Monday, August 16, 2010

دسویں مجلس شہادت پسران حضرت مسلم

بسم اللہ الرحمن الرحیم
دسویں مجلس پسران حضرت مسلم کی شہادت
آتا ہے جو کہ پیش بشفقت یتیم سے
آزاد ہے وہ گرمی نارجحیم سے
مومنین جائے فخر ومباہات ہے کہ ہم کو پروردگار عالمیان نے ایسے پیغمبر کی امت میں پیدا کیا، کہ جس کا مثل کوئی پیغمبر نہیں ہوا۔ باوجود اس عظمت وشوکت کے آپ اس قدر حلیم ورحیم تھے ۔چنانچہ کتب معتبرہ میں لکھا ہے کہ آپ نے ایک کم سن یتیم بچے کی پرورش کی تھی۔ اور وہ نہایت شوخ وشریر تھا۔ مگر پیغمبر خدا نے اسے کبھی سختی سے نصیحت نہ فرماتے تھے۔ اتفاقا بحکم رب جلیل اس یتیم نے قضا کی تو آپ بہت روئے۔اور کھانا تناول نہ فرمایا ۔کیونکہ وہ یتیم ہمیشہ آپ کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اصحاب نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ہم کوئی دوسرا لڑکا حاضر کریں۔ارشاد فرمایا آپ نے کہ تم نہیں جانتے منزلت پرورش یتیم کی۔ وہ لڑکا یتیم تھا ۔جس وقت کہ میں اس کی ناز برداری کرتا تھا۔ تو میرا پروردگار مجھ سے بہت خوش ہوتا تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص شفقت سے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے،تو جس قدر بال اس کے ہاتھ کے نیچے آجائیں گے۔خدا وند کریم ان بالوں کی تعداد کے برابر فرشتے پیدا کرتا ہے۔ اور حکم دیتا ہے کہ استغفار کرو میرے اس بندے کی طرف سے،کہ اس نے یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا ہے۔ جس کے سر پر سایہ پدر نہیں ہے۔ چنانچہ کتب معتبرہ میں وارد ہے کہ رواج دین کے لئے کفار سے جس قدر جہاد کا اتفاق ہوا۔ اور مشرکین ایمان نہ لانے کے سبب تہہ تیغ ہوئے۔ اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے لشکر اسلام کے ہاتھ آئے ۔ ان سب کو ان کی ماوں کے سپرد کر دیا گیا۔ اور جن کا وارث نہ ملا۔ آنحضرت خود ان کی خبر گیری مثل اولاد کے فرماتے تھے۔ اور اسی طرح حدیث میں وارد ہے کہ آپ کے یہاں جو کوئی مہمان آتا ،تو آپ تحفہ سے تحفہ غذا کھلاتے تھے۔چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک دفعہ جناب امیر نے مہمان کے واسطے مکان بہشتی اپنا بیع کیا۔ اور کھانے کھلانے اور مسافر نوازی وسخاوت آپ کی مثل آفتاب وماہتاب کے روشن ہے۔بیان کی حاجت نہیں۔ لیکن حضرات مقام غور ہے کہ جناب رسول خدا وعلی مرتضیٰ کی مرحمت وسخاوت کا تو یہ حال تھا کہ وہ حضرت مہمانوں کی خاطر داری اور مہمانان ومسافر نوازی میں کوئی شے عزیز نہیں رکھتے تھے۔ آہ واویلا رونے اور سر پیٹنے کا مقام ہے کہ حضرت مسلم علیہ سلام کی شہادت کے بعد آپ کے دونوں شہزادے تنہا بے پدر کے رہ گئے۔ تو ہر طرف سے واجب الرحم تھے۔یعنی اس سبب سے کہ کوفیان پر دغا نے خط تحریر کرکے امام مظلوم کو بلایا تھا۔ اور آپ نے اپنے بھائی حضرت مسلم کو بطور وکیل بھیجا۔ اور یہ دونوں صاحب زادے ہمراہ تھے۔ تو گویا اس گروہ اشقیا کے مہمان تھے۔ کہ آپ کا وطن مدینہ کوفہ سے دور تھا۔ تیسرے وہ بچے یتیم تھے۔عالم غربت میں ان کے سروں سے باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ حضرت مسلم کو ظالموں نے خود شہید کر دیا تھا۔ اور وہ صاحب زادے چنداں ہوشیار بھی نہ تھے۔ نظم

بچے بھی وہ بچے کہ جو کبھی نکلے نہ گھر سے
ماں جن کو نہ اک آن جدا کرتی تھی خود سے
نے راہ سے واقف نہ ایذائے سفر سے
وہ چھٹ گئے کوفہ میں پہنچتے ہی پدر سے
زخمی تبر وتیر سے جب ہوتے تھے مسلم
بیٹوں کی تباہی کے لئے روتے تھے مسلم
قطع نظر اس کے اس زمانے سے اب تک دستور دنیا ہے کہ جب کسی صغر سن بچے کا باپ مر جاتا ہے۔ تو تمامی خلائق وہ کافر ہوں یا مسلمان سب یتیم بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت سے پیش آتے ہیں۔ تاکہ یاد پدر میں بے تاب نہ ہوں۔اور ان کی بے تابی کو عین اپنی بے تابی سمجھتے ہیں۔ مگر آہ یتیمان حضرت مسلم کے لیے بعد شہادت کوفہ میں کوئی نہ تھا۔ کہ ان کوتسلی دے یا چھاتی سے لگائے۔
ہائے افسوس اس پر بھی کوفیان پر دغا نے اکتفا نہ کی۔ بلکہ ابن زیاد لعین نے حکم دیا کہ یتیمان مسلم کو تلاش کرو۔ کس کے گھر میں ہیں۔افسوس ان بچوں پر کسی بے رحم کو رحم نہ آیا۔ نظم

تھا شور منادی یہ سر راہ گزر میں
بیٹوں کو نہ مسلم کے چھپائے کوئی گھر میں
معصوم سمجھ کر کوئی رحم ان پہ نہ کھائے
ہاتھ آئیں تو دربار میں پکڑے ہوئے لائے
مجرم کی کبھی شیون وزاری پہ نہ جائے
دانا ہے وہ جو گوہر عزت کو بچائے
جس نے انہیں پنہاں کیا گھر اس کا لٹے گا
مر جائے گا پر قید سے کنبہ نہ چھٹے گا
روایت میں تحریر ہے کہ وقت شہادت حضرت مسلم نے دونوں صاحب زادوں کو قاضی کوفہ شریح کے گھر بھیج دیا تھا۔ جس وقت شہادت امیر مسلم کی خبر شریح کو پہنچی وہ نہایت مضطر وبے قرار ہوا۔ جناب مسلم کی مظلومی اور ان یتیموں کی بے کسی پر بہت رویا۔ حالانکہ ابھی شہادت پدر بزرگوار ان شہزادوں کے گوش گزار نہ ہوئی تھی۔مگر قاضی کوروتے دیکھ کر فرمایا کہ اے شریح کیا ہمارے پدر بزرگوار قتل ہو گئے جو تو روتا ہے۔ شریح نے اول تو چھپایا۔ آخر جب صاحب زادوں نے اصرار کیا تو کہا ہاں میری جان فدا ہو تم کو ابن زیاد نے بے پدر کر دیا ہے۔ اے صاحب زادوں جس وقت سے تمہارے پدر بزرگوار کو قتل کیا ہے۔ تمہاری تلاش میں جاسوس پھرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری آوازیں سن لیں۔اور اس نطفہ شیطان کو خبر کردیں۔ تو میرا گھر بار لٹ جائے گا اور تم کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ یہ سن کر ان صاحبزادوں کو، شعر
ہوا خوف ایسا نہ پھر کچھ کہا
ولیکن نہ تھمتا تھا آنسو ذرا

ہاں حضرات اس عالم غربت اور آفت یتیمی میں بجز رونے کے کیا ہو سکتا تھا۔مگر خوف سے وہ بچے رو بھی نہیں سکتے تھے۔ ان معصوموں کی بے تابی کو ذاکر کیا بیان کرے۔ نظم

سہمے ہوئے آپس میں یہی کہتے تھے رو کر
ساتھ آئے تھے افسوس چلے باپ کو کھو کر
پاس ان کے اگر ہوتے تو کچھ کام ہی آتے
ہم بنتے نشانہ جو لعیں تیر لگاتے
پانی تو بھلا منہ میں دم مرگ چلاتے
کاندھوں پہ پسر باپ کے مردے کو اٹھاتے
کیا جانیئے مرنے پہ بھی کیا رنج ومحن ہیں
گاڑے بھی گئے یا ابھی بے گور وکفن ہیں
مظلوم کی تربت کا پتا اب جو پائیں
رخصت کے لئے قبر پہ روتے ہوئے جائیں
سر پیٹ کے فریاد کریں اشک بہائیں
تعویز مزار پدر آنکھوں سے لگائیں
پالا تھا ہمیں باپ نے چھاتی پہ سلا کر
قرآن بھی ہم پڑھ نہ سکے قبر پہ جا کر
تقدیر نے اماں کی اگر شکل دکھائی
اور قتل کی بابا کے خبر ان کو سنائی
پو چھیں گی جو سر پیٹ کے اور دے کے دہائی
بتلاو کہ بابا کی کہاں قبر بنائی
گردن کو جھکائے ہوئے خاموش رہیں گے
تربت بھی تو دیکھی نہیں کیا منہ سے کہیں گے
ہم سا بھی زمانے میں نہ ہوگا کوئی مجبور
سوئم بھی کریں باپ کا اتنا نہیں مقدور
وارد ہیں وہاں رحم کا جس جا نہیں مذکور
ماں دور، چچادور،وطن دور، پدر دور
کس سے کہیں سن چھوٹے ہیں اور رنج بڑے ہیں
بابا کے تو مرنے سے تباہی میں پڑے ہیں۔

القصہ شریح بجان ودل آپ کی خاطر داری میں مصروف رہتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ اے شاہزادو بشرط حیات تم کو مدینہ پہنچاوں گا۔ پھر اپنے فرزند اسد سے بولا کہ تو دونوں شہزادوں کو ساتھ لے جا۔ ایک قافلہ بیرون شہر ٹھہرا ہے۔ جو مدینہ جانے والا ہے۔ ان دونوں گلہائے باغ مصطفوی کو اس میں کسی دیندار کے سپرد کرکے،اس کو ان شاہزادوں کے حسب نسب سے آگاہ کر دینا۔اسد اپنے والد بزرگوار کے حکم سے ان دونوں یتیموں کو لے کر روانہ ہوا۔ مگر افسوس کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ قافلہ کوچ کر گیا ہے۔ مگر اس کا غبار معلوم ہوتا تھا۔ اسد نے شہزدوں سے کہا تم جلد جلد جا کر اس قافلہ سے مل جاو۔ اسی غبار میں وہ قافلہ ہے۔ اور خود واپس چلا گیا۔ مگر آہ آہ ،تھوڑی دور شہزادے گئے مگر قافلے کا سراغ نہ ملا۔ نظم

پھرتی تھی اجل ساتھ جہاں جاتے تھے دونوں
پتا بھی کھڑکتا تھا تو ڈر جاتے تھے دونوں
پھرتے تھے بہکتے ہوئے دونوں جگر افگار
جو دیکھ لیا ان کو کسی شخص نے اک بار
چلایا کہ بس آگے قدم رکھیو نہ زینہار
جاتے ہو کدھر بھاگے ہم آتے ہیں خبردار
سنتے ہی اس آواز کے گھبرا گئے دونوں
سر تا بقدم بید سے تھرا گئے دونوں
بھائی سے کہا بھائی نے اب کیا کریں بھائی
اعدا ہمیں لینے نہیں آئے اجل آئی
افسوس کہیں امن کی جا ہم نے نہ پائی
مشکل ہے بہت موت کے پنجہ سے رہائی
آتے ہیں بس اب برچھیاں تانیں گے ستمگر
منت بھی کرو گے تو نہ مانیں گے ستمگر
یہ کہتے تھے جو آن ہی پہنچے وہ جفا جو
اور باندھ لیے رسی سے ان دونوں کے بازو
بچوں پہ اٹھاتا تھا طمانچہ کوئی بد خو
کہتا تھا کوئی لے چلو کھینچے ہوئے گیسو
وہ کہتے تھے ہم دام بلا میں تو پھنسے ہیں
بازو پھر کس لیے رسی میں بندھے ہیں
جاتے تھے جو روتے ہوئے وہ نازوں کے پالے
بازار میں بے تاب تھے سب دیکھنے والے
جلادوں میں معصوموں کے تھے جان کے لالے
تکتے تھے ہر ایک کو کہ کوئی ہم کو بچا لے
حال اپنا اشارے سے جتاتے تھے کسی کو
رسی میں بندھے ہاتھ دکھاتے تھے کسی کو
پہنچا انہیں لے کر جو وہ ظالم سربازار
خدام نے کی عرض کہ حاضر ہیں گنہگار
تھا تخت مرصع پہ مکیں حاکم غدار
دہشت سے لرزتے تھے بچوں کے تن زار
بیٹھے ہوئے سب کرسیوں پہ چھوٹے بڑے تھے
رسی میں بندھے ہاتھ وہ معصوم کھڑے تھے
مظلوموں سے یہ کہنے لگا حاکم ملعون
اس بھاگنے کی اب کہو کیا تم کوسزا دوں
صدمہ سے یتیموں کا ہوا حال دگرگوں
تھرا کے یہ کہنے لگے وہ بے کس ومحزون
ہاں قتل ہی کرنے کے سزاوار ہیں ہم بھی
بابا تھا گنہگار گنہگار ہیں ہم بھی

جس وقت ان معصوموں نے یہ فرمایا۔ تمام حاضرین کا دل بھر آیا۔ اور کہنے لگے کہ یہ نادان بے تقصیر لائق تعزیر نہیں ہیں۔ بھاگ کر کہاں کو جاتے۔ یہ سن کر وہ دشمن لعین بے دین چپ ہو رہا۔ اور زندان بان کو بلا کر حکم دیا کہ ان کو قید خانے میں لے جا۔اور ایک تاریک حجرے میں اس طرح قید کر کہ سونے نہ پائیں۔ نظم
دیجیو نہ خبردار مزے کا انہیں کھانا
گرمی میں بھی پانی کبھی ٹھنڈا نہ پلانا
یہ سحر بیاں ہیں کبھی باتوں پہ نہ جانا
بازو نہ کھلیں رسی سے جب تک ہیں توانا
دشمن کے ہیں فرزند اذیت انہیں دیجیو
کپڑوں کے بدلنے کی بھی نہ فرصت انہیں دیجیو
اس طرح کی حجرے میں ہوں یہ مہہ لقا بند
جس حجرے کے روزن بھی ہوں بند اور ہوا بند
دن بھر تو رہیں ایک ہی زنجیر میں پابند
اور رات کو ہو ایک جدا ایک جدا بند
سر کو درو دیوار سے ٹپکا کریں دونوں
آپس میں گلے ملنے کو تڑپا کریں دونوں

غرض وہ نگہبان ان دونوں یوسف لقا کو قید خانے میں لے گیا۔ اور اس مردود ازلی کے حکم کے موجب ایسی ہی کوٹھری میں بند کر دیا۔ نظم
تاریک وہ حجرہ تھا مثال شب ظلمات
معلوم نہ ہوتا تھا کہ کب دن ہوا کب رات
مرقد کے اندھیرے کو بھی اس گھر نے کیا مات
سہمے ہوئے روتے تھے وہ آنکھوں پہ دھرے ہاتھ
تھی پیش نظر وصل میں تنہائی کی صورت
بھائی کو نہ آتی تھی نظر بھائی کی صورت

وہ ایسا تنگ وتاریک قید خانہ تھاکہ جس میں ہوا کا گزر بھی نہ تھا۔ وہ معصوم بچے پسینے میں تر بل کھاتی ہوئی زلفیں خاک میں اٹی ہوئی تھیں۔اس قید شدید میں کھانا اور پانی ملنا تو ایک طرف سونا وآرام سے لیٹنا بھی نصیب نہ تھا۔ شب وروز آہ وزاری میں بسر ہوتی تھی۔ نہ تکیہ تھا نہ بچھونا۔ نظم

فاقوں میں بسر کرتے تھے دن بھر وہ گل اندام
جو مالک زندان تھا وہ آتا تھا سر شام
جا بیٹھتے تھے دروازے کے نزدیک وہ گلفام
دیتا تھا انہیں دوروٹیاں اور پانی کے دوجام
تھا خوف زبس حاکم اظلم کے غضب سے
اٹھ اٹھ کے سلام اس کو وہ کرتے تھے ادب سے

اللہ اللہ وہ خشک روٹی جب ان نازوں کے پالوں کے گلوں میں پھنستی تھی ۔تو رورو کر کہتے تھے،کہ خدا دشمن پر بھی یہ مصیبت نہ ڈالے۔ نظم
پانی بھی نہ جی بھر کے ہمیں ملتا ہے بھائی
یہ خشک ہے روٹی کہ گلا چھلتا ہے بھائی
سمجھتاتا تھا چھوٹے کو بڑا بھائی یہ روکر
یہ جا نہیں شکوہ کی کرو شکر برادر
دیکھو تو نہ سر پر ہے پدر اور نہ مادر
تھوڑا ہے کہ یہ بھی ہمیں آتا ہے میسر
نعمت سے زیادہ ہمیں یہ نان جویں ہے
منہ اپنا تو اس کھانے کے قابل بھی نہیں ہے
رزاقی معبود پر غور کرنا چاہیئے کہ اس قید خانہ میں کھانا ملنے کی سبیل اس نے نکال دی ہے۔ اے بھائی جان نان جویں ہماری ازلی غذا ہے۔اور فاقہ کشی میراث پدری ہے۔ نانا ہمارے حضرت علی نے ہمیشہ جو کے سوکھے ٹکڑے کھائے ہیں۔ ہم بھی ان ہی کے نواسے ہیں۔ غور کرو یوسف پیغمبر نے قید میں کیسی مصیبت اٹھائی۔اللہ کی عنایت سے ان کو پھر مصر کی بادشاہی ملی۔ اگر افضال الہیٰ ہے تو کسی دن ہماری بھی رہائی ہو گی۔ نظم

چھوٹے نے کہا سب ہے بجا آپ کا ارشاد
بھائی بشریت سے ہے یہ نالہ وفریاد
ہم سا تو زمانے میں نہ ہوگا کوئی ناشاد
چھوٹے بھی تو ہوئیں گے نہیں رنج سے آزاد
یعقوب نے چھاتی سے لگایا تھا پسر کو
ہم قید سے بھی چھٹ کے نہ پائیں گے پدر کو

الغرض ایک مدت تک وہ دونوں صاحبزادے مبتلائے اذیت وتکلیف رہے۔ یہاں تک کہ ان کی شکلیں متغیر ہوگئیں۔ تصویریں لڑکپن کی پیری سے تبدیل ہوئیں۔ سر کے بال بڑھ گئے۔ جسم اقدس کی رگیں نمایاں ہو گئیں۔ آنکھوں میں حلقے پڑھ گئے۔ بیٹھا اٹھا نہیں جاتا تھا۔ کروٹ لینے میں غش آتا تھا۔ ناچار ہو کر ایک روز بڑے نے چھوٹے صاحب زادے سے کہا کہ اے بھائی یہ کیسی قید ہے۔ اس قدر عرصہ گزر گیا نہ چچا نے خبر لی، نہ ماں کو یاد آئی۔ نظم
افسوس یونہی عمر چلی جاتی ہے بھائی
نہ قید سے چھٹتے ہیں نہ موت آتی ہے بھائی

یہ سن کر بڑے بھائی نے کہا،اللہ سب کی مشکلیں آسان کرے گا۔بزرگوں کا شکوہ کرنا بے جا ہے۔
کس طرح کہیں بھول گئی ہوویں گی مادر
شبیر کو الفت میں ہیں ہم سب کے برابر
کیا جانے کس آفت میں ہیں فرزند پیمبر
وہ قید سے غیروں کو چھڑاتے ہیں برابر
سنتے تو مدد آن کے بھائی نہ کرتے
تدبیر بھتیجوں کی رہائی کی نہ کرتے
یہ کہتے تھے وا ہو گیا قفل در زندان
اور دینے لگا آب وغذا ان کو نگہبان
چھوٹے نے کھڑے ہو کے کہا با تن سوزان
ہم تجھ کو دعا دیتے ہیں اے مرد مسلمان
پینے کو نہ پانی نہ غذا چاہتے ہیں ہم
کچھ حال سنے تو کہا چاہتے ہیں ہم

اس یوسف لقا کا یہ کلام سن کر اس نگہبان نے کہا، کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ صاحب زادے نے کہا تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتا ہے۔اس نے عرض کی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی برحق کو جو نہ پہچانے وہ کافر ہے۔ تب آپ نے فرمایا کہ تو اسد اللہ کو جانتا ہے۔ اس نے کہا وہ میرے امام ہیں۔ میں تو ان کا غلام ہوں۔ پس یہ سن کر دونوں صاحبزادوں کی جان میں جان آگئی۔اور تفصیل سے اپنا سارا حال اس سے بیان کیا۔ جس وقت اس زندان بان نے ان بچوں کا مفصل حال سنا۔ نظم
پس سنتے ہی گھبرا گیا وہ مرد خوش اطوار
معصوموں کے قدموں پہ گرا دوڑ کے اکبار
کہتا تھا میں اس حال سے واقف نہ تھا زینہار
بخشو مجھے میں نے تمہیں گھڑکا تھا کئی بار
شکوہ مرا اللہ پیمبر سے نہ کیجیئو
جنت میں شکایت مری حیدر سے نہ کیجیو

دونوں صاحبزادوں نے فرمایا کہ اللہ وپیمبر تیری شفاعت کریں گے۔ ہمارے ساتھ اس قدر احسان کر کہ ہم مدینہ پہنچ جائیں۔ اس کے صلہ میں حضرت فاطمہ حشر میں تمہاری حامی ہو ں گی۔ بیت
غرض اس زندان بان نے دونوں صاحبزادوں کو قید خانہ سے نکالا۔اور قادسیہ کے رستے پر لگا کر واپس گیا۔ وہ دونوں صاحبزادے اسی سمت روانہ ہوئے۔ لیکن افسوس ہے کہ ایسی قید شدید اٹھا کر وہ چل نہیں سکتے تھے۔ بیت
چڑھ جاتا نقاہت سے جو دم ہانپنے لگتے
سایہ نظر آتا تو بدن کانپنے لگتے
افسوس کہ اس جنگل میں ،نظم
پھرتے رہے قسمت نے نہ کی راہ نمائی
رستہ نہ ملا جانے کا اور نصف شب آئی
چھوٹے نے کہا چلنے کی طاقت جو نہ پائی
اب تو ہمیں نیند آتی ہے ٹھہرو کہیں بھائی
کہتا تھا بڑا دن ہیں ابھی سخت ہمارے
سوئیں گے جو بےدار ہوئے بخت ہمارے
کہ اسی عرصہ میں ایک باغ نظر آیا۔وہاں جا کر ایک درخت کی جڑ میں پوشیدہ ہو کر سوگئے۔ اس درخت کے نیچے ایک چشمہ پانی کا تھا۔ وہاں پر ایک ضعیفہ پانی بھرنے آئی۔ دونوں صاحبزادوں کو دیکھا تو ان کے قریب آئی۔ وہ بے چارے مصیبت کے مارے کانپنے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر اس ضعیفہ نے ان کو تسلی ودلاسا دیا۔ اور شفقت سے ان کا حال پوچھا۔ان معصوموں نے اپنا حال بیان کیا،اور اس کے پاوں پر گر پڑے۔ اور فرمانے لگے۔ نظم

رکھتے ہیں قرابت تو رسول عربی سے
مسلم کے پسر ہیں ہمیں کہیو نہ کسی سے
وہ بولی کہ آنکھوں پہ تمہیں رکھوں میں دن رات
پر صاحب خانہ ہے بڑا فاسق وبد ذات
حاکم کا تو وہ دوست ہے اور دشمن سادات
گر دیکھ لیا اس نے تو بننے کی نہیں بات
لونڈی ہوں میں زہرا کی تمہارا ہی یہ گھر ہے
ڈر ہے تو اسی ظالم وبے رحم کا ڈر ہے
یہ سن کر ان یتیموں کے قالب بےجان میں جان آگئی۔ کہنے لگے اے مومنہ ہم کو کسی حجرے میں چھپا دے۔ ہم کو تکیہ وبچھونا نہیں چاہیئے۔ وہ ضعیفہ ان دونوں بچوں کے گرد پھرنے لگی۔ اور کہنے لگی آپ کی خدمت گزاری سعادت کونین سمجھتی ہوں۔ پھر اپنے گھر میں لے آئی۔ مگر اپنے شوہر بدذات کے خوف سے ترساں ولرزاں تھی۔الغرض وہ دونوں شاہزادے نظم

مہماں ہوئے جا کر ستم ایجاد کے گھر میں
دونوں کو اجل لے گئی جلاد کے گھر میں
کھانا بھی نہ کھایا نہ پیا دونوں نے پانی
اور سوئے بہم مسلم مظلوم کے جانی
وہ نیند نہ تھی موت کی گویا تھی نشانی
دروازے پہ آ پہنچا ادھر ظلم کا بانی
چلایا ضعیفہ کو یہ زنجیر ہلا کر
کوسوں کا تھکا آیا ہوں در کھول دے آکر

یہ سن کر وہ ضعیفہ کانپنے لگی،اور خوشامد آمیز باتیں کرنے لگی،کہ ایسا کیا کام تھا کہ جو اس قدر رات گئے تم آئے۔ وہ نطفہ شیطان بے ایمان غصہ میں تو بھرا ہوا تھا۔ تیوری چڑھا کر بولا کہ تجھ کو میرے معاملات سے کیا واسطہ۔پھر ہتھیار کھولے اور بستر پر گر کر سوگیا۔ کچھ رات باقی تھی کہ دونوں صاحبزادوں نے خواب میں اپنے پدر بزرگوار کو دیکھا کہ حضرت مسلم آئے ہیں اور پیار فرما کر کہتے ہیں کہ اے نور دیدگان اب ایام تکلیف بسر ہوئے۔ کل تم میرے پاس ہو گے۔ یہ خواب دیکھ کر ایک نے دوسرے کو جگایا ،اور تمام ماجرا خواب کا سنایا۔ اور گلے مل کر رونے لگے۔ ان کی آواز سن کر وہ مردود ازلی جاگ اٹھا،اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔آخر ،نظم
کھول کر در حجرہ کو در آیا مقہور
دیکھتا کیا ہے کہ ہے نور سے حجرہ معمور
اس میں دویوسف کنعاں ہیں بحال رنجور
طعنہ زن ماہ پہ ہے جن کا عذار پر نور
دست افسوس ہر اک مرتبہ وہ ملتے ہیں
داغ سینوں کے چراغوں کی طرح جلتے ہیں
پہلے تو حارث ملعوں نے کہا صلی علیٰ
پھر لگا کہنے کہ تم کون ہو اور نام ہے کیا
سرخ جو دید ہ حارث کو نہایت دیکھا
ڈر گئے کانپ گئے وہ جگر شیر خدا
ڈر سے اور خوف سے ملعون کی تعظیم بھی کی
چھوٹے ہاتھوں کو اٹھا کر اسے تسلیم بھی کی
اور یوں بولے کہ تجھے نام بتائیں ہم کیا
بے وطن بے پدر آفت زدہ محبوس بلا
اس کے فرزند ہیں مظلوم ہے جو حد سے سوا
جس کے لاشہ کو کفن بھی نہیں اب تک ہے ملا
باپ کے ہجر میں ہیں شور مچایا ہم نے
عفو کر خواب سے ہے تجھ کو جگایا ہم نے
وہ لگا کہنے کہ نام اپنا بتاو مجھ کو
بولے معصوم کہ مسلم کے پسر ہیں ہم تو
نام مسلم کا جو دشمن تھا وہ ملعون بد خو
خندہ زن ہو کے وہ مردود لگا کہنے کہ ہو
یوسف آمد بہ وطن ما بہ سفر در بدر یم
صید در دام گرفتار وما بے خبریم
وہ سخن سنتے ہی روئے وہ بہت بادل زار
زلفیں ان دونوں کی ملعون نے کھینچیں اک بار
اور طمانچے سے کیے سرخ وہ گل سے رخسار
اس گھڑی کانپ گئی قبر رسول مختار
زوجہ حارث کی تو سر رورو کے ٹکراتی تھی
روح زہرا کے بھی نالوں کی صدا آتی تھی
الغرض اس ملعون ازلی نے کچھ رحم نہ کھایا۔اور در حجرہ میں قفل لگا کر سورہا۔ جب صبح ہوئی حجرہ کا دروازہ کھولا۔ حضرات کس زبان سے عرض کروں۔دونوں شہزادوں کی زلفیں پکڑ کے حجرے سے کھینچ کے باہر نکالا۔ دونوں معصوم اس سے کہنے لگے کہ اے حارث تو ہم کو حاکم کے پاس مت لے چل۔ بیت
جس روز سے بابا موئے بدلی نہیں پوشاک
کرتوں پہ کہیں خون لگا ہے تو کہیں خاک
آہ آہ وہ شقی ازلی کب فریاد ان غریبوں کی سنتا تھا۔ نظم
الجھی ہوئی زلفوں کو لعیں کھینچ رہا تھا
دریا پہ پئے قتل انہیں لے کے چلا تھا
جلاد کے بس میں جو پڑے ہائے وہ نادان
اک ہاتھ میں مظلوموں کی تھی زلف پریشان
اک ہاتھ میں تھے چھوٹے سے کرتوں کے گریبان
بچے ہی تو تھے ڈر سے نکل آتے تھے دندان
گرتے ہیں تڑپ کر یہ نہیں چھوٹتے ہیں بال
کرتے کبھی پھٹتے ہیں کبھی ٹوٹتے ہیں بال
بے چاروں کے ہیں تن کانپتے دل ہیں دہلتے
کانٹے ہیں لگے پاوں میں گر کر ہیں چھلتے
حارث جو ڈراتا ہے تو پھر جلدی ہیں چلتے
اب آنسو کے جا ٹکڑے جگر کے ہیں نکلتے
گرگر پڑے ہیں چھوٹے سے عمامے بھی سر سے
مظلوم اٹھاتے نہیں ملعون کے ڈر سے
چھوٹے کو بڑا بھائی ہے بڑھ بڑھ کے بچاتا
ہر بار ہے مصحف کی طرح بیچ میں آتا
رو دیتا ہے کچھ کہنے کا موقع نہیں پاتا
بے ساختہ بس حرف زباں پر ہے یہ لاتا
سن حال غریبوں کا خدا کے لئے دم لے
اب ہم ترے گھر میں اگر آئیں تو قسم لے

اے حارث ہم پر رحم کھا۔اپنی خوشی سے تیرے گھر میں نہیں آئے۔ نہ کوئی چین پایا۔تھوڑا ساآرام ملا تھا۔ سو اس کا عوض تونے یہ دیا کہ رات بھر رسی میں باندھ کھڑا رکھا۔ اب چھوڑ دے اقرار کرتے ہیں کہ ہم تیرے گھر پھر کبھی نہیں جائیں گے۔ اور زوجہ حارث کی طرف مایوسانہ دیکھ کر کہتے تھے۔ نظم

چھڑوادے کہ پکڑے ہوئے زلفوں کوعدو ہے
اماں نہیں بابا نہیں جو کچھ ہے سو تو ہے
بالوں کو بکھیرے ہوئے وہ مومنہ تھی ساتھ
مظلوموں کو ظالم سے چھڑاتی تھی وہ خوش ذات
گہہ پاوں پہ سر رکھتی تھی گہہ جوڑتی تھی ہاتھ
کہتی تھی خدا کے لیے کیا کرتا ہے ہیہات
بس بس کہ زمیں اب تو ہلی جاتی ہے ظالم
زہرا مجھے سر ننگے نظر آتی ہے ظالم
حیدر کے نواسوں پہ غضب لاتا ہے توبہ
سیدانیوں کے بچوں کو تو رلواتا ہے توبہ
فاقوں سے بدن دونوں کا تھراتا ہے توبہ
اور تجھ کو ذرا رحم نہیں آتا ہے توبہ
ڈر سے تیرے معصوموں کے دنداں نکل آئے
غالب ہے لحد سے شہ مرداں نکل آئے

ارے ظالم کیوں زلفوں کو پکڑ کر کھینچتا ہے۔ یہ ناشاد علی علیہ سلام کی اولاد ہیں۔ افسوس کہ نبی کے احسان تجھ کو یاد نہیں۔ تو بھی صاحب اولاد ہے ۔ بچوں پہ رحم کر۔ یتیموں کا ستانا اچھا نہیں۔ اے بیدین اگر تو طالب زر ہے۔ تو بعوض ان یتیموں کے فاطمہ کے نام پر مجھ کو بیچ دے۔ نظم
ظالم نے تہہ تیغ کیا زوجہ کو اس آن
یا فاطمہ کہہ کے وہ ہوئی بچوں پہ قربان
دریا پہ عدو لایا انہیں پکڑے گریبان
دی تیغ غلام حبشی کو وہاں عریاں
غصہ سے کہا دونوں کوانگلی سے بتا کر
ہاں کاٹ لے سر ان کے کنارے پہ تو جا کر
الغرض جس وقت وہ غلام حبشی تلوار لے کر بڑھا تو دونوں شہزادے سر جھکا کر ہمراہ چلے۔ منقول ہے کہ وہ حبشی مثل حضرت بلال کے حق آگاہ تھا۔ ان مظلوموں نے فرمایا کہ اے بندہ اللہ تو موذن رسول بلال سے بہت مشابہہ ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ تو رسول کا محب ہے یا دشمن نظم
وہ بولا نبی پہ ہوں فدا میں بدل وجان
چپکے سے کہا دونوں نے اب ہم ہیں حیران
عترت کا تو قاتل ہے نبی پر ہے تو قربان
وہ بولا عزیزوں میں پیمبر کے ہوتم ہاں
تقصیر ہوئی مجھ سے نہ آگاہ تھا خادم
للہ ہدایت کرو گمراہ تھا خادم
کیا رشتہ ہے پیارو تمہیں محبوب خدا سے
ہونٹوں پہ زباں پھیر کے یوں بولے وہ پیاسے
جعفر کے تو ہم پوتے ہیں حیدر کے نواسے
بولا حبشی آنکھوں کو مل کر کف پا سے
شہزادو قسم فاطمہ کی فاقہ کشی کی
بخشو مجھے خاطر سے بلال حبشی کی
پھر غصہ سے حارث کی طرف پھینک دی تلوار
بے وار لگائے ہوئے دریا کے ہوا پار
حارث نے کہا ہو گیا آقا سے تو بےزار
وہ بولا خدا سے تو نہیں پھر گیا زینہار
تو کام کر اللہ کا کام اپنا لے مجھ سے
تو پھر گیا اللہ سے میں پھر گیا تجھ سے
بعد اس کے حارث ملعون نے فرزند کے ہاتھ میں تلوار دے کر کہا کہ بیٹا تو ان بچوں کے سر اڑا دے۔ وہ دیندار دونوں شہزادوں کو لے کر چلا تھا۔ کہ ان معصوموں نے یاس سے اسے دیکھا۔وہ بولا کیا دیکھتے ہو میں تم کو قتل کروں گا۔ شاہزادوں نے کہا تجھ کو دیکھ کر بھائی علی اکبر یاد آگئے ہیں۔اور تیری جوانی پر تاسف آتا ہے۔ کہ ناحق جہنم کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اگر چہ علی اکبر بھی جوان ہیں ۔مگر وہ کسی کو قتل نہیں کرتے۔ نظم
وہ بولا کہ اکبر ہیں عزیزوں میں تمہارے
رو کر کہا ہاں بیٹے ہیں ماموں کے ہمارے
سب بھائیوں میں ہم بہت اکبر کو ہیں پیارے
کیا دخل حضور ان کے جو ماں بھی ہمیں مارے
ہم گھٹنیوں عباس کے سینے پہ چلے ہیں
اور زینب وکلثوم کی گودی میں پلے ہیں
یہ سنتے ہی گرد ان کے پھرا حق کا وہ شیدا
دریا میں گرا تیغ پٹک کر لب دریا
اللہ کی رحمت میں ہوا غرق سراپا
حارث نے کہا حق یہ پدر کا تھا تو بولا
حاشا تو پدر کس کا شقی ازلی ہے
ماں فاطمہ ہے مومنو کی باپ علی ہے
تو کور ہے ظالم نظر آئے تجھے کیوں کر
وہ دیکھ نبی روتے ہیں دریا پہ کھلے سر
ظالم نے کہا مجھ کو نہیں خوف پیمبر
اک تیغ تلے دونوں کو بٹھلایا برابر
گردن کو نہ جھکنے دیا سجدے میں خدا کے
سر کاٹا بڑے بھائی کا چھوٹے کو دکھا کے
سر پاس رکھا لاش کو دریا میں بہایا
بھائی کے گلے کا جو لہو خاک پہ پایا
الفت سے برادار کا لہو جوش میں آیا
تب جوڑ کے ہاتھ اپنے یہ قاتل کوسنایا
پونچھوں یہ لہو کرتے سے تلوار جھکا دے
لوٹوں بڑے بھائی کے لہو میں جو رضا دے
وہ بولا کہ ہو شوق سے غلطاں مجھے کیا ڈر
بھائی کے لہو میں وہ لگا لوٹنے گر کر
کہتا تھا کہاں اب تمہیں ڈھونڈے یہ برادر
تم تو ابھی بیٹھے ہوئے تھے میرے برابر
اس طرح نصیب اپنا الٹتے ہوئے دیکھا
بھائی کا گلا بھائی نے کٹتے ہوئے دیکھا
اس خون کے تھالے پہ کبھی سر کو جھکاتا
چلو میں لہو بھر کے کبھی منہ پہ لگاتا
کرتے میں کبھی خون بھرے ہاتھ سکھاتا
اور ہاتھوں سے اپنے کبھی اک قبر بناتا
پڑھتا تھا کبھی فاتحہ ہاتھوں کو اٹھا کر
یارب میرے بھائی کو ثواب اس کا عطا کر

کیوں حضرات اس معصوم پر کیا گزری ہوگی۔ وہ بچہ اپنے بھائی کے خون میں لوٹتا تھا۔ اور کوئی پرسان حال اس معصوم کا نہ تھا۔ حارث ملعون شمشیر برہنہ لیے پاس اس کے کھڑا تھا۔ افسوس صد افسوس کس زبان سے اس معصوم مسافر کا حال بیان کروں۔ نظم
ناگاہ غضب وطیش سے حارث یہ پکارا
بس لوٹ چکے اٹھو کہ سر کاٹوں تمہارا
اٹھ بیٹھ کہا اچھا گلا کاٹو ہمارا
سر کاٹ کے دریا میں جو تن ڈالا قضا را
آواز یہ آئی ہوئے سب پورے ارادے
اے نہر مجھے بھائی کے لاشے سے ملا دے
روایت میں وارد ہے کہ بڑے بھائی محمد کا لاشا اپنے چھوٹے بھائی ابراہیم کا منتظر تھا۔ جونہی اس کا جسم نازنین بڑے بھائی سے ملا۔ نظم
سینہ پہ رکھا سینہ جگر رکھا جگر پر
اور ہاتھ اٹھے ان کے سوئے قبلہ برابر
حلقوم بریدہ سے صدا آئی مکرر
شبیر کی ہو خیر کہ ہم تو ہوئے بے سر
مادر کو بھلا دیجیئو اب یاد ہماری
لے لیجیئو جلاد سے تو داد ہماری
الغرض وہ شقی ازلی ان دونوں صاحبزادوں کے سر ہائے مبارک لے کر ابن زیاد کے پاس آیا۔ اور اس بد نہاد کے سامنے رکھ دیئے۔ حضرات ان ننھے ننھے بچوں کے سر دیکھتے ہی باوجود قساوت قلبی کے ابن زیاد ملعون کے آنسو نکل آئے۔ اور حارث لعین سے کیفیت دریافت کی۔اس مردود ازلی نے اپنی زوجہ ،فرزند اور غلام کے اور اپنی شقاوت اور ان بچوں کی منت وزاری کے تمام حالات فخریہ بیان کیے۔ اور کہا کہ وہ مجھ سے فریاد کرتے اور کہتے تھے کہ ہم خاندان نبوی اور رشہ داران مرتضوی سے ہیں۔ لیکن اگر تو ہم کو اس خاندان بزرگ سے نہیں مانتا، تو مسلمان ہی جان کر چھوڑ دے۔ مگر میں نے ایک بات بھی ان کی نہ سنی۔ لیکن اخیر میں جو فرمایا۔ نظم
اس کلمہ کو سن کر مرے آنسو نکل آئے
جنت سے نبی کھول کے گیسو نکل آئے
وہ آخری یہ بات کہی دونوں نے باہم
بالفرض تیرے آگے مسلمان بھی نہیں ہم
بچپن پہ ہمارے نظر رحم کر اس دم
اک اماں کا دم رکھتے ہیں بابا تو ہوئے بے دم
غربت پہ یتیمی پہ صغیری پہ نظر کر
پردیسیوں کو چھوڑ دے اللہ سے ڈر
یہ سنتے ہی حاکم نے شقی سے کہا رو کر
اغلب ہے یہ سن کر تو ترس آیا ہو تجھ کو
کانوں پہ دھرا ہاتھ پکارا کہ نہیں تو
تیری ہی قسم رحم جو اس پر بھی کیا ہو
سوگند سنی میں نے نبی کی نہ خدا کی
وہ منتیں کرتے رہے اور میں نے جفا کی
پیاسوں کو برابر لب دریا بٹھایا
دکھلا کے انہیں تیغ کو پتھر پہ لگایا
اور بولا کہ لو بچو یہ مجھ کوترس آیا
دونوں کو دم ذبح بھی باتوں سے رلایا
وہ کہتے تھے گردن سے تو تلوار ملی ہے
میں کہتا تھا بس میری یہی رحم دلی ہے
حارث کو نہ حاکم نے صلہ کچھ دیا اصلا
سر کاٹ کے پھنکوادیا اس نہر میں مردا
پانی نے کیا مردہ ناری سے کنارا
مظلوموں کے غم سے تھا عجب شور میں دریا
سر ننگے صفیں مردم آبی کی کھڑی تھیں
اور مچھلیاں نکلی ہوئی ریتی پہ پڑی تھیں
کہتے ہیں کہ اس روز ہوئی شام جو پیدا
تو اہل زراعت نے لب نہر یہ دیکھا
اک قافلہ آیا ہے نجف سے سوئے دریا
ہیں عورت ومرد اس میں سیاہ پوش سراپا
اور آگے ملک چاک گریبان کیے ہیں
کاندھے پہ علم کالے پھریروں کے لیے ہیں
اک مرد بزرگ آگے برہنہ کیے سر ہے
اک بی بی رکھے ہاتھوں کو بالائے جگر ہے
سر ہاتھوں پہ اک شخص لیے خون میں تر ہے
سب کہتے تھے یہ دونوں شہیدوں کے پدر ہیں
غل ہے کہ جو پیشانی پہ یہ خاک ملے ہیں
مسلم کے یتیموں کے لئے رونے چلے ہیں
ہر چار طرف کہتی ہیں حوریں یہ برابر
ہٹ جاو بتول آئی بتول آئی کھلے سر
ہر گاہ ٹھہر جاتا ہے وہ قافلہ چل کر
آتی ہے یہ آواز کہ غش ہو گئے شبر
گاہے تو یہ شیون ہے کہ حیدر کو غش آیا
گاہے یہ صدا ہے کہ پیمبر کو غش آیا
سب آئے وہاں قتل ہوئے تھے جہاں پیاسے
اک شیر بڑھا قافلہ اہل عزا سے
نعرہ کیا دریا پہ یہ اندوہ بکا سے
اے نہر کہاں ہیں مرے مظلوم نواسے
بے چین بہت روح ہے اب حق کے ولی کی
اے نہر تو لا جلد امانت کو علی کی
اے نہر تیرے پاس علی کے ہیں وہ اختر
یوسف کے برابر ہیں یہ دویوسف حیدر
اے نہر تیرے پاس علی کے ہیں وہ گوہر
اک فدیہ اکبر ہے اور اک فدیہ اصغر
ان دونوں سے بڑھ کر نہیں ہے صبر کسی میں
اک دے مرے دامن میں اک آغوش نبی میں
یہ درد بھرے کلمے جو دونوں نے سنائے
سن کر یہ سخن نہر سے لاشے نکل آئے
حیدر نے کلیجے سے وہ دو مردے لگائے
اور کشتیوں میں حلہ فردوس منگائے
بولے کہ فدا ماموں پہ سر تم نے کیے ہیں
لو پہنو یہ خلعت تمہیں زہرا نے دیئے ہیں
ان دونوں نے حلقوم بریدہ سے سنایا
کیا جانیں کفن باپ نے پایا کہ نہ پایا
حیدر نے کہا ان کو بھی حلہ ہے پہنایا
بابا بھی تمہارا تمہیں رونے کو ہے آیا
پھر حلہ فردوس نواسوں کو پہنا کے
زہرا سے کہا روو بس اب لاشوں پہ آکے
یہ کہنا علی کا کہ ہوا آہ عجب حال
سب اہل عزا گرد ہوئے بیچ میں وہ لال
کی خون سے دونوں کی جبیں فاطمہ نے لال
لاشوں پہ کھڑے ہو کے پریشان کیے بال
چلائی کہ ہے ہے شہ مرداں کے نواسو
ہے ہے مرے پردیسیوں ہے ہے مرے پیاسو
ہے ہے مرے مظلوم غریبوں کا مقدر
ہے ہے نہ ہوئی خاک وطن تم کو میسر
ہے ہے مرے عباس کی ہمشیر کے دلبر
ہے ہے علی اصغر علی اکبر کے برادر
پردیس میں بچپن کی شہادت پہ میں صدقے
جو روئے تمہیں اس کی محبت پہ میں صدقے
ہے ہے مرے مسلم کے چراغوں کو بجھایا
ہے ہے مرے پردیسی کی دولت کو لٹایا
ظالم نے رقیہ کی امانت کو مٹایا
شبیر کو ان بھانجوں کے غم میں ہے رلایا
تلواروں کے اور فاقوں کے مارے ہوئے ہے ہے
پیاسے مرے جانی مرے پیارے موئے ہے ہے
ناگاہ بدن مردوں کے ہل ہل گئے سارے
زہرا نے جو پوچھا تو تڑپ کر یہ پکارے
اماں کی صدا آتی ہے یہ دل کو ہمارے
ہے ہے نہ ملے مجھ سے بچھڑ کر مرے پیارے
افسوس ہے پھر مادر ذیشاں کو نہ دیکھا
بابا کو تو پھر دیکھا اور اماں کو نہ دیکھا
ہاتھوں کو اٹھا حق سے وزیر اب یہ دعا کر
معصوموں کا صدقہ مری حاجت کو روا کر

No comments:

Post a Comment