یا رب یہ سادات کا گھر تیرے حوالے
رانڈیں ہیں کئی خستہ جگر تیرے حوالے
مظوم کا بے کس کا پسر تیرے حوالے
سب مر گئے دریا کے گہر تیرے حوالے
امام عالی مقام فوج یزید سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں
نازاں نہ ہو جور پر اے بانی ستم وجور
مٹ جاتا ہے ای گردش افلاک میں یہ دور
تو آج جو حاکم ہے تو کل ہوگا کوئی اور
کیا ہو گئی کر دولت قارون پہ ذرا غور
نمرود نہیں حشمت ضحاک نہیں ہے
ڈھونڈو جو خزانوں میں تو اج خاک نہیں ہے۔
مجھ سا اگر کوئی اور ہو تم لوگوں کا رہبر
بہتر پھرا دو میرے اس حلق پہ خنجر
امت کے جو کام آئے تو حاضر ہے میرا سر
پر میرے سوا کوئی نہیں سبط پیعمبر
کھو کر مجھے ڈھونڈو گے تو فریاد کرو گے
جب میں نہ ملوں گا تو بہت یاد کرو گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب تند خوں جس وقت اٹھائے گا نظر
وقت کی پیرانہ سالی سے بھڑک اٹھے گا سر
موت کے سیلاب میں ہر خشک وتر بہہ جائے گا
ہاں مگر نام حسین ابن علی رہ جائے گا
کون جو ہستی کے دھوکے میں نہ آیا وہ حسین
جس نے اپنے خون سے دنیا کو دھویا وہ حسین
جو جواں بیٹے کی میت پہ نہ رویا وہ حسین
کانپتی ہے جس کی پیری کو جوانی دیکھ کر
ہنس دیا وہ تیغ قاتل کی روانی دیکھ کر
ہاں نگاہ غور سے دیکھیں گروہ مومینین
جا رہا ہے کربلا خیر البشر کا جانشین
آسماں ہے لرزہ بر اندام جنبش میں زمیں
زد میں آکے کوئی یہ بچ جائے یہ ممکن نہیں
لو حسین ابن علی نے وہ چڑھائی آستین
No comments:
Post a Comment