Thursday, September 23, 2010

بارھویں مجلس حضرت حبیب ابن مظاہر کی شہادت

بارھویں مجلس
حضرت حبیب ابن مظاہر کی شہادت
منظور نظر اس کی مصیبت کا بیاں ہے
جو سن میں مسن اور ارادے میں جواں ہے
شناوران دریائے محبت وبادیہ پیمائے صحرائے مودت اس طرح تحریر کرتے ہیں۔ کہ بروز قیامت خدا وند عالم ہر شخص کی نیکی وبدی دریافت کرکے اپنی قدرت کاملہ سے بقدر اعمال ہر ایک پر احکام جاری کرے گا۔ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا اور سزا ملے گی۔چنانچہ ایک شخص ایسا ہوگا،جس سے تمام عمر میں بجز گناہوں اور افعال قبیح کے کوئی گل نیک نہیں ہوا ہوگا۔ تب فرشتے اس کو دوزخ کی طرف لے جائیں گے۔اسی اثنا میں منادی منجانب پروردگار ندا کرے گا۔ کہ اے فرشتو ابھی ٹھہر جاو،اس کے لے جانے میں جلدی نہ کرو،کیونکہ ایک امانت اس گنہگار کی میرے پاس ہے،وہ اس کو دے دوں،نظم
یہ ماجرائے حشر کتابوں میں ہے لکھا
یہی کہ اک بندہ تہی دست لے لو
دامن در گناہ سے ہو گا بھرا ہوا
ملے گا تب خدا سے اسے اک در بے بہا
فرمان ہوگا معرکہ بعث ونشر میں
ہاں اس کو جا کے بیچ لے بازار حشر میں
پس بحکم آواز غیبی فرشتے رک جائیں گے کہ ناگاہ ایک در بے بہا جس کے نور وضیا سے تمام عرصہ محشر منور ہوگا۔اور آنکھیں تمام اہل محشر کی خیرگی کرنے لگیں گی،اس کو دیا جائے گا۔ وہ موتی ایسا خوشنما،بے بہا اور عمدہ ہوگا کہ تمام خلائق اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ دنیا میں ایسا موتی نہیں دیکھا۔ جس وقت اس بندہ گنہگار کو یہ موتی دیا جائے گا۔ وہ درگاہ رب العالمین میں عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار کہ دنیا میں مجھ سے بجز گناہوں کے کوئی فعل نیک سرزد نہیں ہوا۔ اب روز حساب وکتاب ہے۔ بندہ تیرے عتاب میں گرفتار ہے۔ اس وقت میں عاصی اس مال غیر کو اپنا نہیں کہہ سکتا۔ میں نے ایسا موتی کہاں پایا۔ مگر ہاں تیری ذات عالم الغیب ہے اور تو ہر اک چیز سے واقف اور دانا ہے۔ خدا کی جانب سے ندا آئے گی۔ کہ اے میرے بندے یہ گوہر خاص تیری خاص ملکیت ہے۔ یاد کر کہ عالم حیات ناپائیدار میں کہ ایک روز تو مجلس عزائے حسین دل بند شاہ بدر وحنین میں گیا تھا۔ اور جب ذاکر نے مصائب بیان کیے تو اس وقت تیری آنکھ سے ایک قطرہ اشک جاری ہو کر تیرے رخسار پر آیا۔اس اشک کو ہم نے پسند کرکے مجلس میں متعین فرشتوں کے ذریعے طلب کیا۔اور روز حشر تک امانت رکھا تھا۔ اس کو تمام انبیا اور اوصیا کے پاس لے جا۔وہ جتنی قیمت تجویز کریں ہم تجھ کو دیں گے۔ یہ فرمان سن کر وہ بندہ منسوب اس در نایاب کو لے کر نظماک اک کے پاس تب وہ گنہگار جائے گا
آدم سے تا بہ حضرت خاتم دکھائے گا

قیمت وہ اس گوہر کی کسی سے نہ پائے گا


تب حق قریب پردہ قدرت بلائے گا
آواز آئے گی کہ دررحم وا کیا

لے اس کے بدلے گلشن جنت عطا کیا
خوش خوش گنہگار چلے گا جناں کو تب
آواز دے گا پردہ قدرت سے پھر یہ رب
اصرار اک ذرا بھی جو کرتا تو ہم سے اب
دیتا تجھے خزانہ قدرت میں سب کا سب
کیا جانے تو جو اس کے لیے زیب وزین ہے
موتی نہیں یہ اشک عزائے حسین ہے
الغرض وہ بندہ خنداں وشاداں مع اپنے والدین کے جناب امام حسین کی ہمراہی میں ہوگا۔ کیوں مومنین جائے تامل ہے۔ کہ جب بعوض ایک اشک کے ایسا گنہگار کہ جس سے تمام عمر میں کوئی عمل نیک بجز گناہوں کے نہ ہوا ہو۔ مع اپنے والدین کے بخش دیا جائے گا۔ تو ان لوگوں کا کیا مرتبہ ہوگا جو ایام طفولیت سے نام حسین پہ دل وجان سےقربان رہے۔ اور روز عاشور اپنی جان عزیز فرزند رسول پر نثار کر دے۔ مومنین سمجھے وہ کون شخص تھا سنیئے، نظم
اس خضر بیابانا شہادت کا بیاں ہے
سر سبز فصیحوں میں جو طوطی زباں ہے
اس یوسف شبیر کا رخ سوئے جناں ہے
پس حور ہر اک مثل زلیخا نگراں ہے
مشتاق لقا حضرت محبوب خدا ہیں
کونین حبیب ابن مظاہر پہ فدا ہے
بچپن میں جوگھر سے شاہ دیں کھیلنے آتے
یہ مٹھیوں میں خاک قدم جھک کے اٹھاتے
کچھ آنکھوں میں انگلی کی سلائی سے لگاتے
کچھ خاک کو گلگونہ رخسار بناتے
خاک قدم شاہ پہ قانع وہ جری تھا
صندل تھا یہی سرمہ یہی عطر یہی تھا
الغرض حضرت حبیب ابن مظاہر بچپن سے تا معرکہ کربلا ہمیشہ امام حسین کی خدمت گزاری میں مصروف رہے۔ اور بروز عاشورا جس وقت لشکر کی صفیں آراستہ ہوئیں۔اور دونوں لشکر آپس میں مصروف جدال ہو گئے ۔اور اصحاب امام مظلوم کے ہاتھوں سے اعدائے بد شعار واصل جہنم ہونے لگے۔اس وقت عمر سعد بد نہاد اور شمر ملعون نے نہایت پریشان ہو کر مشورہ کیا کہ ایک دم سے حسین علیہ سلام کے قلیل لشکر پر حملہ کرنا چاہیئے۔ورنہ کسی طرح ان بہادروں پر فتح یاب نہ ہوں گے۔ چنانچہ ان ملعونوں نے ایسا ہی کیا۔ اور تمام اصحاب حسین مظلوم مجروح ہو گئے۔ یہاں تک کہ نماز ظہر کا وقت آگیا۔ اس وقت اصحاب باوفا نے عرض کی کہ اے مولا آج ہم سب شربت شہادت سے سیراب ہوں گے۔تمنا ہے کہ آخری نماز حضرت کے ساتھ ادا کریں۔ تو عین سعادت ہے۔ اس وقت امام مظلوم نے عمر سعد کو پیغام بھیجا کہ اے ابن سعد اگر چہ حرص دینوی شیطان تجھ پر ایسا مسلط ہوا ہے کہ طریقہ اسلام تیرے دل سے بالکل محو ہو گیا ہے۔ مگر یہ وقت نماز ظہر کا ہے ۔جنگ کو موقوف کر،تاکہ ہم نماز ادا کرلیں۔ عمر سعد خاموش رہا،لیکن حصین ابن نمیر ناپاک نے بڑھ کر آواز دی معاذ اللہ منھا کس زبان سے عرض کروں اس ملعون نے کہا کہ اے حسین تم عبث مہلت نماز طلب کرتے ہو،تمہاری نماز ہر گز پیش خدا قبول نہ ہوگی۔اس ناہنجار کا یہ کلام سن کر حضرت حبیب ابن مظاہر کو غصہ آگیا اور فرمایا کہ اے حصین دور ہو خدا تجھ پر لعنت کرے۔ فرزند رسول الثقلین کی نماز تو قبول نہ ہو،اور تجھ ایسے فاسق وفاجراور شراب خور کی نماز قبول ہو گی۔اور امام مظلوم سے عرض کی کہ مولا اجازت دیجیئے کہ اس ملعون کو اس کی زبان درازی کی سزا دوں۔ اب یہ نماز آپ کے جد نامدار کے ساتھ ادا کروں گا۔ جب امام حسین نے دیکھا کہ حبیب ابن مظاہر رحمہ اللہ عازم جنگ ہیں۔اس وقت نظم
شبیر نے حبیب ابن مظاہر سے یوں کہا
لڑنے کو تو نہ جا کہ بڑھاپا ہے اب ترا
رو کر کہا حبیب نے کہ اے جان مرتضیٰ
بندہ ہزار جان سے ہو آپ پہ فدا
ہر چند پیر خستہ دل و ناتواں شدم
ہر گہہ خیال روئے تو کردم جواں شدم
ہر چند امام حسین علیہ سلام نے ان کی ضعیفی کا خیال کرکے روکنا چاہا،مگر وہ جان نثار شوق شہادت میں یہی عرض کرتا تھا۔ بیت
پیری میں گل زخم سے ہے حسن بدن کا
ہنگام سحر لطف ہے گلگشت چمن کا
آخر کار آنحضرت نے حبیب ابن مظاہر کو ناچار ہو کر اجازت کار زار دے دی۔اور وہ دیندار مثل شیر غضبناک لشکر کفار کی جانب چلا۔ نظم

ہاں مومنو اب غلغلہ صلی علے ہو
ہاں دوستو آواز تحسین ثنا ہو
شبیر کے فدیہ کے تجمل پہ فدا ہو
اس چہرہ روشن سے طلب گار ضیا ہو
تیار ہیں اعدا کے زد وکشت کے اوپر
توفیق جلو میں ہے خدا پشت کے اوپر
کیا چرخ چہارم ہے یہ پیشانی زیبا
سجدے کا نشاں صورت خورشید ہے پیدا
ابرو پہ سر چشم یہ مردم کا ہے دعوے
لو گرم مہہ نو نے کیا پہلوئے عیسیٰ
اک جلوہ جو بخشیں نظر مہر اثر کا
کھودیں یرقاں مہر کا اور جرم قمر کا
الغرض جب لشکر کفار کے مقابل تشریف لائے، نظم

غازی نے عناں روک کے ہر سمت نظر کی
اور قبل رجز خشک زباں شکر سے تر کی
فرمایا جدائی ہو مبارک تن وسر کی
ہے دھاک شجاعوں میں مرے جد وپدر کی
ہاں یاد رہے زور شجاعان سلف ہوں
بچپن سے غلام پسر شاہ نجف ہوں
اس کعبہ کا حاجی ہوں گراتے ہو جسے تم
اس آیہ کا حافظ ہوں مٹاتے ہو جسے تم
اس چاند کا ہالہ ہوں چھپاتے ہو جسے تم
اس کلمہ کا شاہد ہوں بھلاتے ہو جسے تم
اس گل کا میں بلبل ہوں جسے خوں میں بھرو گے
اس شمع کا پروانہ ہوں گل جس کو کروگے
یہ سن کر حصین ملعون لشکر کفار سے نکل کر مقابلہ کو تیار ہوا۔ حضرت حبیب ابن مظاہر نے تلوار آبدار کا وار کیا۔ پھر ایسا نیزہ اس کے سینہ پر کینہ پر مارا کہ پشت زین سے زمین پر گر پڑا۔اس کے لشکر والے دوڑ کر اس کی مدد کو آئے اور اس کو اٹھا لے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ ملعون آپ کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکا۔اور بھاگ کر لشکر میں چھپ گیا۔ الغرض حبیب ابن مظاہر نے ایسی جنگ کی کہ ایک سو ساٹھ اشقیا کو واصل جہنم کیا۔اور آپ بھی بہت زخمی ہو گئے۔ پھر ایک مرتبہ امام کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوئے۔اسی اثناء میں ایک غلغلہ خیمہ اطہر سے واعطشا کا بلند ہوا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ جناب علی اصغرشدت تشنگی سے بے چین ہیں۔وہ امام مظلوم سے دوبارہ رخصت ہو کر میدان کارزار میں تشریف لائے۔اور فرمایا کہ اے ظالمو اگر چہ تم نے نواسہ رسول حسین مظلوم پر ظلم وستم میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ لیکن ننھے ننھے بچوں نے کیا خطا کی ہےکہ ان پر ایسے مظالم جائز سمجھتے ہو۔ان معصوم بچوں کے لئے تھوڑا پانی دے دو، نظم
لو فاطمہ زہرا کو تو مرقد سے نکالا
کچھ سنتے ہو مقتل میں کھڑی کرتی ہیں نالا
اس تیسرے فاقے میں بھی خوش ہیں شہ والا
پر مرتا ہے بانو کا پسر ہنسلیوں والا
سیدانیوں کو پاس سے جھولے کے ہٹا دو
پانی تمہیں جا کر علی اصغر کو پلا دو
اعدا نے کہا خوب سی ذلت یہ اٹھائیں
جائیں وہاں اور پانی بھی اصغر کو پلائیں
مرضی ہو تو سر کاٹ کے ننھا سے لے آئیں
اور سامنے شبیر کے نیزہ پہ چڑھائیں
دیکھو تو سہی وقت اب آتا ہے غضب کا
ہم تیسرے فاقے میں گلا کاٹیں گے سب کا
شبیر نے پیری میں تمہیں مرنے کو بھیجا
اکبر کی جوانی پہ دکھا ان کا کلیجہ
کیا پیر کا سر کاٹنا اے شیخ پلٹ جا
غصہ سے کہا شیر نے کیا بکتے ہو بے جا
بالفرض میں کمزور ہوں پیری کے سبب سے
شبیر میرا پیر زبردست ہے سب سے
ہمت میں نہ تم لاکھ جواں اور نہ میں اک پیر
قامت ہے کماں پر میں صف جنگ میں ہوں تیر
تم لوگ ہو بے پیر مرید زر وجاگیر
میں قائل حق متعقد حضرت شبیر
ہر پیر وجواں صاحب توقیر ہے ان کا
نو پشت کا خادم فلک پیر ہے ان کا
وہ پیر ہوںتیغ وسناں جس کا عصا ہے
ہے خضر بھی تو پیر ہی پر مرتبہ کیا ہے
شبیر پہ یہ پیر غلام آج فدا ہے
پیروں سے تمہیں شرم نہیں حق کو حیا ہے
پیری ہے وہ دولت کہ کفن زیب بدن ہو
ہر موئے سفید اپنے لئے تار کفن ہو
قد خم ہے تو ہوعقل تو کج میری نہیں ہے
جھکنے سے ہی روشن بخدا نام نگیں ہے
پنہاں جو زمیں میں بنی عرش نشیں ہے
اس وجہ سے مائل مرا سر سوئے زمیں ہے
قرآن واحادیث رقم کچھ بھی نہ ہووئے
خم ہو جو نہ کاغذ پہ قلم کچھ بھی نہ ہووئے
جھکنا شرفا کا ہے تقاضائے شرافت
جھکنے ہی سے افلاک کو حاصل ہوئی رفعت
خم ہونے سے محراب بنی جائے عبادت
شاہد ہے رکوع اس سے کہ جھکنا ہے عبادت
ڈرتے نہیں تم قد خمیدہ سے عجب ہے
جو تیغ کہ خمدار ہے کاٹ اس کی غضب ہے

جناب حبیب ابن مظاہر کا یہ ارشاد سن کر اشقیا جمع ہوئے۔ اس بوڑھے مجاہد نے پھر اس پر حملہ کیا۔ اور اشقیا کے سو سوار قتل کیے۔اسی اثناء میں ایک تیر لشکر بے پیر سے آکر اس ضعیف کے جسم مجروح پہ لگا۔جس کے صدمے سے آپ گھوڑے سے زمین پر گر پڑے۔ادھر امام حسین علیہ سلام کو حبیب ابن مظاہر نظر نہ آئے تو نہایت اضطراب میں حضرت عباس سے فرمایا۔بھیا تم ذرا بڑھ کر دیکھو میرا حبیب کہاں ہے۔ بیت
دیکھو ادھر آتا ہے کہ لڑتا ہے وہ غازی
یا ایڑیاں مقتل میں رگڑتا ہے وہ غازی
کہ اسی عرصہ میں

ڈیوڑھی سے پیمبر کی نواسی نے پکارا
میں غش میں تھی جو آئی یہ آواز قضا را
اعدا نے مرے لال کے غم خوار کو مارا
اے بھائی رفیق آپ کا دنیا سے سدھارا
خون آپ کے بچپن کے مصاحب کا بہا ہے
دم بھرتا تھا جو شہ کا وہ دم توڑرہا ہے
سر پیٹ کے حضرت نے کیا چاک گریبان
سیدانیاں تھیں درپہ کہا ان سے یہ اس آن
کیوں فاطمہ کی بیٹیوں کرتی ہو کچھ احسان
احسان یہی ہے کہ عزا کا کرو سامان
فدیہ میرا بے کس ہے آوارہ وطن ہے
یاں اس کی نہ بیٹی ہے نہ ماں ہے نہ بہن ہے

اہل حرم سے یہ فرما کرجناب امام حسین علیہ سلام بنفس نفیس مع حضرت عباس وحضرت علی اکبر کے روتے ہوئے حبیب ابن مظاہر کے قریب پہنچے۔ اس وقت وہ شہدائے امام کون ومکان عالم احتضار میں خاک پر ایڑیاں رگڑتا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر جناب امام حسین علیہ سلام بے تاب ہو گئے۔ بیت

اشک آنکھوں سے جاری ہوئے اور آہ جگر سے
غم خوار سے یوں لپٹے پدر جیسے پسر سے
نظم
ملتے تھے دہن سے دہن اور کہتے تھے بولو
اے میرے اویس قرنی آنکھوں کو کھولو
دم توڑیو پھر ہم سے بغل گیر تو ہو لو
باہیں میری گردن میں ذرا ڈال کے رو لو
آخر ہمیں بے دم کیا دوری کے الم سے
بچپن میں اسی واسطے کیا کھیلے تھے ہم سے
دنیا سے روانہ ہوا آخر وہ نمازی
بخشا ارم اللہ نے کی بندہ نوازی
رو رو کے بیاں کرتے تھے یہ شاہ حجازی
ہے ہے مرا زاہد میرا عابد مرا غازی
جو خاص ہیں مرے وہ قضا کرتے ہیں ہے ہے
جن سے ہے مزہ جینے کا وہ مرتے ہیں ہے ہے
ہے ہے مرا غم خوار حبیب ابن مظاہر
سید کے طرف دار حبیب ابن مظاہر
بچپن کا مرا یار حبیب ابن مظاہر
بے کس کا مددگار حبیب ابن مظاہر
واللہ یہ اک شیر تھا شیران خدا سے
آفت سے بچاتا تھا ہمیں اہل جفا سے
لکھا ہے کہ فارغ جو ہوئے رونے سے سرور
لاشے کو رکھا لا کے شہیدوں کے برابر
تھا لشکر ظالم میں حصین ایک ستم گر
اس لاشہ بے جاں کا کیا اس نے قلم سر
تا شام رہا منتظر وقت وہ رن میں
یاں تک کہ جدائی ہوئی شاہ کے سرو تن میں

پھر بعد شہادت امام حسین علیہ سلام جب لشکریزید پلید اہل بیت اطہار کو سربرہنہ شتر ہائے بے کجاوہ پر سوار کرکے راہی شام ہوئے۔اس وقت حصین ملعون نے سر مبارک حبیب رحمتہ اللہ علیہ کا اپنےگھوڑے کی گردن میں لٹکایا،اور باقی سروں کو اشقیا نے نیزوں پر چڑھایا۔ اور اسی طرح وارد بازار کوفہ ہوئے۔ جب وہ لشکر مع سر ہائے شہدا کربلا اور اہل بیت بے ردا کے محلہ یمنی میں پہنچاا نظم
اک غول میں کیا دیکھتی ہے زینب نالاں
اک طفل ہے پھاڑے ہوئے ننھا سا گریبان
روتا ہے یتیموں کی طرح با سر عریاں
کچھ ڈھونڈتا پھرتا ہے ہر اک سمت وہ ناداں
جو پوچھتا ہے منہ پہ یہ کیوں خاک ملی ہے
کہتا ہے چھری حلق پہ سید کے چلی ہے
خدمت میں انہی کے میرے بابا ہیں سدھارے
کیا جانے پھرے یا گئے کوثر کے کنارے
اماں کے سوا کوئی نہیں سر پہ ہمارے
زینب نے صدا دی کوئی اس پر مجھے وارے
مظلوم کا بے کس کا مسافر کا پسر ہے
لوگو یہ حبیب ابن مظاہر کا پسر ہے

ناگاہ اس طفل کو ایک سر گردن رہوار میں بندھا ہوا نظر آیا۔ جو کئی مرتبہ گردن اسپ سے گر پڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سر اطہر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔اس معصوم نے رو کر کہا اے سر تیرا رونا مجھ کو بے تاب کرتا ہے۔ برائے خدا سچ بتا۔نظم

بے جا ترا رونا نہ تڑپنا میرے جی کا
تو سر میرے بابا کا ہے یا اور کسی کا

اے سر تجھے کیوں گردن رہوار میں باندھا
کیا نیزے کے قابل بھی نہ سمجھے تجھے اعدا
شبیر کا سر ہو تو بجا لاوں میں مجرا
زینب نے ندا دی کہ تجھے صبر دے مولا
وہ نیزے پہ اسوار سکینہ کا پدر ہے
بن باپ کے بچے یہ تیرے باپ کا سر ہے
نیزے کی سواری جو نہ پائی تو نہ پائی
ممتاز تہہ عرش ہیں حضرت کے فدائی
چلتی تیرے گھر پرسےکو میں غم کی ستائی
پر جاتی ہوں زنداں میں پیمبر کی دہائی
جیتی ہوں گر شام سے یاں آوں گی پیارے
رنڈسالہ تیری ماں کو میں پہناوں گے پیارے
یہ سنتے ہی آنکھوں سے نہ پھر کچھ نظر آیا
اک سنگ اٹھا کر سر ظالم پہ لگایا
اور باپ کا سر کھول کے کرتے میں چھپایا
عابد کو سکینہ نے تڑپ کر یہ سنایا
مجھ کو بھی یونہی قبلہ وکعبہ سے ملادو
اچھے میرے بھیا مجھے سر بابا کا لادو
ہم کوئی نہیں غیر سر شہ کے ہیں مختار
ہر بار چڑھاتے ہیں اسے نیزے پہ خونخوار
ہم دیکھ بھی سکتے نہیں ایسے گنہگار
کیا شاد ہے سر باپ کا لے کر یہ خوش اطوار
یا تو مجھے ظالم سر شاہ شہدا دے
یا میرا بھی سر کاٹ کے نیزے پہ چڑھا دے
ناگاہ سر اس بچے سے لینے لگے بد ذات
زلفوں کو کوئی کھینچتا تھا اور کوئی ہاتھ
مچھلی کی طرح لوٹتا پھرتا تھا وہ ہیہات
اور بہر کمک دیکھتا تھا جانب سادات
کاہے کویہ ایذائیں غربیوں نے سہی تھیں
اونٹوں پہ بندھے ہاتھوں سے سر پیٹ رہی تھی
اس طرف اہل حرم ناچار سر پیٹ رہے تھے۔ اور اس طرف اشقیا ناہنجار نے اس معصوم سے حبیب کا سر لے لیا۔اور وہ روتا پیٹتا رہ گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
صدقہ حبیب اپنے کا یا شاہ کربلا
اب ہند سے وزیر کو روضے پہ لو بلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔




















































































































































تھا۔
کلثوم پکاری کہ میرے جان برادر
اس چہرہ انور کے میں قربان برادر

No comments:

Post a Comment