Friday, July 23, 2010

شہادت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب چھٹی مجلس ذائقہ ماتم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
چھٹی مجلس
فضائل وذکر شہادت جناب امیر المومنین علی مرتضےٰ علیہ السلام
خوشا ما خوشا دین ودنیا ئے ما
کہ ہم چوں علی ہست مولائے ما
حضرات مقام فخر ومباہات ہے کہ ہم سب کو ایسا مولا ملا ہے، کہ جس کی قدر ومنزلت خدا وند کریم اور رسول اکرم کے نزدیک سب سے زیادہ ہے۔ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ لقب آپ کا ید اللہ ہے۔ یعنی دست خدا، مخمس من مولف
لولاک پئے ختم رسل حق کا ہے کلمہ
احمد نے کہا لحمک لحمی تمہیں مولا
حاصل ہوا ان دونوں حدیثوں کا نتیجہ
گر آپ نہ ہوتے تو فلک خاک نہ ہوتا
جو چاہو کرو مالک سرکار خدا ہو
اللہ اللہ کیا مرتبہ اس مالک کونین کا ہے۔ کہ جس کی ثناو صفت قدر ومنزلت امکان انسان میں تو ایک طرف انبیاء وپیغمبران کے خیال وگمان سے باہر ہے۔ من مولف
معراج کو جس دم گئی احمد کی سواری
ہمراہ نہ تھا کوئی بجز محرم باری
سدرہ کے تو آگے ہوئے جبرئیل بھی عاری
واں احمد مرسل تھے ویا ذات تمہاری
پھر کون یہ کہہ سکتا ہے احمد سے جدا ہو
چنانچہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔کہ جس دم میں بحکم رب جلیل ہمراہ جبریل کے تقرب بارگاہ الہیٰ کے لیے آسمان پر گیا۔ تو پردہ قدرت سے لہجہ علی میں مجھ سے کلام ہوئے۔ اور جو ہاتھ حجاب سے نکلا وہ علی کا تھا۔ اور کتب معتبرہ سے ثابت ہے کہ وقت سیر آسمان نظم
ناقے رسول حق کو نظر ایک بار
صندوق چوب خلد تھے دو دو ہر اک پہ بار
جاتی تھی غرب سے طرف شرق وہ قطار
گنئیے ازل سے گر توابد تک نہ ہو شمار
اس کی خبر ملک کو بھی غیر از خدا نہ تھی
مثل نجوم حصر نہ تھا انتہا نہ تھی
جبریل سے یہ کہنے لگے شاہ بحر وبر
ناقے یہ کیسے آتے ہیں اور جاتے ہیں کدھر
بار ان پہ کیا ہے لعل وزبر جد ہے یا گوہر
جبریل نے کہا یہ مجھے بھی نہیں خبر
دی حق نے روح جب سے میرے جسم زار کو
اس دن سے دیکھتا ہوں یونہی اس قطار کو
بولے نبی یہ حال ہو کس طرح آشکار
کی عرض اس نے دیکھیئے یا شاہ نامدار
بٹھلا دیئے فرشتوں نے ناقے بصد وقار
دیکھا رسول نے تو کتابیں ہیں بے شمار
صندوق تھے جو ناقوں کے اوپر دھرے ہوئے
تھے سب میں مرتضیٰ کے فضائل بھرے ہوئے
مومنین جب آپ کے آقا کے فضائل کی انتہا جناب رسالتمآب کو نہ معلوم ہوئی تو انسان مشت خاک کی کیا مجال ہے کہ شمہ بھی بیان کر سکے ،بقول مولئف
جبریل کو سدرہ پہ سبق تم نے پڑھایا
پیاسا تھا خضر آب بقا تم نے پلایا
مداح پیمبر کا سدا آپ کو پایا
قرآن تمام آپ کی مدحت میں ہے آیا
بندہ سے بھلا مدح وثنا خاک ادا ہو
بحار الانوار میں منقول ہے کہ جب جناب امیر پیدا ہوئے تو جناب رسالتمآب نے آپ کاجھولا اپنے فرش خواب کے قریب رکھا تھا۔ اور تربیت وپرورش فرماتے تھے۔ اور دست مبارک سے اکثر آپ کو غسل دیتے تھے۔ بالوں میں شانہ کرتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاتے تھے۔ گہوارہ جنبانی فرماتے تھے۔ لوریاں دیتے تھے۔ الغرض اسی طرح پرورش فرمائی۔جناب امیر علیہ سلام بھی جان ودل سے اپنے برادر بزرگ وار پر فدا تھے۔ تو پھر ایسے آقا پر مومنین جان ودل سے کیوں نہ فدا ہوں۔سبحان اللہ خدا نے بہمہ صفت اس ذات با برکات کو موصوف کیا چنانچہ روایت میں وارد ہے کہ آپ کی ذات میں باری تعالیٰ نے جملہ صفات جمع کر دیئے تھے۔اس سبب سے کوئی آپ کا مثل ونظیر نہ تھا۔ زہد کا یہ حال تھا کہ غذا آپ کی نان جویں تھی کہ جو زانو سے دبا کر توڑی جاتی تھی۔ اور عبا میں اس قدر پیوند تھے کہ لگانے والے اس سے شرم کرتے تھے۔
ایک روز آپ مسجد میں نماز پڑھ کر بیٹھے تھے کہ ایک عرب آیا ،نظم
مغرب کے فریضہ کو ادا کر چکے جب شاہ
سب اٹھ گئے تنہا رہا وہ بندہ اللہ
تھا آرد جو روزہ کشائی کو جو ہمراہ
لے ایک کف دست آپ نے افطار کیا آہ
اک مشت اسے بھی دیا وہ لطف وکرم سے
لے کر اسے رخصت ہوا وہ شاہ امم سے
وہاں سے شہزادوں کے دربار میں حاضر ہوا۔ حسنین علیہم السلام کو دیکھا۔ صاحبزادوں نے طعام لذیذ اس کے واسطے منگایا اور بلطف وعنایت کھلایا۔اور تمام فقراء حاضرین کو بھی عطا فرمایا۔نظم
وہ مرد عرب تھوڑے سے کھانے کو اٹھا کر
حضرت سے لگا کہنے کہ یا سبط پیمبر
مسجد میں گیا میں جو پئے طاعت داور
اک شخص کو واں دیکھ کے دل ہو گیا مضطر
محتاج ہے بےکس ہے غریب الغربا ہے
کھانے کے عوض آرد جو پھانک رہا ہے
اس مرتبہ کہنہ ہے کہ ثابت نہیں پوشاک
رکھا ہے گریبان قبا مثل کفن چاک
فرش اس کو میسر نہیں دنیا میں بجز خاک
ایسا کوئی محتاج نہ ہوگا تہہ افلاک
فاقے سے وہ بیٹھا ہوا ہے گھر میں خدا کے
ہو حکم تو دے آوں یہ کھانا اسے جا کر
پانی سے میرے سامنے روزہ کیا افطار
ہر گھونٹ پہ کہتا تھا کہ شکر اے میرے غفار
انبان میں سوکھے ہوئے ٹکڑے تھے جو دوچار
مجھ کو بھی عنایت کیے شفقت سے کئی بار
میں نے کہا مجھ سے تو چبائے نہیں جاتے
سخت ایسے یہ ٹکڑے ہیں کہ کھائے نہیں جاتے
یہ سن کر حضرت حسنین علیہھم السلام آب دیدہ ہوئے اور فرمانے لگے اے شخص یہ کہتا کیا ہے ۔بیت
مجبور نہیں ہیں اسداللہ وہی ہیں
ہم سب ہیں اسی در کے گدا شاہ وہی ہیں
یہ سن کر وہ مرد عرب آپ کے اتقا اور پرہیز گاری پر بہت رویا۔سبحان اللہ کیا نفرت لذات دینوی سے تھی۔ اور پھر بھی آپ حاکم دنیا ودین تھے۔اور با وصف ان تکیلفات جسمی تقلیل قوت کے ایسے قوی اور شجاع تھے کہ قصہ عمر وعبدود ومرحب وعنتر و احد وبدر وحنین وخندق وصفین زبان زد خلائق ہے۔ تشریح کی حاجت نہیں۔ سخاوت ایسی تھی کہ کبھی سائل آپ کے حضور سے محروم نہ پھرا۔چنانچہ ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک سائل آپ کے پاس آیا۔اس دن آپ کئی روز کے فاقے سے بیٹھے تھے۔ اس نے چار ہزار درہم کا سوال کیا۔ اللہ اللہ ری سخاوت
سائل سے یہ سن کر متردد ہوئے حیدر
فرمانے لگے حضرت سلمان کو بلا کر
وہ باغ جو میرا ہے عنایات پیمبر
بیچو اسے جتنے کو بکے جلد برادر
فانی ہے جہاں دم میں خدا جانے کہ کیا ہو
سائل کی تو حاجت کسی صورت سے روا ہو
الغرض وہ باغ سلمان نے فروخت کیا ۔اور آپ نے سائل کو چار ہزار درہم دیئے۔اور باقی تمام مساکین کو تقسیم کر دیئے۔بیت
ذرہ نہ رہا پاس جب اس باغ کے زر میں
فاقہ سے گئے فاقہ سے داخل ہوئے گھر میں
اس وقت جناب فاطمہ زہرا نے پوچھا کہ یا علی میں اور حسنین تین روز کے فاقہ سے ہیں۔آپ نے باغ بیچا اور گھر میں کچھ نہ لائے۔ آپ یہ سن کر باہر جانے کے قصد سے اٹھے،تو جناب سیدہ نے دامن مبارک پکڑ لیا اور فرمانے لگیں۔نظم
حضرت کی سخاوت کا تو وہ گھر کا یہ احوال
میں فاقہ سے تم فاقہ سے فاقہ سے میرے لال
کچھ پاس میں رکھتی نہیں دنیا کا زرومال
عسرت میں ہی گزرے چلے جاتے ہیں مہہ وسال
آفاق میں محتاج ہوں پیراھن نو کو
اک کہنہ ردا ہے وہی جاتی ہے گرو کو
حضرات یہاں علی وزہرا میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ خالق کا پیام لے کر روح الامین سید المرسلین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اور کہا کہ اے رسول مختار حکم پروردگار یہ ہے کہ ہمارے ولی کا دامن آج فاطمہ نے پکڑ لیا ہے۔ بیت
ہم پیار بہت کرتے ہیں ااس اپنے ولی کو
زہرا سے کہو چھوڑ دے دامان علی کو
یہ حکم سن کر جناب رسول خدا خانہ فاطمہ میں تشریف لائے اور پیام رب جلیل زبانی جبرائیل جو سنا تھا ۔ارشاد فرمایا،اور فاطمہ زہرا ،بیت
تھرا گئیں یہ سن کے سخن منہ سے نبی کے
بس چھوڑ دیا ہاتھ سے داماں کوعلی کے
اس وقت جناب رسول خدا نے ید اللہ کو گلے لگایا۔اور فاطمہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اور شفقت سے فرمایا کہ تم نے کئی روز سے کھانا نہیں کھایا ہے۔ پھر آپ نے سات درہم دے کر ارشاد فرمایا کہ کھانا منگاو۔وہ درہم جناب امام حسن لے کر ہمراہ پدر بزرگوار بازار میں آئے۔ یہاں پر ایک بندہ حق آگاہ کہتا تھا، کہ خدا کی راہ پر مجھ کو کوئی قرض دے۔ سبحان اللہ سخاوت اسی کا نام ہے۔ بیت
یہ سن کر نہ دیکھا گیا پابند غم اس کو
مولا نے وہیں دے دیے ساتوں درہم اس کو
اور جناب حسن سے بشفقت فرمایا کہ جان پدر خالق رزق دینے والا ہے۔ مگر اس وقت اس کو نہ دینا مجھ کو شاق تھا۔ اب اپنے مولا کے حال پر خدا کی عنایت وشفقت ملا حظہ فرمائیں۔ کہ آپ تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ ایک عرب سامنے آیا۔ اور کہا یا علی ناقہ خریدو گے۔ آپ نے عذر کیا کہ میرے پاس قیمت نہیں ہے۔ اس نے عرض کی کہ میں قرض دے دوں گا۔آپ نے ایک سو درہم قیمت طے کرنے کے بعد لے لیا۔ اسی اثنا ء میں ایک شخص نے آکر خواہش خریداری کی۔اور بعد گفتگو آپ کو ایک سو ستر درہم نقعد دے کر ناقہ مول لے لیا۔ اور ناقہ آپ نے حوالہ مشتری کیا۔ نظم
جب واں سے روانہ ہوئے وہ ناقہ کو لے کر
بازار میں بایع کو ڈھونڈنے حیدر
ناگاہ نظر آئے سر راہ پیمبر
فرمایا کسے ڈھونڈتے پھرتے ہو برادر
جبریل تھے جو قرض تمہیں دے گئے ناقہ
میکائیل تھے جو مول ابھی لے گئے ناقہ
اگر آپ کی سخاوت کا حال بیان ہو تو ایک دفتر ہو جائے۔ نظم
کیا فیض ہے کیا خیر ہے کیا جودو سخا ہے
کیا رحم ہے کیا بخشش والطاف خدا ہے
محتاج اسی در کا ہر اک شاہ وگدا ہے
حقا کہ دو عالم کا علی عقدہ کشا ہے
سائل کبھی خالی نہ گیا سامنے آکر
یا آپ دیا یا اسے دلوادیا جا کر
شاہوں کی سخاوت کو نہیں تجھ سے کوئی نسبت
وہ قطرے ہیں تو قلزم ذخار سخاوت
کیا تیری سخاوت ہو بیاں کیا تری عزت
کعبہ میں ولادت ہوئی مسجد میں شہادت
کیوں عزو شرف تیرا نہ مقبول خدا ہو
عبادت کا یہ حال تھا کہ جس وقت آپ نماز کو کھڑے ہوتے تھے۔ تو تمام بدن مثل بید کے تھرتھراتا تھا۔ تمام رات خوف الہیٰ سے رویا کرتے تھے۔ یا یتیموں کی خبر گیری میں مشغول رہتے تھے۔ اور ہمیشہ بجز یوم عید فطر کے روزہ رکھتے تھے۔ عبادت میں اس قدر رجوع قلب تھا۔ کہ ایک مرتبہ کسی جنگ میں پائے مبارک کی ایڑی میں تیر لگا،اور کسی طرح نہ نکلا ۔تب قنبر نے نماز پڑھنے میں کھینچ لیا ۔اور آپ کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ منقول ہے کہ ایک روز کسی شخص نے آپ سے سوال کیا کہ یا مولا اکثر عابدوں اور دوستان خدا کا چہرہ بوجہ محنت عبادت مثل زعفران کے زرد دیکھا گیا ہے۔ اور آپ باوجود کے سردار عابدوں کے ہیں۔اور کسی عابد وزاہد کی مجال نہیں کہ آپ کے لاکھ حصہ میں سے ایک حصہ کے برابر بھی عبادت کر سکے، مگر کیا وجہ ہے کہ آپ کا چہرہ مبارک نہایت روشن اور سرخ رہتا ہے۔ بیت
ہے بدر کو کمال تمہارے کمال سے
روشن ہے روئے مہر منور جمال سے
اور قوٰے بھی آپ کے سب سے زیادہ قوی ہیں۔سنیئے جواب اپنے آقا کا۔ فرمایا آپ نے کہ اے شخص اگر چہ دوستان خدا نے اس کی محبت میں دم بھرا اور عبادت کیا کرتے تھے ،مگر اپنے مراتب سے واقف نہیں ہیں۔ اس وجہ سے سینہ چاک خطرناک رہتے ہیں۔ جیسا کہ حال یحٰٰیی میں لکھا ہے کہ ان کے والد حضرت ذکریا جب واعظ فرماتے تھے تو حضرت یحییٰ کو دیکھ لیا کرتے تھے۔ کہ ایسا نہ ہو وہ سن لیں۔ اتفاقا ایک روز حضرت یحییٰ مابین واعظ ایک گوشہ میں آبیٹھے۔ اور بحسب اتفاق حضرت ذکریا نے سکران وغضبان کا ذکر فرمایا۔ جس کو سنتے ہی حضرت یحیی روتے ہوئے جنگل کو نکل گئے ،اور فرماتے تھے۔
گفت یحیی وہ چہ نادانیم ما
غافل از سکران وغضبانیم ما
آخر والدین ان کی تلاش میں گئے۔ تو آپ کو دیکھا کہ زار زار روتے ہیں۔اور بوجہ فرط گریہ آپ کے چاروں طرف کی زمین تر ہو گئی تھی۔ با آواز درد ناک عرض کرتے تھے۔کہ پالنے والے میری کون سی جگہ ہے۔ جب تک نہ دیکھوں گا دنیا میں نہ جاوں گا۔ تو جب اس قدر خوف الہیٰ ہو تو کیوں کر عابدوں کا رنگ زرد نہ ہو۔ اور میری آنکھوں نے خالق اکرم نے تمام پردے ظلماتی اٹھا دیئے ہیں۔ اور قوت قدسیہ میری زیادہ اور قوت بشری میری زائل ہو گئی ہے۔ میں نے اپنے معبود کو راضی پایا۔ اور کسی امر میں میں نے اپنے خالق کو غضبناک نہیں بلکہ اپنے اوپر اسے مہربان پایا ہے۔دیکھا۔ میرے تمام افعال اسے پسند ہیں۔اور میں نے سنا ہے کہ میری اولاد کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں دوست رکھتا ہوں اور وہ مجھے دوست رکھتے ہیں۔ لہذا اے شخص جب میں نے اپنے مالک کو اس قدر رضا مند دیکھ لیا،بیت
حق میرا ثنا خواں ہے میں حق کا ہوں ثنا خوان
باور نہ ہو کسی کو تو موجود ہے قرآن
تو پھر کیا وجہ ہے کہ مثل دیگر عابدوں کے میرا رنگ زرد ہو،بلکہ اسی خوشی میں جو کچھ میری کیفیت ہے،اگر اس سے بھی دہ چند ہو تو بھی تھوڑا ہے۔ بیت
کچھ نور جو پیدائش حیدر سے بچا ہے
وہ چاند کو اور مہر درخشاں کو ملا ہے
عدالت بھی آپ کی احاطہ تحریر سے باہر ہے۔اگر مختصر طور سے بھی بیان کروں تو بہت طول ہو جائے گا۔لہذا ان پانچ مصرعوں پر اکتفا کرتی ہوں۔ مولف
منصف نہیں دنیا میں کوئی تجھ سے ہے بہتر
ہے عدل تمہارا یہی ہر اک کی زباں پر
کیا عدل کرے گا کوئی اس عدل سے بڑھ کر
ایک دم میں کیا فیصلہ باز وکبوتر
عادل کی قسم عدل میں تم سب سے سوا ہو
اور آپ کے رحم کا یہ حال تھا کہ آدم سے لے کر اس وقت تک نہ دیکھا نہ سنا چنانچہ شب ہائے تاریک میں غلہ وگوشت وغیرہ دوش مبارک پر بار کرکے اندھوں اور غریبوں کو تقسیم کرتے پھرتے تھے۔ تاکہ ضعیف اور نابینا زحمت چلنے پھرنے کی نہ اٹھائیں۔ یتیموں کی پرورش فرماتے اور لنگڑوں کی خدمت کرتے تھے۔ یہ رحم نہ صرف اس عالم فانی میں تھا۔ بلکہ جب سے کہ نور آپ کا ہمراہ نور رسالت قبل از پیدائش آدم پیدا ہوا۔ اسی وقت سے آپ کا فیض ایسا ہی تھا۔ اکثر پیغمبروں کی وقت مصیبت مدد فرمائی۔ حضرت آدم کو حضرت حوا سے ملایا۔ یونس کو قید بطن ماہی سے چھڑایا۔ زکریا کو آرے کے نیچے سے نکالا۔ نار ابراھیم کو گلشن بنایا۔خضر کو ظلمات کا راستہ بتایا۔ مولف
داغ کف مو سے ید بیضا کیا تم نے
دکھ درد سے ایوب کو اچھا کیا تم نے
ذرے کو قمر قطرے کو دریا کیا تم نے
بن باپ کے بیٹے کو مسیحا کیا تم نے
ڈرتا ہوں کہیں منہ سے نہ کہہ بیٹھوں اسرار خدا ہو
حضرات جناب رسول خدا نے شب معراج آپ کے اوصاف سے شتران بے شمار لدے ہوئے ملاحظہ فرمائے۔اور حد وانتہا ان کی دریافت نہ فرماسکے تو اس ذرہ بے مقدار گنہگار کی کیا مجال کہ لکھ سکے۔مولف
مداح تیری مدح کے لکھنے میں حیران ہے
ہر وقت اسی فکرمیں رہتا ہے پریشان
قدرت یہ کسی میں نہیں جز خالق یزدان
اک وقت میں چالیس جگہ تم ہوئے مہمان
ہوتا ہے عیاں اس سے کہ اسرار خدا ہو
حضرات کچھ مرتبہ اپنا بھی سن لیجیئے۔جو آپ کو مولا کی غلامی کے سبب حاصل ہے۔ یقین ہے کہ آپ کے قلوب بالیدہ ہو جائیں گے۔پیش خدا آپ کا وہ رتبہ ہے۔ نظم
شاہ نجف کے دوست خدا کے خلیل ہیں
درگاہ ذوالجلال میں رتبے جلیل ہیں
دعوئے ہمارے کوئی نہیں بے دلیل ہیں
طے ہو گئے یہ امر بصد قال وقیل ہیں
ثمرہ یہ روز حشر عبادت کا پائیں گے
مولا ہمیں بہشت میں خود لے کے جائیں گے
اللہ رے شعیان علی کا وقار وجاہ
ان پر مدام ہے نظر رحمت الہٰ
کھا جاوئے یوں ولا علی شعیوں کے گناہ
ہیزم کو جیسے آتش سوزاں خدا گواہ
دوزخ ہے ان سے دور یہ دوزخ سے دور ہیں
خلق ان کے واسطے ہوئے حور وقصور ہیں
لکھا ہے ایک شخص یہودی کا تھا غلام
حب علی میں قید ہوا تھا وہ نیک نام
زندان کی طرف سے نکلتے تھے جب امام
پابند اس لحاظ وادب کا وہ تھا مدام
بیڑی پکڑ کے اٹھتا تھا تعظیم کے لئے
جھکتا تھا طوق پہنے وہ تسلیم کے لئے
ایک دن جناب علی مرتضیٰ جناب رسول خدا کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔کہ ایک شخص نے آکر عرض کی کہ یا مولا یہودی کا وہ غلام جو آپ کو بصد ادب وعقیدت تسلیم بجا لایا کرتا تھا۔ آج آپ کا وہ محب اس دنیا ئے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گیا۔ مگر کوئی اس کو غسل وکفن دینے والا نہیں ہے۔ نظم
یہ سن کے اٹھ کھڑے ہوئے پیغمبر زمن
بولے ہم آپ غسل اسے دیں گے اور کفن
پیارا ہمیں بہت ہے محب ابوالحسن
واقف ہےاس کے حال سے خلاق ذوالمنن
ادریس لے کے حلہ فردوس آئیں گے
پانی خضر کے چشمہ سے الیاس لائیں گے
باہم چلے نبی وعلی مضطر وملول
دورحمتوں کا لاش پہ اس کی ہوا نزول
پانی کا ظرف لے کے بڑھا شوہر بتول
میت کو اپنے ہاتھ سے دھونے لگے رسول
عصیاں کی بو ضنوط سے کافور ہو گئی
مردے کی شکل نور سے معمور ہو گئی
پھر اس کے زیب تن علی نے وہ کفن کیا
قدرت نے جس کو رشتہ رحمت سے تھا سیا
ادریس کہتے تھے کہ زہے شان کبریا
بخشی علی نے ذرے کو خورشید کی ضیا
فردیں تمام دھل گئیں اعمال زشت کی
اب یہ ہے اور سیر ہے باغ بہشت کی
پہنا چکے جو خلعت عقبیٰ اسے علی
معراج دوش صاحب معراج پر ملی
آکر ہوا شریک یر اک پیروئے علی
لیکن اتارا قبر میں مردے کو جس گھڑی
یارا نہ پھر نگاہ کا خیر البشر کو تھا
یا تو تھا ادھر یا رخ روشن ادھر کو تھا
اصحاب نے یہ عرض کی اے فخر انبیا
کیا وجہ جو حضور نے منہ کو پھرا لیا
حضرت نے مسکرا کے جواب ان کو یہ دیا
میں دیکھتا ہوں قبر میں اسرار کبریائی
گویا علی کے دوست کی یاں کدخدائی ہے
جو حور آئی ہے وہ دلہن بن کے آئی ہے
مومنین آپ نے اپنے آقا کی شجاعت وسخاوت اور عبادت کا حال سنا۔اور حضرت کا اپنے غلاموں پر رحم وکرم سماعت فرمایا۔مقام عبرت ہے کہ باوجود اس مرتبہ آپ اکثر فرماتے تھے۔ کہ آہ آہ زاد سفر بہت کم ہے۔اور دور دراز وحشت ناک سفر درپیش ہے۔ ہاں حضرات آپ خوب سمجھتے ہیں۔کہ یہ سفر آخرت ہے۔ جس کے خوف سے امام کون ومکان امیر المومنین یوں فرماتے تھے۔ افسوس ہے ہمارے حالوں پر کہ شب وروز امورات ممنوعہ میں مشغول رہتے ہیں۔بجز عنایت رب کائنات اور شفاعت سید کونین ورفاقت شاہ بدر وحنین اور تصدق شہادت حسنین اور کوئی وسیلہ نجات نہیں ہے۔ کتب معتبر میں وارد ہے کہ کیسا ہی گنہگار بندہ ہو۔اگر وہ مصائب آئمہ اطہار پر روئے گا یا رولائے گا۔ تو بے شک جنت میں جائے گا۔ نظم
ہاں مومنو روو کہ نہیں صبر کا یارا
دنیا سے وزیر شہ لولاک سدھارا
روزے میں نمازی کو ستمگار نے مارا
محراب میں زخمی ہوا سرتاج ہمارا
آب دم شمشیر دیا شاہ ھدا کو
کیا خوب کھلا ئی سحری شیر خدا کو
حدیث میں وارد ہے کہ جب شب انیسویں ماہ رمضان یعنی شب ضربت حیدر کرار آئی۔اس شب کو آپ کبھی حجرے کے اندر جاتے تھے۔ اور کبھی صحن خانہ میں آتے تھے۔ درو دیوار سے صدائے گریہ وزاری اس طرح بلند تھی۔ بیت
حیدر کی سواری سوئے فردوس چلی ہے
جاگو یہ شب قدر شب قتل علی ہے
حضرت ام کلثوم فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ آقا آپ کو کبھی ایسا مضطر نہیں دیکھا ۔ کس کا خوف ہے کہ تمام اعضائے بدن تھر تھراتے ہیں۔فرمایا جان پدر نظم
درپیش ہے ادنیٰ کو اب اعلیٰ کی ملاقات
آیا تھا بندھے ہاتھ میں جاتا ہوں کھلے ہاتھ
ہدیہ جو وہ مانگے تو کیا دوں گا میں سوغات
نے عذر کی طاقت نہ سفارش کا کوئی پاس
مرقد کے تصور میں میرے ہوش کہیں ہیں
مسکن بھی نیا اور مصاحب بھی نہیں ہیں
کلثوم نے رو کر کہا واحسرت دردا
کیا بیٹیاں اب صبر کریں آپ کو بابا
فرمایا جو ارشاد پیمبر ہے وہ ہوگا
دوروز ہے دنیا میں بس اب قوت ہمارا
اکیسویں کو اٹھے گا تابوت ہمارا
واللہ ابھی خواب میں یہ دیکھتے تھے ہم
کعبہ کے حوالی میں جو ہے کوہ معظم
دو سنگ لیے اس میں سے جبریل نے اس دم
اور بام پہ کعبہ کے اسے توڑا بصد غم
ٹکڑے بہت ان کے ہوئے حیدر کی نظر میں
مکہ میں مدینہ میں گرے سب کے وہ گھر میں
اس خواب سے ہر ایک کی حالت ہوئی تغیر
رو رو کے حسن بولے کہ کیا اس کی ہے تعبیر
حضرت نے کہا موت ہماری ہے گلو گیر
اب سجدے میں سر ہوگا ہمارا تہہ شمشیر
ٹکڑے جوگرے چارطرف کو سو وہ کیا ہیں
ہر شیعہ حیدر کے لئے سنگ عزا ہیں
پھر فرمایا اے حسن کل ہر گھر میں ہائے علی ہائے علی کا شور برپا ہو گا۔کل کے دن میری لاش آئے گی۔ زینب وکلثوم پچھاڑیں کھائیں گی
کل شیعہ بھی سے کھولیں گے اور اہل حرم بھی
زہرا کی ندا آئی کفن پھاڑیں گے ہم بھی
جناب زینب فرماتی ہیں کہ چار گھڑی رات رہے۔جس وقت تسبیح ہاتھ میں لے کر بابا نے مسجد میں جانے کا قصد کیا، تو سادات نے دست مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات ا ٹھائے۔ الغرض آپ نے مسجد میں داخل ہو کر گلدستہ اذان کو زینت بخشی۔ اذان دی،سب مومنین بعزم نماز تیار ہوئے ،اور دعا کرنے لگے کہ پالنے والے ہمیشہ گلدستہ اذان اس آواز سے رونق افروز رہے۔بعد فراغ اذان آپ نے گلدستہ سے اتر کر قندیلیں جو گل تھیں۔دست مبارک سے روشن فرمائیں۔ تو دیکھا آپ نے کہ ابن ملجم لعین سوتا ہے۔ باوجود کہ آپ کو علم امامت سے معلوم تھا کہ یہ عدوئے دین میرا قاتل ہے۔ لیکن آپ تو راضی برضا تھے۔ نظم
فرمایا منہ کے بل ہےپڑا کیوں سر زمین
شیطان کا یہ خواب ہے ہوشیار اے لعین
رکھتا ہے قصد وہ کہ ہلے عرش بالیقین
اٹھ حیلہ ساز مکر سے کچھ فائدہ نہیں
غافل ہے تو اس امر سے کب مانتا ہوں میں
جو چیز تو چھپائے ہے اسے جانتا ہوں میں
اس بدترین خلق سے یہ فرما کر امام انام نماز میں مشغول ہوئے۔آہ واویلا فدا ہو ں جانیں شیعوں کی اس امام کونین پر کس زبان سے عرض کروں کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سینہ شق ہوا جاتا ہے۔
سب مومنو ں کی زیست کی صورت بگڑ گئی
سجدے میں سر ابھی تھا کہ شمشیر پڑ گئی
وہ زہر میں بجھی ہوئی شمشیر الاماں
در آئی تا جبین شہنشاہ دوجہان
مولا نے آہ کی نہ کیا کچھ نوحہ فغاں
بسم اللہ آپ کہہ کے تڑپنے لگے وہاں
صدمہ سے قدسیوں کو غش اکبار آگیا
وہ آہ کی کہ جس سے جگر تھر تھرا گیا
روح الامین نے مضطربانہ باشک وآہ
نوحہ کیا کہ شہر مدینہ ہوا تباہ
مارا گیا امیر عرب شاہ دیں پناہ
داماد مصطفیٰ کوکیا قتل بے گناہ
سردار کائنات کا بے ہوش ہوگیا
ہے ہے چراغ دین کا خاموش ہو گیا
فریاد جبرائیل سے گھبرائے مومنین
دوڑے حسن حسین بصد نالہ وحزیں
ورد زبان تھا واابتا وا امام دین
دیکھا تڑپ رہے ہیں ید اللہ سرزمین
مجمع ہے گرد خویش رسالت پناہ کے
جاری ہے خون فرق مبارک سے شاہ کے
یہ صورت پدر بزرگوار کی دیکھ کر حضرت شبر وشبیر بہت دل گیر ہوئے اور عرض کی کہ بابا کس سنگدل نے آپ کو یہ شمشیر لگائی۔فرمایا ابن ملجم لعین نے۔ آہ آہ اس وقت حسنین علھیم السلام کا عجب حال تھا۔القصہ ان دونوں شہزادوں نے نظم
بابا کا لہو پہلے تو چہرے پہ لگایا
پھر دونوں نے مابین گلیم ان کو لٹایا
لے کے جو چلے رونا علی کو بہت آیا
شبیر نے پوچھا تو یہ حیدر نے سنایا
رونا ہے یہ جب سر کو تو کٹوائے گا پیارے
کوئی نہ تیری لاش کو اٹھوائے گا پیارے
کیا لاش کے آنے کی سناوں حشم وجاہ
بالیں پہ حسن پائنتی شبیر تھے واللہ
عباس کا قد چھوٹا تھا ان روزوں میں جو آہ
سرپیٹتے لاشے کے تلے جاتے تھے واللہ
انبوہ فرشتوں کا ادھر اور ادھر کو
اور شیعوں کا غول آگے برہنہ کیے سر کو
عباس پہ رقت جو بہت ہوتی تھی طاری
سمجھاتے تھے شبیر کہ کیوں کرتے ہوزاری
بابا جو نہیں ماں ہیں تسلی کو تمہاری
ہم کیا کریں جیتی نہیں اماں بھی ہماری
شبیر کی یہ بات جو سن پاتے تھے حیدر
تھے عالم غش میں تڑپ جاتے تھے حیدر
اس وقت حسن نے شہ مرداں سے یہ پوچھا
عباس کی مادر تو نہیں اس غول میں اس جاہ
ہے ہے میرے والی یہ صدا کس کی ہے پیدا
حیدر نے کہا فاطمہ چلاتی ہے بیٹا
سر پیٹتے ہیں حمزہ بھی پیغمبر دین بھی
روتے ہیں اسرافیل بھی اور جبرائیل بھی
الغرض اسی طرح مع گروہ انبیا وملائکہ وجن وانس روتے ہوئے آنحضرت کو قریب حرم محترم لائے،تو کیا دیکھتے ہیں ۔نظم
ڈیوڑھی پہ مضطرب ہیں کھڑی بیبیاں بہم
دیکھا یہ حال جب تو لگے پیٹنے حرم
فرمایا یہ امام حسن نے بہ درد وغم
نا محرم اس جگہ سے اٹھائیں نہ اب قدم
پھٹ کر گرے نہ عرش کہیں ذوالجلال کا
واجب ہے احترام محمد کی آل کا
اک دن یہ اہلبیت نبی کا تھا احترام
یعنی کوئی سنے نہ صدا خاص ہو کہ عام
اک روز کربلا میں اعدا کا تھا اژدہام
ہے ہے اتار لے گئے چادر بھی اہل شام
بے پردہ قید ہو کے کہاں سے کہاں گئیں
تا شام سربرہنہ وہی بیبیاں گئیں
لاشہ لیے پہنچے سر دروازہ جو بارے
لپٹے ہوئے روتے تھے حرم پردے سے سارے
عباس علی روتے ہوئے گھر کو سدھارے
دکھلا کے گریبان پھٹا ماں کو پکارے
لو خاک ملو منہ پہ ردا پھینک دو سر کی
اے اماں چلو لینے کو لاش آئی پدر کی
سب روتے ہوئے دوڑے کہ لاشہ وہیں آیا
حجرے میں ید اللہ کو مسند پہ لٹایا
عباس کو عباس کی مادر نے بلایا
صدقے کی طرح گرد علی اس کو پھریا
اور بولیں کہ یا رب میرے والی کو شفا دے
صدقہ یہ پسر دیتی ہوں وارث کو بچا دے
تھرا کے علی نے کہا غصے سے یہ اس آن
ہاں تھام زبان اپنی کدھر کو ہے ترا دھیان
عباس پہ تو صدقے میں عباس پہ قربان
عباس کی تو کون ہے یہ ہے فاطمہ کی جان
بی بی کہیں زہرا کا عتاب آئے نہ تجھ پر
شبیر کے فدیہ کو فدا کرتی ہے مجھ پر
ہے یہ میرے شبیر کے لشکر کا علمدار
مالک ہے حسین اس کا تو اس کی نہیں مختار
اس وقت میرے سامنے پھرتے ہیں یہ آثار
سر ننگے اسی کوفہ میں زینب سر بازار
زلف سر شبیر ہے اور چوب سناں ہے
بھائی کے برابر سر عباس رواں ہے
جناب زینب وکلثوم قدموں سے لپٹی ہوئی روتی تھیں،کہ افسوس بابا زخم شمشیر کھا کر جنت کو جاتے ہیں۔ ہم یتیم ہو رہے ہیں۔ ارےکوئی جراح یا حکیم کو لاو کہ زخم کا علاج کرے، کبھی بحال یاس فرماتی تھیں
شمشیر ظلم سر سے جبیں تک اتر گئی
بابا شہید ہو گئے اور میں نہ مر گئی
آئے معالجے کو جو اطبائے بے نظیر
دیکھا جو زخم حال سبھوں کا ہوا تغیر
بولے عمامہ پھینک کے یا حضرت امیر
یہ گھاو آپ کا نہیں ہر گز دوا پذ یر
تیغ جفا غضب کی تھی ضربت تھی قہر کی
تا مغز سر پہنچ گئی تاثیر زہر کی
مایوس اس سخن سے ہوئے شاہ کے حرم
بستم سے زہر کا تھا اثر سر سے تا قدم
شبر کو جانشیں کیا اپنا بدرد وغم
شبیر کو لگا کے گلے سے بچشم نم
بولے یہی مشیت رب انام ہے
بیٹا حسن کے بعد تو کل کا امام ہے
ہو گا شہید زہر سے شبر بصد ملال
مانند گوسفند کریں گے تجھے حلال
ناموس مصطفےٰ کے کھلیں گے سروں کے بال
نیزے پہ سر چڑھے گا تیرا اے نکو خصال
چھوڑیں گے ریگ گرم پہ پیماں شکن تجھے
چالیس روز تک نہ ملے گا کفن تجھے
لیکن دعائے بد سے قیامت نہ ہو کہیں
جز صبر دم نہ ماریو اے میرے نازنین
ہنگام مرگ کیجیئو عابد کو جانشین
فرمائے گئے تھے مجھ سے یہی ختم مرسلین
ہم نے تو عزم جانب دار البقا کیا
پیارے حسین تجھ کو سپردکل خدا کیا
اے شیعو اب نہ پوچھو کہ پھر حال کیا ہوا
اکیسویں شب آئی تو شور بکا ہوا
تم بے امام ہو گئے محشر بپا ہوا
دنیا سے انتقال شہ لافتا ہوا
سب اہل بیت بے کس ودلگیر ہو گئے
ہے ہے یتیم شبر وشبیر ہو گئے
سر پیٹنے کی جاہ ہے محبان مرتضےٰ
دنیا سے بے کسوں کا ہوا خواہ اٹھ گیا
غسل وکفن تو دے چکے سبطین مصطفےٰ
تابوت اٹھا کے لے چلے شیر الہ کا
شال عزا گلے میں ہے بالوں پہ خاک ہے
دامن تلک قبا کا گریبان چاک ہے
اس وقت شہزادوں کا حال کیا عرض کروں۔جناب زینب وام کلثوم پچھاڑیں کھاتی تھیں۔ اور فضہ سر پیٹتی تھی۔ ام البنین بحال حزین سر دھنتی تھیں۔ نظم
کلثوم یہ کرتی تھی بیاں لاش کے اوپر
تم مر گئے ہے ہے مرے بابا مرے سرور
گویا کہ زمانے سےاٹھے آج پیمبر
واللہ کہ برباد ہوا فاطمہ کا گھر
ہے کون جو اب دست کرم سر پہ دھرے گا
اب کون یتیموں پہ بھلا رحم کرے گا
اب کون ہمیں پیار سے فرمائے گا دختر
اب کون وضو کے لئے منگوائے گا ساغر
بابا بھی موئے ماں بھی موئی وائے مقدر
یا شاہ بہت بیٹیاں ہیں آپ کی مضطر
قسمت نے دیا داغ پیمبر کے جگر پر
وارث نہ رہا زینب وکلثوم کے سر پر
رخ کرکے سوئے قبر شہ یثرب وبطحا
سر پیٹ کے کہنے لگی یہ ثانی زہرا
بن باپ کے بیٹی ہوئی فریاد ہے نانا
لو آکے یتیموں کی خبر سید والا
صدمہ ہے یتیموں کے دل چاک کے اوپر
بے ہوش نواسے پڑے ہیں خاک کے اوپر
راوی نے لکھا ہے کہ صدا آئی یہ اس دم
زینب کئی دن سے تو ہیں موجود یہاں ہم
کیا مجھ کو نہیں حیدر کرار کا ہے غم
واللہ کہ غش مجھ کو چلے آتے ہیں پیہم
مرگ اسد اللہ سے مشغول بکا ہوں
میں لاشہ سے لپٹا ہوا سر پیٹ رہا ہوں
ادھر شاہزادیوں کا یہ حال تھا، ادھر در اقدس پر
چلا رہے تھے یہ فقرا سر کو پیٹ کر
اب کون لے گا بے کس ومحتاج کی خبر
رانڈوں کے بین یہ ہیں کہ اے شاہ بحر وبر
بے وارثوں کو چھوڑ کے تم تو گئے گزر
باقی رہی نہ آس جناب امیر کی
خدمت کرے گا کون یتیم واسیر کی
اے مومنو یہ خاک اڑانے کا ہے مقام
رخصت علی کی لاش سے ہوتے ہیں خاص وعام
مجمع ہے عورتوں کا تو مردوں کا اژدہام
بے ہوش خاک پر ہیں پڑے مومنین تمام
ہاں شور الفراق کا کس جا بپا نہیں
حیدر کے دوستو یہ خاموشی کی جا نہیں
تم بھی کہو کہ حیدر کرار الوداع
اے جانشین احمد مختار الوداع
فاقہ کش وغریب ودل افگار الوداع
رانڈوں کے اور غریبوں کے غمخوار الوداع
تیر الم دلوں سے ہزاروں گزر گئے
ہے ہے حضور مر گئے اور ہم نہ مر گئے
بس اے وزیر مالک دین کوچ کر گیا
دنیا سے تاج دار دو عالم گزر گیا

No comments:

Post a Comment