بارھویں مجلس
حضرت حبیب ابن مظاہر کی شہادت
منظور نظر اس کی مصیبت کا بیاں ہے
جو سن میں مسن اور ارادے میں جواں ہے
شناوران دریائے محبت وبادیہ پیمائے صحرائے مودت اس طرح تحریر کرتے ہیں۔ کہ بروز قیامت خدا وند عالم ہر شخص کی نیکی وبدی دریافت کرکے اپنی قدرت کاملہ سے بقدر اعمال ہر ایک پر احکام جاری کرے گا۔ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا اور سزا ملے گی۔چنانچہ ایک شخص ایسا ہوگا،جس سے تمام عمر میں بجز گناہوں اور افعال قبیح کے کوئی گل نیک نہیں ہوا ہوگا۔ تب فرشتے اس کو دوزخ کی طرف لے جائیں گے۔اسی اثنا میں منادی منجانب پروردگار ندا کرے گا۔ کہ اے فرشتو ابھی ٹھہر جاو،اس کے لے جانے میں جلدی نہ کرو،کیونکہ ایک امانت اس گنہگار کی میرے پاس ہے،وہ اس کو دے دوں،نظم
یہ ماجرائے حشر کتابوں میں ہے لکھا
یہی کہ اک بندہ تہی دست لے لو
دامن در گناہ سے ہو گا بھرا ہوا
ملے گا تب خدا سے اسے اک در بے بہا
فرمان ہوگا معرکہ بعث ونشر میں
ہاں اس کو جا کے بیچ لے بازار حشر میں
پس بحکم آواز غیبی فرشتے رک جائیں گے کہ ناگاہ ایک در بے بہا جس کے نور وضیا سے تمام عرصہ محشر منور ہوگا۔اور آنکھیں تمام اہل محشر کی خیرگی کرنے لگیں گی،اس کو دیا جائے گا۔ وہ موتی ایسا خوشنما،بے بہا اور عمدہ ہوگا کہ تمام خلائق اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ دنیا میں ایسا موتی نہیں دیکھا۔ جس وقت اس بندہ گنہگار کو یہ موتی دیا جائے گا۔ وہ درگاہ رب العالمین میں عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار کہ دنیا میں مجھ سے بجز گناہوں کے کوئی فعل نیک سرزد نہیں ہوا۔ اب روز حساب وکتاب ہے۔ بندہ تیرے عتاب میں گرفتار ہے۔ اس وقت میں عاصی اس مال غیر کو اپنا نہیں کہہ سکتا۔ میں نے ایسا موتی کہاں پایا۔ مگر ہاں تیری ذات عالم الغیب ہے اور تو ہر اک چیز سے واقف اور دانا ہے۔ خدا کی جانب سے ندا آئے گی۔ کہ اے میرے بندے یہ گوہر خاص تیری خاص ملکیت ہے۔ یاد کر کہ عالم حیات ناپائیدار میں کہ ایک روز تو مجلس عزائے حسین دل بند شاہ بدر وحنین میں گیا تھا۔ اور جب ذاکر نے مصائب بیان کیے تو اس وقت تیری آنکھ سے ایک قطرہ اشک جاری ہو کر تیرے رخسار پر آیا۔اس اشک کو ہم نے پسند کرکے مجلس میں متعین فرشتوں کے ذریعے طلب کیا۔اور روز حشر تک امانت رکھا تھا۔ اس کو تمام انبیا اور اوصیا کے پاس لے جا۔وہ جتنی قیمت تجویز کریں ہم تجھ کو دیں گے۔ یہ فرمان سن کر وہ بندہ منسوب اس در نایاب کو لے کر نظماک اک کے پاس تب وہ گنہگار جائے گا
آدم سے تا بہ حضرت خاتم دکھائے گا
قیمت وہ اس گوہر کی کسی سے نہ پائے گا
تب حق قریب پردہ قدرت بلائے گا
آواز آئے گی کہ دررحم وا کیا
لے اس کے بدلے گلشن جنت عطا کیا
خوش خوش گنہگار چلے گا جناں کو تب
آواز دے گا پردہ قدرت سے پھر یہ رب
اصرار اک ذرا بھی جو کرتا تو ہم سے اب
دیتا تجھے خزانہ قدرت میں سب کا سب
کیا جانے تو جو اس کے لیے زیب وزین ہے
موتی نہیں یہ اشک عزائے حسین ہے
الغرض وہ بندہ خنداں وشاداں مع اپنے والدین کے جناب امام حسین کی ہمراہی میں ہوگا۔ کیوں مومنین جائے تامل ہے۔ کہ جب بعوض ایک اشک کے ایسا گنہگار کہ جس سے تمام عمر میں کوئی عمل نیک بجز گناہوں کے نہ ہوا ہو۔ مع اپنے والدین کے بخش دیا جائے گا۔ تو ان لوگوں کا کیا مرتبہ ہوگا جو ایام طفولیت سے نام حسین پہ دل وجان سےقربان رہے۔ اور روز عاشور اپنی جان عزیز فرزند رسول پر نثار کر دے۔ مومنین سمجھے وہ کون شخص تھا سنیئے، نظم
اس خضر بیابانا شہادت کا بیاں ہے
سر سبز فصیحوں میں جو طوطی زباں ہے
اس یوسف شبیر کا رخ سوئے جناں ہے
پس حور ہر اک مثل زلیخا نگراں ہے
مشتاق لقا حضرت محبوب خدا ہیں
کونین حبیب ابن مظاہر پہ فدا ہے
بچپن میں جوگھر سے شاہ دیں کھیلنے آتے
یہ مٹھیوں میں خاک قدم جھک کے اٹھاتے
کچھ آنکھوں میں انگلی کی سلائی سے لگاتے
کچھ خاک کو گلگونہ رخسار بناتے
خاک قدم شاہ پہ قانع وہ جری تھا
صندل تھا یہی سرمہ یہی عطر یہی تھا
الغرض حضرت حبیب ابن مظاہر بچپن سے تا معرکہ کربلا ہمیشہ امام حسین کی خدمت گزاری میں مصروف رہے۔ اور بروز عاشورا جس وقت لشکر کی صفیں آراستہ ہوئیں۔اور دونوں لشکر آپس میں مصروف جدال ہو گئے ۔اور اصحاب امام مظلوم کے ہاتھوں سے اعدائے بد شعار واصل جہنم ہونے لگے۔اس وقت عمر سعد بد نہاد اور شمر ملعون نے نہایت پریشان ہو کر مشورہ کیا کہ ایک دم سے حسین علیہ سلام کے قلیل لشکر پر حملہ کرنا چاہیئے۔ورنہ کسی طرح ان بہادروں پر فتح یاب نہ ہوں گے۔ چنانچہ ان ملعونوں نے ایسا ہی کیا۔ اور تمام اصحاب حسین مظلوم مجروح ہو گئے۔ یہاں تک کہ نماز ظہر کا وقت آگیا۔ اس وقت اصحاب باوفا نے عرض کی کہ اے مولا آج ہم سب شربت شہادت سے سیراب ہوں گے۔تمنا ہے کہ آخری نماز حضرت کے ساتھ ادا کریں۔ تو عین سعادت ہے۔ اس وقت امام مظلوم نے عمر سعد کو پیغام بھیجا کہ اے ابن سعد اگر چہ حرص دینوی شیطان تجھ پر ایسا مسلط ہوا ہے کہ طریقہ اسلام تیرے دل سے بالکل محو ہو گیا ہے۔ مگر یہ وقت نماز ظہر کا ہے ۔جنگ کو موقوف کر،تاکہ ہم نماز ادا کرلیں۔ عمر سعد خاموش رہا،لیکن حصین ابن نمیر ناپاک نے بڑھ کر آواز دی معاذ اللہ منھا کس زبان سے عرض کروں اس ملعون نے کہا کہ اے حسین تم عبث مہلت نماز طلب کرتے ہو،تمہاری نماز ہر گز پیش خدا قبول نہ ہوگی۔اس ناہنجار کا یہ کلام سن کر حضرت حبیب ابن مظاہر کو غصہ آگیا اور فرمایا کہ اے حصین دور ہو خدا تجھ پر لعنت کرے۔ فرزند رسول الثقلین کی نماز تو قبول نہ ہو،اور تجھ ایسے فاسق وفاجراور شراب خور کی نماز قبول ہو گی۔اور امام مظلوم سے عرض کی کہ مولا اجازت دیجیئے کہ اس ملعون کو اس کی زبان درازی کی سزا دوں۔ اب یہ نماز آپ کے جد نامدار کے ساتھ ادا کروں گا۔ جب امام حسین نے دیکھا کہ حبیب ابن مظاہر رحمہ اللہ عازم جنگ ہیں۔اس وقت نظم
شبیر نے حبیب ابن مظاہر سے یوں کہا
لڑنے کو تو نہ جا کہ بڑھاپا ہے اب ترا
رو کر کہا حبیب نے کہ اے جان مرتضیٰ
بندہ ہزار جان سے ہو آپ پہ فدا
ہر چند پیر خستہ دل و ناتواں شدم
ہر گہہ خیال روئے تو کردم جواں شدم
ہر چند امام حسین علیہ سلام نے ان کی ضعیفی کا خیال کرکے روکنا چاہا،مگر وہ جان نثار شوق شہادت میں یہی عرض کرتا تھا۔ بیت
پیری میں گل زخم سے ہے حسن بدن کا
ہنگام سحر لطف ہے گلگشت چمن کا
آخر کار آنحضرت نے حبیب ابن مظاہر کو ناچار ہو کر اجازت کار زار دے دی۔اور وہ دیندار مثل شیر غضبناک لشکر کفار کی جانب چلا۔ نظم
ہاں مومنو اب غلغلہ صلی علے ہو
ہاں دوستو آواز تحسین ثنا ہو
شبیر کے فدیہ کے تجمل پہ فدا ہو
اس چہرہ روشن سے طلب گار ضیا ہو
تیار ہیں اعدا کے زد وکشت کے اوپر
توفیق جلو میں ہے خدا پشت کے اوپر
کیا چرخ چہارم ہے یہ پیشانی زیبا
سجدے کا نشاں صورت خورشید ہے پیدا
ابرو پہ سر چشم یہ مردم کا ہے دعوے
لو گرم مہہ نو نے کیا پہلوئے عیسیٰ
اک جلوہ جو بخشیں نظر مہر اثر کا
کھودیں یرقاں مہر کا اور جرم قمر کا
الغرض جب لشکر کفار کے مقابل تشریف لائے، نظم
غازی نے عناں روک کے ہر سمت نظر کی
اور قبل رجز خشک زباں شکر سے تر کی
فرمایا جدائی ہو مبارک تن وسر کی
ہے دھاک شجاعوں میں مرے جد وپدر کی
ہاں یاد رہے زور شجاعان سلف ہوں
بچپن سے غلام پسر شاہ نجف ہوں
اس کعبہ کا حاجی ہوں گراتے ہو جسے تم
اس آیہ کا حافظ ہوں مٹاتے ہو جسے تم
اس چاند کا ہالہ ہوں چھپاتے ہو جسے تم
اس کلمہ کا شاہد ہوں بھلاتے ہو جسے تم
اس گل کا میں بلبل ہوں جسے خوں میں بھرو گے
اس شمع کا پروانہ ہوں گل جس کو کروگے
یہ سن کر حصین ملعون لشکر کفار سے نکل کر مقابلہ کو تیار ہوا۔ حضرت حبیب ابن مظاہر نے تلوار آبدار کا وار کیا۔ پھر ایسا نیزہ اس کے سینہ پر کینہ پر مارا کہ پشت زین سے زمین پر گر پڑا۔اس کے لشکر والے دوڑ کر اس کی مدد کو آئے اور اس کو اٹھا لے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ ملعون آپ کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکا۔اور بھاگ کر لشکر میں چھپ گیا۔ الغرض حبیب ابن مظاہر نے ایسی جنگ کی کہ ایک سو ساٹھ اشقیا کو واصل جہنم کیا۔اور آپ بھی بہت زخمی ہو گئے۔ پھر ایک مرتبہ امام کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوئے۔اسی اثناء میں ایک غلغلہ خیمہ اطہر سے واعطشا کا بلند ہوا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ جناب علی اصغرشدت تشنگی سے بے چین ہیں۔وہ امام مظلوم سے دوبارہ رخصت ہو کر میدان کارزار میں تشریف لائے۔اور فرمایا کہ اے ظالمو اگر چہ تم نے نواسہ رسول حسین مظلوم پر ظلم وستم میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ لیکن ننھے ننھے بچوں نے کیا خطا کی ہےکہ ان پر ایسے مظالم جائز سمجھتے ہو۔ان معصوم بچوں کے لئے تھوڑا پانی دے دو، نظم
لو فاطمہ زہرا کو تو مرقد سے نکالا
کچھ سنتے ہو مقتل میں کھڑی کرتی ہیں نالا
اس تیسرے فاقے میں بھی خوش ہیں شہ والا
پر مرتا ہے بانو کا پسر ہنسلیوں والا
سیدانیوں کو پاس سے جھولے کے ہٹا دو
پانی تمہیں جا کر علی اصغر کو پلا دو
اعدا نے کہا خوب سی ذلت یہ اٹھائیں
جائیں وہاں اور پانی بھی اصغر کو پلائیں
مرضی ہو تو سر کاٹ کے ننھا سے لے آئیں
اور سامنے شبیر کے نیزہ پہ چڑھائیں
دیکھو تو سہی وقت اب آتا ہے غضب کا
ہم تیسرے فاقے میں گلا کاٹیں گے سب کا
شبیر نے پیری میں تمہیں مرنے کو بھیجا
اکبر کی جوانی پہ دکھا ان کا کلیجہ
کیا پیر کا سر کاٹنا اے شیخ پلٹ جا
غصہ سے کہا شیر نے کیا بکتے ہو بے جا
بالفرض میں کمزور ہوں پیری کے سبب سے
شبیر میرا پیر زبردست ہے سب سے
ہمت میں نہ تم لاکھ جواں اور نہ میں اک پیر
قامت ہے کماں پر میں صف جنگ میں ہوں تیر
تم لوگ ہو بے پیر مرید زر وجاگیر
میں قائل حق متعقد حضرت شبیر
ہر پیر وجواں صاحب توقیر ہے ان کا
نو پشت کا خادم فلک پیر ہے ان کا
وہ پیر ہوںتیغ وسناں جس کا عصا ہے
ہے خضر بھی تو پیر ہی پر مرتبہ کیا ہے
شبیر پہ یہ پیر غلام آج فدا ہے
پیروں سے تمہیں شرم نہیں حق کو حیا ہے
پیری ہے وہ دولت کہ کفن زیب بدن ہو
ہر موئے سفید اپنے لئے تار کفن ہو
قد خم ہے تو ہوعقل تو کج میری نہیں ہے
جھکنے سے ہی روشن بخدا نام نگیں ہے
پنہاں جو زمیں میں بنی عرش نشیں ہے
اس وجہ سے مائل مرا سر سوئے زمیں ہے
قرآن واحادیث رقم کچھ بھی نہ ہووئے
خم ہو جو نہ کاغذ پہ قلم کچھ بھی نہ ہووئے
جھکنا شرفا کا ہے تقاضائے شرافت
جھکنے ہی سے افلاک کو حاصل ہوئی رفعت
خم ہونے سے محراب بنی جائے عبادت
شاہد ہے رکوع اس سے کہ جھکنا ہے عبادت
ڈرتے نہیں تم قد خمیدہ سے عجب ہے
جو تیغ کہ خمدار ہے کاٹ اس کی غضب ہے
جناب حبیب ابن مظاہر کا یہ ارشاد سن کر اشقیا جمع ہوئے۔ اس بوڑھے مجاہد نے پھر اس پر حملہ کیا۔ اور اشقیا کے سو سوار قتل کیے۔اسی اثناء میں ایک تیر لشکر بے پیر سے آکر اس ضعیف کے جسم مجروح پہ لگا۔جس کے صدمے سے آپ گھوڑے سے زمین پر گر پڑے۔ادھر امام حسین علیہ سلام کو حبیب ابن مظاہر نظر نہ آئے تو نہایت اضطراب میں حضرت عباس سے فرمایا۔بھیا تم ذرا بڑھ کر دیکھو میرا حبیب کہاں ہے۔ بیت
دیکھو ادھر آتا ہے کہ لڑتا ہے وہ غازی
یا ایڑیاں مقتل میں رگڑتا ہے وہ غازی
کہ اسی عرصہ میں
ڈیوڑھی سے پیمبر کی نواسی نے پکارا
میں غش میں تھی جو آئی یہ آواز قضا را
اعدا نے مرے لال کے غم خوار کو مارا
اے بھائی رفیق آپ کا دنیا سے سدھارا
خون آپ کے بچپن کے مصاحب کا بہا ہے
دم بھرتا تھا جو شہ کا وہ دم توڑرہا ہے
سر پیٹ کے حضرت نے کیا چاک گریبان
سیدانیاں تھیں درپہ کہا ان سے یہ اس آن
کیوں فاطمہ کی بیٹیوں کرتی ہو کچھ احسان
احسان یہی ہے کہ عزا کا کرو سامان
فدیہ میرا بے کس ہے آوارہ وطن ہے
یاں اس کی نہ بیٹی ہے نہ ماں ہے نہ بہن ہے
اہل حرم سے یہ فرما کرجناب امام حسین علیہ سلام بنفس نفیس مع حضرت عباس وحضرت علی اکبر کے روتے ہوئے حبیب ابن مظاہر کے قریب پہنچے۔ اس وقت وہ شہدائے امام کون ومکان عالم احتضار میں خاک پر ایڑیاں رگڑتا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر جناب امام حسین علیہ سلام بے تاب ہو گئے۔ بیت
اشک آنکھوں سے جاری ہوئے اور آہ جگر سے
غم خوار سے یوں لپٹے پدر جیسے پسر سے
نظم
ملتے تھے دہن سے دہن اور کہتے تھے بولو
اے میرے اویس قرنی آنکھوں کو کھولو
دم توڑیو پھر ہم سے بغل گیر تو ہو لو
باہیں میری گردن میں ذرا ڈال کے رو لو
آخر ہمیں بے دم کیا دوری کے الم سے
بچپن میں اسی واسطے کیا کھیلے تھے ہم سے
دنیا سے روانہ ہوا آخر وہ نمازی
بخشا ارم اللہ نے کی بندہ نوازی
رو رو کے بیاں کرتے تھے یہ شاہ حجازی
ہے ہے مرا زاہد میرا عابد مرا غازی
جو خاص ہیں مرے وہ قضا کرتے ہیں ہے ہے
جن سے ہے مزہ جینے کا وہ مرتے ہیں ہے ہے
ہے ہے مرا غم خوار حبیب ابن مظاہر
سید کے طرف دار حبیب ابن مظاہر
بچپن کا مرا یار حبیب ابن مظاہر
بے کس کا مددگار حبیب ابن مظاہر
واللہ یہ اک شیر تھا شیران خدا سے
آفت سے بچاتا تھا ہمیں اہل جفا سے
لکھا ہے کہ فارغ جو ہوئے رونے سے سرور
لاشے کو رکھا لا کے شہیدوں کے برابر
تھا لشکر ظالم میں حصین ایک ستم گر
اس لاشہ بے جاں کا کیا اس نے قلم سر
تا شام رہا منتظر وقت وہ رن میں
یاں تک کہ جدائی ہوئی شاہ کے سرو تن میں
پھر بعد شہادت امام حسین علیہ سلام جب لشکریزید پلید اہل بیت اطہار کو سربرہنہ شتر ہائے بے کجاوہ پر سوار کرکے راہی شام ہوئے۔اس وقت حصین ملعون نے سر مبارک حبیب رحمتہ اللہ علیہ کا اپنےگھوڑے کی گردن میں لٹکایا،اور باقی سروں کو اشقیا نے نیزوں پر چڑھایا۔ اور اسی طرح وارد بازار کوفہ ہوئے۔ جب وہ لشکر مع سر ہائے شہدا کربلا اور اہل بیت بے ردا کے محلہ یمنی میں پہنچاا نظم
اک غول میں کیا دیکھتی ہے زینب نالاں
اک طفل ہے پھاڑے ہوئے ننھا سا گریبان
روتا ہے یتیموں کی طرح با سر عریاں
کچھ ڈھونڈتا پھرتا ہے ہر اک سمت وہ ناداں
جو پوچھتا ہے منہ پہ یہ کیوں خاک ملی ہے
کہتا ہے چھری حلق پہ سید کے چلی ہے
خدمت میں انہی کے میرے بابا ہیں سدھارے
کیا جانے پھرے یا گئے کوثر کے کنارے
اماں کے سوا کوئی نہیں سر پہ ہمارے
زینب نے صدا دی کوئی اس پر مجھے وارے
مظلوم کا بے کس کا مسافر کا پسر ہے
لوگو یہ حبیب ابن مظاہر کا پسر ہے
ناگاہ اس طفل کو ایک سر گردن رہوار میں بندھا ہوا نظر آیا۔ جو کئی مرتبہ گردن اسپ سے گر پڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سر اطہر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔اس معصوم نے رو کر کہا اے سر تیرا رونا مجھ کو بے تاب کرتا ہے۔ برائے خدا سچ بتا۔نظم
بے جا ترا رونا نہ تڑپنا میرے جی کا
تو سر میرے بابا کا ہے یا اور کسی کا
اے سر تجھے کیوں گردن رہوار میں باندھا
کیا نیزے کے قابل بھی نہ سمجھے تجھے اعدا
شبیر کا سر ہو تو بجا لاوں میں مجرا
زینب نے ندا دی کہ تجھے صبر دے مولا
وہ نیزے پہ اسوار سکینہ کا پدر ہے
بن باپ کے بچے یہ تیرے باپ کا سر ہے
نیزے کی سواری جو نہ پائی تو نہ پائی
ممتاز تہہ عرش ہیں حضرت کے فدائی
چلتی تیرے گھر پرسےکو میں غم کی ستائی
پر جاتی ہوں زنداں میں پیمبر کی دہائی
جیتی ہوں گر شام سے یاں آوں گی پیارے
رنڈسالہ تیری ماں کو میں پہناوں گے پیارے
یہ سنتے ہی آنکھوں سے نہ پھر کچھ نظر آیا
اک سنگ اٹھا کر سر ظالم پہ لگایا
اور باپ کا سر کھول کے کرتے میں چھپایا
عابد کو سکینہ نے تڑپ کر یہ سنایا
مجھ کو بھی یونہی قبلہ وکعبہ سے ملادو
اچھے میرے بھیا مجھے سر بابا کا لادو
ہم کوئی نہیں غیر سر شہ کے ہیں مختار
ہر بار چڑھاتے ہیں اسے نیزے پہ خونخوار
ہم دیکھ بھی سکتے نہیں ایسے گنہگار
کیا شاد ہے سر باپ کا لے کر یہ خوش اطوار
یا تو مجھے ظالم سر شاہ شہدا دے
یا میرا بھی سر کاٹ کے نیزے پہ چڑھا دے
ناگاہ سر اس بچے سے لینے لگے بد ذات
زلفوں کو کوئی کھینچتا تھا اور کوئی ہاتھ
مچھلی کی طرح لوٹتا پھرتا تھا وہ ہیہات
اور بہر کمک دیکھتا تھا جانب سادات
کاہے کویہ ایذائیں غربیوں نے سہی تھیں
اونٹوں پہ بندھے ہاتھوں سے سر پیٹ رہی تھی
اس طرف اہل حرم ناچار سر پیٹ رہے تھے۔ اور اس طرف اشقیا ناہنجار نے اس معصوم سے حبیب کا سر لے لیا۔اور وہ روتا پیٹتا رہ گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
صدقہ حبیب اپنے کا یا شاہ کربلا
اب ہند سے وزیر کو روضے پہ لو بلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھا۔
کلثوم پکاری کہ میرے جان برادر
اس چہرہ انور کے میں قربان برادر
Thursday, September 23, 2010
Thursday, September 2, 2010
گیارہویں مجلس حضرت حر ان کے بھائی اور غلام کی شہادت
گیارہویں مجلس حضرت حر ان کے بھائی اور غلام کی شہادت
کوئی مظلوم پہ اب رحم نہیں کھاتا ہے
رن سے امداد کو شبیر کی حر آتا ہے
سبحان اللہ کیا بندہ پروری ہے خدا وند عالم کی کہ ہم ایسے گنہگاروں کی نجات کے لئے کیسے کیسے وسیلے مقرر کیے ہیں۔اگر بندہ ذرا بھی اس کی جانب رجوع ہوتا ہے۔ تو وہ معبود حقیقی جس کا نام ستار العیوب ہے۔ اس کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جس وقت حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلواة والسلام بوجہ ترک اولی یعنی درخت ممنوعہ سے کھانے کی وجہ سےبہشت عنبر سرشت سے روئے زمین پر بھیجے گئے۔ اور فراق حضرت حوا میں مبتلا ہو کر مدتوں رویا کیے۔ آخر جب بواسطہ رسول مقبول وآئمہ اطہار دعا کرنا شروع کی۔ تو حضرت حوا علیہ سلام سے ملاقات ہوئی۔ اور آپ کے اولاد ہونا شروع ہوئی۔ اور آپ کو معلوم ہوا کہ اب رب کریم کی عنایات عمیم ہے۔ اور میری اولاد سے دنیا قائم ہو گی۔ اس وقت آپ نے رونا شروع کیا۔ پس حضرت جبرائیل علیہ سلام نازل ہوئے اور بعد سلام کے دریافت کیا کہ اے آدم یہ محل خوشی کا ہے۔ نہ رونے کا۔ آپ نے جواب دیااے جبرائیل میں اس واسطے روتا ہوں۔کہ جس وقت میرا جسم نور سے منور تھا۔اس وقت ابلیس نے مجھے دھوکا دیا۔اور مجھ سے ترک اولیٰ واقع ہوا۔جس کے باعث مورد عتاب الہیٰ ہوا۔ لیکن میری اولاد جن کی پرورش مٹی، پانی، آگ اور ہوا سے ہے۔ یہ تو بدرجہ غایت اس ملعون کے بہکانے سے گناہوں کی مرتکب ہو ں گی۔ اور ان کی عمریں بھی تھوڑی تھوڑی سی ہوں گی۔ سور اس قلیل عمر میں ان کو کامل تجربہ بھی نہ ہو سکے گا۔ اور اس دار فنا سے گناہوں کا بار لیے ہوئے جائیں گے۔کیونکہ ابلیس قیامت تک میری اولاد پر مسلط رہے گا۔ یہ ہے وہ غم جو خوشی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یہ سن کر حضرت جبرائیل نے بحکم رب جلیل کہا کہ اے آدم خدا وند عالمیان فرماتا ہے کہ تیری اولاد سے کوئی گنہگار توبہ کرے گا تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے۔ یہ سن کر حضرت آدم خوش ہو گئے،اور فرمایا کہ اب مجھے اطمینان ہوا۔ لہذا مومنین ہمیں لازم ہے کہ ہر وقت درگاہ خدا میں استغفار کرتے رہیں۔ امید ہے کیسا ہی گنہگار ہو۔ وہ مالک دوجہان اپنے رحم وکرم سے بخش دے گا۔ چنانچہ ایک ایسے گنہگار کے حالات عرض کرتا ہوں۔جس کی بخشش کی امید نہ تھی۔ اور توبہ کرنے اور گناہ اور اعتراف قصور کے سبب جہنم کی طرف جاتا ہوا بہشت بریں کی طرف بھیج دیا گیا۔ وہ گنہگار کون تھا۔ مومنین پر ظاہر ہے۔ جس وقت ابو عبد اللہ الحسین مدینہ منورہ سے سمت کربلا روانہ ہو کر منزل زبالہ میں پہنچے۔اور خبر شہادت حضرت مسلم معلوم ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ اہل کوفہ پر دغا ہیں۔ اور اپنے ہمراہیوں سے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ میرے شیعہ ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ وہ منحرف ہو گئے ہیں۔ اب تم لوگ جہاں چاہو چلے جاو۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ بہت سے ہمراہی اس مظلوم کے جو بغرض حصول دنیا آئے تھے۔ چلے گئے۔ صرف چند اصحاب باوفا جن کا نام محضر شہادت میں درج تھا۔ آپ کے ہمراہ رہ گئے۔ادھر ابن زیاد لعین بد نہاد کو معلوم ہوا کہ امام حسین عازم کوفہ ہیں۔تو اس نے ہزار سوار حر کے ہمراہ روانہ کرکے تاکید کی کہ حسین کو گھیر کر ایسے جنگل میں لے جا کہ جہاں پر سایہ درخت کا نہ ملے۔ اور مجھے خبر دے۔ چنانچہ بموجب حکم ابن زیاد بد نہاد حر مع سواروں کے روانہ ہوئے۔ نظم
اس دن
مسافروں کی جو منزل کا تھا مقام
قصر بنی مقاتل اسے کہتے ہیں عوام
اترے وہاں امام دو عالم قریب شام
کچھ ہٹ کے فوج حر بھی فروکش ہوئی تمام
راحت نہ پائی فاطمہ کے نور عین نے
پچھلے پہر کو کوچ کیا پھر حسین نے
کیوں حضرات حر کا گناہ اس سے زیادہ اور کیا ہوگا ،کہ مظلوم کربلا کو گھیر کر لے جانے کا باعث ہوئے۔مگر انجام توبہ کرکے جناب امام حسین علیہ سلام کی مدد کرنے کے سبب سے جو کچھ ہوا،مومنین پر ظاہر ہے۔ نظم
تائب ہوا حر تو باغ رضواں پایا
گمراہ تھا شب کو صبح کو ایماں پایا
حضرت کے لئے جو گنج وزر کو چھوڑا
جب قتل ہوا گنج شہداں پایا
الغرض جب قصر بنی مقاتل سے امام علیہ سلام نے کوچ فرمایا،اس وقت نظم
آنے لگی امام کو ہاتف کی یہ صدا
منزل بھی اب قریب ہے اے کل کے مقتدا
رستہ ہوا تمام سفر ختم ہو چکا
مقتل کے متصل تجھے لائی تیری قضا
خنجر سے یاں دہم کو کٹے گا گلو تیرا
آیا وہ دشت جس میں بہے گا لہو تیرا
جناب امام حسین علیہ سلام یہ آواز سنتے جاتے تھے۔ کہ وقت صبح قریب آیا۔ آپ نے گھوڑے سے اتر کر نماز ادا فرمائی۔اور سوار ہو کر آگے روانہ ہوئے۔ جس وقت اس مقام پر پہنچے جسے کربلا کہتے ہیں ۔بیت
رتبہ پہ اپنے فخر کیا ارض پاک نے
گھوڑے کے پاوں تھام لیے واں کی خاک نے
دریافت سے جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ زمین نینوا ہے۔ تو ہمراہیوں سے ارشاد فرمایا ۔ نظم
ہاں سالکان راہ خدا روک لو فرس
آپہنچا ابن فاطمہ مقتل پہ اپنے بس
خیمہ بپا کرو اسی صحرا میں پیش وپس
تھی مجھ کو بچپنے سے اسی خاک کی ہوس
چھوڑا وطن کو اب نہیں بستی بسائیں گے
ہر جا سے لوگ یاں کی زیارت کو آئیں گے
امام کا یہ ارشاد سنتے ہی ہر ایک سوار نے گھوڑوں کو روک لیا۔ اس دشت پر آشوب کی وحشت دیکھ کر حضرت زینب بے تاب ہو گئیں۔اور فرمانے لگیں کہ اے بھائی یہ جنگل مجھے خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ کانوں میں گریہ وبکا کی آوازیں آرہی ہیں۔ بہتر ہے کہ یہاں سے کوس دو کوس دور مقام فرمائیں۔ نظم
بولے قریب آکے یہ شبیر خوش خصال
بڑھنا اب اس زمین سے بہن ہے بہت محال
ہر چند یہ زمیں ہے مقام غم وملال
لیکن یہیں رہے گا رسول خدا کا لال
روو نہ تم کہ پاک ومطہر زمین ہے
ہم جس کو ڈھونڈتے تھے وہی سرزمین ہے
الغرض بحکم امام دارین خیمے برپا ہوئے۔ اور اصحاب وانصار جا بجا فروکش ہوئے۔ یہ ماجرا اکثر مورخین نے دوسری تاریخ کا لکھا ہے۔ اور تیسری تاریخ سے فوج یزید پلید کا آنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ تاریخ ہفتم سے فوج یزید لعین نے دریائے فرات پر پہرے بٹھا دیئے۔ اور امام کے خیموں میں پانی کا جانا بند کر دیا۔ آٹھویں تاریخ بھی اسی عالم تشنگی میں گزر گئی۔ راوی لکھتا ہے ۔نظم
روز نہم سکینہ کو تھا سخت اضطراب
بےدم تڑپ کے خاک پہ کہتی تھی آب آب
اصغر کو فرط غش سے ہمکنے کی تھی نہ تاب
پانی تھا غم سے خون جگر بند بوتراب
کچھ منہ سے غیر شکر خدا کہہ نہ سکتے تھے
پیاسے صغیر آنکھوں کے آگے سسکتے تھے
آخر ہوا وہ دن بھی اور آئی دہم کی رات
وہ رات صبح حشر کو جس نے کیا تھا مات
بزم عزا تھا خانہ سردار کائنات
تھے آپ محو طاعت معبود پاک ذات
اشکوں سے چادروں کو بھگوتے تھے اہل بیت
منہ اپنا ڈھانپ ڈھانپ کے روتے تھے اہل بیت
جناب زینب صحن خیمہ میں سر برہنہ دعا فرماتی تھیں،اور کہتی تھیں کہ الٰہی صبح ہونے سے پہلے مجھے اٹھا لے۔ بیت
سارا جہاں سیاہ ہے چشم پر آب میں
سر ننگے میں نے دیکھا ہے اماں کو خواب میں
اللہ اللہ کیا مرتبہ حضرت حر کا ہوا ہے۔ کہ ادھر تو حضرت زینب نے یہ خواب ملاحظہ فرمایا۔اور ادھر حضرت حر نے دیکھا کہ میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک صحرائے ناپید کنار میں گیا ہوں۔ جس وقت وہاں پہنچا تو ایک نعل میرے گھوڑے کا گر گیا۔ میں وہاں پر بہت ہراساں ہوا۔ اس وقت ایک شخص پارسا نے ایک سمت جانے کو اشارہ کیا۔ جب میں اس سمت گیا تو مشاہدہ کیا کہ ایک خیمہ سیاہ استادہ ہے۔ اور ایک عورت با لباس سیاہ میرے پاس آئی اور کہا کہ اے حر خوشا نصیب تیرے کہ تجھ کو جناب فاطمہ زہرا نے یاد فرمایا ہے۔ میں فورا اس کے ساتھ در خیمہ پر پہنچا اور وہ بی بی اندر گئی۔
نظم
بعد اک لحظہ کے وہ صاحب عظمت نکلی
ہاتھ میں اپنے لیے ایک کتابت نکلی
بولی زہرا نے کیا ہے یہ عنایت تجھ کو
پڑھ لے کھل جائے گی سب اس کی حقیقت تجھ کو
اس میں لکھا تھا کہ ہم نے دیا جنت تجھ کو
حر ہے دکھلائیں گے نہ دوزخ کی صورت تجھ کو
پڑھ رہا تھا میں ابھی فخر ومباہات سے خط
لے گیا طائر سبز آکےمرے ہاتھ سے خط
یہ خواب حر نے غوث سے بیان کیا اور کہا
نظم
جب سے اےغوث عجب طرح کی تشویش میں ہوں
کون سا دیکھا مکاں کس سے میں یہ خواب کہوں
میرا انجام ہے کیا،کیا میں کروں کیا نہ کروں
جاوں شبیر کے لشکر میں کہ اس سمت رہوں
یاں کا انجام تو دوزخ ہے ملا زر تو کیا
واں کا انجام ہے فردوس کٹا سر تو کیا
کبھی زوجہ کبھی بیٹے کا خیال آتا ہے
بھائی کا اور غلاموں کا ملال آتا ہے
واں چلا جاوں تو گھر پر بھی زوال آتا ہے
اپنا جب دھیان میں انجام ومآل آتا ہے
قلب واعضائے بدن خوف سے تھراتے ہیں
خود بخود پاوں کچھ اس سمت اٹھے جاتے ہیں
وہ اسی شش وپنج میں کروٹیں بدلتا تھا۔ اور اپنے دل میں سوچ سوچ کر رہ جاتا تھا۔ عجب حیص وبیص کے عالم میں پڑا ہوا تھا۔ نظم
متغیر،متردد،متفکر،بے چین
یہ دعا تھی کہ بچے فاطمہ کا نور العین
تھر تھرا جاتا تھا کرتی تھیں جو سیدانیاں بین
طپش دل کا تقا ضا تھا کہ چل سوئے حسین
صبح اعدا میں نہ شاہ شہدا گھر جائیں
شب کو مل جائے جو خورشید تو دن پھر جائیں
کبھی اٹھا کبھی بیٹھا کبھی ٹہلا وہ جری
گرم آہیں کبھی کیں کبھی کیں سرد کبھی آہ بھری
قلب میں تھی کبھی سوزش کبھی سوز جگری
سخن یاس کبھی لب پہ کبھی نوحہ گری
آل احمد کی بکا سن کے تڑپ جاتا تھا
دم بدم خیمہ سے گھبرا کے نکل جاتا تھا
اس طرف خیمہ میں حر کا یہ حال تھا۔ادھر فوج اعدا کا ہر سپاہی اس کوشش میں تھا کہ کوئی پیاسا لشکر حسین کا دریا پر نہ آنے پائے۔ حضرت حر ان بدشعاروں کے اس انہماک کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہتے تھے کہ کاش حسین کو میں گھیر کر نہ لاتا۔ اسی اثناء میں برادر حر نے بھائی کا یہ حال دیکھ کر عرض کی کہ اے برادر بزرگوار صبح میدان کار زار گرم ہوگا۔ آج آپ نے کچھ آرام نہیں کیا۔ اس کا کیا باعث ہے۔ حضرت حر نے فرمایا کہ نیند آنے کا کون سا محل ہے۔ اہلبیت نبی میں بھوک اور پیاس کی شدت کے سبب تلاطم برپا ہے۔ نظم
وائے غربت عجب آفت میں نبی زادہ ہے
دیکھتا ہوں جسے وہ قتل پہ آمادہ ہے
کیا خبر تجھ کو نہیں کون ہے یہ فیض مآب
پیاس میں جس نے مع فوج پلایا مجھے آب
دشمنوں پر بھی کیا لطف وکرم مثل سحاب
لب پہ جاری تھا پئیں سب کے یہ ہے کار ثواب
آپ پیاسا رہے غیروں کے لئے مشکل ہے
واہ کیا لخت دل فاطمہ دریا دل ہے
کیونکر مجھ کو تردد وتشویش نہ ہو۔ جب پانی پانی کا شور سنتا ہوں۔ غم کھاتا ہوں۔ اور باگ پکڑنا یاد کرکے شرماتا ہوں۔اپنی نادانی پر پچھتاتا ہوں۔مجھے یقین نہ تھا کہ بعوض دعوت کے عداوت ہوگی۔ یہ سن کر برادر حر نے یہ تو سمجھا کہ بھائی کی نیت امام مظلوم کی خدمت میں بار یابی کی معلوم ہوتی ہے۔ مگر صاف صاف نہ سمجھا۔اس واسطے نظم
عرض کی بھائی نے پھر آپ کو کیا ہے منظور
حر نے فرمایا کہ مرنا شہ والا کے حضور
حلہ ء خل دبریں ساغرصہبائے طہور
وصلت حور جناں رحمت حق عفو قصور
تجھ پہ کھل جائے گا اب صبح بھی کچھ دور نہیں
آتش قہر میں جلنا مجھے منظور نہیں
سن کے یہ بھائی سے کہا بھائی نے بسم اللہ
ہم بھی ہمراہ ہیں گر آپ کو سوجھی ہے یہ راہ
اٹھ کے بولا یہ پسر اے پدر عالی جاہ
ایسا مرنا تو حیات ابدی ہے واللہ
عمو عباس دلاور پہ فدا ہوئیں گے
ہم جناب علی اکبر پہ فدا ہوئیں گے
جس وقت کہ حضرت حر ان کے بھائی اور بیٹے میں یہ باتیں ہوئیں۔ غلام نے سوچا کہ میں راہ ضلالت میں فرقہ ناہنجار کے ہمراہ کیوں رہ جاوں ،پھر نظم
جوڑ کر ہاتھ کیا خادم حر نے یہ کلام
صدقہ ہوئے گا غلام شہ والا پہ غلام
سب کا منہ دیکھ کے بولا یہ حر نیک انجام
رہیو اس قول پہ قائم کہ یہ عقبیٰ کا ہے کام
گر وہ چاہے گا تو منزل پہ بہم ہوئیں گے
آج دوزخ میں ہیں کل خلد میں ہم ہوئیں گے
الغرض تمام رات ان چاروں پنجتنی میں یہی مذکور رہا۔ نہ کوئی سویا نہ کھایا پیا۔ ناگہاں اسی ذکر میں آثار صبح نمایاں ہوئے۔ بیت
چرخ پر صبح کی نوبت کی صدا جانے لگی
فوج اسلام سے اذاں کی آواز آنے لگی
نور پھیلا ہوا وہ صبح کا وہ سرد ہوا
بہتے دریا کی وہ لہریں وہ بیاباں وہ فضا
بلبلوں کے چہکنے کی خوش آئند صدا
کہ نسیم آئی دبے پاوں کبھی باد صبا
حکم تھا دونوں کو سبزے کی ہوا داری کا
فرش تھا چاروں طرف مخمل زنگاری کا
باغ زہرا ومحمد کی ادھرتھی خوشبو
گل سے رخ سرد سے قد سنبل تر سے گیسو
آنکھیں نرگس کے کٹورے در شبنم آنسو
سبزہ آغاز کسی کا تو کوئی آئینہ رو
یاں کی خوشبو جو گزر جاتی ہے گلزاروں سے
بلبلیں پھول گرا دیتی ہیں منقاروں سے
گل کہاں اور کہاں نکہت بستان رسول
مختصر بھی جو عرض کروں تو ہو جائے گا طول
دیکھ کر راستی تازہ نہالان بتول
فاختہ سرو سے شمشاد سے قمری ہو ملول
باغ زہرا میں جو دم بھر بھی رسائی ہو جائے
تا قیامت گل وبلبل میں رسائی ہو جائے
وقت وہ ہے کہ شگفتہ ہیں گل راز ونیاز
صبح صادق ہے قضا ہو نہ کہیں وقت نماز
لائے سجادے پہ تشریف شہنشاہ حجاز
عقب شاہ صفیں باندھ کے آئے جانباز
طالب خواب اجل رات کے جاگے ہوں گے
ابھی پیچھے ہیں لڑائی میں سب آگے ہوں گے
الغرض بعد فراغت نماز ہر ایک جرار نے دیکھا کہ پردہ ہائے حجاب نظروں سے اٹھ گئے ہیں۔ اور اپنے اپنے مقام بہشت عنبر سرشت میں ملاحظہ کیے۔اور حوران بہشتی غرفوں سے جھانکتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ اور آب کوثر کی نہریں سامنے لہریں مارتی ہوئیں معائنہ کیں۔ پس روایت ہے نظم
خوش تھے سب دیکھ کے جنت کے درختوں کی بہار
پھول دیکھے تو خوشی سے ہوئے چہرے گلنار
ہاتھ اٹھ جاتے تھے جھکتی تھیں جو شاخیں ہر بار
جان شیریں تھی ٹپکتے ہوئے میووں پہ نثار
شربت قند مکرر کا مزہ پاتے تھے
دور سے دیکھ کے لب بند ہوئے جاتے تھے
مسکرا کر شہ والا نے کہا کیا دیکھا
سب پکارے ثمر الفت مولا دیکھا
جیتے جی گلشن فردوس کا جلوہ دیکھا
اپنے گھر دیکھ لیے سایہ طوبیٰ دیکھا
دیر ہے کس لئے مرنے میں ہمارے مولا
جان ودل لے گئے حوروں کے نظارے مولا
یہ سن کر جناب امام مظلوم مصلے سے اٹھے اور فرمایا کہ تم لوگ تیار ہو جاو۔ میں بھی خیمہ میں جا کر پوشاک تبدیل کر آوں۔ اپنے آقا کے ارشاد کے مطابق اس طرف ہر ایک یاور وناصر اپنے تئیں مسلح کرنے لگا۔ اور جناب امام حسین علیہ سلام خیمہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ جناب زینب علیہ سلام جائے نماز سے اٹھ کر سر برہنہ درگاہ خدا وندی میں باگریہ وزاری دعا کرتی ہیں۔کہ اے رب الارباب میرے بھائی کو سلامت رکھنا۔پنجتن میں اب صرف ایک حسین کا دم ہے۔ جس وقت جناب امام حسین نے جناب زینب کو نہایت مضطر وبےقرار دیکھا نظم
چھاتی سے بس بہن کو لگا کر کہی یہ بات
زینب مجھے خبر ہے کہ روئی ہو ساری رات
حاصل ہے اس سے کیا کہ یہ دنیا ہے بے ثبات
موت آئے گی ضرور اسے جو ہے ذی حیات
ماں کو پدر کو بھائی کو ہاتھوں سے کھو چکیں
تم تو کئی بزرگوں کو اس گھر میں رو چکیں
سر کو پٹک پٹک کر نہ ہر دم ہو نوحہ گر
مر جاوگی تو اور بھی برباد ہو گا گھر
تھامے کون روئیں گے بچے جو بے پدر
بیٹھے کون ماتمی صف پر برہنہ سر
ذی رتبہ ہو بتول کی نازوں کی پالی ہو
تم ہم سے بے کسوں کی بہن رونے والی ہو
آہ حضرات جس وقت یہ کلمات حسرت ویاس کے حضرت زینب نے زبان مبارک جناب امام حسین علیہ سلام سے سماعت فرمائے تو آپ دعا فرما رہی تھیں نظم
زینب سر اپنا پیٹ کے بولی یہ ایک بار
واحسرتا کہ مر نہ گئی میں جگر فگار
میرے ہی تھا نصیب میں ہے ہے یہ کاروبار
ماتم میں سب کی رووں بنوں سب کی سوگ وار
غربت میں جب سفر میرا دنیا سے ہووئے گا
رونا تو اس کا ہے کہ مجھے کون روئے گا
سن کر یہ حال روتے تھے شبیر زار زار
منہ پیٹتی تھی سامنے بانوئے دل فگار
سمجھاتے تھے حسین کہ اے میری غمگسار
رخصت یہ آخری نہیں پیٹو نہ بار بار
لاشیں اٹھا اٹھا کے عزیزوں کی لائیں گے
خیمہ میں ہم ابھی تو کئی بار آئیں گے
فرما کے یہ سکینہ کے چہرے پہ کی نگاہ
بولے کہ آ گلے سے لگ اے میری رشک ماہ
لپٹی جو آکے باپ سے بیٹی بااشک وآہ
منہ رکھ کے منہ پہ رونے لگے شاہ دیں پناہ
فرماتے تھے نہ پیاس میں تو اشک بار ہو
ان سوکھے سوکھے ہونٹوں پہ بابا نثار ہو
بولی زبان خشک دکھا کر وہ تشنہ لب
بابا ہمارا پیاس سے ہونٹوں پہ دم ہے اب
اتنا تو مجھ سے کہیئے کہ پانی ملے کب
فرمایا شہ نے خلد میں ہم جا چکیں گے جب
رکھیو خیال فاطمہ کے نور عین کا
تم پانی پیجیئو فاتحہ دے کر حسین کا
یہ فرما کر بچشم تر بیٹی کو خاک پر بٹھا دیا۔ اور عمامہ رسول خدا سر پر باندھا عبائے حیدر کرار پہن کر اسلحہ جنگ آراستہ کیا۔ اور بھائی، بھتیجے اور بھانجوں کے ہمراہ خیمہ سے باہر تشریف لائے۔
حال یہ دیکھ کر غش کھا کے گری زینب زار
واحسینا کی ہوئی آل محمد میں پکار
پس جناب امام حسین علیہ سلام نے حضرت زینب کو تشفی ودلاسہ دیا اور فرمایا کہ اے بہن تم صابرہ کی بیٹی ہو۔ تم کو صبر کرنا چاہیئے۔ نظم
اشک خوں چشم مبارک سے گرے بہہ بہہ کر
بس چلے آپ خدا حافظ وناصر کہہ کر
دیر سے تھی دردولت پہ سواری موجود
بڑھ کے گھوڑے پہ چڑھے جلد امام ذی جود
غل شہنشاہ سلامت کا ہوا شور ورود
وہ سواری کا تحمل وہ جوانوں کی نمود
تا بہ میداں جفا ظل خدا میں پہنچے
نکہت گل کی طرح دشت وغا میں پہنچے
آگیا جوش وغا شاہ کے غم خواروں کو
سینہ تن تن کے رکھا دوش پہ تلواروں کو
غیظ سے تکنے لگے سرداروں کو
سب نے چاہا کہ بڑھا دیجیئے راہواروں کو
پاس ادب سے ہر صاحب شمشیر رکے
سامنے آگئے عباس تووہ شیر رکے
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے اس قلیل لشکر کو آراستہ کیا۔لشکر خدا کا علمدار حضرت عباس کو مقرر فرمایا۔میمنہ کا سردار پسران حضرت مسلم کو مقرر فرمایا۔اور میسرہ حبیب ابن مظاہر کو عنایت فرمایا۔ اسی دوران پسران حضرت مسلم نے صف راست سے گھوڑے بڑھا کر اجازت جنگ چاہی۔ اور عرض کی کہ اے عم بزرگوار ہمارے پدر نامدار سب سے پہلے آپ پر نثار ہوئے۔غلاموں کی خواہش بھی یہی ہے کہ اس میدان کارزار میں ہم بھی سب سے پہلے اپنی جانیں حضور کے قدموں پر نثار کریں۔ تاکہ امام کے ہراول لشکر مشہور ہوں۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ میں تمہارے باپ کی شہادت سے شرمندہ ہوں۔ اب مجھ کو زیادہ محجوب نہ کرو۔ اے نور دیدگان یہ عہدہ ہراولی باقی نہیں رہا۔ اس عہدے پر میری مادر گرامی فاطمہ زہرا نے اور پدر بزرگوار علی مرتضیٰ نے ایک شخص کو مقرر فرمادیا ہے۔ جو عنقریب داخل لشکر ہونے والا ہے۔ یہ سن کر تمام اصحاب باوفا،عزیز ورفقا متحیر ہوئے۔اس طرف تو یہ حال تھا۔اور اس طرف عمر سعد لعین نے اپنے لشکر کی صفیں جما کر تمام اہل کوفہ کو علیحدہ کیا۔اور ان کی حفاظت کے لئے اشعث بن موصلی کو مقرر کیا۔اور میمنہ لشکر ضلالت اثر کا اپنے بیٹے حفص کو جو اس شریر کا وزیر تھا۔مع تیس ہزار شامیان زرہ پوش کے سپرد کیا۔ اور ضحاک ابن قیس وسعد بن عبداللہ وغیرہ سرداروں کو بتیس ہزار سوار کے ساتھ میسرہ پر مقرر کیا۔ اور باقی ملاعین کو قلب لشکر میں ترتیب سے باقاعدہ کھڑا کرکے اپنے غلام ولید کو ان سب کا نگران مقرر کیا۔اور شمر ذی الجوشن کو نقیب کرکے مستعد کارزار ہوا۔ اس وقت نظم
چاوش صدا دینے لگے فرج میں اکبار
ہاں غازیو شاباش رہو رزم میں تیار
ثابت قدموں گھاٹ سے دریا کے خبردار
دو دن سے ہے پیاسا خلف حیدر کرار
یہ آب محمد کے نواسے کو نہ پہنچے
اس نہر کا پانی کسی پیاسے کو نہ پہنچے
جب اس طرح صفیں لشکر کی آراستہ وپیراستہ ہو چکیں نظم
بولا کمان کشوں سے ابن سعد بے ادب
برساو شہ پہ تیر ستم دیر کیا ہے اب
کج باز لیس ہوگئے خونریزیوں پہ سب
چلایا حر یہ پیٹ کے زانو کو ہے غضب
ظلم اے امیر روح رسالت پناہ پر
کرتا ہے خون سبط نبی کس گناہ پر
تیروں کا رخ جدھر ہے نبی کا ہے یہ پسر
جس کو ہدف بنایا ہے زہرا کا ہے جگر
بجلی گرے نہ تجھ پہ کہیں قہر حق سے ڈر
ہٹ جاوں میں تو پیاسے سے لڑنا ابھی ٹہر
آگے مرے نہ ظلم ہو اس تشنہ کام پر
دیکھوں نہ تیر پڑتے ہوئے میں امام پر
ابھی ابن سعد اور حر نیک نام میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ جناب امام حسین لشکر ظفر پیکر سے ذوالجناح کو مہمیز فرما کر اعدائے بد شعار کی جانب روانہ ہوئے۔اس وقت جمیع اصحاب وانصار مضطربانہ دوڑ کر قدوم میمنت لزوم پر گرے۔ اور عرض کی کہ یا مولا کیا آپ نے اس واسطے ہراول لشکر مقرر فرمایا تھا کہ سب سے پہلے جنگ کا ارادہ آپ فرمائیں۔ ہم لوگ فردائے قیامت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول خدا اور علی مرتضےٰ اور فاطمہ زہرا اور حسن مجتبیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اور کس دن کام آئیں گے۔ بیت
شہ نے فرمایا کہ جاتا نہیں میں کرنے جدال
مجھ کو لازم ہے کہ مہماں کا کروں استقبال
یہ سن کر تمام انصار خاموش ہو گئے۔اور امام مظلوم بمقابلہ صفوف لشکر ناہنجار مع حضرت عباس تشریف لا کر اس طرح زبان فیض ترجمان سے گویا ہوئے۔ کہ اے لشکر یزید تم میں سے وہ کون شخص ہے کہ شب کو عالم رویا میں بہشت عنبر سرشت کی سیر کی۔اور سبزہ ہائے بہشت سے آب نوشی کا وعدہ کیا ہے۔ آنحضرت کا یہ کلام سن کر جناب حر نے اپنے بھائی اور غلام کو دیکھا اور ارشاد کیا کہ دیکھو فرزند رسول رات کا حال گویا چشم دید بیان کر رہے ہیں۔ نظم
سن کے
کانپا تن حر اور پکارا واللہ
جس کو مرنا ہو وہ اس دم مرے آئے ہمراہ
اک غلام ایک پسر ایک برادر ذی جاہ
چاروں نے باگیں اٹھائیں طرف لشکر شاہ
غل ہوا حر طرف لشکر دیں جاتا ہے
بولا ہاتف کہ سوئے خلد بریں جاتا ہے
جس وقت حضرت حر لشکر ناری سے نکل کر دریائے نور کی طرف روانہ ہوئے۔ نظمحر
کا لشکر سے نکلنا تھا کہ چلنے لگے تیر
اک تلاطم ہوا اس طرح بڑھی فوج کثیر
نہ رکے پر کہیں شیدائے جناب شبیر
گر پڑا وہ جسے چمکا کے دکھائی شمشیر
ہاتھ آئے نہ شریروں کے سوئے خیر گئے
دم میں فولاد کے دریا کو جری پیر گئے
جس وقت کہ امام مظلوم نے حر کو مع اس کے بھائی ،بیٹے اور غلام کے آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا، حضرت عباس سے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی جلد آگے بڑھو ایسا نہ ہو کہ میرا مہمان راستے میں مجروح ہو۔ نظم
سن کے فرمان گل گلشن شہ لولاک
یاں سے عباس چلے واں ہوا پیدل حر پاک
ڈاب میں تیغ دو دم رکھ کےگریبان کیا چاک
ننگے سر ہوگیا اور منہ پہ ملی دشت کی خاک
باندھ کر ہاتھ کہا قابل آزادی ہوں
رحم فرمایئے مولا کہ میں فریادی ہوں
ہاتھ پھیلا کے بڑھے جلد جناب عباس
ہنس کے فرمایا کہ آ ہم سے مل اے قدر شناس
تھرتھراتا ہے یہ کیوں اب تجھے کیا ہے وسواس
وہ جواں جوڑے ہوئے دست ادب آیا پاس
سرنگوں پائے مبارک پہ جو پایا اس کو
بازوئے شاہ نے چھاتی سے لگایا اس کو
پھر یہ فرمایا بصد لطف کہ اے مرد سعید
تیرے آنے کی عجب سبط پیمبر کو ہے عید
وہ خوش ہیں تو بے شبہ خوش رب مجید
تجھ سے منہ موڑے رہیں رحمت مولا سے بعید
چل قدم بوس ہو الحاح کر اور زاری کر
قافلہ چلنے پہ ہے کوچ کی تیاری کر
عرض کی حر نے کہ ہاں آپ اگر چاہیں گے
اوج بلبل کا نہ کیوں کر گل تر ہوجائیں گے
وہی ہوگا جو شہ جن وبشر چاہیں گے
وہی لے جائیں گے محشر میں جدھر چاہیئں گے
اب تو میں بندہ بے دام مدام ان کا ہوں
خلد میں جاوں کہ دوزخ میں غلام ان کا ہوں
یہ تو فرمایئے سن کر میرے آنے کی خبر
سب سے فرماتے تھے کیا بادشاہ جن وبشر
کہا عباس نے تاکید ہے یہ ہر اک پر
کوئی روکے نہ کہ آتا ہے میرا دوست ادھر
تم اسے پاس شہنشاہ امم کے لاو
مجھ کو بھیجا ہے کہ سایہ میں علم کے لاو
یہ خبر فرحت اثر سن کر حر مسکرائے اور اپنے بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ دیکھو پسر حیدر کرار محمد کا نور عین کیسا با شرف ہے ،کہ ہنوز ہم نے خدمت میں پہنچ کر عفو تقصیر نہیں کرائی،اور یہ اعزاز کونین بخشا نظم
میں کہاں اور کہاں ابر کرم کا سایہ
مجھ سے خاطی پہ محمد کے علم کا سایہ
کہہ کے یہ فوج خدا میں حر جرار آیا
جنس آمرزش عصیاں کا طلب گار آیا
دی صدا اے میرے مولا یہ سیہ کار آیا
باگ کو ہاتھ لگانے کا گنہگار آیا
جس کی دست درازی اسے کم کر ڈالے
کہیئے خادم سے میرے ہاتھ قلم کر ڈالے
دے سزا مجھ کو میں حاضر ہوں شہنشاہ میرے
ساتھ ہیں حضرت عباس فلک جاہ میرے
توبہ کرتا ہوں گناہ بخشیئے للہ میرے
اب میں گمراہ نہیں اے خضر راہ میرے
جس نے خدمت میں کمی کی ہے وہی خادم ہوں
چار آنکھیں نہ کروں گا بہت نادم ہوں
مومنین ابتدا میں جو میں نے عرض کیا ہے کہ توبہ کرنے سے گناہان گزشتہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ملاحظہ ہو حر کی گزارش کے ساتھ ہی نظم
بولے حضرت کہ ید اللہ کو پیارے ہیں یہ ہاتھ
جب ہوا قوت بازو تو ہمارے ہیں یہ ہاتھ
اے برادر ید قدرت کے سنوارے ہیں یہ ہاتھ
تونے افسوس سے زانو پہ جو مارے ہیں یہ ہاتھ
اب سردست یہ عقدے تجھے کھل جائیں گے
جام کوثر کے ابھی دست بدست آئیں گے
یہ فرما کر جناب امام حسین علیہ سلام نے آگے بڑھ کر حضرت حر کو چھاتی سے لگایا۔اور حر کے بیٹے کو حضرت علی اکبر نے گلے سے لپٹا لیا۔ اس وقت حر نے قدوم میمنت لزوم پر شاہ کے سر جھکا دیا اور بیٹے نے نعلین حضرت علی اکبر پر بوسہ دیا۔ پھر حضرت امام حسین علیہ سلام نے دعا فرمائی کہ پالنے والے اس کو بخش دے، بیت
قابل نار جہنم گل شاداب نہیں
حر ہے یہ آگ میں جلنے کی اسے تاب نہیں
یہ سن کر حضرت حر خنداں وشاداں دست بستہ عرض کرنے لگے کہ اے آقا میدان کار زار کی اجازت دیجیئے۔ بیت
تازہ خادم ہوں رضا دیجیئے ممتاز ہوں میں
جلد خلعت شہادت سے سرفراز ہوں میں
حضرت حر رخصت کی اجازت لے رہے تھے کہ حضرت زینب نے فضہ کو بھیج کر خیمہ کے قریب بلایا اور فرمایا کہ اے حر رحمت خدا تجھ پر کہ تونے میرے بھائی کی پاس داری کی۔ تو ہمارا مہمان ہے مگر نظم
تجھ پہ مخفی نہیں ہفتم سے جو کچھ ہے میرا حال
راہیں ہر سمت کی روکے ہوئے ہیں بد افعال
قحط پانی کا ہے اس دشت میں ہے مجھ کو ملال
نان جو کا بھی ہے ملنا کسی قریہ میں محال
ہم کو ایذا عوض آب وغذا ملتی ہے
دودھ اصغر کو نہ عابد کو دوا ملتی ہے
پھر کہا اس سے کہ دشوار ہے فرقت تیر ی
مجھ کو مر کر بھی نہ بھولے گی محبت تیری
وا دریغا ہوئی کچھ مجھ سے نہ خدمت تیری
خیر ہو جائے گی فردوس میں دعوت تیری
آج رتبہ تیرا خیل شہدا میں ہو گا
شب کو تو صحبت محبوب خدا میں ہوگا
حر نے گزارش کی کہ اے فضہ میری شاہزادی کی خدمت میں میری جانب سے عرض کرو،کہ میں نے آپ کی جناب سے ایمان پایا۔اعزاز پایا ۔دعوت کیا چیز ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ مجھ کو بہشت عنبر سرشت عطا کر چکی ہیں۔ نظم
یہ نہ فرمایئے ہوتی ہے خجالت مجھ کو
آج دعوت میں ملی نعمت جنت مجھ کو
بعد ازاں عرض کی شبیر سے یا سبط نبی
اذن دیجیئے کہ فدا ہونے کو جائے فدوی
شہ نے فرمایا کہ مہماں ہے مرا ٹھہرا ابھی
اور جائے گا کوئی یاں سے نہ کر تو جلدی
عرض کی اس نے اجازت دو کہ بے کل ہوں میں
دوستی پہلے کروں دشمن اول ہوں میں
الغرض جب حر کا اصرار حد سے زیادہ ہوا،ناچار سید ابرار نے اجازت میدان عطا فرمائی۔ بعد حصول اذن پیکار حر نامدار گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ کے ہمراہ نظم
نیزے تانے ہوئے گھوڑوں پہ ادھر بھائی پسر
اور غلام حبشی مرکب مشکی پہ ادھر
سایہ کی طرح عقب میں تھا کبھی نیک سیر
سامنے تھا کبھی سردار کے مانند سیر
دل میں کہتا تھا کہ ٹکڑے ہوں میں شمشیروں سے
میرا آقا کہیں مجروح نہ ہو تیروں سے
تھم کے بھائی سے کہا حر نے علم کر تلوار
جا سوئے میمنہ فوج اڑا کر رہوار
حکم پیکار کا خادم کو دیا سوئے یسار
کہا بیٹے سے تو قلب میں جا اے دلدار
مضطرب ہوں میں کہ نرغہ ہے میرے سرور پر
میں نے قربان کیا تجھ کو علی اکبر پر
یہ سن کر وہ تینوں جرار برائے پیکار بڑھے۔اور بہت سے اشقیا کو شمشیر آبدار سے فی النار کیا۔ یہ لڑائی دیکھ کر حضرت عباس اور علی اکبر تحسین وآفرین فرماتے تھے۔ اور حضرت حر اپنے غلام سے آفرین کہتے تھے۔ نظممر گئے
فوج سے لڑ بھڑ کے جو وہ نیک سیر
غم سے خوں ہو گیا اس دم حر غازی کا جگر
لاش بیٹے کی جو دیکھی تو کہا رو رو کر
سہل اس راہ میں ہے جو ہو مصیبت مجھ پر
اپنے محسن کا فراموش نہ احساں کرتا
سو پسر ایسے جو ہوتے تو میں قرباں کرتا
جناب امام حسین علیہ سلام نے چند قدم بڑھ کر فرمایا کہ اے میرے مہمان وفاداری کا حق خوب ادا کیا۔ لیکن برائے خدا ضبط نہ کر۔لاش پسر پر رو رو کر بخار دل نکال لے۔ نظم
ہو گا ہر طرح وہ تقدیر میں جو ہونا ہے
ہم کو بھی لاشہ اکبر پہ یونہی رونا ہے
تونے جس طرح سہا اپنے جواں بھائی کا غم
ہم کو بھی ہوگا اسی طرح برادر کا الم
عرض کی حر دلاور نے بادیدہ نم
حق وہ ساعت نہ دکھائے مجھے یا شاہ امم
صدقے ہو جاوں میں اس میں ہے سعادت میری
اب دعا کیجیئے کہ ہو جلد شہادت میری
حر یہ گزارش کرکے لشکر گمراہ سے لڑتے بھڑتے خیمہ عمر سعد میں پہنچے۔یہ حال دیکھ کر عمر سعد خیمے میں چھپ گیا۔ اور تمام فوج تہہ وبالا ہو کر دہائی حسین کی دینے لگی۔ آقا نامدار کا اسم گرامی سنتے ہی: ابیات
مڑ کر یہ شاہ دیں کو پکارا وہ نیک نام
ہوتا ہے اب غلام کو کیا حکم یا امام
برہم ہوئی صفیں سپہ پر غرور کی
دیتے ہیں اب یہ لوگ دہائی حضور کی
امام حسین علیہ سلام نے بڑھ کر آواز دی کہ مرحبا اے حر اب ہاتھ روک لے۔ بھاگے ہووں کا مارنا شیر کا کام نہیں،یہ دنیا جائے آرام نہیں۔ شیر خدا تیری راہ دیکھتے ہیں۔ تشنگی سے تیرے حواس معطل ہیں۔ اب جام شہادت نوش کر،شیر خدا سے جا کر کوثر کا جام لے۔ حضرت حر ابھی آقا نامدار کا یہ ارشاد سن رہے تھے کہ آہ واویلا نظم
دل پہ نیزہ کسی خون خوار نے بڑھ کر مارا
ایک نے سر پہ تبر ایک نے خنجر مارا
نیزہ اک حلق پہ مارا کہ رکا سینہ میں دم
بند آنکھیں ہوئیں منہ کھل گیا گردن ہوئی خم
رکھ دیا ہرنے پہ سر نکلے رکابوں سے قدم
خاک پہ گر کے پکارا وہ کہ یا شاہ امم
آیئے جلد کہ سر تن سے جدا ہوتا ہے
آپ کا بندہ آزاد فدا ہوتا ہے
گوش فرزند نبی میں جو یہ آواز آئی
رو کے عباس کو چلائے کہ دوڑو بھائی
جاں بلب ہے پسر فاطمہ کا شیدائی
کہہ دو اکبر سے کہ مہماں نے شہادت پائی
حق ادا کر گیا غازی میری غم خواری کا
اب چلو وقت ہے حر کی مدد گاری کا
یہ سن کر حضرت امام حسین علیہ سلام حضرت حر کی طرف پا پیادہ دوڑے۔ اور حضرت عباس بھی اس شہید کے پاس پہنچے،بیتخوں
بھری آنکھوں میں دم حر کا اٹکتے دیکھا
پہنچے شبیر تو مہماں کو سسکتے دیکھا
دیکھ یہ زانوئے اقدس پہ رکھا سر اس کا
اپنے رومال سے پونچھا رخ انور اس کا
واہ رے مرتبہ اللہ رے مقدر اس کا
عرش اعلےٰ سے بھی پایہ ہوا برتر اس کا
دار فانی سے گزرنا ہو تو ایسے ہووئے
بعد جینے کے جو مرنا ہو تو ایسے ہووئے
عالم غش میں جو آنکھ اس نے نہ کھولی تا دیر
رکھ کے منہ ماتھے پہ چلائے یہ عباس دلیر
آ ذرا ہوش میں اے صاحب شمشیر اے شیر
رہبر دیں پہ نظر کر ابھی آنکھوں کو نہ پھیر
منزلیں طے یہ اسی آن ہوئی جاتی ہیں
سب تیری مشکلیں آسان ہوئی جاتی ہیں
مرحبا اے حر تیرے سرہانے سردار جناں کھڑے ہیں۔ اب نار جہنم کا کیا ڈر؟
اسی اثنا ء میں چہرے مبارک سے پسینے کے قطرے رخ حر پر ٹپکے۔ فورا آنکھیں کھول دیں۔ اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے مہمان نیم جان کیا حال ہے۔ اس نے عرض کی ،نظم
کیا شرف پائے ہیں اے بادشاہ جن وبشر
آپ زانوئے مبارک پہ لیے ہیں میرا سر
یہ محمد یہ علی ہیں یہ جناب شبر
مجھ سے اک حر یہ فرماتی ہے بادیدہ تر
ناقہ نور وہ آیا وہ عماری آئی
بند کر آنکھوں کو کہ زہرا کی سواری آئی
کیوں عزادارو ہوا جس بی بی کا یہ عزو وقار
بیٹیاں اس کی کھلے سر ہوں میان بازار
تخت پر فخر سے بیٹھا ہو یزید غدار
بے ردا سامنے ہو آل رسول مختار
تپ میں محبوس بلا عابد دل خستہ ہو
دختر فاطمہ بلوئے میں رسن بستہ ہو
الغرض حضرت حر کو غش آگیا،اور تھرتھرا کر آنکھ کھول دی۔ ملک الموت قریب جسم مطہر آئے، حر ہچکیاں لینے لگے۔ جناب امام حسین نے فرمایا کہ اے ملک الموت یہ میرا مہمان ہے۔ اس پر موت کی سختی نہ ہونے پائے۔ مجھ کو صدمہ جانکاہ ہے۔ یہ سن کر حر نے عرض کی کہ مولا اسی طرح بوقت سوال منکر نکیر مدد فرمایئے۔ یہ سن کر جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا نظم
کچھ نکرین کا ڈر تجھ کو نہ کچھ خوف عذاب
ہم بتائیں گے تجھے ان کے سوالوں کے جواب
جتنے عصیاں ہیں تیرے ہوں گے مبدل بہ ثواب
قبر میں دامن مادر کی طرح کیجیئو خواب
حشر کے روز بھی چھٹنے کا نہیں ساتھ تیرا
دیکھنا ہو گا مرے ہاتھ میں واں ہاتھ ترا
ابھی روتے تھے یہ فرما کے امام دوجہاں
ناگہاں کھنچ کے تن حر سے نکلنے لگی جاں
یا حسین ابن علی کہہ کے کراہا وہ جواں
آنکھیں پتھرا گئیں آنسو ہوئے چہرے پہ رواں
بس کہ صدمہ تھا جدائی کا دل مضطر پر
مر گیا رکھ کے وہ منہ کو قدم سرور پر
لاش پر اپنی عبا ڈال کے رونے لگے شاہ
روح زہرا کی صدا آئی کہ انا للہ
مر گیا عاشق فرزند رسول ذی جاہ
اس وفا دار کا ماتم کرو با نالہ وآہ
اپنے فرزند کے غم خوار کی غم خوار ہوں میں
مجھ کو پرسا دو کہ مہماں کی عزادار ہوں میں
اہلبیت نبوت سے کوئی کہہ دے جا کر
مر گیا میرا پسر روو اسے پیٹ کے سر
بیبیو خاک اڑاتی ہوں میں لاشہ پہ ادھر
بے کفن دیکھ کے مظلوم کو پھٹتا ہے جگر
جان دی اس نے مرے غنچہ دہن کے بدلے
دوں گی میں حلہ فردوس کفن کے بدلے
در خیمہ سے یہ دی شاہ کو صدا فضہ نے
لاش حر ڈیوڑھی پہ لے آیئے یا شاہ ہدا
حرم پاک میں ہے دیر سے سامان عزا
اپنے سر کھولے ہوئے بیبیاں کرتی ہیں بکا
اس طرح خواہر سلطان زمن پیٹتی ہیں
جس طرح بھائی کے ماتم میں بہن پیٹتی ہے
آقا سے اب وزیر کی ہر دم ہے یہ دعا
حر کر دے مجھ کو نار سے جس طرح حر ہوا
کوئی مظلوم پہ اب رحم نہیں کھاتا ہے
رن سے امداد کو شبیر کی حر آتا ہے
سبحان اللہ کیا بندہ پروری ہے خدا وند عالم کی کہ ہم ایسے گنہگاروں کی نجات کے لئے کیسے کیسے وسیلے مقرر کیے ہیں۔اگر بندہ ذرا بھی اس کی جانب رجوع ہوتا ہے۔ تو وہ معبود حقیقی جس کا نام ستار العیوب ہے۔ اس کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جس وقت حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلواة والسلام بوجہ ترک اولی یعنی درخت ممنوعہ سے کھانے کی وجہ سےبہشت عنبر سرشت سے روئے زمین پر بھیجے گئے۔ اور فراق حضرت حوا میں مبتلا ہو کر مدتوں رویا کیے۔ آخر جب بواسطہ رسول مقبول وآئمہ اطہار دعا کرنا شروع کی۔ تو حضرت حوا علیہ سلام سے ملاقات ہوئی۔ اور آپ کے اولاد ہونا شروع ہوئی۔ اور آپ کو معلوم ہوا کہ اب رب کریم کی عنایات عمیم ہے۔ اور میری اولاد سے دنیا قائم ہو گی۔ اس وقت آپ نے رونا شروع کیا۔ پس حضرت جبرائیل علیہ سلام نازل ہوئے اور بعد سلام کے دریافت کیا کہ اے آدم یہ محل خوشی کا ہے۔ نہ رونے کا۔ آپ نے جواب دیااے جبرائیل میں اس واسطے روتا ہوں۔کہ جس وقت میرا جسم نور سے منور تھا۔اس وقت ابلیس نے مجھے دھوکا دیا۔اور مجھ سے ترک اولیٰ واقع ہوا۔جس کے باعث مورد عتاب الہیٰ ہوا۔ لیکن میری اولاد جن کی پرورش مٹی، پانی، آگ اور ہوا سے ہے۔ یہ تو بدرجہ غایت اس ملعون کے بہکانے سے گناہوں کی مرتکب ہو ں گی۔ اور ان کی عمریں بھی تھوڑی تھوڑی سی ہوں گی۔ سور اس قلیل عمر میں ان کو کامل تجربہ بھی نہ ہو سکے گا۔ اور اس دار فنا سے گناہوں کا بار لیے ہوئے جائیں گے۔کیونکہ ابلیس قیامت تک میری اولاد پر مسلط رہے گا۔ یہ ہے وہ غم جو خوشی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یہ سن کر حضرت جبرائیل نے بحکم رب جلیل کہا کہ اے آدم خدا وند عالمیان فرماتا ہے کہ تیری اولاد سے کوئی گنہگار توبہ کرے گا تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے۔ یہ سن کر حضرت آدم خوش ہو گئے،اور فرمایا کہ اب مجھے اطمینان ہوا۔ لہذا مومنین ہمیں لازم ہے کہ ہر وقت درگاہ خدا میں استغفار کرتے رہیں۔ امید ہے کیسا ہی گنہگار ہو۔ وہ مالک دوجہان اپنے رحم وکرم سے بخش دے گا۔ چنانچہ ایک ایسے گنہگار کے حالات عرض کرتا ہوں۔جس کی بخشش کی امید نہ تھی۔ اور توبہ کرنے اور گناہ اور اعتراف قصور کے سبب جہنم کی طرف جاتا ہوا بہشت بریں کی طرف بھیج دیا گیا۔ وہ گنہگار کون تھا۔ مومنین پر ظاہر ہے۔ جس وقت ابو عبد اللہ الحسین مدینہ منورہ سے سمت کربلا روانہ ہو کر منزل زبالہ میں پہنچے۔اور خبر شہادت حضرت مسلم معلوم ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ اہل کوفہ پر دغا ہیں۔ اور اپنے ہمراہیوں سے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ میرے شیعہ ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ وہ منحرف ہو گئے ہیں۔ اب تم لوگ جہاں چاہو چلے جاو۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ بہت سے ہمراہی اس مظلوم کے جو بغرض حصول دنیا آئے تھے۔ چلے گئے۔ صرف چند اصحاب باوفا جن کا نام محضر شہادت میں درج تھا۔ آپ کے ہمراہ رہ گئے۔ادھر ابن زیاد لعین بد نہاد کو معلوم ہوا کہ امام حسین عازم کوفہ ہیں۔تو اس نے ہزار سوار حر کے ہمراہ روانہ کرکے تاکید کی کہ حسین کو گھیر کر ایسے جنگل میں لے جا کہ جہاں پر سایہ درخت کا نہ ملے۔ اور مجھے خبر دے۔ چنانچہ بموجب حکم ابن زیاد بد نہاد حر مع سواروں کے روانہ ہوئے۔ نظم
اس دن
مسافروں کی جو منزل کا تھا مقام
قصر بنی مقاتل اسے کہتے ہیں عوام
اترے وہاں امام دو عالم قریب شام
کچھ ہٹ کے فوج حر بھی فروکش ہوئی تمام
راحت نہ پائی فاطمہ کے نور عین نے
پچھلے پہر کو کوچ کیا پھر حسین نے
کیوں حضرات حر کا گناہ اس سے زیادہ اور کیا ہوگا ،کہ مظلوم کربلا کو گھیر کر لے جانے کا باعث ہوئے۔مگر انجام توبہ کرکے جناب امام حسین علیہ سلام کی مدد کرنے کے سبب سے جو کچھ ہوا،مومنین پر ظاہر ہے۔ نظم
تائب ہوا حر تو باغ رضواں پایا
گمراہ تھا شب کو صبح کو ایماں پایا
حضرت کے لئے جو گنج وزر کو چھوڑا
جب قتل ہوا گنج شہداں پایا
الغرض جب قصر بنی مقاتل سے امام علیہ سلام نے کوچ فرمایا،اس وقت نظم
آنے لگی امام کو ہاتف کی یہ صدا
منزل بھی اب قریب ہے اے کل کے مقتدا
رستہ ہوا تمام سفر ختم ہو چکا
مقتل کے متصل تجھے لائی تیری قضا
خنجر سے یاں دہم کو کٹے گا گلو تیرا
آیا وہ دشت جس میں بہے گا لہو تیرا
جناب امام حسین علیہ سلام یہ آواز سنتے جاتے تھے۔ کہ وقت صبح قریب آیا۔ آپ نے گھوڑے سے اتر کر نماز ادا فرمائی۔اور سوار ہو کر آگے روانہ ہوئے۔ جس وقت اس مقام پر پہنچے جسے کربلا کہتے ہیں ۔بیت
رتبہ پہ اپنے فخر کیا ارض پاک نے
گھوڑے کے پاوں تھام لیے واں کی خاک نے
دریافت سے جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ زمین نینوا ہے۔ تو ہمراہیوں سے ارشاد فرمایا ۔ نظم
ہاں سالکان راہ خدا روک لو فرس
آپہنچا ابن فاطمہ مقتل پہ اپنے بس
خیمہ بپا کرو اسی صحرا میں پیش وپس
تھی مجھ کو بچپنے سے اسی خاک کی ہوس
چھوڑا وطن کو اب نہیں بستی بسائیں گے
ہر جا سے لوگ یاں کی زیارت کو آئیں گے
امام کا یہ ارشاد سنتے ہی ہر ایک سوار نے گھوڑوں کو روک لیا۔ اس دشت پر آشوب کی وحشت دیکھ کر حضرت زینب بے تاب ہو گئیں۔اور فرمانے لگیں کہ اے بھائی یہ جنگل مجھے خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ کانوں میں گریہ وبکا کی آوازیں آرہی ہیں۔ بہتر ہے کہ یہاں سے کوس دو کوس دور مقام فرمائیں۔ نظم
بولے قریب آکے یہ شبیر خوش خصال
بڑھنا اب اس زمین سے بہن ہے بہت محال
ہر چند یہ زمیں ہے مقام غم وملال
لیکن یہیں رہے گا رسول خدا کا لال
روو نہ تم کہ پاک ومطہر زمین ہے
ہم جس کو ڈھونڈتے تھے وہی سرزمین ہے
الغرض بحکم امام دارین خیمے برپا ہوئے۔ اور اصحاب وانصار جا بجا فروکش ہوئے۔ یہ ماجرا اکثر مورخین نے دوسری تاریخ کا لکھا ہے۔ اور تیسری تاریخ سے فوج یزید پلید کا آنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ تاریخ ہفتم سے فوج یزید لعین نے دریائے فرات پر پہرے بٹھا دیئے۔ اور امام کے خیموں میں پانی کا جانا بند کر دیا۔ آٹھویں تاریخ بھی اسی عالم تشنگی میں گزر گئی۔ راوی لکھتا ہے ۔نظم
روز نہم سکینہ کو تھا سخت اضطراب
بےدم تڑپ کے خاک پہ کہتی تھی آب آب
اصغر کو فرط غش سے ہمکنے کی تھی نہ تاب
پانی تھا غم سے خون جگر بند بوتراب
کچھ منہ سے غیر شکر خدا کہہ نہ سکتے تھے
پیاسے صغیر آنکھوں کے آگے سسکتے تھے
آخر ہوا وہ دن بھی اور آئی دہم کی رات
وہ رات صبح حشر کو جس نے کیا تھا مات
بزم عزا تھا خانہ سردار کائنات
تھے آپ محو طاعت معبود پاک ذات
اشکوں سے چادروں کو بھگوتے تھے اہل بیت
منہ اپنا ڈھانپ ڈھانپ کے روتے تھے اہل بیت
جناب زینب صحن خیمہ میں سر برہنہ دعا فرماتی تھیں،اور کہتی تھیں کہ الٰہی صبح ہونے سے پہلے مجھے اٹھا لے۔ بیت
سارا جہاں سیاہ ہے چشم پر آب میں
سر ننگے میں نے دیکھا ہے اماں کو خواب میں
اللہ اللہ کیا مرتبہ حضرت حر کا ہوا ہے۔ کہ ادھر تو حضرت زینب نے یہ خواب ملاحظہ فرمایا۔اور ادھر حضرت حر نے دیکھا کہ میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک صحرائے ناپید کنار میں گیا ہوں۔ جس وقت وہاں پہنچا تو ایک نعل میرے گھوڑے کا گر گیا۔ میں وہاں پر بہت ہراساں ہوا۔ اس وقت ایک شخص پارسا نے ایک سمت جانے کو اشارہ کیا۔ جب میں اس سمت گیا تو مشاہدہ کیا کہ ایک خیمہ سیاہ استادہ ہے۔ اور ایک عورت با لباس سیاہ میرے پاس آئی اور کہا کہ اے حر خوشا نصیب تیرے کہ تجھ کو جناب فاطمہ زہرا نے یاد فرمایا ہے۔ میں فورا اس کے ساتھ در خیمہ پر پہنچا اور وہ بی بی اندر گئی۔
نظم
بعد اک لحظہ کے وہ صاحب عظمت نکلی
ہاتھ میں اپنے لیے ایک کتابت نکلی
بولی زہرا نے کیا ہے یہ عنایت تجھ کو
پڑھ لے کھل جائے گی سب اس کی حقیقت تجھ کو
اس میں لکھا تھا کہ ہم نے دیا جنت تجھ کو
حر ہے دکھلائیں گے نہ دوزخ کی صورت تجھ کو
پڑھ رہا تھا میں ابھی فخر ومباہات سے خط
لے گیا طائر سبز آکےمرے ہاتھ سے خط
یہ خواب حر نے غوث سے بیان کیا اور کہا
نظم
جب سے اےغوث عجب طرح کی تشویش میں ہوں
کون سا دیکھا مکاں کس سے میں یہ خواب کہوں
میرا انجام ہے کیا،کیا میں کروں کیا نہ کروں
جاوں شبیر کے لشکر میں کہ اس سمت رہوں
یاں کا انجام تو دوزخ ہے ملا زر تو کیا
واں کا انجام ہے فردوس کٹا سر تو کیا
کبھی زوجہ کبھی بیٹے کا خیال آتا ہے
بھائی کا اور غلاموں کا ملال آتا ہے
واں چلا جاوں تو گھر پر بھی زوال آتا ہے
اپنا جب دھیان میں انجام ومآل آتا ہے
قلب واعضائے بدن خوف سے تھراتے ہیں
خود بخود پاوں کچھ اس سمت اٹھے جاتے ہیں
وہ اسی شش وپنج میں کروٹیں بدلتا تھا۔ اور اپنے دل میں سوچ سوچ کر رہ جاتا تھا۔ عجب حیص وبیص کے عالم میں پڑا ہوا تھا۔ نظم
متغیر،متردد،متفکر،بے چین
یہ دعا تھی کہ بچے فاطمہ کا نور العین
تھر تھرا جاتا تھا کرتی تھیں جو سیدانیاں بین
طپش دل کا تقا ضا تھا کہ چل سوئے حسین
صبح اعدا میں نہ شاہ شہدا گھر جائیں
شب کو مل جائے جو خورشید تو دن پھر جائیں
کبھی اٹھا کبھی بیٹھا کبھی ٹہلا وہ جری
گرم آہیں کبھی کیں کبھی کیں سرد کبھی آہ بھری
قلب میں تھی کبھی سوزش کبھی سوز جگری
سخن یاس کبھی لب پہ کبھی نوحہ گری
آل احمد کی بکا سن کے تڑپ جاتا تھا
دم بدم خیمہ سے گھبرا کے نکل جاتا تھا
اس طرف خیمہ میں حر کا یہ حال تھا۔ادھر فوج اعدا کا ہر سپاہی اس کوشش میں تھا کہ کوئی پیاسا لشکر حسین کا دریا پر نہ آنے پائے۔ حضرت حر ان بدشعاروں کے اس انہماک کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہتے تھے کہ کاش حسین کو میں گھیر کر نہ لاتا۔ اسی اثناء میں برادر حر نے بھائی کا یہ حال دیکھ کر عرض کی کہ اے برادر بزرگوار صبح میدان کار زار گرم ہوگا۔ آج آپ نے کچھ آرام نہیں کیا۔ اس کا کیا باعث ہے۔ حضرت حر نے فرمایا کہ نیند آنے کا کون سا محل ہے۔ اہلبیت نبی میں بھوک اور پیاس کی شدت کے سبب تلاطم برپا ہے۔ نظم
وائے غربت عجب آفت میں نبی زادہ ہے
دیکھتا ہوں جسے وہ قتل پہ آمادہ ہے
کیا خبر تجھ کو نہیں کون ہے یہ فیض مآب
پیاس میں جس نے مع فوج پلایا مجھے آب
دشمنوں پر بھی کیا لطف وکرم مثل سحاب
لب پہ جاری تھا پئیں سب کے یہ ہے کار ثواب
آپ پیاسا رہے غیروں کے لئے مشکل ہے
واہ کیا لخت دل فاطمہ دریا دل ہے
کیونکر مجھ کو تردد وتشویش نہ ہو۔ جب پانی پانی کا شور سنتا ہوں۔ غم کھاتا ہوں۔ اور باگ پکڑنا یاد کرکے شرماتا ہوں۔اپنی نادانی پر پچھتاتا ہوں۔مجھے یقین نہ تھا کہ بعوض دعوت کے عداوت ہوگی۔ یہ سن کر برادر حر نے یہ تو سمجھا کہ بھائی کی نیت امام مظلوم کی خدمت میں بار یابی کی معلوم ہوتی ہے۔ مگر صاف صاف نہ سمجھا۔اس واسطے نظم
عرض کی بھائی نے پھر آپ کو کیا ہے منظور
حر نے فرمایا کہ مرنا شہ والا کے حضور
حلہ ء خل دبریں ساغرصہبائے طہور
وصلت حور جناں رحمت حق عفو قصور
تجھ پہ کھل جائے گا اب صبح بھی کچھ دور نہیں
آتش قہر میں جلنا مجھے منظور نہیں
سن کے یہ بھائی سے کہا بھائی نے بسم اللہ
ہم بھی ہمراہ ہیں گر آپ کو سوجھی ہے یہ راہ
اٹھ کے بولا یہ پسر اے پدر عالی جاہ
ایسا مرنا تو حیات ابدی ہے واللہ
عمو عباس دلاور پہ فدا ہوئیں گے
ہم جناب علی اکبر پہ فدا ہوئیں گے
جس وقت کہ حضرت حر ان کے بھائی اور بیٹے میں یہ باتیں ہوئیں۔ غلام نے سوچا کہ میں راہ ضلالت میں فرقہ ناہنجار کے ہمراہ کیوں رہ جاوں ،پھر نظم
جوڑ کر ہاتھ کیا خادم حر نے یہ کلام
صدقہ ہوئے گا غلام شہ والا پہ غلام
سب کا منہ دیکھ کے بولا یہ حر نیک انجام
رہیو اس قول پہ قائم کہ یہ عقبیٰ کا ہے کام
گر وہ چاہے گا تو منزل پہ بہم ہوئیں گے
آج دوزخ میں ہیں کل خلد میں ہم ہوئیں گے
الغرض تمام رات ان چاروں پنجتنی میں یہی مذکور رہا۔ نہ کوئی سویا نہ کھایا پیا۔ ناگہاں اسی ذکر میں آثار صبح نمایاں ہوئے۔ بیت
چرخ پر صبح کی نوبت کی صدا جانے لگی
فوج اسلام سے اذاں کی آواز آنے لگی
نور پھیلا ہوا وہ صبح کا وہ سرد ہوا
بہتے دریا کی وہ لہریں وہ بیاباں وہ فضا
بلبلوں کے چہکنے کی خوش آئند صدا
کہ نسیم آئی دبے پاوں کبھی باد صبا
حکم تھا دونوں کو سبزے کی ہوا داری کا
فرش تھا چاروں طرف مخمل زنگاری کا
باغ زہرا ومحمد کی ادھرتھی خوشبو
گل سے رخ سرد سے قد سنبل تر سے گیسو
آنکھیں نرگس کے کٹورے در شبنم آنسو
سبزہ آغاز کسی کا تو کوئی آئینہ رو
یاں کی خوشبو جو گزر جاتی ہے گلزاروں سے
بلبلیں پھول گرا دیتی ہیں منقاروں سے
گل کہاں اور کہاں نکہت بستان رسول
مختصر بھی جو عرض کروں تو ہو جائے گا طول
دیکھ کر راستی تازہ نہالان بتول
فاختہ سرو سے شمشاد سے قمری ہو ملول
باغ زہرا میں جو دم بھر بھی رسائی ہو جائے
تا قیامت گل وبلبل میں رسائی ہو جائے
وقت وہ ہے کہ شگفتہ ہیں گل راز ونیاز
صبح صادق ہے قضا ہو نہ کہیں وقت نماز
لائے سجادے پہ تشریف شہنشاہ حجاز
عقب شاہ صفیں باندھ کے آئے جانباز
طالب خواب اجل رات کے جاگے ہوں گے
ابھی پیچھے ہیں لڑائی میں سب آگے ہوں گے
الغرض بعد فراغت نماز ہر ایک جرار نے دیکھا کہ پردہ ہائے حجاب نظروں سے اٹھ گئے ہیں۔ اور اپنے اپنے مقام بہشت عنبر سرشت میں ملاحظہ کیے۔اور حوران بہشتی غرفوں سے جھانکتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ اور آب کوثر کی نہریں سامنے لہریں مارتی ہوئیں معائنہ کیں۔ پس روایت ہے نظم
خوش تھے سب دیکھ کے جنت کے درختوں کی بہار
پھول دیکھے تو خوشی سے ہوئے چہرے گلنار
ہاتھ اٹھ جاتے تھے جھکتی تھیں جو شاخیں ہر بار
جان شیریں تھی ٹپکتے ہوئے میووں پہ نثار
شربت قند مکرر کا مزہ پاتے تھے
دور سے دیکھ کے لب بند ہوئے جاتے تھے
مسکرا کر شہ والا نے کہا کیا دیکھا
سب پکارے ثمر الفت مولا دیکھا
جیتے جی گلشن فردوس کا جلوہ دیکھا
اپنے گھر دیکھ لیے سایہ طوبیٰ دیکھا
دیر ہے کس لئے مرنے میں ہمارے مولا
جان ودل لے گئے حوروں کے نظارے مولا
یہ سن کر جناب امام مظلوم مصلے سے اٹھے اور فرمایا کہ تم لوگ تیار ہو جاو۔ میں بھی خیمہ میں جا کر پوشاک تبدیل کر آوں۔ اپنے آقا کے ارشاد کے مطابق اس طرف ہر ایک یاور وناصر اپنے تئیں مسلح کرنے لگا۔ اور جناب امام حسین علیہ سلام خیمہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ جناب زینب علیہ سلام جائے نماز سے اٹھ کر سر برہنہ درگاہ خدا وندی میں باگریہ وزاری دعا کرتی ہیں۔کہ اے رب الارباب میرے بھائی کو سلامت رکھنا۔پنجتن میں اب صرف ایک حسین کا دم ہے۔ جس وقت جناب امام حسین نے جناب زینب کو نہایت مضطر وبےقرار دیکھا نظم
چھاتی سے بس بہن کو لگا کر کہی یہ بات
زینب مجھے خبر ہے کہ روئی ہو ساری رات
حاصل ہے اس سے کیا کہ یہ دنیا ہے بے ثبات
موت آئے گی ضرور اسے جو ہے ذی حیات
ماں کو پدر کو بھائی کو ہاتھوں سے کھو چکیں
تم تو کئی بزرگوں کو اس گھر میں رو چکیں
سر کو پٹک پٹک کر نہ ہر دم ہو نوحہ گر
مر جاوگی تو اور بھی برباد ہو گا گھر
تھامے کون روئیں گے بچے جو بے پدر
بیٹھے کون ماتمی صف پر برہنہ سر
ذی رتبہ ہو بتول کی نازوں کی پالی ہو
تم ہم سے بے کسوں کی بہن رونے والی ہو
آہ حضرات جس وقت یہ کلمات حسرت ویاس کے حضرت زینب نے زبان مبارک جناب امام حسین علیہ سلام سے سماعت فرمائے تو آپ دعا فرما رہی تھیں نظم
زینب سر اپنا پیٹ کے بولی یہ ایک بار
واحسرتا کہ مر نہ گئی میں جگر فگار
میرے ہی تھا نصیب میں ہے ہے یہ کاروبار
ماتم میں سب کی رووں بنوں سب کی سوگ وار
غربت میں جب سفر میرا دنیا سے ہووئے گا
رونا تو اس کا ہے کہ مجھے کون روئے گا
سن کر یہ حال روتے تھے شبیر زار زار
منہ پیٹتی تھی سامنے بانوئے دل فگار
سمجھاتے تھے حسین کہ اے میری غمگسار
رخصت یہ آخری نہیں پیٹو نہ بار بار
لاشیں اٹھا اٹھا کے عزیزوں کی لائیں گے
خیمہ میں ہم ابھی تو کئی بار آئیں گے
فرما کے یہ سکینہ کے چہرے پہ کی نگاہ
بولے کہ آ گلے سے لگ اے میری رشک ماہ
لپٹی جو آکے باپ سے بیٹی بااشک وآہ
منہ رکھ کے منہ پہ رونے لگے شاہ دیں پناہ
فرماتے تھے نہ پیاس میں تو اشک بار ہو
ان سوکھے سوکھے ہونٹوں پہ بابا نثار ہو
بولی زبان خشک دکھا کر وہ تشنہ لب
بابا ہمارا پیاس سے ہونٹوں پہ دم ہے اب
اتنا تو مجھ سے کہیئے کہ پانی ملے کب
فرمایا شہ نے خلد میں ہم جا چکیں گے جب
رکھیو خیال فاطمہ کے نور عین کا
تم پانی پیجیئو فاتحہ دے کر حسین کا
یہ فرما کر بچشم تر بیٹی کو خاک پر بٹھا دیا۔ اور عمامہ رسول خدا سر پر باندھا عبائے حیدر کرار پہن کر اسلحہ جنگ آراستہ کیا۔ اور بھائی، بھتیجے اور بھانجوں کے ہمراہ خیمہ سے باہر تشریف لائے۔
حال یہ دیکھ کر غش کھا کے گری زینب زار
واحسینا کی ہوئی آل محمد میں پکار
پس جناب امام حسین علیہ سلام نے حضرت زینب کو تشفی ودلاسہ دیا اور فرمایا کہ اے بہن تم صابرہ کی بیٹی ہو۔ تم کو صبر کرنا چاہیئے۔ نظم
اشک خوں چشم مبارک سے گرے بہہ بہہ کر
بس چلے آپ خدا حافظ وناصر کہہ کر
دیر سے تھی دردولت پہ سواری موجود
بڑھ کے گھوڑے پہ چڑھے جلد امام ذی جود
غل شہنشاہ سلامت کا ہوا شور ورود
وہ سواری کا تحمل وہ جوانوں کی نمود
تا بہ میداں جفا ظل خدا میں پہنچے
نکہت گل کی طرح دشت وغا میں پہنچے
آگیا جوش وغا شاہ کے غم خواروں کو
سینہ تن تن کے رکھا دوش پہ تلواروں کو
غیظ سے تکنے لگے سرداروں کو
سب نے چاہا کہ بڑھا دیجیئے راہواروں کو
پاس ادب سے ہر صاحب شمشیر رکے
سامنے آگئے عباس تووہ شیر رکے
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے اس قلیل لشکر کو آراستہ کیا۔لشکر خدا کا علمدار حضرت عباس کو مقرر فرمایا۔میمنہ کا سردار پسران حضرت مسلم کو مقرر فرمایا۔اور میسرہ حبیب ابن مظاہر کو عنایت فرمایا۔ اسی دوران پسران حضرت مسلم نے صف راست سے گھوڑے بڑھا کر اجازت جنگ چاہی۔ اور عرض کی کہ اے عم بزرگوار ہمارے پدر نامدار سب سے پہلے آپ پر نثار ہوئے۔غلاموں کی خواہش بھی یہی ہے کہ اس میدان کارزار میں ہم بھی سب سے پہلے اپنی جانیں حضور کے قدموں پر نثار کریں۔ تاکہ امام کے ہراول لشکر مشہور ہوں۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ میں تمہارے باپ کی شہادت سے شرمندہ ہوں۔ اب مجھ کو زیادہ محجوب نہ کرو۔ اے نور دیدگان یہ عہدہ ہراولی باقی نہیں رہا۔ اس عہدے پر میری مادر گرامی فاطمہ زہرا نے اور پدر بزرگوار علی مرتضیٰ نے ایک شخص کو مقرر فرمادیا ہے۔ جو عنقریب داخل لشکر ہونے والا ہے۔ یہ سن کر تمام اصحاب باوفا،عزیز ورفقا متحیر ہوئے۔اس طرف تو یہ حال تھا۔اور اس طرف عمر سعد لعین نے اپنے لشکر کی صفیں جما کر تمام اہل کوفہ کو علیحدہ کیا۔اور ان کی حفاظت کے لئے اشعث بن موصلی کو مقرر کیا۔اور میمنہ لشکر ضلالت اثر کا اپنے بیٹے حفص کو جو اس شریر کا وزیر تھا۔مع تیس ہزار شامیان زرہ پوش کے سپرد کیا۔ اور ضحاک ابن قیس وسعد بن عبداللہ وغیرہ سرداروں کو بتیس ہزار سوار کے ساتھ میسرہ پر مقرر کیا۔ اور باقی ملاعین کو قلب لشکر میں ترتیب سے باقاعدہ کھڑا کرکے اپنے غلام ولید کو ان سب کا نگران مقرر کیا۔اور شمر ذی الجوشن کو نقیب کرکے مستعد کارزار ہوا۔ اس وقت نظم
چاوش صدا دینے لگے فرج میں اکبار
ہاں غازیو شاباش رہو رزم میں تیار
ثابت قدموں گھاٹ سے دریا کے خبردار
دو دن سے ہے پیاسا خلف حیدر کرار
یہ آب محمد کے نواسے کو نہ پہنچے
اس نہر کا پانی کسی پیاسے کو نہ پہنچے
جب اس طرح صفیں لشکر کی آراستہ وپیراستہ ہو چکیں نظم
بولا کمان کشوں سے ابن سعد بے ادب
برساو شہ پہ تیر ستم دیر کیا ہے اب
کج باز لیس ہوگئے خونریزیوں پہ سب
چلایا حر یہ پیٹ کے زانو کو ہے غضب
ظلم اے امیر روح رسالت پناہ پر
کرتا ہے خون سبط نبی کس گناہ پر
تیروں کا رخ جدھر ہے نبی کا ہے یہ پسر
جس کو ہدف بنایا ہے زہرا کا ہے جگر
بجلی گرے نہ تجھ پہ کہیں قہر حق سے ڈر
ہٹ جاوں میں تو پیاسے سے لڑنا ابھی ٹہر
آگے مرے نہ ظلم ہو اس تشنہ کام پر
دیکھوں نہ تیر پڑتے ہوئے میں امام پر
ابھی ابن سعد اور حر نیک نام میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ جناب امام حسین لشکر ظفر پیکر سے ذوالجناح کو مہمیز فرما کر اعدائے بد شعار کی جانب روانہ ہوئے۔اس وقت جمیع اصحاب وانصار مضطربانہ دوڑ کر قدوم میمنت لزوم پر گرے۔ اور عرض کی کہ یا مولا کیا آپ نے اس واسطے ہراول لشکر مقرر فرمایا تھا کہ سب سے پہلے جنگ کا ارادہ آپ فرمائیں۔ ہم لوگ فردائے قیامت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول خدا اور علی مرتضےٰ اور فاطمہ زہرا اور حسن مجتبیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اور کس دن کام آئیں گے۔ بیت
شہ نے فرمایا کہ جاتا نہیں میں کرنے جدال
مجھ کو لازم ہے کہ مہماں کا کروں استقبال
یہ سن کر تمام انصار خاموش ہو گئے۔اور امام مظلوم بمقابلہ صفوف لشکر ناہنجار مع حضرت عباس تشریف لا کر اس طرح زبان فیض ترجمان سے گویا ہوئے۔ کہ اے لشکر یزید تم میں سے وہ کون شخص ہے کہ شب کو عالم رویا میں بہشت عنبر سرشت کی سیر کی۔اور سبزہ ہائے بہشت سے آب نوشی کا وعدہ کیا ہے۔ آنحضرت کا یہ کلام سن کر جناب حر نے اپنے بھائی اور غلام کو دیکھا اور ارشاد کیا کہ دیکھو فرزند رسول رات کا حال گویا چشم دید بیان کر رہے ہیں۔ نظم
سن کے
کانپا تن حر اور پکارا واللہ
جس کو مرنا ہو وہ اس دم مرے آئے ہمراہ
اک غلام ایک پسر ایک برادر ذی جاہ
چاروں نے باگیں اٹھائیں طرف لشکر شاہ
غل ہوا حر طرف لشکر دیں جاتا ہے
بولا ہاتف کہ سوئے خلد بریں جاتا ہے
جس وقت حضرت حر لشکر ناری سے نکل کر دریائے نور کی طرف روانہ ہوئے۔ نظمحر
کا لشکر سے نکلنا تھا کہ چلنے لگے تیر
اک تلاطم ہوا اس طرح بڑھی فوج کثیر
نہ رکے پر کہیں شیدائے جناب شبیر
گر پڑا وہ جسے چمکا کے دکھائی شمشیر
ہاتھ آئے نہ شریروں کے سوئے خیر گئے
دم میں فولاد کے دریا کو جری پیر گئے
جس وقت کہ امام مظلوم نے حر کو مع اس کے بھائی ،بیٹے اور غلام کے آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا، حضرت عباس سے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی جلد آگے بڑھو ایسا نہ ہو کہ میرا مہمان راستے میں مجروح ہو۔ نظم
سن کے فرمان گل گلشن شہ لولاک
یاں سے عباس چلے واں ہوا پیدل حر پاک
ڈاب میں تیغ دو دم رکھ کےگریبان کیا چاک
ننگے سر ہوگیا اور منہ پہ ملی دشت کی خاک
باندھ کر ہاتھ کہا قابل آزادی ہوں
رحم فرمایئے مولا کہ میں فریادی ہوں
ہاتھ پھیلا کے بڑھے جلد جناب عباس
ہنس کے فرمایا کہ آ ہم سے مل اے قدر شناس
تھرتھراتا ہے یہ کیوں اب تجھے کیا ہے وسواس
وہ جواں جوڑے ہوئے دست ادب آیا پاس
سرنگوں پائے مبارک پہ جو پایا اس کو
بازوئے شاہ نے چھاتی سے لگایا اس کو
پھر یہ فرمایا بصد لطف کہ اے مرد سعید
تیرے آنے کی عجب سبط پیمبر کو ہے عید
وہ خوش ہیں تو بے شبہ خوش رب مجید
تجھ سے منہ موڑے رہیں رحمت مولا سے بعید
چل قدم بوس ہو الحاح کر اور زاری کر
قافلہ چلنے پہ ہے کوچ کی تیاری کر
عرض کی حر نے کہ ہاں آپ اگر چاہیں گے
اوج بلبل کا نہ کیوں کر گل تر ہوجائیں گے
وہی ہوگا جو شہ جن وبشر چاہیں گے
وہی لے جائیں گے محشر میں جدھر چاہیئں گے
اب تو میں بندہ بے دام مدام ان کا ہوں
خلد میں جاوں کہ دوزخ میں غلام ان کا ہوں
یہ تو فرمایئے سن کر میرے آنے کی خبر
سب سے فرماتے تھے کیا بادشاہ جن وبشر
کہا عباس نے تاکید ہے یہ ہر اک پر
کوئی روکے نہ کہ آتا ہے میرا دوست ادھر
تم اسے پاس شہنشاہ امم کے لاو
مجھ کو بھیجا ہے کہ سایہ میں علم کے لاو
یہ خبر فرحت اثر سن کر حر مسکرائے اور اپنے بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ دیکھو پسر حیدر کرار محمد کا نور عین کیسا با شرف ہے ،کہ ہنوز ہم نے خدمت میں پہنچ کر عفو تقصیر نہیں کرائی،اور یہ اعزاز کونین بخشا نظم
میں کہاں اور کہاں ابر کرم کا سایہ
مجھ سے خاطی پہ محمد کے علم کا سایہ
کہہ کے یہ فوج خدا میں حر جرار آیا
جنس آمرزش عصیاں کا طلب گار آیا
دی صدا اے میرے مولا یہ سیہ کار آیا
باگ کو ہاتھ لگانے کا گنہگار آیا
جس کی دست درازی اسے کم کر ڈالے
کہیئے خادم سے میرے ہاتھ قلم کر ڈالے
دے سزا مجھ کو میں حاضر ہوں شہنشاہ میرے
ساتھ ہیں حضرت عباس فلک جاہ میرے
توبہ کرتا ہوں گناہ بخشیئے للہ میرے
اب میں گمراہ نہیں اے خضر راہ میرے
جس نے خدمت میں کمی کی ہے وہی خادم ہوں
چار آنکھیں نہ کروں گا بہت نادم ہوں
مومنین ابتدا میں جو میں نے عرض کیا ہے کہ توبہ کرنے سے گناہان گزشتہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ملاحظہ ہو حر کی گزارش کے ساتھ ہی نظم
بولے حضرت کہ ید اللہ کو پیارے ہیں یہ ہاتھ
جب ہوا قوت بازو تو ہمارے ہیں یہ ہاتھ
اے برادر ید قدرت کے سنوارے ہیں یہ ہاتھ
تونے افسوس سے زانو پہ جو مارے ہیں یہ ہاتھ
اب سردست یہ عقدے تجھے کھل جائیں گے
جام کوثر کے ابھی دست بدست آئیں گے
یہ فرما کر جناب امام حسین علیہ سلام نے آگے بڑھ کر حضرت حر کو چھاتی سے لگایا۔اور حر کے بیٹے کو حضرت علی اکبر نے گلے سے لپٹا لیا۔ اس وقت حر نے قدوم میمنت لزوم پر شاہ کے سر جھکا دیا اور بیٹے نے نعلین حضرت علی اکبر پر بوسہ دیا۔ پھر حضرت امام حسین علیہ سلام نے دعا فرمائی کہ پالنے والے اس کو بخش دے، بیت
قابل نار جہنم گل شاداب نہیں
حر ہے یہ آگ میں جلنے کی اسے تاب نہیں
یہ سن کر حضرت حر خنداں وشاداں دست بستہ عرض کرنے لگے کہ اے آقا میدان کار زار کی اجازت دیجیئے۔ بیت
تازہ خادم ہوں رضا دیجیئے ممتاز ہوں میں
جلد خلعت شہادت سے سرفراز ہوں میں
حضرت حر رخصت کی اجازت لے رہے تھے کہ حضرت زینب نے فضہ کو بھیج کر خیمہ کے قریب بلایا اور فرمایا کہ اے حر رحمت خدا تجھ پر کہ تونے میرے بھائی کی پاس داری کی۔ تو ہمارا مہمان ہے مگر نظم
تجھ پہ مخفی نہیں ہفتم سے جو کچھ ہے میرا حال
راہیں ہر سمت کی روکے ہوئے ہیں بد افعال
قحط پانی کا ہے اس دشت میں ہے مجھ کو ملال
نان جو کا بھی ہے ملنا کسی قریہ میں محال
ہم کو ایذا عوض آب وغذا ملتی ہے
دودھ اصغر کو نہ عابد کو دوا ملتی ہے
پھر کہا اس سے کہ دشوار ہے فرقت تیر ی
مجھ کو مر کر بھی نہ بھولے گی محبت تیری
وا دریغا ہوئی کچھ مجھ سے نہ خدمت تیری
خیر ہو جائے گی فردوس میں دعوت تیری
آج رتبہ تیرا خیل شہدا میں ہو گا
شب کو تو صحبت محبوب خدا میں ہوگا
حر نے گزارش کی کہ اے فضہ میری شاہزادی کی خدمت میں میری جانب سے عرض کرو،کہ میں نے آپ کی جناب سے ایمان پایا۔اعزاز پایا ۔دعوت کیا چیز ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ مجھ کو بہشت عنبر سرشت عطا کر چکی ہیں۔ نظم
یہ نہ فرمایئے ہوتی ہے خجالت مجھ کو
آج دعوت میں ملی نعمت جنت مجھ کو
بعد ازاں عرض کی شبیر سے یا سبط نبی
اذن دیجیئے کہ فدا ہونے کو جائے فدوی
شہ نے فرمایا کہ مہماں ہے مرا ٹھہرا ابھی
اور جائے گا کوئی یاں سے نہ کر تو جلدی
عرض کی اس نے اجازت دو کہ بے کل ہوں میں
دوستی پہلے کروں دشمن اول ہوں میں
الغرض جب حر کا اصرار حد سے زیادہ ہوا،ناچار سید ابرار نے اجازت میدان عطا فرمائی۔ بعد حصول اذن پیکار حر نامدار گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ کے ہمراہ نظم
نیزے تانے ہوئے گھوڑوں پہ ادھر بھائی پسر
اور غلام حبشی مرکب مشکی پہ ادھر
سایہ کی طرح عقب میں تھا کبھی نیک سیر
سامنے تھا کبھی سردار کے مانند سیر
دل میں کہتا تھا کہ ٹکڑے ہوں میں شمشیروں سے
میرا آقا کہیں مجروح نہ ہو تیروں سے
تھم کے بھائی سے کہا حر نے علم کر تلوار
جا سوئے میمنہ فوج اڑا کر رہوار
حکم پیکار کا خادم کو دیا سوئے یسار
کہا بیٹے سے تو قلب میں جا اے دلدار
مضطرب ہوں میں کہ نرغہ ہے میرے سرور پر
میں نے قربان کیا تجھ کو علی اکبر پر
یہ سن کر وہ تینوں جرار برائے پیکار بڑھے۔اور بہت سے اشقیا کو شمشیر آبدار سے فی النار کیا۔ یہ لڑائی دیکھ کر حضرت عباس اور علی اکبر تحسین وآفرین فرماتے تھے۔ اور حضرت حر اپنے غلام سے آفرین کہتے تھے۔ نظممر گئے
فوج سے لڑ بھڑ کے جو وہ نیک سیر
غم سے خوں ہو گیا اس دم حر غازی کا جگر
لاش بیٹے کی جو دیکھی تو کہا رو رو کر
سہل اس راہ میں ہے جو ہو مصیبت مجھ پر
اپنے محسن کا فراموش نہ احساں کرتا
سو پسر ایسے جو ہوتے تو میں قرباں کرتا
جناب امام حسین علیہ سلام نے چند قدم بڑھ کر فرمایا کہ اے میرے مہمان وفاداری کا حق خوب ادا کیا۔ لیکن برائے خدا ضبط نہ کر۔لاش پسر پر رو رو کر بخار دل نکال لے۔ نظم
ہو گا ہر طرح وہ تقدیر میں جو ہونا ہے
ہم کو بھی لاشہ اکبر پہ یونہی رونا ہے
تونے جس طرح سہا اپنے جواں بھائی کا غم
ہم کو بھی ہوگا اسی طرح برادر کا الم
عرض کی حر دلاور نے بادیدہ نم
حق وہ ساعت نہ دکھائے مجھے یا شاہ امم
صدقے ہو جاوں میں اس میں ہے سعادت میری
اب دعا کیجیئے کہ ہو جلد شہادت میری
حر یہ گزارش کرکے لشکر گمراہ سے لڑتے بھڑتے خیمہ عمر سعد میں پہنچے۔یہ حال دیکھ کر عمر سعد خیمے میں چھپ گیا۔ اور تمام فوج تہہ وبالا ہو کر دہائی حسین کی دینے لگی۔ آقا نامدار کا اسم گرامی سنتے ہی: ابیات
مڑ کر یہ شاہ دیں کو پکارا وہ نیک نام
ہوتا ہے اب غلام کو کیا حکم یا امام
برہم ہوئی صفیں سپہ پر غرور کی
دیتے ہیں اب یہ لوگ دہائی حضور کی
امام حسین علیہ سلام نے بڑھ کر آواز دی کہ مرحبا اے حر اب ہاتھ روک لے۔ بھاگے ہووں کا مارنا شیر کا کام نہیں،یہ دنیا جائے آرام نہیں۔ شیر خدا تیری راہ دیکھتے ہیں۔ تشنگی سے تیرے حواس معطل ہیں۔ اب جام شہادت نوش کر،شیر خدا سے جا کر کوثر کا جام لے۔ حضرت حر ابھی آقا نامدار کا یہ ارشاد سن رہے تھے کہ آہ واویلا نظم
دل پہ نیزہ کسی خون خوار نے بڑھ کر مارا
ایک نے سر پہ تبر ایک نے خنجر مارا
نیزہ اک حلق پہ مارا کہ رکا سینہ میں دم
بند آنکھیں ہوئیں منہ کھل گیا گردن ہوئی خم
رکھ دیا ہرنے پہ سر نکلے رکابوں سے قدم
خاک پہ گر کے پکارا وہ کہ یا شاہ امم
آیئے جلد کہ سر تن سے جدا ہوتا ہے
آپ کا بندہ آزاد فدا ہوتا ہے
گوش فرزند نبی میں جو یہ آواز آئی
رو کے عباس کو چلائے کہ دوڑو بھائی
جاں بلب ہے پسر فاطمہ کا شیدائی
کہہ دو اکبر سے کہ مہماں نے شہادت پائی
حق ادا کر گیا غازی میری غم خواری کا
اب چلو وقت ہے حر کی مدد گاری کا
یہ سن کر حضرت امام حسین علیہ سلام حضرت حر کی طرف پا پیادہ دوڑے۔ اور حضرت عباس بھی اس شہید کے پاس پہنچے،بیتخوں
بھری آنکھوں میں دم حر کا اٹکتے دیکھا
پہنچے شبیر تو مہماں کو سسکتے دیکھا
دیکھ یہ زانوئے اقدس پہ رکھا سر اس کا
اپنے رومال سے پونچھا رخ انور اس کا
واہ رے مرتبہ اللہ رے مقدر اس کا
عرش اعلےٰ سے بھی پایہ ہوا برتر اس کا
دار فانی سے گزرنا ہو تو ایسے ہووئے
بعد جینے کے جو مرنا ہو تو ایسے ہووئے
عالم غش میں جو آنکھ اس نے نہ کھولی تا دیر
رکھ کے منہ ماتھے پہ چلائے یہ عباس دلیر
آ ذرا ہوش میں اے صاحب شمشیر اے شیر
رہبر دیں پہ نظر کر ابھی آنکھوں کو نہ پھیر
منزلیں طے یہ اسی آن ہوئی جاتی ہیں
سب تیری مشکلیں آسان ہوئی جاتی ہیں
مرحبا اے حر تیرے سرہانے سردار جناں کھڑے ہیں۔ اب نار جہنم کا کیا ڈر؟
اسی اثنا ء میں چہرے مبارک سے پسینے کے قطرے رخ حر پر ٹپکے۔ فورا آنکھیں کھول دیں۔ اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے مہمان نیم جان کیا حال ہے۔ اس نے عرض کی ،نظم
کیا شرف پائے ہیں اے بادشاہ جن وبشر
آپ زانوئے مبارک پہ لیے ہیں میرا سر
یہ محمد یہ علی ہیں یہ جناب شبر
مجھ سے اک حر یہ فرماتی ہے بادیدہ تر
ناقہ نور وہ آیا وہ عماری آئی
بند کر آنکھوں کو کہ زہرا کی سواری آئی
کیوں عزادارو ہوا جس بی بی کا یہ عزو وقار
بیٹیاں اس کی کھلے سر ہوں میان بازار
تخت پر فخر سے بیٹھا ہو یزید غدار
بے ردا سامنے ہو آل رسول مختار
تپ میں محبوس بلا عابد دل خستہ ہو
دختر فاطمہ بلوئے میں رسن بستہ ہو
الغرض حضرت حر کو غش آگیا،اور تھرتھرا کر آنکھ کھول دی۔ ملک الموت قریب جسم مطہر آئے، حر ہچکیاں لینے لگے۔ جناب امام حسین نے فرمایا کہ اے ملک الموت یہ میرا مہمان ہے۔ اس پر موت کی سختی نہ ہونے پائے۔ مجھ کو صدمہ جانکاہ ہے۔ یہ سن کر حر نے عرض کی کہ مولا اسی طرح بوقت سوال منکر نکیر مدد فرمایئے۔ یہ سن کر جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا نظم
کچھ نکرین کا ڈر تجھ کو نہ کچھ خوف عذاب
ہم بتائیں گے تجھے ان کے سوالوں کے جواب
جتنے عصیاں ہیں تیرے ہوں گے مبدل بہ ثواب
قبر میں دامن مادر کی طرح کیجیئو خواب
حشر کے روز بھی چھٹنے کا نہیں ساتھ تیرا
دیکھنا ہو گا مرے ہاتھ میں واں ہاتھ ترا
ابھی روتے تھے یہ فرما کے امام دوجہاں
ناگہاں کھنچ کے تن حر سے نکلنے لگی جاں
یا حسین ابن علی کہہ کے کراہا وہ جواں
آنکھیں پتھرا گئیں آنسو ہوئے چہرے پہ رواں
بس کہ صدمہ تھا جدائی کا دل مضطر پر
مر گیا رکھ کے وہ منہ کو قدم سرور پر
لاش پر اپنی عبا ڈال کے رونے لگے شاہ
روح زہرا کی صدا آئی کہ انا للہ
مر گیا عاشق فرزند رسول ذی جاہ
اس وفا دار کا ماتم کرو با نالہ وآہ
اپنے فرزند کے غم خوار کی غم خوار ہوں میں
مجھ کو پرسا دو کہ مہماں کی عزادار ہوں میں
اہلبیت نبوت سے کوئی کہہ دے جا کر
مر گیا میرا پسر روو اسے پیٹ کے سر
بیبیو خاک اڑاتی ہوں میں لاشہ پہ ادھر
بے کفن دیکھ کے مظلوم کو پھٹتا ہے جگر
جان دی اس نے مرے غنچہ دہن کے بدلے
دوں گی میں حلہ فردوس کفن کے بدلے
در خیمہ سے یہ دی شاہ کو صدا فضہ نے
لاش حر ڈیوڑھی پہ لے آیئے یا شاہ ہدا
حرم پاک میں ہے دیر سے سامان عزا
اپنے سر کھولے ہوئے بیبیاں کرتی ہیں بکا
اس طرح خواہر سلطان زمن پیٹتی ہیں
جس طرح بھائی کے ماتم میں بہن پیٹتی ہے
آقا سے اب وزیر کی ہر دم ہے یہ دعا
حر کر دے مجھ کو نار سے جس طرح حر ہوا
Monday, August 16, 2010
دسویں مجلس شہادت پسران حضرت مسلم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دسویں مجلس پسران حضرت مسلم کی شہادت
آتا ہے جو کہ پیش بشفقت یتیم سے
آزاد ہے وہ گرمی نارجحیم سے
مومنین جائے فخر ومباہات ہے کہ ہم کو پروردگار عالمیان نے ایسے پیغمبر کی امت میں پیدا کیا، کہ جس کا مثل کوئی پیغمبر نہیں ہوا۔ باوجود اس عظمت وشوکت کے آپ اس قدر حلیم ورحیم تھے ۔چنانچہ کتب معتبرہ میں لکھا ہے کہ آپ نے ایک کم سن یتیم بچے کی پرورش کی تھی۔ اور وہ نہایت شوخ وشریر تھا۔ مگر پیغمبر خدا نے اسے کبھی سختی سے نصیحت نہ فرماتے تھے۔ اتفاقا بحکم رب جلیل اس یتیم نے قضا کی تو آپ بہت روئے۔اور کھانا تناول نہ فرمایا ۔کیونکہ وہ یتیم ہمیشہ آپ کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اصحاب نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ہم کوئی دوسرا لڑکا حاضر کریں۔ارشاد فرمایا آپ نے کہ تم نہیں جانتے منزلت پرورش یتیم کی۔ وہ لڑکا یتیم تھا ۔جس وقت کہ میں اس کی ناز برداری کرتا تھا۔ تو میرا پروردگار مجھ سے بہت خوش ہوتا تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص شفقت سے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے،تو جس قدر بال اس کے ہاتھ کے نیچے آجائیں گے۔خدا وند کریم ان بالوں کی تعداد کے برابر فرشتے پیدا کرتا ہے۔ اور حکم دیتا ہے کہ استغفار کرو میرے اس بندے کی طرف سے،کہ اس نے یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا ہے۔ جس کے سر پر سایہ پدر نہیں ہے۔ چنانچہ کتب معتبرہ میں وارد ہے کہ رواج دین کے لئے کفار سے جس قدر جہاد کا اتفاق ہوا۔ اور مشرکین ایمان نہ لانے کے سبب تہہ تیغ ہوئے۔ اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے لشکر اسلام کے ہاتھ آئے ۔ ان سب کو ان کی ماوں کے سپرد کر دیا گیا۔ اور جن کا وارث نہ ملا۔ آنحضرت خود ان کی خبر گیری مثل اولاد کے فرماتے تھے۔ اور اسی طرح حدیث میں وارد ہے کہ آپ کے یہاں جو کوئی مہمان آتا ،تو آپ تحفہ سے تحفہ غذا کھلاتے تھے۔چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک دفعہ جناب امیر نے مہمان کے واسطے مکان بہشتی اپنا بیع کیا۔ اور کھانے کھلانے اور مسافر نوازی وسخاوت آپ کی مثل آفتاب وماہتاب کے روشن ہے۔بیان کی حاجت نہیں۔ لیکن حضرات مقام غور ہے کہ جناب رسول خدا وعلی مرتضیٰ کی مرحمت وسخاوت کا تو یہ حال تھا کہ وہ حضرت مہمانوں کی خاطر داری اور مہمانان ومسافر نوازی میں کوئی شے عزیز نہیں رکھتے تھے۔ آہ واویلا رونے اور سر پیٹنے کا مقام ہے کہ حضرت مسلم علیہ سلام کی شہادت کے بعد آپ کے دونوں شہزادے تنہا بے پدر کے رہ گئے۔ تو ہر طرف سے واجب الرحم تھے۔یعنی اس سبب سے کہ کوفیان پر دغا نے خط تحریر کرکے امام مظلوم کو بلایا تھا۔ اور آپ نے اپنے بھائی حضرت مسلم کو بطور وکیل بھیجا۔ اور یہ دونوں صاحب زادے ہمراہ تھے۔ تو گویا اس گروہ اشقیا کے مہمان تھے۔ کہ آپ کا وطن مدینہ کوفہ سے دور تھا۔ تیسرے وہ بچے یتیم تھے۔عالم غربت میں ان کے سروں سے باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ حضرت مسلم کو ظالموں نے خود شہید کر دیا تھا۔ اور وہ صاحب زادے چنداں ہوشیار بھی نہ تھے۔ نظم
بچے بھی وہ بچے کہ جو کبھی نکلے نہ گھر سے
ماں جن کو نہ اک آن جدا کرتی تھی خود سے
نے راہ سے واقف نہ ایذائے سفر سے
وہ چھٹ گئے کوفہ میں پہنچتے ہی پدر سے
زخمی تبر وتیر سے جب ہوتے تھے مسلم
بیٹوں کی تباہی کے لئے روتے تھے مسلم
قطع نظر اس کے اس زمانے سے اب تک دستور دنیا ہے کہ جب کسی صغر سن بچے کا باپ مر جاتا ہے۔ تو تمامی خلائق وہ کافر ہوں یا مسلمان سب یتیم بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت سے پیش آتے ہیں۔ تاکہ یاد پدر میں بے تاب نہ ہوں۔اور ان کی بے تابی کو عین اپنی بے تابی سمجھتے ہیں۔ مگر آہ یتیمان حضرت مسلم کے لیے بعد شہادت کوفہ میں کوئی نہ تھا۔ کہ ان کوتسلی دے یا چھاتی سے لگائے۔
ہائے افسوس اس پر بھی کوفیان پر دغا نے اکتفا نہ کی۔ بلکہ ابن زیاد لعین نے حکم دیا کہ یتیمان مسلم کو تلاش کرو۔ کس کے گھر میں ہیں۔افسوس ان بچوں پر کسی بے رحم کو رحم نہ آیا۔ نظم
تھا شور منادی یہ سر راہ گزر میں
بیٹوں کو نہ مسلم کے چھپائے کوئی گھر میں
معصوم سمجھ کر کوئی رحم ان پہ نہ کھائے
ہاتھ آئیں تو دربار میں پکڑے ہوئے لائے
مجرم کی کبھی شیون وزاری پہ نہ جائے
دانا ہے وہ جو گوہر عزت کو بچائے
جس نے انہیں پنہاں کیا گھر اس کا لٹے گا
مر جائے گا پر قید سے کنبہ نہ چھٹے گا
روایت میں تحریر ہے کہ وقت شہادت حضرت مسلم نے دونوں صاحب زادوں کو قاضی کوفہ شریح کے گھر بھیج دیا تھا۔ جس وقت شہادت امیر مسلم کی خبر شریح کو پہنچی وہ نہایت مضطر وبے قرار ہوا۔ جناب مسلم کی مظلومی اور ان یتیموں کی بے کسی پر بہت رویا۔ حالانکہ ابھی شہادت پدر بزرگوار ان شہزادوں کے گوش گزار نہ ہوئی تھی۔مگر قاضی کوروتے دیکھ کر فرمایا کہ اے شریح کیا ہمارے پدر بزرگوار قتل ہو گئے جو تو روتا ہے۔ شریح نے اول تو چھپایا۔ آخر جب صاحب زادوں نے اصرار کیا تو کہا ہاں میری جان فدا ہو تم کو ابن زیاد نے بے پدر کر دیا ہے۔ اے صاحب زادوں جس وقت سے تمہارے پدر بزرگوار کو قتل کیا ہے۔ تمہاری تلاش میں جاسوس پھرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری آوازیں سن لیں۔اور اس نطفہ شیطان کو خبر کردیں۔ تو میرا گھر بار لٹ جائے گا اور تم کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ یہ سن کر ان صاحبزادوں کو، شعر
ہوا خوف ایسا نہ پھر کچھ کہا
ولیکن نہ تھمتا تھا آنسو ذرا
ہاں حضرات اس عالم غربت اور آفت یتیمی میں بجز رونے کے کیا ہو سکتا تھا۔مگر خوف سے وہ بچے رو بھی نہیں سکتے تھے۔ ان معصوموں کی بے تابی کو ذاکر کیا بیان کرے۔ نظم
سہمے ہوئے آپس میں یہی کہتے تھے رو کر
ساتھ آئے تھے افسوس چلے باپ کو کھو کر
پاس ان کے اگر ہوتے تو کچھ کام ہی آتے
ہم بنتے نشانہ جو لعیں تیر لگاتے
پانی تو بھلا منہ میں دم مرگ چلاتے
کاندھوں پہ پسر باپ کے مردے کو اٹھاتے
کیا جانیئے مرنے پہ بھی کیا رنج ومحن ہیں
گاڑے بھی گئے یا ابھی بے گور وکفن ہیں
مظلوم کی تربت کا پتا اب جو پائیں
رخصت کے لئے قبر پہ روتے ہوئے جائیں
سر پیٹ کے فریاد کریں اشک بہائیں
تعویز مزار پدر آنکھوں سے لگائیں
پالا تھا ہمیں باپ نے چھاتی پہ سلا کر
قرآن بھی ہم پڑھ نہ سکے قبر پہ جا کر
تقدیر نے اماں کی اگر شکل دکھائی
اور قتل کی بابا کے خبر ان کو سنائی
پو چھیں گی جو سر پیٹ کے اور دے کے دہائی
بتلاو کہ بابا کی کہاں قبر بنائی
گردن کو جھکائے ہوئے خاموش رہیں گے
تربت بھی تو دیکھی نہیں کیا منہ سے کہیں گے
ہم سا بھی زمانے میں نہ ہوگا کوئی مجبور
سوئم بھی کریں باپ کا اتنا نہیں مقدور
وارد ہیں وہاں رحم کا جس جا نہیں مذکور
ماں دور، چچادور،وطن دور، پدر دور
کس سے کہیں سن چھوٹے ہیں اور رنج بڑے ہیں
بابا کے تو مرنے سے تباہی میں پڑے ہیں۔
القصہ شریح بجان ودل آپ کی خاطر داری میں مصروف رہتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ اے شاہزادو بشرط حیات تم کو مدینہ پہنچاوں گا۔ پھر اپنے فرزند اسد سے بولا کہ تو دونوں شہزادوں کو ساتھ لے جا۔ ایک قافلہ بیرون شہر ٹھہرا ہے۔ جو مدینہ جانے والا ہے۔ ان دونوں گلہائے باغ مصطفوی کو اس میں کسی دیندار کے سپرد کرکے،اس کو ان شاہزادوں کے حسب نسب سے آگاہ کر دینا۔اسد اپنے والد بزرگوار کے حکم سے ان دونوں یتیموں کو لے کر روانہ ہوا۔ مگر افسوس کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ قافلہ کوچ کر گیا ہے۔ مگر اس کا غبار معلوم ہوتا تھا۔ اسد نے شہزدوں سے کہا تم جلد جلد جا کر اس قافلہ سے مل جاو۔ اسی غبار میں وہ قافلہ ہے۔ اور خود واپس چلا گیا۔ مگر آہ آہ ،تھوڑی دور شہزادے گئے مگر قافلے کا سراغ نہ ملا۔ نظم
پھرتی تھی اجل ساتھ جہاں جاتے تھے دونوں
پتا بھی کھڑکتا تھا تو ڈر جاتے تھے دونوں
پھرتے تھے بہکتے ہوئے دونوں جگر افگار
جو دیکھ لیا ان کو کسی شخص نے اک بار
چلایا کہ بس آگے قدم رکھیو نہ زینہار
جاتے ہو کدھر بھاگے ہم آتے ہیں خبردار
سنتے ہی اس آواز کے گھبرا گئے دونوں
سر تا بقدم بید سے تھرا گئے دونوں
بھائی سے کہا بھائی نے اب کیا کریں بھائی
اعدا ہمیں لینے نہیں آئے اجل آئی
افسوس کہیں امن کی جا ہم نے نہ پائی
مشکل ہے بہت موت کے پنجہ سے رہائی
آتے ہیں بس اب برچھیاں تانیں گے ستمگر
منت بھی کرو گے تو نہ مانیں گے ستمگر
یہ کہتے تھے جو آن ہی پہنچے وہ جفا جو
اور باندھ لیے رسی سے ان دونوں کے بازو
بچوں پہ اٹھاتا تھا طمانچہ کوئی بد خو
کہتا تھا کوئی لے چلو کھینچے ہوئے گیسو
وہ کہتے تھے ہم دام بلا میں تو پھنسے ہیں
بازو پھر کس لیے رسی میں بندھے ہیں
جاتے تھے جو روتے ہوئے وہ نازوں کے پالے
بازار میں بے تاب تھے سب دیکھنے والے
جلادوں میں معصوموں کے تھے جان کے لالے
تکتے تھے ہر ایک کو کہ کوئی ہم کو بچا لے
حال اپنا اشارے سے جتاتے تھے کسی کو
رسی میں بندھے ہاتھ دکھاتے تھے کسی کو
پہنچا انہیں لے کر جو وہ ظالم سربازار
خدام نے کی عرض کہ حاضر ہیں گنہگار
تھا تخت مرصع پہ مکیں حاکم غدار
دہشت سے لرزتے تھے بچوں کے تن زار
بیٹھے ہوئے سب کرسیوں پہ چھوٹے بڑے تھے
رسی میں بندھے ہاتھ وہ معصوم کھڑے تھے
مظلوموں سے یہ کہنے لگا حاکم ملعون
اس بھاگنے کی اب کہو کیا تم کوسزا دوں
صدمہ سے یتیموں کا ہوا حال دگرگوں
تھرا کے یہ کہنے لگے وہ بے کس ومحزون
ہاں قتل ہی کرنے کے سزاوار ہیں ہم بھی
بابا تھا گنہگار گنہگار ہیں ہم بھی
جس وقت ان معصوموں نے یہ فرمایا۔ تمام حاضرین کا دل بھر آیا۔ اور کہنے لگے کہ یہ نادان بے تقصیر لائق تعزیر نہیں ہیں۔ بھاگ کر کہاں کو جاتے۔ یہ سن کر وہ دشمن لعین بے دین چپ ہو رہا۔ اور زندان بان کو بلا کر حکم دیا کہ ان کو قید خانے میں لے جا۔اور ایک تاریک حجرے میں اس طرح قید کر کہ سونے نہ پائیں۔ نظم
دیجیو نہ خبردار مزے کا انہیں کھانا
گرمی میں بھی پانی کبھی ٹھنڈا نہ پلانا
یہ سحر بیاں ہیں کبھی باتوں پہ نہ جانا
بازو نہ کھلیں رسی سے جب تک ہیں توانا
دشمن کے ہیں فرزند اذیت انہیں دیجیو
کپڑوں کے بدلنے کی بھی نہ فرصت انہیں دیجیو
اس طرح کی حجرے میں ہوں یہ مہہ لقا بند
جس حجرے کے روزن بھی ہوں بند اور ہوا بند
دن بھر تو رہیں ایک ہی زنجیر میں پابند
اور رات کو ہو ایک جدا ایک جدا بند
سر کو درو دیوار سے ٹپکا کریں دونوں
آپس میں گلے ملنے کو تڑپا کریں دونوں
غرض وہ نگہبان ان دونوں یوسف لقا کو قید خانے میں لے گیا۔ اور اس مردود ازلی کے حکم کے موجب ایسی ہی کوٹھری میں بند کر دیا۔ نظم
تاریک وہ حجرہ تھا مثال شب ظلمات
معلوم نہ ہوتا تھا کہ کب دن ہوا کب رات
مرقد کے اندھیرے کو بھی اس گھر نے کیا مات
سہمے ہوئے روتے تھے وہ آنکھوں پہ دھرے ہاتھ
تھی پیش نظر وصل میں تنہائی کی صورت
بھائی کو نہ آتی تھی نظر بھائی کی صورت
وہ ایسا تنگ وتاریک قید خانہ تھاکہ جس میں ہوا کا گزر بھی نہ تھا۔ وہ معصوم بچے پسینے میں تر بل کھاتی ہوئی زلفیں خاک میں اٹی ہوئی تھیں۔اس قید شدید میں کھانا اور پانی ملنا تو ایک طرف سونا وآرام سے لیٹنا بھی نصیب نہ تھا۔ شب وروز آہ وزاری میں بسر ہوتی تھی۔ نہ تکیہ تھا نہ بچھونا۔ نظم
فاقوں میں بسر کرتے تھے دن بھر وہ گل اندام
جو مالک زندان تھا وہ آتا تھا سر شام
جا بیٹھتے تھے دروازے کے نزدیک وہ گلفام
دیتا تھا انہیں دوروٹیاں اور پانی کے دوجام
تھا خوف زبس حاکم اظلم کے غضب سے
اٹھ اٹھ کے سلام اس کو وہ کرتے تھے ادب سے
اللہ اللہ وہ خشک روٹی جب ان نازوں کے پالوں کے گلوں میں پھنستی تھی ۔تو رورو کر کہتے تھے،کہ خدا دشمن پر بھی یہ مصیبت نہ ڈالے۔ نظم
پانی بھی نہ جی بھر کے ہمیں ملتا ہے بھائی
یہ خشک ہے روٹی کہ گلا چھلتا ہے بھائی
سمجھتاتا تھا چھوٹے کو بڑا بھائی یہ روکر
یہ جا نہیں شکوہ کی کرو شکر برادر
دیکھو تو نہ سر پر ہے پدر اور نہ مادر
تھوڑا ہے کہ یہ بھی ہمیں آتا ہے میسر
نعمت سے زیادہ ہمیں یہ نان جویں ہے
منہ اپنا تو اس کھانے کے قابل بھی نہیں ہے
رزاقی معبود پر غور کرنا چاہیئے کہ اس قید خانہ میں کھانا ملنے کی سبیل اس نے نکال دی ہے۔ اے بھائی جان نان جویں ہماری ازلی غذا ہے۔اور فاقہ کشی میراث پدری ہے۔ نانا ہمارے حضرت علی نے ہمیشہ جو کے سوکھے ٹکڑے کھائے ہیں۔ ہم بھی ان ہی کے نواسے ہیں۔ غور کرو یوسف پیغمبر نے قید میں کیسی مصیبت اٹھائی۔اللہ کی عنایت سے ان کو پھر مصر کی بادشاہی ملی۔ اگر افضال الہیٰ ہے تو کسی دن ہماری بھی رہائی ہو گی۔ نظم
چھوٹے نے کہا سب ہے بجا آپ کا ارشاد
بھائی بشریت سے ہے یہ نالہ وفریاد
ہم سا تو زمانے میں نہ ہوگا کوئی ناشاد
چھوٹے بھی تو ہوئیں گے نہیں رنج سے آزاد
یعقوب نے چھاتی سے لگایا تھا پسر کو
ہم قید سے بھی چھٹ کے نہ پائیں گے پدر کو
الغرض ایک مدت تک وہ دونوں صاحبزادے مبتلائے اذیت وتکلیف رہے۔ یہاں تک کہ ان کی شکلیں متغیر ہوگئیں۔ تصویریں لڑکپن کی پیری سے تبدیل ہوئیں۔ سر کے بال بڑھ گئے۔ جسم اقدس کی رگیں نمایاں ہو گئیں۔ آنکھوں میں حلقے پڑھ گئے۔ بیٹھا اٹھا نہیں جاتا تھا۔ کروٹ لینے میں غش آتا تھا۔ ناچار ہو کر ایک روز بڑے نے چھوٹے صاحب زادے سے کہا کہ اے بھائی یہ کیسی قید ہے۔ اس قدر عرصہ گزر گیا نہ چچا نے خبر لی، نہ ماں کو یاد آئی۔ نظم
افسوس یونہی عمر چلی جاتی ہے بھائی
نہ قید سے چھٹتے ہیں نہ موت آتی ہے بھائی
یہ سن کر بڑے بھائی نے کہا،اللہ سب کی مشکلیں آسان کرے گا۔بزرگوں کا شکوہ کرنا بے جا ہے۔
کس طرح کہیں بھول گئی ہوویں گی مادر
شبیر کو الفت میں ہیں ہم سب کے برابر
کیا جانے کس آفت میں ہیں فرزند پیمبر
وہ قید سے غیروں کو چھڑاتے ہیں برابر
سنتے تو مدد آن کے بھائی نہ کرتے
تدبیر بھتیجوں کی رہائی کی نہ کرتے
یہ کہتے تھے وا ہو گیا قفل در زندان
اور دینے لگا آب وغذا ان کو نگہبان
چھوٹے نے کھڑے ہو کے کہا با تن سوزان
ہم تجھ کو دعا دیتے ہیں اے مرد مسلمان
پینے کو نہ پانی نہ غذا چاہتے ہیں ہم
کچھ حال سنے تو کہا چاہتے ہیں ہم
اس یوسف لقا کا یہ کلام سن کر اس نگہبان نے کہا، کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ صاحب زادے نے کہا تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتا ہے۔اس نے عرض کی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی برحق کو جو نہ پہچانے وہ کافر ہے۔ تب آپ نے فرمایا کہ تو اسد اللہ کو جانتا ہے۔ اس نے کہا وہ میرے امام ہیں۔ میں تو ان کا غلام ہوں۔ پس یہ سن کر دونوں صاحبزادوں کی جان میں جان آگئی۔اور تفصیل سے اپنا سارا حال اس سے بیان کیا۔ جس وقت اس زندان بان نے ان بچوں کا مفصل حال سنا۔ نظم
پس سنتے ہی گھبرا گیا وہ مرد خوش اطوار
معصوموں کے قدموں پہ گرا دوڑ کے اکبار
کہتا تھا میں اس حال سے واقف نہ تھا زینہار
بخشو مجھے میں نے تمہیں گھڑکا تھا کئی بار
شکوہ مرا اللہ پیمبر سے نہ کیجیئو
جنت میں شکایت مری حیدر سے نہ کیجیو
دونوں صاحبزادوں نے فرمایا کہ اللہ وپیمبر تیری شفاعت کریں گے۔ ہمارے ساتھ اس قدر احسان کر کہ ہم مدینہ پہنچ جائیں۔ اس کے صلہ میں حضرت فاطمہ حشر میں تمہاری حامی ہو ں گی۔ بیت
غرض اس زندان بان نے دونوں صاحبزادوں کو قید خانہ سے نکالا۔اور قادسیہ کے رستے پر لگا کر واپس گیا۔ وہ دونوں صاحبزادے اسی سمت روانہ ہوئے۔ لیکن افسوس ہے کہ ایسی قید شدید اٹھا کر وہ چل نہیں سکتے تھے۔ بیت
چڑھ جاتا نقاہت سے جو دم ہانپنے لگتے
سایہ نظر آتا تو بدن کانپنے لگتے
افسوس کہ اس جنگل میں ،نظم
پھرتے رہے قسمت نے نہ کی راہ نمائی
رستہ نہ ملا جانے کا اور نصف شب آئی
چھوٹے نے کہا چلنے کی طاقت جو نہ پائی
اب تو ہمیں نیند آتی ہے ٹھہرو کہیں بھائی
کہتا تھا بڑا دن ہیں ابھی سخت ہمارے
سوئیں گے جو بےدار ہوئے بخت ہمارے
کہ اسی عرصہ میں ایک باغ نظر آیا۔وہاں جا کر ایک درخت کی جڑ میں پوشیدہ ہو کر سوگئے۔ اس درخت کے نیچے ایک چشمہ پانی کا تھا۔ وہاں پر ایک ضعیفہ پانی بھرنے آئی۔ دونوں صاحبزادوں کو دیکھا تو ان کے قریب آئی۔ وہ بے چارے مصیبت کے مارے کانپنے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر اس ضعیفہ نے ان کو تسلی ودلاسا دیا۔ اور شفقت سے ان کا حال پوچھا۔ان معصوموں نے اپنا حال بیان کیا،اور اس کے پاوں پر گر پڑے۔ اور فرمانے لگے۔ نظم
رکھتے ہیں قرابت تو رسول عربی سے
مسلم کے پسر ہیں ہمیں کہیو نہ کسی سے
وہ بولی کہ آنکھوں پہ تمہیں رکھوں میں دن رات
پر صاحب خانہ ہے بڑا فاسق وبد ذات
حاکم کا تو وہ دوست ہے اور دشمن سادات
گر دیکھ لیا اس نے تو بننے کی نہیں بات
لونڈی ہوں میں زہرا کی تمہارا ہی یہ گھر ہے
ڈر ہے تو اسی ظالم وبے رحم کا ڈر ہے
یہ سن کر ان یتیموں کے قالب بےجان میں جان آگئی۔ کہنے لگے اے مومنہ ہم کو کسی حجرے میں چھپا دے۔ ہم کو تکیہ وبچھونا نہیں چاہیئے۔ وہ ضعیفہ ان دونوں بچوں کے گرد پھرنے لگی۔ اور کہنے لگی آپ کی خدمت گزاری سعادت کونین سمجھتی ہوں۔ پھر اپنے گھر میں لے آئی۔ مگر اپنے شوہر بدذات کے خوف سے ترساں ولرزاں تھی۔الغرض وہ دونوں شاہزادے نظم
مہماں ہوئے جا کر ستم ایجاد کے گھر میں
دونوں کو اجل لے گئی جلاد کے گھر میں
کھانا بھی نہ کھایا نہ پیا دونوں نے پانی
اور سوئے بہم مسلم مظلوم کے جانی
وہ نیند نہ تھی موت کی گویا تھی نشانی
دروازے پہ آ پہنچا ادھر ظلم کا بانی
چلایا ضعیفہ کو یہ زنجیر ہلا کر
کوسوں کا تھکا آیا ہوں در کھول دے آکر
یہ سن کر وہ ضعیفہ کانپنے لگی،اور خوشامد آمیز باتیں کرنے لگی،کہ ایسا کیا کام تھا کہ جو اس قدر رات گئے تم آئے۔ وہ نطفہ شیطان بے ایمان غصہ میں تو بھرا ہوا تھا۔ تیوری چڑھا کر بولا کہ تجھ کو میرے معاملات سے کیا واسطہ۔پھر ہتھیار کھولے اور بستر پر گر کر سوگیا۔ کچھ رات باقی تھی کہ دونوں صاحبزادوں نے خواب میں اپنے پدر بزرگوار کو دیکھا کہ حضرت مسلم آئے ہیں اور پیار فرما کر کہتے ہیں کہ اے نور دیدگان اب ایام تکلیف بسر ہوئے۔ کل تم میرے پاس ہو گے۔ یہ خواب دیکھ کر ایک نے دوسرے کو جگایا ،اور تمام ماجرا خواب کا سنایا۔ اور گلے مل کر رونے لگے۔ ان کی آواز سن کر وہ مردود ازلی جاگ اٹھا،اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔آخر ،نظم
کھول کر در حجرہ کو در آیا مقہور
دیکھتا کیا ہے کہ ہے نور سے حجرہ معمور
اس میں دویوسف کنعاں ہیں بحال رنجور
طعنہ زن ماہ پہ ہے جن کا عذار پر نور
دست افسوس ہر اک مرتبہ وہ ملتے ہیں
داغ سینوں کے چراغوں کی طرح جلتے ہیں
پہلے تو حارث ملعوں نے کہا صلی علیٰ
پھر لگا کہنے کہ تم کون ہو اور نام ہے کیا
سرخ جو دید ہ حارث کو نہایت دیکھا
ڈر گئے کانپ گئے وہ جگر شیر خدا
ڈر سے اور خوف سے ملعون کی تعظیم بھی کی
چھوٹے ہاتھوں کو اٹھا کر اسے تسلیم بھی کی
اور یوں بولے کہ تجھے نام بتائیں ہم کیا
بے وطن بے پدر آفت زدہ محبوس بلا
اس کے فرزند ہیں مظلوم ہے جو حد سے سوا
جس کے لاشہ کو کفن بھی نہیں اب تک ہے ملا
باپ کے ہجر میں ہیں شور مچایا ہم نے
عفو کر خواب سے ہے تجھ کو جگایا ہم نے
وہ لگا کہنے کہ نام اپنا بتاو مجھ کو
بولے معصوم کہ مسلم کے پسر ہیں ہم تو
نام مسلم کا جو دشمن تھا وہ ملعون بد خو
خندہ زن ہو کے وہ مردود لگا کہنے کہ ہو
یوسف آمد بہ وطن ما بہ سفر در بدر یم
صید در دام گرفتار وما بے خبریم
وہ سخن سنتے ہی روئے وہ بہت بادل زار
زلفیں ان دونوں کی ملعون نے کھینچیں اک بار
اور طمانچے سے کیے سرخ وہ گل سے رخسار
اس گھڑی کانپ گئی قبر رسول مختار
زوجہ حارث کی تو سر رورو کے ٹکراتی تھی
روح زہرا کے بھی نالوں کی صدا آتی تھی
الغرض اس ملعون ازلی نے کچھ رحم نہ کھایا۔اور در حجرہ میں قفل لگا کر سورہا۔ جب صبح ہوئی حجرہ کا دروازہ کھولا۔ حضرات کس زبان سے عرض کروں۔دونوں شہزادوں کی زلفیں پکڑ کے حجرے سے کھینچ کے باہر نکالا۔ دونوں معصوم اس سے کہنے لگے کہ اے حارث تو ہم کو حاکم کے پاس مت لے چل۔ بیت
جس روز سے بابا موئے بدلی نہیں پوشاک
کرتوں پہ کہیں خون لگا ہے تو کہیں خاک
آہ آہ وہ شقی ازلی کب فریاد ان غریبوں کی سنتا تھا۔ نظم
الجھی ہوئی زلفوں کو لعیں کھینچ رہا تھا
دریا پہ پئے قتل انہیں لے کے چلا تھا
جلاد کے بس میں جو پڑے ہائے وہ نادان
اک ہاتھ میں مظلوموں کی تھی زلف پریشان
اک ہاتھ میں تھے چھوٹے سے کرتوں کے گریبان
بچے ہی تو تھے ڈر سے نکل آتے تھے دندان
گرتے ہیں تڑپ کر یہ نہیں چھوٹتے ہیں بال
کرتے کبھی پھٹتے ہیں کبھی ٹوٹتے ہیں بال
بے چاروں کے ہیں تن کانپتے دل ہیں دہلتے
کانٹے ہیں لگے پاوں میں گر کر ہیں چھلتے
حارث جو ڈراتا ہے تو پھر جلدی ہیں چلتے
اب آنسو کے جا ٹکڑے جگر کے ہیں نکلتے
گرگر پڑے ہیں چھوٹے سے عمامے بھی سر سے
مظلوم اٹھاتے نہیں ملعون کے ڈر سے
چھوٹے کو بڑا بھائی ہے بڑھ بڑھ کے بچاتا
ہر بار ہے مصحف کی طرح بیچ میں آتا
رو دیتا ہے کچھ کہنے کا موقع نہیں پاتا
بے ساختہ بس حرف زباں پر ہے یہ لاتا
سن حال غریبوں کا خدا کے لئے دم لے
اب ہم ترے گھر میں اگر آئیں تو قسم لے
اے حارث ہم پر رحم کھا۔اپنی خوشی سے تیرے گھر میں نہیں آئے۔ نہ کوئی چین پایا۔تھوڑا ساآرام ملا تھا۔ سو اس کا عوض تونے یہ دیا کہ رات بھر رسی میں باندھ کھڑا رکھا۔ اب چھوڑ دے اقرار کرتے ہیں کہ ہم تیرے گھر پھر کبھی نہیں جائیں گے۔ اور زوجہ حارث کی طرف مایوسانہ دیکھ کر کہتے تھے۔ نظم
چھڑوادے کہ پکڑے ہوئے زلفوں کوعدو ہے
اماں نہیں بابا نہیں جو کچھ ہے سو تو ہے
بالوں کو بکھیرے ہوئے وہ مومنہ تھی ساتھ
مظلوموں کو ظالم سے چھڑاتی تھی وہ خوش ذات
گہہ پاوں پہ سر رکھتی تھی گہہ جوڑتی تھی ہاتھ
کہتی تھی خدا کے لیے کیا کرتا ہے ہیہات
بس بس کہ زمیں اب تو ہلی جاتی ہے ظالم
زہرا مجھے سر ننگے نظر آتی ہے ظالم
حیدر کے نواسوں پہ غضب لاتا ہے توبہ
سیدانیوں کے بچوں کو تو رلواتا ہے توبہ
فاقوں سے بدن دونوں کا تھراتا ہے توبہ
اور تجھ کو ذرا رحم نہیں آتا ہے توبہ
ڈر سے تیرے معصوموں کے دنداں نکل آئے
غالب ہے لحد سے شہ مرداں نکل آئے
ارے ظالم کیوں زلفوں کو پکڑ کر کھینچتا ہے۔ یہ ناشاد علی علیہ سلام کی اولاد ہیں۔ افسوس کہ نبی کے احسان تجھ کو یاد نہیں۔ تو بھی صاحب اولاد ہے ۔ بچوں پہ رحم کر۔ یتیموں کا ستانا اچھا نہیں۔ اے بیدین اگر تو طالب زر ہے۔ تو بعوض ان یتیموں کے فاطمہ کے نام پر مجھ کو بیچ دے۔ نظم
ظالم نے تہہ تیغ کیا زوجہ کو اس آن
یا فاطمہ کہہ کے وہ ہوئی بچوں پہ قربان
دریا پہ عدو لایا انہیں پکڑے گریبان
دی تیغ غلام حبشی کو وہاں عریاں
غصہ سے کہا دونوں کوانگلی سے بتا کر
ہاں کاٹ لے سر ان کے کنارے پہ تو جا کر
الغرض جس وقت وہ غلام حبشی تلوار لے کر بڑھا تو دونوں شہزادے سر جھکا کر ہمراہ چلے۔ منقول ہے کہ وہ حبشی مثل حضرت بلال کے حق آگاہ تھا۔ ان مظلوموں نے فرمایا کہ اے بندہ اللہ تو موذن رسول بلال سے بہت مشابہہ ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ تو رسول کا محب ہے یا دشمن نظم
وہ بولا نبی پہ ہوں فدا میں بدل وجان
چپکے سے کہا دونوں نے اب ہم ہیں حیران
عترت کا تو قاتل ہے نبی پر ہے تو قربان
وہ بولا عزیزوں میں پیمبر کے ہوتم ہاں
تقصیر ہوئی مجھ سے نہ آگاہ تھا خادم
للہ ہدایت کرو گمراہ تھا خادم
کیا رشتہ ہے پیارو تمہیں محبوب خدا سے
ہونٹوں پہ زباں پھیر کے یوں بولے وہ پیاسے
جعفر کے تو ہم پوتے ہیں حیدر کے نواسے
بولا حبشی آنکھوں کو مل کر کف پا سے
شہزادو قسم فاطمہ کی فاقہ کشی کی
بخشو مجھے خاطر سے بلال حبشی کی
پھر غصہ سے حارث کی طرف پھینک دی تلوار
بے وار لگائے ہوئے دریا کے ہوا پار
حارث نے کہا ہو گیا آقا سے تو بےزار
وہ بولا خدا سے تو نہیں پھر گیا زینہار
تو کام کر اللہ کا کام اپنا لے مجھ سے
تو پھر گیا اللہ سے میں پھر گیا تجھ سے
بعد اس کے حارث ملعون نے فرزند کے ہاتھ میں تلوار دے کر کہا کہ بیٹا تو ان بچوں کے سر اڑا دے۔ وہ دیندار دونوں شہزادوں کو لے کر چلا تھا۔ کہ ان معصوموں نے یاس سے اسے دیکھا۔وہ بولا کیا دیکھتے ہو میں تم کو قتل کروں گا۔ شاہزادوں نے کہا تجھ کو دیکھ کر بھائی علی اکبر یاد آگئے ہیں۔اور تیری جوانی پر تاسف آتا ہے۔ کہ ناحق جہنم کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اگر چہ علی اکبر بھی جوان ہیں ۔مگر وہ کسی کو قتل نہیں کرتے۔ نظم
وہ بولا کہ اکبر ہیں عزیزوں میں تمہارے
رو کر کہا ہاں بیٹے ہیں ماموں کے ہمارے
سب بھائیوں میں ہم بہت اکبر کو ہیں پیارے
کیا دخل حضور ان کے جو ماں بھی ہمیں مارے
ہم گھٹنیوں عباس کے سینے پہ چلے ہیں
اور زینب وکلثوم کی گودی میں پلے ہیں
یہ سنتے ہی گرد ان کے پھرا حق کا وہ شیدا
دریا میں گرا تیغ پٹک کر لب دریا
اللہ کی رحمت میں ہوا غرق سراپا
حارث نے کہا حق یہ پدر کا تھا تو بولا
حاشا تو پدر کس کا شقی ازلی ہے
ماں فاطمہ ہے مومنو کی باپ علی ہے
تو کور ہے ظالم نظر آئے تجھے کیوں کر
وہ دیکھ نبی روتے ہیں دریا پہ کھلے سر
ظالم نے کہا مجھ کو نہیں خوف پیمبر
اک تیغ تلے دونوں کو بٹھلایا برابر
گردن کو نہ جھکنے دیا سجدے میں خدا کے
سر کاٹا بڑے بھائی کا چھوٹے کو دکھا کے
سر پاس رکھا لاش کو دریا میں بہایا
بھائی کے گلے کا جو لہو خاک پہ پایا
الفت سے برادار کا لہو جوش میں آیا
تب جوڑ کے ہاتھ اپنے یہ قاتل کوسنایا
پونچھوں یہ لہو کرتے سے تلوار جھکا دے
لوٹوں بڑے بھائی کے لہو میں جو رضا دے
وہ بولا کہ ہو شوق سے غلطاں مجھے کیا ڈر
بھائی کے لہو میں وہ لگا لوٹنے گر کر
کہتا تھا کہاں اب تمہیں ڈھونڈے یہ برادر
تم تو ابھی بیٹھے ہوئے تھے میرے برابر
اس طرح نصیب اپنا الٹتے ہوئے دیکھا
بھائی کا گلا بھائی نے کٹتے ہوئے دیکھا
اس خون کے تھالے پہ کبھی سر کو جھکاتا
چلو میں لہو بھر کے کبھی منہ پہ لگاتا
کرتے میں کبھی خون بھرے ہاتھ سکھاتا
اور ہاتھوں سے اپنے کبھی اک قبر بناتا
پڑھتا تھا کبھی فاتحہ ہاتھوں کو اٹھا کر
یارب میرے بھائی کو ثواب اس کا عطا کر
کیوں حضرات اس معصوم پر کیا گزری ہوگی۔ وہ بچہ اپنے بھائی کے خون میں لوٹتا تھا۔ اور کوئی پرسان حال اس معصوم کا نہ تھا۔ حارث ملعون شمشیر برہنہ لیے پاس اس کے کھڑا تھا۔ افسوس صد افسوس کس زبان سے اس معصوم مسافر کا حال بیان کروں۔ نظم
ناگاہ غضب وطیش سے حارث یہ پکارا
بس لوٹ چکے اٹھو کہ سر کاٹوں تمہارا
اٹھ بیٹھ کہا اچھا گلا کاٹو ہمارا
سر کاٹ کے دریا میں جو تن ڈالا قضا را
آواز یہ آئی ہوئے سب پورے ارادے
اے نہر مجھے بھائی کے لاشے سے ملا دے
روایت میں وارد ہے کہ بڑے بھائی محمد کا لاشا اپنے چھوٹے بھائی ابراہیم کا منتظر تھا۔ جونہی اس کا جسم نازنین بڑے بھائی سے ملا۔ نظم
سینہ پہ رکھا سینہ جگر رکھا جگر پر
اور ہاتھ اٹھے ان کے سوئے قبلہ برابر
حلقوم بریدہ سے صدا آئی مکرر
شبیر کی ہو خیر کہ ہم تو ہوئے بے سر
مادر کو بھلا دیجیئو اب یاد ہماری
لے لیجیئو جلاد سے تو داد ہماری
الغرض وہ شقی ازلی ان دونوں صاحبزادوں کے سر ہائے مبارک لے کر ابن زیاد کے پاس آیا۔ اور اس بد نہاد کے سامنے رکھ دیئے۔ حضرات ان ننھے ننھے بچوں کے سر دیکھتے ہی باوجود قساوت قلبی کے ابن زیاد ملعون کے آنسو نکل آئے۔ اور حارث لعین سے کیفیت دریافت کی۔اس مردود ازلی نے اپنی زوجہ ،فرزند اور غلام کے اور اپنی شقاوت اور ان بچوں کی منت وزاری کے تمام حالات فخریہ بیان کیے۔ اور کہا کہ وہ مجھ سے فریاد کرتے اور کہتے تھے کہ ہم خاندان نبوی اور رشہ داران مرتضوی سے ہیں۔ لیکن اگر تو ہم کو اس خاندان بزرگ سے نہیں مانتا، تو مسلمان ہی جان کر چھوڑ دے۔ مگر میں نے ایک بات بھی ان کی نہ سنی۔ لیکن اخیر میں جو فرمایا۔ نظم
اس کلمہ کو سن کر مرے آنسو نکل آئے
جنت سے نبی کھول کے گیسو نکل آئے
وہ آخری یہ بات کہی دونوں نے باہم
بالفرض تیرے آگے مسلمان بھی نہیں ہم
بچپن پہ ہمارے نظر رحم کر اس دم
اک اماں کا دم رکھتے ہیں بابا تو ہوئے بے دم
غربت پہ یتیمی پہ صغیری پہ نظر کر
پردیسیوں کو چھوڑ دے اللہ سے ڈر
یہ سنتے ہی حاکم نے شقی سے کہا رو کر
اغلب ہے یہ سن کر تو ترس آیا ہو تجھ کو
کانوں پہ دھرا ہاتھ پکارا کہ نہیں تو
تیری ہی قسم رحم جو اس پر بھی کیا ہو
سوگند سنی میں نے نبی کی نہ خدا کی
وہ منتیں کرتے رہے اور میں نے جفا کی
پیاسوں کو برابر لب دریا بٹھایا
دکھلا کے انہیں تیغ کو پتھر پہ لگایا
اور بولا کہ لو بچو یہ مجھ کوترس آیا
دونوں کو دم ذبح بھی باتوں سے رلایا
وہ کہتے تھے گردن سے تو تلوار ملی ہے
میں کہتا تھا بس میری یہی رحم دلی ہے
حارث کو نہ حاکم نے صلہ کچھ دیا اصلا
سر کاٹ کے پھنکوادیا اس نہر میں مردا
پانی نے کیا مردہ ناری سے کنارا
مظلوموں کے غم سے تھا عجب شور میں دریا
سر ننگے صفیں مردم آبی کی کھڑی تھیں
اور مچھلیاں نکلی ہوئی ریتی پہ پڑی تھیں
کہتے ہیں کہ اس روز ہوئی شام جو پیدا
تو اہل زراعت نے لب نہر یہ دیکھا
اک قافلہ آیا ہے نجف سے سوئے دریا
ہیں عورت ومرد اس میں سیاہ پوش سراپا
اور آگے ملک چاک گریبان کیے ہیں
کاندھے پہ علم کالے پھریروں کے لیے ہیں
اک مرد بزرگ آگے برہنہ کیے سر ہے
اک بی بی رکھے ہاتھوں کو بالائے جگر ہے
سر ہاتھوں پہ اک شخص لیے خون میں تر ہے
سب کہتے تھے یہ دونوں شہیدوں کے پدر ہیں
غل ہے کہ جو پیشانی پہ یہ خاک ملے ہیں
مسلم کے یتیموں کے لئے رونے چلے ہیں
ہر چار طرف کہتی ہیں حوریں یہ برابر
ہٹ جاو بتول آئی بتول آئی کھلے سر
ہر گاہ ٹھہر جاتا ہے وہ قافلہ چل کر
آتی ہے یہ آواز کہ غش ہو گئے شبر
گاہے تو یہ شیون ہے کہ حیدر کو غش آیا
گاہے یہ صدا ہے کہ پیمبر کو غش آیا
سب آئے وہاں قتل ہوئے تھے جہاں پیاسے
اک شیر بڑھا قافلہ اہل عزا سے
نعرہ کیا دریا پہ یہ اندوہ بکا سے
اے نہر کہاں ہیں مرے مظلوم نواسے
بے چین بہت روح ہے اب حق کے ولی کی
اے نہر تو لا جلد امانت کو علی کی
اے نہر تیرے پاس علی کے ہیں وہ اختر
یوسف کے برابر ہیں یہ دویوسف حیدر
اے نہر تیرے پاس علی کے ہیں وہ گوہر
اک فدیہ اکبر ہے اور اک فدیہ اصغر
ان دونوں سے بڑھ کر نہیں ہے صبر کسی میں
اک دے مرے دامن میں اک آغوش نبی میں
یہ درد بھرے کلمے جو دونوں نے سنائے
سن کر یہ سخن نہر سے لاشے نکل آئے
حیدر نے کلیجے سے وہ دو مردے لگائے
اور کشتیوں میں حلہ فردوس منگائے
بولے کہ فدا ماموں پہ سر تم نے کیے ہیں
لو پہنو یہ خلعت تمہیں زہرا نے دیئے ہیں
ان دونوں نے حلقوم بریدہ سے سنایا
کیا جانیں کفن باپ نے پایا کہ نہ پایا
حیدر نے کہا ان کو بھی حلہ ہے پہنایا
بابا بھی تمہارا تمہیں رونے کو ہے آیا
پھر حلہ فردوس نواسوں کو پہنا کے
زہرا سے کہا روو بس اب لاشوں پہ آکے
یہ کہنا علی کا کہ ہوا آہ عجب حال
سب اہل عزا گرد ہوئے بیچ میں وہ لال
کی خون سے دونوں کی جبیں فاطمہ نے لال
لاشوں پہ کھڑے ہو کے پریشان کیے بال
چلائی کہ ہے ہے شہ مرداں کے نواسو
ہے ہے مرے پردیسیوں ہے ہے مرے پیاسو
ہے ہے مرے مظلوم غریبوں کا مقدر
ہے ہے نہ ہوئی خاک وطن تم کو میسر
ہے ہے مرے عباس کی ہمشیر کے دلبر
ہے ہے علی اصغر علی اکبر کے برادر
پردیس میں بچپن کی شہادت پہ میں صدقے
جو روئے تمہیں اس کی محبت پہ میں صدقے
ہے ہے مرے مسلم کے چراغوں کو بجھایا
ہے ہے مرے پردیسی کی دولت کو لٹایا
ظالم نے رقیہ کی امانت کو مٹایا
شبیر کو ان بھانجوں کے غم میں ہے رلایا
تلواروں کے اور فاقوں کے مارے ہوئے ہے ہے
پیاسے مرے جانی مرے پیارے موئے ہے ہے
ناگاہ بدن مردوں کے ہل ہل گئے سارے
زہرا نے جو پوچھا تو تڑپ کر یہ پکارے
اماں کی صدا آتی ہے یہ دل کو ہمارے
ہے ہے نہ ملے مجھ سے بچھڑ کر مرے پیارے
افسوس ہے پھر مادر ذیشاں کو نہ دیکھا
بابا کو تو پھر دیکھا اور اماں کو نہ دیکھا
ہاتھوں کو اٹھا حق سے وزیر اب یہ دعا کر
معصوموں کا صدقہ مری حاجت کو روا کر
دسویں مجلس پسران حضرت مسلم کی شہادت
آتا ہے جو کہ پیش بشفقت یتیم سے
آزاد ہے وہ گرمی نارجحیم سے
مومنین جائے فخر ومباہات ہے کہ ہم کو پروردگار عالمیان نے ایسے پیغمبر کی امت میں پیدا کیا، کہ جس کا مثل کوئی پیغمبر نہیں ہوا۔ باوجود اس عظمت وشوکت کے آپ اس قدر حلیم ورحیم تھے ۔چنانچہ کتب معتبرہ میں لکھا ہے کہ آپ نے ایک کم سن یتیم بچے کی پرورش کی تھی۔ اور وہ نہایت شوخ وشریر تھا۔ مگر پیغمبر خدا نے اسے کبھی سختی سے نصیحت نہ فرماتے تھے۔ اتفاقا بحکم رب جلیل اس یتیم نے قضا کی تو آپ بہت روئے۔اور کھانا تناول نہ فرمایا ۔کیونکہ وہ یتیم ہمیشہ آپ کے ساتھ کھانا کھاتا تھا۔ اصحاب نے عرض کی کہ یا رسول اللہ ہم کوئی دوسرا لڑکا حاضر کریں۔ارشاد فرمایا آپ نے کہ تم نہیں جانتے منزلت پرورش یتیم کی۔ وہ لڑکا یتیم تھا ۔جس وقت کہ میں اس کی ناز برداری کرتا تھا۔ تو میرا پروردگار مجھ سے بہت خوش ہوتا تھا۔ چنانچہ آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص شفقت سے یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے،تو جس قدر بال اس کے ہاتھ کے نیچے آجائیں گے۔خدا وند کریم ان بالوں کی تعداد کے برابر فرشتے پیدا کرتا ہے۔ اور حکم دیتا ہے کہ استغفار کرو میرے اس بندے کی طرف سے،کہ اس نے یتیم کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا ہے۔ جس کے سر پر سایہ پدر نہیں ہے۔ چنانچہ کتب معتبرہ میں وارد ہے کہ رواج دین کے لئے کفار سے جس قدر جہاد کا اتفاق ہوا۔ اور مشرکین ایمان نہ لانے کے سبب تہہ تیغ ہوئے۔ اور ان کے چھوٹے چھوٹے بچے لشکر اسلام کے ہاتھ آئے ۔ ان سب کو ان کی ماوں کے سپرد کر دیا گیا۔ اور جن کا وارث نہ ملا۔ آنحضرت خود ان کی خبر گیری مثل اولاد کے فرماتے تھے۔ اور اسی طرح حدیث میں وارد ہے کہ آپ کے یہاں جو کوئی مہمان آتا ،تو آپ تحفہ سے تحفہ غذا کھلاتے تھے۔چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک دفعہ جناب امیر نے مہمان کے واسطے مکان بہشتی اپنا بیع کیا۔ اور کھانے کھلانے اور مسافر نوازی وسخاوت آپ کی مثل آفتاب وماہتاب کے روشن ہے۔بیان کی حاجت نہیں۔ لیکن حضرات مقام غور ہے کہ جناب رسول خدا وعلی مرتضیٰ کی مرحمت وسخاوت کا تو یہ حال تھا کہ وہ حضرت مہمانوں کی خاطر داری اور مہمانان ومسافر نوازی میں کوئی شے عزیز نہیں رکھتے تھے۔ آہ واویلا رونے اور سر پیٹنے کا مقام ہے کہ حضرت مسلم علیہ سلام کی شہادت کے بعد آپ کے دونوں شہزادے تنہا بے پدر کے رہ گئے۔ تو ہر طرف سے واجب الرحم تھے۔یعنی اس سبب سے کہ کوفیان پر دغا نے خط تحریر کرکے امام مظلوم کو بلایا تھا۔ اور آپ نے اپنے بھائی حضرت مسلم کو بطور وکیل بھیجا۔ اور یہ دونوں صاحب زادے ہمراہ تھے۔ تو گویا اس گروہ اشقیا کے مہمان تھے۔ کہ آپ کا وطن مدینہ کوفہ سے دور تھا۔ تیسرے وہ بچے یتیم تھے۔عالم غربت میں ان کے سروں سے باپ کا سایہ اٹھ چکا تھا۔ حضرت مسلم کو ظالموں نے خود شہید کر دیا تھا۔ اور وہ صاحب زادے چنداں ہوشیار بھی نہ تھے۔ نظم
بچے بھی وہ بچے کہ جو کبھی نکلے نہ گھر سے
ماں جن کو نہ اک آن جدا کرتی تھی خود سے
نے راہ سے واقف نہ ایذائے سفر سے
وہ چھٹ گئے کوفہ میں پہنچتے ہی پدر سے
زخمی تبر وتیر سے جب ہوتے تھے مسلم
بیٹوں کی تباہی کے لئے روتے تھے مسلم
قطع نظر اس کے اس زمانے سے اب تک دستور دنیا ہے کہ جب کسی صغر سن بچے کا باپ مر جاتا ہے۔ تو تمامی خلائق وہ کافر ہوں یا مسلمان سب یتیم بچوں کے ساتھ شفقت ومحبت سے پیش آتے ہیں۔ تاکہ یاد پدر میں بے تاب نہ ہوں۔اور ان کی بے تابی کو عین اپنی بے تابی سمجھتے ہیں۔ مگر آہ یتیمان حضرت مسلم کے لیے بعد شہادت کوفہ میں کوئی نہ تھا۔ کہ ان کوتسلی دے یا چھاتی سے لگائے۔
ہائے افسوس اس پر بھی کوفیان پر دغا نے اکتفا نہ کی۔ بلکہ ابن زیاد لعین نے حکم دیا کہ یتیمان مسلم کو تلاش کرو۔ کس کے گھر میں ہیں۔افسوس ان بچوں پر کسی بے رحم کو رحم نہ آیا۔ نظم
تھا شور منادی یہ سر راہ گزر میں
بیٹوں کو نہ مسلم کے چھپائے کوئی گھر میں
معصوم سمجھ کر کوئی رحم ان پہ نہ کھائے
ہاتھ آئیں تو دربار میں پکڑے ہوئے لائے
مجرم کی کبھی شیون وزاری پہ نہ جائے
دانا ہے وہ جو گوہر عزت کو بچائے
جس نے انہیں پنہاں کیا گھر اس کا لٹے گا
مر جائے گا پر قید سے کنبہ نہ چھٹے گا
روایت میں تحریر ہے کہ وقت شہادت حضرت مسلم نے دونوں صاحب زادوں کو قاضی کوفہ شریح کے گھر بھیج دیا تھا۔ جس وقت شہادت امیر مسلم کی خبر شریح کو پہنچی وہ نہایت مضطر وبے قرار ہوا۔ جناب مسلم کی مظلومی اور ان یتیموں کی بے کسی پر بہت رویا۔ حالانکہ ابھی شہادت پدر بزرگوار ان شہزادوں کے گوش گزار نہ ہوئی تھی۔مگر قاضی کوروتے دیکھ کر فرمایا کہ اے شریح کیا ہمارے پدر بزرگوار قتل ہو گئے جو تو روتا ہے۔ شریح نے اول تو چھپایا۔ آخر جب صاحب زادوں نے اصرار کیا تو کہا ہاں میری جان فدا ہو تم کو ابن زیاد نے بے پدر کر دیا ہے۔ اے صاحب زادوں جس وقت سے تمہارے پدر بزرگوار کو قتل کیا ہے۔ تمہاری تلاش میں جاسوس پھرتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تمہاری آوازیں سن لیں۔اور اس نطفہ شیطان کو خبر کردیں۔ تو میرا گھر بار لٹ جائے گا اور تم کو پکڑ کر لے جائیں گے۔ یہ سن کر ان صاحبزادوں کو، شعر
ہوا خوف ایسا نہ پھر کچھ کہا
ولیکن نہ تھمتا تھا آنسو ذرا
ہاں حضرات اس عالم غربت اور آفت یتیمی میں بجز رونے کے کیا ہو سکتا تھا۔مگر خوف سے وہ بچے رو بھی نہیں سکتے تھے۔ ان معصوموں کی بے تابی کو ذاکر کیا بیان کرے۔ نظم
سہمے ہوئے آپس میں یہی کہتے تھے رو کر
ساتھ آئے تھے افسوس چلے باپ کو کھو کر
پاس ان کے اگر ہوتے تو کچھ کام ہی آتے
ہم بنتے نشانہ جو لعیں تیر لگاتے
پانی تو بھلا منہ میں دم مرگ چلاتے
کاندھوں پہ پسر باپ کے مردے کو اٹھاتے
کیا جانیئے مرنے پہ بھی کیا رنج ومحن ہیں
گاڑے بھی گئے یا ابھی بے گور وکفن ہیں
مظلوم کی تربت کا پتا اب جو پائیں
رخصت کے لئے قبر پہ روتے ہوئے جائیں
سر پیٹ کے فریاد کریں اشک بہائیں
تعویز مزار پدر آنکھوں سے لگائیں
پالا تھا ہمیں باپ نے چھاتی پہ سلا کر
قرآن بھی ہم پڑھ نہ سکے قبر پہ جا کر
تقدیر نے اماں کی اگر شکل دکھائی
اور قتل کی بابا کے خبر ان کو سنائی
پو چھیں گی جو سر پیٹ کے اور دے کے دہائی
بتلاو کہ بابا کی کہاں قبر بنائی
گردن کو جھکائے ہوئے خاموش رہیں گے
تربت بھی تو دیکھی نہیں کیا منہ سے کہیں گے
ہم سا بھی زمانے میں نہ ہوگا کوئی مجبور
سوئم بھی کریں باپ کا اتنا نہیں مقدور
وارد ہیں وہاں رحم کا جس جا نہیں مذکور
ماں دور، چچادور،وطن دور، پدر دور
کس سے کہیں سن چھوٹے ہیں اور رنج بڑے ہیں
بابا کے تو مرنے سے تباہی میں پڑے ہیں۔
القصہ شریح بجان ودل آپ کی خاطر داری میں مصروف رہتا تھا۔ اور کہتا تھا کہ اے شاہزادو بشرط حیات تم کو مدینہ پہنچاوں گا۔ پھر اپنے فرزند اسد سے بولا کہ تو دونوں شہزادوں کو ساتھ لے جا۔ ایک قافلہ بیرون شہر ٹھہرا ہے۔ جو مدینہ جانے والا ہے۔ ان دونوں گلہائے باغ مصطفوی کو اس میں کسی دیندار کے سپرد کرکے،اس کو ان شاہزادوں کے حسب نسب سے آگاہ کر دینا۔اسد اپنے والد بزرگوار کے حکم سے ان دونوں یتیموں کو لے کر روانہ ہوا۔ مگر افسوس کہ جس وقت وہ اس مقام پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ قافلہ کوچ کر گیا ہے۔ مگر اس کا غبار معلوم ہوتا تھا۔ اسد نے شہزدوں سے کہا تم جلد جلد جا کر اس قافلہ سے مل جاو۔ اسی غبار میں وہ قافلہ ہے۔ اور خود واپس چلا گیا۔ مگر آہ آہ ،تھوڑی دور شہزادے گئے مگر قافلے کا سراغ نہ ملا۔ نظم
پھرتی تھی اجل ساتھ جہاں جاتے تھے دونوں
پتا بھی کھڑکتا تھا تو ڈر جاتے تھے دونوں
پھرتے تھے بہکتے ہوئے دونوں جگر افگار
جو دیکھ لیا ان کو کسی شخص نے اک بار
چلایا کہ بس آگے قدم رکھیو نہ زینہار
جاتے ہو کدھر بھاگے ہم آتے ہیں خبردار
سنتے ہی اس آواز کے گھبرا گئے دونوں
سر تا بقدم بید سے تھرا گئے دونوں
بھائی سے کہا بھائی نے اب کیا کریں بھائی
اعدا ہمیں لینے نہیں آئے اجل آئی
افسوس کہیں امن کی جا ہم نے نہ پائی
مشکل ہے بہت موت کے پنجہ سے رہائی
آتے ہیں بس اب برچھیاں تانیں گے ستمگر
منت بھی کرو گے تو نہ مانیں گے ستمگر
یہ کہتے تھے جو آن ہی پہنچے وہ جفا جو
اور باندھ لیے رسی سے ان دونوں کے بازو
بچوں پہ اٹھاتا تھا طمانچہ کوئی بد خو
کہتا تھا کوئی لے چلو کھینچے ہوئے گیسو
وہ کہتے تھے ہم دام بلا میں تو پھنسے ہیں
بازو پھر کس لیے رسی میں بندھے ہیں
جاتے تھے جو روتے ہوئے وہ نازوں کے پالے
بازار میں بے تاب تھے سب دیکھنے والے
جلادوں میں معصوموں کے تھے جان کے لالے
تکتے تھے ہر ایک کو کہ کوئی ہم کو بچا لے
حال اپنا اشارے سے جتاتے تھے کسی کو
رسی میں بندھے ہاتھ دکھاتے تھے کسی کو
پہنچا انہیں لے کر جو وہ ظالم سربازار
خدام نے کی عرض کہ حاضر ہیں گنہگار
تھا تخت مرصع پہ مکیں حاکم غدار
دہشت سے لرزتے تھے بچوں کے تن زار
بیٹھے ہوئے سب کرسیوں پہ چھوٹے بڑے تھے
رسی میں بندھے ہاتھ وہ معصوم کھڑے تھے
مظلوموں سے یہ کہنے لگا حاکم ملعون
اس بھاگنے کی اب کہو کیا تم کوسزا دوں
صدمہ سے یتیموں کا ہوا حال دگرگوں
تھرا کے یہ کہنے لگے وہ بے کس ومحزون
ہاں قتل ہی کرنے کے سزاوار ہیں ہم بھی
بابا تھا گنہگار گنہگار ہیں ہم بھی
جس وقت ان معصوموں نے یہ فرمایا۔ تمام حاضرین کا دل بھر آیا۔ اور کہنے لگے کہ یہ نادان بے تقصیر لائق تعزیر نہیں ہیں۔ بھاگ کر کہاں کو جاتے۔ یہ سن کر وہ دشمن لعین بے دین چپ ہو رہا۔ اور زندان بان کو بلا کر حکم دیا کہ ان کو قید خانے میں لے جا۔اور ایک تاریک حجرے میں اس طرح قید کر کہ سونے نہ پائیں۔ نظم
دیجیو نہ خبردار مزے کا انہیں کھانا
گرمی میں بھی پانی کبھی ٹھنڈا نہ پلانا
یہ سحر بیاں ہیں کبھی باتوں پہ نہ جانا
بازو نہ کھلیں رسی سے جب تک ہیں توانا
دشمن کے ہیں فرزند اذیت انہیں دیجیو
کپڑوں کے بدلنے کی بھی نہ فرصت انہیں دیجیو
اس طرح کی حجرے میں ہوں یہ مہہ لقا بند
جس حجرے کے روزن بھی ہوں بند اور ہوا بند
دن بھر تو رہیں ایک ہی زنجیر میں پابند
اور رات کو ہو ایک جدا ایک جدا بند
سر کو درو دیوار سے ٹپکا کریں دونوں
آپس میں گلے ملنے کو تڑپا کریں دونوں
غرض وہ نگہبان ان دونوں یوسف لقا کو قید خانے میں لے گیا۔ اور اس مردود ازلی کے حکم کے موجب ایسی ہی کوٹھری میں بند کر دیا۔ نظم
تاریک وہ حجرہ تھا مثال شب ظلمات
معلوم نہ ہوتا تھا کہ کب دن ہوا کب رات
مرقد کے اندھیرے کو بھی اس گھر نے کیا مات
سہمے ہوئے روتے تھے وہ آنکھوں پہ دھرے ہاتھ
تھی پیش نظر وصل میں تنہائی کی صورت
بھائی کو نہ آتی تھی نظر بھائی کی صورت
وہ ایسا تنگ وتاریک قید خانہ تھاکہ جس میں ہوا کا گزر بھی نہ تھا۔ وہ معصوم بچے پسینے میں تر بل کھاتی ہوئی زلفیں خاک میں اٹی ہوئی تھیں۔اس قید شدید میں کھانا اور پانی ملنا تو ایک طرف سونا وآرام سے لیٹنا بھی نصیب نہ تھا۔ شب وروز آہ وزاری میں بسر ہوتی تھی۔ نہ تکیہ تھا نہ بچھونا۔ نظم
فاقوں میں بسر کرتے تھے دن بھر وہ گل اندام
جو مالک زندان تھا وہ آتا تھا سر شام
جا بیٹھتے تھے دروازے کے نزدیک وہ گلفام
دیتا تھا انہیں دوروٹیاں اور پانی کے دوجام
تھا خوف زبس حاکم اظلم کے غضب سے
اٹھ اٹھ کے سلام اس کو وہ کرتے تھے ادب سے
اللہ اللہ وہ خشک روٹی جب ان نازوں کے پالوں کے گلوں میں پھنستی تھی ۔تو رورو کر کہتے تھے،کہ خدا دشمن پر بھی یہ مصیبت نہ ڈالے۔ نظم
پانی بھی نہ جی بھر کے ہمیں ملتا ہے بھائی
یہ خشک ہے روٹی کہ گلا چھلتا ہے بھائی
سمجھتاتا تھا چھوٹے کو بڑا بھائی یہ روکر
یہ جا نہیں شکوہ کی کرو شکر برادر
دیکھو تو نہ سر پر ہے پدر اور نہ مادر
تھوڑا ہے کہ یہ بھی ہمیں آتا ہے میسر
نعمت سے زیادہ ہمیں یہ نان جویں ہے
منہ اپنا تو اس کھانے کے قابل بھی نہیں ہے
رزاقی معبود پر غور کرنا چاہیئے کہ اس قید خانہ میں کھانا ملنے کی سبیل اس نے نکال دی ہے۔ اے بھائی جان نان جویں ہماری ازلی غذا ہے۔اور فاقہ کشی میراث پدری ہے۔ نانا ہمارے حضرت علی نے ہمیشہ جو کے سوکھے ٹکڑے کھائے ہیں۔ ہم بھی ان ہی کے نواسے ہیں۔ غور کرو یوسف پیغمبر نے قید میں کیسی مصیبت اٹھائی۔اللہ کی عنایت سے ان کو پھر مصر کی بادشاہی ملی۔ اگر افضال الہیٰ ہے تو کسی دن ہماری بھی رہائی ہو گی۔ نظم
چھوٹے نے کہا سب ہے بجا آپ کا ارشاد
بھائی بشریت سے ہے یہ نالہ وفریاد
ہم سا تو زمانے میں نہ ہوگا کوئی ناشاد
چھوٹے بھی تو ہوئیں گے نہیں رنج سے آزاد
یعقوب نے چھاتی سے لگایا تھا پسر کو
ہم قید سے بھی چھٹ کے نہ پائیں گے پدر کو
الغرض ایک مدت تک وہ دونوں صاحبزادے مبتلائے اذیت وتکلیف رہے۔ یہاں تک کہ ان کی شکلیں متغیر ہوگئیں۔ تصویریں لڑکپن کی پیری سے تبدیل ہوئیں۔ سر کے بال بڑھ گئے۔ جسم اقدس کی رگیں نمایاں ہو گئیں۔ آنکھوں میں حلقے پڑھ گئے۔ بیٹھا اٹھا نہیں جاتا تھا۔ کروٹ لینے میں غش آتا تھا۔ ناچار ہو کر ایک روز بڑے نے چھوٹے صاحب زادے سے کہا کہ اے بھائی یہ کیسی قید ہے۔ اس قدر عرصہ گزر گیا نہ چچا نے خبر لی، نہ ماں کو یاد آئی۔ نظم
افسوس یونہی عمر چلی جاتی ہے بھائی
نہ قید سے چھٹتے ہیں نہ موت آتی ہے بھائی
یہ سن کر بڑے بھائی نے کہا،اللہ سب کی مشکلیں آسان کرے گا۔بزرگوں کا شکوہ کرنا بے جا ہے۔
کس طرح کہیں بھول گئی ہوویں گی مادر
شبیر کو الفت میں ہیں ہم سب کے برابر
کیا جانے کس آفت میں ہیں فرزند پیمبر
وہ قید سے غیروں کو چھڑاتے ہیں برابر
سنتے تو مدد آن کے بھائی نہ کرتے
تدبیر بھتیجوں کی رہائی کی نہ کرتے
یہ کہتے تھے وا ہو گیا قفل در زندان
اور دینے لگا آب وغذا ان کو نگہبان
چھوٹے نے کھڑے ہو کے کہا با تن سوزان
ہم تجھ کو دعا دیتے ہیں اے مرد مسلمان
پینے کو نہ پانی نہ غذا چاہتے ہیں ہم
کچھ حال سنے تو کہا چاہتے ہیں ہم
اس یوسف لقا کا یہ کلام سن کر اس نگہبان نے کہا، کہو کیا کہنا چاہتے ہو۔ صاحب زادے نے کہا تو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہچانتا ہے۔اس نے عرض کی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی برحق کو جو نہ پہچانے وہ کافر ہے۔ تب آپ نے فرمایا کہ تو اسد اللہ کو جانتا ہے۔ اس نے کہا وہ میرے امام ہیں۔ میں تو ان کا غلام ہوں۔ پس یہ سن کر دونوں صاحبزادوں کی جان میں جان آگئی۔اور تفصیل سے اپنا سارا حال اس سے بیان کیا۔ جس وقت اس زندان بان نے ان بچوں کا مفصل حال سنا۔ نظم
پس سنتے ہی گھبرا گیا وہ مرد خوش اطوار
معصوموں کے قدموں پہ گرا دوڑ کے اکبار
کہتا تھا میں اس حال سے واقف نہ تھا زینہار
بخشو مجھے میں نے تمہیں گھڑکا تھا کئی بار
شکوہ مرا اللہ پیمبر سے نہ کیجیئو
جنت میں شکایت مری حیدر سے نہ کیجیو
دونوں صاحبزادوں نے فرمایا کہ اللہ وپیمبر تیری شفاعت کریں گے۔ ہمارے ساتھ اس قدر احسان کر کہ ہم مدینہ پہنچ جائیں۔ اس کے صلہ میں حضرت فاطمہ حشر میں تمہاری حامی ہو ں گی۔ بیت
غرض اس زندان بان نے دونوں صاحبزادوں کو قید خانہ سے نکالا۔اور قادسیہ کے رستے پر لگا کر واپس گیا۔ وہ دونوں صاحبزادے اسی سمت روانہ ہوئے۔ لیکن افسوس ہے کہ ایسی قید شدید اٹھا کر وہ چل نہیں سکتے تھے۔ بیت
چڑھ جاتا نقاہت سے جو دم ہانپنے لگتے
سایہ نظر آتا تو بدن کانپنے لگتے
افسوس کہ اس جنگل میں ،نظم
پھرتے رہے قسمت نے نہ کی راہ نمائی
رستہ نہ ملا جانے کا اور نصف شب آئی
چھوٹے نے کہا چلنے کی طاقت جو نہ پائی
اب تو ہمیں نیند آتی ہے ٹھہرو کہیں بھائی
کہتا تھا بڑا دن ہیں ابھی سخت ہمارے
سوئیں گے جو بےدار ہوئے بخت ہمارے
کہ اسی عرصہ میں ایک باغ نظر آیا۔وہاں جا کر ایک درخت کی جڑ میں پوشیدہ ہو کر سوگئے۔ اس درخت کے نیچے ایک چشمہ پانی کا تھا۔ وہاں پر ایک ضعیفہ پانی بھرنے آئی۔ دونوں صاحبزادوں کو دیکھا تو ان کے قریب آئی۔ وہ بے چارے مصیبت کے مارے کانپنے لگے۔ یہ حالت دیکھ کر اس ضعیفہ نے ان کو تسلی ودلاسا دیا۔ اور شفقت سے ان کا حال پوچھا۔ان معصوموں نے اپنا حال بیان کیا،اور اس کے پاوں پر گر پڑے۔ اور فرمانے لگے۔ نظم
رکھتے ہیں قرابت تو رسول عربی سے
مسلم کے پسر ہیں ہمیں کہیو نہ کسی سے
وہ بولی کہ آنکھوں پہ تمہیں رکھوں میں دن رات
پر صاحب خانہ ہے بڑا فاسق وبد ذات
حاکم کا تو وہ دوست ہے اور دشمن سادات
گر دیکھ لیا اس نے تو بننے کی نہیں بات
لونڈی ہوں میں زہرا کی تمہارا ہی یہ گھر ہے
ڈر ہے تو اسی ظالم وبے رحم کا ڈر ہے
یہ سن کر ان یتیموں کے قالب بےجان میں جان آگئی۔ کہنے لگے اے مومنہ ہم کو کسی حجرے میں چھپا دے۔ ہم کو تکیہ وبچھونا نہیں چاہیئے۔ وہ ضعیفہ ان دونوں بچوں کے گرد پھرنے لگی۔ اور کہنے لگی آپ کی خدمت گزاری سعادت کونین سمجھتی ہوں۔ پھر اپنے گھر میں لے آئی۔ مگر اپنے شوہر بدذات کے خوف سے ترساں ولرزاں تھی۔الغرض وہ دونوں شاہزادے نظم
مہماں ہوئے جا کر ستم ایجاد کے گھر میں
دونوں کو اجل لے گئی جلاد کے گھر میں
کھانا بھی نہ کھایا نہ پیا دونوں نے پانی
اور سوئے بہم مسلم مظلوم کے جانی
وہ نیند نہ تھی موت کی گویا تھی نشانی
دروازے پہ آ پہنچا ادھر ظلم کا بانی
چلایا ضعیفہ کو یہ زنجیر ہلا کر
کوسوں کا تھکا آیا ہوں در کھول دے آکر
یہ سن کر وہ ضعیفہ کانپنے لگی،اور خوشامد آمیز باتیں کرنے لگی،کہ ایسا کیا کام تھا کہ جو اس قدر رات گئے تم آئے۔ وہ نطفہ شیطان بے ایمان غصہ میں تو بھرا ہوا تھا۔ تیوری چڑھا کر بولا کہ تجھ کو میرے معاملات سے کیا واسطہ۔پھر ہتھیار کھولے اور بستر پر گر کر سوگیا۔ کچھ رات باقی تھی کہ دونوں صاحبزادوں نے خواب میں اپنے پدر بزرگوار کو دیکھا کہ حضرت مسلم آئے ہیں اور پیار فرما کر کہتے ہیں کہ اے نور دیدگان اب ایام تکلیف بسر ہوئے۔ کل تم میرے پاس ہو گے۔ یہ خواب دیکھ کر ایک نے دوسرے کو جگایا ،اور تمام ماجرا خواب کا سنایا۔ اور گلے مل کر رونے لگے۔ ان کی آواز سن کر وہ مردود ازلی جاگ اٹھا،اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔آخر ،نظم
کھول کر در حجرہ کو در آیا مقہور
دیکھتا کیا ہے کہ ہے نور سے حجرہ معمور
اس میں دویوسف کنعاں ہیں بحال رنجور
طعنہ زن ماہ پہ ہے جن کا عذار پر نور
دست افسوس ہر اک مرتبہ وہ ملتے ہیں
داغ سینوں کے چراغوں کی طرح جلتے ہیں
پہلے تو حارث ملعوں نے کہا صلی علیٰ
پھر لگا کہنے کہ تم کون ہو اور نام ہے کیا
سرخ جو دید ہ حارث کو نہایت دیکھا
ڈر گئے کانپ گئے وہ جگر شیر خدا
ڈر سے اور خوف سے ملعون کی تعظیم بھی کی
چھوٹے ہاتھوں کو اٹھا کر اسے تسلیم بھی کی
اور یوں بولے کہ تجھے نام بتائیں ہم کیا
بے وطن بے پدر آفت زدہ محبوس بلا
اس کے فرزند ہیں مظلوم ہے جو حد سے سوا
جس کے لاشہ کو کفن بھی نہیں اب تک ہے ملا
باپ کے ہجر میں ہیں شور مچایا ہم نے
عفو کر خواب سے ہے تجھ کو جگایا ہم نے
وہ لگا کہنے کہ نام اپنا بتاو مجھ کو
بولے معصوم کہ مسلم کے پسر ہیں ہم تو
نام مسلم کا جو دشمن تھا وہ ملعون بد خو
خندہ زن ہو کے وہ مردود لگا کہنے کہ ہو
یوسف آمد بہ وطن ما بہ سفر در بدر یم
صید در دام گرفتار وما بے خبریم
وہ سخن سنتے ہی روئے وہ بہت بادل زار
زلفیں ان دونوں کی ملعون نے کھینچیں اک بار
اور طمانچے سے کیے سرخ وہ گل سے رخسار
اس گھڑی کانپ گئی قبر رسول مختار
زوجہ حارث کی تو سر رورو کے ٹکراتی تھی
روح زہرا کے بھی نالوں کی صدا آتی تھی
الغرض اس ملعون ازلی نے کچھ رحم نہ کھایا۔اور در حجرہ میں قفل لگا کر سورہا۔ جب صبح ہوئی حجرہ کا دروازہ کھولا۔ حضرات کس زبان سے عرض کروں۔دونوں شہزادوں کی زلفیں پکڑ کے حجرے سے کھینچ کے باہر نکالا۔ دونوں معصوم اس سے کہنے لگے کہ اے حارث تو ہم کو حاکم کے پاس مت لے چل۔ بیت
جس روز سے بابا موئے بدلی نہیں پوشاک
کرتوں پہ کہیں خون لگا ہے تو کہیں خاک
آہ آہ وہ شقی ازلی کب فریاد ان غریبوں کی سنتا تھا۔ نظم
الجھی ہوئی زلفوں کو لعیں کھینچ رہا تھا
دریا پہ پئے قتل انہیں لے کے چلا تھا
جلاد کے بس میں جو پڑے ہائے وہ نادان
اک ہاتھ میں مظلوموں کی تھی زلف پریشان
اک ہاتھ میں تھے چھوٹے سے کرتوں کے گریبان
بچے ہی تو تھے ڈر سے نکل آتے تھے دندان
گرتے ہیں تڑپ کر یہ نہیں چھوٹتے ہیں بال
کرتے کبھی پھٹتے ہیں کبھی ٹوٹتے ہیں بال
بے چاروں کے ہیں تن کانپتے دل ہیں دہلتے
کانٹے ہیں لگے پاوں میں گر کر ہیں چھلتے
حارث جو ڈراتا ہے تو پھر جلدی ہیں چلتے
اب آنسو کے جا ٹکڑے جگر کے ہیں نکلتے
گرگر پڑے ہیں چھوٹے سے عمامے بھی سر سے
مظلوم اٹھاتے نہیں ملعون کے ڈر سے
چھوٹے کو بڑا بھائی ہے بڑھ بڑھ کے بچاتا
ہر بار ہے مصحف کی طرح بیچ میں آتا
رو دیتا ہے کچھ کہنے کا موقع نہیں پاتا
بے ساختہ بس حرف زباں پر ہے یہ لاتا
سن حال غریبوں کا خدا کے لئے دم لے
اب ہم ترے گھر میں اگر آئیں تو قسم لے
اے حارث ہم پر رحم کھا۔اپنی خوشی سے تیرے گھر میں نہیں آئے۔ نہ کوئی چین پایا۔تھوڑا ساآرام ملا تھا۔ سو اس کا عوض تونے یہ دیا کہ رات بھر رسی میں باندھ کھڑا رکھا۔ اب چھوڑ دے اقرار کرتے ہیں کہ ہم تیرے گھر پھر کبھی نہیں جائیں گے۔ اور زوجہ حارث کی طرف مایوسانہ دیکھ کر کہتے تھے۔ نظم
چھڑوادے کہ پکڑے ہوئے زلفوں کوعدو ہے
اماں نہیں بابا نہیں جو کچھ ہے سو تو ہے
بالوں کو بکھیرے ہوئے وہ مومنہ تھی ساتھ
مظلوموں کو ظالم سے چھڑاتی تھی وہ خوش ذات
گہہ پاوں پہ سر رکھتی تھی گہہ جوڑتی تھی ہاتھ
کہتی تھی خدا کے لیے کیا کرتا ہے ہیہات
بس بس کہ زمیں اب تو ہلی جاتی ہے ظالم
زہرا مجھے سر ننگے نظر آتی ہے ظالم
حیدر کے نواسوں پہ غضب لاتا ہے توبہ
سیدانیوں کے بچوں کو تو رلواتا ہے توبہ
فاقوں سے بدن دونوں کا تھراتا ہے توبہ
اور تجھ کو ذرا رحم نہیں آتا ہے توبہ
ڈر سے تیرے معصوموں کے دنداں نکل آئے
غالب ہے لحد سے شہ مرداں نکل آئے
ارے ظالم کیوں زلفوں کو پکڑ کر کھینچتا ہے۔ یہ ناشاد علی علیہ سلام کی اولاد ہیں۔ افسوس کہ نبی کے احسان تجھ کو یاد نہیں۔ تو بھی صاحب اولاد ہے ۔ بچوں پہ رحم کر۔ یتیموں کا ستانا اچھا نہیں۔ اے بیدین اگر تو طالب زر ہے۔ تو بعوض ان یتیموں کے فاطمہ کے نام پر مجھ کو بیچ دے۔ نظم
ظالم نے تہہ تیغ کیا زوجہ کو اس آن
یا فاطمہ کہہ کے وہ ہوئی بچوں پہ قربان
دریا پہ عدو لایا انہیں پکڑے گریبان
دی تیغ غلام حبشی کو وہاں عریاں
غصہ سے کہا دونوں کوانگلی سے بتا کر
ہاں کاٹ لے سر ان کے کنارے پہ تو جا کر
الغرض جس وقت وہ غلام حبشی تلوار لے کر بڑھا تو دونوں شہزادے سر جھکا کر ہمراہ چلے۔ منقول ہے کہ وہ حبشی مثل حضرت بلال کے حق آگاہ تھا۔ ان مظلوموں نے فرمایا کہ اے بندہ اللہ تو موذن رسول بلال سے بہت مشابہہ ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ تو رسول کا محب ہے یا دشمن نظم
وہ بولا نبی پہ ہوں فدا میں بدل وجان
چپکے سے کہا دونوں نے اب ہم ہیں حیران
عترت کا تو قاتل ہے نبی پر ہے تو قربان
وہ بولا عزیزوں میں پیمبر کے ہوتم ہاں
تقصیر ہوئی مجھ سے نہ آگاہ تھا خادم
للہ ہدایت کرو گمراہ تھا خادم
کیا رشتہ ہے پیارو تمہیں محبوب خدا سے
ہونٹوں پہ زباں پھیر کے یوں بولے وہ پیاسے
جعفر کے تو ہم پوتے ہیں حیدر کے نواسے
بولا حبشی آنکھوں کو مل کر کف پا سے
شہزادو قسم فاطمہ کی فاقہ کشی کی
بخشو مجھے خاطر سے بلال حبشی کی
پھر غصہ سے حارث کی طرف پھینک دی تلوار
بے وار لگائے ہوئے دریا کے ہوا پار
حارث نے کہا ہو گیا آقا سے تو بےزار
وہ بولا خدا سے تو نہیں پھر گیا زینہار
تو کام کر اللہ کا کام اپنا لے مجھ سے
تو پھر گیا اللہ سے میں پھر گیا تجھ سے
بعد اس کے حارث ملعون نے فرزند کے ہاتھ میں تلوار دے کر کہا کہ بیٹا تو ان بچوں کے سر اڑا دے۔ وہ دیندار دونوں شہزادوں کو لے کر چلا تھا۔ کہ ان معصوموں نے یاس سے اسے دیکھا۔وہ بولا کیا دیکھتے ہو میں تم کو قتل کروں گا۔ شاہزادوں نے کہا تجھ کو دیکھ کر بھائی علی اکبر یاد آگئے ہیں۔اور تیری جوانی پر تاسف آتا ہے۔ کہ ناحق جہنم کی راہ اختیار کرتا ہے۔ اگر چہ علی اکبر بھی جوان ہیں ۔مگر وہ کسی کو قتل نہیں کرتے۔ نظم
وہ بولا کہ اکبر ہیں عزیزوں میں تمہارے
رو کر کہا ہاں بیٹے ہیں ماموں کے ہمارے
سب بھائیوں میں ہم بہت اکبر کو ہیں پیارے
کیا دخل حضور ان کے جو ماں بھی ہمیں مارے
ہم گھٹنیوں عباس کے سینے پہ چلے ہیں
اور زینب وکلثوم کی گودی میں پلے ہیں
یہ سنتے ہی گرد ان کے پھرا حق کا وہ شیدا
دریا میں گرا تیغ پٹک کر لب دریا
اللہ کی رحمت میں ہوا غرق سراپا
حارث نے کہا حق یہ پدر کا تھا تو بولا
حاشا تو پدر کس کا شقی ازلی ہے
ماں فاطمہ ہے مومنو کی باپ علی ہے
تو کور ہے ظالم نظر آئے تجھے کیوں کر
وہ دیکھ نبی روتے ہیں دریا پہ کھلے سر
ظالم نے کہا مجھ کو نہیں خوف پیمبر
اک تیغ تلے دونوں کو بٹھلایا برابر
گردن کو نہ جھکنے دیا سجدے میں خدا کے
سر کاٹا بڑے بھائی کا چھوٹے کو دکھا کے
سر پاس رکھا لاش کو دریا میں بہایا
بھائی کے گلے کا جو لہو خاک پہ پایا
الفت سے برادار کا لہو جوش میں آیا
تب جوڑ کے ہاتھ اپنے یہ قاتل کوسنایا
پونچھوں یہ لہو کرتے سے تلوار جھکا دے
لوٹوں بڑے بھائی کے لہو میں جو رضا دے
وہ بولا کہ ہو شوق سے غلطاں مجھے کیا ڈر
بھائی کے لہو میں وہ لگا لوٹنے گر کر
کہتا تھا کہاں اب تمہیں ڈھونڈے یہ برادر
تم تو ابھی بیٹھے ہوئے تھے میرے برابر
اس طرح نصیب اپنا الٹتے ہوئے دیکھا
بھائی کا گلا بھائی نے کٹتے ہوئے دیکھا
اس خون کے تھالے پہ کبھی سر کو جھکاتا
چلو میں لہو بھر کے کبھی منہ پہ لگاتا
کرتے میں کبھی خون بھرے ہاتھ سکھاتا
اور ہاتھوں سے اپنے کبھی اک قبر بناتا
پڑھتا تھا کبھی فاتحہ ہاتھوں کو اٹھا کر
یارب میرے بھائی کو ثواب اس کا عطا کر
کیوں حضرات اس معصوم پر کیا گزری ہوگی۔ وہ بچہ اپنے بھائی کے خون میں لوٹتا تھا۔ اور کوئی پرسان حال اس معصوم کا نہ تھا۔ حارث ملعون شمشیر برہنہ لیے پاس اس کے کھڑا تھا۔ افسوس صد افسوس کس زبان سے اس معصوم مسافر کا حال بیان کروں۔ نظم
ناگاہ غضب وطیش سے حارث یہ پکارا
بس لوٹ چکے اٹھو کہ سر کاٹوں تمہارا
اٹھ بیٹھ کہا اچھا گلا کاٹو ہمارا
سر کاٹ کے دریا میں جو تن ڈالا قضا را
آواز یہ آئی ہوئے سب پورے ارادے
اے نہر مجھے بھائی کے لاشے سے ملا دے
روایت میں وارد ہے کہ بڑے بھائی محمد کا لاشا اپنے چھوٹے بھائی ابراہیم کا منتظر تھا۔ جونہی اس کا جسم نازنین بڑے بھائی سے ملا۔ نظم
سینہ پہ رکھا سینہ جگر رکھا جگر پر
اور ہاتھ اٹھے ان کے سوئے قبلہ برابر
حلقوم بریدہ سے صدا آئی مکرر
شبیر کی ہو خیر کہ ہم تو ہوئے بے سر
مادر کو بھلا دیجیئو اب یاد ہماری
لے لیجیئو جلاد سے تو داد ہماری
الغرض وہ شقی ازلی ان دونوں صاحبزادوں کے سر ہائے مبارک لے کر ابن زیاد کے پاس آیا۔ اور اس بد نہاد کے سامنے رکھ دیئے۔ حضرات ان ننھے ننھے بچوں کے سر دیکھتے ہی باوجود قساوت قلبی کے ابن زیاد ملعون کے آنسو نکل آئے۔ اور حارث لعین سے کیفیت دریافت کی۔اس مردود ازلی نے اپنی زوجہ ،فرزند اور غلام کے اور اپنی شقاوت اور ان بچوں کی منت وزاری کے تمام حالات فخریہ بیان کیے۔ اور کہا کہ وہ مجھ سے فریاد کرتے اور کہتے تھے کہ ہم خاندان نبوی اور رشہ داران مرتضوی سے ہیں۔ لیکن اگر تو ہم کو اس خاندان بزرگ سے نہیں مانتا، تو مسلمان ہی جان کر چھوڑ دے۔ مگر میں نے ایک بات بھی ان کی نہ سنی۔ لیکن اخیر میں جو فرمایا۔ نظم
اس کلمہ کو سن کر مرے آنسو نکل آئے
جنت سے نبی کھول کے گیسو نکل آئے
وہ آخری یہ بات کہی دونوں نے باہم
بالفرض تیرے آگے مسلمان بھی نہیں ہم
بچپن پہ ہمارے نظر رحم کر اس دم
اک اماں کا دم رکھتے ہیں بابا تو ہوئے بے دم
غربت پہ یتیمی پہ صغیری پہ نظر کر
پردیسیوں کو چھوڑ دے اللہ سے ڈر
یہ سنتے ہی حاکم نے شقی سے کہا رو کر
اغلب ہے یہ سن کر تو ترس آیا ہو تجھ کو
کانوں پہ دھرا ہاتھ پکارا کہ نہیں تو
تیری ہی قسم رحم جو اس پر بھی کیا ہو
سوگند سنی میں نے نبی کی نہ خدا کی
وہ منتیں کرتے رہے اور میں نے جفا کی
پیاسوں کو برابر لب دریا بٹھایا
دکھلا کے انہیں تیغ کو پتھر پہ لگایا
اور بولا کہ لو بچو یہ مجھ کوترس آیا
دونوں کو دم ذبح بھی باتوں سے رلایا
وہ کہتے تھے گردن سے تو تلوار ملی ہے
میں کہتا تھا بس میری یہی رحم دلی ہے
حارث کو نہ حاکم نے صلہ کچھ دیا اصلا
سر کاٹ کے پھنکوادیا اس نہر میں مردا
پانی نے کیا مردہ ناری سے کنارا
مظلوموں کے غم سے تھا عجب شور میں دریا
سر ننگے صفیں مردم آبی کی کھڑی تھیں
اور مچھلیاں نکلی ہوئی ریتی پہ پڑی تھیں
کہتے ہیں کہ اس روز ہوئی شام جو پیدا
تو اہل زراعت نے لب نہر یہ دیکھا
اک قافلہ آیا ہے نجف سے سوئے دریا
ہیں عورت ومرد اس میں سیاہ پوش سراپا
اور آگے ملک چاک گریبان کیے ہیں
کاندھے پہ علم کالے پھریروں کے لیے ہیں
اک مرد بزرگ آگے برہنہ کیے سر ہے
اک بی بی رکھے ہاتھوں کو بالائے جگر ہے
سر ہاتھوں پہ اک شخص لیے خون میں تر ہے
سب کہتے تھے یہ دونوں شہیدوں کے پدر ہیں
غل ہے کہ جو پیشانی پہ یہ خاک ملے ہیں
مسلم کے یتیموں کے لئے رونے چلے ہیں
ہر چار طرف کہتی ہیں حوریں یہ برابر
ہٹ جاو بتول آئی بتول آئی کھلے سر
ہر گاہ ٹھہر جاتا ہے وہ قافلہ چل کر
آتی ہے یہ آواز کہ غش ہو گئے شبر
گاہے تو یہ شیون ہے کہ حیدر کو غش آیا
گاہے یہ صدا ہے کہ پیمبر کو غش آیا
سب آئے وہاں قتل ہوئے تھے جہاں پیاسے
اک شیر بڑھا قافلہ اہل عزا سے
نعرہ کیا دریا پہ یہ اندوہ بکا سے
اے نہر کہاں ہیں مرے مظلوم نواسے
بے چین بہت روح ہے اب حق کے ولی کی
اے نہر تو لا جلد امانت کو علی کی
اے نہر تیرے پاس علی کے ہیں وہ اختر
یوسف کے برابر ہیں یہ دویوسف حیدر
اے نہر تیرے پاس علی کے ہیں وہ گوہر
اک فدیہ اکبر ہے اور اک فدیہ اصغر
ان دونوں سے بڑھ کر نہیں ہے صبر کسی میں
اک دے مرے دامن میں اک آغوش نبی میں
یہ درد بھرے کلمے جو دونوں نے سنائے
سن کر یہ سخن نہر سے لاشے نکل آئے
حیدر نے کلیجے سے وہ دو مردے لگائے
اور کشتیوں میں حلہ فردوس منگائے
بولے کہ فدا ماموں پہ سر تم نے کیے ہیں
لو پہنو یہ خلعت تمہیں زہرا نے دیئے ہیں
ان دونوں نے حلقوم بریدہ سے سنایا
کیا جانیں کفن باپ نے پایا کہ نہ پایا
حیدر نے کہا ان کو بھی حلہ ہے پہنایا
بابا بھی تمہارا تمہیں رونے کو ہے آیا
پھر حلہ فردوس نواسوں کو پہنا کے
زہرا سے کہا روو بس اب لاشوں پہ آکے
یہ کہنا علی کا کہ ہوا آہ عجب حال
سب اہل عزا گرد ہوئے بیچ میں وہ لال
کی خون سے دونوں کی جبیں فاطمہ نے لال
لاشوں پہ کھڑے ہو کے پریشان کیے بال
چلائی کہ ہے ہے شہ مرداں کے نواسو
ہے ہے مرے پردیسیوں ہے ہے مرے پیاسو
ہے ہے مرے مظلوم غریبوں کا مقدر
ہے ہے نہ ہوئی خاک وطن تم کو میسر
ہے ہے مرے عباس کی ہمشیر کے دلبر
ہے ہے علی اصغر علی اکبر کے برادر
پردیس میں بچپن کی شہادت پہ میں صدقے
جو روئے تمہیں اس کی محبت پہ میں صدقے
ہے ہے مرے مسلم کے چراغوں کو بجھایا
ہے ہے مرے پردیسی کی دولت کو لٹایا
ظالم نے رقیہ کی امانت کو مٹایا
شبیر کو ان بھانجوں کے غم میں ہے رلایا
تلواروں کے اور فاقوں کے مارے ہوئے ہے ہے
پیاسے مرے جانی مرے پیارے موئے ہے ہے
ناگاہ بدن مردوں کے ہل ہل گئے سارے
زہرا نے جو پوچھا تو تڑپ کر یہ پکارے
اماں کی صدا آتی ہے یہ دل کو ہمارے
ہے ہے نہ ملے مجھ سے بچھڑ کر مرے پیارے
افسوس ہے پھر مادر ذیشاں کو نہ دیکھا
بابا کو تو پھر دیکھا اور اماں کو نہ دیکھا
ہاتھوں کو اٹھا حق سے وزیر اب یہ دعا کر
معصوموں کا صدقہ مری حاجت کو روا کر
Friday, August 13, 2010
نویں مجلس شہادت حضرت مسلم بن عقیل اور منزل ثعلبیہ پر امام مظلوم کو شہادت کی خبر ملنا
نویں مجلس
حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت اور منزل ثعلبیہ میں امام حسین علیہ سلام کو اس مظلوم کی غم انگیز شہادت کی خبر ملنا
احباب کو پیغام سفر دیتے ہیں مسلم
قتل شہ والا کی خبر دیتے ہیں مسلم
جناب امام حسن کی شہادت کے بعد پنجتن میں صرف امام حسین تن تنہا رہ گئے تو شعیان حیدر کرار آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ بعد وفات برادر بزرگوار آپ نے اپنے اخلاق کو بہت وسیع کر لیا تھا۔ نظم
الم کا افتخار تھا پیارا بتول کا
بخشش علی کی تھی تو کرم تھا رسول کا
فیض ملازمت سے جو ہوتا تھا بہرہ ور
کرتا تھا اس پہ لطف ید اللہ کا پسر
جو چومتا تھا پائے شہنشاہ بحر وبر
سینہ سے خود لگاتے تھے شبیر اس کا سر
محتاج بھی جو آپ کی خدمت میں آتے تھے
اٹھ کر قریب پھر انہیں حضرت بٹھاتے تھے
آپ کا عبادت معبود میں بھی وہی اہتمام تھا۔ اور غربا ومساکین پر لطف وکرم بھی بے حساب تھا۔تاکہ ان کو پدر عالی مقدار علی ابن ابی طالب کی فرقت کا غم نہ رہے۔ نظم
حق پہ نظر تھی خانہ نشیں تھے شاہ امم
مشغول تھے عبادت خالق میں دم بدم
یکساں گدا وشاہ پہ تھا آپ کا کرم
دل دکھ گیا کسی کا سنا گر بیان غم
جس مستحق پہ لطف وکرم کی نظر ہوئی
دے آئے گھر پہ یوں نہ کسی کو خبر ہوئی
جز طاعت الہٰ کوئی اور تھا نہ کام
آٹھوں پہر نماز میں مشغول تھے امام
ہر روز روزہ دار تھا وہ آسماں مقام
حضرت تھے اور تلاوت قرآں تھی صبح وشام
ہوتا تھا جب الم دل وجان بتول پر
روتے تھے جا کے قبر جناب رسول پر
روایت ہے کہ جب معاویہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔اور ان کی جگہ یزید پلید تخت پر بیٹھا۔اس کے رگ وپے میں دشمنی آنحضرت کی رچی بسی تھی۔ لیکن بظاہر مکر ودغا سے اشتیاق ملازمت کے خطوط لکھا کرتا تھا۔ آخر مکر وفریب سے کوفیان دغا کیش کو ہموار کرکے اس ارادے سے خطوط لکھوائے کہ ایک مرتبہ اگر حسین مدینہ چھوڑ کر روانہ ہو جائیں تو پھر چاروں طرف سے محاصرہ کر لوں اور پناہ نہ دوں۔ القصہ حسب مشورہ یزید پلید کوفیان پر دغا نے بہت سی عرضیاں اشتیاق قدم بوسی میں تحریر کرکے امام مظلوم کی خدمت میں ارسال کیں۔ جب آنحضرت نے دیکھا کہ کوفی نہایت عجز وانکساری سے بلاتے ہیں تو ناچار اپنے برادر گرامی قدر مسلم ابن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ یہ گویا حسین مظلوم کی ابتدائی مصیبت ہے۔ نظم
گلشن میں ہے چرچا گل احمر سفری ہے
پریوں میں غل ہے بے کس وبے پر سفری ہے
ہے شور جنوں میں کہ دلاور سفری ہے
کہتا ہے جہاں شہ کا برادر سفری ہے
رنج وغم مہر وماہی کے دن آئے
لو یثرب وبطحا کی تباہی کے دن آئے
اچھا نہیں مسلم کے سفر کا تو قرینہ
افسوس اجڑتا نظر آتا ہے مدینہ
پھر جائیں گے سب کوفیوں کے دل میں ہے کینہ
ڈوبے نہ کہیں خون میں ایماں کا سفینہ
کوفہ کو انہیں آج جو بجھواتے ہیں شبیر
کل دیکھنا یہ بھی کہ چلے جاتے ہیں شبیر
ہے نعرہ شبر مرا مسلم میرا مسلم
چلاتے ہیں حیدر مرا مسلم میرا مسلم
کہتے ہیں پیمبر مرا مسلم میرا مسلم
آئے گا نہ پھر کر مرا مسلم میرا مسلم
چلاتی ہیں زہرا کہ میں اب کیا کروں لوگو
جاتا ہے میرا پیک لقب کیا کروں لوگو
الغرض وہ شب فریاد وزاری میں کٹی۔ اور وقت صبح اذان کی آوازیں مسجدوں سے بلند ہوئیں۔ادھر نمازی مسجدوں کو روانہ ہوئے۔جو مسافر تھے منزل سے روانگی کے لئے تیار ہوئے۔ نظم
مسلم نے یہاں اپنے غزالوں کو اٹھایا
کس پیار سے آغوش کے پالوں کو اٹھایا
اللہ کے پہچاننے والوں کو اٹھایا
کہہ کہہ کے یہ ان تازہ نہالوں کو اٹھایا
اٹھو مرے شیرو کہ سحر دور نہیں ہے
ہشیار کہ اب وقت سفر دور نہیں ہے
اٹھو کہ اجل سر پہ کھڑی رہتی ہے ہر دم
ہشیار ہیں جو لوگ وہ سوتے ہیں بہت کم
وقفہ نہیں پڑھ لی یہ نماز اور چلے ہم
آواز سنو جاگ رہے ہیں شہ عالم
اس وقت عجب کوچ کا سامان بندھا ہے
آواز اذاں بھی ہمیں آواز درا ہے
چلنے پہ راہ حق میں تامل نہیں کرتے
اللہ کی اطاعت میں تساہل نہیں کرتے
راحت پہ نظر اہل توکل نہیں کرتے
وقفہ عمل نیک میں بالکل نہیں کرتے
یہ سن کے دعا باپ کو دیتے ہوئے اٹھے
اور پہلووں سے نیمچے لیتے ہوئے اٹھے
اللہ اللہ ابھی صاحبزادگان حضرت مسلم بہت کم سن ہیں۔ مگر بشوق سفر اٹھ کر اول حضرت مسلم کو تسلیم کی اور وضو کرکے چھوٹے چھوٹے سجادوں پر نماز پڑھی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت مسلم کے احباب نماز سے فارغ ہو کر تسبیح پڑھتے ہوئے حضرت مسلم سے ملاقات کے اشتیاق میں آکر رخصت کے واطے جمع ہوئے۔ کوئی روتا تھا۔ کوئی دعا کرتا تھا۔ کہ خدا وند رحیم وکریم مسلم کو پھر مدینہ لائے۔ حضرت مسلم سامان سفر میں مشغول تھے۔ اور صاحب زادے اپنی تیاری میں مصروف کہ ناگاہ نظم
خدام خبر کثرت احباب کی لائے
پوشاک بخوبی یہ پہننے بھی نہ پائے
باہر وہ محل سے جو کمر باندھ کے آئے
احباب نے مجرے کے لئے ہاتھ اٹھائے
جب نائب شہ کوچ کے سامان سے نکلے
فرزند بھی مسلم کے عجب شان سے نکلے
تلوار لیے بیٹھ گئے دوستوں کے پاس
احباب نے آغاز کیے کچھ سخن یاس
اللہ کرے آپ کو آئے یہ سفر راس
کیا کیا ہمیں اس خانہ امید سے ہے آس
دنیا کی مصیبت سے اگر خانہ نشیں تھے
یاں آتے ہی واللہ پریشاں نہ حزیں تھے
باتیں تھیں کبھی یاس کی گہ آہ لبوں پر
پڑھتے ہوئے قرآن نکل آئے شاہ صفدر
اک غول عزیزوں کا شہ دیں کے برابر
ہمراہ تھے عباس علی،قاسم واکبر
سب غنچہ دہن مہر لقا مہہ جبیں تھے
پر حضرت مسلم کی جدائی سے حزیں تھے
الغرض حضرت امام حسین اور حضرت علی اکبر اور جناب عباس اور تمام احباب اپنے اپنے سروں کو جھکائے مصروف بکا تھے۔ کہ نظم
مسلم سے کہا شہ نے اے صاحب شمشیر
ہو آو ذرا گھر میں تو رخصت کو میرے شیر
وہ بولے بہت خوب خوب نہیں دیر
یہ کہہ کے محل میں گئے وہ زیست سے دل سیر
اشکوں سے بھرے دیدہ پر نم نظر آئے
نرگس میں در قطرہ شبنم نظر آئے
فرمایا کوئی جلد رقیہ کو بلا دو
حق اس کو یتیمی سے بچائے یہ دعا دو
اب باپ سے چھٹ جاو گی بیٹی کو بتادو
آرام میں بھی ہو میری پیاری تو جگا دو
کہہ دو دم فرقت ہے دم نوحہ گری ہے
پر سوئیومل آو کہ بابا سفری ہے
جا کر کسے معلوم کہ پھر آئیں کہ نہ آئیں
ہم بے کس و مظلوم پھر آئیں کہ نہ آئیں
واں ظلم کی ہے دھوم پھر آئیں کہ نہ آئیں
دیدار کے محروم پھر آئیں کے نہ آئیں
اس وقت جو درکار ہو لےلے میری پیاری
جو دل میں ہو ارمان وہ کہہ دے میری پیاری
اتنے میں نظر آئی وہ بیمار یتیمی
چہرہ سے نظر آگئے آثار یتیمی
تھی ساتھ سکینہ بھی گرفتار یتیمی
ظاہر تھے ہر ایک عضو سے آثار یتیمی
سینہ سے لگایا اسے مسلم نے بلا کر
منہ چوم لیا پیار سے زانو پہ بٹھا کر
کس درد سے فرمانے لگے عاشق باری
بی بی ہیں سکینہ شہ ابرار کی پیاری
تم خادمہ ہو ان کی یہ مالک ہیں تمہاری
اب ہم تو چلے رکھیو نہ امید ہماری
ہر مرتبہ قدموں پہ گرا کیجیو بیٹا
ساتھ ان کے شب وروز رہا کیجیو بیٹا
پھر یوں نصیحت فرمائی کہ جان پدر اہلبیت کی خدمت گزاری میں رہنا۔ امام کی لاڈلی سکینہ کے ساتھ کھیل کر دل بہلانا۔اور آج سے اپنا پدر امام عالی مقام کو سمجھنا۔ جب ہم تمہیں یاد آئیں گے۔ شبیر سینہ سے لگائیں گے۔ کیوں حضرات جب کربلا میں اسی سکینہ پر ظلم وستم ہو رہے تھے۔ نظم
مسلم تھے کہاں جب کہ طمانچہ اسے مارا
زیور آن مخدومہ عالم سے اتارا
وہ چاند ساعارض گل سوسن ہوا سارا
چلاتی تھیں اس وقت نہیں کوئی ہمارا
ظالم نے گلا رشک سمن باندھ کے کھینچا
اور ننھے سے بازو میں رسن باندھ کے کھینچا
الغرض اس صاحبزادی کو سمجھا کر آپ باہر تشریف لائے۔جناب امام حسین کے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور آداب بجا لا کر عرض کی۔ نظم
جانباز کو ہو جلد اجازت مرے آقا
دن چڑھتا ہے اب کیجیئے رخصت مرے آقا
شہ ہاتھوں کو پھیلا کے پکارے ادھر آنا
لو آو گلے پہلے ملو بھائی تو جانا
پڑھتے تھے دعا کان میں پکڑے ہوئے شانہ
کہتے تھے کہ ہو ظلم تو ہنس ہنس کے اٹھانا
گو بارش تیغ وتبر وسنگ ہو بھائی
یوں جھیلنا کڑیاں کہ جہاں دنگ ہو بھائی
مجرا کیا مولا کو چلے مسلم بے پر
سب دوست سمٹ کر ہوئے ہمراہ دلاور
احباب سے ہونے لگے رخصت جو ٹھہر کر
وہ بولے کہ کیا جائیں ہمیں گور ہے اب گھر
لے چلیئے ہمیں ساتھ زیاں آپ کا کیا ہے
ہمراہ رکاب آپ کے رہنے میں مزہ ہے
حضرت مسلم نےارشاد فرمایا کہ دوستو وطن کے مرنے کی کیا بات ہے۔ جنازے کے ہمراہ اعزا واحباب ہوتے ہیں۔ لیکن عالم غربت میں ہر طرف سے یاس ہوتی ہے۔ تم کو ساتھ چلنے میں ہر طرح کا وسواس ہے۔نظم
یاں آنے کی امید کہاں اب نہ پھریں گے
جائیں گے سوئے باغ جنان اب نہ پھریں گے
کرتے تھے بہم سب یہ بیاں اب نہ پھریں گے
دی مرگ نے آواز کہ ہاں اب نہ پھریں گے
ملنے لگے احباب سے مسلم کے پسر بھی
دریا بھی رواں ہونے لگا اور گہر بھی
راہی سوئے کوفہ جو ہوئے مسلم ناشاد
یہ پہلے ہی جنگل میں ہوا سانحہ ء فریاد
اک آہو ئے خوش چشم کو پکڑے ہوئے صیاد
گردن پہ چھری پھیرتا ہے صورت جلاد
تکتا ہے وہ ہر نخل کی ہر برگ کی صورت
ہر سمت نظر پھرنے لگی مرگ کی صورت
یہ حال دیکھ کر حضرت مسلم واپس آئے۔اور حضرت امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں اس بد شگونی کا ذکر کیا۔ اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا، بھائی تم خدا پر بھروسا کرکے اپنی منزل کی طرف جاو۔ ہم اہل بیت رسول شگون کے قائل نہیں۔ انشا اللہ ہم اپنے مقصد میں کام یاب ہوں گے۔ نظم
مولا سے یہ سن کر جو ہوئے بادیہ پیما
تقدیر نے دکھلائے عجب طور کے صحرا
راتیں وہ سیاہ ہوکنا وہ شیر کا ہر جا
جھونکے وہ ہوا کے کبھی پتوں کا وہ اڑنا
ایذائیں بہت راہ میں پاتے ہوئے پہنچے
کوفہ میں غرض رنج اٹھاتے ہوئے پہنچے
جب کوفیان پر دغا نے حضرت مسلم کی آمد کا حال سنا تو نظم
متفق ہو کے چلے گھر سے پئے استقبال
آئے دروازہ تلک شہر کے با جاہ وجلال
ظا ہر ان سے ملاقی ہوئے باذوق کمال
سینہ نحس مگر بغض سے تھے مالا مال
دل میں سوچے کہ شہادت کا کفیل آیا ہے
بادشاہ عربستان کا وکیل آیا ہے
الغرض جناب مسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کوفیوں نے امام حسین کا حال دریافت فرمایا،اور آنحضرت کی قدم بوسی کا کمال اشتیاق ظاہر کیا۔ جناب مسلم بھی ان کی عقیدت سے خوش ہوئے۔ بیت
روئے خاطر تھا زبس سب کا مسافر کی طرف
مطمئن آپ ہوئے دیکھ کے ظاہر کی طرف
ان لوگوں سے حضرت مسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری عقیدت کا مفصل حال تحریر کرتا ہوں ۔یقین ہے کہ برادر بزرگوار جلد تشریف لائیں ۔بیت
حال سے یاں کے جو واقف شہ دیں ہوں گے
ہے یقیں اب کے محرم میں یہیں ہوں گے
یہ سن کر
ان دغا بازوں نے براہ مکر بیعت کرنا شروع کی۔چنانچہ بعض روایات میں پچیس ہزار اور بعض میں اٹھارہ ہزار مکاروں کا بیعت قبول کرنا تحریر ہے۔ یہ تمام حال حضرت مسلم نے امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ یہ تحریر آنحضرت کی خدمت بابرکت میں پہنچی۔ آپ نے حضرت عباس سے ارشاد فرمایا کہ ساکنان کوفہ میری بیعت پر راضی ہیں۔ انشا اللہ تعالیٰ مناسک حج سے فارغ ہو کر کوفہ کی جانب چلوں گا۔ لیکن ان ہی ایام میں چاروں طرف سے دشمنان دین عداوت وخونریزی پر تیار ہوئے۔اور نیز خطوط بھی آنے لگے۔ نظم
شہ شر سے باغیوں کے جو ناچار ہو گئے
حضرت وطن سے کوچ پہ تیار ہو گئے
قبر رسول پہ گئے روتے شہ زمن
رخصت ہوئے ضریح سے باصد غم ومحن
واں سے پھرے تو آئے سوئے مرقد حسن
فرماتے تھے کہ آہ چھٹا ہم سے اب وطن
بھائی کی ماں کی قبر سے رو کر جدا ہوئے
چھوڑا وطن کو راہی دشت بلا ہوئے
الغرض مدینہ منورہ سے مع اہل بیت اطہار کوچ فرما کر کعبہ میں پہنچے۔ یہاں بھی ظلم اشقیا سے مہلت نہ پائی۔ ناچار وہاں سے رخصت ہوئے اور اسی طرح نظم
کہتے تھے بصد درد کہ اے کعبہ داور
اب تجھ سے جدا ہوتا ہے فرزند پیمبر
ملتی نہیں سید کو اماں وائے مقدر
جاتا ہوں سوئے گور سراسیمہ ومضطر
دوری ہوئی اس گھر سے بس اب دل کو یقیں ہے
قربانی شبیر کا ہنگام قریں ہے
پھر قبر محمد کی طرف پڑھ کے زیارت
کی عرض مسافر کی دوبارہ ہے یہ رخصت
کعبہ میں بھی نانا نہ میسر ہوئی راحت
آزار پہ باندھے ہیں کمر اہل ضلالت
مخفی ہوئے ہیں قافلہ حاج میں آکے
پائیں مجھے تو ذبح کریں گھر میں خدا کے
نانا مجھے رہنے کا ٹھکانہ نہیں ملتا
جنگل میں بھی بستی کا بسانا نہیں ملتا
آٹھ آٹھ پہر بچوں کو کھانا نہیں ملتا
پانی کہیں ملتا ہے تو دانہ نہیں ملتا
مہلت نہیں اتنی بھی کہ سایہ میں کھڑا ہوں
حضرت سے جدا ہو کے تباہی میں پڑا ہوں
الغرض اس طرح باگریہ وزاری آپ محراب ومنبر سے رخصت ہوئے۔ اور طے منازل وقطع مراحل کرتے ہوئے کوہ وبیابان میں چلے جاتے تھے۔
قریوں سے زیارت کو جو آجاتی تھی خلقت
کرسی پہ نکل بیٹھتے تھے خیمہ سے حضرت
یکساں تھی ہر اک پہ نظر لطف وعنایت
محتاجوں سے باتیں تھیں غریبوں سے محبت
ہر عاجز وبے کس کی مدد کرتے تھے مولا
محتاج کا ہدیہ بھی نہ رد کرتے تھے مولا
سب کہتے تھے اے احمد مختار کے جائے
کیوں خانہ حق چھوڑ کے مولا ادھر آئے
فرماتے تھے شبیر کہ ہم رہنے نہ پائے
یوں کوئی مسلماں نہ مسلماں کو ستائے
تیاری تیغ وتبرو تیر ہوئی ہے
تدبیر گرفتاری شبیر ہوئی ہے
اور اگر میں خانہ معبود میں رہتا تو اہل ظلم وستم وہاں بھی جنگ وجدال سے باز نہ آتے۔کشت وخون ہوتا اور خانہ خدا کی حرمت ضائع ہوتی۔یہ سوچ کر میں وہاں سے آیا ہوں۔ ورنہ بیت
تیغوں سے نہ ملتی انہیں مہلت کوئی دم کی
واللہ مجھے پاس تھا حرمت کا حرم کی
یہ سن کر تمام مردمان دیہات جو اثنائے راہ ملتے تھے۔اہل حرم واطفال خرد سال کی مصیبت وپریشانی دیکھ کر نظم
سب عرض
یہ کرتے تھے کہ اے خلق کے والی
قریوں میں غلاموں کے مکاں بھی تو ہیں خالی
بندوں کو سرفراز کریں سید عالی
مہماں ہوں غریبوں کے بہ انصار وموالی
فخر اس کا ہے رخ جون سے قریہ کی طرف ہو
عزت ہو جو مردوں کی تو زندوں کا شرف ہو
فرماتے تھے حضرت تمہیں خالق رکھے آباد
دنیا میں برو مند ہو ہر ایک کی اولاد
کیا اپنی تباہی کہوں میں بے کس وناشاد
رووگے مفصل جو سنو گے میری روداد
درپیش ہے وہ راہ کہ کچھ کہہ نہیں سکتا
بے کنج لحد اب میں کہیں رہ نہیں سکتا
اللہ تم کو جزائے خیر دے کہ اس مظلوم سے بخاطر پیش آئے ہو۔ ہر چند کہ اس سفر میں لو چلتی ہے،گرد اڑتی ہے۔ لیکن مجھ کو اپنی منزل پہ جانا ضرور ہے۔ الغرض نظم
ان سب سے یہ فرما کے چلے سید ابرار
روتے ہوئے بستی میں گئے اپنی وہ دیندار
پھر تھے وہی جنگل وہی میداں وہی کہسار
بستی تھی نہ کوسوں نہ کہیں سایہ اشجار
گرمی تھی کہ تھے نخل بھی سوکھے ہوئے بن میں
مر جھا گئے تھے پھول محمد کے چمن میں
اور باوجود ان سختیوں اور صعوبات کے امام نامدار نظم
اعجاز اس طرح دکھاتے ہوئے شبیر
جاتے تھے بصد شوق سوئے نیزہ وشمشیر
گر شام کو ٹھہرے تو سحر کو ہوئے رہ گیر
ہر دم یہی کہتے تھے کہ اے مالک تقدیر
کشتی مری طوفان میں ہے ساحل نظر آئے
مشتاق ہے دل جس کا وہ منزل نظر آئے
غربت کی جفائیں یونہی سہتے ہوئے دن رات
طے راہ خدا کرتے تھے شبیر خوش صفات
ہو جاتی تھی جس مرد مسافر سے ملاقات
گھوڑے کی عناں روک کے فرماتے تھے یہ بات
ٹھہرا نہیں سکتا کہ سر راہ ہے بھائی
کوفہ کی خبر سے بھی کچھ آگاہ ہے بھائی
وہ کہتا تھا کوفہ میں عجب غدر ہے مولا
ہر سمت میں فنتے ہیں تو فساد اٹھتے ہیں ہر جا
زور ان کا ہے کچھ جن کو مروت نہیں حاشا
ہوتے ہیں ستم کوئی کسی کی نہیں سنتا
یہ ظلم یہ بے داد نہیں اور کسی پر
مولا جو تباہی ہے محبان علی پر
الغرض اس طرح شیعان علی ابن ابی طالب کے مصائب بیان کرتا اور کہتا تھا کہ اے آقا اس ہنگامہ کے علاوہ میں نے دیکھا ہے کہ باغات کوفہ میں بعزم جنگ لشکر کثیر تیاری میں مصروف ہے۔ اور اطراف وجوانب سے جوق جوق فوجیں چلی آتی ہیں۔ ناکوں سے کوئی نکلنے نہیں پاتا۔ بلکہ کچھ سوار ادھر کے آنے کو بھی آمادہ ہیں۔ اس وقت نظم
گھبرا کے
یہ اس شخص سے بولے شہ مظلوم
بھائی تجھے مسلم کا بھی کچھ حال ہے معلوم
ایسا نہ ہو رہ جائیں ملاقات سے محروم
اس نے کہا میں واں سے چلا تھا تو یہ تھی دھوم
بے قتل کسی کو نہیں آرام ملے گا
مسلم کو جو سر لاو تو انعام ملے گا
کوچوں میں منادی یہ ندا دیتا تھا ہر بار
بھاگا ہے کل اک مسجد کوفہ سے گنہگار
گھر میں کوئی مجرم کو چھپائے نہ خبردار
آفت تھی محلوں میں بپا بند تھے بازار
بچنے کے نہیں درپئے جاں دشمن دیں ہیں
مسلم کہیں پوشیدہ ہیں فرزند کہیں ہیں
آشوب ہے اس شہر میں اے خلق کے سرتاج
جو گھر کے تھے آباد وہ سب ہو گئے تاراج
کیا کیا شرفا نان شبینہ کو ہیں محتاج
کل قتل ہوا وہ جو گرفتار ہوا آج
وہ خوش ہیں رعیت میں جو حاکم سے ملے ہیں
پرسش ہے کہ کیا سوچ کے مسلم سے ملے ہیں
لیکن اتنا جانتا ہوں کہ حضرت مسلم کی محبت میں ابن زیاد بد نہاد نے ہانی بن عروہ کا سر کٹوالیا تھا۔اور چاروں طرف منادی یہ ندا دیتا پھرتا تھا کہ جو کوئی مسلم کو مدد دے گا وہ سزا پائے گا۔ تمام رعایا پریشان ہے۔مکانوں کی تلاشی لی جاتی ہے۔ محلوں میں آگ لگی ہے۔ جناب امام حسین علیہ سلام نے منزل حاجز پر مسافر سے جب یہ حال سنا،وہاں سے کوچ فرمایا اور ہر انصار کو تاکید فرمائی کہ اگر کوفہ سے کوئی شخص آتا ہوا نظر آئے تو اس کو میرے پاس لانا۔اس سے مسلم کا حال دریافت کروں گا۔ جب آپ منزل ثعلبیہ پر پہنچے تو تیز رفتار سوار نمودار ہوا۔ اپنے دل سے یہ باتیں کرتا ہوا آرہا تھا۔
نظم
راہ میں سبط پیمبر سے مشرف ہوں اگر
دست بستہ یہ گزارش کروں بادیدہ تر
کیجیئے نہ قصد کوفے کا شہ گردوں فر
شہر پر فتنہ وآشوب ہے وہ اے سرور
کوفہ سب ظلم شعار اور جفا پیشہ ہے
روح احمد کا بھی ان کو نہیں اندیشہ ہے
جناب امام حسین علیہ سلام نے اس سوار کو جاتے دیکھا تو حضرت عباس سے فرمایا کہ اے بھائی اس کو میرے پاس لاو۔ آپ شتر سوار کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اے سوار تجھ کو ہمارے آقا نامدار بلاتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کے آقا کون ہیں۔جناب عباس نے فرمایا ،نظم
نور نگاہ فاتح بدر وحنین ہے
آقا میرے کا اسم مبارک حسین ہے
یہ سن کے آنسو آنکھوں سے اس شخص نے بہائے
سینہ پہ ہاتھ مار کے بولا کہ ہائے ہائے
کیوں اس طرف کو سید والا وطن سے آئے
آفت سے نور چشم نبی کو خدا بچائے
حضرت سے کوفیوں کو عداوت ہے بیر ہے
پھر جائیں آپ جانب یثرب تو خیر ہے
گھبرا گئے یہ سنتے ہی عباس با وفا
فرمایا اے عرب ترے رونے کی وجہ کیا
مسلم نے بھی تو حال یہ خط میں نہیں لکھا
اس نے کہا اور کچھ ہے واں کا مجرا
سب شہر پھر گیا ہے شہ خاص وعام سے
کہنا ہے جو کہوں گا مفصل امام سے
الغرض وہ شتر سوارجناب عباس علیہ سلام کے ہمراہ امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور بصد تعظیم آداب بجا لایا۔ُپ نے کمال لطف وشفقت سے جواب سلام دیا۔ اور کوفہ کا حال دریافت کیا۔ اس سوار کی آنکھوں سے بے اختیار اشک جاری ہو گئے۔ نظم
رو رو کے بولا شہ سے کہ اے سید البشر
کوفہ سے اب چلا آتا ہوں میں ادھر
فرمایا شہ نے کچھ تجھے مسلم کی ہے خبر
رونے لگا وہ مرد مسافر جھکا کے سر
شہ بولے وجہ کیا جو تیرا حال غیر ہے
جلدی بتا کہ میرے مسافر کی خیر ہے
رو رو کے حال پوچھتے تھے شہ نامدار
گر کر قدم پہ شہ کے وہ کہتا تھا بار بار
پھر چلیئے اب وطن کی طرف بہر کردگار
ہیں سب وہاں پہ عہد شکن اور جفا شعار
آل رسول پاک پہ کیا کیا جفا نہ کی
یہ ہیں وہی علی سے جنہوں نے وفا نہ کی
اے شاہ کونین کوفہ کو نہ جایئے۔ برائے علی وزہرا وطن کو پلٹ جایئے۔عجب نہیں کہ اہل شر آپ کے سر راہ ہوں۔ اور اہل بیت محمد تباہ ہوں۔ آپ نے ایک آہ سرد دل پر درد سے کھینچ کر فرمایا کہ میں معبود کے حکم پر راضی ہوں۔ لیکن برائے خدا مسلم کا حال بیان کر۔ اس نے عرض کی یا ابن رسول اللہ کس زبان سے عرض کروں کہ جس وقت امیر مسلم کے معین ومددگار ہانی بن عروہ وقیس اور عبد اللہ بن یقطر وغیرہ مارے گئے اور حضرت مسلم یک وتنہا رہ گئے۔ اس وقت ابن زیاد نے ان کی گرفتاری کے لئے اپنی فوج بھیجی۔ وہ جرار اپنی شمشیر آبدار لے کر مقابلہ کو تیار ہوا۔ اور بہت سے کوفیان بدشعار کو واصل جہنم کیا۔ جب وہ ناہنجار مقابلہ کی تاب نہ لا سکے تو نظم
جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ستم گار پکارے
اب روکیئے تلوار کہ دم نکلے ہمارے
بچنے کے نہیں مر جائیں گے ہم خوف کے مارے
للہ اماں دیجیئے ہیں گور کنارے
رکتی ہے ضرب بھلا کہیں ایسے ولی کی
حضرت کو قسم جان حسین ابن علی کی
نام شاہ والا جو سنا دل میں ہوا درد
شمشیر دودم روک کے کھینچا نفس سرد
سر پہ اجل آئی رخ پر نور ہوا زرد
ہم مشورہ پھر ہونے لگے کافر نامرد
کی فرقہ مکار نے تدبیر اسی جا
دیندار کو روکے رہے بے پیر اسی جا
تھی کثرت اہل ستم العظمتہ للہ
کفار نے اک غار بنایا صفت چاہ
منہ بند کیا مکر سے پھر اس کا سر راہ
گھیرے ہوئے مسلم کو وہیں لائے وہ بد خواہ
برج فلک مہر وتلطف کوگرایا
تھا شور کہ لو چاہ میں یوسف کوگرایا
کیا بس ہے بھلا قبضہ میں دشمن کے جب آئے
روباہ دل اس شیر دل افگار پہ چھائے
بس تیر کئی چاند سے سینے پہ لگائے
نیزے کئی آئینہ رخسار پہ کھائے
غربت میں عجب یاس سے وہ اشک فشاں تھے
فوارے لہو کے تن مسلم سے رواں تھے
حضرت مسلم سر خم کیے ہوئے اس غار میں کھڑے تھے۔ کوئی تلوار مارتا تھا۔کوئی پتھر لگاتا تھا۔عالم یاس میں فریاد کرتے تھے۔ اور کوئی نہ سنتا تھا۔ بار بار ہر شخص سے یہی کہتے تھے کہ کوئی میرے آقا کو اس مکر وفریب کی خبر دے۔ نظم
کہہ دے کہ غلام آپ کا مہماں کوئی دم ہے
یا سبط نبی آپ کے قاصد پہ ستم ہے
اے فاطمہ کے ماہ جو آنا ہو تو آو
تائید کو یا شاہ جو آنا ہو تو آو
اب ایک جہاں نائب حضرت سے پھرا ہے
تیغوں میں غلام آپ کا اس وقت گھرا ہے
افسوس صد افسوس مظلوم کی فریاد کو کسی نے نہ سنا اور ظلم وستم سے باز نہ آئے۔مولا کس زبان سے عرض کروں۔ جو ستم مسلم پر ہوئے کیوں کر بیان کروں۔ آخر اس شیر جانباز کو گرفتار کرکے ابن زیاد لعین کے پاس لائے۔ نظم
اس پر بھی ملا حاکم کوفہ کو نہ آرام
افسوس دیا حکم کہ ہو قتل یہ گلفام
کوٹھے پہ انہیں لائے پئے قتل بد انجام
غربت یہ پکاری کہ ہے خورشید لب بام
وہ خون میں ڈوبے ہوئے دل خستہ کھڑے تھے
مانند گنہگار رسن بستہ کھڑے تھے
جوق جوق کوفیان بے دین ہنستے ہوئے تماشے کو آتے تھے۔گلی کوچوں میں خوشی خوشی پھرتے تھے۔ کوٹھوں پر ان کی عورتیں تماشا دیکھتی تھیں۔ آہ اس عالم غربت میں ان لعینوں سے فرماتے تھے کہ اے فرقہ بے دین اگر مجھ بے گناہ کا قتل ہی منظور ہے۔ تو تم جانتے ہو کہ یہ عام دستور ہے کہ جب کسی گنہگار کی بھی گردن مارتے ہیں۔ تو اس کی تمنائے آخری بر لاتے ہیں۔اور میں تو نظم
دشمن نہیں میں تم ہوں مہمان تمہارا
اک بات جو مانو تو ہے احسان تمہارا
اس دم مجھے لا کر مرے پیاروں کو دکھا دو
اندوہ ورنج وغم کے ماروں کو دکھا دو
ہے داغ ذرا لالہ زاروں کو دکھا دو
پھولوں کو دکھا دو مرے تاروں کو دکھا دو
مل لینے دو ان ناز کے پالوں سے پدر کو
میں لوں انہیں آغوش میں تم کاٹ لو سر کو
کہتے تھے ابھی یہ کہ ہوا قہر دہائی
جلاد نے شمشیر ستم ست پہ لگائی
چلائے حسن ہائے ستم مر گیا بھائی
حیدر نے صدا دی میرے پیارے کے فدائی
تڑپا جو سر مسلم ذی جاہ زمین پر
تھرا کے تن پاک گرا آہ زمیں پر
رہ رہ کے نکلتا تھا تن پاک سے جب دم
مذبوح کا تن لوٹتا تھا خاک پہ اس دم
لاشے کی طرف دیکھ کے خوش ہوتے تھے اظلم
یاسین جو پڑھتے تو کہاں تھے شاہ عالم
یاد شہ والا میں سفر کر گئے مسلم
اعدا نے بہم ہنس کے کہا مر گئے مسلم
سامان یہ تھا موت کا واحسرتا دردا
مردے پہ بھی تلواریں لگاتے تھے غضب تھا
نازل نہ ہوا کوفیوں پہ قہر خدا کا
ہر سمت پھرایا کوچہ وبازار میں لاشا
یوں باندھ کے اعدا نے رسن پاوں میں کھینچا
خورشید کا تن دھوپ میں گہ چھاوں پہ کھینچا
یہ خبر شتر سوار کی زبانی سن کر امام مظلوم ڈاڑھیں مار کر رونے لگے۔ نظم
ہانی کے لئے روئے عزیزوں سے فزوں تر
انسو نہ تھما قیس کی افتاد کو سن کر
اس طرح کیا ماتم عبد اللہ ویقطر
جس طرح کہ روتا ہے برادر کو برادر
ہوتا ہے غریبوں کا تاسف غربا کو
روتے ہیں یونہی اہل وفا اہل وفا کو
فرماتے تھے مظلوم ومسافر مرا بھائی
مقتول جفا صابر وشاکر مرا بھائی
الفت میں مری مر گیا آخر میرا بھائی
ہے ہے مرا یاور میرا ناصر میرا بھائی
جب سے گئے آرام بلا شک نہیں پایا
قربان برادر کفن اب تک نہیں پایا
یہ حال جناب زینب سلام اللہ علیھا نے ملاحظہ فرمایا تو صدمہ سے چہرہ اقدس فق ہو گیا۔ بانوئے شاہ سر پیٹ کر بولیں بار خدایا یوسف مصطفےٰ کو کیا صدمہ ہے۔ اس طرح بے قرار وبے چین ہیں۔ آخر امام روتے ہوئے خیمہ میں تشریف لائے۔ اور رقیہ دختر مسلم کو اپنے پاس بلایا۔ جونہی نگاہ امام چہرہ رقیہ پر پڑی بے اختیار اشک انکھوں میں بھر آئے۔گود میں لے کر سینہ سے لگا لیا۔اور فرمایا کہ اے جان عم کیوں روتی ہو۔ ایک دن اپنے بابا سے ملو گی۔ بار بار سر پر بشفقت ہاتھ پھیرت تھے۔ یہ حال دیکھ کر وہ بچی بولی عموئے نامدار معلوم ہوتا ہے کہ میرے پدر بزرگوار شہید ہو گئے۔ کیونکہ اس وقت حضور کی میرے حال پر شفقت مثل یتیموں کے معلوم ہوتی ہے۔ یہ سن کر آپ ضبط نہ فر ماسکے بے اختیار رونے لگے۔ نظم
اصغر کو لیے کہتی تھی بانوئے دل فگار
میرا تو جگر منہ کو چلا آتا ہے ہر بار
اے بیبیو صغرا کو میں چھوڑ آئی ہوں بیمار
یہ کیا ہے جو روتے ہیں تڑپ کر شہ ابرار
ہر دل پہ جو اک غم کی گھٹا چھائی ہے لوگو
کیا کچھ میری بچی کی خبر آئی ہے لوگو
جناب زینب نے بے تاب ہو کر فرمایا،بھیا آپ کے اس طرح رونے کا سبب کیا ہے۔ جناب امام حسین علیہ سلام نے ارشاد فرمایا۔ اے زینب میرا بھائی مسلم شہید ہو گیا ہے۔ نظم
مسلم سے کوفیوں نے بہت بے وفائی کی
گاڑی نہ لاش بھی میرے مظلوم بھائی کی
پیٹو کہ رانڈ ہو گئی عباس کی بہن
رنڈسالہ اس کو دو کہ نہ اس کو ملا کفن
مارا گیا میرے لیے ہے ہے وہ صف شکن
اب ہم نہ پھر کے جائیں گے زندہ سوئے وطن
آپہنچی فصل فاطمہ کے خاک اڑانے کی
زینب یہ ابتدا ہے میرے مارے جانے کی
سمجھو تم اس خبر کو مرے قتل کی خبر
بانو بھی ساتھ زوجہ مسلم کے کھولے سر
پرسے کو آئے زوجہ عباس نامور
بے کس تھا وہ شریک عزا ہو تمام گھر
رنڈسالہ بیبیاں اسے جس دم پہنائیں گی
اماں بھی مری قبر سے رونے کو آئیں گی
کہہ دو سکینہ دختر مسلم کے پاس جائے
چھاتی کو جب وہ پیٹے تو یہ سر پہ خاک اڑائے
کبرا برابر اس کے زمین پہ پچھاڑیں کھائے
باپ اس کا مر گیا ہے گلے سے اسے لگائے
ہم بھی خدا کی راہ میں جب قتل ہوئیں گے
اک دن اسی طرح ہمیں سب لوگ روئیں گے
جس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے یہ خبر حضرت زینب سے بیان کی۔ خیمہ میں ایک حشر بپا ہو گیا۔ نظم
زینب کے قریں زوجہ مسلم ہے کھلے سر
کہتی ہے غضب ہو گیا اے شہ کی خواہر
میں رانڈ ہوئی لٹ گیا کوفہ میں مرا گھر
دو بچوں کے دنیا سے گزرنے کی ہے خبر
یہ ایلچی شہ کے مرنے کی ہے خبر
جس وقت سفر میں یہ غضب کی خبر آئی
ناموس محمد میں قیامت نظر آئی
خود سر سے کسی رانڈ کے چادر اتر آئی
واں کوئی گئی پیٹتی کوئی ادھر آئی
کیا درد کی باتیں تھیں رقیہ کی زبان پر
سب پیٹتی تھی دختر مسلم کے بیاں پر
وہ بین نبی زادیوں کے اور وہ ماتم
مقتول کی بیوہ کو غش آجاتا تھا ہر دم
پردیس میں وہ تازہ مصیبت وہ نیا غم
ماتم میں رہے تین دن اس جا شاہ عالم
فرصت نہ ملی نالہ ء وفریاد وفغاں سے
بھائی کا سوئم کرکے روانہ ہوئے واں سے
مطلب ہے وزیر اپنا نہ دنیا میں کسی سے
لیویں گے صلہ اس کا حیسن ابن علی سے
اللہھم صلی علی محمد وآل محمد وعجا فرجہ
حضرت مسلم بن عقیل کی شہادت اور منزل ثعلبیہ میں امام حسین علیہ سلام کو اس مظلوم کی غم انگیز شہادت کی خبر ملنا
احباب کو پیغام سفر دیتے ہیں مسلم
قتل شہ والا کی خبر دیتے ہیں مسلم
جناب امام حسن کی شہادت کے بعد پنجتن میں صرف امام حسین تن تنہا رہ گئے تو شعیان حیدر کرار آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہو کر فیض یاب ہوا کرتے تھے۔ کیونکہ بعد وفات برادر بزرگوار آپ نے اپنے اخلاق کو بہت وسیع کر لیا تھا۔ نظم
الم کا افتخار تھا پیارا بتول کا
بخشش علی کی تھی تو کرم تھا رسول کا
فیض ملازمت سے جو ہوتا تھا بہرہ ور
کرتا تھا اس پہ لطف ید اللہ کا پسر
جو چومتا تھا پائے شہنشاہ بحر وبر
سینہ سے خود لگاتے تھے شبیر اس کا سر
محتاج بھی جو آپ کی خدمت میں آتے تھے
اٹھ کر قریب پھر انہیں حضرت بٹھاتے تھے
آپ کا عبادت معبود میں بھی وہی اہتمام تھا۔ اور غربا ومساکین پر لطف وکرم بھی بے حساب تھا۔تاکہ ان کو پدر عالی مقدار علی ابن ابی طالب کی فرقت کا غم نہ رہے۔ نظم
حق پہ نظر تھی خانہ نشیں تھے شاہ امم
مشغول تھے عبادت خالق میں دم بدم
یکساں گدا وشاہ پہ تھا آپ کا کرم
دل دکھ گیا کسی کا سنا گر بیان غم
جس مستحق پہ لطف وکرم کی نظر ہوئی
دے آئے گھر پہ یوں نہ کسی کو خبر ہوئی
جز طاعت الہٰ کوئی اور تھا نہ کام
آٹھوں پہر نماز میں مشغول تھے امام
ہر روز روزہ دار تھا وہ آسماں مقام
حضرت تھے اور تلاوت قرآں تھی صبح وشام
ہوتا تھا جب الم دل وجان بتول پر
روتے تھے جا کے قبر جناب رسول پر
روایت ہے کہ جب معاویہ اس جہان فانی سے رخصت ہوا۔اور ان کی جگہ یزید پلید تخت پر بیٹھا۔اس کے رگ وپے میں دشمنی آنحضرت کی رچی بسی تھی۔ لیکن بظاہر مکر ودغا سے اشتیاق ملازمت کے خطوط لکھا کرتا تھا۔ آخر مکر وفریب سے کوفیان دغا کیش کو ہموار کرکے اس ارادے سے خطوط لکھوائے کہ ایک مرتبہ اگر حسین مدینہ چھوڑ کر روانہ ہو جائیں تو پھر چاروں طرف سے محاصرہ کر لوں اور پناہ نہ دوں۔ القصہ حسب مشورہ یزید پلید کوفیان پر دغا نے بہت سی عرضیاں اشتیاق قدم بوسی میں تحریر کرکے امام مظلوم کی خدمت میں ارسال کیں۔ جب آنحضرت نے دیکھا کہ کوفی نہایت عجز وانکساری سے بلاتے ہیں تو ناچار اپنے برادر گرامی قدر مسلم ابن عقیل کو اپنا نائب بنا کر کوفہ روانہ کیا۔ یہ گویا حسین مظلوم کی ابتدائی مصیبت ہے۔ نظم
گلشن میں ہے چرچا گل احمر سفری ہے
پریوں میں غل ہے بے کس وبے پر سفری ہے
ہے شور جنوں میں کہ دلاور سفری ہے
کہتا ہے جہاں شہ کا برادر سفری ہے
رنج وغم مہر وماہی کے دن آئے
لو یثرب وبطحا کی تباہی کے دن آئے
اچھا نہیں مسلم کے سفر کا تو قرینہ
افسوس اجڑتا نظر آتا ہے مدینہ
پھر جائیں گے سب کوفیوں کے دل میں ہے کینہ
ڈوبے نہ کہیں خون میں ایماں کا سفینہ
کوفہ کو انہیں آج جو بجھواتے ہیں شبیر
کل دیکھنا یہ بھی کہ چلے جاتے ہیں شبیر
ہے نعرہ شبر مرا مسلم میرا مسلم
چلاتے ہیں حیدر مرا مسلم میرا مسلم
کہتے ہیں پیمبر مرا مسلم میرا مسلم
آئے گا نہ پھر کر مرا مسلم میرا مسلم
چلاتی ہیں زہرا کہ میں اب کیا کروں لوگو
جاتا ہے میرا پیک لقب کیا کروں لوگو
الغرض وہ شب فریاد وزاری میں کٹی۔ اور وقت صبح اذان کی آوازیں مسجدوں سے بلند ہوئیں۔ادھر نمازی مسجدوں کو روانہ ہوئے۔جو مسافر تھے منزل سے روانگی کے لئے تیار ہوئے۔ نظم
مسلم نے یہاں اپنے غزالوں کو اٹھایا
کس پیار سے آغوش کے پالوں کو اٹھایا
اللہ کے پہچاننے والوں کو اٹھایا
کہہ کہہ کے یہ ان تازہ نہالوں کو اٹھایا
اٹھو مرے شیرو کہ سحر دور نہیں ہے
ہشیار کہ اب وقت سفر دور نہیں ہے
اٹھو کہ اجل سر پہ کھڑی رہتی ہے ہر دم
ہشیار ہیں جو لوگ وہ سوتے ہیں بہت کم
وقفہ نہیں پڑھ لی یہ نماز اور چلے ہم
آواز سنو جاگ رہے ہیں شہ عالم
اس وقت عجب کوچ کا سامان بندھا ہے
آواز اذاں بھی ہمیں آواز درا ہے
چلنے پہ راہ حق میں تامل نہیں کرتے
اللہ کی اطاعت میں تساہل نہیں کرتے
راحت پہ نظر اہل توکل نہیں کرتے
وقفہ عمل نیک میں بالکل نہیں کرتے
یہ سن کے دعا باپ کو دیتے ہوئے اٹھے
اور پہلووں سے نیمچے لیتے ہوئے اٹھے
اللہ اللہ ابھی صاحبزادگان حضرت مسلم بہت کم سن ہیں۔ مگر بشوق سفر اٹھ کر اول حضرت مسلم کو تسلیم کی اور وضو کرکے چھوٹے چھوٹے سجادوں پر نماز پڑھی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت مسلم کے احباب نماز سے فارغ ہو کر تسبیح پڑھتے ہوئے حضرت مسلم سے ملاقات کے اشتیاق میں آکر رخصت کے واطے جمع ہوئے۔ کوئی روتا تھا۔ کوئی دعا کرتا تھا۔ کہ خدا وند رحیم وکریم مسلم کو پھر مدینہ لائے۔ حضرت مسلم سامان سفر میں مشغول تھے۔ اور صاحب زادے اپنی تیاری میں مصروف کہ ناگاہ نظم
خدام خبر کثرت احباب کی لائے
پوشاک بخوبی یہ پہننے بھی نہ پائے
باہر وہ محل سے جو کمر باندھ کے آئے
احباب نے مجرے کے لئے ہاتھ اٹھائے
جب نائب شہ کوچ کے سامان سے نکلے
فرزند بھی مسلم کے عجب شان سے نکلے
تلوار لیے بیٹھ گئے دوستوں کے پاس
احباب نے آغاز کیے کچھ سخن یاس
اللہ کرے آپ کو آئے یہ سفر راس
کیا کیا ہمیں اس خانہ امید سے ہے آس
دنیا کی مصیبت سے اگر خانہ نشیں تھے
یاں آتے ہی واللہ پریشاں نہ حزیں تھے
باتیں تھیں کبھی یاس کی گہ آہ لبوں پر
پڑھتے ہوئے قرآن نکل آئے شاہ صفدر
اک غول عزیزوں کا شہ دیں کے برابر
ہمراہ تھے عباس علی،قاسم واکبر
سب غنچہ دہن مہر لقا مہہ جبیں تھے
پر حضرت مسلم کی جدائی سے حزیں تھے
الغرض حضرت امام حسین اور حضرت علی اکبر اور جناب عباس اور تمام احباب اپنے اپنے سروں کو جھکائے مصروف بکا تھے۔ کہ نظم
مسلم سے کہا شہ نے اے صاحب شمشیر
ہو آو ذرا گھر میں تو رخصت کو میرے شیر
وہ بولے بہت خوب خوب نہیں دیر
یہ کہہ کے محل میں گئے وہ زیست سے دل سیر
اشکوں سے بھرے دیدہ پر نم نظر آئے
نرگس میں در قطرہ شبنم نظر آئے
فرمایا کوئی جلد رقیہ کو بلا دو
حق اس کو یتیمی سے بچائے یہ دعا دو
اب باپ سے چھٹ جاو گی بیٹی کو بتادو
آرام میں بھی ہو میری پیاری تو جگا دو
کہہ دو دم فرقت ہے دم نوحہ گری ہے
پر سوئیومل آو کہ بابا سفری ہے
جا کر کسے معلوم کہ پھر آئیں کہ نہ آئیں
ہم بے کس و مظلوم پھر آئیں کہ نہ آئیں
واں ظلم کی ہے دھوم پھر آئیں کہ نہ آئیں
دیدار کے محروم پھر آئیں کے نہ آئیں
اس وقت جو درکار ہو لےلے میری پیاری
جو دل میں ہو ارمان وہ کہہ دے میری پیاری
اتنے میں نظر آئی وہ بیمار یتیمی
چہرہ سے نظر آگئے آثار یتیمی
تھی ساتھ سکینہ بھی گرفتار یتیمی
ظاہر تھے ہر ایک عضو سے آثار یتیمی
سینہ سے لگایا اسے مسلم نے بلا کر
منہ چوم لیا پیار سے زانو پہ بٹھا کر
کس درد سے فرمانے لگے عاشق باری
بی بی ہیں سکینہ شہ ابرار کی پیاری
تم خادمہ ہو ان کی یہ مالک ہیں تمہاری
اب ہم تو چلے رکھیو نہ امید ہماری
ہر مرتبہ قدموں پہ گرا کیجیو بیٹا
ساتھ ان کے شب وروز رہا کیجیو بیٹا
پھر یوں نصیحت فرمائی کہ جان پدر اہلبیت کی خدمت گزاری میں رہنا۔ امام کی لاڈلی سکینہ کے ساتھ کھیل کر دل بہلانا۔اور آج سے اپنا پدر امام عالی مقام کو سمجھنا۔ جب ہم تمہیں یاد آئیں گے۔ شبیر سینہ سے لگائیں گے۔ کیوں حضرات جب کربلا میں اسی سکینہ پر ظلم وستم ہو رہے تھے۔ نظم
مسلم تھے کہاں جب کہ طمانچہ اسے مارا
زیور آن مخدومہ عالم سے اتارا
وہ چاند ساعارض گل سوسن ہوا سارا
چلاتی تھیں اس وقت نہیں کوئی ہمارا
ظالم نے گلا رشک سمن باندھ کے کھینچا
اور ننھے سے بازو میں رسن باندھ کے کھینچا
الغرض اس صاحبزادی کو سمجھا کر آپ باہر تشریف لائے۔جناب امام حسین کے سامنے آکر کھڑے ہوئے اور آداب بجا لا کر عرض کی۔ نظم
جانباز کو ہو جلد اجازت مرے آقا
دن چڑھتا ہے اب کیجیئے رخصت مرے آقا
شہ ہاتھوں کو پھیلا کے پکارے ادھر آنا
لو آو گلے پہلے ملو بھائی تو جانا
پڑھتے تھے دعا کان میں پکڑے ہوئے شانہ
کہتے تھے کہ ہو ظلم تو ہنس ہنس کے اٹھانا
گو بارش تیغ وتبر وسنگ ہو بھائی
یوں جھیلنا کڑیاں کہ جہاں دنگ ہو بھائی
مجرا کیا مولا کو چلے مسلم بے پر
سب دوست سمٹ کر ہوئے ہمراہ دلاور
احباب سے ہونے لگے رخصت جو ٹھہر کر
وہ بولے کہ کیا جائیں ہمیں گور ہے اب گھر
لے چلیئے ہمیں ساتھ زیاں آپ کا کیا ہے
ہمراہ رکاب آپ کے رہنے میں مزہ ہے
حضرت مسلم نےارشاد فرمایا کہ دوستو وطن کے مرنے کی کیا بات ہے۔ جنازے کے ہمراہ اعزا واحباب ہوتے ہیں۔ لیکن عالم غربت میں ہر طرف سے یاس ہوتی ہے۔ تم کو ساتھ چلنے میں ہر طرح کا وسواس ہے۔نظم
یاں آنے کی امید کہاں اب نہ پھریں گے
جائیں گے سوئے باغ جنان اب نہ پھریں گے
کرتے تھے بہم سب یہ بیاں اب نہ پھریں گے
دی مرگ نے آواز کہ ہاں اب نہ پھریں گے
ملنے لگے احباب سے مسلم کے پسر بھی
دریا بھی رواں ہونے لگا اور گہر بھی
راہی سوئے کوفہ جو ہوئے مسلم ناشاد
یہ پہلے ہی جنگل میں ہوا سانحہ ء فریاد
اک آہو ئے خوش چشم کو پکڑے ہوئے صیاد
گردن پہ چھری پھیرتا ہے صورت جلاد
تکتا ہے وہ ہر نخل کی ہر برگ کی صورت
ہر سمت نظر پھرنے لگی مرگ کی صورت
یہ حال دیکھ کر حضرت مسلم واپس آئے۔اور حضرت امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں اس بد شگونی کا ذکر کیا۔ اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا، بھائی تم خدا پر بھروسا کرکے اپنی منزل کی طرف جاو۔ ہم اہل بیت رسول شگون کے قائل نہیں۔ انشا اللہ ہم اپنے مقصد میں کام یاب ہوں گے۔ نظم
مولا سے یہ سن کر جو ہوئے بادیہ پیما
تقدیر نے دکھلائے عجب طور کے صحرا
راتیں وہ سیاہ ہوکنا وہ شیر کا ہر جا
جھونکے وہ ہوا کے کبھی پتوں کا وہ اڑنا
ایذائیں بہت راہ میں پاتے ہوئے پہنچے
کوفہ میں غرض رنج اٹھاتے ہوئے پہنچے
جب کوفیان پر دغا نے حضرت مسلم کی آمد کا حال سنا تو نظم
متفق ہو کے چلے گھر سے پئے استقبال
آئے دروازہ تلک شہر کے با جاہ وجلال
ظا ہر ان سے ملاقی ہوئے باذوق کمال
سینہ نحس مگر بغض سے تھے مالا مال
دل میں سوچے کہ شہادت کا کفیل آیا ہے
بادشاہ عربستان کا وکیل آیا ہے
الغرض جناب مسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کوفیوں نے امام حسین کا حال دریافت فرمایا،اور آنحضرت کی قدم بوسی کا کمال اشتیاق ظاہر کیا۔ جناب مسلم بھی ان کی عقیدت سے خوش ہوئے۔ بیت
روئے خاطر تھا زبس سب کا مسافر کی طرف
مطمئن آپ ہوئے دیکھ کے ظاہر کی طرف
ان لوگوں سے حضرت مسلم نے فرمایا کہ میں تمہاری عقیدت کا مفصل حال تحریر کرتا ہوں ۔یقین ہے کہ برادر بزرگوار جلد تشریف لائیں ۔بیت
حال سے یاں کے جو واقف شہ دیں ہوں گے
ہے یقیں اب کے محرم میں یہیں ہوں گے
یہ سن کر
ان دغا بازوں نے براہ مکر بیعت کرنا شروع کی۔چنانچہ بعض روایات میں پچیس ہزار اور بعض میں اٹھارہ ہزار مکاروں کا بیعت قبول کرنا تحریر ہے۔ یہ تمام حال حضرت مسلم نے امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں لکھ بھیجا۔ یہ تحریر آنحضرت کی خدمت بابرکت میں پہنچی۔ آپ نے حضرت عباس سے ارشاد فرمایا کہ ساکنان کوفہ میری بیعت پر راضی ہیں۔ انشا اللہ تعالیٰ مناسک حج سے فارغ ہو کر کوفہ کی جانب چلوں گا۔ لیکن ان ہی ایام میں چاروں طرف سے دشمنان دین عداوت وخونریزی پر تیار ہوئے۔اور نیز خطوط بھی آنے لگے۔ نظم
شہ شر سے باغیوں کے جو ناچار ہو گئے
حضرت وطن سے کوچ پہ تیار ہو گئے
قبر رسول پہ گئے روتے شہ زمن
رخصت ہوئے ضریح سے باصد غم ومحن
واں سے پھرے تو آئے سوئے مرقد حسن
فرماتے تھے کہ آہ چھٹا ہم سے اب وطن
بھائی کی ماں کی قبر سے رو کر جدا ہوئے
چھوڑا وطن کو راہی دشت بلا ہوئے
الغرض مدینہ منورہ سے مع اہل بیت اطہار کوچ فرما کر کعبہ میں پہنچے۔ یہاں بھی ظلم اشقیا سے مہلت نہ پائی۔ ناچار وہاں سے رخصت ہوئے اور اسی طرح نظم
کہتے تھے بصد درد کہ اے کعبہ داور
اب تجھ سے جدا ہوتا ہے فرزند پیمبر
ملتی نہیں سید کو اماں وائے مقدر
جاتا ہوں سوئے گور سراسیمہ ومضطر
دوری ہوئی اس گھر سے بس اب دل کو یقیں ہے
قربانی شبیر کا ہنگام قریں ہے
پھر قبر محمد کی طرف پڑھ کے زیارت
کی عرض مسافر کی دوبارہ ہے یہ رخصت
کعبہ میں بھی نانا نہ میسر ہوئی راحت
آزار پہ باندھے ہیں کمر اہل ضلالت
مخفی ہوئے ہیں قافلہ حاج میں آکے
پائیں مجھے تو ذبح کریں گھر میں خدا کے
نانا مجھے رہنے کا ٹھکانہ نہیں ملتا
جنگل میں بھی بستی کا بسانا نہیں ملتا
آٹھ آٹھ پہر بچوں کو کھانا نہیں ملتا
پانی کہیں ملتا ہے تو دانہ نہیں ملتا
مہلت نہیں اتنی بھی کہ سایہ میں کھڑا ہوں
حضرت سے جدا ہو کے تباہی میں پڑا ہوں
الغرض اس طرح باگریہ وزاری آپ محراب ومنبر سے رخصت ہوئے۔ اور طے منازل وقطع مراحل کرتے ہوئے کوہ وبیابان میں چلے جاتے تھے۔
قریوں سے زیارت کو جو آجاتی تھی خلقت
کرسی پہ نکل بیٹھتے تھے خیمہ سے حضرت
یکساں تھی ہر اک پہ نظر لطف وعنایت
محتاجوں سے باتیں تھیں غریبوں سے محبت
ہر عاجز وبے کس کی مدد کرتے تھے مولا
محتاج کا ہدیہ بھی نہ رد کرتے تھے مولا
سب کہتے تھے اے احمد مختار کے جائے
کیوں خانہ حق چھوڑ کے مولا ادھر آئے
فرماتے تھے شبیر کہ ہم رہنے نہ پائے
یوں کوئی مسلماں نہ مسلماں کو ستائے
تیاری تیغ وتبرو تیر ہوئی ہے
تدبیر گرفتاری شبیر ہوئی ہے
اور اگر میں خانہ معبود میں رہتا تو اہل ظلم وستم وہاں بھی جنگ وجدال سے باز نہ آتے۔کشت وخون ہوتا اور خانہ خدا کی حرمت ضائع ہوتی۔یہ سوچ کر میں وہاں سے آیا ہوں۔ ورنہ بیت
تیغوں سے نہ ملتی انہیں مہلت کوئی دم کی
واللہ مجھے پاس تھا حرمت کا حرم کی
یہ سن کر تمام مردمان دیہات جو اثنائے راہ ملتے تھے۔اہل حرم واطفال خرد سال کی مصیبت وپریشانی دیکھ کر نظم
سب عرض
یہ کرتے تھے کہ اے خلق کے والی
قریوں میں غلاموں کے مکاں بھی تو ہیں خالی
بندوں کو سرفراز کریں سید عالی
مہماں ہوں غریبوں کے بہ انصار وموالی
فخر اس کا ہے رخ جون سے قریہ کی طرف ہو
عزت ہو جو مردوں کی تو زندوں کا شرف ہو
فرماتے تھے حضرت تمہیں خالق رکھے آباد
دنیا میں برو مند ہو ہر ایک کی اولاد
کیا اپنی تباہی کہوں میں بے کس وناشاد
رووگے مفصل جو سنو گے میری روداد
درپیش ہے وہ راہ کہ کچھ کہہ نہیں سکتا
بے کنج لحد اب میں کہیں رہ نہیں سکتا
اللہ تم کو جزائے خیر دے کہ اس مظلوم سے بخاطر پیش آئے ہو۔ ہر چند کہ اس سفر میں لو چلتی ہے،گرد اڑتی ہے۔ لیکن مجھ کو اپنی منزل پہ جانا ضرور ہے۔ الغرض نظم
ان سب سے یہ فرما کے چلے سید ابرار
روتے ہوئے بستی میں گئے اپنی وہ دیندار
پھر تھے وہی جنگل وہی میداں وہی کہسار
بستی تھی نہ کوسوں نہ کہیں سایہ اشجار
گرمی تھی کہ تھے نخل بھی سوکھے ہوئے بن میں
مر جھا گئے تھے پھول محمد کے چمن میں
اور باوجود ان سختیوں اور صعوبات کے امام نامدار نظم
اعجاز اس طرح دکھاتے ہوئے شبیر
جاتے تھے بصد شوق سوئے نیزہ وشمشیر
گر شام کو ٹھہرے تو سحر کو ہوئے رہ گیر
ہر دم یہی کہتے تھے کہ اے مالک تقدیر
کشتی مری طوفان میں ہے ساحل نظر آئے
مشتاق ہے دل جس کا وہ منزل نظر آئے
غربت کی جفائیں یونہی سہتے ہوئے دن رات
طے راہ خدا کرتے تھے شبیر خوش صفات
ہو جاتی تھی جس مرد مسافر سے ملاقات
گھوڑے کی عناں روک کے فرماتے تھے یہ بات
ٹھہرا نہیں سکتا کہ سر راہ ہے بھائی
کوفہ کی خبر سے بھی کچھ آگاہ ہے بھائی
وہ کہتا تھا کوفہ میں عجب غدر ہے مولا
ہر سمت میں فنتے ہیں تو فساد اٹھتے ہیں ہر جا
زور ان کا ہے کچھ جن کو مروت نہیں حاشا
ہوتے ہیں ستم کوئی کسی کی نہیں سنتا
یہ ظلم یہ بے داد نہیں اور کسی پر
مولا جو تباہی ہے محبان علی پر
الغرض اس طرح شیعان علی ابن ابی طالب کے مصائب بیان کرتا اور کہتا تھا کہ اے آقا اس ہنگامہ کے علاوہ میں نے دیکھا ہے کہ باغات کوفہ میں بعزم جنگ لشکر کثیر تیاری میں مصروف ہے۔ اور اطراف وجوانب سے جوق جوق فوجیں چلی آتی ہیں۔ ناکوں سے کوئی نکلنے نہیں پاتا۔ بلکہ کچھ سوار ادھر کے آنے کو بھی آمادہ ہیں۔ اس وقت نظم
گھبرا کے
یہ اس شخص سے بولے شہ مظلوم
بھائی تجھے مسلم کا بھی کچھ حال ہے معلوم
ایسا نہ ہو رہ جائیں ملاقات سے محروم
اس نے کہا میں واں سے چلا تھا تو یہ تھی دھوم
بے قتل کسی کو نہیں آرام ملے گا
مسلم کو جو سر لاو تو انعام ملے گا
کوچوں میں منادی یہ ندا دیتا تھا ہر بار
بھاگا ہے کل اک مسجد کوفہ سے گنہگار
گھر میں کوئی مجرم کو چھپائے نہ خبردار
آفت تھی محلوں میں بپا بند تھے بازار
بچنے کے نہیں درپئے جاں دشمن دیں ہیں
مسلم کہیں پوشیدہ ہیں فرزند کہیں ہیں
آشوب ہے اس شہر میں اے خلق کے سرتاج
جو گھر کے تھے آباد وہ سب ہو گئے تاراج
کیا کیا شرفا نان شبینہ کو ہیں محتاج
کل قتل ہوا وہ جو گرفتار ہوا آج
وہ خوش ہیں رعیت میں جو حاکم سے ملے ہیں
پرسش ہے کہ کیا سوچ کے مسلم سے ملے ہیں
لیکن اتنا جانتا ہوں کہ حضرت مسلم کی محبت میں ابن زیاد بد نہاد نے ہانی بن عروہ کا سر کٹوالیا تھا۔اور چاروں طرف منادی یہ ندا دیتا پھرتا تھا کہ جو کوئی مسلم کو مدد دے گا وہ سزا پائے گا۔ تمام رعایا پریشان ہے۔مکانوں کی تلاشی لی جاتی ہے۔ محلوں میں آگ لگی ہے۔ جناب امام حسین علیہ سلام نے منزل حاجز پر مسافر سے جب یہ حال سنا،وہاں سے کوچ فرمایا اور ہر انصار کو تاکید فرمائی کہ اگر کوفہ سے کوئی شخص آتا ہوا نظر آئے تو اس کو میرے پاس لانا۔اس سے مسلم کا حال دریافت کروں گا۔ جب آپ منزل ثعلبیہ پر پہنچے تو تیز رفتار سوار نمودار ہوا۔ اپنے دل سے یہ باتیں کرتا ہوا آرہا تھا۔
نظم
راہ میں سبط پیمبر سے مشرف ہوں اگر
دست بستہ یہ گزارش کروں بادیدہ تر
کیجیئے نہ قصد کوفے کا شہ گردوں فر
شہر پر فتنہ وآشوب ہے وہ اے سرور
کوفہ سب ظلم شعار اور جفا پیشہ ہے
روح احمد کا بھی ان کو نہیں اندیشہ ہے
جناب امام حسین علیہ سلام نے اس سوار کو جاتے دیکھا تو حضرت عباس سے فرمایا کہ اے بھائی اس کو میرے پاس لاو۔ آپ شتر سوار کے پاس پہنچے اور فرمایا کہ اے سوار تجھ کو ہمارے آقا نامدار بلاتے ہیں۔ اس نے پوچھا کہ آپ کے آقا کون ہیں۔جناب عباس نے فرمایا ،نظم
نور نگاہ فاتح بدر وحنین ہے
آقا میرے کا اسم مبارک حسین ہے
یہ سن کے آنسو آنکھوں سے اس شخص نے بہائے
سینہ پہ ہاتھ مار کے بولا کہ ہائے ہائے
کیوں اس طرف کو سید والا وطن سے آئے
آفت سے نور چشم نبی کو خدا بچائے
حضرت سے کوفیوں کو عداوت ہے بیر ہے
پھر جائیں آپ جانب یثرب تو خیر ہے
گھبرا گئے یہ سنتے ہی عباس با وفا
فرمایا اے عرب ترے رونے کی وجہ کیا
مسلم نے بھی تو حال یہ خط میں نہیں لکھا
اس نے کہا اور کچھ ہے واں کا مجرا
سب شہر پھر گیا ہے شہ خاص وعام سے
کہنا ہے جو کہوں گا مفصل امام سے
الغرض وہ شتر سوارجناب عباس علیہ سلام کے ہمراہ امام حسین علیہ سلام کی خدمت میں حاضر ہوا۔ اور بصد تعظیم آداب بجا لایا۔ُپ نے کمال لطف وشفقت سے جواب سلام دیا۔ اور کوفہ کا حال دریافت کیا۔ اس سوار کی آنکھوں سے بے اختیار اشک جاری ہو گئے۔ نظم
رو رو کے بولا شہ سے کہ اے سید البشر
کوفہ سے اب چلا آتا ہوں میں ادھر
فرمایا شہ نے کچھ تجھے مسلم کی ہے خبر
رونے لگا وہ مرد مسافر جھکا کے سر
شہ بولے وجہ کیا جو تیرا حال غیر ہے
جلدی بتا کہ میرے مسافر کی خیر ہے
رو رو کے حال پوچھتے تھے شہ نامدار
گر کر قدم پہ شہ کے وہ کہتا تھا بار بار
پھر چلیئے اب وطن کی طرف بہر کردگار
ہیں سب وہاں پہ عہد شکن اور جفا شعار
آل رسول پاک پہ کیا کیا جفا نہ کی
یہ ہیں وہی علی سے جنہوں نے وفا نہ کی
اے شاہ کونین کوفہ کو نہ جایئے۔ برائے علی وزہرا وطن کو پلٹ جایئے۔عجب نہیں کہ اہل شر آپ کے سر راہ ہوں۔ اور اہل بیت محمد تباہ ہوں۔ آپ نے ایک آہ سرد دل پر درد سے کھینچ کر فرمایا کہ میں معبود کے حکم پر راضی ہوں۔ لیکن برائے خدا مسلم کا حال بیان کر۔ اس نے عرض کی یا ابن رسول اللہ کس زبان سے عرض کروں کہ جس وقت امیر مسلم کے معین ومددگار ہانی بن عروہ وقیس اور عبد اللہ بن یقطر وغیرہ مارے گئے اور حضرت مسلم یک وتنہا رہ گئے۔ اس وقت ابن زیاد نے ان کی گرفتاری کے لئے اپنی فوج بھیجی۔ وہ جرار اپنی شمشیر آبدار لے کر مقابلہ کو تیار ہوا۔ اور بہت سے کوفیان بدشعار کو واصل جہنم کیا۔ جب وہ ناہنجار مقابلہ کی تاب نہ لا سکے تو نظم
جوڑے ہوئے ہاتھوں کو ستم گار پکارے
اب روکیئے تلوار کہ دم نکلے ہمارے
بچنے کے نہیں مر جائیں گے ہم خوف کے مارے
للہ اماں دیجیئے ہیں گور کنارے
رکتی ہے ضرب بھلا کہیں ایسے ولی کی
حضرت کو قسم جان حسین ابن علی کی
نام شاہ والا جو سنا دل میں ہوا درد
شمشیر دودم روک کے کھینچا نفس سرد
سر پہ اجل آئی رخ پر نور ہوا زرد
ہم مشورہ پھر ہونے لگے کافر نامرد
کی فرقہ مکار نے تدبیر اسی جا
دیندار کو روکے رہے بے پیر اسی جا
تھی کثرت اہل ستم العظمتہ للہ
کفار نے اک غار بنایا صفت چاہ
منہ بند کیا مکر سے پھر اس کا سر راہ
گھیرے ہوئے مسلم کو وہیں لائے وہ بد خواہ
برج فلک مہر وتلطف کوگرایا
تھا شور کہ لو چاہ میں یوسف کوگرایا
کیا بس ہے بھلا قبضہ میں دشمن کے جب آئے
روباہ دل اس شیر دل افگار پہ چھائے
بس تیر کئی چاند سے سینے پہ لگائے
نیزے کئی آئینہ رخسار پہ کھائے
غربت میں عجب یاس سے وہ اشک فشاں تھے
فوارے لہو کے تن مسلم سے رواں تھے
حضرت مسلم سر خم کیے ہوئے اس غار میں کھڑے تھے۔ کوئی تلوار مارتا تھا۔کوئی پتھر لگاتا تھا۔عالم یاس میں فریاد کرتے تھے۔ اور کوئی نہ سنتا تھا۔ بار بار ہر شخص سے یہی کہتے تھے کہ کوئی میرے آقا کو اس مکر وفریب کی خبر دے۔ نظم
کہہ دے کہ غلام آپ کا مہماں کوئی دم ہے
یا سبط نبی آپ کے قاصد پہ ستم ہے
اے فاطمہ کے ماہ جو آنا ہو تو آو
تائید کو یا شاہ جو آنا ہو تو آو
اب ایک جہاں نائب حضرت سے پھرا ہے
تیغوں میں غلام آپ کا اس وقت گھرا ہے
افسوس صد افسوس مظلوم کی فریاد کو کسی نے نہ سنا اور ظلم وستم سے باز نہ آئے۔مولا کس زبان سے عرض کروں۔ جو ستم مسلم پر ہوئے کیوں کر بیان کروں۔ آخر اس شیر جانباز کو گرفتار کرکے ابن زیاد لعین کے پاس لائے۔ نظم
اس پر بھی ملا حاکم کوفہ کو نہ آرام
افسوس دیا حکم کہ ہو قتل یہ گلفام
کوٹھے پہ انہیں لائے پئے قتل بد انجام
غربت یہ پکاری کہ ہے خورشید لب بام
وہ خون میں ڈوبے ہوئے دل خستہ کھڑے تھے
مانند گنہگار رسن بستہ کھڑے تھے
جوق جوق کوفیان بے دین ہنستے ہوئے تماشے کو آتے تھے۔گلی کوچوں میں خوشی خوشی پھرتے تھے۔ کوٹھوں پر ان کی عورتیں تماشا دیکھتی تھیں۔ آہ اس عالم غربت میں ان لعینوں سے فرماتے تھے کہ اے فرقہ بے دین اگر مجھ بے گناہ کا قتل ہی منظور ہے۔ تو تم جانتے ہو کہ یہ عام دستور ہے کہ جب کسی گنہگار کی بھی گردن مارتے ہیں۔ تو اس کی تمنائے آخری بر لاتے ہیں۔اور میں تو نظم
دشمن نہیں میں تم ہوں مہمان تمہارا
اک بات جو مانو تو ہے احسان تمہارا
اس دم مجھے لا کر مرے پیاروں کو دکھا دو
اندوہ ورنج وغم کے ماروں کو دکھا دو
ہے داغ ذرا لالہ زاروں کو دکھا دو
پھولوں کو دکھا دو مرے تاروں کو دکھا دو
مل لینے دو ان ناز کے پالوں سے پدر کو
میں لوں انہیں آغوش میں تم کاٹ لو سر کو
کہتے تھے ابھی یہ کہ ہوا قہر دہائی
جلاد نے شمشیر ستم ست پہ لگائی
چلائے حسن ہائے ستم مر گیا بھائی
حیدر نے صدا دی میرے پیارے کے فدائی
تڑپا جو سر مسلم ذی جاہ زمین پر
تھرا کے تن پاک گرا آہ زمیں پر
رہ رہ کے نکلتا تھا تن پاک سے جب دم
مذبوح کا تن لوٹتا تھا خاک پہ اس دم
لاشے کی طرف دیکھ کے خوش ہوتے تھے اظلم
یاسین جو پڑھتے تو کہاں تھے شاہ عالم
یاد شہ والا میں سفر کر گئے مسلم
اعدا نے بہم ہنس کے کہا مر گئے مسلم
سامان یہ تھا موت کا واحسرتا دردا
مردے پہ بھی تلواریں لگاتے تھے غضب تھا
نازل نہ ہوا کوفیوں پہ قہر خدا کا
ہر سمت پھرایا کوچہ وبازار میں لاشا
یوں باندھ کے اعدا نے رسن پاوں میں کھینچا
خورشید کا تن دھوپ میں گہ چھاوں پہ کھینچا
یہ خبر شتر سوار کی زبانی سن کر امام مظلوم ڈاڑھیں مار کر رونے لگے۔ نظم
ہانی کے لئے روئے عزیزوں سے فزوں تر
انسو نہ تھما قیس کی افتاد کو سن کر
اس طرح کیا ماتم عبد اللہ ویقطر
جس طرح کہ روتا ہے برادر کو برادر
ہوتا ہے غریبوں کا تاسف غربا کو
روتے ہیں یونہی اہل وفا اہل وفا کو
فرماتے تھے مظلوم ومسافر مرا بھائی
مقتول جفا صابر وشاکر مرا بھائی
الفت میں مری مر گیا آخر میرا بھائی
ہے ہے مرا یاور میرا ناصر میرا بھائی
جب سے گئے آرام بلا شک نہیں پایا
قربان برادر کفن اب تک نہیں پایا
یہ حال جناب زینب سلام اللہ علیھا نے ملاحظہ فرمایا تو صدمہ سے چہرہ اقدس فق ہو گیا۔ بانوئے شاہ سر پیٹ کر بولیں بار خدایا یوسف مصطفےٰ کو کیا صدمہ ہے۔ اس طرح بے قرار وبے چین ہیں۔ آخر امام روتے ہوئے خیمہ میں تشریف لائے۔ اور رقیہ دختر مسلم کو اپنے پاس بلایا۔ جونہی نگاہ امام چہرہ رقیہ پر پڑی بے اختیار اشک انکھوں میں بھر آئے۔گود میں لے کر سینہ سے لگا لیا۔اور فرمایا کہ اے جان عم کیوں روتی ہو۔ ایک دن اپنے بابا سے ملو گی۔ بار بار سر پر بشفقت ہاتھ پھیرت تھے۔ یہ حال دیکھ کر وہ بچی بولی عموئے نامدار معلوم ہوتا ہے کہ میرے پدر بزرگوار شہید ہو گئے۔ کیونکہ اس وقت حضور کی میرے حال پر شفقت مثل یتیموں کے معلوم ہوتی ہے۔ یہ سن کر آپ ضبط نہ فر ماسکے بے اختیار رونے لگے۔ نظم
اصغر کو لیے کہتی تھی بانوئے دل فگار
میرا تو جگر منہ کو چلا آتا ہے ہر بار
اے بیبیو صغرا کو میں چھوڑ آئی ہوں بیمار
یہ کیا ہے جو روتے ہیں تڑپ کر شہ ابرار
ہر دل پہ جو اک غم کی گھٹا چھائی ہے لوگو
کیا کچھ میری بچی کی خبر آئی ہے لوگو
جناب زینب نے بے تاب ہو کر فرمایا،بھیا آپ کے اس طرح رونے کا سبب کیا ہے۔ جناب امام حسین علیہ سلام نے ارشاد فرمایا۔ اے زینب میرا بھائی مسلم شہید ہو گیا ہے۔ نظم
مسلم سے کوفیوں نے بہت بے وفائی کی
گاڑی نہ لاش بھی میرے مظلوم بھائی کی
پیٹو کہ رانڈ ہو گئی عباس کی بہن
رنڈسالہ اس کو دو کہ نہ اس کو ملا کفن
مارا گیا میرے لیے ہے ہے وہ صف شکن
اب ہم نہ پھر کے جائیں گے زندہ سوئے وطن
آپہنچی فصل فاطمہ کے خاک اڑانے کی
زینب یہ ابتدا ہے میرے مارے جانے کی
سمجھو تم اس خبر کو مرے قتل کی خبر
بانو بھی ساتھ زوجہ مسلم کے کھولے سر
پرسے کو آئے زوجہ عباس نامور
بے کس تھا وہ شریک عزا ہو تمام گھر
رنڈسالہ بیبیاں اسے جس دم پہنائیں گی
اماں بھی مری قبر سے رونے کو آئیں گی
کہہ دو سکینہ دختر مسلم کے پاس جائے
چھاتی کو جب وہ پیٹے تو یہ سر پہ خاک اڑائے
کبرا برابر اس کے زمین پہ پچھاڑیں کھائے
باپ اس کا مر گیا ہے گلے سے اسے لگائے
ہم بھی خدا کی راہ میں جب قتل ہوئیں گے
اک دن اسی طرح ہمیں سب لوگ روئیں گے
جس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے یہ خبر حضرت زینب سے بیان کی۔ خیمہ میں ایک حشر بپا ہو گیا۔ نظم
زینب کے قریں زوجہ مسلم ہے کھلے سر
کہتی ہے غضب ہو گیا اے شہ کی خواہر
میں رانڈ ہوئی لٹ گیا کوفہ میں مرا گھر
دو بچوں کے دنیا سے گزرنے کی ہے خبر
یہ ایلچی شہ کے مرنے کی ہے خبر
جس وقت سفر میں یہ غضب کی خبر آئی
ناموس محمد میں قیامت نظر آئی
خود سر سے کسی رانڈ کے چادر اتر آئی
واں کوئی گئی پیٹتی کوئی ادھر آئی
کیا درد کی باتیں تھیں رقیہ کی زبان پر
سب پیٹتی تھی دختر مسلم کے بیاں پر
وہ بین نبی زادیوں کے اور وہ ماتم
مقتول کی بیوہ کو غش آجاتا تھا ہر دم
پردیس میں وہ تازہ مصیبت وہ نیا غم
ماتم میں رہے تین دن اس جا شاہ عالم
فرصت نہ ملی نالہ ء وفریاد وفغاں سے
بھائی کا سوئم کرکے روانہ ہوئے واں سے
مطلب ہے وزیر اپنا نہ دنیا میں کسی سے
لیویں گے صلہ اس کا حیسن ابن علی سے
اللہھم صلی علی محمد وآل محمد وعجا فرجہ
Tuesday, August 10, 2010
آٹھویں مجلس امام حسین علیہ سلام کی مدینہ سے روانگی
آٹھویں مجلس
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بصد درد ومحن جناب امام حسین علیہ سلام کی وطن سے روانگی احباب با وفا کا
اضطراب اور جناب صغریٰ کی بے قراری
واقف ہے مسافر کا دل اس رنج ومحن سے
دشمن کو بھی اللہ چھڑائے نہ وطن سے
روایت ہے کہ ایک روز ہند مادر معاویہ وقت صبح دولت سرائے جناب رسول خدا
میں آکر پہلوئے عائشہ میں بیٹھی اور بیان کرنے لگی،کہ اے دختر ابی بکر آج
رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ کہ ایک آفتاب جہاں تاب بلند ہوا، جس
سے تمام عالم روشن ہو گیا۔ پھر دیکھا کہ اس آفتاب سے ایک چاند پیدا ہوا ۔جس
کے نور سے عالم منور ہوا، پھر دیکھا کہ اس چاند سے دو تارے درخشاں نکلے
کہ جن سے مشرقین روشن ہو گئے۔ ابھی میں یہ دیکھ ہی رہی تھی کہ ناگاہ ایک
ابر سیاہ پیدا ہوا۔اور اس سے ایک سانپ ابلق رنگ پیدا ہوا،اور ان دونوں تاروں
کو نگل گیا۔اس وقت تمام عالم میں ایک عجیب طرح کا حشر برپا ہو گیا۔راوی کہتا
ہے کہ عائشہ نے ہند کا یہ خواب جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
بیان کیا۔جناب رسول خدا نے سنا تو فرط غم سے رنگ چہرہ مبارک کا متغیر ہو
گیا۔ اور رو کر فرمایا کہ اے عائشہ وہ آفتاب تو میں ہوں اور وہ ماہ منیر میری
دختر نیک اختر فاطمہ زہرا ہے۔ اور وہ دونوں ستارے حسنین میری آنکھوں کے
تارے ہیں۔ اور وہ ابر سیاہ معاویہ پسر ہند ہے۔اور وہ ابلق سانپ یزید پلید پسر
معاویہ ہے۔ کہ میرے فرزند پر حملہ کرے گا،جب میری نوردیدہ فاطمہ دنیا سے
گزر جائے گی۔ اور علی بھی تیغ ستم سے شہید ہوں گے۔ تو میرے حسن حسین
سے لوگ دشمنی کریں گے۔ یہاں تک کہ جب حسن کو شہید کریں گے تو حسین
کے درپئے ہو کر اس کو مدینہ سے نکالیں گے، مکہ میں بھی رہنے نہ دیں
گے۔اور بھوکا پیاسا قتل کریں گے۔اور تمام شیعہ ومحب ان کو روئیں
گے۔حضرات مقام غور وتامل ہےکہ جناب رسول خدا کو اس وقت کیا صدمہ ہوا
ہوگا کہ جس وقت جناب امام حسین ظلم اشقیائے بے دین سے مجاورت مزار
اقدس سے مجبور ہو کر عازم عراق ہوئے۔مومنین امام مظلوم کی وہ کیفیت ذاکر
کیا بیان کرے۔کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ نظم
گرمی میں گرفتار محن ہوتے ہیں شبیر
بچے لیے آوارہ وطن ہوتے ہیں شبیر
گردش ہے اب اور فاطمہ زہرا کا قمر ہے
ہر ایک قدم راہ میں لٹ جانے کا ڈر ہے
بستی ہے نہ رستے میں کسی جا پہ شجر ہے
درپیش ہے سختی کہ پہاڑوں کا سفر ہے
گلرو چمن دہر سے جانے کو چلے ہیں
گھر چھوڑ کے جنگل کے بسانے کو چلے ہیں
غربت کی بھی ہوتی ہے عجب صبح عجب شام
کرتا ہے سفر قافلہ ء راحت وآرام
وہ دشت نوردی وہ غم وصدمہ والام
منزل پہ بھی ممکن نہیں راحت کا سر انجام
نیند آتی نہ تھی لاکھ وہ پٹکے جو سر اپنا
یاد آتا ہے منزل پہ مسافر کو گھر اپنا
وہ لوں وہ طپش وہ گرمی کا مہینہ
سردی میں ہو ذکر اس کا تو آجائے پسینہ
دشوار ہے اس دھوپ میں معصوموں کاجینا
ویرانہ ہے بستی میں اجڑتا ہے مدینہ
حضرت بھی گھلے جاتے ہیں تشویش سفر میں
ہیں ساتھ وہ بچے کہ جو نکلے نہیں گھر سے
امام مظلوم روتے ہوئے روضہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
تشریف لائے،اور عرض کی سلام ہو اے نانا،میں آپ کی پیاری بیٹی کا فرزند
ہوں،اور اب آپ کا یہ دل بند ظلم اعدا ء سے تنگ آکر آمادہ سفر غربت ہے۔قبر
مطہر سے رخصت ہونے کو آیا ہے۔
نظم
برپا ہے مدینہ میں طلاطم کئی دن سے
ہے راحت وآرام طرب گم کئی دن سے
ہر گھر میں ہے اک شور تظلم کئی دن سے
منہ ڈھانپے ہوئے روتے ہیں مردم کئی دن سے
وہ غم ہے کہ آرام کا جویا نہیں کوئی
راتیں کئی گزری ہیں کہ سویا نہیں کوئی
پھر حضرت کی روتے روتے آنکھ لگ گئی۔ تو جناب رسول خدا کو خواب میں
دیکھا کہ آپ تشریف لائے ہیں اور چھاتی سے لگا کر فرماتے ہیں۔
کہ اے میرے لخت جگر حسین گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تو زمین کربلا میں ذبح
کیا گیا ہے۔ اور اے فرزند تو اس وقت پیاسا بھی ہے اور کوئی پانی نہیں دیتا۔جناب
امام حسین نے عرض کی کہ اے نانا مجھے دنیا میں رہنے کی کوئی ضرورت
نہیں،اپنی قبر میں لے لیجیئے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اے فرزند اے میرے پارہ
جگر یہ امر لازمی ہے کہ تو جا کر شہید ہو۔ اور اپنے درجات عالیہ کو حاصل
کر۔ یہ خواب دیکھ کر آپ چونکے اور گھر میں تشریف لا کر سفر غربت پر آمادہ
ہوئے۔اس وقت مدینہ میں عجب کہرام برپا ہوا،ہر طرف یہ شور تھا۔ نظم
یثرب کے زن ومرد ہیں سب بے خورو بے خواب
شبیر کی فرقت کی کسی دل کو نہیں تاب
ہمسایہ میں ماتم میں بکا کرتے ہیں احباب
غل ہے کہ مدینہ میں خوشی ہو گئی نایاب
اس شاہ میں خو بو ہے شاہ عقدہ کشا کی
اب کون خبر راتوں کو لے گا فقرا کی
کہتا ہے کوئی کیا ہوا یہ بیٹھے بٹھائے
کیا جانیئے خط کوفہ سے کس طرح کے آئے
روضہ پہ نبی کے شاہ دیں رہنے نہ پائے
کچھ ایسا ہو یا رب کہ یہ مظلوم نہ جائے
کوفہ میں محبت نہ مروت نہ وفا ہے
خط مکر کے لکھے ہیں بلانے میں دغا ہے
اعدا نے شاہ یثرب وبطحا کو ستایا
بے کس کو نبی زادے کو تنہا کو ستایا
یاں بیٹھے بٹھائے شہ والا کو ستایا
افسوس عجب تارک دنیا کو ستایا
اس گوشہ نشیں پہ یہ تعدی نہ روا تھی
کیا قبر پیمبر کے مجاور کی خطا تھی
حضرت کا بھی احباب وطن کی فرقت سے عجب حال تھا۔ با چشم اشکبار درستی
اسباب میں مشغول تھے۔ اور در دولت پر اہل مدینہ کا مجمع تھا۔سب روتے تھے
اور کہتے تھے کہ افسوس اب مدینہ اجڑتا ہے۔ جناب ام سلمیٰ سفر کی تیاری دیکھ
کر بولیں کہ اے پارہ جگر کہاں کا قصد ہے؟۔ اس وقت آپ رونے لگے اور
فرمایا کہ نانی جان عراق کی طرف جاتا ہوں۔ بی بی ام سلمیٰ عراق کا نام سن کر
بولیں کہ اے حسین تمہارے عراق جانے سے مجھے خوف ہے ۔اس واسطے کہ
میں نے رسول خدا سے اکثر سنا ہے کہ میرا فرزند حسین عراق کی سرزمین جس
کو کربلا کہتے ہیں پیاسا شہید ہوگا۔ یہ سن کر جناب امام حسین بہت روئے اور
فرمایا کہ نانی جان میں بخدا اس سے زیادہ جانتا ہوں کہ وہاں جا کر مع عزیز
واقارب قتل ہوں گا۔ اور کربلا پر ہی کیا موقوف ہے۔ جہاں جاوں گا،اگر سوراخ
مار ومور میں چھپ جاوں تو بھی یہ قوم جفا کار مجھے جیتا نہ چھوڑے گی۔
پھر بی بی ام سلمیٰ نے پوچھا کہ کون کون ہمراہ جائے گا۔ حضرت نے ہر ایک
کی طرف اشارہ کیا کہ یہ سب میرے ہمراہ جائیں گے۔ بی بی ام سلمیٰ دیر تک
روئیں اور فرمایا اے حسین اگر ارادہ مصمم کوفہ کا ہے۔ تو عورتوں کو ہمراہ نہ
لے جاو۔ تاکہ تمہاری شہادت کے بعد یہ سب تباہ وبرباد نہ ہوں۔ خصوصا یہ ننھے
بچے،جناب امام حسین یہ سن کر شدت سے روئے۔اور فرمایا نانی جان ان لڑکوں
میں سے اکثر میرے سامنے بھوکے پیاسے قتل کیے جائیں گے۔اس وقت سب
حضور کے سامنے کھڑے تھے۔ ہر ایک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ نیزہ
سے اور یہ تلوار سے مارا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ لڑکا جو ابھی اپنی ماں کی
گود میں دودھ پیتا ہے۔ تیر ستم سے شہید ہوگا۔اس وقت علی اصغر کا سن ڈیڑھ
مہینے کا تھا اور کم وزیادہ بھی منقول ہے۔ جب مادر علی اصغر نے یہ خبر سنی
تو روتے روتے بے ہوش ہو گئیں،اور اسی روز سے دودھ مارے صدمہ کے کم
ہو گیا۔ راوی کہتا ہے کہ اس زمانہ میں جناب صغرٰی دختر جناب امام حسین علیہ
سلام نہایت بیمار تھیں۔اس وجہ سے آنحضرت نے اس کو چھوڑ جانا مناسب
سمجھا۔ اور جناب ام سلمیٰ کے سپرد فرمایا۔جس وقت جناب صغرٰی نے سنا کہ بابا
مجھے اس گھر میں تنہا چھوڑے جاتے ہیں۔باوجود نقاہت وناتوانی کے عصا
ٹیکتی ہوئی حضرت کے پاس آئیں اور عرض کیا بابا میں نے سنا ہے کہ آپ نے
عزم سفر کیا ہے۔ اور اس بیمار کو چھوڑ جایئے گا۔ اے بابا جائے انصاف ہے کہ
آپ میرے بھائی شیر خوار اصغر تک
کو لیے جاتے ہیں۔اور مجھے یہیں چھوڑتے
اگر مجھ سے کوئی قصور سرزد ہوا
ہے تو آپ کریم ابن کریم ہیں مجھے بخش دیجیئے۔ یہ سن کر حضرت کو تاب
ضبط نہ رہی۔ بے اختیار ہو گئے
صغرا کا تو یہ حال تھا مولا کو تھا سکتا
سینہ سے لگاتے تھے اٹھا کر سر صغرا
فیہرماتے تھے کیوں روتی ہے اے باپ کی شیدا
وہ کہتی تھی تم چھوڑے چلے جاتے ہو بابا
کبریٰ وسیکنہ تو چلیں ساتھ سفر میں
صغرٰی رہے رونے کو اس اجڑے ہوئے گھر میں
شہ نے کہا اے جان پدر یہ تیری قسمت
پر کی جیو گوارا تری بہنو کی رفاقت
کبریٰ حسن سبز قبا کی ہے امانت
عباس دلاور کو سکینہ سے ہے الفت
زینب پھوپھی تیری میرے اکبر پہ فدا ہے
اصغر مری بانو کی ضعیفی کی عصا ہے
صغرٰٰی نے کہا گر یہی قول شہ دیں ہے
سب کنبے میں میرا بھی کوئی ہے یا نہیں ہے
یا بے کس و بےوارث ووالی یہ حزیں ہے
اب یاس ہوئی جینے سے مرنے کا یقین ہے
صدقے گئی بیمار کو عیسیٰ سے ملادو
بابا مجھے بھیا علی اکبر سے ملادو
آئے علی اکبر تو پکاری وہ دل فگار
پیاری تھی سکینہ چلی ہمراہ علمدار
دعویٰ ہمیں ہے تم پہ گواہ اس کا ہے غفار
لے چلتے ہو بھیا ہمیں یا کرتے ہو انکار
گر بالی سکینہ علی اصغر کی بہن ہے
صغریٰ کو یہ فخر ہے کہ اکبر کی بہن ہے
بولے علی اکبر کہ یہ دشوار ہے بھینا
پر کوفہ میں آرام اگر پائیں گے بابا
ہم آن کے واں سے تمہیں لے جائیں گے صغریٰ
تقدیر پکاری نہ وفا ہوگا یہ وعدہ
سینہ سے تیرے پار انی ہوئے گی اکبر
یہ سنتے ہی بے آس ہوئی فاطمہ صغریٰ
منہ دیکھا عجب یاس سے ہم شکل نبی کا
آنسو تھے جو امڈے ہوئے بہنے لگا دریا
دل سے تو نہ نکلا پہ زبان سے کہا اچھا
بچ جاونگی گر موت سے لے جائیوبھائی
مختار ہو جب چاہیو تب آئیو بھائی
پھر وہ مغموم مایوس ہو کر باپ کی طرف بحسرت ویاس دیکھنے لگی۔ اور کہ اکہ
اے بابا بغیر آپ کے مجھے کیوں کر چین آئے گا۔ جب یہ بھرا گھر خالی ہوگا تو
کیا حال ہوگامیرا ۔اے بابا کسی طرح صبر نہیں آئے گا۔یہ کہہ کر حضرت کے
قدموں پر گر پڑی۔جناب امام حسین علیہ سلام بھی بہت روئے،اور سر اٹھا کر
چھاتی سے لگایا اور فرمایا کہ اے نور نظر میں عجیب تردد میں ہوں۔ کہ نظم
گھر میں تمہیں چھوڑوں یہ نہیں دل کو گوارا
لے جاوں تو جینا نہیں ممکن ہے تمہارا
بچوں میں کوئی تم سے زیادہ نہیں پیارا
مجبور ہوں بے ہجر ہوں کوئی اب نہیں چارا
فرقت میں سدا نالہ وفریاد کرو ں گا
اتروں گا جو منزل پہ تمہیں یاد کروں گا
صغرٰی نے کہا آپ کی الفت کے میں قربان
پھر کس کو ہو گر آپ کو لونڈی کا نہ ہو دھیان
صدقے گئی صحت کا بھی ہو جائے گا سامان
مولا کی توجہ ہے ہر اک درد کا درمان
جس پہ نظر لطف مسیح دوسرا ہو
برسوں کا جو بیمار ہو اک پل میں شفا ہو
قربان گئی اب تو بہت کم ہے نقاہت
تپ کی بھی ہے شدت میں کئی روز سے خفت
بستر سے میں اٹھ کے ٹہلتی بھی ہوں حضرت
پانی کی بھی خواہش ہے غذا کی بھی ہے رغبت
حضرت کی دعا سے مجھے صحت کا یقین ہے
اب تو مرے منہ کا بھی مزہ تلخ نہیں ہے
جناب فاطمہ صغرا ابھی یہ باتیں کر رہی تھیں، کہ جناب ام سلمیٰ تشریف لائیں اور
جناب امام حسین علیہ سلام کا بازو پکڑ کر فرمایا کہ اے بیٹا میں ضعیف
ہوں،میری زیست کی کوئی امید نہیں ہے۔اور تم آمادہ سفر ہو۔ یہ تو بتاو کہ کون
میری بالیں پر دم واپسین یاسین پڑھے گا۔ اور قبر میں شانہ ہلا کر کون تلقین
پڑھے گا۔ صغرا کو تو تم منالو گے تمہاری بیٹی ہے۔ لیکن میں تو حشر تک نہیں
مانوں گی۔ کہ تم چلے جاو اور میں اکیلی گھر میں پڑی رہوں۔ میرا تابوت اٹھا
لو،اور قبر بنالو تو سدھارو،یہ سن کر آنحضرت رونے لگے۔ اور فرما یا کہ نانی
جان وقت اجل ایسا ہے کہ کوئی اس سے واقف نہیں ہے۔ آپ کیا فرماتی ہیں
نظم
دنیا کا سفر یہ نہیں عقبیٰ کا سفر ہے
اول سے ہمیں منزل اخر کی خبر ہے
لے چلنے کو حاضر ہوں پر اے خاصہ قیوم
فرد اسرا میں نہیں نام آپ کا مرقوم
درپیش ہیں واں مرحلہ خنجر وحلقوم
اس رنج کی شایاں ہیں فقط زینب وکلثوم
اک رسی میں تم بارہ گلے دیکھ سکو گی
شبیر کو خنجر کے تلے دیکھ سکو گی
جس دم سر اقدس سے ردا چھینیں گے ناری
تم لاو گی ان پہ غضب خالق باری
اس غم کی سزاوار تو ہیں بہنیں ہماری
زہرا کی طرح امت جد ہے انہیں پیاری
کچھ لوٹنے میں فوج تاسف نہ کرے گی
زینب کا کلیجہ ہے کہ وہ اف نہ کرے گی
جناب ام سلمیٰ نے فرمایا کہ اے نور عین زینب وکلثوم کو تو حال معلوم ہوا،جن
الام کا کوئی فرد بشر متحمل نہیں ہو سکتا،اس میں گرفتار ہو کر صبر کریں
گی،اور یہ جو بیبیاں ساتھ جاتی ہیں ان کا کیا حال ہو گا۔ حضرت نے فرمایا آہ ان
کا بھی وہی حال ہوگا۔ کہ سرو پا برہنہ جنگلوں میں پھرائی جائیں گی اور کوئی ان
کا پرسان حال نہ ہوگا۔اور کوئی ان کی فریاد کو نہ پہنچے گا۔ اور پہلی مصیبت تو
ہم پر یہ ہوگی کہ جب اس دشت بلا خیز میں مع اہل بیت کے ورود ہوگا تو سات
محرم سے دشمن دین ہم کو پانی کا ایک قطرہ نہ لینے دیں گے۔ یہاں تک کہ چار
روز کامل ہم پر اور سب اہلبیت اور چھوٹے چھوٹے بچوں پر بے آب گزر جائیں
گے۔ا ور عباس سکینہ کی سقائی کریں گے۔غرض کہ اے مادر ذیجاہ کہاں تک
شرح مصیبت بیان کروں،خلاصہ یہ کہ وہ ستم ہم پر گزریں گے کہ کسی نے دیکھا
اور نہ دیکھے گا۔اور نہ سنا اور نہ سنے گا۔ اور زمین کربلا وہ زمین ہے کہ نظم
وارد جو رسولان سلف ہوتے تھے اماں
اس دشت میں غربت پہ مری روتے تھے اماں
یہ کہہ کے سوئے ماریہ ہاتھ اپنا بڑھایا
اور مادر غمخوار کو پاس اپنے بلایا
ام سلمیٰ نے جو ادھر منہ کو پھرایا
دو انگلیوں کے بیچ میں مقتل نظر آیا
رنگ اڑ گیا شدت یہ ہوئی درد جگر کی
آنکھوں نے کہا ہم کو نہیں تاب نظر کی
ہاتھوں سے جگر تھام کے دیکھا تو یہ دیکھا
دریا کے کنارے ہے رواں خون کا دریا
ریتی پہ خیام شہ لولاک ہیں برپا
کشتہ پہ تو کشتہ ہے طپاں لاشہ پہ لاشہ
حیران حرم صورت تصویر کھڑے ہیں
زہرا کے مرقع کے کے ورق رن میں پڑے ہیں
سقا لب دیا کوئی بی جاں نظر آیا
اک بچہ کے حلقوم میں پیکاں نظر آیا
نوشاہ کوئی خون میں غلطاں نظر آیا
نیزے پہ سر شاہ شہیداں نظر آیا
خیمہ شاہ لولاک کا جلتے ہوئے دیکھا
بیواوں کو سرا سیمہ نکلتے ہوئے دیکھا
دیکھا کوئی سر پیٹتی ہے اور کوئی سینہ
کہتی ہے کوئی ہائے شہنشاہ مدینہ
آیا ہے تباہی میں پیمبر کا سفینہ
سیلی ستمگار ہے اور روئے سکینہ
نالے حرم قبلہ دیں کھینچ رہے ہیں
چادر سر زینب سے لعیں کھینچ رہے ہیں
یہ دیکھتے ہی جناب ام سلمیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔اور حرم میں اک شور
رونے کا بلند ہوا۔ کہ چلتے وقت یہ کیا مصیبت نازل ہوئی۔تھوڑی دیر بعد آپ کو
ہوش آیا تو فرمایا کہ اے پارہ جگر نور نظر یہ کیا سانحہ دکھایا۔ہائے افسوس
تیری یہ صورت وہاں ہو جائے گی۔ آہ میری زینب یہ صدمے اٹھائے گی۔ اور
سکینہ پیاری ننھے منہ پر طمانچے کھائے گی۔ پھر فرمایا کہ اے حسین مجھے
بتلاو کہ وہ دولھا کون تھا ،جس کی لاش پامال نظر آئی۔حضرت نے فرمایا وہ
میرے بھائی کا لال قاسم ہے۔ پھر فرمایا اے نور نظر وہ بچہ کون ہے جس کے
گلوئے نازک میں پیکان ستم پیوست ہے۔ حضرت نے فرمایا آپ نہیں جانتیں وہ
میرا شیر خوار اصغر ہے۔ اور وہ جو چھاتی پہ ہاتھ دھرے سوتا ہے۔ وہ پر ارمان
بن بیاہا علی اکبر ہے۔بیت
یہ سنتے ہی دل ہل گیا تھرا گئے اعضا
بولیں کہ خدا خیر کرے ہائے نصیبا
آخر بیبیوں نے جناب ام سلمیٰ کو سمجھا بجھا کر رخصت کیا۔ مگر صغرا کسی
طرح علیحدہ نہ ہوتی تھی۔ اور کسی کا کہنا نہ سنتی تھی۔اور حضرت سے لپٹ کر
کہتی تھی۔ نظم
بے آپ کے اس گھر میں نہ یا شاہ رہوں گی
اچھا میں کنیزوں کے ہمراہ رہوں گی
سب رونے لگے سن کے یہ بیمار کی تقریر
چلائی سکینہ کہ میں صدقہ میری ہمشیر
گھبرا کے یہ فرمانے لگے حضرت شبیر
تم بیٹی کو سمجھاو کچھ اے بانوئے دل گیر
کم سن ہیں مسافر مجھے تشویش بڑی ہے
دن چڑھ گیا آج کی منزل بھی کڑی ہے
یہ سنتے ہی بس ماں کی تو چھاتی امڈ آئی
چلائی وہ ناشاد کے ہے ہے مری جائی
زینب نے کہا گھر سے نکلتی ہوں میں بھائی
مر جانے سے کچھ کم نہیں صغرا کی جدائی
گھر لٹتا ہے کس طرح قیامت نہ بپا ہو
پہلا ہے یہ الم آگے خدا جانے کہ کیا ہو
آغاز سفر میں تو یہ ماتم ہے یہ کہرام
کیا دیکھیں دکھاتا ہے اس آغاز کا انجام
جنگل ہو کہ بستی ہو کہاں راحت وآرام
ماں روئے گی بیٹی سے بچھڑ کر صبح وشام
گلشن بھی ہے جنگل جو کلیجہ نہ ہو بر میں
بہلے گی وہ چھوڑیں گے اکیلی جسے گھر میں
صغرا نے کہا آپ کی باتوں کے میں قربان
تم جان بچا لو کہ میں لونڈی ہوں پھوپھی جان
بیٹی ہو علی کی میری مشکل کرو آسان
جیتی رہی صغرا تو نہ بھولے گی یہ احسان
کچھ بات بجز گریہ وزاری نہیں کرتیں
اماں تو سفارش بھی ہماری نہیں کرتیں
ہائے میں اپنا حال دل کس سے کہوں۔وہ دو بیٹیاں جو باپ کو پیاری ہیں جاتی
ہیں۔اور میں گور کنارے ہوں ،اس واسطے مجھے نہیں لے جاتے۔ جانے کیا وقت
ہے کہ بیماری کے سبب والدین اور بہنوں سے کسی کو میری محبت نہیں رہی۔
خیر نہ پوچھے کوئی بیمار کا اللہ تو ہے۔ اس وقت نہ پوچھیں گے، لیکن جب میں
قبر میں سووں گی تو البتہ یاد کریں گے۔ ارے لوگو انصاف تو کرو کیا دنیا میں
کوئی بیمار نہیں ہوتا۔مجھ سے کون سی تقصیر ہوئی ہے کہ سب دفعتہ بےزار ہو
گئے ہیں۔ ابھی تو زندہ ہوں ،مگر مردہ کی طرح بھاری ہوں۔مجھے کون
ساعارضہ ہے کہ لوگ مجھ سے بھاگتے ہیں، کچھ اس کا بھید نہیں کھلتا کہ جس
کی طرف دیکھتی ہوں وہ آنکھ چراتا ہے۔ نظم
تپ کیا مجھے آئی کہ پیام اجل آیا
ہے ہے مری راحت کی بنا میں خلل آیا
چھوڑا مجھے سب نے جو سفر کا محل آیا
کیا خوب مری نخل تمنا میں پھل آیا
دل سخت کیا ماں نے مجھے غم ہے اسی کا
سچ کہتے ہیں دنیا میں نہیں کوئی کسی کا
وہ چاہنے والا ہے جو مصیبت میں کام آئے
میں سب کی ہوں اور کوئی میرا نہ ہوا ہائے
اس راہ میں ہمراہ کنیزیں تو ہوں اے وائے
کنبے کی جو ہو چاہنے والی وہی رہ جائے
بیماری مزمن کی دوا خوب ہوئی ہے
تجویز مرے واسطے کیا خوب ہوئی ہے
تنہائی میں رونے سے اتر جائے گی یہ تپ
ہاں درد بھی سر میں مرے ہونے کا نہیں اب
تڑپوں گی تو ہو جائے گی اعضا شکنی سب
بہتر یہی ترکیب ہے نسخہ یہی انسب
کم ہوگی حرارت الم رنج ومحن میں
غم کھانے سے آجائے گی طاقت مرے تن میں
راتوں کو رونے سے دماغ کی پیوست کم ہو جائے گی۔ منہ اشکوں سے دھونے
سے بیمار تسکین پائے گی۔کیا تسلی کی صورت یہی ہے۔ کہ بالین پر عزیزوں میں
سے کوئی نہ ہو۔ اور جب غش سے آنکھ کھلے تو جز بے کسی وتنہائی کے کوئی
پاس نہ ہو بیت
راحت سے شب وروز علاقہ مجھے ہوگا
فاقہ جو کروں گی تو افاقہ مجھے ہوگا
کیا خوب دوا مری تجویز ہوئی ہے۔ سچ ہے تنہائی میں شدت خفقان بھی نہ
ہوگی۔اور دل بیمار ویرانی مکان سے بہلے گا۔ بابا کا بھی خیال نہ رہے گا۔اور نہ
کبھی ماں کی شفقت مجھے یاد آئے گی۔ کیا خوب تجویز ہوئی ہے۔ اس تجویز کے
قربان
فرقت میں مری طرح جگر کس سے سنبھلتا
میں گھر میں نہ ہوتی تو یہ گھر کس سے سنبھلتا
کس کی شکایت کروں۔ سب تو چاہنے والے ہیں۔ اماں کی محبت معلوم ہوئی۔ بابا
کی وہ تقریر ہے۔ اور بہنوں کی یہ صورت ہے۔ پھوپھی جان بھی کچھ نہ بولیں۔ یہ
میری قسمت ہے۔ سب اچھے ہیں میری تقدیر بری ہے۔ بھیا علی اکبر کو تو دیکھو
کہ اس رنجور بہن کے عاشق مشہور ہیں۔اور دودن سے خبر بھی نہ لی۔ اور قاسم
کو کیا غرض کہ میری گریہ وزاری سن کر رحم کریں۔ سکینہ بھی اپنے چچا جان
کو پیاری ہے۔ بیت
اللہ تو ہے گر کوئی غمخوار نہیں ہے
مٹی مری کچھ قبر کی دشوار نہیں ہے
اچھا بابا ہمیں نہ لے جائیں۔ لیکن اس وقت مری محبت معلوم ہوگی جب راہ میں
مری وفات کا خط پہنچے گا۔اور فرمائیں گے کہ لو کنبے کی چاہنے والی مر
گئی۔ افسوس قسمت نے سفر میں خبر مرگ سنائی۔ہائے جسے گھر میں چھوڑ آئے
تھے۔ وہ سب سے پہلے منزل مقصود پر پہنچ گئی۔اور پھر کوئی لاکھ کوشش
کرے ۔ میں نہ ملوں گی۔اس وقت سب افسوس کریں گے۔ کہ اسے ہاتھ سے کھویا،
پر جب میں قبر میں سوئی تو مجھے کیا کوئی رویا یا کڑھا اور پرسے کے لئے
لوگ آئیں گے۔ اور پردیس میں سب کنبہ نے سوگ کیا، تو ہم کو کیا یہ کہہ رہی
تھیں کہ جناب علی اکبر روتے ہوئے گھر میں آئے۔چہرہ انور شدت بکا سے زرد
تھا ۔اور آنکھیں سرخ تھیں۔ جونہی جناب صغرا نے دیکھا چلا کر بھائی کی چھاتی
سے لپٹ گئی۔ اور کہنے لگی کہ اے بھیا یہ بہن ان ہاتھوں اور اس سینہ کے قربان
ہو۔ فریاد ہے اے بھیا علی اکبر کہ میں بن موت مرتی ہوں۔اور کوئی خبر نہیں لیتا
تقدیر تم سے بھی جدا کرتی ہے۔ نظم
بھیا مری تنہائی پہ آنسو نہ بہاو
وہ دن ہو کہ پھر خیر سے اس شہر میں آو
ہر چند ہے مشکل یہ کہ جیتا مجھے پاو
صدقے گئی پھر آنے کا وعدہ کیے جاو
عرصہ ہو تو خط لکھ کے طلب کیجیئو بھائی
پر بیاہ میں مجھ کو نہ بھلا دیجیئو بھائی
وہ دن ہو کہ بوٹا سی تمہاری دلہن آئے
تم جیسے ہو بس ویسی ہی پیاری دلہن آئے
ہمشیر کو تربت میں نہ ترسائیو بھائی
بھابھی کو مری قبر پہ لے آئیو بھائی
یہ باتیں درد آمیز سن کر جناب علی اکبر زار زار رونے لگے۔ اور فرمایا کہ اے
بہن کیا کریں، قسمت سے مجبور ہیں یہی تقدیر میں ہے۔ کہ ہم تم سے اور تم ہم
سے جدا ہوں۔ مگر جدائی ایسی شاق ہے کہ ہم اپنی جان یہیں چھوڑے جاتے ہیں۔
خدا تجھے صحت عطا کرے،اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جب بابا کوفہ میں پہنچیں
گے اور اطمینان نصیب ہوگا، تو ہم آکر تمہیں لے جائیں گے۔ خاطر جمع رکھو۔
مگر اے بہن تقدیر سے مجبوری ہے۔ اگر خدا نخواستہ تقدیر نے یاری نہ کی،اور
زیست نے کمی کی تو میری وعدہ خلافی معاف کرنا۔ یہ سن کر جناب صغرا بہت
روئیں، اور قریب تھا کہ غش آجائے پھر کہا بھیا علی اکبر فدا ہو جان صغرا کی تم
پر اور تمہاری بلا لے کر میں مرجاوں ۔ یہ کیا کلمہ کہا کہ جس سے کلیجہ شق ہو
گیا۔ارے بھیا تمہاری جدائی سے صغرا زندہ نہ بچے گی۔ امید ہے کہ جب تم
مجھے لینے آو گے تو میری قبر پر فاتحہ پڑھ کر پچھتاو گے۔ ممکن نہیں کہ تم
مجھ سے جدا ہو۔ اور میں زندہ رہوں۔بھیا جب خیال فرقت آتا ہے۔ تو میرا کلیجہ
پھٹ جاتا ہے۔ اور جب میں تمہیں اس گھر میں نہ دیکھوں گی تو آہ کے ساتھ میری
جان نکل جائے گی۔ کیا وقت ہے کہ کوئی مری خبر نہیں پوچھتا، جس سے کچھ
کہنا چاہتی ہوں منہ چرا لیتا ہے۔اپنا درد دل کس سے کہوں۔ ایک تم سے امید تھی
تمہارا یہ حال ہے کہ سوائے رونے کے کچھ جواب نہیں دیتے۔اور اپنی مجبوری
بیان کرتے ہو۔ بابا سے مجھ غم زدہ کی سفارش نہیں کرتے۔ سب بیبیاں بہن بھائی
کی یہ باتیں سن کر روتی تھیں، اور ایک عجیب کہرام تھا۔ نظم
رونے کا ادھر غل تھا کہ فضہ یہ پکاری
تیار ہے ناموس محمد کی سواری
دروازے کے نزدیک ہے زینب کی عماری
کیا دیر ہے اب اے اسد اللہ کی پیاری
ہر بار قناتوں کے قریں آتے ہیں عباس
اب جلد ہوں اسوار یہ فرماتے ہیں عباس
شبیر نے رو کر کہا لو جاتے ہیں صغرا
جلد آتے ہیں یا خود تمہیں بلواتے ہیں صغرا
ہم سب تیری تنہائی کا غم کھاتے ہیں صغرا
جان اپنی نہ کھونا تمہیں سمجھاتے ہیں صغرا
قربان پدر آب وغذا ترک نہ کرنا
بڑھ جائے گا آزار دوا ترک نہ کرنا
بیٹی سے یہ فرما کے چلے قبلہ عالم
ناموس محمد بھی چلے ساتھ بصد غم
صغرا جو چلی جاتی تھی روتی ہوئی باہم
ہمسائیاں باندھے ہوئے تھیں حلقہ ماتم
راحت تھی جوسب کو شہ ذیجاہ کے دم سے
اک پیٹتی تھی ایک لپٹتی تھی قدم سے
غل تھا شاہ ابرار خدا حافظ وناصر
رانڈوں کے مدد گار خدا حافظ وناصر
اے خلق کے سردار خدا حافظ وناصر
محتاجوں کے غم خوار خدا حافظ وناصر
دکھ فاقوں کے عسرت کے الم کس سے کہیں گے
مشکل کوئی اب ہو گی تو ہم کس سے کہیں گے
شہ کہتے تھے اللہ مددگار ہے سب کا
انساں کی ہے کیا آس بھروسا ہے تو رب کا
ساماں کبھی غم کا کبھی عیش وطرب کا
مضطر نہیں فرزند شہنشاہ عرب کا
مانگو یہ دعا صبر سے وہ وقت بسر ہو
جس روز کہ شبیر کادنیا سے سفر ہو
اے ہم وطنو اب صبر کرو۔مشیت ایزدی سے چارہ نہیں۔انشا اللہ اگر خریت شامل
حال ہے۔ تو جلد واپس آئیں گے۔ اور تم سب کا دیدار دیکھیں گے۔ میرے لئے
دعائے خیر کرنا۔ جس کی خدا وند عالم تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے گا۔اور
صبر کرنا خدا صابروں کو دوست رکھتا ہے۔ نظم
یہ کہہ کے برآمد ہوا وہ خلق کا والی
ناقوں پہ چڑھے سب حرم سید عالی
احباب بلکتے تھے تڑپتے تھے موالی
غل تھا کہ محمد کا بھرا گھر ہوا خالی
یوں روتے تھے سب گرد حسین ابن علی کے
جس طرح سے ماتم تھا جنازے پہ نبی کے
کہتے تھے جوانان مدینہ سبھی رو کر
اب ہم سے بچھڑ جائیں گے ہے ہے علی اکبر
بے تاب ہیں احباب علمدار دلاور
روتا ہوا گرتا ہے کوئی آکے قدم پر
ہر مرتبہ اشک آنکھوں میں بھر لاتے ہیں عباس
چھاتی سے ہر اک دوست کو لپٹاتے ہیں عباس
قاسم کے جو ہم سن ہیں وہ سب کرتے ہیں زاری
ایک ایک پہ اندوہ غم ورنج ہے طاری
کہتے ہیں کہ اب تلخ ہوئی زیست ہماری
کیا ہوگا چلی جائے گی جس وقت سواری
جب آئیں گے یاں نالہ وفریاد کریں گے
سب روئیں گے جب خلق حسن یاد کریں گے
ہمجولیوں کا عون ومحمد کے ہے یہ حال
بے تاب ہیں سب روتے ہیں اس درد سے اطفال
ایک ایک سے فرماتے ہیں وہ صاحب اقبال
لو بھائیو بس رونے سے آنکھیں تو ہوئیں لال
عزت ہے اطاعت میں امام دوسرا کی
پھر آئیں گے گر زیست نے اس سال وفا کی
در پہ کوئی روتا ہے کوئی راہ گزر میں
تاریک ہے دنیا کسی غمگیں کی نظر میں
ہیں جمع محلے کی جو سب بیبیاں گھر میں
اک حشر ہے ناموس شاہ جن و بشر میں
سب مل کے بکا کرتی ہیں جب آتا ہے کوئی
یوں روتی ہیں جس طرح کہ مر جاتا ہے کوئی
سب کہتی ہیں زینب سے کہ اے بھائی کی شیدا
کس طرح کے خط آئے یکایک یہ ہوا کیا
پانی کی کمی گرمی کے دن خوف کا رستا
وہ دھوپ پہاڑوں کی وہ لو اور وہ صحرا
کیا سوچ کے اس فصل میں شبیر چلے ہیں
بچوں پہ کریں رحم کہ نازوں کے پلے ہیں
سنتے ہیں یہ ہر واردو صادر کی زبانی
جھیلوں میں بھی حوضوں میں بھی سب خشک ہے پانی
اس فصل میں ہوتی ہے بہت تشنہ دہانی
کس طرح جئیں گے اسد اللہ کے جانی
تونسا ہوا بچہ کوئی جانبر نہیں ہوتا
جب خشک ہوا پھول تو پھر تر نہیں ہوتا
ہے ہے چھ مہینے کے بھی بچے کا سفر ہے
کچھ تم کو پہاڑوں کی بھی گرمی کی خبر ہے
غربت میں جوانوں کے تلف ہونے کا ڈر ہے
رحم اس پہ ہے لازم کہ یہ بچہ گل تر ہے
اصغر کو جو دکھ ہو تو قلق ماں کو سوا ہو
گرمی ہے بہت دودھ جو گھٹ جائے تو کیا ہو
فرماتی تھیں زینب نہیں بہنو کوئی چارا
قسمت میں تباہی ہے تو کیا زور ہمارا
گھر چھوڑ کے جانا ہےکسی کو بھی گوارا
مجبور ہے مضطر ہے ید ا للہ کا پیارا
پیام مصیبت کے ہیں تنہائی کے دن ہیں
غربت کی شبہیں بادیہ پیمائی کے دن ہیں
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ یکایک شور سواری کا ہوا۔ اور ناموس محمد سوار
ہونے لگے۔ تو اس وقت اس ستم دیدہ ہجر کا عجب حال تھا۔ نظم
صغرا کو نقاہت سے نہ تھی طاقت رفتار
اٹھی کئی بار اور گری در پہ کئی بار
جس ناقہ پہ تھی بانوئے ناشاد دلفگار
اس ناقہ کے پاس آکے یہ چلائی وہ بیمار
قربان گئی آخری دیدار دکھا دو
اماں مجھے اصغر کو پھر اک بار دکھا دو
مضطر ہوئی سن کر یہ سخن بانوئے بے پر
پردے سے جگر بند کا منہ کر دیا باہر
بیٹی سے کہا دست پسر ماتھے پہ رکھ کر
لو آخری تسلیم بجا لاتے ہیں اصغر
منہ زرد ہے رخساروں پہ آنسو بھی بہے ہیں
یہ نرگسی آنکھوں سے تمہیں دیکھ رہے ہیں
تھرائے ہوئے ہاتھ اٹھا کر وہ پکاری
اس ہاتھ کے اس چاند سے ماتھے کے میں واری
اصغر نہیں جینے کی میں فرقت میں تمہاری
آخر ہے کوئی دم میں بہن درد کی ماری
کب آکے پھر اس جھولے کو آباد کرو گے
تم بھی کبھی گودی کو میری یاد کرو گے
عباس سے یہ شاہ نے کہا اے ثانی حیدر
مر جائے گی اب فاطمہ صغرا میری دختر
جمالوں سے کہہ دو کہ بڑھیں اونٹوں کو لے کر
اسواریوں کے ساتھ رہیں قاسم و اکبر
یہ سنتے ہیں سب لوگ روانہ ہوئے اکبار
غش کھا کے گری خاک پہ صغرا جگر افگار
گھر میں اسے پہنچا کے چلے سید ابرار
غل شہر میں تھا ہائے دو عالم کے مددگار
خدام جو روتے تھے نواسے کو نبی کے
اک حشر تھا روضہ پہ رسول عربی کے
آتی تھی صدا اے میری تربت کے مجاور
صدقے تری مظلومی کے اے صابر وشاکر
اے فاقہ کش اے منزل اول کے مسافر
ہے ہے میری امت نے ستایا تجھے آخر
دشمن کو بھی اس طرح اذیت نہیں دیتے
ظالم مجھے مرنے پہ بھی راحت نہیں دیتے
صغرا اکیلی رہ گئی روتی ہوئی وزیر
اور کربلا کی سمت گئے شاہ بے نظیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بصد درد ومحن جناب امام حسین علیہ سلام کی وطن سے روانگی احباب با وفا کا
اضطراب اور جناب صغریٰ کی بے قراری
واقف ہے مسافر کا دل اس رنج ومحن سے
دشمن کو بھی اللہ چھڑائے نہ وطن سے
روایت ہے کہ ایک روز ہند مادر معاویہ وقت صبح دولت سرائے جناب رسول خدا
میں آکر پہلوئے عائشہ میں بیٹھی اور بیان کرنے لگی،کہ اے دختر ابی بکر آج
رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے۔ کہ ایک آفتاب جہاں تاب بلند ہوا، جس
سے تمام عالم روشن ہو گیا۔ پھر دیکھا کہ اس آفتاب سے ایک چاند پیدا ہوا ۔جس
کے نور سے عالم منور ہوا، پھر دیکھا کہ اس چاند سے دو تارے درخشاں نکلے
کہ جن سے مشرقین روشن ہو گئے۔ ابھی میں یہ دیکھ ہی رہی تھی کہ ناگاہ ایک
ابر سیاہ پیدا ہوا۔اور اس سے ایک سانپ ابلق رنگ پیدا ہوا،اور ان دونوں تاروں
کو نگل گیا۔اس وقت تمام عالم میں ایک عجیب طرح کا حشر برپا ہو گیا۔راوی کہتا
ہے کہ عائشہ نے ہند کا یہ خواب جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے
بیان کیا۔جناب رسول خدا نے سنا تو فرط غم سے رنگ چہرہ مبارک کا متغیر ہو
گیا۔ اور رو کر فرمایا کہ اے عائشہ وہ آفتاب تو میں ہوں اور وہ ماہ منیر میری
دختر نیک اختر فاطمہ زہرا ہے۔ اور وہ دونوں ستارے حسنین میری آنکھوں کے
تارے ہیں۔ اور وہ ابر سیاہ معاویہ پسر ہند ہے۔اور وہ ابلق سانپ یزید پلید پسر
معاویہ ہے۔ کہ میرے فرزند پر حملہ کرے گا،جب میری نوردیدہ فاطمہ دنیا سے
گزر جائے گی۔ اور علی بھی تیغ ستم سے شہید ہوں گے۔ تو میرے حسن حسین
سے لوگ دشمنی کریں گے۔ یہاں تک کہ جب حسن کو شہید کریں گے تو حسین
کے درپئے ہو کر اس کو مدینہ سے نکالیں گے، مکہ میں بھی رہنے نہ دیں
گے۔اور بھوکا پیاسا قتل کریں گے۔اور تمام شیعہ ومحب ان کو روئیں
گے۔حضرات مقام غور وتامل ہےکہ جناب رسول خدا کو اس وقت کیا صدمہ ہوا
ہوگا کہ جس وقت جناب امام حسین ظلم اشقیائے بے دین سے مجاورت مزار
اقدس سے مجبور ہو کر عازم عراق ہوئے۔مومنین امام مظلوم کی وہ کیفیت ذاکر
کیا بیان کرے۔کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ نظم
گرمی میں گرفتار محن ہوتے ہیں شبیر
بچے لیے آوارہ وطن ہوتے ہیں شبیر
گردش ہے اب اور فاطمہ زہرا کا قمر ہے
ہر ایک قدم راہ میں لٹ جانے کا ڈر ہے
بستی ہے نہ رستے میں کسی جا پہ شجر ہے
درپیش ہے سختی کہ پہاڑوں کا سفر ہے
گلرو چمن دہر سے جانے کو چلے ہیں
گھر چھوڑ کے جنگل کے بسانے کو چلے ہیں
غربت کی بھی ہوتی ہے عجب صبح عجب شام
کرتا ہے سفر قافلہ ء راحت وآرام
وہ دشت نوردی وہ غم وصدمہ والام
منزل پہ بھی ممکن نہیں راحت کا سر انجام
نیند آتی نہ تھی لاکھ وہ پٹکے جو سر اپنا
یاد آتا ہے منزل پہ مسافر کو گھر اپنا
وہ لوں وہ طپش وہ گرمی کا مہینہ
سردی میں ہو ذکر اس کا تو آجائے پسینہ
دشوار ہے اس دھوپ میں معصوموں کاجینا
ویرانہ ہے بستی میں اجڑتا ہے مدینہ
حضرت بھی گھلے جاتے ہیں تشویش سفر میں
ہیں ساتھ وہ بچے کہ جو نکلے نہیں گھر سے
امام مظلوم روتے ہوئے روضہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں
تشریف لائے،اور عرض کی سلام ہو اے نانا،میں آپ کی پیاری بیٹی کا فرزند
ہوں،اور اب آپ کا یہ دل بند ظلم اعدا ء سے تنگ آکر آمادہ سفر غربت ہے۔قبر
مطہر سے رخصت ہونے کو آیا ہے۔
نظم
برپا ہے مدینہ میں طلاطم کئی دن سے
ہے راحت وآرام طرب گم کئی دن سے
ہر گھر میں ہے اک شور تظلم کئی دن سے
منہ ڈھانپے ہوئے روتے ہیں مردم کئی دن سے
وہ غم ہے کہ آرام کا جویا نہیں کوئی
راتیں کئی گزری ہیں کہ سویا نہیں کوئی
پھر حضرت کی روتے روتے آنکھ لگ گئی۔ تو جناب رسول خدا کو خواب میں
دیکھا کہ آپ تشریف لائے ہیں اور چھاتی سے لگا کر فرماتے ہیں۔
کہ اے میرے لخت جگر حسین گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تو زمین کربلا میں ذبح
کیا گیا ہے۔ اور اے فرزند تو اس وقت پیاسا بھی ہے اور کوئی پانی نہیں دیتا۔جناب
امام حسین نے عرض کی کہ اے نانا مجھے دنیا میں رہنے کی کوئی ضرورت
نہیں،اپنی قبر میں لے لیجیئے۔ آنحضرت نے فرمایا کہ اے فرزند اے میرے پارہ
جگر یہ امر لازمی ہے کہ تو جا کر شہید ہو۔ اور اپنے درجات عالیہ کو حاصل
کر۔ یہ خواب دیکھ کر آپ چونکے اور گھر میں تشریف لا کر سفر غربت پر آمادہ
ہوئے۔اس وقت مدینہ میں عجب کہرام برپا ہوا،ہر طرف یہ شور تھا۔ نظم
یثرب کے زن ومرد ہیں سب بے خورو بے خواب
شبیر کی فرقت کی کسی دل کو نہیں تاب
ہمسایہ میں ماتم میں بکا کرتے ہیں احباب
غل ہے کہ مدینہ میں خوشی ہو گئی نایاب
اس شاہ میں خو بو ہے شاہ عقدہ کشا کی
اب کون خبر راتوں کو لے گا فقرا کی
کہتا ہے کوئی کیا ہوا یہ بیٹھے بٹھائے
کیا جانیئے خط کوفہ سے کس طرح کے آئے
روضہ پہ نبی کے شاہ دیں رہنے نہ پائے
کچھ ایسا ہو یا رب کہ یہ مظلوم نہ جائے
کوفہ میں محبت نہ مروت نہ وفا ہے
خط مکر کے لکھے ہیں بلانے میں دغا ہے
اعدا نے شاہ یثرب وبطحا کو ستایا
بے کس کو نبی زادے کو تنہا کو ستایا
یاں بیٹھے بٹھائے شہ والا کو ستایا
افسوس عجب تارک دنیا کو ستایا
اس گوشہ نشیں پہ یہ تعدی نہ روا تھی
کیا قبر پیمبر کے مجاور کی خطا تھی
حضرت کا بھی احباب وطن کی فرقت سے عجب حال تھا۔ با چشم اشکبار درستی
اسباب میں مشغول تھے۔ اور در دولت پر اہل مدینہ کا مجمع تھا۔سب روتے تھے
اور کہتے تھے کہ افسوس اب مدینہ اجڑتا ہے۔ جناب ام سلمیٰ سفر کی تیاری دیکھ
کر بولیں کہ اے پارہ جگر کہاں کا قصد ہے؟۔ اس وقت آپ رونے لگے اور
فرمایا کہ نانی جان عراق کی طرف جاتا ہوں۔ بی بی ام سلمیٰ عراق کا نام سن کر
بولیں کہ اے حسین تمہارے عراق جانے سے مجھے خوف ہے ۔اس واسطے کہ
میں نے رسول خدا سے اکثر سنا ہے کہ میرا فرزند حسین عراق کی سرزمین جس
کو کربلا کہتے ہیں پیاسا شہید ہوگا۔ یہ سن کر جناب امام حسین بہت روئے اور
فرمایا کہ نانی جان میں بخدا اس سے زیادہ جانتا ہوں کہ وہاں جا کر مع عزیز
واقارب قتل ہوں گا۔ اور کربلا پر ہی کیا موقوف ہے۔ جہاں جاوں گا،اگر سوراخ
مار ومور میں چھپ جاوں تو بھی یہ قوم جفا کار مجھے جیتا نہ چھوڑے گی۔
پھر بی بی ام سلمیٰ نے پوچھا کہ کون کون ہمراہ جائے گا۔ حضرت نے ہر ایک
کی طرف اشارہ کیا کہ یہ سب میرے ہمراہ جائیں گے۔ بی بی ام سلمیٰ دیر تک
روئیں اور فرمایا اے حسین اگر ارادہ مصمم کوفہ کا ہے۔ تو عورتوں کو ہمراہ نہ
لے جاو۔ تاکہ تمہاری شہادت کے بعد یہ سب تباہ وبرباد نہ ہوں۔ خصوصا یہ ننھے
بچے،جناب امام حسین یہ سن کر شدت سے روئے۔اور فرمایا نانی جان ان لڑکوں
میں سے اکثر میرے سامنے بھوکے پیاسے قتل کیے جائیں گے۔اس وقت سب
حضور کے سامنے کھڑے تھے۔ ہر ایک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ یہ نیزہ
سے اور یہ تلوار سے مارا جائے گا۔ یہاں تک کہ یہ لڑکا جو ابھی اپنی ماں کی
گود میں دودھ پیتا ہے۔ تیر ستم سے شہید ہوگا۔اس وقت علی اصغر کا سن ڈیڑھ
مہینے کا تھا اور کم وزیادہ بھی منقول ہے۔ جب مادر علی اصغر نے یہ خبر سنی
تو روتے روتے بے ہوش ہو گئیں،اور اسی روز سے دودھ مارے صدمہ کے کم
ہو گیا۔ راوی کہتا ہے کہ اس زمانہ میں جناب صغرٰی دختر جناب امام حسین علیہ
سلام نہایت بیمار تھیں۔اس وجہ سے آنحضرت نے اس کو چھوڑ جانا مناسب
سمجھا۔ اور جناب ام سلمیٰ کے سپرد فرمایا۔جس وقت جناب صغرٰی نے سنا کہ بابا
مجھے اس گھر میں تنہا چھوڑے جاتے ہیں۔باوجود نقاہت وناتوانی کے عصا
ٹیکتی ہوئی حضرت کے پاس آئیں اور عرض کیا بابا میں نے سنا ہے کہ آپ نے
عزم سفر کیا ہے۔ اور اس بیمار کو چھوڑ جایئے گا۔ اے بابا جائے انصاف ہے کہ
آپ میرے بھائی شیر خوار اصغر تک
کو لیے جاتے ہیں۔اور مجھے یہیں چھوڑتے
اگر مجھ سے کوئی قصور سرزد ہوا
ہے تو آپ کریم ابن کریم ہیں مجھے بخش دیجیئے۔ یہ سن کر حضرت کو تاب
ضبط نہ رہی۔ بے اختیار ہو گئے
صغرا کا تو یہ حال تھا مولا کو تھا سکتا
سینہ سے لگاتے تھے اٹھا کر سر صغرا
فیہرماتے تھے کیوں روتی ہے اے باپ کی شیدا
وہ کہتی تھی تم چھوڑے چلے جاتے ہو بابا
کبریٰ وسیکنہ تو چلیں ساتھ سفر میں
صغرٰی رہے رونے کو اس اجڑے ہوئے گھر میں
شہ نے کہا اے جان پدر یہ تیری قسمت
پر کی جیو گوارا تری بہنو کی رفاقت
کبریٰ حسن سبز قبا کی ہے امانت
عباس دلاور کو سکینہ سے ہے الفت
زینب پھوپھی تیری میرے اکبر پہ فدا ہے
اصغر مری بانو کی ضعیفی کی عصا ہے
صغرٰٰی نے کہا گر یہی قول شہ دیں ہے
سب کنبے میں میرا بھی کوئی ہے یا نہیں ہے
یا بے کس و بےوارث ووالی یہ حزیں ہے
اب یاس ہوئی جینے سے مرنے کا یقین ہے
صدقے گئی بیمار کو عیسیٰ سے ملادو
بابا مجھے بھیا علی اکبر سے ملادو
آئے علی اکبر تو پکاری وہ دل فگار
پیاری تھی سکینہ چلی ہمراہ علمدار
دعویٰ ہمیں ہے تم پہ گواہ اس کا ہے غفار
لے چلتے ہو بھیا ہمیں یا کرتے ہو انکار
گر بالی سکینہ علی اصغر کی بہن ہے
صغریٰ کو یہ فخر ہے کہ اکبر کی بہن ہے
بولے علی اکبر کہ یہ دشوار ہے بھینا
پر کوفہ میں آرام اگر پائیں گے بابا
ہم آن کے واں سے تمہیں لے جائیں گے صغریٰ
تقدیر پکاری نہ وفا ہوگا یہ وعدہ
سینہ سے تیرے پار انی ہوئے گی اکبر
یہ سنتے ہی بے آس ہوئی فاطمہ صغریٰ
منہ دیکھا عجب یاس سے ہم شکل نبی کا
آنسو تھے جو امڈے ہوئے بہنے لگا دریا
دل سے تو نہ نکلا پہ زبان سے کہا اچھا
بچ جاونگی گر موت سے لے جائیوبھائی
مختار ہو جب چاہیو تب آئیو بھائی
پھر وہ مغموم مایوس ہو کر باپ کی طرف بحسرت ویاس دیکھنے لگی۔ اور کہ اکہ
اے بابا بغیر آپ کے مجھے کیوں کر چین آئے گا۔ جب یہ بھرا گھر خالی ہوگا تو
کیا حال ہوگامیرا ۔اے بابا کسی طرح صبر نہیں آئے گا۔یہ کہہ کر حضرت کے
قدموں پر گر پڑی۔جناب امام حسین علیہ سلام بھی بہت روئے،اور سر اٹھا کر
چھاتی سے لگایا اور فرمایا کہ اے نور نظر میں عجیب تردد میں ہوں۔ کہ نظم
گھر میں تمہیں چھوڑوں یہ نہیں دل کو گوارا
لے جاوں تو جینا نہیں ممکن ہے تمہارا
بچوں میں کوئی تم سے زیادہ نہیں پیارا
مجبور ہوں بے ہجر ہوں کوئی اب نہیں چارا
فرقت میں سدا نالہ وفریاد کرو ں گا
اتروں گا جو منزل پہ تمہیں یاد کروں گا
صغرٰی نے کہا آپ کی الفت کے میں قربان
پھر کس کو ہو گر آپ کو لونڈی کا نہ ہو دھیان
صدقے گئی صحت کا بھی ہو جائے گا سامان
مولا کی توجہ ہے ہر اک درد کا درمان
جس پہ نظر لطف مسیح دوسرا ہو
برسوں کا جو بیمار ہو اک پل میں شفا ہو
قربان گئی اب تو بہت کم ہے نقاہت
تپ کی بھی ہے شدت میں کئی روز سے خفت
بستر سے میں اٹھ کے ٹہلتی بھی ہوں حضرت
پانی کی بھی خواہش ہے غذا کی بھی ہے رغبت
حضرت کی دعا سے مجھے صحت کا یقین ہے
اب تو مرے منہ کا بھی مزہ تلخ نہیں ہے
جناب فاطمہ صغرا ابھی یہ باتیں کر رہی تھیں، کہ جناب ام سلمیٰ تشریف لائیں اور
جناب امام حسین علیہ سلام کا بازو پکڑ کر فرمایا کہ اے بیٹا میں ضعیف
ہوں،میری زیست کی کوئی امید نہیں ہے۔اور تم آمادہ سفر ہو۔ یہ تو بتاو کہ کون
میری بالیں پر دم واپسین یاسین پڑھے گا۔ اور قبر میں شانہ ہلا کر کون تلقین
پڑھے گا۔ صغرا کو تو تم منالو گے تمہاری بیٹی ہے۔ لیکن میں تو حشر تک نہیں
مانوں گی۔ کہ تم چلے جاو اور میں اکیلی گھر میں پڑی رہوں۔ میرا تابوت اٹھا
لو،اور قبر بنالو تو سدھارو،یہ سن کر آنحضرت رونے لگے۔ اور فرما یا کہ نانی
جان وقت اجل ایسا ہے کہ کوئی اس سے واقف نہیں ہے۔ آپ کیا فرماتی ہیں
نظم
دنیا کا سفر یہ نہیں عقبیٰ کا سفر ہے
اول سے ہمیں منزل اخر کی خبر ہے
لے چلنے کو حاضر ہوں پر اے خاصہ قیوم
فرد اسرا میں نہیں نام آپ کا مرقوم
درپیش ہیں واں مرحلہ خنجر وحلقوم
اس رنج کی شایاں ہیں فقط زینب وکلثوم
اک رسی میں تم بارہ گلے دیکھ سکو گی
شبیر کو خنجر کے تلے دیکھ سکو گی
جس دم سر اقدس سے ردا چھینیں گے ناری
تم لاو گی ان پہ غضب خالق باری
اس غم کی سزاوار تو ہیں بہنیں ہماری
زہرا کی طرح امت جد ہے انہیں پیاری
کچھ لوٹنے میں فوج تاسف نہ کرے گی
زینب کا کلیجہ ہے کہ وہ اف نہ کرے گی
جناب ام سلمیٰ نے فرمایا کہ اے نور عین زینب وکلثوم کو تو حال معلوم ہوا،جن
الام کا کوئی فرد بشر متحمل نہیں ہو سکتا،اس میں گرفتار ہو کر صبر کریں
گی،اور یہ جو بیبیاں ساتھ جاتی ہیں ان کا کیا حال ہو گا۔ حضرت نے فرمایا آہ ان
کا بھی وہی حال ہوگا۔ کہ سرو پا برہنہ جنگلوں میں پھرائی جائیں گی اور کوئی ان
کا پرسان حال نہ ہوگا۔اور کوئی ان کی فریاد کو نہ پہنچے گا۔ اور پہلی مصیبت تو
ہم پر یہ ہوگی کہ جب اس دشت بلا خیز میں مع اہل بیت کے ورود ہوگا تو سات
محرم سے دشمن دین ہم کو پانی کا ایک قطرہ نہ لینے دیں گے۔ یہاں تک کہ چار
روز کامل ہم پر اور سب اہلبیت اور چھوٹے چھوٹے بچوں پر بے آب گزر جائیں
گے۔ا ور عباس سکینہ کی سقائی کریں گے۔غرض کہ اے مادر ذیجاہ کہاں تک
شرح مصیبت بیان کروں،خلاصہ یہ کہ وہ ستم ہم پر گزریں گے کہ کسی نے دیکھا
اور نہ دیکھے گا۔اور نہ سنا اور نہ سنے گا۔ اور زمین کربلا وہ زمین ہے کہ نظم
وارد جو رسولان سلف ہوتے تھے اماں
اس دشت میں غربت پہ مری روتے تھے اماں
یہ کہہ کے سوئے ماریہ ہاتھ اپنا بڑھایا
اور مادر غمخوار کو پاس اپنے بلایا
ام سلمیٰ نے جو ادھر منہ کو پھرایا
دو انگلیوں کے بیچ میں مقتل نظر آیا
رنگ اڑ گیا شدت یہ ہوئی درد جگر کی
آنکھوں نے کہا ہم کو نہیں تاب نظر کی
ہاتھوں سے جگر تھام کے دیکھا تو یہ دیکھا
دریا کے کنارے ہے رواں خون کا دریا
ریتی پہ خیام شہ لولاک ہیں برپا
کشتہ پہ تو کشتہ ہے طپاں لاشہ پہ لاشہ
حیران حرم صورت تصویر کھڑے ہیں
زہرا کے مرقع کے کے ورق رن میں پڑے ہیں
سقا لب دیا کوئی بی جاں نظر آیا
اک بچہ کے حلقوم میں پیکاں نظر آیا
نوشاہ کوئی خون میں غلطاں نظر آیا
نیزے پہ سر شاہ شہیداں نظر آیا
خیمہ شاہ لولاک کا جلتے ہوئے دیکھا
بیواوں کو سرا سیمہ نکلتے ہوئے دیکھا
دیکھا کوئی سر پیٹتی ہے اور کوئی سینہ
کہتی ہے کوئی ہائے شہنشاہ مدینہ
آیا ہے تباہی میں پیمبر کا سفینہ
سیلی ستمگار ہے اور روئے سکینہ
نالے حرم قبلہ دیں کھینچ رہے ہیں
چادر سر زینب سے لعیں کھینچ رہے ہیں
یہ دیکھتے ہی جناب ام سلمیٰ بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔اور حرم میں اک شور
رونے کا بلند ہوا۔ کہ چلتے وقت یہ کیا مصیبت نازل ہوئی۔تھوڑی دیر بعد آپ کو
ہوش آیا تو فرمایا کہ اے پارہ جگر نور نظر یہ کیا سانحہ دکھایا۔ہائے افسوس
تیری یہ صورت وہاں ہو جائے گی۔ آہ میری زینب یہ صدمے اٹھائے گی۔ اور
سکینہ پیاری ننھے منہ پر طمانچے کھائے گی۔ پھر فرمایا کہ اے حسین مجھے
بتلاو کہ وہ دولھا کون تھا ،جس کی لاش پامال نظر آئی۔حضرت نے فرمایا وہ
میرے بھائی کا لال قاسم ہے۔ پھر فرمایا اے نور نظر وہ بچہ کون ہے جس کے
گلوئے نازک میں پیکان ستم پیوست ہے۔ حضرت نے فرمایا آپ نہیں جانتیں وہ
میرا شیر خوار اصغر ہے۔ اور وہ جو چھاتی پہ ہاتھ دھرے سوتا ہے۔ وہ پر ارمان
بن بیاہا علی اکبر ہے۔بیت
یہ سنتے ہی دل ہل گیا تھرا گئے اعضا
بولیں کہ خدا خیر کرے ہائے نصیبا
آخر بیبیوں نے جناب ام سلمیٰ کو سمجھا بجھا کر رخصت کیا۔ مگر صغرا کسی
طرح علیحدہ نہ ہوتی تھی۔ اور کسی کا کہنا نہ سنتی تھی۔اور حضرت سے لپٹ کر
کہتی تھی۔ نظم
بے آپ کے اس گھر میں نہ یا شاہ رہوں گی
اچھا میں کنیزوں کے ہمراہ رہوں گی
سب رونے لگے سن کے یہ بیمار کی تقریر
چلائی سکینہ کہ میں صدقہ میری ہمشیر
گھبرا کے یہ فرمانے لگے حضرت شبیر
تم بیٹی کو سمجھاو کچھ اے بانوئے دل گیر
کم سن ہیں مسافر مجھے تشویش بڑی ہے
دن چڑھ گیا آج کی منزل بھی کڑی ہے
یہ سنتے ہی بس ماں کی تو چھاتی امڈ آئی
چلائی وہ ناشاد کے ہے ہے مری جائی
زینب نے کہا گھر سے نکلتی ہوں میں بھائی
مر جانے سے کچھ کم نہیں صغرا کی جدائی
گھر لٹتا ہے کس طرح قیامت نہ بپا ہو
پہلا ہے یہ الم آگے خدا جانے کہ کیا ہو
آغاز سفر میں تو یہ ماتم ہے یہ کہرام
کیا دیکھیں دکھاتا ہے اس آغاز کا انجام
جنگل ہو کہ بستی ہو کہاں راحت وآرام
ماں روئے گی بیٹی سے بچھڑ کر صبح وشام
گلشن بھی ہے جنگل جو کلیجہ نہ ہو بر میں
بہلے گی وہ چھوڑیں گے اکیلی جسے گھر میں
صغرا نے کہا آپ کی باتوں کے میں قربان
تم جان بچا لو کہ میں لونڈی ہوں پھوپھی جان
بیٹی ہو علی کی میری مشکل کرو آسان
جیتی رہی صغرا تو نہ بھولے گی یہ احسان
کچھ بات بجز گریہ وزاری نہیں کرتیں
اماں تو سفارش بھی ہماری نہیں کرتیں
ہائے میں اپنا حال دل کس سے کہوں۔وہ دو بیٹیاں جو باپ کو پیاری ہیں جاتی
ہیں۔اور میں گور کنارے ہوں ،اس واسطے مجھے نہیں لے جاتے۔ جانے کیا وقت
ہے کہ بیماری کے سبب والدین اور بہنوں سے کسی کو میری محبت نہیں رہی۔
خیر نہ پوچھے کوئی بیمار کا اللہ تو ہے۔ اس وقت نہ پوچھیں گے، لیکن جب میں
قبر میں سووں گی تو البتہ یاد کریں گے۔ ارے لوگو انصاف تو کرو کیا دنیا میں
کوئی بیمار نہیں ہوتا۔مجھ سے کون سی تقصیر ہوئی ہے کہ سب دفعتہ بےزار ہو
گئے ہیں۔ ابھی تو زندہ ہوں ،مگر مردہ کی طرح بھاری ہوں۔مجھے کون
ساعارضہ ہے کہ لوگ مجھ سے بھاگتے ہیں، کچھ اس کا بھید نہیں کھلتا کہ جس
کی طرف دیکھتی ہوں وہ آنکھ چراتا ہے۔ نظم
تپ کیا مجھے آئی کہ پیام اجل آیا
ہے ہے مری راحت کی بنا میں خلل آیا
چھوڑا مجھے سب نے جو سفر کا محل آیا
کیا خوب مری نخل تمنا میں پھل آیا
دل سخت کیا ماں نے مجھے غم ہے اسی کا
سچ کہتے ہیں دنیا میں نہیں کوئی کسی کا
وہ چاہنے والا ہے جو مصیبت میں کام آئے
میں سب کی ہوں اور کوئی میرا نہ ہوا ہائے
اس راہ میں ہمراہ کنیزیں تو ہوں اے وائے
کنبے کی جو ہو چاہنے والی وہی رہ جائے
بیماری مزمن کی دوا خوب ہوئی ہے
تجویز مرے واسطے کیا خوب ہوئی ہے
تنہائی میں رونے سے اتر جائے گی یہ تپ
ہاں درد بھی سر میں مرے ہونے کا نہیں اب
تڑپوں گی تو ہو جائے گی اعضا شکنی سب
بہتر یہی ترکیب ہے نسخہ یہی انسب
کم ہوگی حرارت الم رنج ومحن میں
غم کھانے سے آجائے گی طاقت مرے تن میں
راتوں کو رونے سے دماغ کی پیوست کم ہو جائے گی۔ منہ اشکوں سے دھونے
سے بیمار تسکین پائے گی۔کیا تسلی کی صورت یہی ہے۔ کہ بالین پر عزیزوں میں
سے کوئی نہ ہو۔ اور جب غش سے آنکھ کھلے تو جز بے کسی وتنہائی کے کوئی
پاس نہ ہو بیت
راحت سے شب وروز علاقہ مجھے ہوگا
فاقہ جو کروں گی تو افاقہ مجھے ہوگا
کیا خوب دوا مری تجویز ہوئی ہے۔ سچ ہے تنہائی میں شدت خفقان بھی نہ
ہوگی۔اور دل بیمار ویرانی مکان سے بہلے گا۔ بابا کا بھی خیال نہ رہے گا۔اور نہ
کبھی ماں کی شفقت مجھے یاد آئے گی۔ کیا خوب تجویز ہوئی ہے۔ اس تجویز کے
قربان
فرقت میں مری طرح جگر کس سے سنبھلتا
میں گھر میں نہ ہوتی تو یہ گھر کس سے سنبھلتا
کس کی شکایت کروں۔ سب تو چاہنے والے ہیں۔ اماں کی محبت معلوم ہوئی۔ بابا
کی وہ تقریر ہے۔ اور بہنوں کی یہ صورت ہے۔ پھوپھی جان بھی کچھ نہ بولیں۔ یہ
میری قسمت ہے۔ سب اچھے ہیں میری تقدیر بری ہے۔ بھیا علی اکبر کو تو دیکھو
کہ اس رنجور بہن کے عاشق مشہور ہیں۔اور دودن سے خبر بھی نہ لی۔ اور قاسم
کو کیا غرض کہ میری گریہ وزاری سن کر رحم کریں۔ سکینہ بھی اپنے چچا جان
کو پیاری ہے۔ بیت
اللہ تو ہے گر کوئی غمخوار نہیں ہے
مٹی مری کچھ قبر کی دشوار نہیں ہے
اچھا بابا ہمیں نہ لے جائیں۔ لیکن اس وقت مری محبت معلوم ہوگی جب راہ میں
مری وفات کا خط پہنچے گا۔اور فرمائیں گے کہ لو کنبے کی چاہنے والی مر
گئی۔ افسوس قسمت نے سفر میں خبر مرگ سنائی۔ہائے جسے گھر میں چھوڑ آئے
تھے۔ وہ سب سے پہلے منزل مقصود پر پہنچ گئی۔اور پھر کوئی لاکھ کوشش
کرے ۔ میں نہ ملوں گی۔اس وقت سب افسوس کریں گے۔ کہ اسے ہاتھ سے کھویا،
پر جب میں قبر میں سوئی تو مجھے کیا کوئی رویا یا کڑھا اور پرسے کے لئے
لوگ آئیں گے۔ اور پردیس میں سب کنبہ نے سوگ کیا، تو ہم کو کیا یہ کہہ رہی
تھیں کہ جناب علی اکبر روتے ہوئے گھر میں آئے۔چہرہ انور شدت بکا سے زرد
تھا ۔اور آنکھیں سرخ تھیں۔ جونہی جناب صغرا نے دیکھا چلا کر بھائی کی چھاتی
سے لپٹ گئی۔ اور کہنے لگی کہ اے بھیا یہ بہن ان ہاتھوں اور اس سینہ کے قربان
ہو۔ فریاد ہے اے بھیا علی اکبر کہ میں بن موت مرتی ہوں۔اور کوئی خبر نہیں لیتا
تقدیر تم سے بھی جدا کرتی ہے۔ نظم
بھیا مری تنہائی پہ آنسو نہ بہاو
وہ دن ہو کہ پھر خیر سے اس شہر میں آو
ہر چند ہے مشکل یہ کہ جیتا مجھے پاو
صدقے گئی پھر آنے کا وعدہ کیے جاو
عرصہ ہو تو خط لکھ کے طلب کیجیئو بھائی
پر بیاہ میں مجھ کو نہ بھلا دیجیئو بھائی
وہ دن ہو کہ بوٹا سی تمہاری دلہن آئے
تم جیسے ہو بس ویسی ہی پیاری دلہن آئے
ہمشیر کو تربت میں نہ ترسائیو بھائی
بھابھی کو مری قبر پہ لے آئیو بھائی
یہ باتیں درد آمیز سن کر جناب علی اکبر زار زار رونے لگے۔ اور فرمایا کہ اے
بہن کیا کریں، قسمت سے مجبور ہیں یہی تقدیر میں ہے۔ کہ ہم تم سے اور تم ہم
سے جدا ہوں۔ مگر جدائی ایسی شاق ہے کہ ہم اپنی جان یہیں چھوڑے جاتے ہیں۔
خدا تجھے صحت عطا کرے،اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جب بابا کوفہ میں پہنچیں
گے اور اطمینان نصیب ہوگا، تو ہم آکر تمہیں لے جائیں گے۔ خاطر جمع رکھو۔
مگر اے بہن تقدیر سے مجبوری ہے۔ اگر خدا نخواستہ تقدیر نے یاری نہ کی،اور
زیست نے کمی کی تو میری وعدہ خلافی معاف کرنا۔ یہ سن کر جناب صغرا بہت
روئیں، اور قریب تھا کہ غش آجائے پھر کہا بھیا علی اکبر فدا ہو جان صغرا کی تم
پر اور تمہاری بلا لے کر میں مرجاوں ۔ یہ کیا کلمہ کہا کہ جس سے کلیجہ شق ہو
گیا۔ارے بھیا تمہاری جدائی سے صغرا زندہ نہ بچے گی۔ امید ہے کہ جب تم
مجھے لینے آو گے تو میری قبر پر فاتحہ پڑھ کر پچھتاو گے۔ ممکن نہیں کہ تم
مجھ سے جدا ہو۔ اور میں زندہ رہوں۔بھیا جب خیال فرقت آتا ہے۔ تو میرا کلیجہ
پھٹ جاتا ہے۔ اور جب میں تمہیں اس گھر میں نہ دیکھوں گی تو آہ کے ساتھ میری
جان نکل جائے گی۔ کیا وقت ہے کہ کوئی مری خبر نہیں پوچھتا، جس سے کچھ
کہنا چاہتی ہوں منہ چرا لیتا ہے۔اپنا درد دل کس سے کہوں۔ ایک تم سے امید تھی
تمہارا یہ حال ہے کہ سوائے رونے کے کچھ جواب نہیں دیتے۔اور اپنی مجبوری
بیان کرتے ہو۔ بابا سے مجھ غم زدہ کی سفارش نہیں کرتے۔ سب بیبیاں بہن بھائی
کی یہ باتیں سن کر روتی تھیں، اور ایک عجیب کہرام تھا۔ نظم
رونے کا ادھر غل تھا کہ فضہ یہ پکاری
تیار ہے ناموس محمد کی سواری
دروازے کے نزدیک ہے زینب کی عماری
کیا دیر ہے اب اے اسد اللہ کی پیاری
ہر بار قناتوں کے قریں آتے ہیں عباس
اب جلد ہوں اسوار یہ فرماتے ہیں عباس
شبیر نے رو کر کہا لو جاتے ہیں صغرا
جلد آتے ہیں یا خود تمہیں بلواتے ہیں صغرا
ہم سب تیری تنہائی کا غم کھاتے ہیں صغرا
جان اپنی نہ کھونا تمہیں سمجھاتے ہیں صغرا
قربان پدر آب وغذا ترک نہ کرنا
بڑھ جائے گا آزار دوا ترک نہ کرنا
بیٹی سے یہ فرما کے چلے قبلہ عالم
ناموس محمد بھی چلے ساتھ بصد غم
صغرا جو چلی جاتی تھی روتی ہوئی باہم
ہمسائیاں باندھے ہوئے تھیں حلقہ ماتم
راحت تھی جوسب کو شہ ذیجاہ کے دم سے
اک پیٹتی تھی ایک لپٹتی تھی قدم سے
غل تھا شاہ ابرار خدا حافظ وناصر
رانڈوں کے مدد گار خدا حافظ وناصر
اے خلق کے سردار خدا حافظ وناصر
محتاجوں کے غم خوار خدا حافظ وناصر
دکھ فاقوں کے عسرت کے الم کس سے کہیں گے
مشکل کوئی اب ہو گی تو ہم کس سے کہیں گے
شہ کہتے تھے اللہ مددگار ہے سب کا
انساں کی ہے کیا آس بھروسا ہے تو رب کا
ساماں کبھی غم کا کبھی عیش وطرب کا
مضطر نہیں فرزند شہنشاہ عرب کا
مانگو یہ دعا صبر سے وہ وقت بسر ہو
جس روز کہ شبیر کادنیا سے سفر ہو
اے ہم وطنو اب صبر کرو۔مشیت ایزدی سے چارہ نہیں۔انشا اللہ اگر خریت شامل
حال ہے۔ تو جلد واپس آئیں گے۔ اور تم سب کا دیدار دیکھیں گے۔ میرے لئے
دعائے خیر کرنا۔ جس کی خدا وند عالم تمہیں جزائے خیر عطا فرمائے گا۔اور
صبر کرنا خدا صابروں کو دوست رکھتا ہے۔ نظم
یہ کہہ کے برآمد ہوا وہ خلق کا والی
ناقوں پہ چڑھے سب حرم سید عالی
احباب بلکتے تھے تڑپتے تھے موالی
غل تھا کہ محمد کا بھرا گھر ہوا خالی
یوں روتے تھے سب گرد حسین ابن علی کے
جس طرح سے ماتم تھا جنازے پہ نبی کے
کہتے تھے جوانان مدینہ سبھی رو کر
اب ہم سے بچھڑ جائیں گے ہے ہے علی اکبر
بے تاب ہیں احباب علمدار دلاور
روتا ہوا گرتا ہے کوئی آکے قدم پر
ہر مرتبہ اشک آنکھوں میں بھر لاتے ہیں عباس
چھاتی سے ہر اک دوست کو لپٹاتے ہیں عباس
قاسم کے جو ہم سن ہیں وہ سب کرتے ہیں زاری
ایک ایک پہ اندوہ غم ورنج ہے طاری
کہتے ہیں کہ اب تلخ ہوئی زیست ہماری
کیا ہوگا چلی جائے گی جس وقت سواری
جب آئیں گے یاں نالہ وفریاد کریں گے
سب روئیں گے جب خلق حسن یاد کریں گے
ہمجولیوں کا عون ومحمد کے ہے یہ حال
بے تاب ہیں سب روتے ہیں اس درد سے اطفال
ایک ایک سے فرماتے ہیں وہ صاحب اقبال
لو بھائیو بس رونے سے آنکھیں تو ہوئیں لال
عزت ہے اطاعت میں امام دوسرا کی
پھر آئیں گے گر زیست نے اس سال وفا کی
در پہ کوئی روتا ہے کوئی راہ گزر میں
تاریک ہے دنیا کسی غمگیں کی نظر میں
ہیں جمع محلے کی جو سب بیبیاں گھر میں
اک حشر ہے ناموس شاہ جن و بشر میں
سب مل کے بکا کرتی ہیں جب آتا ہے کوئی
یوں روتی ہیں جس طرح کہ مر جاتا ہے کوئی
سب کہتی ہیں زینب سے کہ اے بھائی کی شیدا
کس طرح کے خط آئے یکایک یہ ہوا کیا
پانی کی کمی گرمی کے دن خوف کا رستا
وہ دھوپ پہاڑوں کی وہ لو اور وہ صحرا
کیا سوچ کے اس فصل میں شبیر چلے ہیں
بچوں پہ کریں رحم کہ نازوں کے پلے ہیں
سنتے ہیں یہ ہر واردو صادر کی زبانی
جھیلوں میں بھی حوضوں میں بھی سب خشک ہے پانی
اس فصل میں ہوتی ہے بہت تشنہ دہانی
کس طرح جئیں گے اسد اللہ کے جانی
تونسا ہوا بچہ کوئی جانبر نہیں ہوتا
جب خشک ہوا پھول تو پھر تر نہیں ہوتا
ہے ہے چھ مہینے کے بھی بچے کا سفر ہے
کچھ تم کو پہاڑوں کی بھی گرمی کی خبر ہے
غربت میں جوانوں کے تلف ہونے کا ڈر ہے
رحم اس پہ ہے لازم کہ یہ بچہ گل تر ہے
اصغر کو جو دکھ ہو تو قلق ماں کو سوا ہو
گرمی ہے بہت دودھ جو گھٹ جائے تو کیا ہو
فرماتی تھیں زینب نہیں بہنو کوئی چارا
قسمت میں تباہی ہے تو کیا زور ہمارا
گھر چھوڑ کے جانا ہےکسی کو بھی گوارا
مجبور ہے مضطر ہے ید ا للہ کا پیارا
پیام مصیبت کے ہیں تنہائی کے دن ہیں
غربت کی شبہیں بادیہ پیمائی کے دن ہیں
ابھی یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ یکایک شور سواری کا ہوا۔ اور ناموس محمد سوار
ہونے لگے۔ تو اس وقت اس ستم دیدہ ہجر کا عجب حال تھا۔ نظم
صغرا کو نقاہت سے نہ تھی طاقت رفتار
اٹھی کئی بار اور گری در پہ کئی بار
جس ناقہ پہ تھی بانوئے ناشاد دلفگار
اس ناقہ کے پاس آکے یہ چلائی وہ بیمار
قربان گئی آخری دیدار دکھا دو
اماں مجھے اصغر کو پھر اک بار دکھا دو
مضطر ہوئی سن کر یہ سخن بانوئے بے پر
پردے سے جگر بند کا منہ کر دیا باہر
بیٹی سے کہا دست پسر ماتھے پہ رکھ کر
لو آخری تسلیم بجا لاتے ہیں اصغر
منہ زرد ہے رخساروں پہ آنسو بھی بہے ہیں
یہ نرگسی آنکھوں سے تمہیں دیکھ رہے ہیں
تھرائے ہوئے ہاتھ اٹھا کر وہ پکاری
اس ہاتھ کے اس چاند سے ماتھے کے میں واری
اصغر نہیں جینے کی میں فرقت میں تمہاری
آخر ہے کوئی دم میں بہن درد کی ماری
کب آکے پھر اس جھولے کو آباد کرو گے
تم بھی کبھی گودی کو میری یاد کرو گے
عباس سے یہ شاہ نے کہا اے ثانی حیدر
مر جائے گی اب فاطمہ صغرا میری دختر
جمالوں سے کہہ دو کہ بڑھیں اونٹوں کو لے کر
اسواریوں کے ساتھ رہیں قاسم و اکبر
یہ سنتے ہیں سب لوگ روانہ ہوئے اکبار
غش کھا کے گری خاک پہ صغرا جگر افگار
گھر میں اسے پہنچا کے چلے سید ابرار
غل شہر میں تھا ہائے دو عالم کے مددگار
خدام جو روتے تھے نواسے کو نبی کے
اک حشر تھا روضہ پہ رسول عربی کے
آتی تھی صدا اے میری تربت کے مجاور
صدقے تری مظلومی کے اے صابر وشاکر
اے فاقہ کش اے منزل اول کے مسافر
ہے ہے میری امت نے ستایا تجھے آخر
دشمن کو بھی اس طرح اذیت نہیں دیتے
ظالم مجھے مرنے پہ بھی راحت نہیں دیتے
صغرا اکیلی رہ گئی روتی ہوئی وزیر
اور کربلا کی سمت گئے شاہ بے نظیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Subscribe to:
Posts (Atom)