکر وبے چین تھیں اور بار بار فضہ سے فرماتی تھیں۔ نظم
اے فضہ ذرا دیکھ توتو در سے نکل کے
لوٹا تو نہیں خاک پہ شبیر مچل کے
کہتی تھی کبھی حکم جو حیدر سے میں پاوں
جنگل میں ردا اوڑھ کے میں آپ ہی جاوں
بچہ جہاں آہو کے ملے ڈھونڈ کے لاوں
بگڑا ہے میرا نور نظر اس کو مناوں
سہتی ہوں سدا دکھ شہ دلگیر کی خاطر
اب خاک بھی چھانوں گی میں شبیر کی خاطر
کہتی تھی حسن سے تمہی اس کو ہو رلاتے
اے کاش کہ تم آہو کو گھر لے کے نہ آتے
اور لاتے بھی گر بھائی کو اپنے نہ دکھاتے
وہ کہتے تھے یہ جانتے تو کاہے کو لاتے
بھائی کی خوشی جس میں ہو وہ کیجیئے اماں
ہم خوش ہیں یہ آہو انہیں دے دیجیئے اماں
فرماتی تھیں زہرا وہ اس آہو کو نہ لے گا
اب لے گا وہ آہو جو اسے نانا ہی دے گا
کیوں لاڈلے آہو کہیں اس وقت ملے گا
نازوں کا پلا میرا حسین آج کڑھے گا
اغلب ہے حزیں دیکھ کے زہرا کے خلف کو
اصحاب کو بجھوایا ہو جنگل کی طرف کو
اب آج یہ کہہ دوں گی کہ بابا میں ہوں نادار
یہ کھیل امیروں کے ہیں لڑکوں کو سزاوار
محتاج کے بچوں کو یہ چیزیں نہیں درکار
عسرت میں نہ ہو اور یہ مانگے تو ہے دشوار
اس فیض سے ہاتھ اپنا اٹھا لیجیئے بابا
محتاجی زہرا پہ نظر کیجیئے بابا
یہ کہہ کے غریبی سے جو رونے لگی زہرا
جبریل سے خالق نے کہا بیٹھا ہے تو کیا
آہو کا ہے مشتاق میرے شیر کا بیٹا
ہرنی کو مع بچہ اسی وقت تو لے جا
جو کچھ کہ خدائی میں ہے سب اس کو دیا ہے
اس کے لیے حاجت مرے ارشاد کی کیا ہے
جبریل بہ تعجیل چلے جتنا تھا قابو
یاں کرتے تھے ہر دم یہ تقاضا شہ خوش خو
کیوں نانا نہ جبریل ہی آئے نہ وہ آہو
ناگاہ در مسجد سے اٹھا غلغلہ ہر سو
دیکھا یہ نبی نے کہ ہیں جبریل تو رو میں
بچہ لیے ہرنی چلی آتی ہے جلو میں
جبریل درآئے در مسجد سے بصد جاہ
داخل ہوئی ہرنی بھی لیے بچہ کو ناگاہ
بے ساختہ ہنسنے لگے ابن اسداللہ
آہو اسے جبریل نے خود نذر کیا واہ
اور بولے کہ اس آہو کو جو لایا وہی جانے
شبر کو نبی نے دیا اور تم کو خدا نے
واللہ بڑے آپ ہیں اللہ کے پیارے
آہو کو لیے جلد میں پہنچا یہاں بارے
واللہ اگر آنسو نکل آتے تمہاراسی طرحے
جلتے غضب حق سے پرو بال ہمارے
دیکھا نہ رسولان سلف میں یہ کسی پر
جو پیار خدا کا ہے حسین ابن علی پر
القصہ ہرنی خوشی خوشی بچہ نذر کرکے جنگل کو چلی گئی،اور جناب رسول خدا نے اس کے حق میں دعائے خیر کی۔
بیت
ہم نے اسے آہو دیا یہ دے گا سر اپنا
الفت میں مری سب یہ لٹا دے گا گھر اپنا
اسی طرح ایک مرتبہ دونوں صاحبزادوں میں خوش خطی کے بارے میں بحث ہوئی اور روایت میں ہے۔
مرقوم ہے یہ حال خط شبر وشبیر
دونوں نے لکھا تھا یہی کلمہ مع تفسیر
اکثر ہے لکھی خط وکتابت میں یہ تقریر
بسم اللہ قرآں کی خدا داد ہے تحریر
طفلی میں بھی یہ الفت تھی رب دوسرا کی
کی مشق بھی تو نام خدا نام خدا کی
خط اپنے لئے پیش بتول آئے وہ ناگاہ
کی عرض کہ خط کس کا ہے بہتر کرو آگاہ
زہرا نے کہا دونوں کے خط خوب ہیں واللہ
کیا حرف ہیں،کیا نقطے ہیں کیا دائرے ہیں واہ واہ
یہ خط نہیں اعجاز ہے تائید خدا ہے
قربان میں ان ہاتھوں کے جن سے یہ لکھا ہے
شبیر پکارے ہوئی ترجیح نہ ظاہر
کیجیئے مری خاطر نہ مرے بھائی کی خاطر
کہہ دیجیئے اک بات یہ خط دوونوں ہیں حاضر
زہرا نے کہا مجھ سے علی خوب ہیں ماہر
سن کر یہ سخن بنت رسول دوسرا سے
دونوں ہوئے انصاف طلب شیر خدا سے
خط دیکھ کے وہ دائرہ مرکز انصاف
ان دونوں کی تحریر کے کرنے لگے اوصاف
دوسطریں جو ابرو کی طرح تھیں وہ عیاں صاف
رکھا بسر وچشم انہیں واہ وے الطاف
فرمایا کہ خط دونوں کے منظور نظر ہیں
پر مرتبہ داں ہم سے سوا خیر بشر ہیں
دکھلا کے خط اپنا کہا نانا سے یہ ناگاہ
تم دستخط اس پہ کرو جو خوب ہو یا شاہ
حضرت نے یہ دل سے کہا یوں اے دل آگاہ
دونوں میں سے منظور کروں کس کے الم کو
مظلوم کے کڑھنے کو کہ مسموم کے غم کو
جناب رسول خدا نے یہ سوچ کر کہ مجھ سے کوئی ناراض نہ ہو۔فرمایا کہ اپنے ماں باپ کو تختی دکھاو۔حسنین نے عرض کی ہم پہلے ہی مادر گرامی اور پدر بزگوار کی خدمت میں گئے تھے۔ ان حضرات نے حضور کی خدمت میں فیصلہ کے لئے بھیجا ہے۔ سبحان اللہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔بیت۔
فرمایا میں امی ہوں بہت دخل نہیں ہے
یہ فیصلہ تو قابل جبرائیل امیں ہے
الغرض اسی عرصہ میں نظم
وارد ہوئے جبریل امیں صاحب توقیر
احمد نے دیا ان کو خط شبر وشبیر
جبریل نے لے کے وہ شہزادوں کی تحریر
بالائے جبیں رکھی مثال خط تقدیر
فرمایا خوزادوں نے کچھ ارشاد کرو تم
خط جس کا خوش آیا ہو تمہیں صاد کرو تم
جبریل نے کی عرض یہاں دخل میرا کیا
خاموش جہاں ہیں نبی وحیدر وزہرا
ہاں وحی سے ہوتا ہوں سرفراز میں جس جا
اب لے کے وہاں جاتا ہوں دونوں خط زیبا
میں دوں کسے ترجیح برابر یہ رقم ہے
ہوئے جائے گا واں صاد جہاں لوح وقلم ہے
الغر ض حضرت جبرائیل دونوں صاحب زادوں کی وہ تحریریں لے کر منشی تقدیر کی طرف روانہ ہوئے۔سبحان اللہ اس موقع پر کسی استاد نے کیا خوب شعر کہا ہے۔ شعر
نازل ہوا افلاک سے قرآں تو زمیں پر
یہ ایسے تھے مصحف کہ گئے عرش بریں پر
جس وقت کہ جبرائیل امیں پردہ قدرت کے قریب پہنچے۔وہ خط رکھ دیئے۔اور عرض کی اے پالنے والے تو عالم ودانا ہے۔ تیرے محبوب کے نواسوں نے یہ مشق فیصلہ کے واسطے بھیجی ہے۔ کیونکہ فاطمہ زہرا، علی مرتضیٰ اور رسول خدا دونوں صاحب زادوں کو آپس میں کسی کو کسی پر فوقیت نہ دے سکے۔نظم
آواز یہ آئی طرف عزوجل سے
خاطر ہمیں دونوں کی برابر ہے ازل سے
جبریل یہ تم فاطمہ سے کہہ دو بہ تکرار
میرا تو ہے ان دونوں سے تم سے بھی سوا پیار
ان میں سے کڑھائے گا نہیں ایک کو غفار
اب ہم نے تمہیں اپنی طرف سے کیا مختار
غمگین نہ حسن نہ حسین ابن علی ہو
اک بات وہ کہہ دو کہ خوش دونوں کا جی ہو
جبریل نے آکر یہ نبی سے کیا اظہار
زہرا سے کہےاحمد مرسل نے سب اخبار
وہ صبر کی مختار یہ سن کر ہوئی ناچار
پیاروں کی طرف دیکھتی تھی پیار سے ہر بار
دل کو تردد تھا کہ کیا ہوئے گا یا رب
اک لعل تو خوش اک خفا ہووئے گا یا رب
کچھ منہ سے تو فرما نہ سکی بنت پیمبر
اک موتیوں کا ہار تھا سات اس میں تھے گوہر
بیٹوں سے کہا پھینکتی ہوں ان کو زمیں پر
تم میں سے جو زیادہ چنے خط اس کا ہے بہتر
اور فاطمہ نے پھینکے نثار ان پہ جو کر کے
زہرا کے گہر چننے لگے دانے گہر کے
اک فاطمہ کے لعل نے تو تین گہر پائے
اتنے ہی گہر کشتہ الماس کے ہاتھ آئے
اب کون ہے جو ساتویں گہر کو اٹھا لائے
جب تک پر جبریل سے دوٹکڑے نہ ہوجائے
شش ماہ حسین ابن علی عمر میں کم تھے
پر قدر میں ہم آبروئے کشتہ سم تھے
جبرائیل امیں عرش کے پہلو میں تھے استاد
فی الفور ہوا ان کو یہ اللہ کا ارشاد
ہاں موتی کو دو کر کہ یہ دونوں رہیں دل شاد
جبریل نے اظہار کیا زور خدا داد
در ہو گیا دو ٹکڑے ادھر اور ادھر آئے
ایک ایک کے حصہ میں برابر گہر آئے
ٹکڑے تو ہوا خاطر شبیر سے گوہر
پر کاتب تقدیر کا ادنیٰ سا تھا یہ جوہر
گویا کہ شگاف قلم اس موتی میں دے کر
یہ آب گہر سے لکھا دونوں میں برابر
واں زہر ہے یاں آب دم تیغ ستم ہے
جو آبرو ہے ان کی وہی ان کا حشم ہے
کیوں حضرات جس کے دہن میں روز پیدائش رسول خدا اپنی زبان دیں۔اور جس کے لب چوسیں۔ ہائے واویلا انہی لبوں کے اوپر یزید لعین چوب بید لگائے۔آہ آہ جس حسین کا جھولا جبریل امین جھلائیں۔اسی حسین کی لاش مطہر چالیس روز تک زمین گرم پر پڑی رہے۔ اور اس کا سر لشکر شام کے سنگدل نیزہ پر چڑھائیں۔ اللہ اللہ جس بزرگوں کے گلوئے انور کے نور سے تاریک مکان مانند مہتاب منور کے روشنی ہوجائے۔اسی امام کا سر گلو بریدہ تنور میں رکھا جائے۔
جس عالی وقار شہزادے کے لئے جنت کے میوے آئیں۔ افسوس کہ وہ اور اس کے اہل حرم اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تین روز تک کھانا اور پانی نہ پائیں ۔وہ حسین اگر حالت سجدہ میں رسول کی پشت پر سوار ہو جائیں تو خدا کا حکم ہو کہ پیغمبر سجدہ سے سر نہ اٹھائیں۔ اسی حسین کے جسد مبارک پر ملعون نعل بندی کرکے گھوڑے دوڑائیں۔جس کے واسطے خدا وند کریم بچہ آہو بھیجے،اس کے چھوٹے چھوٹے بچے کربلا میں بھوکے پیاسے ذبح کیے جائیں۔ نظم
واللہ غضب ہے ستم گردش افلاک
گوہر کے ہوں ٹکڑے پئے سبط شہ لولاک
اور کان سکینہ کے ہوں گوہر کے لئے چاک
گر روئے وہ تو ماریں طمانچے اسے سفاک
سینہ کے کلیجہ کے جبیں کے تن وسر کے
کیا ٹکڑے ہوئے فاطمہ زہرا کے گوہر کے
جس حسین کے واسطے رب کریم پوشاک عید بھیجے۔افسوس ہے کہ اسی حسین کی پوشاک بعد شہادت لوٹ لی جائے
خوف خدا نہ پاس رسول زمن کیا
امت کے پردہ پوش کا عریاں بدن کیا
نظم
سب لٹ گیا لباس تن شاہ ارجمند
لکھا ہے پائجامہ میں تھا اک اوزار بند
قدر وبہا میں حلہ فردوس سے دوچند
جمال نابکار نے اس کو کیا پسند
فکر ازار بند میں دل کو تعب رہا
وہ روسیاہ منتظر وقت شب رہا
الغرض بوقت شب نظم
آیا قریب لاش امام فلک وقار
چاہا ازار بند نکالے وہ نابکار
پائی مگر گرہ پہ گرہ اس میں بے شمار
منظور شہ تھا اس کو نہ لے جائیں بد شعار
تھا سارباں کا قصد کہ گرہوں کو واہ کرے
ہل جائے جس سے عرش خدا وہ جفا کرے
جنبش میں آگیا تن سلطان نیک ذات
رکھا ازار بند پہ حضرت نے داہنا ہاتھ
اس نے بھی خوب زور کیا حوصلہ کے ساتھ
بر آسکا مگر نہ کسی طرح بد صفات
پھر بھی نہ باز ظلم سے وہ بے حیا رہا
ہر گز نبی کا پاس نہ خوف خدا رہا
لایا کہیں سے تیغ شکستہ وہ روسیاہ
اور بے خطر جدا کیا لاشہ کا ہاتھ آہ
آیا ازار بند پہ دست یسار شاہ
وہ بھی شقی نے قطع کیا واہ مصیبتا
واحسرتا یہ ظلم وستم دست پاک پر
کیوں گر پڑا نہ پنجہ خورشید خاک پر
لکھا ہے جب ہوئی شہ بے کس پہ یہ جفا
تارے گرے زمیں پہ ہلا عرش کبریا
تھرائے لاشہائے شہیدان کربلا
غل شش جہت میں نالہ ء وفریاد کا ہوا
تا عرش تھی بلند صدا شور وشین کی
اور کانپتی تھی لاش شہ مشرقین کی
مقبول ہے وزیر کہے جا زبان سے
آمین کی آرہی ہے صدا آسمان سے

1 comment:

  1. ماشاء اللہ موفقین
    جزاکم اللہ خیرا موفقین

    ReplyDelete