ساتویں مجلس فضائل وشہادت امام حسن علیہ السلام
ہے ذکر شہادت حسن سبز قبا کا
پھٹتا ہے جگر جوش سے یہ آہ وبکا کا
معتبر کتابوں میں جناب سلمان فارسی سے روایت ہے کہ ایک روز جناب رسالت مآب کی خدمت میں ایک شخص غیر موسم میں انگور تازہ لایا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ میری آنکھوں کے نور حسنین کو بلاو۔ میں جناب سیدہ کے دولت سرا پر شاہزادوں کو لینے گیا۔ مگر وہاں حسنین موجود نہیں تھے۔ معلوم ہوا کہ وہ حضور کی خدمت میں آئے ہیں۔ میں نے واپس آکر حقیقت حال سے سرکار دو عالم کو آگاہ کیا۔ اس خبر کے سنتے ہی جناب رسالت مآب مضطربانہ اصحاب کے ہمراہ صاحبزادوں کی تلاش میں اٹھے۔ اور فرمانے لگے جو شخص خبر حسنین سے مجھے خوش کرے گا،میں اسے فردا ئے قیامت خوش کروں گا۔ کہ ناگاہ جبریل امین نازل ہوئے اور عرض کی کہ اے فخر پیغمبران فرزند آپ کے فلاں باغ میں سوتے ہیں۔ یہ سنتے ہی آنحضرت اس باغ میں پہنچے تو دیکھا آپ نے کہ وہ دونوں نونہال بوستان امامت وغنچہء سربستہ چمنستان رسالت وگلہائے گلستان ہدایت ایک دوسرے کی گردن میں باہیں ڈالے سو رہے ہیں۔ اور سر بالین ایک اژدہائے مہیب مروحہ جنبانی کر رہا ہے۔
نظم
کیا مرتبے خالق نے کیے آل عبا کے
سوتے تھے جو دلدار بتول عذرا کے
ہر طرح سے مبذول تھے الطاف خدا کے
حاضر تھے حفاظت کو ملک عرش سے آکے
تا خواب میں غمگیں کہیں حسنین نہ ہوئیں
آئے نہ خلل نیند میں بے چین نہ ہوئیں
پر ہائے یہ خالق کی عنایات ہو جن پر
لکھا ہے کہ امت نے انہیں بعد پیمبر
رہنے نہ دیا چین سے نانا کی لحد پر
ہر طرح سے اعدا نے کیا بے کس وبے پر
شبر کو تو مارا ستم زہر دغا سے
شبیر کو مذبوح کیا تیغ جفا سے
غرض جوں ہی آنحضرت نزدیک پہنچے،تو اژدہے نے آپ کا استقبال کیا اور کہا السلام علیک یا رسول اللہ، میں آسمان کے فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہوں۔ اور عبادت معبود میں کچھ کوتاہی ہو جانے کے سبب عتاب الہی سے اژدہے کی شکل میں مسخ ہو کر زمین پر بھیج دیا گیا ہوں۔ اور کئی سال سے اسی حال میں بسر کر رہا ہوں۔ آج یہ امید لے کر حضور کےفرزندوں کی خدمت گزاری کرنے آیا ہوں کہ ان کی شفاعت کی برکت سے ارحم الراحمین میری توبہ قبول فرمائے۔آنحضرت تو حسنین کے سرہانے بیٹھ گئے اور اپنے پارہ ہائے جگر کے بوسے لینے اور بو سونگھنے لگے۔ یہاں تک کہ حسنین بےدار ہوئے،ان کو جناب رسول خدا اپنی گود میں بیٹھا کر پیار کرنے لگے۔ پھر فرمایا کہ اےبرگزیدگان درگاہ الہیٰ مولف
ہے یہ ملک مقرب درگاہ کبریا
حاضر ہے جو کہ روبرو ہم شکل اژدہا
صادر ہوئی اس سے عبادت میں کچھ خطا
نازل ہوا عتاب خدا مسخ ہو گیا
قابو نہیں اسے ذرا قلب حزین پر
پھینکا گیا خدا کے غضب سے زمین پر
یہ سن کے کانپنے لگے سبطین مصطفےٰ
اور جلد آب پاک سے پہلے وضو کیا
پھر دو رکعت نماز کھڑے ہو کے کی ادا
اور ننھے ہاتھ اٹھا کے خدا سے یہ کی دعا
رنج وملال دور ہو اس دل ملول کا
اس اژدہے کو بخش دے صدقہ رسول کا
ابھی دعا تمام نہ ہوئی تھی کہ جبریل امین با گروہ ملائکہ نازل ہوئے۔اور فرشتہ معتوب کو رحمت الہیٰ کی خوشخبری دی۔ اور اسی دم مثل سابق بال وپر نکل آئے۔ اور وہ دعا دیتا ہوا فرشتوں کے ہمراہ آسمان کی جانب پرواز کر گیا۔بسند صحیح منقول ہے کہ ایک روز جناب رسول خدا امام حسن کو اپنے دوش مبارک پر سوار کیے تشریف لے جا رہے تھے، کہ ایک شخص نے کہا صاحب زادے کتنا اچھا تمہارا مرکب ہے۔ یہ سنتے ہی آنحضرت نے فرمایا کہ سوار بھی کس قدر بہتر ہے۔ اس طرح اس شخص کو جناب رسول مقبول نے آگاہ فرمایا مولف
کیا جانے کوئی اس کے مراتب بجز خدا
یا تو میں جانتا ہوں ویا جانے مرتضےٰ
کہتا ہوں اتنی بات میں اس وقت برملا
ہو گا انہی کے ہاتھ سے امت کا بھی بھلا
مقبول ہیں عطائے خدائے کریم سے
امت بچے گی ان کی بدولت جحیم سے
منقول ہے کہ ایک روز جناب رسالت مآب صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم مجمع اصحاب میں رونق افروز تھے، کہ جناب امام حسن تشریف لائے۔ آنحضرت نے جونہی اپنے جگر گوشہ کے روئے مبارک پر نظر کی ،بے اختیار روئے اور فرمایا کہ اے میرے فرزند دل بند اے میری آنکھوں کے نور جلد آو۔حضرت امام حسن تشریف لائے تو ان کو داہنے زانو پر بٹھا لیا۔ اصحاب میں سے کسی نے پوچھا کہ حسن کو دیکھتے ہی رونے کا سبب کیا ہوا۔ آپ نے فرمایا حسن میرا فرزند پسندیدہ اور میرے دل کا ٹکڑا ہے اور بہترین جوانان اہل بہشت ہے۔ جوں ہی میں نے جمال حسن پر نظر کی،مجھ کو اس کی بے کسی ،مظلومی اور مصیبت جو میرے بعد اس پر پڑے گی یاد آگئی۔ اور میں بے چین ہو گیا۔اس سبب سے کہ میرے بعد اس غریب وبے دیار کو دشمنان جفا کار نہ چھوڑیں گے،اور ہمیشہ درپے رنج وعناد رہیں گے۔ اور زہر سے شہید کریں گے۔اور ملائکہ آسمان وزمین اور کروبیان ملاء اعلیٰ اس کے ماتم میں روئیں گے۔ اور مرغان ہوا اور ماہیان دریا اس کی غریبی اور بے کسی پر آہ ونالہ کریں گے۔ اور جو اس کی تعزیت میں اندوہ گیں ہوگا،فردا قیامت خرم وشاداں حوروں کے ہمراہ خلد بریں میں مسکن گزین ہوگا۔مولف
روز ازل سے کاتب قدرت نے ہے لکھا
کچھ رمز کی یہ بات نہیں سب پہ ہے کھلا
جو دوست ان کے ہیں وہ بہشتی ہیں برملا
دشمن کا گھر نہیں ہے جہنم کے ماسوا
ان کے فضائلوں کا نہیں کچھ شمار ہے
سرکار کبریا میں انہیں اختیار ہے
منقول ہے کہ جب وصی جناب رسالت مآب یعنی جناب علی مرتضیٰ مشکلکشائے عالم کی شہادت کا وقت قریب پہنچا تو آپ نے تمام اسرار امامت جناب امام حسن کو تلقین فرمائے۔ چنانچہ کتب معتبرہ میں وارد ہے کہ امام کونین امیر المومنین کی شہادت کے بعدجناب امام حسن منبر پر تشریف لائے۔ اور بکمال فصاحت وبلاغت حمد خدا ونعت محمد مصطفیٰ ومدح جناب علی مرتضیٰ میں ایک خطبہ پڑھا اور فرمایا کہ حاضرین آگاہ ہوں کہ میرے نانا وبابا جس طرح دین کی دعوت فرماتے تھے۔ میں بھی تم کو اسی طرح دعوت دین کرتا ہوں۔تھے۔ تو سب نے برضا ورغبت بیعت کی۔ لکھا ہے کہ اسی روز چالیس ہزار اشخاص بیعت سے مشرف ہوئے۔اس وقت آپ کا سن مبارک سینتیس برس کا تھا۔ جب جناب امام حسن کی خلافت کی خبر حاکم شام کو پہنچی تو نظم
ہو کر وہ غضبناک چلا شام سے غدار
سادات کی مظلوم کی خون ریزی پہ تیار
ہمراہ تھے ہشتاد ہزار اس کے جفا کار
تھا خوف نبی کا نہ جنہیں دہشت قہار
کہتا تھا کہ شبر کو میں بے جان کروں گا
احمد کے نواسے کو میں قربان کروں گا
پہیم یہی سنتا ہوں وہاں کا میں افسانہ
بیعت کا حسن کی متمنی ہے زمانہ
لازم ہے یہ مجھ پر کہ کروں فوج روانہ
دب جائے گا بیعت کی حسن کا یہ ترانہ
آغاز ابھی ہے جو خبر آج نہ لیں گے
گزریں گے جو کچھ دن کف افسوس ملیں گے
جب امام حسن علیہ سلام کو اس کا یہ ارادہ معلوم ہوا تو آپ بھی کوفہ سے باہر تشریف لائے۔ تو لکھا ہے کہ حاکم شام نے تحریر خفیہ اس مضمون کے پیغامات روسائے لشکر امام علیہ سلام کو خفیہ طور سے بھیجے۔کہ جو کوئی امیر المومنین یعنی حسن علیہ سلام سے منحرف ہو کر میراساتھ دے گا۔وہ میرے نزدیک عزیز ومحترم ہوگا،اور میرے لطف وکرم سے سرفراز ہو کر بہت سا مال وزر پائے گا۔ اور مناصب لائق پر ممتاز ہوگا۔اور جو کوئی انہیں قتل کرے گا یا گرفتار کرکے میرے پاس لائے گا،تو اپنی دختر اس کے نکاح میں دوں گا ۔ اسی طرح اس بدین کی متواتر تحریریں بی ایمان وبد کرداروں کے پاس پہنچتی رہیں،پھر تو اکثر روسائے کوفہ راہ جنت سے پھر کر مائل جہنم ہوئے۔جناب امام حسن علیہ سلام نے چند نفر امیر معاویہ کے سر راہ تعینات فرمائے،جو دین کو دنیا سے بدل کرکے اس کے شریک ہوتے رہے۔ آخر جب حضرت نے دیکھا کہ کوفیان بیحیا ستمگاران پر وغا مکر وفریب پر آمادہ ہیں ۔اور حاکم شام سے ملے جاتے ہیں توحضرت بہت متردد وپریشان ہوئے،اور ان بے وفاوں کے دلوں کا امتحان لینے کے لئے سب کو ساباط مدائن میں جمع کیا۔ اور فرمایا کہ مجھے مسلمانوں کی سلامتی مد نظر ہے۔ حتی الامکان جدال وقتال سے پرہیز کرنا چاہتا ہوں۔ لوگوں نے جب یہ سنا سمجھے حضرت آمادہ صلح ہیں،جس وقت یہ خبر معاویہ کو پہنچی،اس نے فرصت کو غنیمت جان کر اور اکثر کوفیوں کو ساتھ لے کر جو بیعت امام سے منحرف ہو گئے تھے۔ حضرت پر یورش کی۔ آخر حضرت مجبور ہو کر مع چند شیعوں کے مدائن کی جانب متوجہ ہوئے۔اثنائے راہ میں جراح ابن سنان اسدی نظم
بیٹھا تھا سر راہ کمیں میں وہ جفا کار
دل میں تو حسد ہاتھ میں اک خنجرخونخوار
دیکھا جونہی حضرت کو کیا ظلم کا اک وار
بس ران میں ہڈی تک اتر آئی وہ تلوار
صدمہ ہوا حضرت کے دل پاک کے اوپر
سنبھلا نہ گیا بیٹھ گئے خاک کے اوپر
حضرت کے رفیقوں کا عجب حال تھا اس دم
روتا تھا کوئی اور کوئی کرتا تھا ماتم
سر پیٹ کے کہتا تھا کوئی کیا کریں اس دم
جنگل میں مصبیت کا عجب ہم پہ ہے عالم
کہتا تھا کوئی قاتل خونخوار کو مارو
ذلت سے اذیت سے جفا کار کو مارو
پھر شاہ کے غم خواروں نے ملعون کو مارا
تلوار سے سر دشمن شبر کا اتارا
اور جسم نجس بھی کیا مردود کا پارا
باقی نہ رہا غازیوں کو جب کوئی یارا
بٹھلا کے عماری میں شہنشاہ زمن کو
زخمی تھے بہت لائے وہ گودی میں حسن کو
الغرض روسائے مرتدین کوفہ نے معاویہ کو لکھا کہ ہم سب تیرے مطیع ومتعقد ہیں۔ جلد سوئے عراق متوجہ ہو کہ امام حسن علیہ سلام کو تیرے حوالے کردیں۔ لکھا ہے کہ جب زخم حضرت کا اچھا ہوا تو آپ نے کوفیان بے ایمان کو بنظر تمام حجت لکھا کہ تم لوگ خوف خدا سے ڈرو،نقص عہد مت کرو،میرے پاس مجتمع ہو کر شریک جہاد ہو مگر وائے ہو ان ملاعین پر کسی نے ارشاد امام پر توجہ نہ کی۔ اس وجہ سے مجبورا آپ نے بمقتضائے مصلحت چاہا کہ معاویہ سے صلح کریں۔چنانچہ چند شرطوں کے ساتھ کچھ دن صلح رہی۔ مگر معاویہ نے عہد شکنی کی۔مجبورا امام حسن علیہ سلام مدینہ واپس ہوئے تو لکھا ہے کہ اثنائے راہ میں آپ ایک شخص کے گھر مہمان ہوئے، جو بظاہر اظہار محبت کرتا تھا۔ اور حضرت کے پہنچنے سے پہلے معاویہ نے اس شخص کو زرومال کا لالچ دے کر اس پر آمادہ کر لیا تھا کہ زہر وغا سے حضرت کاکام تمام کردے۔چنانچہ نظم
منقول ہے شبر جو ہوئے آن کے مہمان
آمادہ عداوت پہ ہوا شہ کی بد ایمان
مہمان کی ضیافت میں ہوا جان کا خواہان
کھانے میں دیا زہر تاکہ آپ ہوں بے جان
دعوت میں عداوت سے نہ بے دیں نے کمی
پر جان سلامت رہی دل بند علی کی
پھر بار دوم شاہ کو زہر اس نے کھلایا
پیغمبر یزداں سے حیا دل میں نہ لایا
اس مرتبہ دل زہر کے صدمے نے ہلایا
اور حدت سم نے جگر پاک ہلایا
اس مرتبہ بھی پائی شفا سبط نبی نے
پھر بار سوم زہر دیا ہائے شقی نے
بالاخر حضرت اس سے آمادہ جنگ ہوئے۔چنانچہ حضرت کے چند اصحاب نے اس نابکار کو واصل جہنم کیا۔پھر حضرت رنجور وعلیل وہاں سے مدینہ روانہ ہوئے۔اس زمانے میں مروان بن حکم مدینہ کا حاکم تھا۔ معاویہ نے اس ملعون کے پاس ایک شیشی زہر بھیج کر لکھا کہ اگر اس میں سے ایک قطرہ دریا میں پڑے تو تمام جانوران آبی بے جان ہو جائیں۔لہذا جس تدبیر سے ممکن ہو حسن علیہ سلام کو زہر دے کر ان کے آباواجداد سے ملحق کر۔ چنانچہ مروان ملعون نے ایسونیہ اور لالہ کے ذریعے سے بہ ہزار مکر وفریب زن امام حسن علیہ سلام یعنی جعدہ بنت اشعث کو جس کا نام اسما بھی مشہور ہے۔ زر کثیر اور یزید بے پیر سے تزویج کا لالچ دے کر ہموار کیا۔اور وہ ملعونہ اس بات پر راضی ہو گئی۔
چنانچہ اس بے حیا نے حشم وجاہ دینوی پر فریفتہ ہوکر حق مظلوم فراموش کرکے شہد خالص میں زہر ملا کر حضرت کو کھلایا۔آپ اس کے کھانے سے ساری رات قے کرتے رہے۔ اور شدت سے درد شکم تھا۔ علی الصبح بعین حالت درد مندی قبر مطہر حضرت رسول خدا پر تشریف لے گئے۔ بارے آپ نے شفا
پائی۔ بار دیگر اس ملعونہ نے رطب زہر آلود حضرت کو کھلایا۔اس مرتبہ کچھ پہلے سے زیادہ تکلیف ہوئی۔ لیکن پھر پیغمبر کی قبر مطہر کی برکت سے شفا پائی۔
اور حضرت کو اس ملعونہ پر شبہ ہوا۔ اور دوستوں کی ایک جماعت کے ساتھ آب وہوا تبدیل کرنے کی غرض سے موصل تشریف لائے۔ منقول ہے کہ وہاں ایک نابینا شام کا رہنے والا اہلبیت کا بہت بڑا دشمن تھا۔ جب اس نے سنا کہ حضرت موصل تشریف لائے ہیں۔ تو اس نے ایک عصا کے نیچے ایک سنان آہنی میں زہر لگا کر عزم موصل کیا۔اور جناب امام حسن علیہ سلام کی خدمت میں حاضری کے لئے اظہار عقیدت میں نہایت کوشش کی،اور نماز جماعت میں حضرت کے پیچھے شریک ہوا کرتا تھا،اور بکمال مکر پند وموعظہ سن کر رویا کرتا تھا۔ اتفاقا نظم
اک دن ہوئے مسجد سے برآمد شہ والا
موجود تھے احباب بھی سب آپ کے اس جا
بے درد نے موقع جو ذرا ظلم کا پایا
پس پائے مبارک پہ عصا رکھ کت دبایا
صدمہ ہوا ایسا کہ نہ پھر شہ کو کل آئی
اور آہ انی پیر کے نیچے نکل آئی
پھر تو وہ رنج وغم ہوا شہ پہ طاری
فوارا خوں پائے مبارک سے تھا جاری
فرماتے تھے دشوار ہے اب زیست ہماری
جراح ومعالج بھی ہوئے دیکھ کے عاری
حیرت تھی حکیموں کو کہ اب دیکھیے کیا ہو
یہ زخم ہے ایسا نہیں ممکن کہ شفا ہو
حضرت کے اصحاب نے جب یہ کلمہ سنا،تو نہایت بے تاب ہوئے ،لکھا ہے کہ جب اس بے دین نے ظلم کیا تو آنحضرت کے رفقا نے اس ملعون کو گرفتار کرکے چاہا کہ قتل کردیں۔ قربان ہوں ہماری جانیں اس مظلوم کے صبر پر کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ اگرچہ یہ مستحق سزا ہے۔ لیکن اس کے لئے یہی مناسب ہے کہ اس کو چھوڑ دو تاکہ خلق میں بد نام ہو۔ اور فردائے قیامت میری شفاعت سے محروم رہے۔ اس کے بعد جراح آپ کے معالجہ میں مشغول ہوئے۔اور زہر کا اثر عروق جسم مطہر سے دواوں کے ذریعے سےرفع ہو گیا۔ اور آنحضرت صحیح وتندرست ہو گئے۔ راوی لکھتا ہے کہ ایک روز جناب عباس علمدار حسین مظلوم موصل میں سیر کرتے ہوئے جا رہے تھے کہ آپ نے اس بے بصر ملعون کو مع اسی اعصا کے شہر کے ایک کنارے جاتے ہوئے دیکھا۔ جونہی اپنے برادر عالی وقار کی اذیت و تکلیف یاد آئی۔ آپ کو تاب ضبط نہ رہی۔ فی الفور اس مردود ازلی کو اس کے اعصا سے واصل جہنم کیا۔ غرض موصل سے امام حسن علیہ سلام مدینہ تشریف لائے۔ اور جعدہ ملعونہ سے فی الجملہ احتیاط فرمانے لگے۔مروان پلید نے جو حضرت کی تشریف آوری کی خبر سنی۔ اسما ملعونہ کے پاس الماس کو سفوف زر کثیر کے وعدہ کے ساتھ پھر بھیجا۔وہ ملعونہ شب وروز اسی فکر میں رہتی تھی کہ شب جمعہ اٹھائیس صفر کو وہی سفوف لے کر آنحضرت کی خوابگاہ میں آئی،تو دیکھا کہ وہ جناب آرام فرماتے ہیں،اور آپ کی بہنیں اور بیٹیاں چپ وراست اور لونڈیاںپائیں پا سو رہی ہیں۔ وہ ملعونہ آہستہ آہستہ قریب حضرت کے آئی دیکھا کہ ایک کوزہ آب سر بمہر آنجناب کے سرہانے رکھا ہوا ہے۔ ہائے افسوس اس شقیہ ملعونہ نے دہن کوزہ پر جو پارچہ بندھا ہوا تھا۔اس پر وہی سفوف الماس رکھ کر ملا۔ کہ کل برادہ کوزہ کے اندر چھن گیا۔اور پھر اپنے حجرہ میں آکر سو گئی۔
راوی کہتا ہے کہ تھوڑی دیر گزری تھی کہ آنحضرت خواب سے بےدار ہوئے اور اپنی بہن جناب زینب کو آواز دے کر فرمایا کہ اے خواہر محترم میں نے آج خواب میں جد بزرگوار رسول دوسرا وپدر عالی مقدار علی مرتضیٰ ومادر عالیہ فاطمہ زہرا کو دیکھا ہے۔پھر آپ نے کوزہ اٹھا کر ملاحظہ فرمایا تو بجنسہ سر بمہر پایا۔آہ افسوس: وہی پانی تھوڑا سا نوش فرمایا تھا کہ کوزہ زمین پر پھینک دیا۔ اور ارشاد فرمایا کہ آہ یہ کیسا پانی تھا کہ حلق سے ناف تک پارہ اورپارہ ہو گیا ۔اور یہ حالت آپ کی ہوئی۔نظم
جب زہر لعینہ نے دیا شاہ زمن کو
حیدر نے کیا چاک گریبان کفن کو
اور درد جگر نے کیا بے تاب حسن کو
زینب نے رکھا سامنے منگوا کے لگن کو
حلقہ کیے بیٹھے تھے سب اندوہ ومحن میں
اور گرتے تھے ٹکڑے دل شبر کے لگن میں
کس منہ سے کہوں میں کہ نہیں ضبط کا یارا
تاثیر یہ کی زہر ہلاہل نے قضارا
دل ہو کے گرا یکصد وہفتاد ودوپارا
دل تھام کے تب بازوئے شبر یہ پکارا
برباد کیا چرخ جفا جو نے ستم سے
مارا مرے بھائی کو ستم گاروں نے سم سے
زہرا کی صدا آئی کہ میں ہو گئی بے آس
گھیرے ہے میرے دل کو ہجوم الم ویاس
اعدا نے کچھ روح محمد کا کیا پاس
اے لوگو میرے لال کا قاتل ہوا الماس
رخ رنگ زمرد ہوا زہرا کے خلف کا
ٹکڑے کیا ہیرے نے نگیں در نجف کا
یہ سنتے ہی اکبار بپا ہو گیا محشر
روتا تھا کوئی اور کوئی پیٹتا تھا سر
سر تا بہ قدم سبز ہوا جسم مطہر
شبیر پکارے کہ میں قربان برادر
طوبیٰ کا تمہیں شوق ہے پہچان گئے ہم
ہو عازم گلزار جناں جان گئے ہم
یہ سن کر امام حسن اپنے عزیز بھائی امام حسین نے لپٹ گئے۔اور فرمایا کہ سچ ہے ہماری تمہاری ملاقات اب قیامت پر ہے۔ میں نے ایسا ہی خواب دیکھا ہے کہ جد بزرگوار باغ جنت میں ٹہل رہے ہیں،اور فرماتے ہیں کہ اے حسن اے نور نظر خوش ہو کہ تو نے دشمنان بے ایمان کے دست ظلم سے خلاصی پائی۔ کل شب کو تو میرے پاس ہو گا۔ اور دوسری طرف میں نے دیکھا کہ مادر گرامی نہایت پریشان حور غلمان کے ساتھ کھڑی ہیں،جونہی مجھے دیکھا فرمایا کہ اے نور دیدہ تمہارے نانا اور باپ تمہارے انتظار میں ہیں۔اور قصر زمردی تمہارے واسطے آراستہ کیا گیا ہے۔ نظم
اس ذکر سے بس گھر میں بپا ہو گیا محشر
زینب سے یہ فرمانے لگے حضرت شبر
کس سمت کو ہیں والدہ قاسم مضطر
لے آو ذرا پاس میرے تم انہیں جاکر
کچھ کہہ لوں میں ان سے کہ جدائی کی گھڑی ہے
زینب نے کہا رو کے سر ہانے وہ کھڑی ہے
آئیں جونہی وہ سامنے با دیدہ پر نم
فرمایا حسن نے کہ زمانے سے چلے ہم
مہمان ہیں ہم آپ کے دنیا میں کوئی دم
اس ذکر کے سنتے ہی بپا ہو گیا ماتم
شبر نے کہا صبر کرو رونے میں کیا ہے
معلوم ہے یہ صابروں کے ساتھ خدا ہے
پھر قاسم گلفام کو پاس اپنے بلایا
کچھ پرچہ قرطاس پر لکھ کر اسے بخشا
فرمایا کہ بازو پہ اسے باندھ لو بیٹا
جس وقت کہ شبیر پہ ہو نرغہ اعدا کا
ہاتھوں سے نہ ہمت کی عناں دیجیو بیٹا
اس میرے نوشتے پہ عمل کیجیو بیٹا
قاسم کو سراسیمہ بہت غم سے جو پایا
آنسو شہ مسموم کی آنکھوں میں بھر آیا
پھر راز امامت شہ بے کس کوبتایا
سینہ سے برادر کو لگا کر یہ سنایا
دنیا سے میرا کوچ ہے اب دار بقا کو
سونپا تمہیں گھر بار کو اور تم کو خدا کو
پھر آپ نے جناب امام حسین سے ارشاد فرمایا کہ دیکھو میرے چہرے کا رنگ کیسا ہے۔ عرض کی سبز ہو گیا ہے۔ یہ سن کر جناب امام حسن نے اپنے بھائی حسین کے گلے میں ہاتھ ڈال کر منہ پر منہ رکھ دیا۔اور دونوں بھائی ایسا روئے کہ کہ اہل بیت میں کہرام برپا ہو گیا۔ جناب امام حسین نے پوچھا کہ بھائی جان یہ تو فرمایئے کہ آپ کو کس نے زہر دیا ہے۔ فرمایا جان برادر جس نے زہر دیا ہے ۔وہ خود اپنی سزا کو پہنچے گا۔ میں نہیں چاہتا کہ اسے رسوا کروں۔ پھر آپ نے اسما ملعونہ کو خلوت میں طلب کیا اور فرمایا کہ اے ناہنجار وبے وفا مجھ سے کیا بد سلوکی ہوئی تھی کہ تونے میرے بچوں کو یتیم کیا۔ناحق تو نے آخرت کی ذلت اختیار کی۔ بے سبب مجھے شہید کیا،اور فرمایا کہ جا تو خود سزا پائے گی۔
اور تیرا مقبےصود حاصل نہ ہوگا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ،جب کہ وہ ملعونہ یزید لعین کے ساتھ نکاح کی امید میں معاویہ کے پاس گئی اور کہا کہ میں نے تیرے کہنے کے مطابق امام کا کام تمام کر دیا ہے۔ اب تو بھی وعدہ وفا کر۔ اس ناہنجار نے کہا جب تو نے سبط رسول سے وفا نہیں کی تو میرے بیٹے سے کیا کرے گی۔ اور حکم دیا کہ بدترین موت سے اسے مارو۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ الغرض امام حسن علیہ سلام خلوت سے اٹھ کر باہر تشریف لائے۔اور جناب قاسم کو سینہ سے لگا کر زار زار روئے۔ اور جناب امام حسین سے فرمایا کہ بھیا میرا لال تمہارے حوالے ہے۔
یہ کہہ کے حسن گلشن جنت کوسدھارے
میت سے لپٹ کر شہ بے کس یہ پکارے
اب کوئی بزرگوں میں نہیں سر پہ ہمارے
چھوڑا ہمیں اے عرش الہیٰ کے ستارے
بے کس کیا ہم کو سوئے کوثر گئے بھائی
بن باپ کے بھائی سے یہ کیا کر گئے بھائی
گھرمیں ہوا خاتون قیامت کے تلاطم
غل تھا کہ اٹھا خلق سے معصوم چہارم
بے تابی تھی ایسی کہ نہ تھی تاب تکلم
تاریک ہوا مہر نظر آگئے انجم
بدلی کی طرح دل پہ الم چھا گیا ہائے ہائے
خورشید امامت پہ زوال آگیا ہائے ہائے
کلثوم پکاری کہ میرے جان برادر
اس چہرہ انور کے میں قربان برادر
مرنے پہ ہے کیا واہ تیری شان برادر
دنیا سے گئے ہائے یہ پرارمان برادر
حسرت ہی رہی بیٹے کو نوشاہ نہ دیکھا
لاتے ہوئے قاسم کو دلہن آہ نہ دیکھا
سیدانیاں سر پیٹتی تھیں غش میں تھے شبیر
ہوش آیا تو عباس سے کی رو کے یہ تقریر
کیا دیکھتے ہو غسل وکفن کی کرو تدبیر
اب دیر مناسب نہیں اے صاحب توقیر
بھائی تھے شہ یثرب وبطحا کی امانت
سونپ آوں میں بابا کو یہ بابا کی امانت
یہ کہہ کے ساتھ میں لیا عباس علی کو
اور غسل دیا حیدر صفدر کے وصی کو
پہنا چکے جس وقت کفن حق کے ولی کو
دی مڑا کے ندا تب یہ رسول عربی کو
صدمے دیے امت نے بہت آل عبا کو
مارا مرے بھائی حسن سبز قبا کو
حضرت کی وصیت کوئی خاطر میں نہ لایا
اور مرتبہ آل پیمبر کا بھلایا
بے رحموں نے خاتون قیامت کو رلایا
بابا کو مرے جام شہادت کا پلایا
باز آئے نہ حیدر کو بھی یہ لوگ ستا کر
بے جان کیا بھائی کو میرے زہر پلا کر
نانا یہ حسین آپ کا اب ہو گیا تنہا
نہ تم ہو زمانے میں نہ حیدر ہیں نہ زہرا
شبر بھی قضا کر گئے کوئی نہیں میرا
فر ما کے یہ تابوت میں مردے کو جو رکھا
تھا شور کہ آیا ہے قمر برج شرف میں
تابوت میں مردہ ہے کہ گوہر ہے صدف میں
رخصت کیا سیدانیوں نے آکے حسن کو
تابوت لیے گھر سے چلے سید خوشخو
مردوں میں تھا یہ شور کہ تعظیم کو اٹھو
اور لخت جگر فاطمہ کی شان کو دیکھو
رہنے کو مکیں آتا ہے اپنے مکاں میں
آمد گل زہرا کی ہے گلزار جناں میں
کس حسن سے تابوت حسن واں ہوا راہی
پریوں نے کہا تخت سلیمان ہوا راہی
کہتے تھے حرم قبلہ ایماں ہوا راہی
کعبہ نے کہا دین کا سلطاں ہوا راہی
چلایا فلک خاک میں یہ چاند ملے گا
تھا قدسیوں میں شور کہ اب عرش ہلے گا
کہتے تھے ملک لٹ گیا زہرا کا گلستان
بے جاں ہوا جان نبی بولے بنی جان
اب خاک ہے اور فاطمہ کا نیر تابان
یں خلد میں محبوب خدا چاک گریبان
سرتاج جو دنیا سے اٹھا ارض وسما کا
ہر ایک جگہ شور ہے فریاد وبکا کا
الغرض امام حسین وحضرت عباس تابوت کو لے کر نظم
آئے جو بقیعہ کی طرف کو شہ خوشخو
یہ قلب پہ صدمہ تھا کہ تھمتے تھے نہ آنسو
زہرا کی صدا آئی کہ آ اے میرے مہ رو
خالی ہے میری جان تیرے بن میرا پہلو
آنے سے مسیحا کے دوا ہو گئی بیٹا
اب درد جدائی سے شفا ہو گئی بیٹا
بس دفن کیا سرور مرداں کے خلف کو
مٹی میں چھپایا قمر برج شرف کو
صدمہ تھا عجب لخت دل شاہ نجف کو
روتے ہوئے شبیر پھرے گھر کی طرف کو
سب کہتے تھے کیا چرخ ستمگر کا ستم ہے
اک پنجتن پاک میں شبیر کا دم ہے
شبر کا واسطہ تمہیں اے بنت مصطفےٰ
شبیر کے وزیر کو روضے پہ لو بلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Friday, July 30, 2010
Friday, July 23, 2010
شہادت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب چھٹی مجلس ذائقہ ماتم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چھٹی مجلس
فضائل وذکر شہادت جناب امیر المومنین علی مرتضےٰ علیہ السلام
خوشا ما خوشا دین ودنیا ئے ما
کہ ہم چوں علی ہست مولائے ما
حضرات مقام فخر ومباہات ہے کہ ہم سب کو ایسا مولا ملا ہے، کہ جس کی قدر ومنزلت خدا وند کریم اور رسول اکرم کے نزدیک سب سے زیادہ ہے۔ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ لقب آپ کا ید اللہ ہے۔ یعنی دست خدا، مخمس من مولف
لولاک پئے ختم رسل حق کا ہے کلمہ
احمد نے کہا لحمک لحمی تمہیں مولا
حاصل ہوا ان دونوں حدیثوں کا نتیجہ
گر آپ نہ ہوتے تو فلک خاک نہ ہوتا
جو چاہو کرو مالک سرکار خدا ہو
اللہ اللہ کیا مرتبہ اس مالک کونین کا ہے۔ کہ جس کی ثناو صفت قدر ومنزلت امکان انسان میں تو ایک طرف انبیاء وپیغمبران کے خیال وگمان سے باہر ہے۔ من مولف
معراج کو جس دم گئی احمد کی سواری
ہمراہ نہ تھا کوئی بجز محرم باری
سدرہ کے تو آگے ہوئے جبرئیل بھی عاری
واں احمد مرسل تھے ویا ذات تمہاری
پھر کون یہ کہہ سکتا ہے احمد سے جدا ہو
چنانچہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔کہ جس دم میں بحکم رب جلیل ہمراہ جبریل کے تقرب بارگاہ الہیٰ کے لیے آسمان پر گیا۔ تو پردہ قدرت سے لہجہ علی میں مجھ سے کلام ہوئے۔ اور جو ہاتھ حجاب سے نکلا وہ علی کا تھا۔ اور کتب معتبرہ سے ثابت ہے کہ وقت سیر آسمان نظم
ناقے رسول حق کو نظر ایک بار
صندوق چوب خلد تھے دو دو ہر اک پہ بار
جاتی تھی غرب سے طرف شرق وہ قطار
گنئیے ازل سے گر توابد تک نہ ہو شمار
اس کی خبر ملک کو بھی غیر از خدا نہ تھی
مثل نجوم حصر نہ تھا انتہا نہ تھی
جبریل سے یہ کہنے لگے شاہ بحر وبر
ناقے یہ کیسے آتے ہیں اور جاتے ہیں کدھر
بار ان پہ کیا ہے لعل وزبر جد ہے یا گوہر
جبریل نے کہا یہ مجھے بھی نہیں خبر
دی حق نے روح جب سے میرے جسم زار کو
اس دن سے دیکھتا ہوں یونہی اس قطار کو
بولے نبی یہ حال ہو کس طرح آشکار
کی عرض اس نے دیکھیئے یا شاہ نامدار
بٹھلا دیئے فرشتوں نے ناقے بصد وقار
دیکھا رسول نے تو کتابیں ہیں بے شمار
صندوق تھے جو ناقوں کے اوپر دھرے ہوئے
تھے سب میں مرتضیٰ کے فضائل بھرے ہوئے
مومنین جب آپ کے آقا کے فضائل کی انتہا جناب رسالتمآب کو نہ معلوم ہوئی تو انسان مشت خاک کی کیا مجال ہے کہ شمہ بھی بیان کر سکے ،بقول مولئف
جبریل کو سدرہ پہ سبق تم نے پڑھایا
پیاسا تھا خضر آب بقا تم نے پلایا
مداح پیمبر کا سدا آپ کو پایا
قرآن تمام آپ کی مدحت میں ہے آیا
بندہ سے بھلا مدح وثنا خاک ادا ہو
بحار الانوار میں منقول ہے کہ جب جناب امیر پیدا ہوئے تو جناب رسالتمآب نے آپ کاجھولا اپنے فرش خواب کے قریب رکھا تھا۔ اور تربیت وپرورش فرماتے تھے۔ اور دست مبارک سے اکثر آپ کو غسل دیتے تھے۔ بالوں میں شانہ کرتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاتے تھے۔ گہوارہ جنبانی فرماتے تھے۔ لوریاں دیتے تھے۔ الغرض اسی طرح پرورش فرمائی۔جناب امیر علیہ سلام بھی جان ودل سے اپنے برادر بزرگ وار پر فدا تھے۔ تو پھر ایسے آقا پر مومنین جان ودل سے کیوں نہ فدا ہوں۔سبحان اللہ خدا نے بہمہ صفت اس ذات با برکات کو موصوف کیا چنانچہ روایت میں وارد ہے کہ آپ کی ذات میں باری تعالیٰ نے جملہ صفات جمع کر دیئے تھے۔اس سبب سے کوئی آپ کا مثل ونظیر نہ تھا۔ زہد کا یہ حال تھا کہ غذا آپ کی نان جویں تھی کہ جو زانو سے دبا کر توڑی جاتی تھی۔ اور عبا میں اس قدر پیوند تھے کہ لگانے والے اس سے شرم کرتے تھے۔
ایک روز آپ مسجد میں نماز پڑھ کر بیٹھے تھے کہ ایک عرب آیا ،نظم
مغرب کے فریضہ کو ادا کر چکے جب شاہ
سب اٹھ گئے تنہا رہا وہ بندہ اللہ
تھا آرد جو روزہ کشائی کو جو ہمراہ
لے ایک کف دست آپ نے افطار کیا آہ
اک مشت اسے بھی دیا وہ لطف وکرم سے
لے کر اسے رخصت ہوا وہ شاہ امم سے
وہاں سے شہزادوں کے دربار میں حاضر ہوا۔ حسنین علیہم السلام کو دیکھا۔ صاحبزادوں نے طعام لذیذ اس کے واسطے منگایا اور بلطف وعنایت کھلایا۔اور تمام فقراء حاضرین کو بھی عطا فرمایا۔نظم
وہ مرد عرب تھوڑے سے کھانے کو اٹھا کر
حضرت سے لگا کہنے کہ یا سبط پیمبر
مسجد میں گیا میں جو پئے طاعت داور
اک شخص کو واں دیکھ کے دل ہو گیا مضطر
محتاج ہے بےکس ہے غریب الغربا ہے
کھانے کے عوض آرد جو پھانک رہا ہے
اس مرتبہ کہنہ ہے کہ ثابت نہیں پوشاک
رکھا ہے گریبان قبا مثل کفن چاک
فرش اس کو میسر نہیں دنیا میں بجز خاک
ایسا کوئی محتاج نہ ہوگا تہہ افلاک
فاقے سے وہ بیٹھا ہوا ہے گھر میں خدا کے
ہو حکم تو دے آوں یہ کھانا اسے جا کر
پانی سے میرے سامنے روزہ کیا افطار
ہر گھونٹ پہ کہتا تھا کہ شکر اے میرے غفار
انبان میں سوکھے ہوئے ٹکڑے تھے جو دوچار
مجھ کو بھی عنایت کیے شفقت سے کئی بار
میں نے کہا مجھ سے تو چبائے نہیں جاتے
سخت ایسے یہ ٹکڑے ہیں کہ کھائے نہیں جاتے
یہ سن کر حضرت حسنین علیہھم السلام آب دیدہ ہوئے اور فرمانے لگے اے شخص یہ کہتا کیا ہے ۔بیت
مجبور نہیں ہیں اسداللہ وہی ہیں
ہم سب ہیں اسی در کے گدا شاہ وہی ہیں
یہ سن کر وہ مرد عرب آپ کے اتقا اور پرہیز گاری پر بہت رویا۔سبحان اللہ کیا نفرت لذات دینوی سے تھی۔ اور پھر بھی آپ حاکم دنیا ودین تھے۔اور با وصف ان تکیلفات جسمی تقلیل قوت کے ایسے قوی اور شجاع تھے کہ قصہ عمر وعبدود ومرحب وعنتر و احد وبدر وحنین وخندق وصفین زبان زد خلائق ہے۔ تشریح کی حاجت نہیں۔ سخاوت ایسی تھی کہ کبھی سائل آپ کے حضور سے محروم نہ پھرا۔چنانچہ ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک سائل آپ کے پاس آیا۔اس دن آپ کئی روز کے فاقے سے بیٹھے تھے۔ اس نے چار ہزار درہم کا سوال کیا۔ اللہ اللہ ری سخاوت
سائل سے یہ سن کر متردد ہوئے حیدر
فرمانے لگے حضرت سلمان کو بلا کر
وہ باغ جو میرا ہے عنایات پیمبر
بیچو اسے جتنے کو بکے جلد برادر
فانی ہے جہاں دم میں خدا جانے کہ کیا ہو
سائل کی تو حاجت کسی صورت سے روا ہو
الغرض وہ باغ سلمان نے فروخت کیا ۔اور آپ نے سائل کو چار ہزار درہم دیئے۔اور باقی تمام مساکین کو تقسیم کر دیئے۔بیت
ذرہ نہ رہا پاس جب اس باغ کے زر میں
فاقہ سے گئے فاقہ سے داخل ہوئے گھر میں
اس وقت جناب فاطمہ زہرا نے پوچھا کہ یا علی میں اور حسنین تین روز کے فاقہ سے ہیں۔آپ نے باغ بیچا اور گھر میں کچھ نہ لائے۔ آپ یہ سن کر باہر جانے کے قصد سے اٹھے،تو جناب سیدہ نے دامن مبارک پکڑ لیا اور فرمانے لگیں۔نظم
حضرت کی سخاوت کا تو وہ گھر کا یہ احوال
میں فاقہ سے تم فاقہ سے فاقہ سے میرے لال
کچھ پاس میں رکھتی نہیں دنیا کا زرومال
عسرت میں ہی گزرے چلے جاتے ہیں مہہ وسال
آفاق میں محتاج ہوں پیراھن نو کو
اک کہنہ ردا ہے وہی جاتی ہے گرو کو
حضرات یہاں علی وزہرا میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ خالق کا پیام لے کر روح الامین سید المرسلین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اور کہا کہ اے رسول مختار حکم پروردگار یہ ہے کہ ہمارے ولی کا دامن آج فاطمہ نے پکڑ لیا ہے۔ بیت
ہم پیار بہت کرتے ہیں ااس اپنے ولی کو
زہرا سے کہو چھوڑ دے دامان علی کو
یہ حکم سن کر جناب رسول خدا خانہ فاطمہ میں تشریف لائے اور پیام رب جلیل زبانی جبرائیل جو سنا تھا ۔ارشاد فرمایا،اور فاطمہ زہرا ،بیت
تھرا گئیں یہ سن کے سخن منہ سے نبی کے
بس چھوڑ دیا ہاتھ سے داماں کوعلی کے
اس وقت جناب رسول خدا نے ید اللہ کو گلے لگایا۔اور فاطمہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اور شفقت سے فرمایا کہ تم نے کئی روز سے کھانا نہیں کھایا ہے۔ پھر آپ نے سات درہم دے کر ارشاد فرمایا کہ کھانا منگاو۔وہ درہم جناب امام حسن لے کر ہمراہ پدر بزرگوار بازار میں آئے۔ یہاں پر ایک بندہ حق آگاہ کہتا تھا، کہ خدا کی راہ پر مجھ کو کوئی قرض دے۔ سبحان اللہ سخاوت اسی کا نام ہے۔ بیت
یہ سن کر نہ دیکھا گیا پابند غم اس کو
مولا نے وہیں دے دیے ساتوں درہم اس کو
اور جناب حسن سے بشفقت فرمایا کہ جان پدر خالق رزق دینے والا ہے۔ مگر اس وقت اس کو نہ دینا مجھ کو شاق تھا۔ اب اپنے مولا کے حال پر خدا کی عنایت وشفقت ملا حظہ فرمائیں۔ کہ آپ تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ ایک عرب سامنے آیا۔ اور کہا یا علی ناقہ خریدو گے۔ آپ نے عذر کیا کہ میرے پاس قیمت نہیں ہے۔ اس نے عرض کی کہ میں قرض دے دوں گا۔آپ نے ایک سو درہم قیمت طے کرنے کے بعد لے لیا۔ اسی اثنا ء میں ایک شخص نے آکر خواہش خریداری کی۔اور بعد گفتگو آپ کو ایک سو ستر درہم نقعد دے کر ناقہ مول لے لیا۔ اور ناقہ آپ نے حوالہ مشتری کیا۔ نظم
جب واں سے روانہ ہوئے وہ ناقہ کو لے کر
بازار میں بایع کو ڈھونڈنے حیدر
ناگاہ نظر آئے سر راہ پیمبر
فرمایا کسے ڈھونڈتے پھرتے ہو برادر
جبریل تھے جو قرض تمہیں دے گئے ناقہ
میکائیل تھے جو مول ابھی لے گئے ناقہ
اگر آپ کی سخاوت کا حال بیان ہو تو ایک دفتر ہو جائے۔ نظم
کیا فیض ہے کیا خیر ہے کیا جودو سخا ہے
کیا رحم ہے کیا بخشش والطاف خدا ہے
محتاج اسی در کا ہر اک شاہ وگدا ہے
حقا کہ دو عالم کا علی عقدہ کشا ہے
سائل کبھی خالی نہ گیا سامنے آکر
یا آپ دیا یا اسے دلوادیا جا کر
شاہوں کی سخاوت کو نہیں تجھ سے کوئی نسبت
وہ قطرے ہیں تو قلزم ذخار سخاوت
کیا تیری سخاوت ہو بیاں کیا تری عزت
کعبہ میں ولادت ہوئی مسجد میں شہادت
کیوں عزو شرف تیرا نہ مقبول خدا ہو
عبادت کا یہ حال تھا کہ جس وقت آپ نماز کو کھڑے ہوتے تھے۔ تو تمام بدن مثل بید کے تھرتھراتا تھا۔ تمام رات خوف الہیٰ سے رویا کرتے تھے۔ یا یتیموں کی خبر گیری میں مشغول رہتے تھے۔ اور ہمیشہ بجز یوم عید فطر کے روزہ رکھتے تھے۔ عبادت میں اس قدر رجوع قلب تھا۔ کہ ایک مرتبہ کسی جنگ میں پائے مبارک کی ایڑی میں تیر لگا،اور کسی طرح نہ نکلا ۔تب قنبر نے نماز پڑھنے میں کھینچ لیا ۔اور آپ کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ منقول ہے کہ ایک روز کسی شخص نے آپ سے سوال کیا کہ یا مولا اکثر عابدوں اور دوستان خدا کا چہرہ بوجہ محنت عبادت مثل زعفران کے زرد دیکھا گیا ہے۔ اور آپ باوجود کے سردار عابدوں کے ہیں۔اور کسی عابد وزاہد کی مجال نہیں کہ آپ کے لاکھ حصہ میں سے ایک حصہ کے برابر بھی عبادت کر سکے، مگر کیا وجہ ہے کہ آپ کا چہرہ مبارک نہایت روشن اور سرخ رہتا ہے۔ بیت
ہے بدر کو کمال تمہارے کمال سے
روشن ہے روئے مہر منور جمال سے
اور قوٰے بھی آپ کے سب سے زیادہ قوی ہیں۔سنیئے جواب اپنے آقا کا۔ فرمایا آپ نے کہ اے شخص اگر چہ دوستان خدا نے اس کی محبت میں دم بھرا اور عبادت کیا کرتے تھے ،مگر اپنے مراتب سے واقف نہیں ہیں۔ اس وجہ سے سینہ چاک خطرناک رہتے ہیں۔ جیسا کہ حال یحٰٰیی میں لکھا ہے کہ ان کے والد حضرت ذکریا جب واعظ فرماتے تھے تو حضرت یحییٰ کو دیکھ لیا کرتے تھے۔ کہ ایسا نہ ہو وہ سن لیں۔ اتفاقا ایک روز حضرت یحییٰ مابین واعظ ایک گوشہ میں آبیٹھے۔ اور بحسب اتفاق حضرت ذکریا نے سکران وغضبان کا ذکر فرمایا۔ جس کو سنتے ہی حضرت یحیی روتے ہوئے جنگل کو نکل گئے ،اور فرماتے تھے۔
گفت یحیی وہ چہ نادانیم ما
غافل از سکران وغضبانیم ما
آخر والدین ان کی تلاش میں گئے۔ تو آپ کو دیکھا کہ زار زار روتے ہیں۔اور بوجہ فرط گریہ آپ کے چاروں طرف کی زمین تر ہو گئی تھی۔ با آواز درد ناک عرض کرتے تھے۔کہ پالنے والے میری کون سی جگہ ہے۔ جب تک نہ دیکھوں گا دنیا میں نہ جاوں گا۔ تو جب اس قدر خوف الہیٰ ہو تو کیوں کر عابدوں کا رنگ زرد نہ ہو۔ اور میری آنکھوں نے خالق اکرم نے تمام پردے ظلماتی اٹھا دیئے ہیں۔ اور قوت قدسیہ میری زیادہ اور قوت بشری میری زائل ہو گئی ہے۔ میں نے اپنے معبود کو راضی پایا۔ اور کسی امر میں میں نے اپنے خالق کو غضبناک نہیں بلکہ اپنے اوپر اسے مہربان پایا ہے۔دیکھا۔ میرے تمام افعال اسے پسند ہیں۔اور میں نے سنا ہے کہ میری اولاد کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں دوست رکھتا ہوں اور وہ مجھے دوست رکھتے ہیں۔ لہذا اے شخص جب میں نے اپنے مالک کو اس قدر رضا مند دیکھ لیا،بیت
حق میرا ثنا خواں ہے میں حق کا ہوں ثنا خوان
باور نہ ہو کسی کو تو موجود ہے قرآن
تو پھر کیا وجہ ہے کہ مثل دیگر عابدوں کے میرا رنگ زرد ہو،بلکہ اسی خوشی میں جو کچھ میری کیفیت ہے،اگر اس سے بھی دہ چند ہو تو بھی تھوڑا ہے۔ بیت
کچھ نور جو پیدائش حیدر سے بچا ہے
وہ چاند کو اور مہر درخشاں کو ملا ہے
عدالت بھی آپ کی احاطہ تحریر سے باہر ہے۔اگر مختصر طور سے بھی بیان کروں تو بہت طول ہو جائے گا۔لہذا ان پانچ مصرعوں پر اکتفا کرتی ہوں۔ مولف
منصف نہیں دنیا میں کوئی تجھ سے ہے بہتر
ہے عدل تمہارا یہی ہر اک کی زباں پر
کیا عدل کرے گا کوئی اس عدل سے بڑھ کر
ایک دم میں کیا فیصلہ باز وکبوتر
عادل کی قسم عدل میں تم سب سے سوا ہو
اور آپ کے رحم کا یہ حال تھا کہ آدم سے لے کر اس وقت تک نہ دیکھا نہ سنا چنانچہ شب ہائے تاریک میں غلہ وگوشت وغیرہ دوش مبارک پر بار کرکے اندھوں اور غریبوں کو تقسیم کرتے پھرتے تھے۔ تاکہ ضعیف اور نابینا زحمت چلنے پھرنے کی نہ اٹھائیں۔ یتیموں کی پرورش فرماتے اور لنگڑوں کی خدمت کرتے تھے۔ یہ رحم نہ صرف اس عالم فانی میں تھا۔ بلکہ جب سے کہ نور آپ کا ہمراہ نور رسالت قبل از پیدائش آدم پیدا ہوا۔ اسی وقت سے آپ کا فیض ایسا ہی تھا۔ اکثر پیغمبروں کی وقت مصیبت مدد فرمائی۔ حضرت آدم کو حضرت حوا سے ملایا۔ یونس کو قید بطن ماہی سے چھڑایا۔ زکریا کو آرے کے نیچے سے نکالا۔ نار ابراھیم کو گلشن بنایا۔خضر کو ظلمات کا راستہ بتایا۔ مولف
داغ کف مو سے ید بیضا کیا تم نے
دکھ درد سے ایوب کو اچھا کیا تم نے
ذرے کو قمر قطرے کو دریا کیا تم نے
بن باپ کے بیٹے کو مسیحا کیا تم نے
ڈرتا ہوں کہیں منہ سے نہ کہہ بیٹھوں اسرار خدا ہو
حضرات جناب رسول خدا نے شب معراج آپ کے اوصاف سے شتران بے شمار لدے ہوئے ملاحظہ فرمائے۔اور حد وانتہا ان کی دریافت نہ فرماسکے تو اس ذرہ بے مقدار گنہگار کی کیا مجال کہ لکھ سکے۔مولف
مداح تیری مدح کے لکھنے میں حیران ہے
ہر وقت اسی فکرمیں رہتا ہے پریشان
قدرت یہ کسی میں نہیں جز خالق یزدان
اک وقت میں چالیس جگہ تم ہوئے مہمان
ہوتا ہے عیاں اس سے کہ اسرار خدا ہو
حضرات کچھ مرتبہ اپنا بھی سن لیجیئے۔جو آپ کو مولا کی غلامی کے سبب حاصل ہے۔ یقین ہے کہ آپ کے قلوب بالیدہ ہو جائیں گے۔پیش خدا آپ کا وہ رتبہ ہے۔ نظم
شاہ نجف کے دوست خدا کے خلیل ہیں
درگاہ ذوالجلال میں رتبے جلیل ہیں
دعوئے ہمارے کوئی نہیں بے دلیل ہیں
طے ہو گئے یہ امر بصد قال وقیل ہیں
ثمرہ یہ روز حشر عبادت کا پائیں گے
مولا ہمیں بہشت میں خود لے کے جائیں گے
اللہ رے شعیان علی کا وقار وجاہ
ان پر مدام ہے نظر رحمت الہٰ
کھا جاوئے یوں ولا علی شعیوں کے گناہ
ہیزم کو جیسے آتش سوزاں خدا گواہ
دوزخ ہے ان سے دور یہ دوزخ سے دور ہیں
خلق ان کے واسطے ہوئے حور وقصور ہیں
لکھا ہے ایک شخص یہودی کا تھا غلام
حب علی میں قید ہوا تھا وہ نیک نام
زندان کی طرف سے نکلتے تھے جب امام
پابند اس لحاظ وادب کا وہ تھا مدام
بیڑی پکڑ کے اٹھتا تھا تعظیم کے لئے
جھکتا تھا طوق پہنے وہ تسلیم کے لئے
ایک دن جناب علی مرتضیٰ جناب رسول خدا کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔کہ ایک شخص نے آکر عرض کی کہ یا مولا یہودی کا وہ غلام جو آپ کو بصد ادب وعقیدت تسلیم بجا لایا کرتا تھا۔ آج آپ کا وہ محب اس دنیا ئے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گیا۔ مگر کوئی اس کو غسل وکفن دینے والا نہیں ہے۔ نظم
یہ سن کے اٹھ کھڑے ہوئے پیغمبر زمن
بولے ہم آپ غسل اسے دیں گے اور کفن
پیارا ہمیں بہت ہے محب ابوالحسن
واقف ہےاس کے حال سے خلاق ذوالمنن
ادریس لے کے حلہ فردوس آئیں گے
پانی خضر کے چشمہ سے الیاس لائیں گے
باہم چلے نبی وعلی مضطر وملول
دورحمتوں کا لاش پہ اس کی ہوا نزول
پانی کا ظرف لے کے بڑھا شوہر بتول
میت کو اپنے ہاتھ سے دھونے لگے رسول
عصیاں کی بو ضنوط سے کافور ہو گئی
مردے کی شکل نور سے معمور ہو گئی
پھر اس کے زیب تن علی نے وہ کفن کیا
قدرت نے جس کو رشتہ رحمت سے تھا سیا
ادریس کہتے تھے کہ زہے شان کبریا
بخشی علی نے ذرے کو خورشید کی ضیا
فردیں تمام دھل گئیں اعمال زشت کی
اب یہ ہے اور سیر ہے باغ بہشت کی
پہنا چکے جو خلعت عقبیٰ اسے علی
معراج دوش صاحب معراج پر ملی
آکر ہوا شریک یر اک پیروئے علی
لیکن اتارا قبر میں مردے کو جس گھڑی
یارا نہ پھر نگاہ کا خیر البشر کو تھا
یا تو تھا ادھر یا رخ روشن ادھر کو تھا
اصحاب نے یہ عرض کی اے فخر انبیا
کیا وجہ جو حضور نے منہ کو پھرا لیا
حضرت نے مسکرا کے جواب ان کو یہ دیا
میں دیکھتا ہوں قبر میں اسرار کبریائی
گویا علی کے دوست کی یاں کدخدائی ہے
جو حور آئی ہے وہ دلہن بن کے آئی ہے
مومنین آپ نے اپنے آقا کی شجاعت وسخاوت اور عبادت کا حال سنا۔اور حضرت کا اپنے غلاموں پر رحم وکرم سماعت فرمایا۔مقام عبرت ہے کہ باوجود اس مرتبہ آپ اکثر فرماتے تھے۔ کہ آہ آہ زاد سفر بہت کم ہے۔اور دور دراز وحشت ناک سفر درپیش ہے۔ ہاں حضرات آپ خوب سمجھتے ہیں۔کہ یہ سفر آخرت ہے۔ جس کے خوف سے امام کون ومکان امیر المومنین یوں فرماتے تھے۔ افسوس ہے ہمارے حالوں پر کہ شب وروز امورات ممنوعہ میں مشغول رہتے ہیں۔بجز عنایت رب کائنات اور شفاعت سید کونین ورفاقت شاہ بدر وحنین اور تصدق شہادت حسنین اور کوئی وسیلہ نجات نہیں ہے۔ کتب معتبر میں وارد ہے کہ کیسا ہی گنہگار بندہ ہو۔اگر وہ مصائب آئمہ اطہار پر روئے گا یا رولائے گا۔ تو بے شک جنت میں جائے گا۔ نظم
ہاں مومنو روو کہ نہیں صبر کا یارا
دنیا سے وزیر شہ لولاک سدھارا
روزے میں نمازی کو ستمگار نے مارا
محراب میں زخمی ہوا سرتاج ہمارا
آب دم شمشیر دیا شاہ ھدا کو
کیا خوب کھلا ئی سحری شیر خدا کو
حدیث میں وارد ہے کہ جب شب انیسویں ماہ رمضان یعنی شب ضربت حیدر کرار آئی۔اس شب کو آپ کبھی حجرے کے اندر جاتے تھے۔ اور کبھی صحن خانہ میں آتے تھے۔ درو دیوار سے صدائے گریہ وزاری اس طرح بلند تھی۔ بیت
حیدر کی سواری سوئے فردوس چلی ہے
جاگو یہ شب قدر شب قتل علی ہے
حضرت ام کلثوم فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ آقا آپ کو کبھی ایسا مضطر نہیں دیکھا ۔ کس کا خوف ہے کہ تمام اعضائے بدن تھر تھراتے ہیں۔فرمایا جان پدر نظم
درپیش ہے ادنیٰ کو اب اعلیٰ کی ملاقات
آیا تھا بندھے ہاتھ میں جاتا ہوں کھلے ہاتھ
ہدیہ جو وہ مانگے تو کیا دوں گا میں سوغات
نے عذر کی طاقت نہ سفارش کا کوئی پاس
مرقد کے تصور میں میرے ہوش کہیں ہیں
مسکن بھی نیا اور مصاحب بھی نہیں ہیں
کلثوم نے رو کر کہا واحسرت دردا
کیا بیٹیاں اب صبر کریں آپ کو بابا
فرمایا جو ارشاد پیمبر ہے وہ ہوگا
دوروز ہے دنیا میں بس اب قوت ہمارا
اکیسویں کو اٹھے گا تابوت ہمارا
واللہ ابھی خواب میں یہ دیکھتے تھے ہم
کعبہ کے حوالی میں جو ہے کوہ معظم
دو سنگ لیے اس میں سے جبریل نے اس دم
اور بام پہ کعبہ کے اسے توڑا بصد غم
ٹکڑے بہت ان کے ہوئے حیدر کی نظر میں
مکہ میں مدینہ میں گرے سب کے وہ گھر میں
اس خواب سے ہر ایک کی حالت ہوئی تغیر
رو رو کے حسن بولے کہ کیا اس کی ہے تعبیر
حضرت نے کہا موت ہماری ہے گلو گیر
اب سجدے میں سر ہوگا ہمارا تہہ شمشیر
ٹکڑے جوگرے چارطرف کو سو وہ کیا ہیں
ہر شیعہ حیدر کے لئے سنگ عزا ہیں
پھر فرمایا اے حسن کل ہر گھر میں ہائے علی ہائے علی کا شور برپا ہو گا۔کل کے دن میری لاش آئے گی۔ زینب وکلثوم پچھاڑیں کھائیں گی
کل شیعہ بھی سے کھولیں گے اور اہل حرم بھی
زہرا کی ندا آئی کفن پھاڑیں گے ہم بھی
جناب زینب فرماتی ہیں کہ چار گھڑی رات رہے۔جس وقت تسبیح ہاتھ میں لے کر بابا نے مسجد میں جانے کا قصد کیا، تو سادات نے دست مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات ا ٹھائے۔ الغرض آپ نے مسجد میں داخل ہو کر گلدستہ اذان کو زینت بخشی۔ اذان دی،سب مومنین بعزم نماز تیار ہوئے ،اور دعا کرنے لگے کہ پالنے والے ہمیشہ گلدستہ اذان اس آواز سے رونق افروز رہے۔بعد فراغ اذان آپ نے گلدستہ سے اتر کر قندیلیں جو گل تھیں۔دست مبارک سے روشن فرمائیں۔ تو دیکھا آپ نے کہ ابن ملجم لعین سوتا ہے۔ باوجود کہ آپ کو علم امامت سے معلوم تھا کہ یہ عدوئے دین میرا قاتل ہے۔ لیکن آپ تو راضی برضا تھے۔ نظم
فرمایا منہ کے بل ہےپڑا کیوں سر زمین
شیطان کا یہ خواب ہے ہوشیار اے لعین
رکھتا ہے قصد وہ کہ ہلے عرش بالیقین
اٹھ حیلہ ساز مکر سے کچھ فائدہ نہیں
غافل ہے تو اس امر سے کب مانتا ہوں میں
جو چیز تو چھپائے ہے اسے جانتا ہوں میں
اس بدترین خلق سے یہ فرما کر امام انام نماز میں مشغول ہوئے۔آہ واویلا فدا ہو ں جانیں شیعوں کی اس امام کونین پر کس زبان سے عرض کروں کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سینہ شق ہوا جاتا ہے۔
سب مومنو ں کی زیست کی صورت بگڑ گئی
سجدے میں سر ابھی تھا کہ شمشیر پڑ گئی
وہ زہر میں بجھی ہوئی شمشیر الاماں
در آئی تا جبین شہنشاہ دوجہان
مولا نے آہ کی نہ کیا کچھ نوحہ فغاں
بسم اللہ آپ کہہ کے تڑپنے لگے وہاں
صدمہ سے قدسیوں کو غش اکبار آگیا
وہ آہ کی کہ جس سے جگر تھر تھرا گیا
روح الامین نے مضطربانہ باشک وآہ
نوحہ کیا کہ شہر مدینہ ہوا تباہ
مارا گیا امیر عرب شاہ دیں پناہ
داماد مصطفیٰ کوکیا قتل بے گناہ
سردار کائنات کا بے ہوش ہوگیا
ہے ہے چراغ دین کا خاموش ہو گیا
فریاد جبرائیل سے گھبرائے مومنین
دوڑے حسن حسین بصد نالہ وحزیں
ورد زبان تھا واابتا وا امام دین
دیکھا تڑپ رہے ہیں ید اللہ سرزمین
مجمع ہے گرد خویش رسالت پناہ کے
جاری ہے خون فرق مبارک سے شاہ کے
یہ صورت پدر بزرگوار کی دیکھ کر حضرت شبر وشبیر بہت دل گیر ہوئے اور عرض کی کہ بابا کس سنگدل نے آپ کو یہ شمشیر لگائی۔فرمایا ابن ملجم لعین نے۔ آہ آہ اس وقت حسنین علھیم السلام کا عجب حال تھا۔القصہ ان دونوں شہزادوں نے نظم
بابا کا لہو پہلے تو چہرے پہ لگایا
پھر دونوں نے مابین گلیم ان کو لٹایا
لے کے جو چلے رونا علی کو بہت آیا
شبیر نے پوچھا تو یہ حیدر نے سنایا
رونا ہے یہ جب سر کو تو کٹوائے گا پیارے
کوئی نہ تیری لاش کو اٹھوائے گا پیارے
کیا لاش کے آنے کی سناوں حشم وجاہ
بالیں پہ حسن پائنتی شبیر تھے واللہ
عباس کا قد چھوٹا تھا ان روزوں میں جو آہ
سرپیٹتے لاشے کے تلے جاتے تھے واللہ
انبوہ فرشتوں کا ادھر اور ادھر کو
اور شیعوں کا غول آگے برہنہ کیے سر کو
عباس پہ رقت جو بہت ہوتی تھی طاری
سمجھاتے تھے شبیر کہ کیوں کرتے ہوزاری
بابا جو نہیں ماں ہیں تسلی کو تمہاری
ہم کیا کریں جیتی نہیں اماں بھی ہماری
شبیر کی یہ بات جو سن پاتے تھے حیدر
تھے عالم غش میں تڑپ جاتے تھے حیدر
اس وقت حسن نے شہ مرداں سے یہ پوچھا
عباس کی مادر تو نہیں اس غول میں اس جاہ
ہے ہے میرے والی یہ صدا کس کی ہے پیدا
حیدر نے کہا فاطمہ چلاتی ہے بیٹا
سر پیٹتے ہیں حمزہ بھی پیغمبر دین بھی
روتے ہیں اسرافیل بھی اور جبرائیل بھی
الغرض اسی طرح مع گروہ انبیا وملائکہ وجن وانس روتے ہوئے آنحضرت کو قریب حرم محترم لائے،تو کیا دیکھتے ہیں ۔نظم
ڈیوڑھی پہ مضطرب ہیں کھڑی بیبیاں بہم
دیکھا یہ حال جب تو لگے پیٹنے حرم
فرمایا یہ امام حسن نے بہ درد وغم
نا محرم اس جگہ سے اٹھائیں نہ اب قدم
پھٹ کر گرے نہ عرش کہیں ذوالجلال کا
واجب ہے احترام محمد کی آل کا
اک دن یہ اہلبیت نبی کا تھا احترام
یعنی کوئی سنے نہ صدا خاص ہو کہ عام
اک روز کربلا میں اعدا کا تھا اژدہام
ہے ہے اتار لے گئے چادر بھی اہل شام
بے پردہ قید ہو کے کہاں سے کہاں گئیں
تا شام سربرہنہ وہی بیبیاں گئیں
لاشہ لیے پہنچے سر دروازہ جو بارے
لپٹے ہوئے روتے تھے حرم پردے سے سارے
عباس علی روتے ہوئے گھر کو سدھارے
دکھلا کے گریبان پھٹا ماں کو پکارے
لو خاک ملو منہ پہ ردا پھینک دو سر کی
اے اماں چلو لینے کو لاش آئی پدر کی
سب روتے ہوئے دوڑے کہ لاشہ وہیں آیا
حجرے میں ید اللہ کو مسند پہ لٹایا
عباس کو عباس کی مادر نے بلایا
صدقے کی طرح گرد علی اس کو پھریا
اور بولیں کہ یا رب میرے والی کو شفا دے
صدقہ یہ پسر دیتی ہوں وارث کو بچا دے
تھرا کے علی نے کہا غصے سے یہ اس آن
ہاں تھام زبان اپنی کدھر کو ہے ترا دھیان
عباس پہ تو صدقے میں عباس پہ قربان
عباس کی تو کون ہے یہ ہے فاطمہ کی جان
بی بی کہیں زہرا کا عتاب آئے نہ تجھ پر
شبیر کے فدیہ کو فدا کرتی ہے مجھ پر
ہے یہ میرے شبیر کے لشکر کا علمدار
مالک ہے حسین اس کا تو اس کی نہیں مختار
اس وقت میرے سامنے پھرتے ہیں یہ آثار
سر ننگے اسی کوفہ میں زینب سر بازار
زلف سر شبیر ہے اور چوب سناں ہے
بھائی کے برابر سر عباس رواں ہے
جناب زینب وکلثوم قدموں سے لپٹی ہوئی روتی تھیں،کہ افسوس بابا زخم شمشیر کھا کر جنت کو جاتے ہیں۔ ہم یتیم ہو رہے ہیں۔ ارےکوئی جراح یا حکیم کو لاو کہ زخم کا علاج کرے، کبھی بحال یاس فرماتی تھیں
شمشیر ظلم سر سے جبیں تک اتر گئی
بابا شہید ہو گئے اور میں نہ مر گئی
آئے معالجے کو جو اطبائے بے نظیر
دیکھا جو زخم حال سبھوں کا ہوا تغیر
بولے عمامہ پھینک کے یا حضرت امیر
یہ گھاو آپ کا نہیں ہر گز دوا پذ یر
تیغ جفا غضب کی تھی ضربت تھی قہر کی
تا مغز سر پہنچ گئی تاثیر زہر کی
مایوس اس سخن سے ہوئے شاہ کے حرم
بستم سے زہر کا تھا اثر سر سے تا قدم
شبر کو جانشیں کیا اپنا بدرد وغم
شبیر کو لگا کے گلے سے بچشم نم
بولے یہی مشیت رب انام ہے
بیٹا حسن کے بعد تو کل کا امام ہے
ہو گا شہید زہر سے شبر بصد ملال
مانند گوسفند کریں گے تجھے حلال
ناموس مصطفےٰ کے کھلیں گے سروں کے بال
نیزے پہ سر چڑھے گا تیرا اے نکو خصال
چھوڑیں گے ریگ گرم پہ پیماں شکن تجھے
چالیس روز تک نہ ملے گا کفن تجھے
لیکن دعائے بد سے قیامت نہ ہو کہیں
جز صبر دم نہ ماریو اے میرے نازنین
ہنگام مرگ کیجیئو عابد کو جانشین
فرمائے گئے تھے مجھ سے یہی ختم مرسلین
ہم نے تو عزم جانب دار البقا کیا
پیارے حسین تجھ کو سپردکل خدا کیا
اے شیعو اب نہ پوچھو کہ پھر حال کیا ہوا
اکیسویں شب آئی تو شور بکا ہوا
تم بے امام ہو گئے محشر بپا ہوا
دنیا سے انتقال شہ لافتا ہوا
سب اہل بیت بے کس ودلگیر ہو گئے
ہے ہے یتیم شبر وشبیر ہو گئے
سر پیٹنے کی جاہ ہے محبان مرتضےٰ
دنیا سے بے کسوں کا ہوا خواہ اٹھ گیا
غسل وکفن تو دے چکے سبطین مصطفےٰ
تابوت اٹھا کے لے چلے شیر الہ کا
شال عزا گلے میں ہے بالوں پہ خاک ہے
دامن تلک قبا کا گریبان چاک ہے
اس وقت شہزادوں کا حال کیا عرض کروں۔جناب زینب وام کلثوم پچھاڑیں کھاتی تھیں۔ اور فضہ سر پیٹتی تھی۔ ام البنین بحال حزین سر دھنتی تھیں۔ نظم
کلثوم یہ کرتی تھی بیاں لاش کے اوپر
تم مر گئے ہے ہے مرے بابا مرے سرور
گویا کہ زمانے سےاٹھے آج پیمبر
واللہ کہ برباد ہوا فاطمہ کا گھر
ہے کون جو اب دست کرم سر پہ دھرے گا
اب کون یتیموں پہ بھلا رحم کرے گا
اب کون ہمیں پیار سے فرمائے گا دختر
اب کون وضو کے لئے منگوائے گا ساغر
بابا بھی موئے ماں بھی موئی وائے مقدر
یا شاہ بہت بیٹیاں ہیں آپ کی مضطر
قسمت نے دیا داغ پیمبر کے جگر پر
وارث نہ رہا زینب وکلثوم کے سر پر
رخ کرکے سوئے قبر شہ یثرب وبطحا
سر پیٹ کے کہنے لگی یہ ثانی زہرا
بن باپ کے بیٹی ہوئی فریاد ہے نانا
لو آکے یتیموں کی خبر سید والا
صدمہ ہے یتیموں کے دل چاک کے اوپر
بے ہوش نواسے پڑے ہیں خاک کے اوپر
راوی نے لکھا ہے کہ صدا آئی یہ اس دم
زینب کئی دن سے تو ہیں موجود یہاں ہم
کیا مجھ کو نہیں حیدر کرار کا ہے غم
واللہ کہ غش مجھ کو چلے آتے ہیں پیہم
مرگ اسد اللہ سے مشغول بکا ہوں
میں لاشہ سے لپٹا ہوا سر پیٹ رہا ہوں
ادھر شاہزادیوں کا یہ حال تھا، ادھر در اقدس پر
چلا رہے تھے یہ فقرا سر کو پیٹ کر
اب کون لے گا بے کس ومحتاج کی خبر
رانڈوں کے بین یہ ہیں کہ اے شاہ بحر وبر
بے وارثوں کو چھوڑ کے تم تو گئے گزر
باقی رہی نہ آس جناب امیر کی
خدمت کرے گا کون یتیم واسیر کی
اے مومنو یہ خاک اڑانے کا ہے مقام
رخصت علی کی لاش سے ہوتے ہیں خاص وعام
مجمع ہے عورتوں کا تو مردوں کا اژدہام
بے ہوش خاک پر ہیں پڑے مومنین تمام
ہاں شور الفراق کا کس جا بپا نہیں
حیدر کے دوستو یہ خاموشی کی جا نہیں
تم بھی کہو کہ حیدر کرار الوداع
اے جانشین احمد مختار الوداع
فاقہ کش وغریب ودل افگار الوداع
رانڈوں کے اور غریبوں کے غمخوار الوداع
تیر الم دلوں سے ہزاروں گزر گئے
ہے ہے حضور مر گئے اور ہم نہ مر گئے
بس اے وزیر مالک دین کوچ کر گیا
دنیا سے تاج دار دو عالم گزر گیا
چھٹی مجلس
فضائل وذکر شہادت جناب امیر المومنین علی مرتضےٰ علیہ السلام
خوشا ما خوشا دین ودنیا ئے ما
کہ ہم چوں علی ہست مولائے ما
حضرات مقام فخر ومباہات ہے کہ ہم سب کو ایسا مولا ملا ہے، کہ جس کی قدر ومنزلت خدا وند کریم اور رسول اکرم کے نزدیک سب سے زیادہ ہے۔ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو کہ لقب آپ کا ید اللہ ہے۔ یعنی دست خدا، مخمس من مولف
لولاک پئے ختم رسل حق کا ہے کلمہ
احمد نے کہا لحمک لحمی تمہیں مولا
حاصل ہوا ان دونوں حدیثوں کا نتیجہ
گر آپ نہ ہوتے تو فلک خاک نہ ہوتا
جو چاہو کرو مالک سرکار خدا ہو
اللہ اللہ کیا مرتبہ اس مالک کونین کا ہے۔ کہ جس کی ثناو صفت قدر ومنزلت امکان انسان میں تو ایک طرف انبیاء وپیغمبران کے خیال وگمان سے باہر ہے۔ من مولف
معراج کو جس دم گئی احمد کی سواری
ہمراہ نہ تھا کوئی بجز محرم باری
سدرہ کے تو آگے ہوئے جبرئیل بھی عاری
واں احمد مرسل تھے ویا ذات تمہاری
پھر کون یہ کہہ سکتا ہے احمد سے جدا ہو
چنانچہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں۔کہ جس دم میں بحکم رب جلیل ہمراہ جبریل کے تقرب بارگاہ الہیٰ کے لیے آسمان پر گیا۔ تو پردہ قدرت سے لہجہ علی میں مجھ سے کلام ہوئے۔ اور جو ہاتھ حجاب سے نکلا وہ علی کا تھا۔ اور کتب معتبرہ سے ثابت ہے کہ وقت سیر آسمان نظم
ناقے رسول حق کو نظر ایک بار
صندوق چوب خلد تھے دو دو ہر اک پہ بار
جاتی تھی غرب سے طرف شرق وہ قطار
گنئیے ازل سے گر توابد تک نہ ہو شمار
اس کی خبر ملک کو بھی غیر از خدا نہ تھی
مثل نجوم حصر نہ تھا انتہا نہ تھی
جبریل سے یہ کہنے لگے شاہ بحر وبر
ناقے یہ کیسے آتے ہیں اور جاتے ہیں کدھر
بار ان پہ کیا ہے لعل وزبر جد ہے یا گوہر
جبریل نے کہا یہ مجھے بھی نہیں خبر
دی حق نے روح جب سے میرے جسم زار کو
اس دن سے دیکھتا ہوں یونہی اس قطار کو
بولے نبی یہ حال ہو کس طرح آشکار
کی عرض اس نے دیکھیئے یا شاہ نامدار
بٹھلا دیئے فرشتوں نے ناقے بصد وقار
دیکھا رسول نے تو کتابیں ہیں بے شمار
صندوق تھے جو ناقوں کے اوپر دھرے ہوئے
تھے سب میں مرتضیٰ کے فضائل بھرے ہوئے
مومنین جب آپ کے آقا کے فضائل کی انتہا جناب رسالتمآب کو نہ معلوم ہوئی تو انسان مشت خاک کی کیا مجال ہے کہ شمہ بھی بیان کر سکے ،بقول مولئف
جبریل کو سدرہ پہ سبق تم نے پڑھایا
پیاسا تھا خضر آب بقا تم نے پلایا
مداح پیمبر کا سدا آپ کو پایا
قرآن تمام آپ کی مدحت میں ہے آیا
بندہ سے بھلا مدح وثنا خاک ادا ہو
بحار الانوار میں منقول ہے کہ جب جناب امیر پیدا ہوئے تو جناب رسالتمآب نے آپ کاجھولا اپنے فرش خواب کے قریب رکھا تھا۔ اور تربیت وپرورش فرماتے تھے۔ اور دست مبارک سے اکثر آپ کو غسل دیتے تھے۔ بالوں میں شانہ کرتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے دودھ پلاتے تھے۔ گہوارہ جنبانی فرماتے تھے۔ لوریاں دیتے تھے۔ الغرض اسی طرح پرورش فرمائی۔جناب امیر علیہ سلام بھی جان ودل سے اپنے برادر بزرگ وار پر فدا تھے۔ تو پھر ایسے آقا پر مومنین جان ودل سے کیوں نہ فدا ہوں۔سبحان اللہ خدا نے بہمہ صفت اس ذات با برکات کو موصوف کیا چنانچہ روایت میں وارد ہے کہ آپ کی ذات میں باری تعالیٰ نے جملہ صفات جمع کر دیئے تھے۔اس سبب سے کوئی آپ کا مثل ونظیر نہ تھا۔ زہد کا یہ حال تھا کہ غذا آپ کی نان جویں تھی کہ جو زانو سے دبا کر توڑی جاتی تھی۔ اور عبا میں اس قدر پیوند تھے کہ لگانے والے اس سے شرم کرتے تھے۔
ایک روز آپ مسجد میں نماز پڑھ کر بیٹھے تھے کہ ایک عرب آیا ،نظم
مغرب کے فریضہ کو ادا کر چکے جب شاہ
سب اٹھ گئے تنہا رہا وہ بندہ اللہ
تھا آرد جو روزہ کشائی کو جو ہمراہ
لے ایک کف دست آپ نے افطار کیا آہ
اک مشت اسے بھی دیا وہ لطف وکرم سے
لے کر اسے رخصت ہوا وہ شاہ امم سے
وہاں سے شہزادوں کے دربار میں حاضر ہوا۔ حسنین علیہم السلام کو دیکھا۔ صاحبزادوں نے طعام لذیذ اس کے واسطے منگایا اور بلطف وعنایت کھلایا۔اور تمام فقراء حاضرین کو بھی عطا فرمایا۔نظم
وہ مرد عرب تھوڑے سے کھانے کو اٹھا کر
حضرت سے لگا کہنے کہ یا سبط پیمبر
مسجد میں گیا میں جو پئے طاعت داور
اک شخص کو واں دیکھ کے دل ہو گیا مضطر
محتاج ہے بےکس ہے غریب الغربا ہے
کھانے کے عوض آرد جو پھانک رہا ہے
اس مرتبہ کہنہ ہے کہ ثابت نہیں پوشاک
رکھا ہے گریبان قبا مثل کفن چاک
فرش اس کو میسر نہیں دنیا میں بجز خاک
ایسا کوئی محتاج نہ ہوگا تہہ افلاک
فاقے سے وہ بیٹھا ہوا ہے گھر میں خدا کے
ہو حکم تو دے آوں یہ کھانا اسے جا کر
پانی سے میرے سامنے روزہ کیا افطار
ہر گھونٹ پہ کہتا تھا کہ شکر اے میرے غفار
انبان میں سوکھے ہوئے ٹکڑے تھے جو دوچار
مجھ کو بھی عنایت کیے شفقت سے کئی بار
میں نے کہا مجھ سے تو چبائے نہیں جاتے
سخت ایسے یہ ٹکڑے ہیں کہ کھائے نہیں جاتے
یہ سن کر حضرت حسنین علیہھم السلام آب دیدہ ہوئے اور فرمانے لگے اے شخص یہ کہتا کیا ہے ۔بیت
مجبور نہیں ہیں اسداللہ وہی ہیں
ہم سب ہیں اسی در کے گدا شاہ وہی ہیں
یہ سن کر وہ مرد عرب آپ کے اتقا اور پرہیز گاری پر بہت رویا۔سبحان اللہ کیا نفرت لذات دینوی سے تھی۔ اور پھر بھی آپ حاکم دنیا ودین تھے۔اور با وصف ان تکیلفات جسمی تقلیل قوت کے ایسے قوی اور شجاع تھے کہ قصہ عمر وعبدود ومرحب وعنتر و احد وبدر وحنین وخندق وصفین زبان زد خلائق ہے۔ تشریح کی حاجت نہیں۔ سخاوت ایسی تھی کہ کبھی سائل آپ کے حضور سے محروم نہ پھرا۔چنانچہ ایک روز کا ذکر ہے کہ ایک سائل آپ کے پاس آیا۔اس دن آپ کئی روز کے فاقے سے بیٹھے تھے۔ اس نے چار ہزار درہم کا سوال کیا۔ اللہ اللہ ری سخاوت
سائل سے یہ سن کر متردد ہوئے حیدر
فرمانے لگے حضرت سلمان کو بلا کر
وہ باغ جو میرا ہے عنایات پیمبر
بیچو اسے جتنے کو بکے جلد برادر
فانی ہے جہاں دم میں خدا جانے کہ کیا ہو
سائل کی تو حاجت کسی صورت سے روا ہو
الغرض وہ باغ سلمان نے فروخت کیا ۔اور آپ نے سائل کو چار ہزار درہم دیئے۔اور باقی تمام مساکین کو تقسیم کر دیئے۔بیت
ذرہ نہ رہا پاس جب اس باغ کے زر میں
فاقہ سے گئے فاقہ سے داخل ہوئے گھر میں
اس وقت جناب فاطمہ زہرا نے پوچھا کہ یا علی میں اور حسنین تین روز کے فاقہ سے ہیں۔آپ نے باغ بیچا اور گھر میں کچھ نہ لائے۔ آپ یہ سن کر باہر جانے کے قصد سے اٹھے،تو جناب سیدہ نے دامن مبارک پکڑ لیا اور فرمانے لگیں۔نظم
حضرت کی سخاوت کا تو وہ گھر کا یہ احوال
میں فاقہ سے تم فاقہ سے فاقہ سے میرے لال
کچھ پاس میں رکھتی نہیں دنیا کا زرومال
عسرت میں ہی گزرے چلے جاتے ہیں مہہ وسال
آفاق میں محتاج ہوں پیراھن نو کو
اک کہنہ ردا ہے وہی جاتی ہے گرو کو
حضرات یہاں علی وزہرا میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ خالق کا پیام لے کر روح الامین سید المرسلین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔اور کہا کہ اے رسول مختار حکم پروردگار یہ ہے کہ ہمارے ولی کا دامن آج فاطمہ نے پکڑ لیا ہے۔ بیت
ہم پیار بہت کرتے ہیں ااس اپنے ولی کو
زہرا سے کہو چھوڑ دے دامان علی کو
یہ حکم سن کر جناب رسول خدا خانہ فاطمہ میں تشریف لائے اور پیام رب جلیل زبانی جبرائیل جو سنا تھا ۔ارشاد فرمایا،اور فاطمہ زہرا ،بیت
تھرا گئیں یہ سن کے سخن منہ سے نبی کے
بس چھوڑ دیا ہاتھ سے داماں کوعلی کے
اس وقت جناب رسول خدا نے ید اللہ کو گلے لگایا۔اور فاطمہ کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اور شفقت سے فرمایا کہ تم نے کئی روز سے کھانا نہیں کھایا ہے۔ پھر آپ نے سات درہم دے کر ارشاد فرمایا کہ کھانا منگاو۔وہ درہم جناب امام حسن لے کر ہمراہ پدر بزرگوار بازار میں آئے۔ یہاں پر ایک بندہ حق آگاہ کہتا تھا، کہ خدا کی راہ پر مجھ کو کوئی قرض دے۔ سبحان اللہ سخاوت اسی کا نام ہے۔ بیت
یہ سن کر نہ دیکھا گیا پابند غم اس کو
مولا نے وہیں دے دیے ساتوں درہم اس کو
اور جناب حسن سے بشفقت فرمایا کہ جان پدر خالق رزق دینے والا ہے۔ مگر اس وقت اس کو نہ دینا مجھ کو شاق تھا۔ اب اپنے مولا کے حال پر خدا کی عنایت وشفقت ملا حظہ فرمائیں۔ کہ آپ تھوڑی دور ہی چلے تھے کہ ایک عرب سامنے آیا۔ اور کہا یا علی ناقہ خریدو گے۔ آپ نے عذر کیا کہ میرے پاس قیمت نہیں ہے۔ اس نے عرض کی کہ میں قرض دے دوں گا۔آپ نے ایک سو درہم قیمت طے کرنے کے بعد لے لیا۔ اسی اثنا ء میں ایک شخص نے آکر خواہش خریداری کی۔اور بعد گفتگو آپ کو ایک سو ستر درہم نقعد دے کر ناقہ مول لے لیا۔ اور ناقہ آپ نے حوالہ مشتری کیا۔ نظم
جب واں سے روانہ ہوئے وہ ناقہ کو لے کر
بازار میں بایع کو ڈھونڈنے حیدر
ناگاہ نظر آئے سر راہ پیمبر
فرمایا کسے ڈھونڈتے پھرتے ہو برادر
جبریل تھے جو قرض تمہیں دے گئے ناقہ
میکائیل تھے جو مول ابھی لے گئے ناقہ
اگر آپ کی سخاوت کا حال بیان ہو تو ایک دفتر ہو جائے۔ نظم
کیا فیض ہے کیا خیر ہے کیا جودو سخا ہے
کیا رحم ہے کیا بخشش والطاف خدا ہے
محتاج اسی در کا ہر اک شاہ وگدا ہے
حقا کہ دو عالم کا علی عقدہ کشا ہے
سائل کبھی خالی نہ گیا سامنے آکر
یا آپ دیا یا اسے دلوادیا جا کر
شاہوں کی سخاوت کو نہیں تجھ سے کوئی نسبت
وہ قطرے ہیں تو قلزم ذخار سخاوت
کیا تیری سخاوت ہو بیاں کیا تری عزت
کعبہ میں ولادت ہوئی مسجد میں شہادت
کیوں عزو شرف تیرا نہ مقبول خدا ہو
عبادت کا یہ حال تھا کہ جس وقت آپ نماز کو کھڑے ہوتے تھے۔ تو تمام بدن مثل بید کے تھرتھراتا تھا۔ تمام رات خوف الہیٰ سے رویا کرتے تھے۔ یا یتیموں کی خبر گیری میں مشغول رہتے تھے۔ اور ہمیشہ بجز یوم عید فطر کے روزہ رکھتے تھے۔ عبادت میں اس قدر رجوع قلب تھا۔ کہ ایک مرتبہ کسی جنگ میں پائے مبارک کی ایڑی میں تیر لگا،اور کسی طرح نہ نکلا ۔تب قنبر نے نماز پڑھنے میں کھینچ لیا ۔اور آپ کو مطلق خبر نہ ہوئی۔ منقول ہے کہ ایک روز کسی شخص نے آپ سے سوال کیا کہ یا مولا اکثر عابدوں اور دوستان خدا کا چہرہ بوجہ محنت عبادت مثل زعفران کے زرد دیکھا گیا ہے۔ اور آپ باوجود کے سردار عابدوں کے ہیں۔اور کسی عابد وزاہد کی مجال نہیں کہ آپ کے لاکھ حصہ میں سے ایک حصہ کے برابر بھی عبادت کر سکے، مگر کیا وجہ ہے کہ آپ کا چہرہ مبارک نہایت روشن اور سرخ رہتا ہے۔ بیت
ہے بدر کو کمال تمہارے کمال سے
روشن ہے روئے مہر منور جمال سے
اور قوٰے بھی آپ کے سب سے زیادہ قوی ہیں۔سنیئے جواب اپنے آقا کا۔ فرمایا آپ نے کہ اے شخص اگر چہ دوستان خدا نے اس کی محبت میں دم بھرا اور عبادت کیا کرتے تھے ،مگر اپنے مراتب سے واقف نہیں ہیں۔ اس وجہ سے سینہ چاک خطرناک رہتے ہیں۔ جیسا کہ حال یحٰٰیی میں لکھا ہے کہ ان کے والد حضرت ذکریا جب واعظ فرماتے تھے تو حضرت یحییٰ کو دیکھ لیا کرتے تھے۔ کہ ایسا نہ ہو وہ سن لیں۔ اتفاقا ایک روز حضرت یحییٰ مابین واعظ ایک گوشہ میں آبیٹھے۔ اور بحسب اتفاق حضرت ذکریا نے سکران وغضبان کا ذکر فرمایا۔ جس کو سنتے ہی حضرت یحیی روتے ہوئے جنگل کو نکل گئے ،اور فرماتے تھے۔
گفت یحیی وہ چہ نادانیم ما
غافل از سکران وغضبانیم ما
آخر والدین ان کی تلاش میں گئے۔ تو آپ کو دیکھا کہ زار زار روتے ہیں۔اور بوجہ فرط گریہ آپ کے چاروں طرف کی زمین تر ہو گئی تھی۔ با آواز درد ناک عرض کرتے تھے۔کہ پالنے والے میری کون سی جگہ ہے۔ جب تک نہ دیکھوں گا دنیا میں نہ جاوں گا۔ تو جب اس قدر خوف الہیٰ ہو تو کیوں کر عابدوں کا رنگ زرد نہ ہو۔ اور میری آنکھوں نے خالق اکرم نے تمام پردے ظلماتی اٹھا دیئے ہیں۔ اور قوت قدسیہ میری زیادہ اور قوت بشری میری زائل ہو گئی ہے۔ میں نے اپنے معبود کو راضی پایا۔ اور کسی امر میں میں نے اپنے خالق کو غضبناک نہیں بلکہ اپنے اوپر اسے مہربان پایا ہے۔دیکھا۔ میرے تمام افعال اسے پسند ہیں۔اور میں نے سنا ہے کہ میری اولاد کے بارے میں فرمایا ہے کہ میں دوست رکھتا ہوں اور وہ مجھے دوست رکھتے ہیں۔ لہذا اے شخص جب میں نے اپنے مالک کو اس قدر رضا مند دیکھ لیا،بیت
حق میرا ثنا خواں ہے میں حق کا ہوں ثنا خوان
باور نہ ہو کسی کو تو موجود ہے قرآن
تو پھر کیا وجہ ہے کہ مثل دیگر عابدوں کے میرا رنگ زرد ہو،بلکہ اسی خوشی میں جو کچھ میری کیفیت ہے،اگر اس سے بھی دہ چند ہو تو بھی تھوڑا ہے۔ بیت
کچھ نور جو پیدائش حیدر سے بچا ہے
وہ چاند کو اور مہر درخشاں کو ملا ہے
عدالت بھی آپ کی احاطہ تحریر سے باہر ہے۔اگر مختصر طور سے بھی بیان کروں تو بہت طول ہو جائے گا۔لہذا ان پانچ مصرعوں پر اکتفا کرتی ہوں۔ مولف
منصف نہیں دنیا میں کوئی تجھ سے ہے بہتر
ہے عدل تمہارا یہی ہر اک کی زباں پر
کیا عدل کرے گا کوئی اس عدل سے بڑھ کر
ایک دم میں کیا فیصلہ باز وکبوتر
عادل کی قسم عدل میں تم سب سے سوا ہو
اور آپ کے رحم کا یہ حال تھا کہ آدم سے لے کر اس وقت تک نہ دیکھا نہ سنا چنانچہ شب ہائے تاریک میں غلہ وگوشت وغیرہ دوش مبارک پر بار کرکے اندھوں اور غریبوں کو تقسیم کرتے پھرتے تھے۔ تاکہ ضعیف اور نابینا زحمت چلنے پھرنے کی نہ اٹھائیں۔ یتیموں کی پرورش فرماتے اور لنگڑوں کی خدمت کرتے تھے۔ یہ رحم نہ صرف اس عالم فانی میں تھا۔ بلکہ جب سے کہ نور آپ کا ہمراہ نور رسالت قبل از پیدائش آدم پیدا ہوا۔ اسی وقت سے آپ کا فیض ایسا ہی تھا۔ اکثر پیغمبروں کی وقت مصیبت مدد فرمائی۔ حضرت آدم کو حضرت حوا سے ملایا۔ یونس کو قید بطن ماہی سے چھڑایا۔ زکریا کو آرے کے نیچے سے نکالا۔ نار ابراھیم کو گلشن بنایا۔خضر کو ظلمات کا راستہ بتایا۔ مولف
داغ کف مو سے ید بیضا کیا تم نے
دکھ درد سے ایوب کو اچھا کیا تم نے
ذرے کو قمر قطرے کو دریا کیا تم نے
بن باپ کے بیٹے کو مسیحا کیا تم نے
ڈرتا ہوں کہیں منہ سے نہ کہہ بیٹھوں اسرار خدا ہو
حضرات جناب رسول خدا نے شب معراج آپ کے اوصاف سے شتران بے شمار لدے ہوئے ملاحظہ فرمائے۔اور حد وانتہا ان کی دریافت نہ فرماسکے تو اس ذرہ بے مقدار گنہگار کی کیا مجال کہ لکھ سکے۔مولف
مداح تیری مدح کے لکھنے میں حیران ہے
ہر وقت اسی فکرمیں رہتا ہے پریشان
قدرت یہ کسی میں نہیں جز خالق یزدان
اک وقت میں چالیس جگہ تم ہوئے مہمان
ہوتا ہے عیاں اس سے کہ اسرار خدا ہو
حضرات کچھ مرتبہ اپنا بھی سن لیجیئے۔جو آپ کو مولا کی غلامی کے سبب حاصل ہے۔ یقین ہے کہ آپ کے قلوب بالیدہ ہو جائیں گے۔پیش خدا آپ کا وہ رتبہ ہے۔ نظم
شاہ نجف کے دوست خدا کے خلیل ہیں
درگاہ ذوالجلال میں رتبے جلیل ہیں
دعوئے ہمارے کوئی نہیں بے دلیل ہیں
طے ہو گئے یہ امر بصد قال وقیل ہیں
ثمرہ یہ روز حشر عبادت کا پائیں گے
مولا ہمیں بہشت میں خود لے کے جائیں گے
اللہ رے شعیان علی کا وقار وجاہ
ان پر مدام ہے نظر رحمت الہٰ
کھا جاوئے یوں ولا علی شعیوں کے گناہ
ہیزم کو جیسے آتش سوزاں خدا گواہ
دوزخ ہے ان سے دور یہ دوزخ سے دور ہیں
خلق ان کے واسطے ہوئے حور وقصور ہیں
لکھا ہے ایک شخص یہودی کا تھا غلام
حب علی میں قید ہوا تھا وہ نیک نام
زندان کی طرف سے نکلتے تھے جب امام
پابند اس لحاظ وادب کا وہ تھا مدام
بیڑی پکڑ کے اٹھتا تھا تعظیم کے لئے
جھکتا تھا طوق پہنے وہ تسلیم کے لئے
ایک دن جناب علی مرتضیٰ جناب رسول خدا کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے۔کہ ایک شخص نے آکر عرض کی کہ یا مولا یہودی کا وہ غلام جو آپ کو بصد ادب وعقیدت تسلیم بجا لایا کرتا تھا۔ آج آپ کا وہ محب اس دنیا ئے فانی سے عالم جاودانی کی طرف کوچ کر گیا۔ مگر کوئی اس کو غسل وکفن دینے والا نہیں ہے۔ نظم
یہ سن کے اٹھ کھڑے ہوئے پیغمبر زمن
بولے ہم آپ غسل اسے دیں گے اور کفن
پیارا ہمیں بہت ہے محب ابوالحسن
واقف ہےاس کے حال سے خلاق ذوالمنن
ادریس لے کے حلہ فردوس آئیں گے
پانی خضر کے چشمہ سے الیاس لائیں گے
باہم چلے نبی وعلی مضطر وملول
دورحمتوں کا لاش پہ اس کی ہوا نزول
پانی کا ظرف لے کے بڑھا شوہر بتول
میت کو اپنے ہاتھ سے دھونے لگے رسول
عصیاں کی بو ضنوط سے کافور ہو گئی
مردے کی شکل نور سے معمور ہو گئی
پھر اس کے زیب تن علی نے وہ کفن کیا
قدرت نے جس کو رشتہ رحمت سے تھا سیا
ادریس کہتے تھے کہ زہے شان کبریا
بخشی علی نے ذرے کو خورشید کی ضیا
فردیں تمام دھل گئیں اعمال زشت کی
اب یہ ہے اور سیر ہے باغ بہشت کی
پہنا چکے جو خلعت عقبیٰ اسے علی
معراج دوش صاحب معراج پر ملی
آکر ہوا شریک یر اک پیروئے علی
لیکن اتارا قبر میں مردے کو جس گھڑی
یارا نہ پھر نگاہ کا خیر البشر کو تھا
یا تو تھا ادھر یا رخ روشن ادھر کو تھا
اصحاب نے یہ عرض کی اے فخر انبیا
کیا وجہ جو حضور نے منہ کو پھرا لیا
حضرت نے مسکرا کے جواب ان کو یہ دیا
میں دیکھتا ہوں قبر میں اسرار کبریائی
گویا علی کے دوست کی یاں کدخدائی ہے
جو حور آئی ہے وہ دلہن بن کے آئی ہے
مومنین آپ نے اپنے آقا کی شجاعت وسخاوت اور عبادت کا حال سنا۔اور حضرت کا اپنے غلاموں پر رحم وکرم سماعت فرمایا۔مقام عبرت ہے کہ باوجود اس مرتبہ آپ اکثر فرماتے تھے۔ کہ آہ آہ زاد سفر بہت کم ہے۔اور دور دراز وحشت ناک سفر درپیش ہے۔ ہاں حضرات آپ خوب سمجھتے ہیں۔کہ یہ سفر آخرت ہے۔ جس کے خوف سے امام کون ومکان امیر المومنین یوں فرماتے تھے۔ افسوس ہے ہمارے حالوں پر کہ شب وروز امورات ممنوعہ میں مشغول رہتے ہیں۔بجز عنایت رب کائنات اور شفاعت سید کونین ورفاقت شاہ بدر وحنین اور تصدق شہادت حسنین اور کوئی وسیلہ نجات نہیں ہے۔ کتب معتبر میں وارد ہے کہ کیسا ہی گنہگار بندہ ہو۔اگر وہ مصائب آئمہ اطہار پر روئے گا یا رولائے گا۔ تو بے شک جنت میں جائے گا۔ نظم
ہاں مومنو روو کہ نہیں صبر کا یارا
دنیا سے وزیر شہ لولاک سدھارا
روزے میں نمازی کو ستمگار نے مارا
محراب میں زخمی ہوا سرتاج ہمارا
آب دم شمشیر دیا شاہ ھدا کو
کیا خوب کھلا ئی سحری شیر خدا کو
حدیث میں وارد ہے کہ جب شب انیسویں ماہ رمضان یعنی شب ضربت حیدر کرار آئی۔اس شب کو آپ کبھی حجرے کے اندر جاتے تھے۔ اور کبھی صحن خانہ میں آتے تھے۔ درو دیوار سے صدائے گریہ وزاری اس طرح بلند تھی۔ بیت
حیدر کی سواری سوئے فردوس چلی ہے
جاگو یہ شب قدر شب قتل علی ہے
حضرت ام کلثوم فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی کہ آقا آپ کو کبھی ایسا مضطر نہیں دیکھا ۔ کس کا خوف ہے کہ تمام اعضائے بدن تھر تھراتے ہیں۔فرمایا جان پدر نظم
درپیش ہے ادنیٰ کو اب اعلیٰ کی ملاقات
آیا تھا بندھے ہاتھ میں جاتا ہوں کھلے ہاتھ
ہدیہ جو وہ مانگے تو کیا دوں گا میں سوغات
نے عذر کی طاقت نہ سفارش کا کوئی پاس
مرقد کے تصور میں میرے ہوش کہیں ہیں
مسکن بھی نیا اور مصاحب بھی نہیں ہیں
کلثوم نے رو کر کہا واحسرت دردا
کیا بیٹیاں اب صبر کریں آپ کو بابا
فرمایا جو ارشاد پیمبر ہے وہ ہوگا
دوروز ہے دنیا میں بس اب قوت ہمارا
اکیسویں کو اٹھے گا تابوت ہمارا
واللہ ابھی خواب میں یہ دیکھتے تھے ہم
کعبہ کے حوالی میں جو ہے کوہ معظم
دو سنگ لیے اس میں سے جبریل نے اس دم
اور بام پہ کعبہ کے اسے توڑا بصد غم
ٹکڑے بہت ان کے ہوئے حیدر کی نظر میں
مکہ میں مدینہ میں گرے سب کے وہ گھر میں
اس خواب سے ہر ایک کی حالت ہوئی تغیر
رو رو کے حسن بولے کہ کیا اس کی ہے تعبیر
حضرت نے کہا موت ہماری ہے گلو گیر
اب سجدے میں سر ہوگا ہمارا تہہ شمشیر
ٹکڑے جوگرے چارطرف کو سو وہ کیا ہیں
ہر شیعہ حیدر کے لئے سنگ عزا ہیں
پھر فرمایا اے حسن کل ہر گھر میں ہائے علی ہائے علی کا شور برپا ہو گا۔کل کے دن میری لاش آئے گی۔ زینب وکلثوم پچھاڑیں کھائیں گی
کل شیعہ بھی سے کھولیں گے اور اہل حرم بھی
زہرا کی ندا آئی کفن پھاڑیں گے ہم بھی
جناب زینب فرماتی ہیں کہ چار گھڑی رات رہے۔جس وقت تسبیح ہاتھ میں لے کر بابا نے مسجد میں جانے کا قصد کیا، تو سادات نے دست مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات ا ٹھائے۔ الغرض آپ نے مسجد میں داخل ہو کر گلدستہ اذان کو زینت بخشی۔ اذان دی،سب مومنین بعزم نماز تیار ہوئے ،اور دعا کرنے لگے کہ پالنے والے ہمیشہ گلدستہ اذان اس آواز سے رونق افروز رہے۔بعد فراغ اذان آپ نے گلدستہ سے اتر کر قندیلیں جو گل تھیں۔دست مبارک سے روشن فرمائیں۔ تو دیکھا آپ نے کہ ابن ملجم لعین سوتا ہے۔ باوجود کہ آپ کو علم امامت سے معلوم تھا کہ یہ عدوئے دین میرا قاتل ہے۔ لیکن آپ تو راضی برضا تھے۔ نظم
فرمایا منہ کے بل ہےپڑا کیوں سر زمین
شیطان کا یہ خواب ہے ہوشیار اے لعین
رکھتا ہے قصد وہ کہ ہلے عرش بالیقین
اٹھ حیلہ ساز مکر سے کچھ فائدہ نہیں
غافل ہے تو اس امر سے کب مانتا ہوں میں
جو چیز تو چھپائے ہے اسے جانتا ہوں میں
اس بدترین خلق سے یہ فرما کر امام انام نماز میں مشغول ہوئے۔آہ واویلا فدا ہو ں جانیں شیعوں کی اس امام کونین پر کس زبان سے عرض کروں کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ سینہ شق ہوا جاتا ہے۔
سب مومنو ں کی زیست کی صورت بگڑ گئی
سجدے میں سر ابھی تھا کہ شمشیر پڑ گئی
وہ زہر میں بجھی ہوئی شمشیر الاماں
در آئی تا جبین شہنشاہ دوجہان
مولا نے آہ کی نہ کیا کچھ نوحہ فغاں
بسم اللہ آپ کہہ کے تڑپنے لگے وہاں
صدمہ سے قدسیوں کو غش اکبار آگیا
وہ آہ کی کہ جس سے جگر تھر تھرا گیا
روح الامین نے مضطربانہ باشک وآہ
نوحہ کیا کہ شہر مدینہ ہوا تباہ
مارا گیا امیر عرب شاہ دیں پناہ
داماد مصطفیٰ کوکیا قتل بے گناہ
سردار کائنات کا بے ہوش ہوگیا
ہے ہے چراغ دین کا خاموش ہو گیا
فریاد جبرائیل سے گھبرائے مومنین
دوڑے حسن حسین بصد نالہ وحزیں
ورد زبان تھا واابتا وا امام دین
دیکھا تڑپ رہے ہیں ید اللہ سرزمین
مجمع ہے گرد خویش رسالت پناہ کے
جاری ہے خون فرق مبارک سے شاہ کے
یہ صورت پدر بزرگوار کی دیکھ کر حضرت شبر وشبیر بہت دل گیر ہوئے اور عرض کی کہ بابا کس سنگدل نے آپ کو یہ شمشیر لگائی۔فرمایا ابن ملجم لعین نے۔ آہ آہ اس وقت حسنین علھیم السلام کا عجب حال تھا۔القصہ ان دونوں شہزادوں نے نظم
بابا کا لہو پہلے تو چہرے پہ لگایا
پھر دونوں نے مابین گلیم ان کو لٹایا
لے کے جو چلے رونا علی کو بہت آیا
شبیر نے پوچھا تو یہ حیدر نے سنایا
رونا ہے یہ جب سر کو تو کٹوائے گا پیارے
کوئی نہ تیری لاش کو اٹھوائے گا پیارے
کیا لاش کے آنے کی سناوں حشم وجاہ
بالیں پہ حسن پائنتی شبیر تھے واللہ
عباس کا قد چھوٹا تھا ان روزوں میں جو آہ
سرپیٹتے لاشے کے تلے جاتے تھے واللہ
انبوہ فرشتوں کا ادھر اور ادھر کو
اور شیعوں کا غول آگے برہنہ کیے سر کو
عباس پہ رقت جو بہت ہوتی تھی طاری
سمجھاتے تھے شبیر کہ کیوں کرتے ہوزاری
بابا جو نہیں ماں ہیں تسلی کو تمہاری
ہم کیا کریں جیتی نہیں اماں بھی ہماری
شبیر کی یہ بات جو سن پاتے تھے حیدر
تھے عالم غش میں تڑپ جاتے تھے حیدر
اس وقت حسن نے شہ مرداں سے یہ پوچھا
عباس کی مادر تو نہیں اس غول میں اس جاہ
ہے ہے میرے والی یہ صدا کس کی ہے پیدا
حیدر نے کہا فاطمہ چلاتی ہے بیٹا
سر پیٹتے ہیں حمزہ بھی پیغمبر دین بھی
روتے ہیں اسرافیل بھی اور جبرائیل بھی
الغرض اسی طرح مع گروہ انبیا وملائکہ وجن وانس روتے ہوئے آنحضرت کو قریب حرم محترم لائے،تو کیا دیکھتے ہیں ۔نظم
ڈیوڑھی پہ مضطرب ہیں کھڑی بیبیاں بہم
دیکھا یہ حال جب تو لگے پیٹنے حرم
فرمایا یہ امام حسن نے بہ درد وغم
نا محرم اس جگہ سے اٹھائیں نہ اب قدم
پھٹ کر گرے نہ عرش کہیں ذوالجلال کا
واجب ہے احترام محمد کی آل کا
اک دن یہ اہلبیت نبی کا تھا احترام
یعنی کوئی سنے نہ صدا خاص ہو کہ عام
اک روز کربلا میں اعدا کا تھا اژدہام
ہے ہے اتار لے گئے چادر بھی اہل شام
بے پردہ قید ہو کے کہاں سے کہاں گئیں
تا شام سربرہنہ وہی بیبیاں گئیں
لاشہ لیے پہنچے سر دروازہ جو بارے
لپٹے ہوئے روتے تھے حرم پردے سے سارے
عباس علی روتے ہوئے گھر کو سدھارے
دکھلا کے گریبان پھٹا ماں کو پکارے
لو خاک ملو منہ پہ ردا پھینک دو سر کی
اے اماں چلو لینے کو لاش آئی پدر کی
سب روتے ہوئے دوڑے کہ لاشہ وہیں آیا
حجرے میں ید اللہ کو مسند پہ لٹایا
عباس کو عباس کی مادر نے بلایا
صدقے کی طرح گرد علی اس کو پھریا
اور بولیں کہ یا رب میرے والی کو شفا دے
صدقہ یہ پسر دیتی ہوں وارث کو بچا دے
تھرا کے علی نے کہا غصے سے یہ اس آن
ہاں تھام زبان اپنی کدھر کو ہے ترا دھیان
عباس پہ تو صدقے میں عباس پہ قربان
عباس کی تو کون ہے یہ ہے فاطمہ کی جان
بی بی کہیں زہرا کا عتاب آئے نہ تجھ پر
شبیر کے فدیہ کو فدا کرتی ہے مجھ پر
ہے یہ میرے شبیر کے لشکر کا علمدار
مالک ہے حسین اس کا تو اس کی نہیں مختار
اس وقت میرے سامنے پھرتے ہیں یہ آثار
سر ننگے اسی کوفہ میں زینب سر بازار
زلف سر شبیر ہے اور چوب سناں ہے
بھائی کے برابر سر عباس رواں ہے
جناب زینب وکلثوم قدموں سے لپٹی ہوئی روتی تھیں،کہ افسوس بابا زخم شمشیر کھا کر جنت کو جاتے ہیں۔ ہم یتیم ہو رہے ہیں۔ ارےکوئی جراح یا حکیم کو لاو کہ زخم کا علاج کرے، کبھی بحال یاس فرماتی تھیں
شمشیر ظلم سر سے جبیں تک اتر گئی
بابا شہید ہو گئے اور میں نہ مر گئی
آئے معالجے کو جو اطبائے بے نظیر
دیکھا جو زخم حال سبھوں کا ہوا تغیر
بولے عمامہ پھینک کے یا حضرت امیر
یہ گھاو آپ کا نہیں ہر گز دوا پذ یر
تیغ جفا غضب کی تھی ضربت تھی قہر کی
تا مغز سر پہنچ گئی تاثیر زہر کی
مایوس اس سخن سے ہوئے شاہ کے حرم
بستم سے زہر کا تھا اثر سر سے تا قدم
شبر کو جانشیں کیا اپنا بدرد وغم
شبیر کو لگا کے گلے سے بچشم نم
بولے یہی مشیت رب انام ہے
بیٹا حسن کے بعد تو کل کا امام ہے
ہو گا شہید زہر سے شبر بصد ملال
مانند گوسفند کریں گے تجھے حلال
ناموس مصطفےٰ کے کھلیں گے سروں کے بال
نیزے پہ سر چڑھے گا تیرا اے نکو خصال
چھوڑیں گے ریگ گرم پہ پیماں شکن تجھے
چالیس روز تک نہ ملے گا کفن تجھے
لیکن دعائے بد سے قیامت نہ ہو کہیں
جز صبر دم نہ ماریو اے میرے نازنین
ہنگام مرگ کیجیئو عابد کو جانشین
فرمائے گئے تھے مجھ سے یہی ختم مرسلین
ہم نے تو عزم جانب دار البقا کیا
پیارے حسین تجھ کو سپردکل خدا کیا
اے شیعو اب نہ پوچھو کہ پھر حال کیا ہوا
اکیسویں شب آئی تو شور بکا ہوا
تم بے امام ہو گئے محشر بپا ہوا
دنیا سے انتقال شہ لافتا ہوا
سب اہل بیت بے کس ودلگیر ہو گئے
ہے ہے یتیم شبر وشبیر ہو گئے
سر پیٹنے کی جاہ ہے محبان مرتضےٰ
دنیا سے بے کسوں کا ہوا خواہ اٹھ گیا
غسل وکفن تو دے چکے سبطین مصطفےٰ
تابوت اٹھا کے لے چلے شیر الہ کا
شال عزا گلے میں ہے بالوں پہ خاک ہے
دامن تلک قبا کا گریبان چاک ہے
اس وقت شہزادوں کا حال کیا عرض کروں۔جناب زینب وام کلثوم پچھاڑیں کھاتی تھیں۔ اور فضہ سر پیٹتی تھی۔ ام البنین بحال حزین سر دھنتی تھیں۔ نظم
کلثوم یہ کرتی تھی بیاں لاش کے اوپر
تم مر گئے ہے ہے مرے بابا مرے سرور
گویا کہ زمانے سےاٹھے آج پیمبر
واللہ کہ برباد ہوا فاطمہ کا گھر
ہے کون جو اب دست کرم سر پہ دھرے گا
اب کون یتیموں پہ بھلا رحم کرے گا
اب کون ہمیں پیار سے فرمائے گا دختر
اب کون وضو کے لئے منگوائے گا ساغر
بابا بھی موئے ماں بھی موئی وائے مقدر
یا شاہ بہت بیٹیاں ہیں آپ کی مضطر
قسمت نے دیا داغ پیمبر کے جگر پر
وارث نہ رہا زینب وکلثوم کے سر پر
رخ کرکے سوئے قبر شہ یثرب وبطحا
سر پیٹ کے کہنے لگی یہ ثانی زہرا
بن باپ کے بیٹی ہوئی فریاد ہے نانا
لو آکے یتیموں کی خبر سید والا
صدمہ ہے یتیموں کے دل چاک کے اوپر
بے ہوش نواسے پڑے ہیں خاک کے اوپر
راوی نے لکھا ہے کہ صدا آئی یہ اس دم
زینب کئی دن سے تو ہیں موجود یہاں ہم
کیا مجھ کو نہیں حیدر کرار کا ہے غم
واللہ کہ غش مجھ کو چلے آتے ہیں پیہم
مرگ اسد اللہ سے مشغول بکا ہوں
میں لاشہ سے لپٹا ہوا سر پیٹ رہا ہوں
ادھر شاہزادیوں کا یہ حال تھا، ادھر در اقدس پر
چلا رہے تھے یہ فقرا سر کو پیٹ کر
اب کون لے گا بے کس ومحتاج کی خبر
رانڈوں کے بین یہ ہیں کہ اے شاہ بحر وبر
بے وارثوں کو چھوڑ کے تم تو گئے گزر
باقی رہی نہ آس جناب امیر کی
خدمت کرے گا کون یتیم واسیر کی
اے مومنو یہ خاک اڑانے کا ہے مقام
رخصت علی کی لاش سے ہوتے ہیں خاص وعام
مجمع ہے عورتوں کا تو مردوں کا اژدہام
بے ہوش خاک پر ہیں پڑے مومنین تمام
ہاں شور الفراق کا کس جا بپا نہیں
حیدر کے دوستو یہ خاموشی کی جا نہیں
تم بھی کہو کہ حیدر کرار الوداع
اے جانشین احمد مختار الوداع
فاقہ کش وغریب ودل افگار الوداع
رانڈوں کے اور غریبوں کے غمخوار الوداع
تیر الم دلوں سے ہزاروں گزر گئے
ہے ہے حضور مر گئے اور ہم نہ مر گئے
بس اے وزیر مالک دین کوچ کر گیا
دنیا سے تاج دار دو عالم گزر گیا
Tuesday, July 20, 2010
بسم اللہ الرحمن الرحیم
چوتھی مجلس
فضائل ووفات جناب سرور کائنات حضرت رسول خدا صلےٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
مرا وہ پیمبر ہے عالی مقام
کہ جس سے خدا بھی ہوا ہم کلام
یا شاہ رسل نائب یزداں تم ہو
شاہد ہے خدا عاشق سبحان تم ہو
کعبہ ایمان ہے مومنوں کا لیکن
کعبہ کی قسم قبلہ ایماں تم ہو
اے باد صبا اگر احیاناَٴ حرم محترم میں تیرا گزر ہو جائے اور تو طواف سے شرف اندوز ہو تو میری جانب سے اس روضہ اقدس پر تسلیم نثار کرنا۔ جس میں جناب خاتم الانبیا سردار دوسرا شفیع روز جزا رسول خدا پیمبر خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہیں۔
اور جسم نورانی اس جناب کا تہہ خاک مدفون ہے۔ہاں اے حضار مجلس ہمارے پیغمبر رحمتہ اللعالمین امت گنہگار کے شفیق حال ہیں۔
اللہ اکبر: مومنین روز قیامت عجب ہول ناک دن ہوگا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ مگر اول مرحلہ سخت قبر کا ہے۔ کہ جب دوفرشتے باشکل مہیب وہیئت عجیب آکر سوال کریں گے۔ کہ تیری کتاب کیا ہے۔اس وقت خداوند کریم زبان مردوں کو گویا کرے گا۔ تو جو شخص اس پیغمبر ہدیٰ اور اس کی اولاد کا محب ہوگا۔ آپ اس کو تلقین فرمائیں گے ۔وہ جواب دے گا۔ کہ قرآن میری کتاب ہے۔ اسی طرح ہر سوال کا جواب بعنایت جناب رسول خداو آئمہ ہدا علیھم السلام مومن ومومنہ دیں گے۔ کہ میرا رب خدا ہے۔ پیغمبر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یں۔ امام اول علی مرتضے علیہ السلام ہیں۔اسی طرح تا جناب امام مہدی آخر الزمان جواب دیں گے۔ در حقیقت خداوند عالم نے ایسے ہی شفیع دوجہاں کی امت میں ہم کو پیدا کیا ہے۔ کہ تمام انبیا ماسلف کی امت پر اس رسول مقبول صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو فخر حاصل ہے۔
گناہوں کا ہے گو کہ دفتر عظیم
پیمبر ہو ایسا تو کیا خوف وبیم
ایہالناس بعد مرحلہ قبر کے روز محشر عجیب ہول ناک دن ہوگا۔ اس روز ہر شخص اپنے ماں باپ اور بہن بھائی سے بھاگے گا۔ اور زوجہ اپنے شوہر واولاد سے بھاگے گی۔ اور اپنے ھال میں گرفتار ہوگی۔ نظم
غضب روز حشر کا ہے حساب
رسولوں کا دل جس ہے آب آب
سفارش کا کس کوجگر کس کو تاب
فقط نفسا نفسی کا ہوگا جواب
مگر امتی امتی کا خطاب
کریں گے ہمارے رسالت مآب
شفیع،مطاع نبی ،کریم
قسیم،جسیم،نسیم وسیم
وارد ہے کہ بعضے منہ اس روز مثل ماہ کے روشن وخنداں ہوں گے۔وہ کون سے منہ ہیں ۔آگاہ ہوں مومنین کہ وہ منہ وہ ہونگےکہ جن کی خبر جناب پیغمبر نے دی ہے۔ کہ روز قیامت ہر آنکھ گریاں ہوگی،مگر وہ آنکھ جو میرے حسین پر روئی ہوگی۔خنداں ہوگی۔ اس کو نعیم جنت کی بشارت دی جائے گی۔بہر حال قیامت کے دن تمام خلائق معرض حساب میں عریاں طلب کی جائے گی۔الا اس قدر پردہ پوشی ہوگی کہ ماں کے نام سے ہر ایک بیٹا بیٹی اس طور پر پکارا جائے گا۔ فلان بن فلانة اور فلانة بنت فلانة۔اس کا سبب یہ ہے کہ جن لوگوں کا نطفہ غیر باپ سے ہے۔ وہ خجالت نہ اٹھائیں۔ سبحان اللہ کیسی صفت ستاری وغفاری ہے۔بعضے لوگ غرق خجالت تا بزانو اور بعضے تا بہ کمر غرق ہوں گے۔اور رسول خدا مع جمیع آئمہ ہدا مغفرت امت گنہگار میں مصروف ہوں گے۔ اور جو کچھ سفارش کریں گے۔خدا وند کریم قبول کرے گا۔ پس ایسے پیغمبر صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کیوں نہ یہ اشعار موزوں ہوں۔ نظم
نبی وہ کہ جو فخر پیغمبران
وہ رہبر دکھا دے جو راہ جنان
وہ بندہ کہ قوسین جس کا مکان
امین خدا مہبط جبرائیل
اللہ اللہ کیا مرتبہ تھا ہمارے نبی کا کہ خدائے کریم نے ان کو جسم نورانی سے سیر کے لئے عرش اعلےٰ پر بلایا۔ اور تمام آسمان بہشت،عرش اور کرسی کی سیر کرا ئی۔ پھر رخصت فرمایا ۔نظم
نہ کیوں کر ہو ایمان کی دل میں ضو
لگائے ہیں شمع رسالت سے لو
نہیں غم گنہ بھی جو سرزد ہوں سو
نماند بعصیان کسے در گرد
کہ دارد چنیں سید پیشرو
حضرات ممکن نہیں کہ بشر تو کیا اگر تمام انسان بنی جان از ابتدائے پیدائش آدم تا روز قیامت سب مہیا اور موجود ہوں۔اور تمام اشجار قلم ہوں۔اور تمام دریا سیاہی اور طبقہائے افلاک وزمین کاغذ بنیں اور ہزار مرتبہ ختم ہو کر پھر موجود ہوں۔تب بھی ایک شمہ ان کے فضائل اور مراتب کا نہیں کہہ سکتے۔پس یہ نخیف بجز اس کے کیا کہہ سکتا ہے کہ ۔ نظم
تری مدح ممکن نہیں لکھ سکوں
تو رشک سلیماں ہے میں مور ہوں
خموشی کا منہ میں نہ کیوں قفل دوں
مری عقل حیراں ہے کیا کہوں
ندانم کدا مے سخن گویمت
کہ بالا تری زانچہ من گویمت
مقام گریہ ہے،اپنے حال زار پر کہ جب ایسا پیغمبر عالی مقام اس دار ناپیدار میں ہمیشہ زندہ نہ رہا۔ تو ہم گنہگاروں کو اس حیات مستعار پر ایک لمحہ تکیہ کرنا عقل سے بعید ہے۔ معلوم نہیں کہ کس وقت پیک اجل دامن گیر ہو کر کشاں کشاں لے جائے۔ اب اس سرور کائنات صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا کچھ حال عرض کرتی ہوں۔ یقین ہے کہ سامعین سن کر سر پیٹیں گے۔ کیونکہ ایسے پیغمبر کا سایہ امت کے سر سے اٹھ رہا ہے کہ جس کو ابتدائے پیدائش سے تا زندگی آخر بجز ہم لوگوں کی نجات کے کوئی فکر نہ تھی۔ بیت
جناب سرور عالم کی رحلت
قیامت ہے ،قیامت ہے قیامت
روایت میں ہے کہ جب آپ کی وفات کا زمانہ قریب آیا،تو تین چیزوں کا قلق اور افسوس فرمایا کرتے تھے۔ اول کلام الہیٰ کا چھوٹنا،دوسرے امت گنہگار کی۔ تیسرے یتیمی اپنے لخت جگر فاطمہ زہرا کی،اور تنہائی علی مرتضےٰ وحسن مجتبی، وحسین شہید کربلا کی اور اکثر فرمایا کرتے تھے۔
کہ کرتا ہوں میں اس جہاں سے سفر
رہی بیٹی زہرا مری بے پدر
میرا مرتضےٰ ہائے تنہا رہے
مرے بعد دکھ درد کس سے کہے
حسین وحسن ناز کس پہ کریں
مرے بعد وہ ہائے روتے پھریں
چنانچہ راوی لکھتا ہے کہ قریب وفات آپ کو جو مرض لاحق تھا۔روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ حالت مرض میں آپ کا بس یہ معمول ہو گیا تھا کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کے بعد گنہگار امت کی نجات کی دعا فرما یا کرتے تھے۔ ایک روز آپ نے سب اہلبیت اطہار اور اصحاب کبار کو جمع کرکے فرمایا کہ مجھ کو سفر آخرت درپیش ہے۔ تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ یہ سن کر تمام حضار بصد بے قراری واضطرار ڈاڑھیں مار کر رونے لگے۔ اور عرض کی کہ یا رسول خدا وہ روز سیاہ کب آنے والا ہے۔ فرمایا آپ نے کہ بہت قریب ہے۔
نظم
محبو آپ کے ماتم میں رولو
مژہ میں اشک کے موتی پرولو
اگر کچھ الفت خیرالورا ہے
مقام گریہ ہے رونے کی جاہ ہے
الغرض جب وہ دن تیرہ وتار جو مشیت پروردگار میں تھا۔آیا،آپ مسجد میں واعظ فرما رہے تھے۔ کہ اے امتیو جو راہ میرے آگے ہے۔اسی راہ پر چلے جانا،اور کلام خدا اور اپنے پیغمبر کے اہلبیت کا احترام کرتے رہنا۔ مگر افسوس کہ اس امت نے اہلبیت کا کیا احترام کیا۔ احترام کیا،اگر اس کو بیاں کروں تو طول ہوگا۔ معرکہ کربلا کا حال مشہور ہے۔ زینب رنجور کا جو احترام ہوا پوشیدہ نہیں۔ الغرض ان کلمات کے بعد آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ سے کسی پر ظلم ہوا ہے۔ تو وہ مجھ سے اسی دنیا میں قصاص لے لے۔ یہ سن کر تمام حضار کہنے لگے کہ یا رسول اللہ آپ نے کوئی ستم ہم پر نہیں فرمایا۔اور شور گریہ وبکا برپا ہوا۔ کہ عرش خدا بھی جنبش میں آگیا۔ مگر روایت میں تحریر ہے کہ حاضرین میں سے ایک شخص عکاشہ نام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ کہ اگر چہ میری مجال عرض کی نہ تھی۔ مگر اس حکم کے مطابق گزارش کرتا ہوں۔ کہ ایک روز آپ اپنے اونٹ کو تازیانہ مارنا چاہتے تھے۔ کہ وہ مجھ کو لگ گیا تھا۔چاہتا ہوں کہ میں اس کا عوض لوں۔ جناب رسول مقبول نے عکاشہ کی گزارش پر فرمایا کہ وہ کون سا تازیانہ تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ تازیانہ ممشوق تھا۔تو حضور نے سلیمان سے ارشاد فرمایا کہ اے سلیمان وہ تازیانہ ممشوق فاطمہ کے گھر میں ہے۔ جلد لا۔ الغرض سلیمان اس شہزادی کونین کے دروازے پر حاضر ہوئے۔اور رسول مقبول کا پیغام عرض کیا۔ کہ وہ تازیانہ شاہ ارین نے طلب فرمایا ہے۔ نظم
یہ سن کر فاطمہ نے تعجب کیا
کہ سلیمان تو اس وقت کہتا ہے کیا
کہ بابا مرے ہیں بہت ناتواں
سواری کی طاقت ہے ان کو کہاں
اے سلیمان بابا کو ایسی حالت میں تازیانے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید کچھ آرام ہے کہ کہیں سوار ہو کر تشریف لے جائیں۔یہ سن کر سلیمان رونے لگے ۔اور عرض کی شاہزادی مرض سے افاقہ نہیں ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ آنحضرت نے سب کو واعظ میں ہدایت فرمائی کہ جس پر مجھ سے کبھی کوئی زیادتی ہوئی ہو۔وہ مجھ سے اپنا بدلہ لےلے ۔ کہ عکاشہ نے عوض تازیانے کا طلب کیا ہے۔ کہ جس کو اسی تازیانے سے آپ کے پدر بزرگوار کے ہاتھوں سے تکلیف پہنچی تھی۔ یہ سن کر جناب سیدہ نے تازیانہ سلیمان کو دے دیا۔مگر اس وقت فرط غم سے آپ کا جو حال ہوا، اس کو کیا عرض کروں۔ نظم
کیا چاک کرتا گریبان سے
لگیں رو کے کہنے سلمان سے
کہ بابا میرے سخت بیمار ہیں
لگے تازیانہ تو کیوں کر جئیں
اے سلمان میری طرف سے جا کر عکاشہ سے کہنا کہ میرے بابا سخت علیل ہیں۔ معاوضہ سے درگزرے۔غرض وہ تازیانہ لے کر مسجد میں آئے۔پیغمبر خدا نے عکاشہ سے فرمایا،تازیانہ آگیا ہے۔جلد مجھ کو معاوضہ سے سبک دوش کریں۔
اس وقت حاضرین مسجد میں شور وگریہ بلند ہوا۔ اور سب عکاشہ سے کہنے لگے۔ کہ سرور عالم کی ایذا سے درگزرے۔ حسنین علیہ سلام بہت بےچین وبے قرار تھے۔ کہتے تھے کہ نانا جان عکاشہ کو حکم دیجیئے ۔کہ آپ کا بدلہ ہم سے لےلے۔ نظم
کہ اے شخص ہم پر جو چاہے سوکر
پیمبر کی ایذا سے کردرگزر
حسن اور حسین پر بہت درد تھا
کہ رخ زردتھا اور دل سرد تھا
پیمبر کے قدموں پہ جھک کے کہا
ہمیں حکم دیجیئے یہ بہر خدا
عوض آپ کے ہم کو نانا رسول
ہیں ایک ایک کوڑے کے سوسو قبول
اللہ اللہ قربان عدل رسول کے ۔ کیا انصاف تھا۔ آپ نے دونوں شاہزادوں اور اصحاب سے فرمایا کہ یہ امر انصاف سے بعید ہے کہ میرا عوض دوسروں سے لیا جائے۔ الغرض عکاشہ اٹھا اور یہ کہا کہ یا نبی اللہ جس وقت آپ نے مجھے کوڑا مارا تھا۔ میری پشت برہنہ تھی۔ لہذا پورا عوض اس وقت تک نہیں ہو سکے گا۔ جب تک آپ بھی پشت اقدس سے جامہ علیحدہ نہ فرمائیں۔ مقام عبرت ہے کہ رسول اللہ بوجہ خوف خدا ایک ادنیٰ شخص کے معاوضہ میں یہ اہتمام فرمائیں۔ ہم سب کا کیا حال ہوگا کہ صبح سے شام تک ایسے سینکڑوں امور سرزد ہوتے ہیں۔
غرض آپ نے فورا پوشاک اطہر کو جسم انور سے جدا کیا۔حضرات جس وقت کہ آپ نے جسم اطہر سے جامہ پاک الگ کیا۔عکاشہ بکمال اشتیاق دوڑا۔اور پشت اقدس پر جو مہر نبوت تھی۔ اس کو بوسہ دیا۔ نظم
گرا پاوں پر اور کہا یا نبی
مجھے آرزو ایک مدت سے تھی
کہ مہر نبوت کو دیکھوں ذرا
عوض تازیانہ کا حیلہ کیا
مرا یہ گنہ بخشیئے یا رسول
کہ دھوکے سے مقصد کیا یہ حصول
پیمبر نے کی اس کے حق میں دعا
اور اس خاص مجلس کو رخصت کیا
پھر آپ بھی مسجد سے اٹھ کر گھر تشریف لائے۔ بخار کی شدت زیادہ ہوئی۔اور شوق وصال ایزد غفار میں بے ہوش لیٹے ہوئے تھے۔ جناب فاطمہ زہرا آپ کے پاس بصد غم ویاس نہایت مضطرب بیٹھی تھیں۔ اور سر مبارک جناب رسالت مآب کا گود میں لیے بیٹھی تھیں۔ کہ ناگاہ حضرت عزرائیل کو حکم رب جلیل ہوا۔
شعر
مرے دوست کو جا میرے پاس لا
اگر ان کی مرضی نہ ہو چھوڑ آ
خدائے کریم کا یہ فرمان سن کر ملک الموت دراقدس پر آئے۔ اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ کیونکہ بلا اجازت خانہ مبارک میں جانے کی جرات نہ تھی۔اللہ اللہ
پاوں جس گھر میںنہ رکھتا تھا فرشتہ بے رضا
سایہ جن کا آفتاب چرخ نے دیکھا نہ تھا
لیک در میدان بعد از قتل شاہ کربلا
شامیاں بستند بازو زینب وکلثوم را
اے فلک آں ابتدا ایں انتہا ئے اہلبیت
روایت میں وارد ہے کہ جس وقت ملک الموت نے بزبان عرب حاضری کی اجازت چاہی۔ تو فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا نے فرمایا کہ اے عرب اس وقت ملاقات کا موقع نہیں۔ بابا پر مرض کی شدت ہے۔ پھر آنا۔ تھوڑی دیر بعد عزرائیل نے پھر عرض کی کہ سلام علیک یا بنت رسول اللہ۔اپنے بابا سے میرے لئے اجازت لیجیئے۔ یہ مسافر کسی کا پیغام لایا ہے۔ جناب فاطمہ نے جواب سلام دے کر فرمایا کہ اے بندہ خدا رسول خدا بوجہ شدت بخار غش میں ہیں۔اس وقت پلٹ جا یہ موقع حضوری کا نہیں ہے۔ وہ ملک بپاس جناب سیدہ یہ سن کر خاموش ہو گیا۔
اللہ اللہ فرشتوں کو بھی کس قدر بنت رسول کا پاس و لحاظ تھا۔مگر آہ واویلا کہ اسی فاطمہ زہرا کی بیٹیوں کے خیموں میں بعد شہادت حسین مظلوم فوج یزید لعین درانہ داخل ہو گئی۔ زیورات لوٹ لیے۔ سروں سے چادریں اتار لیں۔ اور ان کو قید کرکے کربلا سے شام تک شتران بے کجاوہ پر بے مقنعہ وچادر پھرایا۔
دربار یزید پلید میں ننگے سر لے گئے۔المختصر پھر عزرائیل نے عرض کی۔ اے سیدہ دارین لخت جگر رسول رسول الثقلین مجھ کو پیام پہنچانا ضروری ہے۔ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ بلا حصول ملازمت دولت سرا سے واپس جاوں۔ یہ سن کر جناب سیدہ پر ایک خوف طاری ہوا۔ بدن اطہر کانپنے لگا۔ جناب رسول خدا کو غش سے کچھ افاقہ ہوا۔ اور سیدہ سے کانپنے کا سبب پوچھا۔تو جناب سیدہ نے اس عرب کا حال اور گھر میں آنے کی اجازت کا اصرار بیان کیا۔ یہ سن کر جناب رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نظم
کہ جان پدر یہ نہیں ہے عرب
نہ اس کو ملاقات کی کچھ طلب
یہ وہ ہے زنوں کو جو بیوہ کرے
جو لڑکوں کے سر پر یتیمی دھرے
رکھے اپنا جس گھر کے اندر قدم
یہ پہنچا دے سب کو ملک عدم
نہ ہو جس مکاں میں ہوا کا گزر
واں دخل کرتا ہے یہ بے خطر
کسی سے اجازت کی حاجت ہے کب
مری آل کا پر ہے سب کو ادب
اے فاطمہ یہ ملک الموت ہے۔جو روح قبض کرتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ جناب فاطمہ رونے لگیں۔ اور عرض کی کہ ہائے بابا مدینہ کی بستی اجڑتی ہے۔فاطمہ بن باپ کے ہوتی ہے۔ اب مرے حسنین کس پر ناز کریں گے۔ جناب رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جان پدر اس وقت مت رو ۔میرے بیٹوں کو بلاو،ان کو دیکھ لوں اور پیار کر لوں۔ غرض حسنین لائے گئے۔جس وقت دونوں صاحبزادے خدمت اقدس میں پہنچے۔ رسول کے سینے سے لپٹ گئے۔اور بصد بے قراری عرض کرتے تھے۔ کہ نانا جان اب ہمارے ناز کون اٹھائے گا۔ کاندھے پر کون چڑھائے گا۔ اس وقت شہزادوں کے دل پر عجیب درد تھا۔ جناب فاطمہ کا دم سرد تھا۔ جناب رسول مقبول نے یہ حال دیکھا تو درگاہ ذوالجلال میں عرض کی۔ بیت
میرے ہجر میں صبر دیجیئو انہیں
گرفتار غم کا نہ کیجیو انہیں
اور ارشاد فرمایا کہ اے فاطمہ دیر مت کرو۔ اب عزرائیل کو اجازت دو۔آخر با اجازت رسول کریم بصد تعظیم وتکریم ملک الموت حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ اے رسول مقبول ملک العلام رب کرام نے آپ کو سلام فرمایا ہے۔ اور اختیار دیا ہے کہ خواہ آپ دنیا میں ہمیشہ رہیں۔اور اگر مزاج چاہے تو ہماری ملاقات اختیار کریں۔ کہ تمام حور وغلمان جنت ورضوان مشتاق ملاقات اور منتظر قدوم میمنت لزوم ہیں۔جناب رسول خدا نے ارشاد فرمایا کہ اے عزرائیل اس قدر مہلت دو کہ جبرائیل میرے پاس آجائیں۔ ملک الموت نے توقف کیا۔ کہ اسی اثناء میں حضرت جبرائیل بحکم رب جلیل نازل ہوئے اور عرض کی۔ کہ اے حبیب خدا میں عرش وکرسی وجنت کی آراستگی کے سبب عدیم الفرصت تھا۔ حسب الطلب حاضر ہوا ہوں۔خدا وند کریم نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ اور ارشاد فرمایا ہے کہ اے ہمارے حبیب ہم نے آپ کو روز حشر کا مالک کیا ہے۔ چاہے جس کو بخشوائیں۔آپ کل کے مختار ہیں۔
محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس دم سنی یہ خبر
نہایت ہوئے شاد اس بات پر
کیا سجدہ شکر حق کی طرف
کہ مقصود کا گوہر آیا بہ کف
اور عرض کی کہ پالنے والے تیری رحمت سے میں مطمئن ہوں۔ کہ میری امت کو تونے اپنے فضل وکرم سے بخش دیا۔اس کے بعد آپ نے حضرت جبرائیل کو رخصت فرمایا۔ اور عزرائیل کو روبرو بلا کر ارشاد فرمایا۔کہ اے ملک الموت حکم الہیٰ بجا لا۔ پھر حضرت جبرائیل مع میکائیل آئے۔ اور یمین ویسار بیٹھ کر رونے لگے ۔ نظم
محبو آپ کے ماتم میں رولو
مژہ میں اشک کے موتی پرولو
اگر کچھ الفت خیرالورا ہے
مقام گریہ ہے رونے کی جا ہے
ملک الموت سامنے بیٹھا ہے۔ قبض روح پر آمادہ ہے۔ ہاتھ علی ابن ابی طالب کا زیر رخسارہ مبارک رکھا تھا۔ کہ ناگاہ عزرائیل نے نظم
پیمبر کی چھاتی پہ پنجہ دھرا
اٹھے کانپ اس وقت ارض وسما
کیا زور اپنا فرشتہ نے جب
پیمبر کا تھا حال اس دم عجب
الغرض دفعتہٓ روح اقدس نے آشیان جنت کی سمت پرواز کی۔پھر تو دولتسرائے میں کہرام برپا ہوا۔ جس کا بیان نہیں ہو سکتا۔رونا اور تڑپنا حضرت فاطمہ زہرا کا اور نالہ وشیون علی مرتضیٰ کا۔اور سر پیٹ کر آئیں سرد بھرنا حسن مجتبیٰ کا اور شہید کربلا کا کون بیان کر سکتا ہے۔ اور کس میں سننے کی طاقت ہے۔
جہاں میں شور محشر سر بسر ہے
قیامت رحلت خیر البشر ہے
ملک جن وبشر ہیں زار ونالاں
زمین وآسمان بھی نوحہ گر ہیں
رسول اللہ کا نظروں سے چھپنا
اگر سمجھو بڑا داغ جگر ہے
اندھیرا کیوں نہ ہو سارے جہاں میں
چھپا پردے میں وہ رشک قمر ہے
۔۔۔۔۔۔
اجرکم علے اللہ خوب پرسا دیا جناب سیدہ کو ،رباعی
بس اے اہل مجلس بکا کر چکے تم
ہوا شور آہ وفغاں سے طلاطم
نہیں غم سے ذاکر کو تاب تکلم
سلام علیکم سلام علیکم
کریں اب دعا یہ صغیر وکبیر
بر آئیں جو مطلب ہوں تیرے وزیر
چوتھی مجلس
فضائل ووفات جناب سرور کائنات حضرت رسول خدا صلےٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم
مرا وہ پیمبر ہے عالی مقام
کہ جس سے خدا بھی ہوا ہم کلام
یا شاہ رسل نائب یزداں تم ہو
شاہد ہے خدا عاشق سبحان تم ہو
کعبہ ایمان ہے مومنوں کا لیکن
کعبہ کی قسم قبلہ ایماں تم ہو
اے باد صبا اگر احیاناَٴ حرم محترم میں تیرا گزر ہو جائے اور تو طواف سے شرف اندوز ہو تو میری جانب سے اس روضہ اقدس پر تسلیم نثار کرنا۔ جس میں جناب خاتم الانبیا سردار دوسرا شفیع روز جزا رسول خدا پیمبر خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم مدفون ہیں۔
اور جسم نورانی اس جناب کا تہہ خاک مدفون ہے۔ہاں اے حضار مجلس ہمارے پیغمبر رحمتہ اللعالمین امت گنہگار کے شفیق حال ہیں۔
اللہ اکبر: مومنین روز قیامت عجب ہول ناک دن ہوگا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں لکھا ہے کہ مگر اول مرحلہ سخت قبر کا ہے۔ کہ جب دوفرشتے باشکل مہیب وہیئت عجیب آکر سوال کریں گے۔ کہ تیری کتاب کیا ہے۔اس وقت خداوند کریم زبان مردوں کو گویا کرے گا۔ تو جو شخص اس پیغمبر ہدیٰ اور اس کی اولاد کا محب ہوگا۔ آپ اس کو تلقین فرمائیں گے ۔وہ جواب دے گا۔ کہ قرآن میری کتاب ہے۔ اسی طرح ہر سوال کا جواب بعنایت جناب رسول خداو آئمہ ہدا علیھم السلام مومن ومومنہ دیں گے۔ کہ میرا رب خدا ہے۔ پیغمبر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یں۔ امام اول علی مرتضے علیہ السلام ہیں۔اسی طرح تا جناب امام مہدی آخر الزمان جواب دیں گے۔ در حقیقت خداوند عالم نے ایسے ہی شفیع دوجہاں کی امت میں ہم کو پیدا کیا ہے۔ کہ تمام انبیا ماسلف کی امت پر اس رسول مقبول صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کو فخر حاصل ہے۔
گناہوں کا ہے گو کہ دفتر عظیم
پیمبر ہو ایسا تو کیا خوف وبیم
ایہالناس بعد مرحلہ قبر کے روز محشر عجیب ہول ناک دن ہوگا۔ اس روز ہر شخص اپنے ماں باپ اور بہن بھائی سے بھاگے گا۔ اور زوجہ اپنے شوہر واولاد سے بھاگے گی۔ اور اپنے ھال میں گرفتار ہوگی۔ نظم
غضب روز حشر کا ہے حساب
رسولوں کا دل جس ہے آب آب
سفارش کا کس کوجگر کس کو تاب
فقط نفسا نفسی کا ہوگا جواب
مگر امتی امتی کا خطاب
کریں گے ہمارے رسالت مآب
شفیع،مطاع نبی ،کریم
قسیم،جسیم،نسیم وسیم
وارد ہے کہ بعضے منہ اس روز مثل ماہ کے روشن وخنداں ہوں گے۔وہ کون سے منہ ہیں ۔آگاہ ہوں مومنین کہ وہ منہ وہ ہونگےکہ جن کی خبر جناب پیغمبر نے دی ہے۔ کہ روز قیامت ہر آنکھ گریاں ہوگی،مگر وہ آنکھ جو میرے حسین پر روئی ہوگی۔خنداں ہوگی۔ اس کو نعیم جنت کی بشارت دی جائے گی۔بہر حال قیامت کے دن تمام خلائق معرض حساب میں عریاں طلب کی جائے گی۔الا اس قدر پردہ پوشی ہوگی کہ ماں کے نام سے ہر ایک بیٹا بیٹی اس طور پر پکارا جائے گا۔ فلان بن فلانة اور فلانة بنت فلانة۔اس کا سبب یہ ہے کہ جن لوگوں کا نطفہ غیر باپ سے ہے۔ وہ خجالت نہ اٹھائیں۔ سبحان اللہ کیسی صفت ستاری وغفاری ہے۔بعضے لوگ غرق خجالت تا بزانو اور بعضے تا بہ کمر غرق ہوں گے۔اور رسول خدا مع جمیع آئمہ ہدا مغفرت امت گنہگار میں مصروف ہوں گے۔ اور جو کچھ سفارش کریں گے۔خدا وند کریم قبول کرے گا۔ پس ایسے پیغمبر صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں کیوں نہ یہ اشعار موزوں ہوں۔ نظم
نبی وہ کہ جو فخر پیغمبران
وہ رہبر دکھا دے جو راہ جنان
وہ بندہ کہ قوسین جس کا مکان
امین خدا مہبط جبرائیل
اللہ اللہ کیا مرتبہ تھا ہمارے نبی کا کہ خدائے کریم نے ان کو جسم نورانی سے سیر کے لئے عرش اعلےٰ پر بلایا۔ اور تمام آسمان بہشت،عرش اور کرسی کی سیر کرا ئی۔ پھر رخصت فرمایا ۔نظم
نہ کیوں کر ہو ایمان کی دل میں ضو
لگائے ہیں شمع رسالت سے لو
نہیں غم گنہ بھی جو سرزد ہوں سو
نماند بعصیان کسے در گرد
کہ دارد چنیں سید پیشرو
حضرات ممکن نہیں کہ بشر تو کیا اگر تمام انسان بنی جان از ابتدائے پیدائش آدم تا روز قیامت سب مہیا اور موجود ہوں۔اور تمام اشجار قلم ہوں۔اور تمام دریا سیاہی اور طبقہائے افلاک وزمین کاغذ بنیں اور ہزار مرتبہ ختم ہو کر پھر موجود ہوں۔تب بھی ایک شمہ ان کے فضائل اور مراتب کا نہیں کہہ سکتے۔پس یہ نخیف بجز اس کے کیا کہہ سکتا ہے کہ ۔ نظم
تری مدح ممکن نہیں لکھ سکوں
تو رشک سلیماں ہے میں مور ہوں
خموشی کا منہ میں نہ کیوں قفل دوں
مری عقل حیراں ہے کیا کہوں
ندانم کدا مے سخن گویمت
کہ بالا تری زانچہ من گویمت
مقام گریہ ہے،اپنے حال زار پر کہ جب ایسا پیغمبر عالی مقام اس دار ناپیدار میں ہمیشہ زندہ نہ رہا۔ تو ہم گنہگاروں کو اس حیات مستعار پر ایک لمحہ تکیہ کرنا عقل سے بعید ہے۔ معلوم نہیں کہ کس وقت پیک اجل دامن گیر ہو کر کشاں کشاں لے جائے۔ اب اس سرور کائنات صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کا کچھ حال عرض کرتی ہوں۔ یقین ہے کہ سامعین سن کر سر پیٹیں گے۔ کیونکہ ایسے پیغمبر کا سایہ امت کے سر سے اٹھ رہا ہے کہ جس کو ابتدائے پیدائش سے تا زندگی آخر بجز ہم لوگوں کی نجات کے کوئی فکر نہ تھی۔ بیت
جناب سرور عالم کی رحلت
قیامت ہے ،قیامت ہے قیامت
روایت میں ہے کہ جب آپ کی وفات کا زمانہ قریب آیا،تو تین چیزوں کا قلق اور افسوس فرمایا کرتے تھے۔ اول کلام الہیٰ کا چھوٹنا،دوسرے امت گنہگار کی۔ تیسرے یتیمی اپنے لخت جگر فاطمہ زہرا کی،اور تنہائی علی مرتضےٰ وحسن مجتبی، وحسین شہید کربلا کی اور اکثر فرمایا کرتے تھے۔
کہ کرتا ہوں میں اس جہاں سے سفر
رہی بیٹی زہرا مری بے پدر
میرا مرتضےٰ ہائے تنہا رہے
مرے بعد دکھ درد کس سے کہے
حسین وحسن ناز کس پہ کریں
مرے بعد وہ ہائے روتے پھریں
چنانچہ راوی لکھتا ہے کہ قریب وفات آپ کو جو مرض لاحق تھا۔روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ حالت مرض میں آپ کا بس یہ معمول ہو گیا تھا کہ حق سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی کے بعد گنہگار امت کی نجات کی دعا فرما یا کرتے تھے۔ ایک روز آپ نے سب اہلبیت اطہار اور اصحاب کبار کو جمع کرکے فرمایا کہ مجھ کو سفر آخرت درپیش ہے۔ تم کو خدا کے سپرد کرتا ہوں۔ یہ سن کر تمام حضار بصد بے قراری واضطرار ڈاڑھیں مار کر رونے لگے۔ اور عرض کی کہ یا رسول خدا وہ روز سیاہ کب آنے والا ہے۔ فرمایا آپ نے کہ بہت قریب ہے۔
نظم
محبو آپ کے ماتم میں رولو
مژہ میں اشک کے موتی پرولو
اگر کچھ الفت خیرالورا ہے
مقام گریہ ہے رونے کی جاہ ہے
الغرض جب وہ دن تیرہ وتار جو مشیت پروردگار میں تھا۔آیا،آپ مسجد میں واعظ فرما رہے تھے۔ کہ اے امتیو جو راہ میرے آگے ہے۔اسی راہ پر چلے جانا،اور کلام خدا اور اپنے پیغمبر کے اہلبیت کا احترام کرتے رہنا۔ مگر افسوس کہ اس امت نے اہلبیت کا کیا احترام کیا۔ احترام کیا،اگر اس کو بیاں کروں تو طول ہوگا۔ معرکہ کربلا کا حال مشہور ہے۔ زینب رنجور کا جو احترام ہوا پوشیدہ نہیں۔ الغرض ان کلمات کے بعد آپ نے فرمایا کہ اگر مجھ سے کسی پر ظلم ہوا ہے۔ تو وہ مجھ سے اسی دنیا میں قصاص لے لے۔ یہ سن کر تمام حضار کہنے لگے کہ یا رسول اللہ آپ نے کوئی ستم ہم پر نہیں فرمایا۔اور شور گریہ وبکا برپا ہوا۔ کہ عرش خدا بھی جنبش میں آگیا۔ مگر روایت میں تحریر ہے کہ حاضرین میں سے ایک شخص عکاشہ نام نے عرض کی کہ یا رسول اللہ کہ اگر چہ میری مجال عرض کی نہ تھی۔ مگر اس حکم کے مطابق گزارش کرتا ہوں۔ کہ ایک روز آپ اپنے اونٹ کو تازیانہ مارنا چاہتے تھے۔ کہ وہ مجھ کو لگ گیا تھا۔چاہتا ہوں کہ میں اس کا عوض لوں۔ جناب رسول مقبول نے عکاشہ کی گزارش پر فرمایا کہ وہ کون سا تازیانہ تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ تازیانہ ممشوق تھا۔تو حضور نے سلیمان سے ارشاد فرمایا کہ اے سلیمان وہ تازیانہ ممشوق فاطمہ کے گھر میں ہے۔ جلد لا۔ الغرض سلیمان اس شہزادی کونین کے دروازے پر حاضر ہوئے۔اور رسول مقبول کا پیغام عرض کیا۔ کہ وہ تازیانہ شاہ ارین نے طلب فرمایا ہے۔ نظم
یہ سن کر فاطمہ نے تعجب کیا
کہ سلیمان تو اس وقت کہتا ہے کیا
کہ بابا مرے ہیں بہت ناتواں
سواری کی طاقت ہے ان کو کہاں
اے سلیمان بابا کو ایسی حالت میں تازیانے کی کیا ضرورت ہے۔ شاید کچھ آرام ہے کہ کہیں سوار ہو کر تشریف لے جائیں۔یہ سن کر سلیمان رونے لگے ۔اور عرض کی شاہزادی مرض سے افاقہ نہیں ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ آنحضرت نے سب کو واعظ میں ہدایت فرمائی کہ جس پر مجھ سے کبھی کوئی زیادتی ہوئی ہو۔وہ مجھ سے اپنا بدلہ لےلے ۔ کہ عکاشہ نے عوض تازیانے کا طلب کیا ہے۔ کہ جس کو اسی تازیانے سے آپ کے پدر بزرگوار کے ہاتھوں سے تکلیف پہنچی تھی۔ یہ سن کر جناب سیدہ نے تازیانہ سلیمان کو دے دیا۔مگر اس وقت فرط غم سے آپ کا جو حال ہوا، اس کو کیا عرض کروں۔ نظم
کیا چاک کرتا گریبان سے
لگیں رو کے کہنے سلمان سے
کہ بابا میرے سخت بیمار ہیں
لگے تازیانہ تو کیوں کر جئیں
اے سلمان میری طرف سے جا کر عکاشہ سے کہنا کہ میرے بابا سخت علیل ہیں۔ معاوضہ سے درگزرے۔غرض وہ تازیانہ لے کر مسجد میں آئے۔پیغمبر خدا نے عکاشہ سے فرمایا،تازیانہ آگیا ہے۔جلد مجھ کو معاوضہ سے سبک دوش کریں۔
اس وقت حاضرین مسجد میں شور وگریہ بلند ہوا۔ اور سب عکاشہ سے کہنے لگے۔ کہ سرور عالم کی ایذا سے درگزرے۔ حسنین علیہ سلام بہت بےچین وبے قرار تھے۔ کہتے تھے کہ نانا جان عکاشہ کو حکم دیجیئے ۔کہ آپ کا بدلہ ہم سے لےلے۔ نظم
کہ اے شخص ہم پر جو چاہے سوکر
پیمبر کی ایذا سے کردرگزر
حسن اور حسین پر بہت درد تھا
کہ رخ زردتھا اور دل سرد تھا
پیمبر کے قدموں پہ جھک کے کہا
ہمیں حکم دیجیئے یہ بہر خدا
عوض آپ کے ہم کو نانا رسول
ہیں ایک ایک کوڑے کے سوسو قبول
اللہ اللہ قربان عدل رسول کے ۔ کیا انصاف تھا۔ آپ نے دونوں شاہزادوں اور اصحاب سے فرمایا کہ یہ امر انصاف سے بعید ہے کہ میرا عوض دوسروں سے لیا جائے۔ الغرض عکاشہ اٹھا اور یہ کہا کہ یا نبی اللہ جس وقت آپ نے مجھے کوڑا مارا تھا۔ میری پشت برہنہ تھی۔ لہذا پورا عوض اس وقت تک نہیں ہو سکے گا۔ جب تک آپ بھی پشت اقدس سے جامہ علیحدہ نہ فرمائیں۔ مقام عبرت ہے کہ رسول اللہ بوجہ خوف خدا ایک ادنیٰ شخص کے معاوضہ میں یہ اہتمام فرمائیں۔ ہم سب کا کیا حال ہوگا کہ صبح سے شام تک ایسے سینکڑوں امور سرزد ہوتے ہیں۔
غرض آپ نے فورا پوشاک اطہر کو جسم انور سے جدا کیا۔حضرات جس وقت کہ آپ نے جسم اطہر سے جامہ پاک الگ کیا۔عکاشہ بکمال اشتیاق دوڑا۔اور پشت اقدس پر جو مہر نبوت تھی۔ اس کو بوسہ دیا۔ نظم
گرا پاوں پر اور کہا یا نبی
مجھے آرزو ایک مدت سے تھی
کہ مہر نبوت کو دیکھوں ذرا
عوض تازیانہ کا حیلہ کیا
مرا یہ گنہ بخشیئے یا رسول
کہ دھوکے سے مقصد کیا یہ حصول
پیمبر نے کی اس کے حق میں دعا
اور اس خاص مجلس کو رخصت کیا
پھر آپ بھی مسجد سے اٹھ کر گھر تشریف لائے۔ بخار کی شدت زیادہ ہوئی۔اور شوق وصال ایزد غفار میں بے ہوش لیٹے ہوئے تھے۔ جناب فاطمہ زہرا آپ کے پاس بصد غم ویاس نہایت مضطرب بیٹھی تھیں۔ اور سر مبارک جناب رسالت مآب کا گود میں لیے بیٹھی تھیں۔ کہ ناگاہ حضرت عزرائیل کو حکم رب جلیل ہوا۔
شعر
مرے دوست کو جا میرے پاس لا
اگر ان کی مرضی نہ ہو چھوڑ آ
خدائے کریم کا یہ فرمان سن کر ملک الموت دراقدس پر آئے۔ اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ کیونکہ بلا اجازت خانہ مبارک میں جانے کی جرات نہ تھی۔اللہ اللہ
پاوں جس گھر میںنہ رکھتا تھا فرشتہ بے رضا
سایہ جن کا آفتاب چرخ نے دیکھا نہ تھا
لیک در میدان بعد از قتل شاہ کربلا
شامیاں بستند بازو زینب وکلثوم را
اے فلک آں ابتدا ایں انتہا ئے اہلبیت
روایت میں وارد ہے کہ جس وقت ملک الموت نے بزبان عرب حاضری کی اجازت چاہی۔ تو فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا نے فرمایا کہ اے عرب اس وقت ملاقات کا موقع نہیں۔ بابا پر مرض کی شدت ہے۔ پھر آنا۔ تھوڑی دیر بعد عزرائیل نے پھر عرض کی کہ سلام علیک یا بنت رسول اللہ۔اپنے بابا سے میرے لئے اجازت لیجیئے۔ یہ مسافر کسی کا پیغام لایا ہے۔ جناب فاطمہ نے جواب سلام دے کر فرمایا کہ اے بندہ خدا رسول خدا بوجہ شدت بخار غش میں ہیں۔اس وقت پلٹ جا یہ موقع حضوری کا نہیں ہے۔ وہ ملک بپاس جناب سیدہ یہ سن کر خاموش ہو گیا۔
اللہ اللہ فرشتوں کو بھی کس قدر بنت رسول کا پاس و لحاظ تھا۔مگر آہ واویلا کہ اسی فاطمہ زہرا کی بیٹیوں کے خیموں میں بعد شہادت حسین مظلوم فوج یزید لعین درانہ داخل ہو گئی۔ زیورات لوٹ لیے۔ سروں سے چادریں اتار لیں۔ اور ان کو قید کرکے کربلا سے شام تک شتران بے کجاوہ پر بے مقنعہ وچادر پھرایا۔
دربار یزید پلید میں ننگے سر لے گئے۔المختصر پھر عزرائیل نے عرض کی۔ اے سیدہ دارین لخت جگر رسول رسول الثقلین مجھ کو پیام پہنچانا ضروری ہے۔ اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ بلا حصول ملازمت دولت سرا سے واپس جاوں۔ یہ سن کر جناب سیدہ پر ایک خوف طاری ہوا۔ بدن اطہر کانپنے لگا۔ جناب رسول خدا کو غش سے کچھ افاقہ ہوا۔ اور سیدہ سے کانپنے کا سبب پوچھا۔تو جناب سیدہ نے اس عرب کا حال اور گھر میں آنے کی اجازت کا اصرار بیان کیا۔ یہ سن کر جناب رسول خدا صلے اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نظم
کہ جان پدر یہ نہیں ہے عرب
نہ اس کو ملاقات کی کچھ طلب
یہ وہ ہے زنوں کو جو بیوہ کرے
جو لڑکوں کے سر پر یتیمی دھرے
رکھے اپنا جس گھر کے اندر قدم
یہ پہنچا دے سب کو ملک عدم
نہ ہو جس مکاں میں ہوا کا گزر
واں دخل کرتا ہے یہ بے خطر
کسی سے اجازت کی حاجت ہے کب
مری آل کا پر ہے سب کو ادب
اے فاطمہ یہ ملک الموت ہے۔جو روح قبض کرتا ہے۔ یہ سننا تھا کہ جناب فاطمہ رونے لگیں۔ اور عرض کی کہ ہائے بابا مدینہ کی بستی اجڑتی ہے۔فاطمہ بن باپ کے ہوتی ہے۔ اب مرے حسنین کس پر ناز کریں گے۔ جناب رسول خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جان پدر اس وقت مت رو ۔میرے بیٹوں کو بلاو،ان کو دیکھ لوں اور پیار کر لوں۔ غرض حسنین لائے گئے۔جس وقت دونوں صاحبزادے خدمت اقدس میں پہنچے۔ رسول کے سینے سے لپٹ گئے۔اور بصد بے قراری عرض کرتے تھے۔ کہ نانا جان اب ہمارے ناز کون اٹھائے گا۔ کاندھے پر کون چڑھائے گا۔ اس وقت شہزادوں کے دل پر عجیب درد تھا۔ جناب فاطمہ کا دم سرد تھا۔ جناب رسول مقبول نے یہ حال دیکھا تو درگاہ ذوالجلال میں عرض کی۔ بیت
میرے ہجر میں صبر دیجیئو انہیں
گرفتار غم کا نہ کیجیو انہیں
اور ارشاد فرمایا کہ اے فاطمہ دیر مت کرو۔ اب عزرائیل کو اجازت دو۔آخر با اجازت رسول کریم بصد تعظیم وتکریم ملک الموت حاضر ہوئے۔ اور عرض کی کہ اے رسول مقبول ملک العلام رب کرام نے آپ کو سلام فرمایا ہے۔ اور اختیار دیا ہے کہ خواہ آپ دنیا میں ہمیشہ رہیں۔اور اگر مزاج چاہے تو ہماری ملاقات اختیار کریں۔ کہ تمام حور وغلمان جنت ورضوان مشتاق ملاقات اور منتظر قدوم میمنت لزوم ہیں۔جناب رسول خدا نے ارشاد فرمایا کہ اے عزرائیل اس قدر مہلت دو کہ جبرائیل میرے پاس آجائیں۔ ملک الموت نے توقف کیا۔ کہ اسی اثناء میں حضرت جبرائیل بحکم رب جلیل نازل ہوئے اور عرض کی۔ کہ اے حبیب خدا میں عرش وکرسی وجنت کی آراستگی کے سبب عدیم الفرصت تھا۔ حسب الطلب حاضر ہوا ہوں۔خدا وند کریم نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ اور ارشاد فرمایا ہے کہ اے ہمارے حبیب ہم نے آپ کو روز حشر کا مالک کیا ہے۔ چاہے جس کو بخشوائیں۔آپ کل کے مختار ہیں۔
محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس دم سنی یہ خبر
نہایت ہوئے شاد اس بات پر
کیا سجدہ شکر حق کی طرف
کہ مقصود کا گوہر آیا بہ کف
اور عرض کی کہ پالنے والے تیری رحمت سے میں مطمئن ہوں۔ کہ میری امت کو تونے اپنے فضل وکرم سے بخش دیا۔اس کے بعد آپ نے حضرت جبرائیل کو رخصت فرمایا۔ اور عزرائیل کو روبرو بلا کر ارشاد فرمایا۔کہ اے ملک الموت حکم الہیٰ بجا لا۔ پھر حضرت جبرائیل مع میکائیل آئے۔ اور یمین ویسار بیٹھ کر رونے لگے ۔ نظم
محبو آپ کے ماتم میں رولو
مژہ میں اشک کے موتی پرولو
اگر کچھ الفت خیرالورا ہے
مقام گریہ ہے رونے کی جا ہے
ملک الموت سامنے بیٹھا ہے۔ قبض روح پر آمادہ ہے۔ ہاتھ علی ابن ابی طالب کا زیر رخسارہ مبارک رکھا تھا۔ کہ ناگاہ عزرائیل نے نظم
پیمبر کی چھاتی پہ پنجہ دھرا
اٹھے کانپ اس وقت ارض وسما
کیا زور اپنا فرشتہ نے جب
پیمبر کا تھا حال اس دم عجب
الغرض دفعتہٓ روح اقدس نے آشیان جنت کی سمت پرواز کی۔پھر تو دولتسرائے میں کہرام برپا ہوا۔ جس کا بیان نہیں ہو سکتا۔رونا اور تڑپنا حضرت فاطمہ زہرا کا اور نالہ وشیون علی مرتضیٰ کا۔اور سر پیٹ کر آئیں سرد بھرنا حسن مجتبیٰ کا اور شہید کربلا کا کون بیان کر سکتا ہے۔ اور کس میں سننے کی طاقت ہے۔
جہاں میں شور محشر سر بسر ہے
قیامت رحلت خیر البشر ہے
ملک جن وبشر ہیں زار ونالاں
زمین وآسمان بھی نوحہ گر ہیں
رسول اللہ کا نظروں سے چھپنا
اگر سمجھو بڑا داغ جگر ہے
اندھیرا کیوں نہ ہو سارے جہاں میں
چھپا پردے میں وہ رشک قمر ہے
۔۔۔۔۔۔
اجرکم علے اللہ خوب پرسا دیا جناب سیدہ کو ،رباعی
بس اے اہل مجلس بکا کر چکے تم
ہوا شور آہ وفغاں سے طلاطم
نہیں غم سے ذاکر کو تاب تکلم
سلام علیکم سلام علیکم
کریں اب دعا یہ صغیر وکبیر
بر آئیں جو مطلب ہوں تیرے وزیر
Thursday, July 15, 2010
تیسری مجلس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
تیسری مجلس
ایام طفلی میں پیش خدا ورسول امام حسین علیہ السلام کے مراتب
شبیر ساوزیر کوئی دوسرا نہیں
جیسے بجز خدا کے کوئی خدا نہیں
آگاہ ہوں مومنین کہ فضائل اور مراتب جناب امام حسین علیہ السلام کے اس قدر لاتعداد ہیں کہ جن کا احاطہ انسان تو ایک طرف نبی جان اور فرشتگان آسمان سے بھی ممکن نہیں ہے۔تو یہ کمترین کب اس کی مدح لکھ سکتا ہے۔اور کیا اس کے مدارج بیان کر سکتا ہے۔ مولف
یا شاہ کربلا تری مدحت محال ہے
میں کیا زبان طوطی سدرہ کا لال ہے
دعوےٰ جو اس کا کیجیئے نقص کمال ہے
تو فاطمہ کا ماہ ہے حیدر کا لال ہے
قرآں میں وصف جب تیرا رب ہدیٰ کرے
بندے کی کیا مجال جو مدح وثنا کرے
روایت میں ہے کہ جس وقت آپ پیدا ہوئے۔ صفیہ دختر عبد المطلب فرماتی ہیں۔کہ میں نے آپ کو گود میں لیا۔اسی وقت رسول مقبول تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا کہ میرے نور چشم کو میرے پاس لاو۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ابھی غسل نہیں دیا گیا۔ اس وقت آپ نے فرمایا افسوس ہے اے پھوپھی تم واقف نہیں ہو۔ کہ یہ فرزند میرا درگاہ خدا سے پاک وطیب پیدا ہوا ہے۔ تم اس کو کیا پاک کروگی۔یہ فرما کر میری گودی سے حسین کو لے لیا۔ اور اس کی نورانی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر اس کے دہن مبارک اپنی زبان مبارک دے دی۔اور جب آپ جھولے میں جھولنے کے لائق ہوئے تو اکثر جبرائیل امین عرش سے آتے تھے۔اور ملاحظہ فرماتے تھے کہ کاروبار خانہ داری سے تھک کر بنت رسول سوگئی ہیں۔اور امام حسین علیہ السلام روتے ہیں۔ اس وقت جبارئیل آپ کا جھولا جھلاتے تھے۔ اور لوریاں دیتے تھے۔ جب آپ بیدار ہوتیں تو آواز لوری دینے کی سماعت فرماتی تھیں۔ مگر کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ اتفاقا ایک روز آپ حجرہ عبادت میں اپنے معبود کی عبادت کر رہی تھیں۔ کہ لوریوں کی آواز سنی۔ کوئی کہہ رہا تھا۔
مخمس
ان فی الجنتہ نھرا برحیق ولبن
لعلی ولزھرا وحیسن وحسن
یعنی جنت میں شراب اور دودھ کی ایک نہر ہے۔ جو علی وفاطمہ اور حسن وحسین کے لئے ہے۔فاطمہ زہرا نے یہ قصہ جناب رسول خدا سے بیان کیا۔ کہ اے بابا اکثر جب میں سوجاتی ہوں۔ یا عبادت پروردگار میں مشغول رہتی ہوں ۔اور حسین میرا روتا ہے۔ اس وقت میں لوری دینے کی آواز سنتی ہوں۔ مگر کوئی نظر نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا جان پدر پروردگار عالم کو حسین کا رونا گوارا نہیں ہے۔ اسی واسطے بحکم رب جلیل جبرائیل آتے ہیں اور لوری دیتے ہیں۔ اور اکثر روایت میں یہ بھی تحریر ہے۔ کہ حضرت جبرائیل آپ کو بہلانے کے واسطے جھولے سے عرش پر لے جاتے تھے۔
جبریل نے شرف تیری خدمت سے پائے ہیں
میوے طبق طبق تمہیں جنت سے آئے ہیں
اور کتب ہائے معتبرہ میں لکھا ہے طبری سے اور اس نے طاوس یمانی سے کہ جس وقت امام حسین علیہ سلام کو مکان تاریک میں لے جاتے تھے۔ تو گلوئے مبارک سے ایسا نور ساطع ہوتا تھا۔کہ تمام مکان روشن ہوجاتا تھا۔ اور ابن شہر آشوب نے حسن بصری اوربی بی ام سلمیٰ سے روایت لکھی ہے کہ اکثر حضرت
جبرائیل بشکل وحیہ کلبی آپ کے پاس وحی لے کر نازل ہو تے تھے۔ایک روز کچھ وحی الہیٰ لائے ۔ اور جناب امام حسین ان کو وحیہ کلبی سمجھ کر جبرئیل کی گود میں جا بیٹھے۔ اور دامن وآستین میں کچھ ڈھونڈھنے لگے۔ کیونکہ وحیہ کلبی اکثر آپ کے واسطے میوے لایا کرتے تھے۔ رسول خدا نے چاہا کہ حسین کو جبرئیل کی گود سے اتار لیں ۔عرض کی یا رسول اللہ ان کو بے چین نہ کیجیئے۔
فرمایا حضرت نے اے اخی میں شرمندہ ہوں کہ تمہاری گود میں گستاخانہ جا بیٹھے ہیں۔ جبرائیل نے عرض کی۔آپ ایسا نہ فرمائیں۔یہ برگزیدہ خدا ہیں۔ اور ان کی ماں فاطمہ زہرا خاص کنیز پروردگار مالک محشر ہیں۔ جب چکی پیستے پیستے تھک کر سو جاتی ہیں۔تب مجھے حکم پروردگار ہوتا ہے کہ زمین پر جلد جا ۔فاطمہ سوتی ہیں۔ حسین نہ روئیں جھولا جھلا۔ اور جب تک وہ سو کر اٹھیں۔آٹا پیس کر تیار کر۔ فاطمہ کے آرام میں فرق نہ آئے۔ یا نبی اللہ جب پیش خدا ان کی یہ خاطر ہے کہ مجھ کو گہوارا جنبانی اور چکی چلانے کی خدمت ملے۔تو اگر میری گود میں آبیٹھے تو کیا مضائقہ ہے۔ مگر ارشاد فرمایئے کہ میرے دامن اور آستین میں کیا ڈھونڈتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ اے اخی تم کو اس وقت حسین نے وحیہ کلبی جانا ہے۔ کیونکہ جب وہ سفر سے آتے ہیں۔تو ان کے واسطے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت جبرائیل نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیا۔اور ایک سیب اور ایک بہی اور ایک انار لے کر دونوں صاحبزادوں کو دیئے۔اس وقت صاحب زادے بہت خوش ہوئے۔ وہ سب بزرگوار ان میووں کو کھاتے۔مگر تھوڑا سا باقی رکھتے تھے۔ تو پھربقدرت الہیٰ وہ میوے اصلی حالت پر ہو جاتے تھے۔ چنانچہ لار غائب ہو گیا۔ اور بہی بوقت شہادت جناب امیر علیہ سلام اور سیب باقی رہا تا معرکہ کربلا اور جس وقت تشنگی سے امام مظلوم بے چین ہوتے تھے۔ تو اس سیب کو سونگھ لیتے تھے۔ کہ تشنگی کم ہو جاتی تھی۔ اور وقت سفر خلد بریں اس کو نوش فرمایا۔اور ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک روز جناب رسول خدا نماز پڑھ کر سجدے میں گئے۔اتفاقا امام حسین مسجد میں کھیلتے کھیلتے وارد ہوئے۔اور پشت مبارک پر چڑھ کرگردن پر آبیٹھے۔آپ نے سجدے کو طول دیا۔ سوچا اصحاب نے کہ سبب طول کیا ہے۔
پس دیکھا کہ امام حسین علیہ سلام آپ کی گردن پرسوار ہیں۔ بعد تھوڑی دیر کے آپ گردن سے اترے۔تب حضرت نے سجدے سے سر اٹھایا۔ اور نماز کو تمام کیا۔ اصحاب نے عرض کی یا رسول اللہ اس قدر طول سجدے میں جائز ہے۔فرمایا آپ نے کہ جس وقت حسین میری گردن پر سوار ہوا۔میں نے بعد فراغت ذکر سجدے سے سر اٹھانا چاہا۔ تو حضرت جبرائیل نازل ہوئے۔اور وحی لائے کہ یا رسول اللہ سر نہ اٹھایئے۔ کہ ہمارا پیارا آپ کی گردن پر سوار ہے۔ بے چین ہو گا۔ بیت۔
ایجاد کائنات برائے حسین علیہ سلام ہے
مرضی کردگار رضائے حسین علیہ سلام ہے نظم
وصف گل زہرا میں ہے بلبل کی زبان لال
بلبل کا بھلا ذکر ہے کیا گل کی زباں لال
کیا گل کی حقیقت ہے جزو کل کی زباں لال
فہم وخرد وعقل وتحمل کی زباں لال
گر ہفت فلک کے بھی ملک ایک زباں ہوں
شبیر علیہ سلام کے اوصاف بیاں ہوں نہ بیاں ہوں
سر جس نے دیا حق پر وہ سردار یہی ہے
فوج غم واندوہ کا سالار یہی ہے
ہر بے کس وعاجز کا مددگار یہی ہے
مختار کی سرکار کا مختار یہی ہے
یکتائی کا یہ راز دوعالم پہ جلی ہے
ہے ایک خدا اور ایک حسین ابن علی ہے
باوجود اس جاہ ومنزلت کے ہمیشہ دنیا دنی کے تزک واحتشام سے کچھ تعلق نہ تھا۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک سال عید قریب آگئی۔اور جناب فاطمہ زہرا علیہ سلام کو کچھ سامان بوجہ عسرت بچوں کی پوشاک کی تیاری کے واسطے میسر نہ ہوا۔ نظم
برپا ہر ایک گھر میں ہوا عید کا اساس
ساماں کیا امیروں نے بے حد وبے قیاس
رنگوائے خرد سالوں کے ہر ایک نے لباس
سب طفل شادماں تھے حسن وحسین اداس
رنگیں لباس سے تو یہ خود ناامید تھے
نیرنگ دیکھنا کہ نہ رخت سفید تھے
ساماں عید کرتے تھے اطفال نیک ذات
مہندی لگا کے ماں کو دکھاتا تھا کوئی ہاتھ
چلا کے فرط شوق سے کہتا تھا اک یہ بات
جائیں گے عید گاہ کو کل ہم پدر کے ساتھ
تھا دوسرے کا قول کہ عیدی جو پائیں گے
اپنی بہن کے واسطےسوغات لائیں گے
اہل محلہ کے تمام لڑکے شوق عید میں خوش وخرم پھرتے تھے۔کہ جناب حسنین سب لڑکوں کی مسرت دیکھ کرلباس کے شوق میں اپنی ماں کے پاس آئے۔ اور لپٹ کر عرض کرنے لگے۔ مادر گرامی ہر طرف عید کی دھوم ہے۔ہر شخص واقف ہے کہ ہمارے نانا سید البشر ہیں۔ لیکن نظم
ساماں اب تلک نہیں عیش وسرور کے
کیا کل نہ عید ہووئے گی گھر میں حضور کے
عسرت پہ اپنی رو کے یہ معصومہ نے کہا
قربان جاوں عید سے فاقہ کشوں کو کیا
اہل دول کے واسطے ہے عید کا مزہ
آل نبی علیہ سلام کی عید ہے خوشنودی خدا
زہرا کو چاند عید کا پیاروں کی دید ہے
تم جب گلے سے لپٹے میں سمجھی کہ عید ہے
یہ سن کر جناب حسنین علیہ سلام نے عرض کی کہ آپ کی بے حساب شفقت کا حال معلوم ہے۔ مگر ہمارے پاس پوشاک نہ ہو تو ہم چشموں میں کس قدر شرم وحجاب کا مقام ہے۔ بیت
درجے ملے تمہاری بدولت بڑے بڑے
لیں گے اسی گھڑی نئے کپڑے کھڑے کھڑے
نظم
اماں لباس عید بنا دو ابھی ابھی
تیار ہوں تو لا کے دکھا دو ابھی ابھی
کیا جانیں ہم کہیں منگا دو ابھی ابھی
رکھ کر سرہانے سوئیں گے لادو ابھی ابھی
سرتاج اوصیائے سلف کے پسر ہیں ہم
آپہنچی سر پہ عید اور ننگے سر ہیں ہم
بچوں کی یہ باتیں سن کر جناب سیدہ بہت ملول ہوئیں۔ اور بچوں کی خاطر داری کے لئے مصلحتا فرمانے لگیں۔کہ اے میرے دل کے ٹکڑوں اطمینان رکھو تمہارے کپڑے،بیت
خیاط لے گیا ہے وہ اب سی کے لائے گا
میں دوں گی میرا ذمہ کوئی دم میں آئے گا
غرض دن گزرا ،شام ہوئی حسنین نے پھر جناب فاطمہ علیہ سلام سے تقاضا پوشاک کیا۔تو آپ نے فرمایا بچوں آرام کرو،پوشاک آتی ہوگی۔ یہ سن کر جناب حسنین با اطمینان سو گئے۔ اور جناب فاطمہ علیہ سلام نے نماز پڑھ کر دعا کی۔ کہ پالنے والے صبح حسنین کو کیا منہ دکھاوں گی۔ مدینہ کے تمام بچے آپس میں ملیں گے۔ میرے بچے روئیں گے۔ پوشاک کہاں سے لاوں۔نظم
صدیقہ نام رکھا ہے تونے بتول کا
جھوٹا نہ مجھ کو کیجیئو صدقہ رسول کا
مشغول تھیں دعا میں ابھی اشرف النساء
زنجیر در ہلا کے کسی نے جو دی ندا
زہرا پکاریں کون کہا بندہ خدا
فدوی غلام وخادم اولاد مصطفےٰ
خیاط ہوں حضور کے ہر نور عین کا
لے جایئے لباس حسن اور حسین کا
خیبر کشا کی زوجہ نے در کو جو وا کیا
رومال اک بندھا ہوا اس نے بڑھا دیا
کھولا جو لاکے پھیل گئی نگہت وضیا
کپڑے وہ تہہ بہ تہہ تھے کہ اسرار کبریا
خیر النساء تھیں صرف دعا درد ویاس میں
نازل ہوئی تھی رحمت حق اس لباس میں
وہ موزے تھے وہ تحفہ زمیںجن سے سرفراز
شمس وقمر کے ہاتھوں سے دستانہ تھے دراز
دو کرتے تھے وہ عمدہ کہ بصد شکوہ وناز
جن کو پہن کے عید پڑھے عید کی نماز
فانوس شمع طور کے دو زیر جامے تھے
پر نور دو عبائیں تھیں اور دو عمامے تھے
صبح کو وہ پوشاک شہزادی نے بچوں کو پہنائی۔جناب رسول خدا جب گھر میں تشریف لائے۔ اور لباس نواسوں کے ملاحظہ فرمائے۔ تو پوچھا بچو تم نے یہ پوشاک کہاں سے پائی۔ دونوں شہزادوں نے عرض کیا کہ اماں جان نے دی ہے۔
پھر آپ نے جناب فاطمہ سے دریافت فرمایا کہ اے لخت جگر تم جانتی ہو کہ یہ پارچے کہاں سے آئے ہیں۔ جناب فاطمہ نے عرض کی۔ بابا جان آپ رسول خدا ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے۔ تو آنحضرت نے فرمایا کہ اے نور دیدہ یہ پوشاک بہشت سے خازن جنت دے گیا ہے۔ پس عرض کی نواسوں نے کہ نانا جان سب لڑکوں کے لباس تو رنگین ہیں۔ ہمارے پارچے سفید ہیں۔ امیدوار ہیں کہ ہمارے پارچے بھی رنگین ہوں۔ یہ گزارش سن کر آنحضرت خاموش ہو گئے۔ اور سر مبارک کو خم کر لیا۔ کہ اسی عرصہ میں حضرت جبرائیل نازل ہوئے۔ اور عرض کی یا رسول اللہ خدائے عز وجل نے بعد سلام کے ارشاد کیا ہے۔ حسنین کو رنگ کی خواہش ہے۔ تو جو رنگ پسند ہوں پارچے رنگ دیئے جائیں۔ بیت
حضرت نے حلہ حسن مجتبیٰ لیا
ابریق کو ادب سے ملک نے اٹھا لیا
پوچھا نبی نے رنگ تو وہ بولا خوش خرام
نانا میں سبز رنگ کا عاشق ہوں والسلام
تب پانی ڈالنے لگے جبرائیل نیک نام
محبوب نے نچوڑا تو وہ سبز تھا تمام
ہم رنگ خضر سبط نبی کی قبا ہوئی
اس پیرھن سے قدر زمرد سوا ہوئی
اس رخت سبز گوں نے حسن کو یہ خوش کیا
تسلیم کرکے ہاتھ سے نانا کے لے لیا
چاہا کہ پہنیں تن میں وہ ملبوس پر ضیا
جو ماں پکاری دونوں ہو تم خاص کبریا
کرتا ابھی ہے سادہ میرے کربلائی کا
ٹھہرو حسن کہ دل نہ کڑھے چھوٹے بھائی کا
پھر حلہ جلد جلد اتارا حسین نے
پیش نبی لگن میں سنوارا حسین نے
ہنس کر کیا نبی سے اشارہ حسین نے
بھائی پہ دیکھا پیار تمہارا حسین نے
پیش نبی تھا طشت میں حلہ پڑا ہوا ہے
کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے نواسا کھڑا ہوا
کی عرض جلد رنگیئے نہ دیر اب لگایئے
بڑھ کر رسول حق نے کہا آگے آیئے
رنگتے ہیں ہم جمال مبارک دکھایئے
کس رنگ کا لباس ہو یہ تو بتایئے
ہنس کر کہا کہ آل کا درجہ بلند ہے
ہم کو تو سرخ رنگ ازل سے پسند ہے
جس وقت وہ رنگین کپڑے جناب حسنین نے پہنے۔نظم
مشغول شکر میں ہمہ تن پنجتن ہوئے
اور سبز پوش خضر کی صورت حسن ہوئے
گلگوں قبا حسین بوجہ حسن ہوئے
بے ساختہ رسول خدا خندہ زن ہوئے
بولے کہ خوب حلہ نور وضیا دیئے
قدرت کے رنگ خوب خدا نے دکھا دیئے
اللہ اکبر کس قدر حسنین کی خاطر معبود کو منظور تھی۔ مومنین اب دوسری عنایت کا حال سنیں ۔ نظم
ممدوح مرے پھر مجھے بندش کا صلا دے
ہے شرط کہ مضمون کہن لطف بنا دے
بیٹھے ہوئے اک روز تھے مسجد میں پیعمبر
تا بندہ رخ پاک تھا مثل مہہ امور
انجم کی طرح گرد تھے اصحاب بھی اکثر
مصروف تھے تہلیل میں تکبیر میں یکسر
غل عرش پہ تھا صل علی صل علے کا
پروانہ تھا خورشید فلک نور خدا کا
ناگاہ ایک عربی ایک بچہ آہو لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا۔اور عرض کیا یا حضرت میں نے اس کو شکار کیا ہے۔ اور بطور تحفہ حسنین علیہ سلام کے واسطے لایا ہوں۔ آنحضرت نے اس کو لے لیا۔اسی اثناء میں امام حسن آئے۔ اور اپنے نانا سے اس بچے کو لے لیا۔ اور گھر میں تشریف لائے۔امام حسین نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو یہ بچہ کس نے دیا ہے۔ فرمایا نانا جان نے عطا فرمایا ہے۔ تم بھی کھیلو۔ امام حسین نے جواب دیا
کھیلو تمہیں نانا نے دیا ہے یہ خوشی سے
ہم اپنا بھی حصہ لیے آتے ہیں نبی سے
مسجد میں گئے اور پھرے ڈھونڈتے ہر سو
پر دوسرا پایا نہ کہیں بچہ آہو
یہ دیکھتے ہی نانا سے روٹھے شہ خوشخو
نہ جا کے گلے لپٹے نہ بیٹھے سر زانو
روئے تو نہ تھے رونے کا پر قصد کیا تھا
کیا کیا تہ وبالا دل محبوب خدا تھا
گھبرا کے اٹھے اور محمد یہ پکارے
اے میرے نواسے میرے جانی میرے پیارے
خاموشی یہ کیوں آج سوا ہے مرے پیارے
کیا والدہ روتی ہے تیری فاقہ کے مارے
یا کھیلنے میں کچھ کسی لڑکے نے کہا ہے
ناداری کا طعنہ مرے پیارے کو دیا ہے
اے نور نظر کیا علی نے آنکھ دکھائی ہے۔ یا فاطمہ نے کوئی بات سنائی ہے۔یہ چاند سا چہرہ آج کیوں اترا ہوا ہے۔ غصہ سے تیوری کیوں چڑھی ہوئی ہے۔ نظم
فاقہ سے ہو گر خلد کی سوغات کھلا دیں
پیاسے ہو تو ہم انگلیوں سے دودھ پلا دیں
مشتاق سواری ہو تو ہم کاندھے پہ چڑھا دیں
کرتا نہ ہو تو حلہ فردوس منگا دیں
راغب ہو جو سیر فلک وعرش بریں پر
بھجوادیں بٹھا کر پر جبرائیل امیں پر
کیوں بات نہیں کرتے۔ منہ سے نہیں بولتے۔ میرے دل کو کڑھاتے ہو۔ دل ہی دل میں پیچ وتاب کھاتے ہو۔ کچھ بیاں تو کرو۔ گو مال دنیا سے بجز عبا کے اپنے پاس کچھ نہیں۔ لیکن خدا کا رسول ہوں۔ جو مانگو ، خدا سے دلا دوں۔ جو منہ سے کہو ابھی موجود ہو۔ یہ فر ما کر شبیر کی طرف ہاتھ بڑھائے کہ گود میں لے لیں۔ جناب امام حسین علیہ سلام کو ،نظم
بیٹھے تو نہ زانوئے شہ پاک کے اوپر
آہو کہا اور لوٹ گئے خاک کے اوپر
کچھ ہو کے خجل بولے یہ پیغمر خوشخو
لو اب یہ کھلا مجھ پہ کہ مجھ سے خفا ہے تو
میں اپنے نواسے کو ابھی دیتا ہوں آہو
نانا کی قسم تجھ کو بہائے اگر آنسو
بات اتنی سی غصہ یہ بڑا واہ میری جان
لو اٹھو جگر پھٹ گیا واللہ میری جان
سمجھا کے حسن کو وہی بچہ میں دلادوں
وہ کہنے لگے بھائی سے وہ بچہ میں کیوں لوں
گر آپ نہیں دوسرا دیتے تو خفا ہوں
لاریب ہے کم پیار میرا بھائی کا افزوں
کیا میں نہیں حضرت کا نواسہ ہوں بتائیں
مجھ پہ وہی شفقت ہے تو بے شبہ منگائیں
شہ نے کہا اک دوسرا ہم تم کو بھی دیں گے
وہ بولے کہ وعدہ نہیں ہم تو ابھی لیں گے
حضرت نے کہا آپ کہیں جو وہ کریں گے
کیا اب بھی نہ نانا کے گلے آکے ملیں گے
وہ بولے کہ میں رووں گا اگر گود میں لو گے
مانوں گا اسی وقت جب آہو مجھے دیں گے
حضرت کو قلق ہوتا تھا سن سن کے یہ گفتار
قبلہ کی طرف ہاتھوں پہ گہ رکھتے تھے دستار
گہ کھول کے گیسو کے تھے آہو کے طلبگار
کہتے تھے نواسے سے کبھی اے میرے دلدار
لے خوش ہو مری جان کہ ابھی آتا ہے آہو
تیرے لیے جبرائیل امیں لاتا ہے آہو
ہر چند جناب رسول خدا بہلاتے اور دل جوئی کرتے تھے۔ مگر حسین کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے ۔اور فرماتے تھے کہ جب تک بچہ آہو نہ ملے گا۔ہم ہرگز آپ کی گود میں نہ آئیں گے۔ یہاں تو نانا اور نواسے میں یہ گفتگو ہو رہی تھی،وہاں جناب فاطمہ گھر میں متفکر وبے چین تھیں اور بار بار فضہ سے فرماتی تھیں۔ نظم
اے فضہ ذرا دیکھ توتو در سے نکل کے
لوٹا تو نہیں خاک پہ شبیر مچل کے
کہتی تھی کبھی حکم جو حیدر سے میں پاوں
جنگل میں ردا اوڑھ کے میں آپ ہی جاوں
بچہ جہاں آہو کے ملے ڈھونڈ کے لاوں
بگڑا ہے میرا نور نظر اس کو مناوں
سہتی ہوں سدا دکھ شہ دلگیر کی خاطر
اب خاک بھی چھانوں گی میں شبیر کی خاطر
کہتی تھی حسن سے تمہی اس کو ہو رلاتے
اے کاش کہ تم آہو کو گھر لے کے نہ آتے
اور لاتے بھی گر بھائی کو اپنے نہ دکھاتے
وہ کہتے تھے یہ جانتے تو کاہے کو لاتے
بھائی کی خوشی جس میں ہو وہ کیجیئے اماں
ہم خوش ہیں یہ آہو انہیں دے دیجیئے اماں
فرماتی تھیں زہرا وہ اس آہو کو نہ لے گا
اب لے گا وہ آہو جو اسے نانا ہی دے گا
کیوں لاڈلے آہو کہیں اس وقت ملے گا
نازوں کا پلا میرا حسین آج کڑھے گا
اغلب ہے حزیں دیکھ کے زہرا کے خلف کو
اصحاب کو بجھوایا ہو جنگل کی طرف کو
اب آج یہ کہہ دوں گی کہ بابا میں ہوں نادار
یہ کھیل امیروں کے ہیں لڑکوں کو سزاوار
محتاج کے بچوں کو یہ چیزیں نہیں درکار
عسرت میں نہ ہو اور یہ مانگے تو ہے دشوار
اس فیض سے ہاتھ اپنا اٹھا لیجیئے بابا
محتاجی زہرا پہ نظر کیجیئے بابا
یہ کہہ کے غریبی سے جو رونے لگی زہرا
جبریل سے خالق نے کہا بیٹھا ہے تو کیا
آہو کا ہے مشتاق میرے شیر کا بیٹا
ہرنی کو مع بچہ اسی وقت تو لے جا
جو کچھ کہ خدائی میں ہے سب اس کو دیا ہے
اس کے لیے حاجت مرے ارشاد کی کیا ہے
جبریل بہ تعجیل چلے جتنا تھا قابو
یاں کرتے تھے ہر دم یہ تقاضا شہ خوش خو
کیوں نانا نہ جبریل ہی آئے نہ وہ آہو
ناگاہ در مسجد سے اٹھا غلغلہ ہر سو
دیکھا یہ نبی نے کہ ہیں جبریل تو رو میں
بچہ لیے ہرنی چلی آتی ہے جلو میں
جبریل درآئے در مسجد سے بصد جاہ
داخل ہوئی ہرنی بھی لیے بچہ کو ناگاہ
بے ساختہ ہنسنے لگے ابن اسداللہ
آہو اسے جبریل نے خود نذر کیا واہ
اور بولے کہ اس آہو کو جو لایا وہی جانے
شبر کو نبی نے دیا اور تم کو خدا نے
واللہ بڑے آپ ہیں اللہ کے پیارے
آہو کو لیے جلد میں پہنچا یہاں بارے
واللہ اگر آنسو نکل آتے تمہاراسی طرحے
جلتے غضب حق سے پرو بال ہمارے
دیکھا نہ رسولان سلف میں یہ کسی پر
جو پیار خدا کا ہے حسین ابن علی پر
القصہ ہرنی خوشی خوشی بچہ نذر کرکے جنگل کو چلی گئی،اور جناب رسول خدا نے اس کے حق میں دعائے خیر کی۔
بیت
ہم نے اسے آہو دیا یہ دے گا سر اپنا
الفت میں مری سب یہ لٹا دے گا گھر اپنا
اسی طرح ایک مرتبہ دونوں صاحبزادوں میں خوش خطی کے بارے میں بحث ہوئی اور روایت میں ہے۔
مرقوم ہے یہ حال خط شبر وشبیر
دونوں نے لکھا تھا یہی کلمہ مع تفسیر
اکثر ہے لکھی خط وکتابت میں یہ تقریر
بسم اللہ قرآں کی خدا داد ہے تحریر
طفلی میں بھی یہ الفت تھی رب دوسرا کی
کی مشق بھی تو نام خدا نام خدا کی
خط اپنے لئے پیش بتول آئے وہ ناگاہ
کی عرض کہ خط کس کا ہے بہتر کرو آگاہ
زہرا نے کہا دونوں کے خط خوب ہیں واللہ
کیا حرف ہیں،کیا نقطے ہیں کیا دائرے ہیں واہ واہ
یہ خط نہیں اعجاز ہے تائید خدا ہے
قربان میں ان ہاتھوں کے جن سے یہ لکھا ہے
شبیر پکارے ہوئی ترجیح نہ ظاہر
کیجیئے مری خاطر نہ مرے بھائی کی خاطر
کہہ دیجیئے اک بات یہ خط دوونوں ہیں حاضر
زہرا نے کہا مجھ سے علی خوب ہیں ماہر
سن کر یہ سخن بنت رسول دوسرا سے
دونوں ہوئے انصاف طلب شیر خدا سے
خط دیکھ کے وہ دائرہ مرکز انصاف
ان دونوں کی تحریر کے کرنے لگے اوصاف
دوسطریں جو ابرو کی طرح تھیں وہ عیاں صاف
رکھا بسر وچشم انہیں واہ وے الطاف
فرمایا کہ خط دونوں کے منظور نظر ہیں
پر مرتبہ داں ہم سے سوا خیر بشر ہیں
دکھلا کے خط اپنا کہا نانا سے یہ ناگاہ
تم دستخط اس پہ کرو جو خوب ہو یا شاہ
حضرت نے یہ دل سے کہا یوں اے دل آگاہ
دونوں میں سے منظور کروں کس کے الم کو
مظلوم کے کڑھنے کو کہ مسموم کے غم کو
جناب رسول خدا نے یہ سوچ کر کہ مجھ سے کوئی ناراض نہ ہو۔فرمایا کہ اپنے ماں باپ کو تختی دکھاو۔حسنین نے عرض کی ہم پہلے ہی مادر گرامی اور پدر بزگوار کی خدمت میں گئے تھے۔ ان حضرات نے حضور کی خدمت میں فیصلہ کے لئے بھیجا ہے۔ سبحان اللہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔بیت۔
فرمایا میں امی ہوں بہت دخل نہیں ہے
یہ فیصلہ تو قابل جبرائیل امیں ہے
الغرض اسی عرصہ میں نظم
وارد ہوئے جبریل امیں صاحب توقیر
احمد نے دیا ان کو خط شبر وشبیر
جبریل نے لے کے وہ شہزادوں کی تحریر
بالائے جبیں رکھی مثال خط تقدیر
فرمایا خوزادوں نے کچھ ارشاد کرو تم
خط جس کا خوش آیا ہو تمہیں صاد کرو تم
جبریل نے کی عرض یہاں دخل میرا کیا
خاموش جہاں ہیں نبی وحیدر وزہرا
ہاں وحی سے ہوتا ہوں سرفراز میں جس جا
اب لے کے وہاں جاتا ہوں دونوں خط زیبا
میں دوں کسے ترجیح برابر یہ رقم ہے
ہوئے جائے گا واں صاد جہاں لوح وقلم ہے
الغر ض حضرت جبرائیل دونوں صاحب زادوں کی وہ تحریریں لے کر منشی تقدیر کی طرف روانہ ہوئے۔سبحان اللہ اس موقع پر کسی استاد نے کیا خوب شعر کہا ہے۔ شعر
نازل ہوا افلاک سے قرآں تو زمیں پر
یہ ایسے تھے مصحف کہ گئے عرش بریں پر
جس وقت کہ جبرائیل امیں پردہ قدرت کے قریب پہنچے۔وہ خط رکھ دیئے۔اور عرض کی اے پالنے والے تو عالم ودانا ہے۔ تیرے محبوب کے نواسوں نے یہ مشق فیصلہ کے واسطے بھیجی ہے۔ کیونکہ فاطمہ زہرا، علی مرتضیٰ اور رسول خدا دونوں صاحب زادوں کو آپس میں کسی کو کسی پر فوقیت نہ دے سکے۔نظم
آواز یہ آئی طرف عزوجل سے
خاطر ہمیں دونوں کی برابر ہے ازل سے
جبریل یہ تم فاطمہ سے کہہ دو بہ تکرار
میرا تو ہے ان دونوں سے تم سے بھی سوا پیار
ان میں سے کڑھائے گا نہیں ایک کو غفار
اب ہم نے تمہیں اپنی طرف سے کیا مختار
غمگین نہ حسن نہ حسین ابن علی ہو
اک بات وہ کہہ دو کہ خوش دونوں کا جی ہو
جبریل نے آکر یہ نبی سے کیا اظہار
زہرا سے کہےاحمد مرسل نے سب اخبار
وہ صبر کی مختار یہ سن کر ہوئی ناچار
پیاروں کی طرف دیکھتی تھی پیار سے ہر بار
دل کو تردد تھا کہ کیا ہوئے گا یا رب
اک لعل تو خوش اک خفا ہووئے گا یا رب
کچھ منہ سے تو فرما نہ سکی بنت پیمبر
اک موتیوں کا ہار تھا سات اس میں تھے گوہر
بیٹوں سے کہا پھینکتی ہوں ان کو زمیں پر
تم میں سے جو زیادہ چنے خط اس کا ہے بہتر
اور فاطمہ نے پھینکے نثار ان پہ جو کر کے
زہرا کے گہر چننے لگے دانے گہر کے
اک فاطمہ کے لعل نے تو تین گہر پائے
اتنے ہی گہر کشتہ الماس کے ہاتھ آئے
اب کون ہے جو ساتویں گہر کو اٹھا لائے
جب تک پر جبریل سے دوٹکڑے نہ ہوجائے
شش ماہ حسین ابن علی عمر میں کم تھے
پر قدر میں ہم آبروئے کشتہ سم تھے
جبرائیل امیں عرش کے پہلو میں تھے استاد
فی الفور ہوا ان کو یہ اللہ کا ارشاد
ہاں موتی کو دو کر کہ یہ دونوں رہیں دل شاد
جبریل نے اظہار کیا زور خدا داد
در ہو گیا دو ٹکڑے ادھر اور ادھر آئے
ایک ایک کے حصہ میں برابر گہر آئے
ٹکڑے تو ہوا خاطر شبیر سے گوہر
پر کاتب تقدیر کا ادنیٰ سا تھا یہ جوہر
گویا کہ شگاف قلم اس موتی میں دے کر
یہ آب گہر سے لکھا دونوں میں برابر
واں زہر ہے یاں آب دم تیغ ستم ہے
جو آبرو ہے ان کی وہی ان کا حشم ہے
کیوں حضرات جس کے دہن میں روز پیدائش رسول خدا اپنی زبان دیں۔اور جس کے لب چوسیں۔ ہائے واویلا انہی لبوں کے اوپر یزید لعین چوب بید لگائے۔آہ آہ جس حسین کا جھولا جبریل امین جھلائیں۔اسی حسین کی لاش مطہر چالیس روز تک زمین گرم پر پڑی رہے۔ اور اس کا سر لشکر شام کے سنگدل نیزہ پر چڑھائیں۔ اللہ اللہ جس بزرگوں کے گلوئے انور کے نور سے تاریک مکان مانند مہتاب منور کے روشنی ہوجائے۔اسی امام کا سر گلو بریدہ تنور میں رکھا جائے۔
جس عالی وقار شہزادے کے لئے جنت کے میوے آئیں۔ افسوس کہ وہ اور اس کے اہل حرم اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تین روز تک کھانا اور پانی نہ پائیں ۔وہ حسین اگر حالت سجدہ میں رسول کی پشت پر سوار ہو جائیں تو خدا کا حکم ہو کہ پیغمبر سجدہ سے سر نہ اٹھائیں۔ اسی حسین کے جسد مبارک پر ملعون نعل بندی کرکے گھوڑے دوڑائیں۔جس کے واسطے خدا وند کریم بچہ آہو بھیجے،اس کے چھوٹے چھوٹے بچے کربلا میں بھوکے پیاسے ذبح کیے جائیں۔ نظم
واللہ غضب ہے ستم گردش افلاک
گوہر کے ہوں ٹکڑے پئے سبط شہ لولاک
اور کان سکینہ کے ہوں گوہر کے لئے چاک
گر روئے وہ تو ماریں طمانچے اسے سفاک
سینہ کے کلیجہ کے جبیں کے تن وسر کے
کیا ٹکڑے ہوئے فاطمہ زہرا کے گوہر کے
جس حسین کے واسطے رب کریم پوشاک عید بھیجے۔افسوس ہے کہ اسی حسین کی پوشاک بعد شہادت لوٹ لی جائے
خوف خدا نہ پاس رسول زمن کیا
امت کے پردہ پوش کا عریاں بدن کیا
نظم
سب لٹ گیا لباس تن شاہ ارجمند
لکھا ہے پائجامہ میں تھا اک اوزار بند
قدر وبہا میں حلہ فردوس سے دوچند
جمال نابکار نے اس کو کیا پسند
فکر ازار بند میں دل کو تعب رہا
وہ روسیاہ منتظر وقت شب رہا
الغرض بوقت شب نظم
آیا قریب لاش امام فلک وقار
چاہا ازار بند نکالے وہ نابکار
پائی مگر گرہ پہ گرہ اس میں بے شمار
منظور شہ تھا اس کو نہ لے جائیں بد شعار
تھا سارباں کا قصد کہ گرہوں کو واہ کرے
ہل جائے جس سے عرش خدا وہ جفا کرے
جنبش میں آگیا تن سلطان نیک ذات
رکھا ازار بند پہ حضرت نے داہنا ہاتھ
اس نے بھی خوب زور کیا حوصلہ کے ساتھ
بر آسکا مگر نہ کسی طرح بد صفات
پھر بھی نہ باز ظلم سے وہ بے حیا رہا
ہر گز نبی کا پاس نہ خوف خدا رہا
لایا کہیں سے تیغ شکستہ وہ روسیاہ
اور بے خطر جدا کیا لاشہ کا ہاتھ آہ
آیا ازار بند پہ دست یسار شاہ
وہ بھی شقی نے قطع کیا واہ مصیبتا
واحسرتا یہ ظلم وستم دست پاک پر
کیوں گر پڑا نہ پنجہ خورشید خاک پر
لکھا ہے جب ہوئی شہ بے کس پہ یہ جفا
تارے گرے زمیں پہ ہلا عرش کبریا
تھرائے لاشہائے شہیدان کربلا
غل شش جہت میں نالہ ء وفریاد کا ہوا
تا عرش تھی بلند صدا شور وشین کی
اور کانپتی تھی لاش شہ مشرقین کی
مقبول ہے وزیر کہے جا زبان سے
آمین کی آرہی ہے صدا آسمان سے
تیسری مجلس
ایام طفلی میں پیش خدا ورسول امام حسین علیہ السلام کے مراتب
شبیر ساوزیر کوئی دوسرا نہیں
جیسے بجز خدا کے کوئی خدا نہیں
آگاہ ہوں مومنین کہ فضائل اور مراتب جناب امام حسین علیہ السلام کے اس قدر لاتعداد ہیں کہ جن کا احاطہ انسان تو ایک طرف نبی جان اور فرشتگان آسمان سے بھی ممکن نہیں ہے۔تو یہ کمترین کب اس کی مدح لکھ سکتا ہے۔اور کیا اس کے مدارج بیان کر سکتا ہے۔ مولف
یا شاہ کربلا تری مدحت محال ہے
میں کیا زبان طوطی سدرہ کا لال ہے
دعوےٰ جو اس کا کیجیئے نقص کمال ہے
تو فاطمہ کا ماہ ہے حیدر کا لال ہے
قرآں میں وصف جب تیرا رب ہدیٰ کرے
بندے کی کیا مجال جو مدح وثنا کرے
روایت میں ہے کہ جس وقت آپ پیدا ہوئے۔ صفیہ دختر عبد المطلب فرماتی ہیں۔کہ میں نے آپ کو گود میں لیا۔اسی وقت رسول مقبول تشریف لائے اور مجھ سے فرمایا کہ میرے نور چشم کو میرے پاس لاو۔ میں نے عرض کی یا رسول اللہ ابھی غسل نہیں دیا گیا۔ اس وقت آپ نے فرمایا افسوس ہے اے پھوپھی تم واقف نہیں ہو۔ کہ یہ فرزند میرا درگاہ خدا سے پاک وطیب پیدا ہوا ہے۔ تم اس کو کیا پاک کروگی۔یہ فرما کر میری گودی سے حسین کو لے لیا۔ اور اس کی نورانی پیشانی پر بوسہ دیا۔ پھر اس کے دہن مبارک اپنی زبان مبارک دے دی۔اور جب آپ جھولے میں جھولنے کے لائق ہوئے تو اکثر جبرائیل امین عرش سے آتے تھے۔اور ملاحظہ فرماتے تھے کہ کاروبار خانہ داری سے تھک کر بنت رسول سوگئی ہیں۔اور امام حسین علیہ السلام روتے ہیں۔ اس وقت جبارئیل آپ کا جھولا جھلاتے تھے۔ اور لوریاں دیتے تھے۔ جب آپ بیدار ہوتیں تو آواز لوری دینے کی سماعت فرماتی تھیں۔ مگر کوئی نظر نہیں آتا تھا۔ اتفاقا ایک روز آپ حجرہ عبادت میں اپنے معبود کی عبادت کر رہی تھیں۔ کہ لوریوں کی آواز سنی۔ کوئی کہہ رہا تھا۔
مخمس
ان فی الجنتہ نھرا برحیق ولبن
لعلی ولزھرا وحیسن وحسن
یعنی جنت میں شراب اور دودھ کی ایک نہر ہے۔ جو علی وفاطمہ اور حسن وحسین کے لئے ہے۔فاطمہ زہرا نے یہ قصہ جناب رسول خدا سے بیان کیا۔ کہ اے بابا اکثر جب میں سوجاتی ہوں۔ یا عبادت پروردگار میں مشغول رہتی ہوں ۔اور حسین میرا روتا ہے۔ اس وقت میں لوری دینے کی آواز سنتی ہوں۔ مگر کوئی نظر نہیں آتا۔ آپ نے فرمایا جان پدر پروردگار عالم کو حسین کا رونا گوارا نہیں ہے۔ اسی واسطے بحکم رب جلیل جبرائیل آتے ہیں اور لوری دیتے ہیں۔ اور اکثر روایت میں یہ بھی تحریر ہے۔ کہ حضرت جبرائیل آپ کو بہلانے کے واسطے جھولے سے عرش پر لے جاتے تھے۔
جبریل نے شرف تیری خدمت سے پائے ہیں
میوے طبق طبق تمہیں جنت سے آئے ہیں
اور کتب ہائے معتبرہ میں لکھا ہے طبری سے اور اس نے طاوس یمانی سے کہ جس وقت امام حسین علیہ سلام کو مکان تاریک میں لے جاتے تھے۔ تو گلوئے مبارک سے ایسا نور ساطع ہوتا تھا۔کہ تمام مکان روشن ہوجاتا تھا۔ اور ابن شہر آشوب نے حسن بصری اوربی بی ام سلمیٰ سے روایت لکھی ہے کہ اکثر حضرت
جبرائیل بشکل وحیہ کلبی آپ کے پاس وحی لے کر نازل ہو تے تھے۔ایک روز کچھ وحی الہیٰ لائے ۔ اور جناب امام حسین ان کو وحیہ کلبی سمجھ کر جبرئیل کی گود میں جا بیٹھے۔ اور دامن وآستین میں کچھ ڈھونڈھنے لگے۔ کیونکہ وحیہ کلبی اکثر آپ کے واسطے میوے لایا کرتے تھے۔ رسول خدا نے چاہا کہ حسین کو جبرئیل کی گود سے اتار لیں ۔عرض کی یا رسول اللہ ان کو بے چین نہ کیجیئے۔
فرمایا حضرت نے اے اخی میں شرمندہ ہوں کہ تمہاری گود میں گستاخانہ جا بیٹھے ہیں۔ جبرائیل نے عرض کی۔آپ ایسا نہ فرمائیں۔یہ برگزیدہ خدا ہیں۔ اور ان کی ماں فاطمہ زہرا خاص کنیز پروردگار مالک محشر ہیں۔ جب چکی پیستے پیستے تھک کر سو جاتی ہیں۔تب مجھے حکم پروردگار ہوتا ہے کہ زمین پر جلد جا ۔فاطمہ سوتی ہیں۔ حسین نہ روئیں جھولا جھلا۔ اور جب تک وہ سو کر اٹھیں۔آٹا پیس کر تیار کر۔ فاطمہ کے آرام میں فرق نہ آئے۔ یا نبی اللہ جب پیش خدا ان کی یہ خاطر ہے کہ مجھ کو گہوارا جنبانی اور چکی چلانے کی خدمت ملے۔تو اگر میری گود میں آبیٹھے تو کیا مضائقہ ہے۔ مگر ارشاد فرمایئے کہ میرے دامن اور آستین میں کیا ڈھونڈتے ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ اے اخی تم کو اس وقت حسین نے وحیہ کلبی جانا ہے۔ کیونکہ جب وہ سفر سے آتے ہیں۔تو ان کے واسطے کچھ نہ کچھ لاتے ہیں۔ یہ سنتے ہی حضرت جبرائیل نے اپنا ہاتھ آسمان کی طرف بلند کیا۔اور ایک سیب اور ایک بہی اور ایک انار لے کر دونوں صاحبزادوں کو دیئے۔اس وقت صاحب زادے بہت خوش ہوئے۔ وہ سب بزرگوار ان میووں کو کھاتے۔مگر تھوڑا سا باقی رکھتے تھے۔ تو پھربقدرت الہیٰ وہ میوے اصلی حالت پر ہو جاتے تھے۔ چنانچہ لار غائب ہو گیا۔ اور بہی بوقت شہادت جناب امیر علیہ سلام اور سیب باقی رہا تا معرکہ کربلا اور جس وقت تشنگی سے امام مظلوم بے چین ہوتے تھے۔ تو اس سیب کو سونگھ لیتے تھے۔ کہ تشنگی کم ہو جاتی تھی۔ اور وقت سفر خلد بریں اس کو نوش فرمایا۔اور ایک روایت میں منقول ہے کہ ایک روز جناب رسول خدا نماز پڑھ کر سجدے میں گئے۔اتفاقا امام حسین مسجد میں کھیلتے کھیلتے وارد ہوئے۔اور پشت مبارک پر چڑھ کرگردن پر آبیٹھے۔آپ نے سجدے کو طول دیا۔ سوچا اصحاب نے کہ سبب طول کیا ہے۔
پس دیکھا کہ امام حسین علیہ سلام آپ کی گردن پرسوار ہیں۔ بعد تھوڑی دیر کے آپ گردن سے اترے۔تب حضرت نے سجدے سے سر اٹھایا۔ اور نماز کو تمام کیا۔ اصحاب نے عرض کی یا رسول اللہ اس قدر طول سجدے میں جائز ہے۔فرمایا آپ نے کہ جس وقت حسین میری گردن پر سوار ہوا۔میں نے بعد فراغت ذکر سجدے سے سر اٹھانا چاہا۔ تو حضرت جبرائیل نازل ہوئے۔اور وحی لائے کہ یا رسول اللہ سر نہ اٹھایئے۔ کہ ہمارا پیارا آپ کی گردن پر سوار ہے۔ بے چین ہو گا۔ بیت۔
ایجاد کائنات برائے حسین علیہ سلام ہے
مرضی کردگار رضائے حسین علیہ سلام ہے نظم
وصف گل زہرا میں ہے بلبل کی زبان لال
بلبل کا بھلا ذکر ہے کیا گل کی زباں لال
کیا گل کی حقیقت ہے جزو کل کی زباں لال
فہم وخرد وعقل وتحمل کی زباں لال
گر ہفت فلک کے بھی ملک ایک زباں ہوں
شبیر علیہ سلام کے اوصاف بیاں ہوں نہ بیاں ہوں
سر جس نے دیا حق پر وہ سردار یہی ہے
فوج غم واندوہ کا سالار یہی ہے
ہر بے کس وعاجز کا مددگار یہی ہے
مختار کی سرکار کا مختار یہی ہے
یکتائی کا یہ راز دوعالم پہ جلی ہے
ہے ایک خدا اور ایک حسین ابن علی ہے
باوجود اس جاہ ومنزلت کے ہمیشہ دنیا دنی کے تزک واحتشام سے کچھ تعلق نہ تھا۔ چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک سال عید قریب آگئی۔اور جناب فاطمہ زہرا علیہ سلام کو کچھ سامان بوجہ عسرت بچوں کی پوشاک کی تیاری کے واسطے میسر نہ ہوا۔ نظم
برپا ہر ایک گھر میں ہوا عید کا اساس
ساماں کیا امیروں نے بے حد وبے قیاس
رنگوائے خرد سالوں کے ہر ایک نے لباس
سب طفل شادماں تھے حسن وحسین اداس
رنگیں لباس سے تو یہ خود ناامید تھے
نیرنگ دیکھنا کہ نہ رخت سفید تھے
ساماں عید کرتے تھے اطفال نیک ذات
مہندی لگا کے ماں کو دکھاتا تھا کوئی ہاتھ
چلا کے فرط شوق سے کہتا تھا اک یہ بات
جائیں گے عید گاہ کو کل ہم پدر کے ساتھ
تھا دوسرے کا قول کہ عیدی جو پائیں گے
اپنی بہن کے واسطےسوغات لائیں گے
اہل محلہ کے تمام لڑکے شوق عید میں خوش وخرم پھرتے تھے۔کہ جناب حسنین سب لڑکوں کی مسرت دیکھ کرلباس کے شوق میں اپنی ماں کے پاس آئے۔ اور لپٹ کر عرض کرنے لگے۔ مادر گرامی ہر طرف عید کی دھوم ہے۔ہر شخص واقف ہے کہ ہمارے نانا سید البشر ہیں۔ لیکن نظم
ساماں اب تلک نہیں عیش وسرور کے
کیا کل نہ عید ہووئے گی گھر میں حضور کے
عسرت پہ اپنی رو کے یہ معصومہ نے کہا
قربان جاوں عید سے فاقہ کشوں کو کیا
اہل دول کے واسطے ہے عید کا مزہ
آل نبی علیہ سلام کی عید ہے خوشنودی خدا
زہرا کو چاند عید کا پیاروں کی دید ہے
تم جب گلے سے لپٹے میں سمجھی کہ عید ہے
یہ سن کر جناب حسنین علیہ سلام نے عرض کی کہ آپ کی بے حساب شفقت کا حال معلوم ہے۔ مگر ہمارے پاس پوشاک نہ ہو تو ہم چشموں میں کس قدر شرم وحجاب کا مقام ہے۔ بیت
درجے ملے تمہاری بدولت بڑے بڑے
لیں گے اسی گھڑی نئے کپڑے کھڑے کھڑے
نظم
اماں لباس عید بنا دو ابھی ابھی
تیار ہوں تو لا کے دکھا دو ابھی ابھی
کیا جانیں ہم کہیں منگا دو ابھی ابھی
رکھ کر سرہانے سوئیں گے لادو ابھی ابھی
سرتاج اوصیائے سلف کے پسر ہیں ہم
آپہنچی سر پہ عید اور ننگے سر ہیں ہم
بچوں کی یہ باتیں سن کر جناب سیدہ بہت ملول ہوئیں۔ اور بچوں کی خاطر داری کے لئے مصلحتا فرمانے لگیں۔کہ اے میرے دل کے ٹکڑوں اطمینان رکھو تمہارے کپڑے،بیت
خیاط لے گیا ہے وہ اب سی کے لائے گا
میں دوں گی میرا ذمہ کوئی دم میں آئے گا
غرض دن گزرا ،شام ہوئی حسنین نے پھر جناب فاطمہ علیہ سلام سے تقاضا پوشاک کیا۔تو آپ نے فرمایا بچوں آرام کرو،پوشاک آتی ہوگی۔ یہ سن کر جناب حسنین با اطمینان سو گئے۔ اور جناب فاطمہ علیہ سلام نے نماز پڑھ کر دعا کی۔ کہ پالنے والے صبح حسنین کو کیا منہ دکھاوں گی۔ مدینہ کے تمام بچے آپس میں ملیں گے۔ میرے بچے روئیں گے۔ پوشاک کہاں سے لاوں۔نظم
صدیقہ نام رکھا ہے تونے بتول کا
جھوٹا نہ مجھ کو کیجیئو صدقہ رسول کا
مشغول تھیں دعا میں ابھی اشرف النساء
زنجیر در ہلا کے کسی نے جو دی ندا
زہرا پکاریں کون کہا بندہ خدا
فدوی غلام وخادم اولاد مصطفےٰ
خیاط ہوں حضور کے ہر نور عین کا
لے جایئے لباس حسن اور حسین کا
خیبر کشا کی زوجہ نے در کو جو وا کیا
رومال اک بندھا ہوا اس نے بڑھا دیا
کھولا جو لاکے پھیل گئی نگہت وضیا
کپڑے وہ تہہ بہ تہہ تھے کہ اسرار کبریا
خیر النساء تھیں صرف دعا درد ویاس میں
نازل ہوئی تھی رحمت حق اس لباس میں
وہ موزے تھے وہ تحفہ زمیںجن سے سرفراز
شمس وقمر کے ہاتھوں سے دستانہ تھے دراز
دو کرتے تھے وہ عمدہ کہ بصد شکوہ وناز
جن کو پہن کے عید پڑھے عید کی نماز
فانوس شمع طور کے دو زیر جامے تھے
پر نور دو عبائیں تھیں اور دو عمامے تھے
صبح کو وہ پوشاک شہزادی نے بچوں کو پہنائی۔جناب رسول خدا جب گھر میں تشریف لائے۔ اور لباس نواسوں کے ملاحظہ فرمائے۔ تو پوچھا بچو تم نے یہ پوشاک کہاں سے پائی۔ دونوں شہزادوں نے عرض کیا کہ اماں جان نے دی ہے۔
پھر آپ نے جناب فاطمہ سے دریافت فرمایا کہ اے لخت جگر تم جانتی ہو کہ یہ پارچے کہاں سے آئے ہیں۔ جناب فاطمہ نے عرض کی۔ بابا جان آپ رسول خدا ہیں۔ آپ جانتے ہوں گے۔ تو آنحضرت نے فرمایا کہ اے نور دیدہ یہ پوشاک بہشت سے خازن جنت دے گیا ہے۔ پس عرض کی نواسوں نے کہ نانا جان سب لڑکوں کے لباس تو رنگین ہیں۔ ہمارے پارچے سفید ہیں۔ امیدوار ہیں کہ ہمارے پارچے بھی رنگین ہوں۔ یہ گزارش سن کر آنحضرت خاموش ہو گئے۔ اور سر مبارک کو خم کر لیا۔ کہ اسی عرصہ میں حضرت جبرائیل نازل ہوئے۔ اور عرض کی یا رسول اللہ خدائے عز وجل نے بعد سلام کے ارشاد کیا ہے۔ حسنین کو رنگ کی خواہش ہے۔ تو جو رنگ پسند ہوں پارچے رنگ دیئے جائیں۔ بیت
حضرت نے حلہ حسن مجتبیٰ لیا
ابریق کو ادب سے ملک نے اٹھا لیا
پوچھا نبی نے رنگ تو وہ بولا خوش خرام
نانا میں سبز رنگ کا عاشق ہوں والسلام
تب پانی ڈالنے لگے جبرائیل نیک نام
محبوب نے نچوڑا تو وہ سبز تھا تمام
ہم رنگ خضر سبط نبی کی قبا ہوئی
اس پیرھن سے قدر زمرد سوا ہوئی
اس رخت سبز گوں نے حسن کو یہ خوش کیا
تسلیم کرکے ہاتھ سے نانا کے لے لیا
چاہا کہ پہنیں تن میں وہ ملبوس پر ضیا
جو ماں پکاری دونوں ہو تم خاص کبریا
کرتا ابھی ہے سادہ میرے کربلائی کا
ٹھہرو حسن کہ دل نہ کڑھے چھوٹے بھائی کا
پھر حلہ جلد جلد اتارا حسین نے
پیش نبی لگن میں سنوارا حسین نے
ہنس کر کیا نبی سے اشارہ حسین نے
بھائی پہ دیکھا پیار تمہارا حسین نے
پیش نبی تھا طشت میں حلہ پڑا ہوا ہے
کاندھے پہ ہاتھ رکھ کے نواسا کھڑا ہوا
کی عرض جلد رنگیئے نہ دیر اب لگایئے
بڑھ کر رسول حق نے کہا آگے آیئے
رنگتے ہیں ہم جمال مبارک دکھایئے
کس رنگ کا لباس ہو یہ تو بتایئے
ہنس کر کہا کہ آل کا درجہ بلند ہے
ہم کو تو سرخ رنگ ازل سے پسند ہے
جس وقت وہ رنگین کپڑے جناب حسنین نے پہنے۔نظم
مشغول شکر میں ہمہ تن پنجتن ہوئے
اور سبز پوش خضر کی صورت حسن ہوئے
گلگوں قبا حسین بوجہ حسن ہوئے
بے ساختہ رسول خدا خندہ زن ہوئے
بولے کہ خوب حلہ نور وضیا دیئے
قدرت کے رنگ خوب خدا نے دکھا دیئے
اللہ اکبر کس قدر حسنین کی خاطر معبود کو منظور تھی۔ مومنین اب دوسری عنایت کا حال سنیں ۔ نظم
ممدوح مرے پھر مجھے بندش کا صلا دے
ہے شرط کہ مضمون کہن لطف بنا دے
بیٹھے ہوئے اک روز تھے مسجد میں پیعمبر
تا بندہ رخ پاک تھا مثل مہہ امور
انجم کی طرح گرد تھے اصحاب بھی اکثر
مصروف تھے تہلیل میں تکبیر میں یکسر
غل عرش پہ تھا صل علی صل علے کا
پروانہ تھا خورشید فلک نور خدا کا
ناگاہ ایک عربی ایک بچہ آہو لے کر رسول خدا کی خدمت میں آیا۔اور عرض کیا یا حضرت میں نے اس کو شکار کیا ہے۔ اور بطور تحفہ حسنین علیہ سلام کے واسطے لایا ہوں۔ آنحضرت نے اس کو لے لیا۔اسی اثناء میں امام حسن آئے۔ اور اپنے نانا سے اس بچے کو لے لیا۔ اور گھر میں تشریف لائے۔امام حسین نے یہ دیکھ کر پوچھا کہ آپ کو یہ بچہ کس نے دیا ہے۔ فرمایا نانا جان نے عطا فرمایا ہے۔ تم بھی کھیلو۔ امام حسین نے جواب دیا
کھیلو تمہیں نانا نے دیا ہے یہ خوشی سے
ہم اپنا بھی حصہ لیے آتے ہیں نبی سے
مسجد میں گئے اور پھرے ڈھونڈتے ہر سو
پر دوسرا پایا نہ کہیں بچہ آہو
یہ دیکھتے ہی نانا سے روٹھے شہ خوشخو
نہ جا کے گلے لپٹے نہ بیٹھے سر زانو
روئے تو نہ تھے رونے کا پر قصد کیا تھا
کیا کیا تہ وبالا دل محبوب خدا تھا
گھبرا کے اٹھے اور محمد یہ پکارے
اے میرے نواسے میرے جانی میرے پیارے
خاموشی یہ کیوں آج سوا ہے مرے پیارے
کیا والدہ روتی ہے تیری فاقہ کے مارے
یا کھیلنے میں کچھ کسی لڑکے نے کہا ہے
ناداری کا طعنہ مرے پیارے کو دیا ہے
اے نور نظر کیا علی نے آنکھ دکھائی ہے۔ یا فاطمہ نے کوئی بات سنائی ہے۔یہ چاند سا چہرہ آج کیوں اترا ہوا ہے۔ غصہ سے تیوری کیوں چڑھی ہوئی ہے۔ نظم
فاقہ سے ہو گر خلد کی سوغات کھلا دیں
پیاسے ہو تو ہم انگلیوں سے دودھ پلا دیں
مشتاق سواری ہو تو ہم کاندھے پہ چڑھا دیں
کرتا نہ ہو تو حلہ فردوس منگا دیں
راغب ہو جو سیر فلک وعرش بریں پر
بھجوادیں بٹھا کر پر جبرائیل امیں پر
کیوں بات نہیں کرتے۔ منہ سے نہیں بولتے۔ میرے دل کو کڑھاتے ہو۔ دل ہی دل میں پیچ وتاب کھاتے ہو۔ کچھ بیاں تو کرو۔ گو مال دنیا سے بجز عبا کے اپنے پاس کچھ نہیں۔ لیکن خدا کا رسول ہوں۔ جو مانگو ، خدا سے دلا دوں۔ جو منہ سے کہو ابھی موجود ہو۔ یہ فر ما کر شبیر کی طرف ہاتھ بڑھائے کہ گود میں لے لیں۔ جناب امام حسین علیہ سلام کو ،نظم
بیٹھے تو نہ زانوئے شہ پاک کے اوپر
آہو کہا اور لوٹ گئے خاک کے اوپر
کچھ ہو کے خجل بولے یہ پیغمر خوشخو
لو اب یہ کھلا مجھ پہ کہ مجھ سے خفا ہے تو
میں اپنے نواسے کو ابھی دیتا ہوں آہو
نانا کی قسم تجھ کو بہائے اگر آنسو
بات اتنی سی غصہ یہ بڑا واہ میری جان
لو اٹھو جگر پھٹ گیا واللہ میری جان
سمجھا کے حسن کو وہی بچہ میں دلادوں
وہ کہنے لگے بھائی سے وہ بچہ میں کیوں لوں
گر آپ نہیں دوسرا دیتے تو خفا ہوں
لاریب ہے کم پیار میرا بھائی کا افزوں
کیا میں نہیں حضرت کا نواسہ ہوں بتائیں
مجھ پہ وہی شفقت ہے تو بے شبہ منگائیں
شہ نے کہا اک دوسرا ہم تم کو بھی دیں گے
وہ بولے کہ وعدہ نہیں ہم تو ابھی لیں گے
حضرت نے کہا آپ کہیں جو وہ کریں گے
کیا اب بھی نہ نانا کے گلے آکے ملیں گے
وہ بولے کہ میں رووں گا اگر گود میں لو گے
مانوں گا اسی وقت جب آہو مجھے دیں گے
حضرت کو قلق ہوتا تھا سن سن کے یہ گفتار
قبلہ کی طرف ہاتھوں پہ گہ رکھتے تھے دستار
گہ کھول کے گیسو کے تھے آہو کے طلبگار
کہتے تھے نواسے سے کبھی اے میرے دلدار
لے خوش ہو مری جان کہ ابھی آتا ہے آہو
تیرے لیے جبرائیل امیں لاتا ہے آہو
ہر چند جناب رسول خدا بہلاتے اور دل جوئی کرتے تھے۔ مگر حسین کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے ۔اور فرماتے تھے کہ جب تک بچہ آہو نہ ملے گا۔ہم ہرگز آپ کی گود میں نہ آئیں گے۔ یہاں تو نانا اور نواسے میں یہ گفتگو ہو رہی تھی،وہاں جناب فاطمہ گھر میں متفکر وبے چین تھیں اور بار بار فضہ سے فرماتی تھیں۔ نظم
اے فضہ ذرا دیکھ توتو در سے نکل کے
لوٹا تو نہیں خاک پہ شبیر مچل کے
کہتی تھی کبھی حکم جو حیدر سے میں پاوں
جنگل میں ردا اوڑھ کے میں آپ ہی جاوں
بچہ جہاں آہو کے ملے ڈھونڈ کے لاوں
بگڑا ہے میرا نور نظر اس کو مناوں
سہتی ہوں سدا دکھ شہ دلگیر کی خاطر
اب خاک بھی چھانوں گی میں شبیر کی خاطر
کہتی تھی حسن سے تمہی اس کو ہو رلاتے
اے کاش کہ تم آہو کو گھر لے کے نہ آتے
اور لاتے بھی گر بھائی کو اپنے نہ دکھاتے
وہ کہتے تھے یہ جانتے تو کاہے کو لاتے
بھائی کی خوشی جس میں ہو وہ کیجیئے اماں
ہم خوش ہیں یہ آہو انہیں دے دیجیئے اماں
فرماتی تھیں زہرا وہ اس آہو کو نہ لے گا
اب لے گا وہ آہو جو اسے نانا ہی دے گا
کیوں لاڈلے آہو کہیں اس وقت ملے گا
نازوں کا پلا میرا حسین آج کڑھے گا
اغلب ہے حزیں دیکھ کے زہرا کے خلف کو
اصحاب کو بجھوایا ہو جنگل کی طرف کو
اب آج یہ کہہ دوں گی کہ بابا میں ہوں نادار
یہ کھیل امیروں کے ہیں لڑکوں کو سزاوار
محتاج کے بچوں کو یہ چیزیں نہیں درکار
عسرت میں نہ ہو اور یہ مانگے تو ہے دشوار
اس فیض سے ہاتھ اپنا اٹھا لیجیئے بابا
محتاجی زہرا پہ نظر کیجیئے بابا
یہ کہہ کے غریبی سے جو رونے لگی زہرا
جبریل سے خالق نے کہا بیٹھا ہے تو کیا
آہو کا ہے مشتاق میرے شیر کا بیٹا
ہرنی کو مع بچہ اسی وقت تو لے جا
جو کچھ کہ خدائی میں ہے سب اس کو دیا ہے
اس کے لیے حاجت مرے ارشاد کی کیا ہے
جبریل بہ تعجیل چلے جتنا تھا قابو
یاں کرتے تھے ہر دم یہ تقاضا شہ خوش خو
کیوں نانا نہ جبریل ہی آئے نہ وہ آہو
ناگاہ در مسجد سے اٹھا غلغلہ ہر سو
دیکھا یہ نبی نے کہ ہیں جبریل تو رو میں
بچہ لیے ہرنی چلی آتی ہے جلو میں
جبریل درآئے در مسجد سے بصد جاہ
داخل ہوئی ہرنی بھی لیے بچہ کو ناگاہ
بے ساختہ ہنسنے لگے ابن اسداللہ
آہو اسے جبریل نے خود نذر کیا واہ
اور بولے کہ اس آہو کو جو لایا وہی جانے
شبر کو نبی نے دیا اور تم کو خدا نے
واللہ بڑے آپ ہیں اللہ کے پیارے
آہو کو لیے جلد میں پہنچا یہاں بارے
واللہ اگر آنسو نکل آتے تمہاراسی طرحے
جلتے غضب حق سے پرو بال ہمارے
دیکھا نہ رسولان سلف میں یہ کسی پر
جو پیار خدا کا ہے حسین ابن علی پر
القصہ ہرنی خوشی خوشی بچہ نذر کرکے جنگل کو چلی گئی،اور جناب رسول خدا نے اس کے حق میں دعائے خیر کی۔
بیت
ہم نے اسے آہو دیا یہ دے گا سر اپنا
الفت میں مری سب یہ لٹا دے گا گھر اپنا
اسی طرح ایک مرتبہ دونوں صاحبزادوں میں خوش خطی کے بارے میں بحث ہوئی اور روایت میں ہے۔
مرقوم ہے یہ حال خط شبر وشبیر
دونوں نے لکھا تھا یہی کلمہ مع تفسیر
اکثر ہے لکھی خط وکتابت میں یہ تقریر
بسم اللہ قرآں کی خدا داد ہے تحریر
طفلی میں بھی یہ الفت تھی رب دوسرا کی
کی مشق بھی تو نام خدا نام خدا کی
خط اپنے لئے پیش بتول آئے وہ ناگاہ
کی عرض کہ خط کس کا ہے بہتر کرو آگاہ
زہرا نے کہا دونوں کے خط خوب ہیں واللہ
کیا حرف ہیں،کیا نقطے ہیں کیا دائرے ہیں واہ واہ
یہ خط نہیں اعجاز ہے تائید خدا ہے
قربان میں ان ہاتھوں کے جن سے یہ لکھا ہے
شبیر پکارے ہوئی ترجیح نہ ظاہر
کیجیئے مری خاطر نہ مرے بھائی کی خاطر
کہہ دیجیئے اک بات یہ خط دوونوں ہیں حاضر
زہرا نے کہا مجھ سے علی خوب ہیں ماہر
سن کر یہ سخن بنت رسول دوسرا سے
دونوں ہوئے انصاف طلب شیر خدا سے
خط دیکھ کے وہ دائرہ مرکز انصاف
ان دونوں کی تحریر کے کرنے لگے اوصاف
دوسطریں جو ابرو کی طرح تھیں وہ عیاں صاف
رکھا بسر وچشم انہیں واہ وے الطاف
فرمایا کہ خط دونوں کے منظور نظر ہیں
پر مرتبہ داں ہم سے سوا خیر بشر ہیں
دکھلا کے خط اپنا کہا نانا سے یہ ناگاہ
تم دستخط اس پہ کرو جو خوب ہو یا شاہ
حضرت نے یہ دل سے کہا یوں اے دل آگاہ
دونوں میں سے منظور کروں کس کے الم کو
مظلوم کے کڑھنے کو کہ مسموم کے غم کو
جناب رسول خدا نے یہ سوچ کر کہ مجھ سے کوئی ناراض نہ ہو۔فرمایا کہ اپنے ماں باپ کو تختی دکھاو۔حسنین نے عرض کی ہم پہلے ہی مادر گرامی اور پدر بزگوار کی خدمت میں گئے تھے۔ ان حضرات نے حضور کی خدمت میں فیصلہ کے لئے بھیجا ہے۔ سبحان اللہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ۔بیت۔
فرمایا میں امی ہوں بہت دخل نہیں ہے
یہ فیصلہ تو قابل جبرائیل امیں ہے
الغرض اسی عرصہ میں نظم
وارد ہوئے جبریل امیں صاحب توقیر
احمد نے دیا ان کو خط شبر وشبیر
جبریل نے لے کے وہ شہزادوں کی تحریر
بالائے جبیں رکھی مثال خط تقدیر
فرمایا خوزادوں نے کچھ ارشاد کرو تم
خط جس کا خوش آیا ہو تمہیں صاد کرو تم
جبریل نے کی عرض یہاں دخل میرا کیا
خاموش جہاں ہیں نبی وحیدر وزہرا
ہاں وحی سے ہوتا ہوں سرفراز میں جس جا
اب لے کے وہاں جاتا ہوں دونوں خط زیبا
میں دوں کسے ترجیح برابر یہ رقم ہے
ہوئے جائے گا واں صاد جہاں لوح وقلم ہے
الغر ض حضرت جبرائیل دونوں صاحب زادوں کی وہ تحریریں لے کر منشی تقدیر کی طرف روانہ ہوئے۔سبحان اللہ اس موقع پر کسی استاد نے کیا خوب شعر کہا ہے۔ شعر
نازل ہوا افلاک سے قرآں تو زمیں پر
یہ ایسے تھے مصحف کہ گئے عرش بریں پر
جس وقت کہ جبرائیل امیں پردہ قدرت کے قریب پہنچے۔وہ خط رکھ دیئے۔اور عرض کی اے پالنے والے تو عالم ودانا ہے۔ تیرے محبوب کے نواسوں نے یہ مشق فیصلہ کے واسطے بھیجی ہے۔ کیونکہ فاطمہ زہرا، علی مرتضیٰ اور رسول خدا دونوں صاحب زادوں کو آپس میں کسی کو کسی پر فوقیت نہ دے سکے۔نظم
آواز یہ آئی طرف عزوجل سے
خاطر ہمیں دونوں کی برابر ہے ازل سے
جبریل یہ تم فاطمہ سے کہہ دو بہ تکرار
میرا تو ہے ان دونوں سے تم سے بھی سوا پیار
ان میں سے کڑھائے گا نہیں ایک کو غفار
اب ہم نے تمہیں اپنی طرف سے کیا مختار
غمگین نہ حسن نہ حسین ابن علی ہو
اک بات وہ کہہ دو کہ خوش دونوں کا جی ہو
جبریل نے آکر یہ نبی سے کیا اظہار
زہرا سے کہےاحمد مرسل نے سب اخبار
وہ صبر کی مختار یہ سن کر ہوئی ناچار
پیاروں کی طرف دیکھتی تھی پیار سے ہر بار
دل کو تردد تھا کہ کیا ہوئے گا یا رب
اک لعل تو خوش اک خفا ہووئے گا یا رب
کچھ منہ سے تو فرما نہ سکی بنت پیمبر
اک موتیوں کا ہار تھا سات اس میں تھے گوہر
بیٹوں سے کہا پھینکتی ہوں ان کو زمیں پر
تم میں سے جو زیادہ چنے خط اس کا ہے بہتر
اور فاطمہ نے پھینکے نثار ان پہ جو کر کے
زہرا کے گہر چننے لگے دانے گہر کے
اک فاطمہ کے لعل نے تو تین گہر پائے
اتنے ہی گہر کشتہ الماس کے ہاتھ آئے
اب کون ہے جو ساتویں گہر کو اٹھا لائے
جب تک پر جبریل سے دوٹکڑے نہ ہوجائے
شش ماہ حسین ابن علی عمر میں کم تھے
پر قدر میں ہم آبروئے کشتہ سم تھے
جبرائیل امیں عرش کے پہلو میں تھے استاد
فی الفور ہوا ان کو یہ اللہ کا ارشاد
ہاں موتی کو دو کر کہ یہ دونوں رہیں دل شاد
جبریل نے اظہار کیا زور خدا داد
در ہو گیا دو ٹکڑے ادھر اور ادھر آئے
ایک ایک کے حصہ میں برابر گہر آئے
ٹکڑے تو ہوا خاطر شبیر سے گوہر
پر کاتب تقدیر کا ادنیٰ سا تھا یہ جوہر
گویا کہ شگاف قلم اس موتی میں دے کر
یہ آب گہر سے لکھا دونوں میں برابر
واں زہر ہے یاں آب دم تیغ ستم ہے
جو آبرو ہے ان کی وہی ان کا حشم ہے
کیوں حضرات جس کے دہن میں روز پیدائش رسول خدا اپنی زبان دیں۔اور جس کے لب چوسیں۔ ہائے واویلا انہی لبوں کے اوپر یزید لعین چوب بید لگائے۔آہ آہ جس حسین کا جھولا جبریل امین جھلائیں۔اسی حسین کی لاش مطہر چالیس روز تک زمین گرم پر پڑی رہے۔ اور اس کا سر لشکر شام کے سنگدل نیزہ پر چڑھائیں۔ اللہ اللہ جس بزرگوں کے گلوئے انور کے نور سے تاریک مکان مانند مہتاب منور کے روشنی ہوجائے۔اسی امام کا سر گلو بریدہ تنور میں رکھا جائے۔
جس عالی وقار شہزادے کے لئے جنت کے میوے آئیں۔ افسوس کہ وہ اور اس کے اہل حرم اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے تین روز تک کھانا اور پانی نہ پائیں ۔وہ حسین اگر حالت سجدہ میں رسول کی پشت پر سوار ہو جائیں تو خدا کا حکم ہو کہ پیغمبر سجدہ سے سر نہ اٹھائیں۔ اسی حسین کے جسد مبارک پر ملعون نعل بندی کرکے گھوڑے دوڑائیں۔جس کے واسطے خدا وند کریم بچہ آہو بھیجے،اس کے چھوٹے چھوٹے بچے کربلا میں بھوکے پیاسے ذبح کیے جائیں۔ نظم
واللہ غضب ہے ستم گردش افلاک
گوہر کے ہوں ٹکڑے پئے سبط شہ لولاک
اور کان سکینہ کے ہوں گوہر کے لئے چاک
گر روئے وہ تو ماریں طمانچے اسے سفاک
سینہ کے کلیجہ کے جبیں کے تن وسر کے
کیا ٹکڑے ہوئے فاطمہ زہرا کے گوہر کے
جس حسین کے واسطے رب کریم پوشاک عید بھیجے۔افسوس ہے کہ اسی حسین کی پوشاک بعد شہادت لوٹ لی جائے
خوف خدا نہ پاس رسول زمن کیا
امت کے پردہ پوش کا عریاں بدن کیا
نظم
سب لٹ گیا لباس تن شاہ ارجمند
لکھا ہے پائجامہ میں تھا اک اوزار بند
قدر وبہا میں حلہ فردوس سے دوچند
جمال نابکار نے اس کو کیا پسند
فکر ازار بند میں دل کو تعب رہا
وہ روسیاہ منتظر وقت شب رہا
الغرض بوقت شب نظم
آیا قریب لاش امام فلک وقار
چاہا ازار بند نکالے وہ نابکار
پائی مگر گرہ پہ گرہ اس میں بے شمار
منظور شہ تھا اس کو نہ لے جائیں بد شعار
تھا سارباں کا قصد کہ گرہوں کو واہ کرے
ہل جائے جس سے عرش خدا وہ جفا کرے
جنبش میں آگیا تن سلطان نیک ذات
رکھا ازار بند پہ حضرت نے داہنا ہاتھ
اس نے بھی خوب زور کیا حوصلہ کے ساتھ
بر آسکا مگر نہ کسی طرح بد صفات
پھر بھی نہ باز ظلم سے وہ بے حیا رہا
ہر گز نبی کا پاس نہ خوف خدا رہا
لایا کہیں سے تیغ شکستہ وہ روسیاہ
اور بے خطر جدا کیا لاشہ کا ہاتھ آہ
آیا ازار بند پہ دست یسار شاہ
وہ بھی شقی نے قطع کیا واہ مصیبتا
واحسرتا یہ ظلم وستم دست پاک پر
کیوں گر پڑا نہ پنجہ خورشید خاک پر
لکھا ہے جب ہوئی شہ بے کس پہ یہ جفا
تارے گرے زمیں پہ ہلا عرش کبریا
تھرائے لاشہائے شہیدان کربلا
غل شش جہت میں نالہ ء وفریاد کا ہوا
تا عرش تھی بلند صدا شور وشین کی
اور کانپتی تھی لاش شہ مشرقین کی
مقبول ہے وزیر کہے جا زبان سے
آمین کی آرہی ہے صدا آسمان سے
Wednesday, July 7, 2010
دوسری مجلس ذائقہ ماتم
بقیہ دوسری مجلس
القصہ بنت رسول نے جواب سلام سے لعیا کو شاد فرمایا۔ اس خوش اندام کی شکل و شمائل مشاہدہ فرما کربصد تعجب زبان معجز بیان سےارشاد فرمایا۔کہ اے خواہر میں نے تجھ کو آج تک نہیں دیکھا۔جلد بیان کر کہ تو کس قوم اور قبیلہ سے ہے۔ تیرا نام کیا ہے۔ میرے گھر اس وقت تیرے آنے کا سبب کیا ہے۔یہ سن کر لعیا نے دست بستہ ہو کر عرض کہے۔اور اس کنیز ناچیز کا مع حوران باتمیز دولت سرائے عالی میں حاضر ہونے کا یہ سبب ہے کہ برگزیدہ خدا جو اس وقت آپ کے بطن اقدس سے رونق افزائے گلشن دنیا ہوا چاہتا ہے۔ خالق ارض وسما کے حکم سےاس کی خدمت گزاری اور قابلہ گری پر سرفراز وممتاز ہو کرفیض یاب خدمت عالی ہے۔حضرات یہ سنتے ہی وہ شفعیہ روز جزا نے بسبب بے سرو سامانی شرم وحیا سے اس قدر ملول ومحزون ہوئیں کہ وفور حزن وملال سے قریب تھا کہ چشم ہائے حق بین سےگوہر اشک جاری ہوں۔ بلکہ مرقوم ہے کہ اس روز اس معصومہ دوجہان پر فاقہ تھا۔اور ایک پرانی بوریا کے سوا فرش کچھ بھی نہ تھا۔آپ نے لعیا سے ارشاد فرمایا کہ اے لعیا میں بجز اس پرانے بوریا کے کچھ نہیں رکھتی۔ نظم
سن کے لعیا نے یہ ارشاد جناب زہرا
باندھ کر ہاتھ یہ کی عرض کہ اے نور خدا
آپ کے فرش پر بیٹھوں نہیں مقدور مرا
مجھ سے ہرگز یہ نہ ہوگا یہ نہ ہوگا حاشا
ترک آداب ہے گر پاوں رکھوں میں اس پر
ہاں اجازت ہو تو آنکھوں کو ملوں میں اس پر
یہ جگہ پیٹنے اور رونے کی ہے اہل عزا
پاس ادب یہ لعیا نے کیا زہرا کا
بوریئے پر بھی نہ پاوں کو ادب سے رکھا
مگر امت نے نہ کی قدر نبی وزہرا
ذبح بے جرم وخطا فاطمہ کا لال کیا
مسند احمد مختار کو پامال کیا
ابھی جناب فاطمہ زہرا یہ ارشاد فرمارہی تھیں کہ فورا حکم رب جلیل حضرت جبرائیل کو ہوا کہ نور دیدہ رسول ہماری کنیز خاص بتول لعیا سے فرش نہ ہونے کی معذرت کر رہی ہے۔ اور بوجہ عسرت مخزون وملول ہے۔ اس وقت ہم کو
فاطمہ کی معذرت ناگوار ہے۔ لہذا بہت جلد بہشت عنبر سرشت کے سندس واستبرق کے فرش مع حورا کے لے جا کر خانہ فاطمہ زہرا میں بچھوادے۔ تاکہ شان وبزرگی میری فاطمہ کی لعیا پر ظاہر ہو۔ حضرت جبرائیل نے نظم
حکم یوں خالق کونین کا حورا کو دیا
فرش استبرق وسندس کا شتابی لے جا
مجھ کو اللہ نے یہ حکم دیا ہے حورا
متردد ہے پئے فرش جناب زہرا
اس کو جلدی سے بچھا گھر میں تو اب زہرا کے
ہے وہ مخزون بٹھانے کے لئے لعیا کے
کیوں حضرات خدا وند کریم کو ملال خاطر فاطمہ زہرا کس قدر ناگوار تھا۔آہ واویلا امت جفا کار اسی فاطمہ کی بہووں اور بیٹیوں کو کیسی خواری وذلت سے گرفتار کرکے شام کو لے گئی۔ اور ایسے ویرانے مقام پر محبوس کیا کہ
نظم
خرابہ وخستہ تھا اس درجہ وہ خرابہ شام
نہ سقف اس پہ تھی جز سقف چرخ نیلی فام
سوائے خاک نہ تھا نام کو بھی فرش کا نام
زمیں بھی اس کی تھی پست وبلند ہر یک گام
وہ ایک عرصہ سے مسکن تھا مار وکژوم کا
گزر نہ ہوتا تھا اس سرزمین پہ مردم کا
غرض جبرائیل بحکم رب جلیل مع حورا فرش لائے۔ جس وقت حورا مع فرش دولت سرائے حضرت فاطمہ میں گئی۔ سلام بجا لانے کے بعد فرش کا مقام دریافت کیا۔ جناب فاطمہ نے اس کا نام اور فرش لانے کا سبب پوچھا۔ تو حورا نے خدائے جلیل کے حکم سے اپنا نام اور جبرائیل کی ہمراہی کا حال مفصل عرض کیا۔ جس کو سنتے ہی حضرت فاطمہ نے سجدہ شکر درگاہ معبود میں ادا کرنے کو سر جھکایا۔ابھی سر مبارک سجدے سے نہ اٹھایا تھا کہ حورا نے فرش بچھا کر جناب فاطمہ کا مکان رشک گلزار جناں بنا دیا۔ جس وقت کہ اس مخدومہ کونین نے سجدے سے سر اٹھایا۔ملاحظہ فرمایا کہ تمام گھر فرش سندس واستبرق سے آراستہ ہے۔ اس وقت آپ نے لعیا کو اجازت بیٹھنے کی دی۔اور لعیا سلام بجا لاکر مع گروہ حوران باآداب تمام بیٹھ گی۔ الغرض جس وقت کہ ساعت میلاد جناب امام حسین علیہ سلام قریب پہنچی۔اور صدمہ درد زہ سے چہرہ مبارک جناب فاطمہ کا متغیر ہونے لگا۔حوران بہشتی نے اٹھ کر چاروں طرف بہشتی پردے لٹکا دیئے۔اور سب کی سب کمر بستہ خدمت گزاری کے آمادہ ہوئیں۔
نظم۔
الغرض پیدا ہوئے جس دم شہ گلگوں قبا
ہو گئی پر نور دنیا اور منور ہر سما
باادب آغوش میں لعیا نے مولا کو لیا۔
پیار سے پیشانی پر نور پر بوسہ دیا
بولی صدقے تیرے اے روح روان فاطمہ
تجھ سے حق روشن کرئے نام ونشان فاطمہ
اے میرے آقا مرے مولا امیر مومناں
اے میرے سید میرے سرور شہ ہردوجہان
اے میرے ہادی ،میرے رہبرامام انس وجان
اے قسیم نار وجنت اے شفیع مذنباں
زینت عرش اعلے جان پیمبر السلام
خامس آل عبا دل بند حیدر السلام
کہہ کے یہ پھر بہر غسل سرور عالی جناب
لی اٹھا لعیا نے وہ ابریق نورانی شتاب
سلسبیل وکوثر وتسنیم کا جس میں تھا آب
لا رکھا پھر طشت فردوس بریں با آب وتاب
خوش ہو لعیا غسل جسم پاک کو دینے لگی
آب غسل ہر حور جنت ہاتھ میں لینے لگی۔
جسم شاہ سے جتنا پانی طشت کے اندر گرا
لکھتے ہیں حوروں نے وہ پانی تبرک کر لیا
چشم وپیشانی وعارض پر تفاخر سے ملا
نام کو اس طشت میں پانی نہ اک قطرہ رہا۔
مل کے رخساروں پہ ہر اک حور شاداں ہو گئی
آبرو اس آب سے ان کی فرواں ہو گئی
اس وقت جبرائیل کو خلاق عالم کا یہ حکم ہوا کہ آج تیرے استاد علی ابن ابی طالب کے گھر میں فرزند سعادت مند پیدا ہوا ہے۔ لہذا تجھ کو لازم ہے کہ اپنے سر پر تاج جواہر رکھ اور فرشتوں کی جماعت ساتھ لے کر میرے محبوب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو۔ اور
نظم
کہیو پیغمبر مقبول سے تو بعد سلام
یہ نواسہ ہو مبارک تمہیں اے خیر انام
ہو گا امت پہ تصدق نہیں کچھ اس میں کلام
خونبہا اس کا خلائق کی شفاعت ہے مدام
یہ پسر شاہ شہیداں کا لقب پائے گا
یہی لڑکا تیری امت کو بھی بخشائے گا
جو کہ لیوئے گا بعزت تیرے فرزند کا نام
ہم اسے دیں گے کونین میں توقیر مدام
قبر کہ اس کی کرے گا جو کوئی جھک کے سلام
ہم سلام اس پہ کریں گے بعطا واکرام
اس سید کے الم میں جو کوئی رووئے گا
اس کا اللہ پہ احسان بڑا ہووئے گا
اور کہنا اے نبی مکرم ہم نے اس فرزند کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے۔ یعنی تمہارا جسم مطہر میرے نور سے بنا ہے۔اور تمہارے جسم سے حسین۔لہذا اس کی خاطر داری کرنا سب کو لازم ہے۔ بیت
جس کو شبیر مرا خوب کہے خوب ہے وہ
جو محب اس کا ہے اللہ کا محبوب ہے وہ
خالق کون ومکان کا یہ حکم سنتے ہی جبرائیل امین مراسم تہنیت ادا کرنے کے لیے بصد شوکت وجلالت زمین کی جانب روانہ ہوئے۔اثناء راہ میں فطرس فرشتہ جو مقربان درگاہ الہیٰ سے تھا۔ترک اولیٰ کے سبب برق عتاب الہیٰ سے بال وپر سوختہ راستہ میں پڑا ملا۔ جبرایل کو اس شان سے آتے ہوئے دیکھ کر عجز وانکساری کے ساتھ نظم
کہا اس وقت فرشتہ نے یہ جبریل سے آ
یعنی اے زمزمہ سنج چمن وحی خدا
کیا زمانے میں ہوئی عید نئی ہے برپا
نقش نو یا کوئی نقاش ازل نے کھینچا
وضع دیگر میں زمین وفلک پیر ہے آج
کیا نیا باغ لگانے کی یہ تدبیر ہے آج
اس فرشتہ سے کہا روح امین نے ہنس کر
ایسا مدہوش پڑا ہے کہ نہیں تجھ کو خبر
آج اللہ نے بخشا وہ محمد کو پسر
حشر میں تاج شفاعت وہ رکھے گا سر پر
مرتبہ پایا بڑا اس شہ ذیجاہ نے ہے
تہنیت کے لیے مجھے بھیجا اللہ نے ہے
یہ سن کر شفاعت کی امید میں جبرائیل کی اجازت سے فطرس بھی ہمراہ ہوا۔ الغرض حضرت جبرائیل بصد تعجیل رسول مقبول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور خدائے ذوالکرام کی جانب سے مراسم سلام وتہنیت ادا کرنے کے بعد اپنی طرف سے مبارک باد دی۔اس وقت آپ حضرت امام حسین علیہ سلام کو گود میں لیے ہوئے منہ سے منہ اور سینہ سے سینہ مل کر دم بہدم لحمک لحمی فرماتے
تھے۔
یہ حال دیکھ کر حضرت جبرائیل رونے لگے۔ اور عرض کی یا رسول اللہ اس وقت آپ کا گلے کا چومنا مجھ کو معرکہ کربلا یاد دلاتا ہے۔جناب رسول خدا نے فرمایا کہ اے اخی سچ فرماتے ہو۔ اس گلے کا کٹانا خود میرا حسین روز ازل منظور کر چکا ہے۔ بیت
ہے گلا اس کا بنا تیغ تلے دھرنے کو
پالتا ہوں اسے امت پہ فدا کرنے کو
اس کے بعد حضرت جبرائیل نے فطرس کی سفارش کی۔اور اس کے پر وبال سوختہ ہونے اور اس پر عتاب الہیٰ کا حال گوش گزار کیا۔
اور گزارش کی کہ یہ گنہگار آپ کے آستانہ پر با امید شفاعت آیا ہے۔ کہ شاید جناب حسین علیہ سلام کی ولادت کی خوشی میں اس کی تقصیر معاف ہونے کے واسطے آپ دعا فرمائیں۔ یہ سن کر نظم
اس فرشتہ سے یہ محبوب الہیٰ سے کہا
کرے مس بازوئے شبیر سے بازو اپنا
وہ فرشتہ سخن شاہ سے بہت شاد ہوا
بازوئے پاک سے بازوئے شکستہ کو ملا
سب سے کہتا تھا کہ کیا خوب دوا پائی ہے
دیکھو شبیر کی یہ پہلی مسیحائی ہے
رو بقبلہ ہوئے اس وقت رسول دوسرا
اور شبیر کو ہاتھوں پہ محمد نے لیا
ایک جانب کو بتول ایک طرف شیر خدا
فوج دعا فرماتے تھے۔اور جناب فاطمہ وعلی مرتضیٰ وحسن مجتبیٰ آمین کہہ رہے تھے۔ ناگاہ بہ قدرت الہیٰ جناب امام حسین کی زبان مبارک پر لفظ آمین جاری ہوا۔ یہ امام مظلوم کا پہلا معجزہ تھا۔ کہ روز ولادت کلمہ آمین منہ سے نکلا
معجزہ سے تو یہاں شاہ نے آمین کہا
اور وہاں عرش پہ اللہ نے آمین کہا
قلزم مغفرت رحمت رب اکبر
جوش میں آگئی شبیر کی آمین سن کر
اس فرشتہ کو عنایت کیے اللہ نے پر
فخر کرتا تھا فرشتوں میں وہ نیک سیر
کس کو یہ مالک تقدیر نے رتبہ بخشا
مجھ کو لو حضرت شبیر نے آزاد کیا
نظم
مومنو تم نے سنا وقت ولادت کا یہ حال
تھا ولادت کی گھڑی شاہ کا یہ جاہ وجلال
آہ آہ ہفتم محرم سے وہی شاہزادہ کونین فرزند رسول الثقلین، امام دارین با لب تشنہ وگرسنہ میدان کربلا میں فریاد کرتا تھا۔ اور کوئی اس مظلوم کی گریہ وزاری نہ سنتا تھا۔ بلکہ نظم
روز عاشورہ اسی شہ پر سپاہ اشقیا
صبح سے تا دوپہر کرتی رہی جورو جفا
یارو ہنگام زوال شمس جس دم آگیا
قتل پر سبط نبی کے لشکر ناری جھکا
ہر طرف سے نرغہ احمد کے نواسے پہ کیا
چار سو سے حملہ اس بھوکے پیاسے پر کیا
اس وقت ان ظالمان بے حیا نے اس مظلوم کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔اور نیزہ وشمشیر کا وار کرنے لگے۔تو فوارے خون کے جسم مطہر سے جاری ہوئے۔ مگر آپ نے مطلق خیال نہ کیا۔ آہ جس وقت ایک تیر پیشانی مبارک پر لگا اور خون آنکھوں پر آکے بہا اس وقت، نظم
دامن سے لہو پونچھ رہے تھے شہ دلگیر
جو سینہ اقدس پہ سم آلود لگا آکے تیر
گھوڑے پہ نہ سنبھلا گیا پیدل ہوئے شبیر
اک دوش پہ اک سر پہ لگی ظلم کی شمشیر
تیورائے لہو دیکھ کے پوشاک پہ حضرت
پہلو پہ سناں کھا کے گرے خاک پہ حضرت
تھی سخت جفا فاطمہ کے لال کے تن پر
حربوں سے سوا پڑتے تھے ہر سمت سے پتھر
اک صدر پہ ہیں گھاو سنانوں کے بہتر
کھائے تھے تبر سینکڑوں اور سینکڑوں خنجر
بے حد تھے جو زخم دم شمشیر لگے تھے
بتیس تو سینے پہ فقط تیر لگے تھے۔
زخمی ہوئے یاں تک کہ ہوا حال دگرگوں
سب ڈوب گیا جسم مطہر پہ بہا خون
بدلی جو تڑپ کر وہ جگہ بادل محزون
واں کی بھی زمیں ہوگئی سب خون سے گلگوں
ہے کون جو اس غم کو فراموش کرے گا
اب حشر کے دن پھر وہ لہو جوش کرے گا
ہاں مستعد گریہ وماتم ہوں عزادار
قتل شہ مظلوم کے اب بند ہیں دو چار
لکھا ہے کہ تھے سجدہ حق میں شہ ابرار
مارا کسی ظالم نے تبر فرق پہ یکبار
تربت میں ید اللہ نے کی آہ تڑپ کر
سیدھے ہوئے یاں سید ذی جاہ تڑپ کر
غش تھے کہ گیا قتل کو خولی ستم گر
تھرائے مگر ہاتھ جدا کر نہ سکا سر
پھر آیا سناں ابن انس بھی یونہی جا کر
اس وقت بڑھا شمر لعیں کھینچ کے خنجر
کی دست درازی غضب اس دشمن دیں نے
حضرت کے گریباں پہ رکھا ہاتھ لعیں نے
فرمانے لگے کھول کے آنکھیں شہ ذیجاہ
واقف ہے کہ میں کون ہوں اے ظالم وگمراہ
بولا وہ جفا کار کہ آگاہ ہوں آگاہ
جد آپ کے احمد ہیں پدر ہیں اسد اللہ
لیکن نہ پیمبر سے نہ حیدر سے ڈروں گا
سب روئیں گے یوں آپ کو میں ذبح کروں گا
قاتل لعیں سے کہا شہ نے زباں خشک دکھا کے
پیاسا ہوں میں کر ذبح مجھے پانی پلا کے
اس نے کہا اب پیجیو کوثر ہی پہ جا کے
پھر کچھ نہ کہا شہ نے بجز شکر خدا کے
زہرا کی صدا آئی میں اس یاس کے صدقے
بے کس مرے بچے میں تیری پیاس کے صدقے
واں پیٹتے تھے در پہ حرم با سر عریاں
اور نکلی ہوئی تکتی تھی فضہ سرمیداں
رو کر یہ پکاری وہ کہ اے زینب نالاں
اب تیغ سے کٹتا ہے سر سرور ذیشاں
گھبرا کے وہ دو روز کی پیاسی نکل آئی
پردے سے محمد کی نواسی نکل آئی
اور جناب امام حسین علیہ سلام کو آواز دی۔ کہ اے بھائی جان اگر حکم ہو تو یہ جانثار بہن حاضر ہو کر تن اطہر پر چادر کا سایہ کرے۔اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے بہن اس وقت ہم کو شرمندہ نہ کرو،کہ یہ کفار بد شعار تمہاری آواز کو سنتے ہیں تو میری روح کو صدمہ ہوتا ہے۔ جب تک میرے دم میں دم ہے ۔تم خیمے سے باہر نہ نکلو۔حضرت زینب نے فرمایا کہ اے فضہ یہ آواز تو میرے بھائی کی ہے۔ مگر صورت وشمائل تو نہیں ملتی ہے۔ پس فضہ نے کہا کہ اے شہزادی بیت
شکل پہچانی نہیں جاتی شہ دلگیر کی
تا محاسن خون میں تر ہے شکل شبیر کی
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام درگاہ مالک کونین میں مناجات کر رہے تھے کہ بیت
ہے تجھ سے التجا یہی اس دل ملول کی
امت کو بخش دے میرے نانا رسول کی
عزت بڑھے وزیر کی مطلب حصول ہو
سرکار شہ میں مرا ہدیہ قبول ہو
القصہ بنت رسول نے جواب سلام سے لعیا کو شاد فرمایا۔ اس خوش اندام کی شکل و شمائل مشاہدہ فرما کربصد تعجب زبان معجز بیان سےارشاد فرمایا۔کہ اے خواہر میں نے تجھ کو آج تک نہیں دیکھا۔جلد بیان کر کہ تو کس قوم اور قبیلہ سے ہے۔ تیرا نام کیا ہے۔ میرے گھر اس وقت تیرے آنے کا سبب کیا ہے۔یہ سن کر لعیا نے دست بستہ ہو کر عرض کہے۔اور اس کنیز ناچیز کا مع حوران باتمیز دولت سرائے عالی میں حاضر ہونے کا یہ سبب ہے کہ برگزیدہ خدا جو اس وقت آپ کے بطن اقدس سے رونق افزائے گلشن دنیا ہوا چاہتا ہے۔ خالق ارض وسما کے حکم سےاس کی خدمت گزاری اور قابلہ گری پر سرفراز وممتاز ہو کرفیض یاب خدمت عالی ہے۔حضرات یہ سنتے ہی وہ شفعیہ روز جزا نے بسبب بے سرو سامانی شرم وحیا سے اس قدر ملول ومحزون ہوئیں کہ وفور حزن وملال سے قریب تھا کہ چشم ہائے حق بین سےگوہر اشک جاری ہوں۔ بلکہ مرقوم ہے کہ اس روز اس معصومہ دوجہان پر فاقہ تھا۔اور ایک پرانی بوریا کے سوا فرش کچھ بھی نہ تھا۔آپ نے لعیا سے ارشاد فرمایا کہ اے لعیا میں بجز اس پرانے بوریا کے کچھ نہیں رکھتی۔ نظم
سن کے لعیا نے یہ ارشاد جناب زہرا
باندھ کر ہاتھ یہ کی عرض کہ اے نور خدا
آپ کے فرش پر بیٹھوں نہیں مقدور مرا
مجھ سے ہرگز یہ نہ ہوگا یہ نہ ہوگا حاشا
ترک آداب ہے گر پاوں رکھوں میں اس پر
ہاں اجازت ہو تو آنکھوں کو ملوں میں اس پر
یہ جگہ پیٹنے اور رونے کی ہے اہل عزا
پاس ادب یہ لعیا نے کیا زہرا کا
بوریئے پر بھی نہ پاوں کو ادب سے رکھا
مگر امت نے نہ کی قدر نبی وزہرا
ذبح بے جرم وخطا فاطمہ کا لال کیا
مسند احمد مختار کو پامال کیا
ابھی جناب فاطمہ زہرا یہ ارشاد فرمارہی تھیں کہ فورا حکم رب جلیل حضرت جبرائیل کو ہوا کہ نور دیدہ رسول ہماری کنیز خاص بتول لعیا سے فرش نہ ہونے کی معذرت کر رہی ہے۔ اور بوجہ عسرت مخزون وملول ہے۔ اس وقت ہم کو
فاطمہ کی معذرت ناگوار ہے۔ لہذا بہت جلد بہشت عنبر سرشت کے سندس واستبرق کے فرش مع حورا کے لے جا کر خانہ فاطمہ زہرا میں بچھوادے۔ تاکہ شان وبزرگی میری فاطمہ کی لعیا پر ظاہر ہو۔ حضرت جبرائیل نے نظم
حکم یوں خالق کونین کا حورا کو دیا
فرش استبرق وسندس کا شتابی لے جا
مجھ کو اللہ نے یہ حکم دیا ہے حورا
متردد ہے پئے فرش جناب زہرا
اس کو جلدی سے بچھا گھر میں تو اب زہرا کے
ہے وہ مخزون بٹھانے کے لئے لعیا کے
کیوں حضرات خدا وند کریم کو ملال خاطر فاطمہ زہرا کس قدر ناگوار تھا۔آہ واویلا امت جفا کار اسی فاطمہ کی بہووں اور بیٹیوں کو کیسی خواری وذلت سے گرفتار کرکے شام کو لے گئی۔ اور ایسے ویرانے مقام پر محبوس کیا کہ
نظم
خرابہ وخستہ تھا اس درجہ وہ خرابہ شام
نہ سقف اس پہ تھی جز سقف چرخ نیلی فام
سوائے خاک نہ تھا نام کو بھی فرش کا نام
زمیں بھی اس کی تھی پست وبلند ہر یک گام
وہ ایک عرصہ سے مسکن تھا مار وکژوم کا
گزر نہ ہوتا تھا اس سرزمین پہ مردم کا
غرض جبرائیل بحکم رب جلیل مع حورا فرش لائے۔ جس وقت حورا مع فرش دولت سرائے حضرت فاطمہ میں گئی۔ سلام بجا لانے کے بعد فرش کا مقام دریافت کیا۔ جناب فاطمہ نے اس کا نام اور فرش لانے کا سبب پوچھا۔ تو حورا نے خدائے جلیل کے حکم سے اپنا نام اور جبرائیل کی ہمراہی کا حال مفصل عرض کیا۔ جس کو سنتے ہی حضرت فاطمہ نے سجدہ شکر درگاہ معبود میں ادا کرنے کو سر جھکایا۔ابھی سر مبارک سجدے سے نہ اٹھایا تھا کہ حورا نے فرش بچھا کر جناب فاطمہ کا مکان رشک گلزار جناں بنا دیا۔ جس وقت کہ اس مخدومہ کونین نے سجدے سے سر اٹھایا۔ملاحظہ فرمایا کہ تمام گھر فرش سندس واستبرق سے آراستہ ہے۔ اس وقت آپ نے لعیا کو اجازت بیٹھنے کی دی۔اور لعیا سلام بجا لاکر مع گروہ حوران باآداب تمام بیٹھ گی۔ الغرض جس وقت کہ ساعت میلاد جناب امام حسین علیہ سلام قریب پہنچی۔اور صدمہ درد زہ سے چہرہ مبارک جناب فاطمہ کا متغیر ہونے لگا۔حوران بہشتی نے اٹھ کر چاروں طرف بہشتی پردے لٹکا دیئے۔اور سب کی سب کمر بستہ خدمت گزاری کے آمادہ ہوئیں۔
نظم۔
الغرض پیدا ہوئے جس دم شہ گلگوں قبا
ہو گئی پر نور دنیا اور منور ہر سما
باادب آغوش میں لعیا نے مولا کو لیا۔
پیار سے پیشانی پر نور پر بوسہ دیا
بولی صدقے تیرے اے روح روان فاطمہ
تجھ سے حق روشن کرئے نام ونشان فاطمہ
اے میرے آقا مرے مولا امیر مومناں
اے میرے سید میرے سرور شہ ہردوجہان
اے میرے ہادی ،میرے رہبرامام انس وجان
اے قسیم نار وجنت اے شفیع مذنباں
زینت عرش اعلے جان پیمبر السلام
خامس آل عبا دل بند حیدر السلام
کہہ کے یہ پھر بہر غسل سرور عالی جناب
لی اٹھا لعیا نے وہ ابریق نورانی شتاب
سلسبیل وکوثر وتسنیم کا جس میں تھا آب
لا رکھا پھر طشت فردوس بریں با آب وتاب
خوش ہو لعیا غسل جسم پاک کو دینے لگی
آب غسل ہر حور جنت ہاتھ میں لینے لگی۔
جسم شاہ سے جتنا پانی طشت کے اندر گرا
لکھتے ہیں حوروں نے وہ پانی تبرک کر لیا
چشم وپیشانی وعارض پر تفاخر سے ملا
نام کو اس طشت میں پانی نہ اک قطرہ رہا۔
مل کے رخساروں پہ ہر اک حور شاداں ہو گئی
آبرو اس آب سے ان کی فرواں ہو گئی
اس وقت جبرائیل کو خلاق عالم کا یہ حکم ہوا کہ آج تیرے استاد علی ابن ابی طالب کے گھر میں فرزند سعادت مند پیدا ہوا ہے۔ لہذا تجھ کو لازم ہے کہ اپنے سر پر تاج جواہر رکھ اور فرشتوں کی جماعت ساتھ لے کر میرے محبوب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو۔ اور
نظم
کہیو پیغمبر مقبول سے تو بعد سلام
یہ نواسہ ہو مبارک تمہیں اے خیر انام
ہو گا امت پہ تصدق نہیں کچھ اس میں کلام
خونبہا اس کا خلائق کی شفاعت ہے مدام
یہ پسر شاہ شہیداں کا لقب پائے گا
یہی لڑکا تیری امت کو بھی بخشائے گا
جو کہ لیوئے گا بعزت تیرے فرزند کا نام
ہم اسے دیں گے کونین میں توقیر مدام
قبر کہ اس کی کرے گا جو کوئی جھک کے سلام
ہم سلام اس پہ کریں گے بعطا واکرام
اس سید کے الم میں جو کوئی رووئے گا
اس کا اللہ پہ احسان بڑا ہووئے گا
اور کہنا اے نبی مکرم ہم نے اس فرزند کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے۔ یعنی تمہارا جسم مطہر میرے نور سے بنا ہے۔اور تمہارے جسم سے حسین۔لہذا اس کی خاطر داری کرنا سب کو لازم ہے۔ بیت
جس کو شبیر مرا خوب کہے خوب ہے وہ
جو محب اس کا ہے اللہ کا محبوب ہے وہ
خالق کون ومکان کا یہ حکم سنتے ہی جبرائیل امین مراسم تہنیت ادا کرنے کے لیے بصد شوکت وجلالت زمین کی جانب روانہ ہوئے۔اثناء راہ میں فطرس فرشتہ جو مقربان درگاہ الہیٰ سے تھا۔ترک اولیٰ کے سبب برق عتاب الہیٰ سے بال وپر سوختہ راستہ میں پڑا ملا۔ جبرایل کو اس شان سے آتے ہوئے دیکھ کر عجز وانکساری کے ساتھ نظم
کہا اس وقت فرشتہ نے یہ جبریل سے آ
یعنی اے زمزمہ سنج چمن وحی خدا
کیا زمانے میں ہوئی عید نئی ہے برپا
نقش نو یا کوئی نقاش ازل نے کھینچا
وضع دیگر میں زمین وفلک پیر ہے آج
کیا نیا باغ لگانے کی یہ تدبیر ہے آج
اس فرشتہ سے کہا روح امین نے ہنس کر
ایسا مدہوش پڑا ہے کہ نہیں تجھ کو خبر
آج اللہ نے بخشا وہ محمد کو پسر
حشر میں تاج شفاعت وہ رکھے گا سر پر
مرتبہ پایا بڑا اس شہ ذیجاہ نے ہے
تہنیت کے لیے مجھے بھیجا اللہ نے ہے
یہ سن کر شفاعت کی امید میں جبرائیل کی اجازت سے فطرس بھی ہمراہ ہوا۔ الغرض حضرت جبرائیل بصد تعجیل رسول مقبول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور خدائے ذوالکرام کی جانب سے مراسم سلام وتہنیت ادا کرنے کے بعد اپنی طرف سے مبارک باد دی۔اس وقت آپ حضرت امام حسین علیہ سلام کو گود میں لیے ہوئے منہ سے منہ اور سینہ سے سینہ مل کر دم بہدم لحمک لحمی فرماتے
تھے۔
یہ حال دیکھ کر حضرت جبرائیل رونے لگے۔ اور عرض کی یا رسول اللہ اس وقت آپ کا گلے کا چومنا مجھ کو معرکہ کربلا یاد دلاتا ہے۔جناب رسول خدا نے فرمایا کہ اے اخی سچ فرماتے ہو۔ اس گلے کا کٹانا خود میرا حسین روز ازل منظور کر چکا ہے۔ بیت
ہے گلا اس کا بنا تیغ تلے دھرنے کو
پالتا ہوں اسے امت پہ فدا کرنے کو
اس کے بعد حضرت جبرائیل نے فطرس کی سفارش کی۔اور اس کے پر وبال سوختہ ہونے اور اس پر عتاب الہیٰ کا حال گوش گزار کیا۔
اور گزارش کی کہ یہ گنہگار آپ کے آستانہ پر با امید شفاعت آیا ہے۔ کہ شاید جناب حسین علیہ سلام کی ولادت کی خوشی میں اس کی تقصیر معاف ہونے کے واسطے آپ دعا فرمائیں۔ یہ سن کر نظم
اس فرشتہ سے یہ محبوب الہیٰ سے کہا
کرے مس بازوئے شبیر سے بازو اپنا
وہ فرشتہ سخن شاہ سے بہت شاد ہوا
بازوئے پاک سے بازوئے شکستہ کو ملا
سب سے کہتا تھا کہ کیا خوب دوا پائی ہے
دیکھو شبیر کی یہ پہلی مسیحائی ہے
رو بقبلہ ہوئے اس وقت رسول دوسرا
اور شبیر کو ہاتھوں پہ محمد نے لیا
ایک جانب کو بتول ایک طرف شیر خدا
فوج دعا فرماتے تھے۔اور جناب فاطمہ وعلی مرتضیٰ وحسن مجتبیٰ آمین کہہ رہے تھے۔ ناگاہ بہ قدرت الہیٰ جناب امام حسین کی زبان مبارک پر لفظ آمین جاری ہوا۔ یہ امام مظلوم کا پہلا معجزہ تھا۔ کہ روز ولادت کلمہ آمین منہ سے نکلا
معجزہ سے تو یہاں شاہ نے آمین کہا
اور وہاں عرش پہ اللہ نے آمین کہا
قلزم مغفرت رحمت رب اکبر
جوش میں آگئی شبیر کی آمین سن کر
اس فرشتہ کو عنایت کیے اللہ نے پر
فخر کرتا تھا فرشتوں میں وہ نیک سیر
کس کو یہ مالک تقدیر نے رتبہ بخشا
مجھ کو لو حضرت شبیر نے آزاد کیا
نظم
مومنو تم نے سنا وقت ولادت کا یہ حال
تھا ولادت کی گھڑی شاہ کا یہ جاہ وجلال
آہ آہ ہفتم محرم سے وہی شاہزادہ کونین فرزند رسول الثقلین، امام دارین با لب تشنہ وگرسنہ میدان کربلا میں فریاد کرتا تھا۔ اور کوئی اس مظلوم کی گریہ وزاری نہ سنتا تھا۔ بلکہ نظم
روز عاشورہ اسی شہ پر سپاہ اشقیا
صبح سے تا دوپہر کرتی رہی جورو جفا
یارو ہنگام زوال شمس جس دم آگیا
قتل پر سبط نبی کے لشکر ناری جھکا
ہر طرف سے نرغہ احمد کے نواسے پہ کیا
چار سو سے حملہ اس بھوکے پیاسے پر کیا
اس وقت ان ظالمان بے حیا نے اس مظلوم کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔اور نیزہ وشمشیر کا وار کرنے لگے۔تو فوارے خون کے جسم مطہر سے جاری ہوئے۔ مگر آپ نے مطلق خیال نہ کیا۔ آہ جس وقت ایک تیر پیشانی مبارک پر لگا اور خون آنکھوں پر آکے بہا اس وقت، نظم
دامن سے لہو پونچھ رہے تھے شہ دلگیر
جو سینہ اقدس پہ سم آلود لگا آکے تیر
گھوڑے پہ نہ سنبھلا گیا پیدل ہوئے شبیر
اک دوش پہ اک سر پہ لگی ظلم کی شمشیر
تیورائے لہو دیکھ کے پوشاک پہ حضرت
پہلو پہ سناں کھا کے گرے خاک پہ حضرت
تھی سخت جفا فاطمہ کے لال کے تن پر
حربوں سے سوا پڑتے تھے ہر سمت سے پتھر
اک صدر پہ ہیں گھاو سنانوں کے بہتر
کھائے تھے تبر سینکڑوں اور سینکڑوں خنجر
بے حد تھے جو زخم دم شمشیر لگے تھے
بتیس تو سینے پہ فقط تیر لگے تھے۔
زخمی ہوئے یاں تک کہ ہوا حال دگرگوں
سب ڈوب گیا جسم مطہر پہ بہا خون
بدلی جو تڑپ کر وہ جگہ بادل محزون
واں کی بھی زمیں ہوگئی سب خون سے گلگوں
ہے کون جو اس غم کو فراموش کرے گا
اب حشر کے دن پھر وہ لہو جوش کرے گا
ہاں مستعد گریہ وماتم ہوں عزادار
قتل شہ مظلوم کے اب بند ہیں دو چار
لکھا ہے کہ تھے سجدہ حق میں شہ ابرار
مارا کسی ظالم نے تبر فرق پہ یکبار
تربت میں ید اللہ نے کی آہ تڑپ کر
سیدھے ہوئے یاں سید ذی جاہ تڑپ کر
غش تھے کہ گیا قتل کو خولی ستم گر
تھرائے مگر ہاتھ جدا کر نہ سکا سر
پھر آیا سناں ابن انس بھی یونہی جا کر
اس وقت بڑھا شمر لعیں کھینچ کے خنجر
کی دست درازی غضب اس دشمن دیں نے
حضرت کے گریباں پہ رکھا ہاتھ لعیں نے
فرمانے لگے کھول کے آنکھیں شہ ذیجاہ
واقف ہے کہ میں کون ہوں اے ظالم وگمراہ
بولا وہ جفا کار کہ آگاہ ہوں آگاہ
جد آپ کے احمد ہیں پدر ہیں اسد اللہ
لیکن نہ پیمبر سے نہ حیدر سے ڈروں گا
سب روئیں گے یوں آپ کو میں ذبح کروں گا
قاتل لعیں سے کہا شہ نے زباں خشک دکھا کے
پیاسا ہوں میں کر ذبح مجھے پانی پلا کے
اس نے کہا اب پیجیو کوثر ہی پہ جا کے
پھر کچھ نہ کہا شہ نے بجز شکر خدا کے
زہرا کی صدا آئی میں اس یاس کے صدقے
بے کس مرے بچے میں تیری پیاس کے صدقے
واں پیٹتے تھے در پہ حرم با سر عریاں
اور نکلی ہوئی تکتی تھی فضہ سرمیداں
رو کر یہ پکاری وہ کہ اے زینب نالاں
اب تیغ سے کٹتا ہے سر سرور ذیشاں
گھبرا کے وہ دو روز کی پیاسی نکل آئی
پردے سے محمد کی نواسی نکل آئی
اور جناب امام حسین علیہ سلام کو آواز دی۔ کہ اے بھائی جان اگر حکم ہو تو یہ جانثار بہن حاضر ہو کر تن اطہر پر چادر کا سایہ کرے۔اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے بہن اس وقت ہم کو شرمندہ نہ کرو،کہ یہ کفار بد شعار تمہاری آواز کو سنتے ہیں تو میری روح کو صدمہ ہوتا ہے۔ جب تک میرے دم میں دم ہے ۔تم خیمے سے باہر نہ نکلو۔حضرت زینب نے فرمایا کہ اے فضہ یہ آواز تو میرے بھائی کی ہے۔ مگر صورت وشمائل تو نہیں ملتی ہے۔ پس فضہ نے کہا کہ اے شہزادی بیت
شکل پہچانی نہیں جاتی شہ دلگیر کی
تا محاسن خون میں تر ہے شکل شبیر کی
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام درگاہ مالک کونین میں مناجات کر رہے تھے کہ بیت
ہے تجھ سے التجا یہی اس دل ملول کی
امت کو بخش دے میرے نانا رسول کی
عزت بڑھے وزیر کی مطلب حصول ہو
سرکار شہ میں مرا ہدیہ قبول ہو
دوسری مجلس ذائقہ ماتم
بقیہ دوسری مجلس
القصہ بنت رسول نے جواب سلام سے لعیا کو شاد فرمایا۔ اس خوش اندام کی شکل و شمائل مشاہدہ فرما کربصد تعجب زبان معجز بیان سےارشاد فرمایا۔کہ اے خواہر میں نے تجھ کو آج تک نہیں دیکھا۔جلد بیان کر کہ تو کس قوم اور قبیلہ سے ہے۔ تیرا نام کیا ہے۔ میرے گھر اس وقت تیرے آنے کا سبب کیا ہے۔یہ سن کر لعیا نے دست بستہ ہو کر عرض کہے۔اور اس کنیز ناچیز کا مع حوران باتمیز دولت سرائے عالی میں حاضر ہونے کا یہ سبب ہے کہ برگزیدہ خدا جو اس وقت آپ کے بطن اقدس سے رونق افزائے گلشن دنیا ہوا چاہتا ہے۔ خالق ارض وسما کے حکم سےاس کی خدمت گزاری اور قابلہ گری پر سرفراز وممتاز ہو کرفیض یاب خدمت عالی ہے۔حضرات یہ سنتے ہی وہ شفعیہ روز جزا نے بسبب بے سرو سامانی شرم وحیا سے اس قدر ملول ومحزون ہوئیں کہ وفور حزن وملال سے قریب تھا کہ چشم ہائے حق بین سےگوہر اشک جاری ہوں۔ بلکہ مرقوم ہے کہ اس روز اس معصومہ دوجہان پر فاقہ تھا۔اور ایک پرانی بوریا کے سوا فرش کچھ بھی نہ تھا۔آپ نے لعیا سے ارشاد فرمایا کہ اے لعیا میں بجز اس پرانے بوریا کے کچھ نہیں رکھتی۔ نظم
سن کے لعیا نے یہ ارشاد جناب زہرا
باندھ کر ہاتھ یہ کی عرض کہ اے نور خدا
آپ کے فرش پر بیٹھوں نہیں مقدور مرا
مجھ سے ہرگز یہ نہ ہوگا یہ نہ ہوگا حاشا
ترک آداب ہے گر پاوں رکھوں میں اس پر
ہاں اجازت ہو تو آنکھوں کو ملوں میں اس پر
یہ جگہ پیٹنے اور رونے کی ہے اہل عزا
پاس ادب یہ لعیا نے کیا زہرا کا
بوریئے پر بھی نہ پاوں کو ادب سے رکھا
مگر امت نے نہ کی قدر نبی وزہرا
ذبح بے جرم وخطا فاطمہ کا لال کیا
مسند احمد مختار کو پامال کیا
ابھی جناب فاطمہ زہرا یہ ارشاد فرمارہی تھیں کہ فورا حکم رب جلیل حضرت جبرائیل کو ہوا کہ نور دیدہ رسول ہماری کنیز خاص بتول لعیا سے فرش نہ ہونے کی معذرت کر رہی ہے۔ اور بوجہ عسرت مخزون وملول ہے۔ اس وقت ہم کو
فاطمہ کی معذرت ناگوار ہے۔ لہذا بہت جلد بہشت عنبر سرشت کے سندس واستبرق کے فرش مع حورا کے لے جا کر خانہ فاطمہ زہرا میں بچھوادے۔ تاکہ شان وبزرگی میری فاطمہ کی لعیا پر ظاہر ہو۔ حضرت جبرائیل نے نظم
حکم یوں خالق کونین کا حورا کو دیا
فرش استبرق وسندس کا شتابی لے جا
مجھ کو اللہ نے یہ حکم دیا ہے حورا
متردد ہے پئے فرش جناب زہرا
اس کو جلدی سے بچھا گھر میں تو اب زہرا کے
ہے وہ مخزون بٹھانے کے لئے لعیا کے
کیوں حضرات خدا وند کریم کو ملال خاطر فاطمہ زہرا کس قدر ناگوار تھا۔آہ واویلا امت جفا کار اسی فاطمہ کی بہووں اور بیٹیوں کو کیسی خواری وذلت سے گرفتار کرکے شام کو لے گئی۔ اور ایسے ویرانے مقام پر محبوس کیا کہ
نظم
خرابہ وخستہ تھا اس درجہ وہ خرابہ شام
نہ سقف اس پہ تھی جز سقف چرخ نیلی فام
سوائے خاک نہ تھا نام کو بھی فرش کا نام
زمیں بھی اس کی تھی پست وبلند ہر یک گام
وہ ایک عرصہ سے مسکن تھا مار وکژوم کا
گزر نہ ہوتا تھا اس سرزمین پہ مردم کا
غرض جبرائیل بحکم رب جلیل مع حورا فرش لائے۔ جس وقت حورا مع فرش دولت سرائے حضرت فاطمہ میں گئی۔ سلام بجا لانے کے بعد فرش کا مقام دریافت کیا۔ جناب فاطمہ نے اس کا نام اور فرش لانے کا سبب پوچھا۔ تو حورا نے خدائے جلیل کے حکم سے اپنا نام اور جبرائیل کی ہمراہی کا حال مفصل عرض کیا۔ جس کو سنتے ہی حضرت فاطمہ نے سجدہ شکر درگاہ معبود میں ادا کرنے کو سر جھکایا۔ابھی سر مبارک سجدے سے نہ اٹھایا تھا کہ حورا نے فرش بچھا کر جناب فاطمہ کا مکان رشک گلزار جناں بنا دیا۔ جس وقت کہ اس مخدومہ کونین نے سجدے سے سر اٹھایا۔ملاحظہ فرمایا کہ تمام گھر فرش سندس واستبرق سے آراستہ ہے۔ اس وقت آپ نے لعیا کو اجازت بیٹھنے کی دی۔اور لعیا سلام بجا لاکر مع گروہ حوران باآداب تمام بیٹھ گی۔ الغرض جس وقت کہ ساعت میلاد جناب امام حسین علیہ سلام قریب پہنچی۔اور صدمہ درد زہ سے چہرہ مبارک جناب فاطمہ کا متغیر ہونے لگا۔حوران بہشتی نے اٹھ کر چاروں طرف بہشتی پردے لٹکا دیئے۔اور سب کی سب کمر بستہ خدمت گزاری کے آمادہ ہوئیں۔
نظم۔
الغرض پیدا ہوئے جس دم شہ گلگوں قبا
ہو گئی پر نور دنیا اور منور ہر سما
باادب آغوش میں لعیا نے مولا کو لیا۔
پیار سے پیشانی پر نور پر بوسہ دیا
بولی صدقے تیرے اے روح روان فاطمہ
تجھ سے حق روشن کرئے نام ونشان فاطمہ
اے میرے آقا مرے مولا امیر مومناں
اے میرے سید میرے سرور شہ ہردوجہان
اے میرے ہادی ،میرے رہبرامام انس وجان
اے قسیم نار وجنت اے شفیع مذنباں
زینت عرش اعلے جان پیمبر السلام
خامس آل عبا دل بند حیدر السلام
کہہ کے یہ پھر بہر غسل سرور عالی جناب
لی اٹھا لعیا نے وہ ابریق نورانی شتاب
سلسبیل وکوثر وتسنیم کا جس میں تھا آب
لا رکھا پھر طشت فردوس بریں با آب وتاب
خوش ہو لعیا غسل جسم پاک کو دینے لگی
آب غسل ہر حور جنت ہاتھ میں لینے لگی۔
جسم شاہ سے جتنا پانی طشت کے اندر گرا
لکھتے ہیں حوروں نے وہ پانی تبرک کر لیا
چشم وپیشانی وعارض پر تفاخر سے ملا
نام کو اس طشت میں پانی نہ اک قطرہ رہا۔
مل کے رخساروں پہ ہر اک حور شاداں ہو گئی
آبرو اس آب سے ان کی فرواں ہو گئی
اس وقت جبرائیل کو خلاق عالم کا یہ حکم ہوا کہ آج تیرے استاد علی ابن ابی طالب کے گھر میں فرزند سعادت مند پیدا ہوا ہے۔ لہذا تجھ کو لازم ہے کہ اپنے سر پر تاج جواہر رکھ اور فرشتوں کی جماعت ساتھ لے کر میرے محبوب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو۔ اور
نظم
کہیو پیغمبر مقبول سے تو بعد سلام
یہ نواسہ ہو مبارک تمہیں اے خیر انام
ہو گا امت پہ تصدق نہیں کچھ اس میں کلام
خونبہا اس کا خلائق کی شفاعت ہے مدام
یہ پسر شاہ شہیداں کا لقب پائے گا
یہی لڑکا تیری امت کو بھی بخشائے گا
جو کہ لیوئے گا بعزت تیرے فرزند کا نام
ہم اسے دیں گے کونین میں توقیر مدام
قبر کہ اس کی کرے گا جو کوئی جھک کے سلام
ہم سلام اس پہ کریں گے بعطا واکرام
اس سید کے الم میں جو کوئی رووئے گا
اس کا اللہ پہ احسان بڑا ہووئے گا
اور کہنا اے نبی مکرم ہم نے اس فرزند کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے۔ یعنی تمہارا جسم مطہر میرے نور سے بنا ہے۔اور تمہارے جسم سے حسین۔لہذا اس کی خاطر داری کرنا سب کو لازم ہے۔ بیت
جس کو شبیر مرا خوب کہے خوب ہے وہ
جو محب اس کا ہے اللہ کا محبوب ہے وہ
خالق کون ومکان کا یہ حکم سنتے ہی جبرائیل امین مراسم تہنیت ادا کرنے کے لیے بصد شوکت وجلالت زمین کی جانب روانہ ہوئے۔اثناء راہ میں فطرس فرشتہ جو مقربان درگاہ الہیٰ سے تھا۔ترک اولیٰ کے سبب برق عتاب الہیٰ سے بال وپر سوختہ راستہ میں پڑا ملا۔ جبرایل کو اس شان سے آتے ہوئے دیکھ کر عجز وانکساری کے ساتھ نظم
کہا اس وقت فرشتہ نے یہ جبریل سے آ
یعنی اے زمزمہ سنج چمن وحی خدا
کیا زمانے میں ہوئی عید نئی ہے برپا
نقش نو یا کوئی نقاش ازل نے کھینچا
وضع دیگر میں زمین وفلک پیر ہے آج
کیا نیا باغ لگانے کی یہ تدبیر ہے آج
اس فرشتہ سے کہا روح امین نے ہنس کر
ایسا مدہوش پڑا ہے کہ نہیں تجھ کو خبر
آج اللہ نے بخشا وہ محمد کو پسر
حشر میں تاج شفاعت وہ رکھے گا سر پر
مرتبہ پایا بڑا اس شہ ذیجاہ نے ہے
تہنیت کے لیے مجھے بھیجا اللہ نے ہے
یہ سن کر شفاعت کی امید میں جبرائیل کی اجازت سے فطرس بھی ہمراہ ہوا۔ الغرض حضرت جبرائیل بصد تعجیل رسول مقبول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور خدائے ذوالکرام کی جانب سے مراسم سلام وتہنیت ادا کرنے کے بعد اپنی طرف سے مبارک باد دی۔اس وقت آپ حضرت امام حسین علیہ سلام کو گود میں لیے ہوئے منہ سے منہ اور سینہ سے سینہ مل کر دم بہدم لحمک لحمی فرماتے
تھے۔
یہ حال دیکھ کر حضرت جبرائیل رونے لگے۔ اور عرض کی یا رسول اللہ اس وقت آپ کا گلے کا چومنا مجھ کو معرکہ کربلا یاد دلاتا ہے۔جناب رسول خدا نے فرمایا کہ اے اخی سچ فرماتے ہو۔ اس گلے کا کٹانا خود میرا حسین روز ازل منظور کر چکا ہے۔ بیت
ہے گلا اس کا بنا تیغ تلے دھرنے کو
پالتا ہوں اسے امت پہ فدا کرنے کو
اس کے بعد حضرت جبرائیل نے فطرس کی سفارش کی۔اور اس کے پر وبال سوختہ ہونے اور اس پر عتاب الہیٰ کا حال گوش گزار کیا۔
اور گزارش کی کہ یہ گنہگار آپ کے آستانہ پر با امید شفاعت آیا ہے۔ کہ شاید جناب حسین علیہ سلام کی ولادت کی خوشی میں اس کی تقصیر معاف ہونے کے واسطے آپ دعا فرمائیں۔ یہ سن کر نظم
اس فرشتہ سے یہ محبوب الہیٰ سے کہا
کرے مس بازوئے شبیر سے بازو اپنا
وہ فرشتہ سخن شاہ سے بہت شاد ہوا
بازوئے پاک سے بازوئے شکستہ کو ملا
سب سے کہتا تھا کہ کیا خوب دوا پائی ہے
دیکھو شبیر کی یہ پہلی مسیحائی ہے
رو بقبلہ ہوئے اس وقت رسول دوسرا
اور شبیر کو ہاتھوں پہ محمد نے لیا
ایک جانب کو بتول ایک طرف شیر خدا
فوج دعا فرماتے تھے۔اور جناب فاطمہ وعلی مرتضیٰ وحسن مجتبیٰ آمین کہہ رہے تھے۔ ناگاہ بہ قدرت الہیٰ جناب امام حسین کی زبان مبارک پر لفظ آمین جاری ہوا۔ یہ امام مظلوم کا پہلا معجزہ تھا۔ کہ روز ولادت کلمہ آمین منہ سے نکلا
معجزہ سے تو یہاں شاہ نے آمین کہا
اور وہاں عرش پہ اللہ نے آمین کہا
قلزم مغفرت رحمت رب اکبر
جوش میں آگئی شبیر کی آمین سن کر
اس فرشتہ کو عنایت کیے اللہ نے پر
فخر کرتا تھا فرشتوں میں وہ نیک سیر
کس کو یہ مالک تقدیر نے رتبہ بخشا
مجھ کو لو حضرت شبیر نے آزاد کیا
نظم
مومنو تم نے سنا وقت ولادت کا یہ حال
تھا ولادت کی گھڑی شاہ کا یہ جاہ وجلال
آہ آہ ہفتم محرم سے وہی شاہزادہ کونین فرزند رسول الثقلین، امام دارین با لب تشنہ وگرسنہ میدان کربلا میں فریاد کرتا تھا۔ اور کوئی اس مظلوم کی گریہ وزاری نہ سنتا تھا۔ بلکہ نظم
روز عاشورہ اسی شہ پر سپاہ اشقیا
صبح سے تا دوپہر کرتی رہی جورو جفا
یارو ہنگام زوال شمس جس دم آگیا
قتل پر سبط نبی کے لشکر ناری جھکا
ہر طرف سے نرغہ احمد کے نواسے پہ کیا
چار سو سے حملہ اس بھوکے پیاسے پر کیا
اس وقت ان ظالمان بے حیا نے اس مظلوم کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔اور نیزہ وشمشیر کا وار کرنے لگے۔تو فوارے خون کے جسم مطہر سے جاری ہوئے۔ مگر آپ نے مطلق خیال نہ کیا۔ آہ جس وقت ایک تیر پیشانی مبارک پر لگا اور خون آنکھوں پر آکے بہا اس وقت، نظم
دامن سے لہو پونچھ رہے تھے شہ دلگیر
جو سینہ اقدس پہ سم آلود لگا آکے تیر
گھوڑے پہ نہ سنبھلا گیا پیدل ہوئے شبیر
اک دوش پہ اک سر پہ لگی ظلم کی شمشیر
تیورائے لہو دیکھ کے پوشاک پہ حضرت
پہلو پہ سناں کھا کے گرے خاک پہ حضرت
تھی سخت جفا فاطمہ کے لال کے تن پر
حربوں سے سوا پڑتے تھے ہر سمت سے پتھر
اک صدر پہ ہیں گھاو سنانوں کے بہتر
کھائے تھے تبر سینکڑوں اور سینکڑوں خنجر
بے حد تھے جو زخم دم شمشیر لگے تھے
بتیس تو سینے پہ فقط تیر لگے تھے۔
زخمی ہوئے یاں تک کہ ہوا حال دگرگوں
سب ڈوب گیا جسم مطہر پہ بہا خون
بدلی جو تڑپ کر وہ جگہ بادل محزون
واں کی بھی زمیں ہوگئی سب خون سے گلگوں
ہے کون جو اس غم کو فراموش کرے گا
اب حشر کے دن پھر وہ لہو جوش کرے گا
ہاں مستعد گریہ وماتم ہوں عزادار
قتل شہ مظلوم کے اب بند ہیں دو چار
لکھا ہے کہ تھے سجدہ حق میں شہ ابرار
مارا کسی ظالم نے تبر فرق پہ یکبار
تربت میں ید اللہ نے کی آہ تڑپ کر
سیدھے ہوئے یاں سید ذی جاہ تڑپ کر
غش تھے کہ گیا قتل کو خولی ستم گر
تھرائے مگر ہاتھ جدا کر نہ سکا سر
پھر آیا سناں ابن انس بھی یونہی جا کر
اس وقت بڑھا شمر لعیں کھینچ کے خنجر
کی دست درازی غضب اس دشمن دیں نے
حضرت کے گریباں پہ رکھا ہاتھ لعیں نے
فرمانے لگے کھول کے آنکھیں شہ ذیجاہ
واقف ہے کہ میں کون ہوں اے ظالم وگمراہ
بولا وہ جفا کار کہ آگاہ ہوں آگاہ
جد آپ کے احمد ہیں پدر ہیں اسد اللہ
لیکن نہ پیمبر سے نہ حیدر سے ڈروں گا
سب روئیں گے یوں آپ کو میں ذبح کروں گا
قاتل لعیں سے کہا شہ نے زباں خشک دکھا کے
پیاسا ہوں میں کر ذبح مجھے پانی پلا کے
اس نے کہا اب پیجیو کوثر ہی پہ جا کے
پھر کچھ نہ کہا شہ نے بجز شکر خدا کے
زہرا کی صدا آئی میں اس یاس کے صدقے
بے کس مرے بچے میں تیری پیاس کے صدقے
واں پیٹتے تھے در پہ حرم با سر عریاں
اور نکلی ہوئی تکتی تھی فضہ سرمیداں
رو کر یہ پکاری وہ کہ اے زینب نالاں
اب تیغ سے کٹتا ہے سر سرور ذیشاں
گھبرا کے وہ دو روز کی پیاسی نکل آئی
پردے سے محمد کی نواسی نکل آئی
اور جناب امام حسین علیہ سلام کو آواز دی۔ کہ اے بھائی جان اگر حکم ہو تو یہ جانثار بہن حاضر ہو کر تن اطہر پر چادر کا سایہ کرے۔اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے بہن اس وقت ہم کو شرمندہ نہ کرو،کہ یہ کفار بد شعار تمہاری آواز کو سنتے ہیں تو میری روح کو صدمہ ہوتا ہے۔ جب تک میرے دم میں دم ہے ۔تم خیمے سے باہر نہ نکلو۔حضرت زینب نے فرمایا کہ اے فضہ یہ آواز تو میرے بھائی کی ہے۔ مگر صورت وشمائل تو نہیں ملتی ہے۔ پس فضہ نے کہا کہ اے شہزادی بیت
شکل پہچانی نہیں جاتی شہ دلگیر کی
تا محاسن خون میں تر ہے شکل شبیر کی
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام درگاہ مالک کونین میں مناجات کر رہے تھے کہ بیت
ہے تجھ سے التجا یہی اس دل ملول کی
امت کو بخش دے میرے نانا رسول کی
عزت بڑھے وزیر کی مطلب حصول ہو
سرکار شہ میں مرا ہدیہ قبول ہو
القصہ بنت رسول نے جواب سلام سے لعیا کو شاد فرمایا۔ اس خوش اندام کی شکل و شمائل مشاہدہ فرما کربصد تعجب زبان معجز بیان سےارشاد فرمایا۔کہ اے خواہر میں نے تجھ کو آج تک نہیں دیکھا۔جلد بیان کر کہ تو کس قوم اور قبیلہ سے ہے۔ تیرا نام کیا ہے۔ میرے گھر اس وقت تیرے آنے کا سبب کیا ہے۔یہ سن کر لعیا نے دست بستہ ہو کر عرض کہے۔اور اس کنیز ناچیز کا مع حوران باتمیز دولت سرائے عالی میں حاضر ہونے کا یہ سبب ہے کہ برگزیدہ خدا جو اس وقت آپ کے بطن اقدس سے رونق افزائے گلشن دنیا ہوا چاہتا ہے۔ خالق ارض وسما کے حکم سےاس کی خدمت گزاری اور قابلہ گری پر سرفراز وممتاز ہو کرفیض یاب خدمت عالی ہے۔حضرات یہ سنتے ہی وہ شفعیہ روز جزا نے بسبب بے سرو سامانی شرم وحیا سے اس قدر ملول ومحزون ہوئیں کہ وفور حزن وملال سے قریب تھا کہ چشم ہائے حق بین سےگوہر اشک جاری ہوں۔ بلکہ مرقوم ہے کہ اس روز اس معصومہ دوجہان پر فاقہ تھا۔اور ایک پرانی بوریا کے سوا فرش کچھ بھی نہ تھا۔آپ نے لعیا سے ارشاد فرمایا کہ اے لعیا میں بجز اس پرانے بوریا کے کچھ نہیں رکھتی۔ نظم
سن کے لعیا نے یہ ارشاد جناب زہرا
باندھ کر ہاتھ یہ کی عرض کہ اے نور خدا
آپ کے فرش پر بیٹھوں نہیں مقدور مرا
مجھ سے ہرگز یہ نہ ہوگا یہ نہ ہوگا حاشا
ترک آداب ہے گر پاوں رکھوں میں اس پر
ہاں اجازت ہو تو آنکھوں کو ملوں میں اس پر
یہ جگہ پیٹنے اور رونے کی ہے اہل عزا
پاس ادب یہ لعیا نے کیا زہرا کا
بوریئے پر بھی نہ پاوں کو ادب سے رکھا
مگر امت نے نہ کی قدر نبی وزہرا
ذبح بے جرم وخطا فاطمہ کا لال کیا
مسند احمد مختار کو پامال کیا
ابھی جناب فاطمہ زہرا یہ ارشاد فرمارہی تھیں کہ فورا حکم رب جلیل حضرت جبرائیل کو ہوا کہ نور دیدہ رسول ہماری کنیز خاص بتول لعیا سے فرش نہ ہونے کی معذرت کر رہی ہے۔ اور بوجہ عسرت مخزون وملول ہے۔ اس وقت ہم کو
فاطمہ کی معذرت ناگوار ہے۔ لہذا بہت جلد بہشت عنبر سرشت کے سندس واستبرق کے فرش مع حورا کے لے جا کر خانہ فاطمہ زہرا میں بچھوادے۔ تاکہ شان وبزرگی میری فاطمہ کی لعیا پر ظاہر ہو۔ حضرت جبرائیل نے نظم
حکم یوں خالق کونین کا حورا کو دیا
فرش استبرق وسندس کا شتابی لے جا
مجھ کو اللہ نے یہ حکم دیا ہے حورا
متردد ہے پئے فرش جناب زہرا
اس کو جلدی سے بچھا گھر میں تو اب زہرا کے
ہے وہ مخزون بٹھانے کے لئے لعیا کے
کیوں حضرات خدا وند کریم کو ملال خاطر فاطمہ زہرا کس قدر ناگوار تھا۔آہ واویلا امت جفا کار اسی فاطمہ کی بہووں اور بیٹیوں کو کیسی خواری وذلت سے گرفتار کرکے شام کو لے گئی۔ اور ایسے ویرانے مقام پر محبوس کیا کہ
نظم
خرابہ وخستہ تھا اس درجہ وہ خرابہ شام
نہ سقف اس پہ تھی جز سقف چرخ نیلی فام
سوائے خاک نہ تھا نام کو بھی فرش کا نام
زمیں بھی اس کی تھی پست وبلند ہر یک گام
وہ ایک عرصہ سے مسکن تھا مار وکژوم کا
گزر نہ ہوتا تھا اس سرزمین پہ مردم کا
غرض جبرائیل بحکم رب جلیل مع حورا فرش لائے۔ جس وقت حورا مع فرش دولت سرائے حضرت فاطمہ میں گئی۔ سلام بجا لانے کے بعد فرش کا مقام دریافت کیا۔ جناب فاطمہ نے اس کا نام اور فرش لانے کا سبب پوچھا۔ تو حورا نے خدائے جلیل کے حکم سے اپنا نام اور جبرائیل کی ہمراہی کا حال مفصل عرض کیا۔ جس کو سنتے ہی حضرت فاطمہ نے سجدہ شکر درگاہ معبود میں ادا کرنے کو سر جھکایا۔ابھی سر مبارک سجدے سے نہ اٹھایا تھا کہ حورا نے فرش بچھا کر جناب فاطمہ کا مکان رشک گلزار جناں بنا دیا۔ جس وقت کہ اس مخدومہ کونین نے سجدے سے سر اٹھایا۔ملاحظہ فرمایا کہ تمام گھر فرش سندس واستبرق سے آراستہ ہے۔ اس وقت آپ نے لعیا کو اجازت بیٹھنے کی دی۔اور لعیا سلام بجا لاکر مع گروہ حوران باآداب تمام بیٹھ گی۔ الغرض جس وقت کہ ساعت میلاد جناب امام حسین علیہ سلام قریب پہنچی۔اور صدمہ درد زہ سے چہرہ مبارک جناب فاطمہ کا متغیر ہونے لگا۔حوران بہشتی نے اٹھ کر چاروں طرف بہشتی پردے لٹکا دیئے۔اور سب کی سب کمر بستہ خدمت گزاری کے آمادہ ہوئیں۔
نظم۔
الغرض پیدا ہوئے جس دم شہ گلگوں قبا
ہو گئی پر نور دنیا اور منور ہر سما
باادب آغوش میں لعیا نے مولا کو لیا۔
پیار سے پیشانی پر نور پر بوسہ دیا
بولی صدقے تیرے اے روح روان فاطمہ
تجھ سے حق روشن کرئے نام ونشان فاطمہ
اے میرے آقا مرے مولا امیر مومناں
اے میرے سید میرے سرور شہ ہردوجہان
اے میرے ہادی ،میرے رہبرامام انس وجان
اے قسیم نار وجنت اے شفیع مذنباں
زینت عرش اعلے جان پیمبر السلام
خامس آل عبا دل بند حیدر السلام
کہہ کے یہ پھر بہر غسل سرور عالی جناب
لی اٹھا لعیا نے وہ ابریق نورانی شتاب
سلسبیل وکوثر وتسنیم کا جس میں تھا آب
لا رکھا پھر طشت فردوس بریں با آب وتاب
خوش ہو لعیا غسل جسم پاک کو دینے لگی
آب غسل ہر حور جنت ہاتھ میں لینے لگی۔
جسم شاہ سے جتنا پانی طشت کے اندر گرا
لکھتے ہیں حوروں نے وہ پانی تبرک کر لیا
چشم وپیشانی وعارض پر تفاخر سے ملا
نام کو اس طشت میں پانی نہ اک قطرہ رہا۔
مل کے رخساروں پہ ہر اک حور شاداں ہو گئی
آبرو اس آب سے ان کی فرواں ہو گئی
اس وقت جبرائیل کو خلاق عالم کا یہ حکم ہوا کہ آج تیرے استاد علی ابن ابی طالب کے گھر میں فرزند سعادت مند پیدا ہوا ہے۔ لہذا تجھ کو لازم ہے کہ اپنے سر پر تاج جواہر رکھ اور فرشتوں کی جماعت ساتھ لے کر میرے محبوب محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو۔ اور
نظم
کہیو پیغمبر مقبول سے تو بعد سلام
یہ نواسہ ہو مبارک تمہیں اے خیر انام
ہو گا امت پہ تصدق نہیں کچھ اس میں کلام
خونبہا اس کا خلائق کی شفاعت ہے مدام
یہ پسر شاہ شہیداں کا لقب پائے گا
یہی لڑکا تیری امت کو بھی بخشائے گا
جو کہ لیوئے گا بعزت تیرے فرزند کا نام
ہم اسے دیں گے کونین میں توقیر مدام
قبر کہ اس کی کرے گا جو کوئی جھک کے سلام
ہم سلام اس پہ کریں گے بعطا واکرام
اس سید کے الم میں جو کوئی رووئے گا
اس کا اللہ پہ احسان بڑا ہووئے گا
اور کہنا اے نبی مکرم ہم نے اس فرزند کو اپنے نور سے پیدا کیا ہے۔ یعنی تمہارا جسم مطہر میرے نور سے بنا ہے۔اور تمہارے جسم سے حسین۔لہذا اس کی خاطر داری کرنا سب کو لازم ہے۔ بیت
جس کو شبیر مرا خوب کہے خوب ہے وہ
جو محب اس کا ہے اللہ کا محبوب ہے وہ
خالق کون ومکان کا یہ حکم سنتے ہی جبرائیل امین مراسم تہنیت ادا کرنے کے لیے بصد شوکت وجلالت زمین کی جانب روانہ ہوئے۔اثناء راہ میں فطرس فرشتہ جو مقربان درگاہ الہیٰ سے تھا۔ترک اولیٰ کے سبب برق عتاب الہیٰ سے بال وپر سوختہ راستہ میں پڑا ملا۔ جبرایل کو اس شان سے آتے ہوئے دیکھ کر عجز وانکساری کے ساتھ نظم
کہا اس وقت فرشتہ نے یہ جبریل سے آ
یعنی اے زمزمہ سنج چمن وحی خدا
کیا زمانے میں ہوئی عید نئی ہے برپا
نقش نو یا کوئی نقاش ازل نے کھینچا
وضع دیگر میں زمین وفلک پیر ہے آج
کیا نیا باغ لگانے کی یہ تدبیر ہے آج
اس فرشتہ سے کہا روح امین نے ہنس کر
ایسا مدہوش پڑا ہے کہ نہیں تجھ کو خبر
آج اللہ نے بخشا وہ محمد کو پسر
حشر میں تاج شفاعت وہ رکھے گا سر پر
مرتبہ پایا بڑا اس شہ ذیجاہ نے ہے
تہنیت کے لیے مجھے بھیجا اللہ نے ہے
یہ سن کر شفاعت کی امید میں جبرائیل کی اجازت سے فطرس بھی ہمراہ ہوا۔ الغرض حضرت جبرائیل بصد تعجیل رسول مقبول کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور خدائے ذوالکرام کی جانب سے مراسم سلام وتہنیت ادا کرنے کے بعد اپنی طرف سے مبارک باد دی۔اس وقت آپ حضرت امام حسین علیہ سلام کو گود میں لیے ہوئے منہ سے منہ اور سینہ سے سینہ مل کر دم بہدم لحمک لحمی فرماتے
تھے۔
یہ حال دیکھ کر حضرت جبرائیل رونے لگے۔ اور عرض کی یا رسول اللہ اس وقت آپ کا گلے کا چومنا مجھ کو معرکہ کربلا یاد دلاتا ہے۔جناب رسول خدا نے فرمایا کہ اے اخی سچ فرماتے ہو۔ اس گلے کا کٹانا خود میرا حسین روز ازل منظور کر چکا ہے۔ بیت
ہے گلا اس کا بنا تیغ تلے دھرنے کو
پالتا ہوں اسے امت پہ فدا کرنے کو
اس کے بعد حضرت جبرائیل نے فطرس کی سفارش کی۔اور اس کے پر وبال سوختہ ہونے اور اس پر عتاب الہیٰ کا حال گوش گزار کیا۔
اور گزارش کی کہ یہ گنہگار آپ کے آستانہ پر با امید شفاعت آیا ہے۔ کہ شاید جناب حسین علیہ سلام کی ولادت کی خوشی میں اس کی تقصیر معاف ہونے کے واسطے آپ دعا فرمائیں۔ یہ سن کر نظم
اس فرشتہ سے یہ محبوب الہیٰ سے کہا
کرے مس بازوئے شبیر سے بازو اپنا
وہ فرشتہ سخن شاہ سے بہت شاد ہوا
بازوئے پاک سے بازوئے شکستہ کو ملا
سب سے کہتا تھا کہ کیا خوب دوا پائی ہے
دیکھو شبیر کی یہ پہلی مسیحائی ہے
رو بقبلہ ہوئے اس وقت رسول دوسرا
اور شبیر کو ہاتھوں پہ محمد نے لیا
ایک جانب کو بتول ایک طرف شیر خدا
فوج دعا فرماتے تھے۔اور جناب فاطمہ وعلی مرتضیٰ وحسن مجتبیٰ آمین کہہ رہے تھے۔ ناگاہ بہ قدرت الہیٰ جناب امام حسین کی زبان مبارک پر لفظ آمین جاری ہوا۔ یہ امام مظلوم کا پہلا معجزہ تھا۔ کہ روز ولادت کلمہ آمین منہ سے نکلا
معجزہ سے تو یہاں شاہ نے آمین کہا
اور وہاں عرش پہ اللہ نے آمین کہا
قلزم مغفرت رحمت رب اکبر
جوش میں آگئی شبیر کی آمین سن کر
اس فرشتہ کو عنایت کیے اللہ نے پر
فخر کرتا تھا فرشتوں میں وہ نیک سیر
کس کو یہ مالک تقدیر نے رتبہ بخشا
مجھ کو لو حضرت شبیر نے آزاد کیا
نظم
مومنو تم نے سنا وقت ولادت کا یہ حال
تھا ولادت کی گھڑی شاہ کا یہ جاہ وجلال
آہ آہ ہفتم محرم سے وہی شاہزادہ کونین فرزند رسول الثقلین، امام دارین با لب تشنہ وگرسنہ میدان کربلا میں فریاد کرتا تھا۔ اور کوئی اس مظلوم کی گریہ وزاری نہ سنتا تھا۔ بلکہ نظم
روز عاشورہ اسی شہ پر سپاہ اشقیا
صبح سے تا دوپہر کرتی رہی جورو جفا
یارو ہنگام زوال شمس جس دم آگیا
قتل پر سبط نبی کے لشکر ناری جھکا
ہر طرف سے نرغہ احمد کے نواسے پہ کیا
چار سو سے حملہ اس بھوکے پیاسے پر کیا
اس وقت ان ظالمان بے حیا نے اس مظلوم کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔اور نیزہ وشمشیر کا وار کرنے لگے۔تو فوارے خون کے جسم مطہر سے جاری ہوئے۔ مگر آپ نے مطلق خیال نہ کیا۔ آہ جس وقت ایک تیر پیشانی مبارک پر لگا اور خون آنکھوں پر آکے بہا اس وقت، نظم
دامن سے لہو پونچھ رہے تھے شہ دلگیر
جو سینہ اقدس پہ سم آلود لگا آکے تیر
گھوڑے پہ نہ سنبھلا گیا پیدل ہوئے شبیر
اک دوش پہ اک سر پہ لگی ظلم کی شمشیر
تیورائے لہو دیکھ کے پوشاک پہ حضرت
پہلو پہ سناں کھا کے گرے خاک پہ حضرت
تھی سخت جفا فاطمہ کے لال کے تن پر
حربوں سے سوا پڑتے تھے ہر سمت سے پتھر
اک صدر پہ ہیں گھاو سنانوں کے بہتر
کھائے تھے تبر سینکڑوں اور سینکڑوں خنجر
بے حد تھے جو زخم دم شمشیر لگے تھے
بتیس تو سینے پہ فقط تیر لگے تھے۔
زخمی ہوئے یاں تک کہ ہوا حال دگرگوں
سب ڈوب گیا جسم مطہر پہ بہا خون
بدلی جو تڑپ کر وہ جگہ بادل محزون
واں کی بھی زمیں ہوگئی سب خون سے گلگوں
ہے کون جو اس غم کو فراموش کرے گا
اب حشر کے دن پھر وہ لہو جوش کرے گا
ہاں مستعد گریہ وماتم ہوں عزادار
قتل شہ مظلوم کے اب بند ہیں دو چار
لکھا ہے کہ تھے سجدہ حق میں شہ ابرار
مارا کسی ظالم نے تبر فرق پہ یکبار
تربت میں ید اللہ نے کی آہ تڑپ کر
سیدھے ہوئے یاں سید ذی جاہ تڑپ کر
غش تھے کہ گیا قتل کو خولی ستم گر
تھرائے مگر ہاتھ جدا کر نہ سکا سر
پھر آیا سناں ابن انس بھی یونہی جا کر
اس وقت بڑھا شمر لعیں کھینچ کے خنجر
کی دست درازی غضب اس دشمن دیں نے
حضرت کے گریباں پہ رکھا ہاتھ لعیں نے
فرمانے لگے کھول کے آنکھیں شہ ذیجاہ
واقف ہے کہ میں کون ہوں اے ظالم وگمراہ
بولا وہ جفا کار کہ آگاہ ہوں آگاہ
جد آپ کے احمد ہیں پدر ہیں اسد اللہ
لیکن نہ پیمبر سے نہ حیدر سے ڈروں گا
سب روئیں گے یوں آپ کو میں ذبح کروں گا
قاتل لعیں سے کہا شہ نے زباں خشک دکھا کے
پیاسا ہوں میں کر ذبح مجھے پانی پلا کے
اس نے کہا اب پیجیو کوثر ہی پہ جا کے
پھر کچھ نہ کہا شہ نے بجز شکر خدا کے
زہرا کی صدا آئی میں اس یاس کے صدقے
بے کس مرے بچے میں تیری پیاس کے صدقے
واں پیٹتے تھے در پہ حرم با سر عریاں
اور نکلی ہوئی تکتی تھی فضہ سرمیداں
رو کر یہ پکاری وہ کہ اے زینب نالاں
اب تیغ سے کٹتا ہے سر سرور ذیشاں
گھبرا کے وہ دو روز کی پیاسی نکل آئی
پردے سے محمد کی نواسی نکل آئی
اور جناب امام حسین علیہ سلام کو آواز دی۔ کہ اے بھائی جان اگر حکم ہو تو یہ جانثار بہن حاضر ہو کر تن اطہر پر چادر کا سایہ کرے۔اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے بہن اس وقت ہم کو شرمندہ نہ کرو،کہ یہ کفار بد شعار تمہاری آواز کو سنتے ہیں تو میری روح کو صدمہ ہوتا ہے۔ جب تک میرے دم میں دم ہے ۔تم خیمے سے باہر نہ نکلو۔حضرت زینب نے فرمایا کہ اے فضہ یہ آواز تو میرے بھائی کی ہے۔ مگر صورت وشمائل تو نہیں ملتی ہے۔ پس فضہ نے کہا کہ اے شہزادی بیت
شکل پہچانی نہیں جاتی شہ دلگیر کی
تا محاسن خون میں تر ہے شکل شبیر کی
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام درگاہ مالک کونین میں مناجات کر رہے تھے کہ بیت
ہے تجھ سے التجا یہی اس دل ملول کی
امت کو بخش دے میرے نانا رسول کی
عزت بڑھے وزیر کی مطلب حصول ہو
سرکار شہ میں مرا ہدیہ قبول ہو
Subscribe to:
Posts (Atom)