Friday, August 13, 2010

نویں مجلس شہادت حضرت مسلم بن عقیل اور منزل ثعلبیہ پر امام مظلوم کو شہادت کی خبر ملنا

نویں مجلس
حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت اور منزل ثعلبیہ میں امام حسین علیہ سلام کو اس مظلوم کی غم انگیز شہادت کی خبر ملنا
احباب کو پیغام سفر دیتے ہیں مسلم
قتل شہ والا کی خبر دیتے ہیں مسلم
جناب امام حسن کی شہادت کے بعد پنجتن میں صرف امام حسین تن تنہا رہ گئے تو شعیان حیدر کرار آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ بعد وفات برادر بزرگوار آپ نے اپنے اخلاق کو بہت وسیع کر لیا تھا۔ نظم
الم کا افتخار تھا پیارا بتول کا
بخشش علی کی تھی تو کرم تھا رسول کا
فیض ملازمت سے جو ہوتا تھا بہرہ ور
کرتا تھا اس پہ لطف ید اللہ کا پسر
جو چومتا تھا پائے شہنشاہ بحر وبر
سینہ سے خود لگاتے تھے شبیر اس کا سر
محتاج بھی جو آپ کی خدمت میں آتے تھے
اٹھ کر قریب پھر انہیں حضرت بٹھاتے تھے
آپ کا عبادت معبود میں بھی وہی اہتمام تھا۔ اور غربا ومساکین پر لطف وکرم بھی بے حساب تھا۔تاکہ ان کو پدر عالی مقدار علی ابن ابی طالب کی فرقت کا غم نہ رہے۔ نظم
حق پہ نظر تھی خانہ نشیں تھے شاہ امم
مشغول تھے عبادت خالق میں دم بدم
یکساں گدا وشاہ پہ تھا آپ کا کرم
دل دکھ گیا کسی کا سنا گر بیان غم
جس مستحق پہ لطف وکرم کی نظر ہوئی
دے آئے گھر پہ یوں نہ کسی کو خبر ہوئی
جز طاعت الہٰ کوئی اور تھا نہ کام
آٹھوں پہر نماز میں مشغول تھے امام
ہر روز روزہ دار تھا وہ آسماں مقام
حضرت تھے اور تلاوت قرآں تھی صبح وشام
ہوتا تھا جب الم دل وجان بتول پر
روتے تھے جا کے قبر جناب رسول پر
روایت ہے کہ جب معاویہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔اور ان کی جگہ یزید پلید تخت پر بیٹھا۔اس کے رگ وپے میں دشمنی آنحضرت کی رچی بسی تھی۔ لیکن بظاہر مکر ودغا سے اشتیاق ملازمت کے خطوط لکھا کرتا تھا۔ آخر مکر وفریب سے کوفیان دغا کیش کو ہموار کرکے اس ارادے سے خطوط لکھوائے کہ ایک مرتبہ اگر حسین مدینہ چھوڑ کر روانہ ہو جائیں تو پھر چاروں طرف سے محاصرہ کر لوں اور پناہ نہ دوں۔ القصہ حسب مشورہ یزید پلید کوفیان پر دغا نے بہت سی عرضیاں اشتیاق قدم بوسی میں تحریر کرکے امام مظلوم کی خدمت میں ارسال کیں۔ جب آنحضرت نے دیکھا کہ کوفی نہایت عجز وانکساری سے بلاتے ہیں تو ناچار اپنے برادر گرامی قدر مسلم ابن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ یہ گویا حسین مظلوم کی ابتدائی مصیبت ہے۔ نظم
گلشن میں ہے چرچا گل احمر سفری ہے
پریوں میں غل ہے بے کس وبے پر سفری ہے
ہے شور جنوں میں کہ دلاور سفری ہے
کہتا ہے جہاں شہ کا برادر سفری ہے
رنج وغم مہر وماہی کے دن آئے
لو یثرب وبطحا کی تباہی کے دن آئے
اچھا نہیں مسلم کے سفر کا تو قرینہ
افسوس اجڑتا نظر آتا ہے مدینہ
پھر جائیں گے سب کوفیوں کے دل میں ہے کینہ
ڈوبے نہ کہیں خون میں ایماں کا سفینہ
کوفہ کو انہیں آج جو بجھواتے ہیں شبیر
کل دیکھنا یہ بھی کہ چلے جاتے ہیں شبیر
ہے نعرہ شبر مرا مسلم میرا مسلم
چلاتے ہیں حیدر مرا مسلم میرا مسلم
کہتے ہیں پیمبر مرا مسلم میرا مسلم
آئے گا نہ پھر کر مرا مسلم میرا مسلم
چلاتی ہیں زہرا کہ میں اب کیا کروں لوگو
جاتا ہے میرا پیک لقب کیا کروں لوگو

الغرض وہ شب فریاد وزاری میں کٹی۔ اور وقت صبح اذان کی آوازیں مسجدوں سے بلند ہوئیں۔ادھر نمازی مسجدوں کو روانہ ہوئے۔جو مسافر تھے منزل سے روانگی کے لئے تیار ہوئے۔ نظم
مسلم نے یہاں اپنے غزالوں کو اٹھایا
کس پیار سے آغوش کے پالوں کو اٹھایا
اللہ کے پہچاننے والوں کو اٹھایا
کہہ کہہ کے یہ ان تازہ نہالوں کو اٹھایا
اٹھو مرے شیرو کہ سحر دور نہیں ہے
ہشیار کہ اب وقت سفر دور نہیں ہے
اٹھو کہ اجل سر پہ کھڑی رہتی ہے ہر دم
ہشیار ہیں جو لوگ وہ سوتے ہیں بہت کم
وقفہ نہیں پڑھ لی یہ نماز اور چلے ہم
آواز سنو جاگ رہے ہیں شہ عالم
اس وقت عجب کوچ کا سامان بندھا ہے
آواز اذاں بھی ہمیں آواز درا ہے
چلنے پہ راہ حق میں تامل نہیں کرتے
اللہ کی اطاعت میں تساہل نہیں کرتے
راحت پہ نظر اہل توکل نہیں کرتے
وقفہ عمل نیک میں بالکل نہیں کرتے
یہ سن کے دعا باپ کو دیتے ہوئے اٹھے
اور پہلووں سے نیمچے لیتے ہوئے اٹھے
اللہ اللہ ابھی صاحبزادگان حضرت مسلم بہت کم سن ہیں۔ مگر بشوق سفر اٹھ کر اول حضرت مسلم کو تسلیم کی اور وضو کرکے چھوٹے چھوٹے سجادوں پر نماز پڑھی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت مسلم کے احباب نماز سے فارغ ہو کر تسبیح پڑھتے ہوئے حضرت مسلم سے ملاقات کے اشتیاق میں آکر رخصت کے واطے جمع ہوئے۔ کوئی روتا تھا۔ کوئی دعا کرتا تھا۔ کہ خدا وند رحیم وکریم مسلم کو پھر مدینہ لائے۔ حضرت مسلم سامان سفر میں مشغول تھے۔ اور صاحب زادے اپنی تیاری میں مصروف کہ ناگاہ نظم
خدام خبر کثرت احباب کی لائے
پوشاک بخوبی یہ پہننے بھی نہ پائے
باہر وہ محل سے جو کمر باندھ کے آئے
احباب نے مجرے کے لئے ہاتھ اٹھائے
جب نائب شہ کوچ کے سامان سے نکلے
فرزند بھی مسلم کے عجب شان سے نکلے
تلوار لیے بیٹھ گئے دوستوں کے پاس
احباب نے آغاز کیے کچھ سخن یاس
اللہ کرے آپ کو آئے یہ سفر راس
کیا کیا ہمیں اس خانہ امید سے ہے آس
دنیا کی مصیبت سے اگر خانہ نشیں تھے
یاں آتے ہی واللہ پریشاں نہ حزیں تھے
باتیں تھیں کبھی یاس کی گہ آہ لبوں پر
پڑھتے ہوئے قرآن نکل آئے شاہ صفدر
اک غول عزیزوں کا شہ دیں کے برابر
ہمراہ تھے عباس علی،قاسم واکبر
سب غنچہ دہن مہر لقا مہہ جبیں تھے
پر حضرت مسلم کی جدائی سے حزیں تھے
الغرض حضرت امام حسین اور حضرت علی اکبر اور جناب عباس اور تمام احباب اپنے اپنے سروں کو جھکائے مصروف بکا تھے۔ کہ نظم
مسلم سے کہا شہ نے اے صاحب شمشیر
ہو آو ذرا گھر میں تو رخصت کو میرے شیر
وہ بولے بہت خوب خوب نہیں دیر
یہ کہہ کے محل میں گئے وہ زیست سے دل سیر
اشکوں سے بھرے دیدہ پر نم نظر آئے
نرگس میں در قطرہ شبنم نظر آئے
فرمایا کوئی جلد رقیہ کو بلا دو
حق اس کو یتیمی سے بچائے یہ دعا دو
اب باپ سے چھٹ جاو گی بیٹی کو بتادو
آرام میں بھی ہو میری پیاری تو جگا دو
کہہ دو دم فرقت ہے دم نوحہ گری ہے
پر سوئیومل آو کہ بابا سفری ہے
جا کر کسے معلوم کہ پھر آئیں کہ نہ آئیں
ہم بے کس و مظلوم پھر آئیں کہ نہ آئیں
واں ظلم کی ہے دھوم پھر آئیں کہ نہ آئیں
دیدار کے محروم پھر آئیں کے نہ آئیں
اس وقت جو درکار ہو لےلے میری پیاری
جو دل میں ہو ارمان وہ کہہ دے میری پیاری
اتنے میں نظر آئی وہ بیمار یتیمی
چہرہ سے نظر آگئے آثار یتیمی
تھی ساتھ سکینہ بھی گرفتار یتیمی
ظاہر تھے ہر ایک عضو سے آثار یتیمی
سینہ سے لگایا اسے مسلم نے بلا کر
منہ چوم لیا پیار سے زانو پہ بٹھا کر
کس درد سے فرمانے لگے عاشق باری
بی بی ہیں سکینہ شہ ابرار کی پیاری
تم خادمہ ہو ان کی یہ مالک ہیں تمہاری
اب ہم تو چلے رکھیو نہ امید ہماری
ہر مرتبہ قدموں پہ گرا کیجیو بیٹا
ساتھ ان کے شب وروز رہا کیجیو بیٹا
پھر یوں نصیحت فرمائی کہ جان پدر اہلبیت کی خدمت گزاری میں رہنا۔ امام کی لاڈلی سکینہ کے ساتھ کھیل کر دل بہلانا۔اور آج سے اپنا پدر امام عالی مقام کو سمجھنا۔ جب ہم تمہیں یاد آئیں گے۔ شبیر سینہ سے لگائیں گے۔ کیوں حضرات جب کربلا میں اسی سکینہ پر ظلم وستم ہو رہے تھے۔ نظم
مسلم تھے کہاں جب کہ طمانچہ اسے مارا
زیور آن مخدومہ عالم سے اتارا
وہ چاند ساعارض گل سوسن ہوا سارا
چلاتی تھیں اس وقت نہیں کوئی ہمارا
ظالم نے گلا رشک سمن باندھ کے کھینچا
اور ننھے سے بازو میں رسن باندھ کے کھینچا

الغرض اس صاحبزادی کو سمجھا کر آپ باہر تشریف لائے۔جناب امام حسین کے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور آداب بجا لا کر عرض کی۔ نظم
جانباز کو ہو جلد اجازت مرے آقا
دن چڑھتا ہے اب کیجیئے رخصت مرے آقا
شہ ہاتھوں کو پھیلا کے پکارے ادھر آنا
لو آو گلے پہلے ملو بھائی تو جانا
پڑھتے تھے دعا کان میں پکڑے ہوئے شانہ
کہتے تھے کہ ہو ظلم تو ہنس ہنس کے اٹھانا
گو بارش تیغ وتبر وسنگ ہو بھائی
یوں جھیلنا کڑیاں کہ جہاں دنگ ہو بھائی
مجرا کیا مولا کو چلے مسلم بے پر
سب دوست سمٹ کر ہوئے ہمراہ دلاور
احباب سے ہونے لگے رخصت جو ٹھہر کر
وہ بولے کہ کیا جائیں ہمیں گور ہے اب گھر
لے چلیئے ہمیں ساتھ زیاں آپ کا کیا ہے
ہمراہ رکاب آپ کے رہنے میں مزہ ہے

حضرت مسلم نےارشاد فرمایا کہ دوستو وطن کے مرنے کی کیا بات ہے۔ جنازے کے ہمراہ اعزا واحباب ہوتے ہیں۔ لیکن عالم غربت میں ہر طرف سے یاس ہوتی ہے۔ تم کو ساتھ چلنے میں ہر طرح کا وسواس ہے۔نظم

یاں آنے کی امید کہاں اب نہ پھریں گے
جائیں گے سوئے باغ جنان اب نہ پھریں گے
کرتے تھے بہم سب یہ بیاں اب نہ پھریں گے
دی مرگ نے آواز کہ ہاں اب نہ پھریں گے
ملنے لگے احباب سے مسلم کے پسر بھی
دریا بھی رواں ہونے لگا اور گہر بھی
راہی سوئے کوفہ جو ہوئے مسلم ناشاد
یہ پہلے ہی جنگل میں ہوا سانحہ ء فریاد
اک آہو ئے خوش چشم کو پکڑے ہوئے صیاد
گردن پہ چھری پھیرتا ہے صورت جلاد
تکتا ہے وہ ہر نخل کی ہر برگ کی صورت
ہر سمت نظر پھرنے لگی مرگ کی صورت

یہ حال دیکھ کر حضرت مسلم واپس آئے۔اور حضرت امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں اس بد شگونی کا ذکر کیا۔ اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا، بھائی تم خدا پر بھروسا کرکے اپنی منزل کی طرف جاو۔ ہم اہل بیت رسول شگون کے قائل نہیں۔ انشا اللہ ہم اپنے مقصد میں کام یاب ہوں گے۔ نظم
مولا سے یہ سن کر جو ہوئے بادیہ پیما
تقدیر نے دکھلائے عجب طور کے صحرا
راتیں وہ سیاہ ہوکنا وہ شیر کا ہر جا
جھونکے وہ ہوا کے کبھی پتوں کا وہ اڑنا
ایذائیں بہت راہ میں پاتے ہوئے پہنچے
کوفہ میں غرض رنج اٹھاتے ہوئے پہنچے
جب کوفیان پر دغا نے حضرت مسلم کی آمد کا حال سنا تو نظم

متفق ہو کے چلے گھر سے پئے استقبال
آئے دروازہ تلک شہر کے با جاہ وجلال
ظا ہر ان سے ملاقی ہوئے باذوق کمال
سینہ نحس مگر بغض سے تھے مالا مال
دل میں سوچے کہ شہادت کا کفیل آیا ہے
بادشاہ عربستان کا وکیل آیا ہے

الغرض جناب مسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کوفیوں نے امام حسین کا حال دریافت فرمایا،اور آنحضرت کی قدم بوسی کا کمال اشتیاق ظاہر کیا۔ جناب مسلم بھی ان کی عقیدت سے خوش ہوئے۔ بیت

روئے خاطر تھا زبس سب کا مسافر کی طرف
مطمئن آپ ہوئے دیکھ کے ظاہر کی طرف
ان لوگوں سے حضرت مسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری عقیدت کا مفصل حال تحریر کرتا ہوں ۔یقین ہے کہ برادر بزرگوار جلد تشریف لائیں ۔بیت

حال سے یاں کے جو واقف شہ دیں ہوں گے
ہے یقیں اب کے محرم میں یہیں ہوں گے


یہ سن کر
ان دغا بازوں نے براہ مکر بیعت کرنا شروع کی۔چنانچہ بعض روایات میں پچیس ہزار اور بعض میں اٹھارہ ہزار مکاروں کا بیعت قبول کرنا تحریر ہے۔ یہ تمام حال حضرت مسلم نے امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ یہ تحریر آنحضرت کی خدمت بابرکت میں پہنچی۔ آپ نے حضرت عباس سے ارشاد فرمایا کہ ساکنان کوفہ میری بیعت پر راضی ہیں۔ انشا اللہ تعالیٰ مناسک حج سے فارغ ہو کر کوفہ کی جانب چلوں گا۔ لیکن ان ہی ایام میں چاروں طرف سے دشمنان دین عداوت وخونریزی پر تیار ہوئے۔اور نیز خطوط بھی آنے لگے۔ نظم

شہ شر سے باغیوں کے جو ناچار ہو گئے
حضرت وطن سے کوچ پہ تیار ہو گئے
قبر رسول پہ گئے روتے شہ زمن
رخصت ہوئے ضریح سے باصد غم ومحن
واں سے پھرے تو آئے سوئے مرقد حسن
فرماتے تھے کہ آہ چھٹا ہم سے اب وطن
بھائی کی ماں کی قبر سے رو کر جدا ہوئے
چھوڑا وطن کو راہی دشت بلا ہوئے

الغرض مدینہ منورہ سے مع اہل بیت اطہار کوچ فرما کر کعبہ میں پہنچے۔ یہاں بھی ظلم اشقیا سے مہلت نہ پائی۔ ناچار وہاں سے رخصت ہوئے اور اسی طرح نظم
کہتے تھے بصد درد کہ اے کعبہ داور
اب تجھ سے جدا ہوتا ہے فرزند پیمبر
ملتی نہیں سید کو اماں وائے مقدر
جاتا ہوں سوئے گور سراسیمہ ومضطر
دوری ہوئی اس گھر سے بس اب دل کو یقیں ہے
قربانی شبیر کا ہنگام قریں ہے
پھر قبر محمد کی طرف پڑھ کے زیارت
کی عرض مسافر کی دوبارہ ہے یہ رخصت
کعبہ میں بھی نانا نہ میسر ہوئی راحت
آزار پہ باندھے ہیں کمر اہل ضلالت
مخفی ہوئے ہیں قافلہ حاج میں آکے
پائیں مجھے تو ذبح کریں گھر میں خدا کے
نانا مجھے رہنے کا ٹھکانہ نہیں ملتا
جنگل میں بھی بستی کا بسانا نہیں ملتا
آٹھ آٹھ پہر بچوں کو کھانا نہیں ملتا
پانی کہیں ملتا ہے تو دانہ نہیں ملتا
مہلت نہیں اتنی بھی کہ سایہ میں کھڑا ہوں
حضرت سے جدا ہو کے تباہی میں پڑا ہوں
الغرض اس طرح باگریہ وزاری آپ محراب ومنبر سے رخصت ہوئے۔ اور طے منازل وقطع مراحل کرتے ہوئے کوہ وبیابان میں چلے جاتے تھے۔

قریوں سے زیارت کو جو آجاتی تھی خلقت
کرسی پہ نکل بیٹھتے تھے خیمہ سے حضرت
یکساں تھی ہر اک پہ نظر لطف وعنایت
محتاجوں سے باتیں تھیں غریبوں سے محبت
ہر عاجز وبے کس کی مدد کرتے تھے مولا
محتاج کا ہدیہ بھی نہ رد کرتے تھے مولا
سب کہتے تھے اے احمد مختار کے جائے
کیوں خانہ حق چھوڑ کے مولا ادھر آئے
فرماتے تھے شبیر کہ ہم رہنے نہ پائے
یوں کوئی مسلماں نہ مسلماں کو ستائے
تیاری تیغ وتبرو تیر ہوئی ہے
تدبیر گرفتاری شبیر ہوئی ہے
اور اگر میں خانہ معبود میں رہتا تو اہل ظلم وستم وہاں بھی جنگ وجدال سے باز نہ آتے۔کشت وخون ہوتا اور خانہ خدا کی حرمت ضائع ہوتی۔یہ سوچ کر میں وہاں سے آیا ہوں۔ ورنہ بیت

تیغوں سے نہ ملتی انہیں مہلت کوئی دم کی
واللہ مجھے پاس تھا حرمت کا حرم کی
یہ سن کر تمام مردمان دیہات جو اثنائے راہ ملتے تھے۔اہل حرم واطفال خرد سال کی مصیبت وپریشانی دیکھ کر نظم
سب عرض
یہ کرتے تھے کہ اے خلق کے والی
قریوں میں غلاموں کے مکاں بھی تو ہیں خالی


بندوں کو سرفراز کریں سید عالی
مہماں ہوں غریبوں کے بہ انصار وموالی

فخر اس کا ہے رخ جون سے قریہ کی طرف ہو
عزت ہو جو مردوں کی تو زندوں کا شرف ہو
فرماتے تھے حضرت تمہیں خالق رکھے آباد
دنیا میں برو مند ہو ہر ایک کی اولاد
کیا اپنی تباہی کہوں میں بے کس وناشاد
رووگے مفصل جو سنو گے میری روداد
درپیش ہے وہ راہ کہ کچھ کہہ نہیں سکتا
بے کنج لحد اب میں کہیں رہ نہیں سکتا
اللہ تم کو جزائے خیر دے کہ اس مظلوم سے بخاطر پیش آئے ہو۔ ہر چند کہ اس سفر میں لو چلتی ہے،گرد اڑتی ہے۔ لیکن مجھ کو اپنی منزل پہ جانا ضرور ہے۔ الغرض نظم

ان سب سے یہ فرما کے چلے سید ابرار
روتے ہوئے بستی میں گئے اپنی وہ دیندار
پھر تھے وہی جنگل وہی میداں وہی کہسار
بستی تھی نہ کوسوں نہ کہیں سایہ اشجار
گرمی تھی کہ تھے نخل بھی سوکھے ہوئے بن میں
مر جھا گئے تھے پھول محمد کے چمن میں

اور باوجود ان سختیوں اور صعوبات کے امام نامدار نظم

اعجاز اس طرح دکھاتے ہوئے شبیر
جاتے تھے بصد شوق سوئے نیزہ وشمشیر
گر شام کو ٹھہرے تو سحر کو ہوئے رہ گیر
ہر دم یہی کہتے تھے کہ اے مالک تقدیر
کشتی مری طوفان میں ہے ساحل نظر آئے
مشتاق ہے دل جس کا وہ منزل نظر آئے
غربت کی جفائیں یونہی سہتے ہوئے دن رات
طے راہ خدا کرتے تھے شبیر خوش صفات
ہو جاتی تھی جس مرد مسافر سے ملاقات
گھوڑے کی عناں روک کے فرماتے تھے یہ بات
ٹھہرا نہیں سکتا کہ سر راہ ہے بھائی
کوفہ کی خبر سے بھی کچھ آگاہ ہے بھائی
وہ کہتا تھا کوفہ میں عجب غدر ہے مولا
ہر سمت میں فنتے ہیں تو فساد اٹھتے ہیں ہر جا
زور ان کا ہے کچھ جن کو مروت نہیں حاشا
ہوتے ہیں ستم کوئی کسی کی نہیں سنتا
یہ ظلم یہ بے داد نہیں اور کسی پر
مولا جو تباہی ہے محبان علی پر

الغرض اس طرح شیعان علی ابن ابی طالب کے مصائب بیان کرتا اور کہتا تھا کہ اے آقا اس ہنگامہ کے علاوہ میں نے دیکھا ہے کہ باغات کوفہ میں بعزم جنگ لشکر کثیر تیاری میں مصروف ہے۔ اور اطراف وجوانب سے جوق جوق فوجیں چلی آتی ہیں۔ ناکوں سے کوئی نکلنے نہیں پاتا۔ بلکہ کچھ سوار ادھر کے آنے کو بھی آمادہ ہیں۔ اس وقت نظم

گھبرا کے
یہ اس شخص سے بولے شہ مظلوم
بھائی تجھے مسلم کا بھی کچھ حال ہے معلوم
ایسا نہ ہو رہ جائیں ملاقات سے محروم
اس نے کہا میں واں سے چلا تھا تو یہ تھی دھوم
بے قتل کسی کو نہیں آرام ملے گا
مسلم کو جو سر لاو تو انعام ملے گا
کوچوں میں منادی یہ ندا دیتا تھا ہر بار
بھاگا ہے کل اک مسجد کوفہ سے گنہگار
گھر میں کوئی مجرم کو چھپائے نہ خبردار
آفت تھی محلوں میں بپا بند تھے بازار
بچنے کے نہیں درپئے جاں دشمن دیں ہیں
مسلم کہیں پوشیدہ ہیں فرزند کہیں ہیں
آشوب ہے اس شہر میں اے خلق کے سرتاج
جو گھر کے تھے آباد وہ سب ہو گئے تاراج
کیا کیا شرفا نان شبینہ کو ہیں محتاج
کل قتل ہوا وہ جو گرفتار ہوا آج
وہ خوش ہیں رعیت میں جو حاکم سے ملے ہیں
پرسش ہے کہ کیا سوچ کے مسلم سے ملے ہیں

لیکن اتنا جانتا ہوں کہ حضرت مسلم کی محبت میں ابن زیاد بد نہاد نے ہانی بن عروہ کا سر کٹوالیا تھا۔اور چاروں طرف منادی یہ ندا دیتا پھرتا تھا کہ جو کوئی مسلم کو مدد دے گا وہ سزا پائے گا۔ تمام رعایا پریشان ہے۔مکانوں کی تلاشی لی جاتی ہے۔ محلوں میں آگ لگی ہے۔ جناب امام حسین علیہ سلام نے منزل حاجز پر مسافر سے جب یہ حال سنا،وہاں سے کوچ فرمایا اور ہر انصار کو تاکید فرمائی کہ اگر کوفہ سے کوئی شخص آتا ہوا نظر آئے تو اس کو میرے پاس لانا۔اس سے مسلم کا حال دریافت کروں گا۔ جب آپ منزل ثعلبیہ پر پہنچے تو تیز رفتار سوار نمودار ہوا۔ اپنے دل سے یہ باتیں کرتا ہوا آرہا تھا۔
نظم
راہ میں سبط پیمبر سے مشرف ہوں اگر
دست بستہ یہ گزارش کروں بادیدہ تر
کیجیئے نہ قصد کوفے کا شہ گردوں فر
شہر پر فتنہ وآشوب ہے وہ اے سرور
کوفہ سب ظلم شعار اور جفا پیشہ ہے
روح احمد کا بھی ان کو نہیں اندیشہ ہے

جناب امام حسین علیہ سلام نے اس سوار کو جاتے دیکھا تو حضرت عباس سے فرمایا کہ اے بھائی اس کو میرے پاس لاو۔ آپ شتر سوار کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اے سوار تجھ کو ہمارے آقا نامدار بلاتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کے آقا کون ہیں۔جناب عباس نے فرمایا ،نظم

نور نگاہ فاتح بدر وحنین ہے
آقا میرے کا اسم مبارک حسین ہے
یہ سن کے آنسو آنکھوں سے اس شخص نے بہائے
سینہ پہ ہاتھ مار کے بولا کہ ہائے ہائے
کیوں اس طرف کو سید والا وطن سے آئے
آفت سے نور چشم نبی کو خدا بچائے
حضرت سے کوفیوں کو عداوت ہے بیر ہے
پھر جائیں آپ جانب یثرب تو خیر ہے
گھبرا گئے یہ سنتے ہی عباس با وفا
فرمایا اے عرب ترے رونے کی وجہ کیا
مسلم نے بھی تو حال یہ خط میں نہیں لکھا
اس نے کہا اور کچھ ہے واں کا مجرا
سب شہر پھر گیا ہے شہ خاص وعام سے
کہنا ہے جو کہوں گا مفصل امام سے

الغرض وہ شتر سوارجناب عباس علیہ سلام کے ہمراہ امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور بصد تعظیم آداب بجا لایا۔ُپ نے کمال لطف وشفقت سے جواب سلام دیا۔ اور کوفہ کا حال دریافت کیا۔ اس سوار کی آنکھوں سے بے اختیار اشک جاری ہو گئے۔ نظم
رو رو کے بولا شہ سے کہ اے سید البشر
کوفہ سے اب چلا آتا ہوں میں ادھر
فرمایا شہ نے کچھ تجھے مسلم کی ہے خبر
رونے لگا وہ مرد مسافر جھکا کے سر
شہ بولے وجہ کیا جو تیرا حال غیر ہے
جلدی بتا کہ میرے مسافر کی خیر ہے
رو رو کے حال پوچھتے تھے شہ نامدار
گر کر قدم پہ شہ کے وہ کہتا تھا بار بار
پھر چلیئے اب وطن کی طرف بہر کردگار
ہیں سب وہاں پہ عہد شکن اور جفا شعار
آل رسول پاک پہ کیا کیا جفا نہ کی
یہ ہیں وہی علی سے جنہوں نے وفا نہ کی

اے شاہ کونین کوفہ کو نہ جایئے۔ برائے علی وزہرا وطن کو پلٹ جایئے۔عجب نہیں کہ اہل شر آپ کے سر راہ ہوں۔ اور اہل بیت محمد تباہ ہوں۔ آپ نے ایک آہ سرد دل پر درد سے کھینچ کر فرمایا کہ میں معبود کے حکم پر راضی ہوں۔ لیکن برائے خدا مسلم کا حال بیان کر۔ اس نے عرض کی یا ابن رسول اللہ کس زبان سے عرض کروں کہ جس وقت امیر مسلم کے معین ومددگار ہانی بن عروہ وقیس اور عبد اللہ بن یقطر وغیرہ مارے گئے اور حضرت مسلم یک وتنہا رہ گئے۔ اس وقت ابن زیاد نے ان کی گرفتاری کے لئے اپنی فوج بھیجی۔ وہ جرار اپنی شمشیر آبدار لے کر مقابلہ کو تیار ہوا۔ اور بہت سے کوفیان بدشعار کو واصل جہنم کیا۔ جب وہ ناہنجار مقابلہ کی تاب نہ لا سکے تو نظم
جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ستم گار پکارے
اب روکیئے تلوار کہ دم نکلے ہمارے
بچنے کے نہیں مر جائیں گے ہم خوف کے مارے
للہ اماں دیجیئے ہیں گور کنارے
رکتی ہے ضرب بھلا کہیں ایسے ولی کی
حضرت کو قسم جان حسین ابن علی کی
نام شاہ والا جو سنا دل میں ہوا درد
شمشیر دودم روک کے کھینچا نفس سرد
سر پہ اجل آئی رخ پر نور ہوا زرد
ہم مشورہ پھر ہونے لگے کافر نامرد
کی فرقہ مکار نے تدبیر اسی جا
دیندار کو روکے رہے بے پیر اسی جا
تھی کثرت اہل ستم العظمتہ للہ
کفار نے اک غار بنایا صفت چاہ
منہ بند کیا مکر سے پھر اس کا سر راہ
گھیرے ہوئے مسلم کو وہیں لائے وہ بد خواہ
برج فلک مہر وتلطف کوگرایا
تھا شور کہ لو چاہ میں یوسف کوگرایا
کیا بس ہے بھلا قبضہ میں دشمن کے جب آئے
روباہ دل اس شیر دل افگار پہ چھائے
بس تیر کئی چاند سے سینے پہ لگائے
نیزے کئی آئینہ رخسار پہ کھائے
غربت میں عجب یاس سے وہ اشک فشاں تھے
فوارے لہو کے تن مسلم سے رواں تھے

حضرت مسلم سر خم کیے ہوئے اس غار میں کھڑے تھے۔ کوئی تلوار مارتا تھا۔کوئی پتھر لگاتا تھا۔عالم یاس میں فریاد کرتے تھے۔ اور کوئی نہ سنتا تھا۔ بار بار ہر شخص سے یہی کہتے تھے کہ کوئی میرے آقا کو اس مکر وفریب کی خبر دے۔ نظم
کہہ دے کہ غلام آپ کا مہماں کوئی دم ہے
یا سبط نبی آپ کے قاصد پہ ستم ہے
اے فاطمہ کے ماہ جو آنا ہو تو آو
تائید کو یا شاہ جو آنا ہو تو آو
اب ایک جہاں نائب حضرت سے پھرا ہے
تیغوں میں غلام آپ کا اس وقت گھرا ہے

افسوس صد افسوس مظلوم کی فریاد کو کسی نے نہ سنا اور ظلم وستم سے باز نہ آئے۔مولا کس زبان سے عرض کروں۔ جو ستم مسلم پر ہوئے کیوں کر بیان کروں۔ آخر اس شیر جانباز کو گرفتار کرکے ابن زیاد لعین کے پاس لائے۔ نظم

اس پر بھی ملا حاکم کوفہ کو نہ آرام
افسوس دیا حکم کہ ہو قتل یہ گلفام
کوٹھے پہ انہیں لائے پئے قتل بد انجام
غربت یہ پکاری کہ ہے خورشید لب بام
وہ خون میں ڈوبے ہوئے دل خستہ کھڑے تھے
مانند گنہگار رسن بستہ کھڑے تھے
جوق جوق کوفیان بے دین ہنستے ہوئے تماشے کو آتے تھے۔گلی کوچوں میں خوشی خوشی پھرتے تھے۔ کوٹھوں پر ان کی عورتیں تماشا دیکھتی تھیں۔ آہ اس عالم غربت میں ان لعینوں سے فرماتے تھے کہ اے فرقہ بے دین اگر مجھ بے گناہ کا قتل ہی منظور ہے۔ تو تم جانتے ہو کہ یہ عام دستور ہے کہ جب کسی گنہگار کی بھی گردن مارتے ہیں۔ تو اس کی تمنائے آخری بر لاتے ہیں۔اور میں تو نظم

دشمن نہیں میں تم ہوں مہمان تمہارا
اک بات جو مانو تو ہے احسان تمہارا
اس دم مجھے لا کر مرے پیاروں کو دکھا دو
اندوہ ورنج وغم کے ماروں کو دکھا دو
ہے داغ ذرا لالہ زاروں کو دکھا دو
پھولوں کو دکھا دو مرے تاروں کو دکھا دو
مل لینے دو ان ناز کے پالوں سے پدر کو
میں لوں انہیں آغوش میں تم کاٹ لو سر کو
کہتے تھے ابھی یہ کہ ہوا قہر دہائی
جلاد نے شمشیر ستم ست پہ لگائی
چلائے حسن ہائے ستم مر گیا بھائی
حیدر نے صدا دی میرے پیارے کے فدائی
تڑپا جو سر مسلم ذی جاہ زمین پر
تھرا کے تن پاک گرا آہ زمیں پر
رہ رہ کے نکلتا تھا تن پاک سے جب دم
مذبوح کا تن لوٹتا تھا خاک پہ اس دم
لاشے کی طرف دیکھ کے خوش ہوتے تھے اظلم
یاسین جو پڑھتے تو کہاں تھے شاہ عالم
یاد شہ والا میں سفر کر گئے مسلم
اعدا نے بہم ہنس کے کہا مر گئے مسلم
سامان یہ تھا موت کا واحسرتا دردا
مردے پہ بھی تلواریں لگاتے تھے غضب تھا
نازل نہ ہوا کوفیوں پہ قہر خدا کا
ہر سمت پھرایا کوچہ وبازار میں لاشا
یوں باندھ کے اعدا نے رسن پاوں میں کھینچا
خورشید کا تن دھوپ میں گہ چھاوں پہ کھینچا
یہ خبر شتر سوار کی زبانی سن کر امام مظلوم ڈاڑھیں مار کر رونے لگے۔ نظم

ہانی کے لئے روئے عزیزوں سے فزوں تر
انسو نہ تھما قیس کی افتاد کو سن کر
اس طرح کیا ماتم عبد اللہ ویقطر
جس طرح کہ روتا ہے برادر کو برادر
ہوتا ہے غریبوں کا تاسف غربا کو
روتے ہیں یونہی اہل وفا اہل وفا کو
فرماتے تھے مظلوم ومسافر مرا بھائی
مقتول جفا صابر وشاکر مرا بھائی
الفت میں مری مر گیا آخر میرا بھائی
ہے ہے مرا یاور میرا ناصر میرا بھائی
جب سے گئے آرام بلا شک نہیں پایا
قربان برادر کفن اب تک نہیں پایا
یہ حال جناب زینب سلام اللہ علیھا نے ملاحظہ فرمایا تو صدمہ سے چہرہ اقدس فق ہو گیا۔ بانوئے شاہ سر پیٹ کر بولیں بار خدایا یوسف مصطفےٰ کو کیا صدمہ ہے۔ اس طرح بے قرار وبے چین ہیں۔ آخر امام روتے ہوئے خیمہ میں تشریف لائے۔ اور رقیہ دختر مسلم کو اپنے پاس بلایا۔ جونہی نگاہ امام چہرہ رقیہ پر پڑی بے اختیار اشک انکھوں میں بھر آئے۔گود میں لے کر سینہ سے لگا لیا۔اور فرمایا کہ اے جان عم کیوں روتی ہو۔ ایک دن اپنے بابا سے ملو گی۔ بار بار سر پر بشفقت ہاتھ پھیرت تھے۔ یہ حال دیکھ کر وہ بچی بولی عموئے نامدار معلوم ہوتا ہے کہ میرے پدر بزرگوار شہید ہو گئے۔ کیونکہ اس وقت حضور کی میرے حال پر شفقت مثل یتیموں کے معلوم ہوتی ہے۔ یہ سن کر آپ ضبط نہ فر ماسکے بے اختیار رونے لگے۔ نظم
اصغر کو لیے کہتی تھی بانوئے دل فگار
میرا تو جگر منہ کو چلا آتا ہے ہر بار
اے بیبیو صغرا کو میں چھوڑ آئی ہوں بیمار
یہ کیا ہے جو روتے ہیں تڑپ کر شہ ابرار
ہر دل پہ جو اک غم کی گھٹا چھائی ہے لوگو
کیا کچھ میری بچی کی خبر آئی ہے لوگو

جناب زینب نے بے تاب ہو کر فرمایا،بھیا آپ کے اس طرح رونے کا سبب کیا ہے۔ جناب امام حسین علیہ سلام نے ارشاد فرمایا۔ اے زینب میرا بھائی مسلم شہید ہو گیا ہے۔ نظم
مسلم سے کوفیوں نے بہت بے وفائی کی
گاڑی نہ لاش بھی میرے مظلوم بھائی کی
پیٹو کہ رانڈ ہو گئی عباس کی بہن
رنڈسالہ اس کو دو کہ نہ اس کو ملا کفن
مارا گیا میرے لیے ہے ہے وہ صف شکن
اب ہم نہ پھر کے جائیں گے زندہ سوئے وطن
آپہنچی فصل فاطمہ کے خاک اڑانے کی
زینب یہ ابتدا ہے میرے مارے جانے کی
سمجھو تم اس خبر کو مرے قتل کی خبر
بانو بھی ساتھ زوجہ مسلم کے کھولے سر
پرسے کو آئے زوجہ عباس نامور
بے کس تھا وہ شریک عزا ہو تمام گھر
رنڈسالہ بیبیاں اسے جس دم پہنائیں گی
اماں بھی مری قبر سے رونے کو آئیں گی
کہہ دو سکینہ دختر مسلم کے پاس جائے
چھاتی کو جب وہ پیٹے تو یہ سر پہ خاک اڑائے
کبرا برابر اس کے زمین پہ پچھاڑیں کھائے
باپ اس کا مر گیا ہے گلے سے اسے لگائے
ہم بھی خدا کی راہ میں جب قتل ہوئیں گے
اک دن اسی طرح ہمیں سب لوگ روئیں گے

جس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے یہ خبر حضرت زینب سے بیان کی۔ خیمہ میں ایک حشر بپا ہو گیا۔ نظم
زینب کے قریں زوجہ مسلم ہے کھلے سر
کہتی ہے غضب ہو گیا اے شہ کی خواہر
میں رانڈ ہوئی لٹ گیا کوفہ میں مرا گھر
دو بچوں کے دنیا سے گزرنے کی ہے خبر
یہ ایلچی شہ کے مرنے کی ہے خبر
جس وقت سفر میں یہ غضب کی خبر آئی
ناموس محمد میں قیامت نظر آئی
خود سر سے کسی رانڈ کے چادر اتر آئی
واں کوئی گئی پیٹتی کوئی ادھر آئی
کیا درد کی باتیں تھیں رقیہ کی زبان پر
سب پیٹتی تھی دختر مسلم کے بیاں پر
وہ بین نبی زادیوں کے اور وہ ماتم
مقتول کی بیوہ کو غش آجاتا تھا ہر دم
پردیس میں وہ تازہ مصیبت وہ نیا غم
ماتم میں رہے تین دن اس جا شاہ عالم
فرصت نہ ملی نالہ ء وفریاد وفغاں سے
بھائی کا سوئم کرکے روانہ ہوئے واں سے
مطلب ہے وزیر اپنا نہ دنیا میں کسی سے
لیویں گے صلہ اس کا حیسن ابن علی سے
اللہھم صلی علی محمد وآل محمد وعجا فرجہ

No comments:

Post a Comment