بقیہ دوسری مجلس
القصہ بنت رسول نے جواب سلام سے لعیا کو شاد فرمایا۔ اس خوش اندام کی شکل و شمائل مشاہدہ فرما کربصد تعجب زبان معجز بیان سےارشاد فرمایا۔کہ اے خواہر میں نے تجھ کو آج تک نہیں دیکھا۔جلد بیان کر کہ تو کس قوم اور قبیلہ سے ہے۔ تیرا نام کیا ہے۔ میرے گھر اس وقت تیرے آنے کا سبب کیا ہے۔یہ سن کر لعیا نے دست بستہ ہو کر عرض کہے۔اور اس کنیز ناچیز کا مع حوران باتمیز دولت سرائے عالی میں حاضر ہونے کا یہ سبب ہے کہ برگزیدہ خدا جو اس وقت آپ کے بطن اقدس سے رونق افزائے گلشن دنیا ہوا چاہتا ہے۔ خالق ارض وسما کے حکم سےاس کی خدمت گزاری اور قابلہ گری پر سرفراز وممتاز ہو کرفیض یاب خدمت عالی ہے۔حضرات یہ سنتے ہی وہ شفعیہ روز جزا نے بسبب بے سرو سامانی شرم وحیا سے اس قدر ملول ومحزون ہوئیں کہ وفور حزن وملال سے قریب تھا کہ چشم ہائے حق بین سےگوہر اشک جاری ہوں۔ بلکہ مرقوم ہے کہ اس روز اس معصومہ دوجہان پر فاقہ تھا۔اور ایک پرانی بوریا کے سوا فرش کچھ بھی نہ تھا۔آپ نے لعیا سے ارشاد فرمایا کہ اے لعیا میں بجز اس پرانے بوریا کے کچھ نہیں رکھتی۔ نظم
سن کے لعیا نے یہ ارشاد جناب زہرا
باندھ کر ہاتھ یہ کی عرض کہ اے نور خدا
آپ کے فرش پر بیٹھوں نہیں مقدور مرا
مجھ سے ہرگز یہ نہ ہوگا یہ نہ ہوگا حاشا
ترک آداب ہے گر پاوں رکھوں میں اس پر
ہاں اجازت ہو تو آنکھوں کو ملوں میں اس پر
یہ جگہ پیٹنے اور رونے کی ہے اہل عزا
پاس ادب یہ لعیا نے کیا زہرا کا
بوریئے پر بھی نہ پاوں کو ادب سے رکھا
مگر امت نے نہ کی قدر نبی وزہرا
ذبح بے جرم وخطا فاطمہ کا لال کیا
مسند احمد مختار کو پامال کیا
ابھی جناب فاطمہ زہرا یہ ارشاد فرمارہی تھیں کہ فورا حکم رب جلیل حضرت جبرائیل کو ہوا کہ نور دیدہ رسول ہماری کنیز خاص بتول لعیا سے فرش نہ ہونے کی معذرت کر رہی ہے۔ اور بوجہ عسرت مخزون وملول ہے۔ اس وقت ہم کو
فاطمہ کی معذرت ناگوار ہے۔ لہذا بہت جلد بہشت عنبر سرشت کے سندس واستبرق کے فرش مع حورا کے لے جا کر خانہ فاطمہ زہرا میں بچھوادے۔ تاکہ شان وبزرگی میری فاطمہ کی لعیا پر ظاہر ہو۔ حضرت جبرائیل نے نظم
حکم یوں خالق کونین کا حورا کو دیا
فرش استبرق وسندس کا شتابی لے جا
مجھ کو اللہ نے یہ حکم دیا ہے حورا
متردد ہے پئے فرش جناب زہرا
اس کو جلدی سے بچھا گھر میں تو اب زہرا کے
ہے وہ مخزون بٹھانے کے لئے لعیا کے
کیوں حضرات خدا وند کریم کو ملال خاطر فاطمہ زہرا کس قدر ناگوار تھا۔آہ واویلا امت جفا کار اسی فاطمہ کی بہووں اور بیٹیوں کو کیسی خواری وذلت سے گرفتار کرکے شام کو لے گئی۔ اور ایسے ویرانے مقام پر محبوس کیا کہ
نظم
خرابہ وخستہ تھا اس درجہ وہ خرابہ شام
نہ سقف اس پہ تھی جز سقف چرخ نیلی فام
سوائے خاک نہ تھا نام کو بھی فرش کا نام
زمیں بھی اس کی تھی پست وبلند ہر یک گام
وہ ایک عرصہ سے مسکن تھا مار وکژوم کا
گزر نہ ہوتا تھا اس سرزمین پہ مردم کا
غرض جبرائیل بحکم رب جلیل مع حورا فرش لائے۔ جس وقت حورا مع فرش دولت سرائے حضرت فاطمہ میں گئی۔ سلام بجا لانے کے بعد فرش کا مقام دریافت کیا۔ جناب فاطمہ نے اس کا نام اور فرش لانے کا سبب پوچھا۔ تو حورا نے خدائے جلیل کے حکم سے اپنا نام اور جبرائیل کی ہمراہی کا حال مفصل عرض کیا۔ جس کو سنتے ہی حضرت فاطمہ نے سجدہ شکر درگاہ معبود میں ادا کرنے کو سر جھکایا۔ابھی سر مبارک سجدے سے نہ اٹھایا تھا کہ حورا نے فرش بچھا کر جناب فاطمہ کا مکان رشک گلزار جناں بنا دیا۔ جس وقت کہ اس مخدومہ کونین نے سجدے سے سر اٹھایا۔ملاحظہ فرمایا کہ تمام گھر فرش سندس واستبرق سے آراستہ ہے۔ اس وقت آپ نے لعیا کو اجازت بیٹھنے کی دی۔اور لعیا سلام بجا لاکر مع گروہ حوران باآداب تمام بیٹھ گی۔ الغرض جس وقت کہ ساعت میلاد جناب امام حسین علیہ سلام قریب پہنچی۔اور صدمہ درد زہ سے چہرہ مبارک جناب فاطمہ کا متغیر ہونے لگا۔حوران بہشتی نے اٹھ کر چاروں طرف بہشتی پردے لٹکا دیئے۔اور سب کی سب کمر بستہ خدمت گزاری کے آمادہ ہوئیں۔
نظم۔
الغرض پیدا ہوئے جس دم شہ گلگوں قبا
ہو گئی پر نور دنیا اور منور ہر سما
باادب آغوش میں لعیا نے مولا کو لیا۔
پیار سے پیشانی پر نور پر بوسہ دیا
بولی صدقے تیرے اے روح روان فاطمہ
تجھ سے حق روشن کرئے نام ونشان فاطمہ
اے میرے آقا مرے مولا امیر مومناں
اے میرے سید میرے سرور شہ ہردوجہان
اے میرے ہادی ،میرے رہبرامام انس وجان
اے قسیم نار وجنت اے شفیع مذنباں
زینت عرش اعلے جان پیمبر السلام
خامس آل عبا دل بند حیدر السلام
کہہ کے یہ پھر بہر غسل سرور عالی جناب
لی اٹھا لعیا نے وہ ابریق نورانی شتاب
سلسبیل وکوثر وتسنیم کا جس میں تھا آب
لا رکھا پھر طشت فردوس بریں با آب وتاب
خوش ہو لعیا غسل جسم پاک کو دینے لگی
آب غسل ہر حور جنت ہاتھ میں لینے لگی۔
جسم شاہ سے جتنا پانی طشت کے اندر گرا
لکھتے ہیں حوروں نے وہ پانی تبرک کر لیا
چشم وپیشانی وعارض پر تفاخر سے ملا
نام کو اس طشت میں پانی نہ اک قطرہ رہا۔
مل کے رخساروں پہ ہر اک حور شاداں ہو گئی
آبرو اس آب سے ان کی فرواں ہو گئی
اس وقت جبرائیل کو خلاق عالم کا یہ حکم ہوا کہ آج تیرے استاد علی ابن ابی طالب کے گھر میں فرزند سعادت مند پیدا ہوا ہے۔ لہذا تجھ کو لازم ہے کہ اپنے سر پر تاج جواہر رکھ اور فرشتوں کی جماعت ساتھ لے کر میرے محبوب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو۔ اور
نظم
کہیو پیغمبر مقبول سے تو بعد سلام
یہ نواسہ ہو مبارک تمہیں اے خیر انام
ہو گا امت پہ تصدق نہیں کچھ اس میں کلام
خونبہا اس کا خلائق کی شفاعت ہے مدام
یہ پسر شاہ شہیداں کا لقب پائے گا
یہی لڑکا تیری امت کو بھی بخشائے گا
جو کہ لیوئے گا بعزت تیرے فرزند کا نام
ہم اسے دیں گے کونین میں توقیر مدام
قبر کہ اس کی کرے گا جو کوئی جھک کے سلام
ہم سلام اس پہ کریں گے بعطا واکرام
اس سید کے الم میں جو کوئی رووئے گا
اس کا اللہ پہ احسان بڑا ہووئے گا
اور کہنا اے نبی مکرم ہم نے اس فرزند کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے۔ یعنی تمہارا جسم مطہر میرے نور سے بنا ہے۔اور تمہارے جسم سے حسین۔لہذا اس کی خاطر داری کرنا سب کو لازم ہے۔ بیت
جس کو شبیر مرا خوب کہے خوب ہے وہ
جو محب اس کا ہے اللہ کا محبوب ہے وہ
خالق کون ومکان کا یہ حکم سنتے ہی جبرائیل امین مراسم تہنیت ادا کرنے کے لیے بصد شوکت وجلالت زمین کی جانب روانہ ہوئے۔اثناء راہ میں فطرس فرشتہ جو مقربان درگاہ الہیٰ سے تھا۔ترک اولیٰ کے سبب برق عتاب الہیٰ سے بال وپر سوختہ راستہ میں پڑا ملا۔ جبرایل کو اس شان سے آتے ہوئے دیکھ کر عجز وانکساری کے ساتھ نظم
کہا اس وقت فرشتہ نے یہ جبریل سے آ
یعنی اے زمزمہ سنج چمن وحی خدا
کیا زمانے میں ہوئی عید نئی ہے برپا
نقش نو یا کوئی نقاش ازل نے کھینچا
وضع دیگر میں زمین وفلک پیر ہے آج
کیا نیا باغ لگانے کی یہ تدبیر ہے آج
اس فرشتہ سے کہا روح امین نے ہنس کر
ایسا مدہوش پڑا ہے کہ نہیں تجھ کو خبر
آج اللہ نے بخشا وہ محمد کو پسر
حشر میں تاج شفاعت وہ رکھے گا سر پر
مرتبہ پایا بڑا اس شہ ذیجاہ نے ہے
تہنیت کے لیے مجھے بھیجا اللہ نے ہے
یہ سن کر شفاعت کی امید میں جبرائیل کی اجازت سے فطرس بھی ہمراہ ہوا۔ الغرض حضرت جبرائیل بصد تعجیل رسول مقبول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور خدائے ذوالکرام کی جانب سے مراسم سلام وتہنیت ادا کرنے کے بعد اپنی طرف سے مبارک باد دی۔اس وقت آپ حضرت امام حسین علیہ سلام کو گود میں لیے ہوئے منہ سے منہ اور سینہ سے سینہ مل کر دم بہدم لحمک لحمی فرماتے
تھے۔
یہ حال دیکھ کر حضرت جبرائیل رونے لگے۔ اور عرض کی یا رسول اللہ اس وقت آپ کا گلے کا چومنا مجھ کو معرکہ کربلا یاد دلاتا ہے۔جناب رسول خدا نے فرمایا کہ اے اخی سچ فرماتے ہو۔ اس گلے کا کٹانا خود میرا حسین روز ازل منظور کر چکا ہے۔ بیت
ہے گلا اس کا بنا تیغ تلے دھرنے کو
پالتا ہوں اسے امت پہ فدا کرنے کو
اس کے بعد حضرت جبرائیل نے فطرس کی سفارش کی۔اور اس کے پر وبال سوختہ ہونے اور اس پر عتاب الہیٰ کا حال گوش گزار کیا۔
اور گزارش کی کہ یہ گنہگار آپ کے آستانہ پر با امید شفاعت آیا ہے۔ کہ شاید جناب حسین علیہ سلام کی ولادت کی خوشی میں اس کی تقصیر معاف ہونے کے واسطے آپ دعا فرمائیں۔ یہ سن کر نظم
اس فرشتہ سے یہ محبوب الہیٰ سے کہا
کرے مس بازوئے شبیر سے بازو اپنا
وہ فرشتہ سخن شاہ سے بہت شاد ہوا
بازوئے پاک سے بازوئے شکستہ کو ملا
سب سے کہتا تھا کہ کیا خوب دوا پائی ہے
دیکھو شبیر کی یہ پہلی مسیحائی ہے
رو بقبلہ ہوئے اس وقت رسول دوسرا
اور شبیر کو ہاتھوں پہ محمد نے لیا
ایک جانب کو بتول ایک طرف شیر خدا
فوج دعا فرماتے تھے۔اور جناب فاطمہ وعلی مرتضیٰ وحسن مجتبیٰ آمین کہہ رہے تھے۔ ناگاہ بہ قدرت الہیٰ جناب امام حسین کی زبان مبارک پر لفظ آمین جاری ہوا۔ یہ امام مظلوم کا پہلا معجزہ تھا۔ کہ روز ولادت کلمہ آمین منہ سے نکلا
معجزہ سے تو یہاں شاہ نے آمین کہا
اور وہاں عرش پہ اللہ نے آمین کہا
قلزم مغفرت رحمت رب اکبر
جوش میں آگئی شبیر کی آمین سن کر
اس فرشتہ کو عنایت کیے اللہ نے پر
فخر کرتا تھا فرشتوں میں وہ نیک سیر
کس کو یہ مالک تقدیر نے رتبہ بخشا
مجھ کو لو حضرت شبیر نے آزاد کیا
نظم
مومنو تم نے سنا وقت ولادت کا یہ حال
تھا ولادت کی گھڑی شاہ کا یہ جاہ وجلال
آہ آہ ہفتم محرم سے وہی شاہزادہ کونین فرزند رسول الثقلین، امام دارین با لب تشنہ وگرسنہ میدان کربلا میں فریاد کرتا تھا۔ اور کوئی اس مظلوم کی گریہ وزاری نہ سنتا تھا۔ بلکہ نظم
روز عاشورہ اسی شہ پر سپاہ اشقیا
صبح سے تا دوپہر کرتی رہی جورو جفا
یارو ہنگام زوال شمس جس دم آگیا
قتل پر سبط نبی کے لشکر ناری جھکا
ہر طرف سے نرغہ احمد کے نواسے پہ کیا
چار سو سے حملہ اس بھوکے پیاسے پر کیا
اس وقت ان ظالمان بے حیا نے اس مظلوم کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔اور نیزہ وشمشیر کا وار کرنے لگے۔تو فوارے خون کے جسم مطہر سے جاری ہوئے۔ مگر آپ نے مطلق خیال نہ کیا۔ آہ جس وقت ایک تیر پیشانی مبارک پر لگا اور خون آنکھوں پر آکے بہا اس وقت، نظم
دامن سے لہو پونچھ رہے تھے شہ دلگیر
جو سینہ اقدس پہ سم آلود لگا آکے تیر
گھوڑے پہ نہ سنبھلا گیا پیدل ہوئے شبیر
اک دوش پہ اک سر پہ لگی ظلم کی شمشیر
تیورائے لہو دیکھ کے پوشاک پہ حضرت
پہلو پہ سناں کھا کے گرے خاک پہ حضرت
تھی سخت جفا فاطمہ کے لال کے تن پر
حربوں سے سوا پڑتے تھے ہر سمت سے پتھر
اک صدر پہ ہیں گھاو سنانوں کے بہتر
کھائے تھے تبر سینکڑوں اور سینکڑوں خنجر
بے حد تھے جو زخم دم شمشیر لگے تھے
بتیس تو سینے پہ فقط تیر لگے تھے۔
زخمی ہوئے یاں تک کہ ہوا حال دگرگوں
سب ڈوب گیا جسم مطہر پہ بہا خون
بدلی جو تڑپ کر وہ جگہ بادل محزون
واں کی بھی زمیں ہوگئی سب خون سے گلگوں
ہے کون جو اس غم کو فراموش کرے گا
اب حشر کے دن پھر وہ لہو جوش کرے گا
ہاں مستعد گریہ وماتم ہوں عزادار
قتل شہ مظلوم کے اب بند ہیں دو چار
لکھا ہے کہ تھے سجدہ حق میں شہ ابرار
مارا کسی ظالم نے تبر فرق پہ یکبار
تربت میں ید اللہ نے کی آہ تڑپ کر
سیدھے ہوئے یاں سید ذی جاہ تڑپ کر
غش تھے کہ گیا قتل کو خولی ستم گر
تھرائے مگر ہاتھ جدا کر نہ سکا سر
پھر آیا سناں ابن انس بھی یونہی جا کر
اس وقت بڑھا شمر لعیں کھینچ کے خنجر
کی دست درازی غضب اس دشمن دیں نے
حضرت کے گریباں پہ رکھا ہاتھ لعیں نے
فرمانے لگے کھول کے آنکھیں شہ ذیجاہ
واقف ہے کہ میں کون ہوں اے ظالم وگمراہ
بولا وہ جفا کار کہ آگاہ ہوں آگاہ
جد آپ کے احمد ہیں پدر ہیں اسد اللہ
لیکن نہ پیمبر سے نہ حیدر سے ڈروں گا
سب روئیں گے یوں آپ کو میں ذبح کروں گا
قاتل لعیں سے کہا شہ نے زباں خشک دکھا کے
پیاسا ہوں میں کر ذبح مجھے پانی پلا کے
اس نے کہا اب پیجیو کوثر ہی پہ جا کے
پھر کچھ نہ کہا شہ نے بجز شکر خدا کے
زہرا کی صدا آئی میں اس یاس کے صدقے
بے کس مرے بچے میں تیری پیاس کے صدقے
واں پیٹتے تھے در پہ حرم با سر عریاں
اور نکلی ہوئی تکتی تھی فضہ سرمیداں
رو کر یہ پکاری وہ کہ اے زینب نالاں
اب تیغ سے کٹتا ہے سر سرور ذیشاں
گھبرا کے وہ دو روز کی پیاسی نکل آئی
پردے سے محمد کی نواسی نکل آئی
اور جناب امام حسین علیہ سلام کو آواز دی۔ کہ اے بھائی جان اگر حکم ہو تو یہ جانثار بہن حاضر ہو کر تن اطہر پر چادر کا سایہ کرے۔اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے بہن اس وقت ہم کو شرمندہ نہ کرو،کہ یہ کفار بد شعار تمہاری آواز کو سنتے ہیں تو میری روح کو صدمہ ہوتا ہے۔ جب تک میرے دم میں دم ہے ۔تم خیمے سے باہر نہ نکلو۔حضرت زینب نے فرمایا کہ اے فضہ یہ آواز تو میرے بھائی کی ہے۔ مگر صورت وشمائل تو نہیں ملتی ہے۔ پس فضہ نے کہا کہ اے شہزادی بیت
شکل پہچانی نہیں جاتی شہ دلگیر کی
تا محاسن خون میں تر ہے شکل شبیر کی
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام درگاہ مالک کونین میں مناجات کر رہے تھے کہ بیت
ہے تجھ سے التجا یہی اس دل ملول کی
امت کو بخش دے میرے نانا رسول کی
عزت بڑھے وزیر کی مطلب حصول ہو
سرکار شہ میں مرا ہدیہ قبول ہو
Thanks for sharing, I will bookmark and be back again
ReplyDeleteفرش اب