Saturday, June 26, 2010

چند اشعار

یا رب یہ سادات کا گھر تیرے حوالے
رانڈیں ہیں کئی خستہ جگر تیرے حوالے
مظوم کا بے کس کا پسر تیرے حوالے
سب مر گئے دریا کے گہر تیرے حوالے
امام عالی مقام فوج یزید سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں
نازاں نہ ہو جور پر اے بانی ستم وجور
مٹ جاتا ہے ای گردش افلاک میں یہ دور
تو آج جو حاکم ہے تو کل ہوگا کوئی اور
کیا ہو گئی کر دولت قارون پہ ذرا غور
نمرود نہیں حشمت ضحاک نہیں ہے
ڈھونڈو جو خزانوں میں تو اج خاک نہیں ہے۔
مجھ سا اگر کوئی اور ہو تم لوگوں کا رہبر
بہتر پھرا دو میرے اس حلق پہ خنجر
امت کے جو کام آئے تو حاضر ہے میرا سر
پر میرے سوا کوئی نہیں سبط پیعمبر
کھو کر مجھے ڈھونڈو گے تو فریاد کرو گے
جب میں نہ ملوں گا تو بہت یاد کرو گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب تند خوں جس وقت اٹھائے گا نظر
وقت کی پیرانہ سالی سے بھڑک اٹھے گا سر
موت کے سیلاب میں ہر خشک وتر بہہ جائے گا
ہاں مگر نام حسین ابن علی رہ جائے گا
کون جو ہستی کے دھوکے میں نہ آیا وہ حسین
جس نے اپنے خون سے دنیا کو دھویا وہ حسین
جو جواں بیٹے کی میت پہ نہ رویا وہ حسین
کانپتی ہے جس کی پیری کو جوانی دیکھ کر
ہنس دیا وہ تیغ قاتل کی روانی دیکھ کر
ہاں نگاہ غور سے دیکھیں گروہ مومینین
جا رہا ہے کربلا خیر البشر کا جانشین
آسماں ہے لرزہ بر اندام جنبش میں زمیں
زد میں آکے کوئی یہ بچ جائے یہ ممکن نہیں
لو حسین ابن علی نے وہ چڑھائی آستین

No comments:

Post a Comment