بارھویں مجلس
حضرت حبیب ابن مظاہر کی شہادت
منظور نظر اس کی مصیبت کا بیاں ہے
جو سن میں مسن اور ارادے میں جواں ہے
شناوران دریائے محبت وبادیہ پیمائے صحرائے مودت اس طرح تحریر کرتے ہیں۔ کہ بروز قیامت خدا وند عالم ہر شخص کی نیکی وبدی دریافت کرکے اپنی قدرت کاملہ سے بقدر اعمال ہر ایک پر احکام جاری کرے گا۔ ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق جزا اور سزا ملے گی۔چنانچہ ایک شخص ایسا ہوگا،جس سے تمام عمر میں بجز گناہوں اور افعال قبیح کے کوئی گل نیک نہیں ہوا ہوگا۔ تب فرشتے اس کو دوزخ کی طرف لے جائیں گے۔اسی اثنا میں منادی منجانب پروردگار ندا کرے گا۔ کہ اے فرشتو ابھی ٹھہر جاو،اس کے لے جانے میں جلدی نہ کرو،کیونکہ ایک امانت اس گنہگار کی میرے پاس ہے،وہ اس کو دے دوں،نظم
یہ ماجرائے حشر کتابوں میں ہے لکھا
یہی کہ اک بندہ تہی دست لے لو
دامن در گناہ سے ہو گا بھرا ہوا
ملے گا تب خدا سے اسے اک در بے بہا
فرمان ہوگا معرکہ بعث ونشر میں
ہاں اس کو جا کے بیچ لے بازار حشر میں
پس بحکم آواز غیبی فرشتے رک جائیں گے کہ ناگاہ ایک در بے بہا جس کے نور وضیا سے تمام عرصہ محشر منور ہوگا۔اور آنکھیں تمام اہل محشر کی خیرگی کرنے لگیں گی،اس کو دیا جائے گا۔ وہ موتی ایسا خوشنما،بے بہا اور عمدہ ہوگا کہ تمام خلائق اس کو دیکھ کر کہنے لگی کہ دنیا میں ایسا موتی نہیں دیکھا۔ جس وقت اس بندہ گنہگار کو یہ موتی دیا جائے گا۔ وہ درگاہ رب العالمین میں عرض کرے گا کہ اے میرے پروردگار کہ دنیا میں مجھ سے بجز گناہوں کے کوئی فعل نیک سرزد نہیں ہوا۔ اب روز حساب وکتاب ہے۔ بندہ تیرے عتاب میں گرفتار ہے۔ اس وقت میں عاصی اس مال غیر کو اپنا نہیں کہہ سکتا۔ میں نے ایسا موتی کہاں پایا۔ مگر ہاں تیری ذات عالم الغیب ہے اور تو ہر اک چیز سے واقف اور دانا ہے۔ خدا کی جانب سے ندا آئے گی۔ کہ اے میرے بندے یہ گوہر خاص تیری خاص ملکیت ہے۔ یاد کر کہ عالم حیات ناپائیدار میں کہ ایک روز تو مجلس عزائے حسین دل بند شاہ بدر وحنین میں گیا تھا۔ اور جب ذاکر نے مصائب بیان کیے تو اس وقت تیری آنکھ سے ایک قطرہ اشک جاری ہو کر تیرے رخسار پر آیا۔اس اشک کو ہم نے پسند کرکے مجلس میں متعین فرشتوں کے ذریعے طلب کیا۔اور روز حشر تک امانت رکھا تھا۔ اس کو تمام انبیا اور اوصیا کے پاس لے جا۔وہ جتنی قیمت تجویز کریں ہم تجھ کو دیں گے۔ یہ فرمان سن کر وہ بندہ منسوب اس در نایاب کو لے کر نظماک اک کے پاس تب وہ گنہگار جائے گا
آدم سے تا بہ حضرت خاتم دکھائے گا
قیمت وہ اس گوہر کی کسی سے نہ پائے گا
تب حق قریب پردہ قدرت بلائے گا
آواز آئے گی کہ دررحم وا کیا
لے اس کے بدلے گلشن جنت عطا کیا
خوش خوش گنہگار چلے گا جناں کو تب
آواز دے گا پردہ قدرت سے پھر یہ رب
اصرار اک ذرا بھی جو کرتا تو ہم سے اب
دیتا تجھے خزانہ قدرت میں سب کا سب
کیا جانے تو جو اس کے لیے زیب وزین ہے
موتی نہیں یہ اشک عزائے حسین ہے
الغرض وہ بندہ خنداں وشاداں مع اپنے والدین کے جناب امام حسین کی ہمراہی میں ہوگا۔ کیوں مومنین جائے تامل ہے۔ کہ جب بعوض ایک اشک کے ایسا گنہگار کہ جس سے تمام عمر میں کوئی عمل نیک بجز گناہوں کے نہ ہوا ہو۔ مع اپنے والدین کے بخش دیا جائے گا۔ تو ان لوگوں کا کیا مرتبہ ہوگا جو ایام طفولیت سے نام حسین پہ دل وجان سےقربان رہے۔ اور روز عاشور اپنی جان عزیز فرزند رسول پر نثار کر دے۔ مومنین سمجھے وہ کون شخص تھا سنیئے، نظم
اس خضر بیابانا شہادت کا بیاں ہے
سر سبز فصیحوں میں جو طوطی زباں ہے
اس یوسف شبیر کا رخ سوئے جناں ہے
پس حور ہر اک مثل زلیخا نگراں ہے
مشتاق لقا حضرت محبوب خدا ہیں
کونین حبیب ابن مظاہر پہ فدا ہے
بچپن میں جوگھر سے شاہ دیں کھیلنے آتے
یہ مٹھیوں میں خاک قدم جھک کے اٹھاتے
کچھ آنکھوں میں انگلی کی سلائی سے لگاتے
کچھ خاک کو گلگونہ رخسار بناتے
خاک قدم شاہ پہ قانع وہ جری تھا
صندل تھا یہی سرمہ یہی عطر یہی تھا
الغرض حضرت حبیب ابن مظاہر بچپن سے تا معرکہ کربلا ہمیشہ امام حسین کی خدمت گزاری میں مصروف رہے۔ اور بروز عاشورا جس وقت لشکر کی صفیں آراستہ ہوئیں۔اور دونوں لشکر آپس میں مصروف جدال ہو گئے ۔اور اصحاب امام مظلوم کے ہاتھوں سے اعدائے بد شعار واصل جہنم ہونے لگے۔اس وقت عمر سعد بد نہاد اور شمر ملعون نے نہایت پریشان ہو کر مشورہ کیا کہ ایک دم سے حسین علیہ سلام کے قلیل لشکر پر حملہ کرنا چاہیئے۔ورنہ کسی طرح ان بہادروں پر فتح یاب نہ ہوں گے۔ چنانچہ ان ملعونوں نے ایسا ہی کیا۔ اور تمام اصحاب حسین مظلوم مجروح ہو گئے۔ یہاں تک کہ نماز ظہر کا وقت آگیا۔ اس وقت اصحاب باوفا نے عرض کی کہ اے مولا آج ہم سب شربت شہادت سے سیراب ہوں گے۔تمنا ہے کہ آخری نماز حضرت کے ساتھ ادا کریں۔ تو عین سعادت ہے۔ اس وقت امام مظلوم نے عمر سعد کو پیغام بھیجا کہ اے ابن سعد اگر چہ حرص دینوی شیطان تجھ پر ایسا مسلط ہوا ہے کہ طریقہ اسلام تیرے دل سے بالکل محو ہو گیا ہے۔ مگر یہ وقت نماز ظہر کا ہے ۔جنگ کو موقوف کر،تاکہ ہم نماز ادا کرلیں۔ عمر سعد خاموش رہا،لیکن حصین ابن نمیر ناپاک نے بڑھ کر آواز دی معاذ اللہ منھا کس زبان سے عرض کروں اس ملعون نے کہا کہ اے حسین تم عبث مہلت نماز طلب کرتے ہو،تمہاری نماز ہر گز پیش خدا قبول نہ ہوگی۔اس ناہنجار کا یہ کلام سن کر حضرت حبیب ابن مظاہر کو غصہ آگیا اور فرمایا کہ اے حصین دور ہو خدا تجھ پر لعنت کرے۔ فرزند رسول الثقلین کی نماز تو قبول نہ ہو،اور تجھ ایسے فاسق وفاجراور شراب خور کی نماز قبول ہو گی۔اور امام مظلوم سے عرض کی کہ مولا اجازت دیجیئے کہ اس ملعون کو اس کی زبان درازی کی سزا دوں۔ اب یہ نماز آپ کے جد نامدار کے ساتھ ادا کروں گا۔ جب امام حسین نے دیکھا کہ حبیب ابن مظاہر رحمہ اللہ عازم جنگ ہیں۔اس وقت نظم
شبیر نے حبیب ابن مظاہر سے یوں کہا
لڑنے کو تو نہ جا کہ بڑھاپا ہے اب ترا
رو کر کہا حبیب نے کہ اے جان مرتضیٰ
بندہ ہزار جان سے ہو آپ پہ فدا
ہر چند پیر خستہ دل و ناتواں شدم
ہر گہہ خیال روئے تو کردم جواں شدم
ہر چند امام حسین علیہ سلام نے ان کی ضعیفی کا خیال کرکے روکنا چاہا،مگر وہ جان نثار شوق شہادت میں یہی عرض کرتا تھا۔ بیت
پیری میں گل زخم سے ہے حسن بدن کا
ہنگام سحر لطف ہے گلگشت چمن کا
آخر کار آنحضرت نے حبیب ابن مظاہر کو ناچار ہو کر اجازت کار زار دے دی۔اور وہ دیندار مثل شیر غضبناک لشکر کفار کی جانب چلا۔ نظم
ہاں مومنو اب غلغلہ صلی علے ہو
ہاں دوستو آواز تحسین ثنا ہو
شبیر کے فدیہ کے تجمل پہ فدا ہو
اس چہرہ روشن سے طلب گار ضیا ہو
تیار ہیں اعدا کے زد وکشت کے اوپر
توفیق جلو میں ہے خدا پشت کے اوپر
کیا چرخ چہارم ہے یہ پیشانی زیبا
سجدے کا نشاں صورت خورشید ہے پیدا
ابرو پہ سر چشم یہ مردم کا ہے دعوے
لو گرم مہہ نو نے کیا پہلوئے عیسیٰ
اک جلوہ جو بخشیں نظر مہر اثر کا
کھودیں یرقاں مہر کا اور جرم قمر کا
الغرض جب لشکر کفار کے مقابل تشریف لائے، نظم
غازی نے عناں روک کے ہر سمت نظر کی
اور قبل رجز خشک زباں شکر سے تر کی
فرمایا جدائی ہو مبارک تن وسر کی
ہے دھاک شجاعوں میں مرے جد وپدر کی
ہاں یاد رہے زور شجاعان سلف ہوں
بچپن سے غلام پسر شاہ نجف ہوں
اس کعبہ کا حاجی ہوں گراتے ہو جسے تم
اس آیہ کا حافظ ہوں مٹاتے ہو جسے تم
اس چاند کا ہالہ ہوں چھپاتے ہو جسے تم
اس کلمہ کا شاہد ہوں بھلاتے ہو جسے تم
اس گل کا میں بلبل ہوں جسے خوں میں بھرو گے
اس شمع کا پروانہ ہوں گل جس کو کروگے
یہ سن کر حصین ملعون لشکر کفار سے نکل کر مقابلہ کو تیار ہوا۔ حضرت حبیب ابن مظاہر نے تلوار آبدار کا وار کیا۔ پھر ایسا نیزہ اس کے سینہ پر کینہ پر مارا کہ پشت زین سے زمین پر گر پڑا۔اس کے لشکر والے دوڑ کر اس کی مدد کو آئے اور اس کو اٹھا لے گئے۔ ایک روایت میں ہے کہ وہ ملعون آپ کے مقابلہ کی تاب نہ لا سکا۔اور بھاگ کر لشکر میں چھپ گیا۔ الغرض حبیب ابن مظاہر نے ایسی جنگ کی کہ ایک سو ساٹھ اشقیا کو واصل جہنم کیا۔اور آپ بھی بہت زخمی ہو گئے۔ پھر ایک مرتبہ امام کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوئے۔اسی اثناء میں ایک غلغلہ خیمہ اطہر سے واعطشا کا بلند ہوا۔ دریافت سے معلوم ہوا کہ جناب علی اصغرشدت تشنگی سے بے چین ہیں۔وہ امام مظلوم سے دوبارہ رخصت ہو کر میدان کارزار میں تشریف لائے۔اور فرمایا کہ اے ظالمو اگر چہ تم نے نواسہ رسول حسین مظلوم پر ظلم وستم میں کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ لیکن ننھے ننھے بچوں نے کیا خطا کی ہےکہ ان پر ایسے مظالم جائز سمجھتے ہو۔ان معصوم بچوں کے لئے تھوڑا پانی دے دو، نظم
لو فاطمہ زہرا کو تو مرقد سے نکالا
کچھ سنتے ہو مقتل میں کھڑی کرتی ہیں نالا
اس تیسرے فاقے میں بھی خوش ہیں شہ والا
پر مرتا ہے بانو کا پسر ہنسلیوں والا
سیدانیوں کو پاس سے جھولے کے ہٹا دو
پانی تمہیں جا کر علی اصغر کو پلا دو
اعدا نے کہا خوب سی ذلت یہ اٹھائیں
جائیں وہاں اور پانی بھی اصغر کو پلائیں
مرضی ہو تو سر کاٹ کے ننھا سے لے آئیں
اور سامنے شبیر کے نیزہ پہ چڑھائیں
دیکھو تو سہی وقت اب آتا ہے غضب کا
ہم تیسرے فاقے میں گلا کاٹیں گے سب کا
شبیر نے پیری میں تمہیں مرنے کو بھیجا
اکبر کی جوانی پہ دکھا ان کا کلیجہ
کیا پیر کا سر کاٹنا اے شیخ پلٹ جا
غصہ سے کہا شیر نے کیا بکتے ہو بے جا
بالفرض میں کمزور ہوں پیری کے سبب سے
شبیر میرا پیر زبردست ہے سب سے
ہمت میں نہ تم لاکھ جواں اور نہ میں اک پیر
قامت ہے کماں پر میں صف جنگ میں ہوں تیر
تم لوگ ہو بے پیر مرید زر وجاگیر
میں قائل حق متعقد حضرت شبیر
ہر پیر وجواں صاحب توقیر ہے ان کا
نو پشت کا خادم فلک پیر ہے ان کا
وہ پیر ہوںتیغ وسناں جس کا عصا ہے
ہے خضر بھی تو پیر ہی پر مرتبہ کیا ہے
شبیر پہ یہ پیر غلام آج فدا ہے
پیروں سے تمہیں شرم نہیں حق کو حیا ہے
پیری ہے وہ دولت کہ کفن زیب بدن ہو
ہر موئے سفید اپنے لئے تار کفن ہو
قد خم ہے تو ہوعقل تو کج میری نہیں ہے
جھکنے سے ہی روشن بخدا نام نگیں ہے
پنہاں جو زمیں میں بنی عرش نشیں ہے
اس وجہ سے مائل مرا سر سوئے زمیں ہے
قرآن واحادیث رقم کچھ بھی نہ ہووئے
خم ہو جو نہ کاغذ پہ قلم کچھ بھی نہ ہووئے
جھکنا شرفا کا ہے تقاضائے شرافت
جھکنے ہی سے افلاک کو حاصل ہوئی رفعت
خم ہونے سے محراب بنی جائے عبادت
شاہد ہے رکوع اس سے کہ جھکنا ہے عبادت
ڈرتے نہیں تم قد خمیدہ سے عجب ہے
جو تیغ کہ خمدار ہے کاٹ اس کی غضب ہے
جناب حبیب ابن مظاہر کا یہ ارشاد سن کر اشقیا جمع ہوئے۔ اس بوڑھے مجاہد نے پھر اس پر حملہ کیا۔ اور اشقیا کے سو سوار قتل کیے۔اسی اثناء میں ایک تیر لشکر بے پیر سے آکر اس ضعیف کے جسم مجروح پہ لگا۔جس کے صدمے سے آپ گھوڑے سے زمین پر گر پڑے۔ادھر امام حسین علیہ سلام کو حبیب ابن مظاہر نظر نہ آئے تو نہایت اضطراب میں حضرت عباس سے فرمایا۔بھیا تم ذرا بڑھ کر دیکھو میرا حبیب کہاں ہے۔ بیت
دیکھو ادھر آتا ہے کہ لڑتا ہے وہ غازی
یا ایڑیاں مقتل میں رگڑتا ہے وہ غازی
کہ اسی عرصہ میں
ڈیوڑھی سے پیمبر کی نواسی نے پکارا
میں غش میں تھی جو آئی یہ آواز قضا را
اعدا نے مرے لال کے غم خوار کو مارا
اے بھائی رفیق آپ کا دنیا سے سدھارا
خون آپ کے بچپن کے مصاحب کا بہا ہے
دم بھرتا تھا جو شہ کا وہ دم توڑرہا ہے
سر پیٹ کے حضرت نے کیا چاک گریبان
سیدانیاں تھیں درپہ کہا ان سے یہ اس آن
کیوں فاطمہ کی بیٹیوں کرتی ہو کچھ احسان
احسان یہی ہے کہ عزا کا کرو سامان
فدیہ میرا بے کس ہے آوارہ وطن ہے
یاں اس کی نہ بیٹی ہے نہ ماں ہے نہ بہن ہے
اہل حرم سے یہ فرما کرجناب امام حسین علیہ سلام بنفس نفیس مع حضرت عباس وحضرت علی اکبر کے روتے ہوئے حبیب ابن مظاہر کے قریب پہنچے۔ اس وقت وہ شہدائے امام کون ومکان عالم احتضار میں خاک پر ایڑیاں رگڑتا تھا۔ یہ حالت دیکھ کر جناب امام حسین علیہ سلام بے تاب ہو گئے۔ بیت
اشک آنکھوں سے جاری ہوئے اور آہ جگر سے
غم خوار سے یوں لپٹے پدر جیسے پسر سے
نظم
ملتے تھے دہن سے دہن اور کہتے تھے بولو
اے میرے اویس قرنی آنکھوں کو کھولو
دم توڑیو پھر ہم سے بغل گیر تو ہو لو
باہیں میری گردن میں ذرا ڈال کے رو لو
آخر ہمیں بے دم کیا دوری کے الم سے
بچپن میں اسی واسطے کیا کھیلے تھے ہم سے
دنیا سے روانہ ہوا آخر وہ نمازی
بخشا ارم اللہ نے کی بندہ نوازی
رو رو کے بیاں کرتے تھے یہ شاہ حجازی
ہے ہے مرا زاہد میرا عابد مرا غازی
جو خاص ہیں مرے وہ قضا کرتے ہیں ہے ہے
جن سے ہے مزہ جینے کا وہ مرتے ہیں ہے ہے
ہے ہے مرا غم خوار حبیب ابن مظاہر
سید کے طرف دار حبیب ابن مظاہر
بچپن کا مرا یار حبیب ابن مظاہر
بے کس کا مددگار حبیب ابن مظاہر
واللہ یہ اک شیر تھا شیران خدا سے
آفت سے بچاتا تھا ہمیں اہل جفا سے
لکھا ہے کہ فارغ جو ہوئے رونے سے سرور
لاشے کو رکھا لا کے شہیدوں کے برابر
تھا لشکر ظالم میں حصین ایک ستم گر
اس لاشہ بے جاں کا کیا اس نے قلم سر
تا شام رہا منتظر وقت وہ رن میں
یاں تک کہ جدائی ہوئی شاہ کے سرو تن میں
پھر بعد شہادت امام حسین علیہ سلام جب لشکریزید پلید اہل بیت اطہار کو سربرہنہ شتر ہائے بے کجاوہ پر سوار کرکے راہی شام ہوئے۔اس وقت حصین ملعون نے سر مبارک حبیب رحمتہ اللہ علیہ کا اپنےگھوڑے کی گردن میں لٹکایا،اور باقی سروں کو اشقیا نے نیزوں پر چڑھایا۔ اور اسی طرح وارد بازار کوفہ ہوئے۔ جب وہ لشکر مع سر ہائے شہدا کربلا اور اہل بیت بے ردا کے محلہ یمنی میں پہنچاا نظم
اک غول میں کیا دیکھتی ہے زینب نالاں
اک طفل ہے پھاڑے ہوئے ننھا سا گریبان
روتا ہے یتیموں کی طرح با سر عریاں
کچھ ڈھونڈتا پھرتا ہے ہر اک سمت وہ ناداں
جو پوچھتا ہے منہ پہ یہ کیوں خاک ملی ہے
کہتا ہے چھری حلق پہ سید کے چلی ہے
خدمت میں انہی کے میرے بابا ہیں سدھارے
کیا جانے پھرے یا گئے کوثر کے کنارے
اماں کے سوا کوئی نہیں سر پہ ہمارے
زینب نے صدا دی کوئی اس پر مجھے وارے
مظلوم کا بے کس کا مسافر کا پسر ہے
لوگو یہ حبیب ابن مظاہر کا پسر ہے
ناگاہ اس طفل کو ایک سر گردن رہوار میں بندھا ہوا نظر آیا۔ جو کئی مرتبہ گردن اسپ سے گر پڑا تھا۔ اس نے دیکھا کہ سر اطہر کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔اس معصوم نے رو کر کہا اے سر تیرا رونا مجھ کو بے تاب کرتا ہے۔ برائے خدا سچ بتا۔نظم
بے جا ترا رونا نہ تڑپنا میرے جی کا
تو سر میرے بابا کا ہے یا اور کسی کا
اے سر تجھے کیوں گردن رہوار میں باندھا
کیا نیزے کے قابل بھی نہ سمجھے تجھے اعدا
شبیر کا سر ہو تو بجا لاوں میں مجرا
زینب نے ندا دی کہ تجھے صبر دے مولا
وہ نیزے پہ اسوار سکینہ کا پدر ہے
بن باپ کے بچے یہ تیرے باپ کا سر ہے
نیزے کی سواری جو نہ پائی تو نہ پائی
ممتاز تہہ عرش ہیں حضرت کے فدائی
چلتی تیرے گھر پرسےکو میں غم کی ستائی
پر جاتی ہوں زنداں میں پیمبر کی دہائی
جیتی ہوں گر شام سے یاں آوں گی پیارے
رنڈسالہ تیری ماں کو میں پہناوں گے پیارے
یہ سنتے ہی آنکھوں سے نہ پھر کچھ نظر آیا
اک سنگ اٹھا کر سر ظالم پہ لگایا
اور باپ کا سر کھول کے کرتے میں چھپایا
عابد کو سکینہ نے تڑپ کر یہ سنایا
مجھ کو بھی یونہی قبلہ وکعبہ سے ملادو
اچھے میرے بھیا مجھے سر بابا کا لادو
ہم کوئی نہیں غیر سر شہ کے ہیں مختار
ہر بار چڑھاتے ہیں اسے نیزے پہ خونخوار
ہم دیکھ بھی سکتے نہیں ایسے گنہگار
کیا شاد ہے سر باپ کا لے کر یہ خوش اطوار
یا تو مجھے ظالم سر شاہ شہدا دے
یا میرا بھی سر کاٹ کے نیزے پہ چڑھا دے
ناگاہ سر اس بچے سے لینے لگے بد ذات
زلفوں کو کوئی کھینچتا تھا اور کوئی ہاتھ
مچھلی کی طرح لوٹتا پھرتا تھا وہ ہیہات
اور بہر کمک دیکھتا تھا جانب سادات
کاہے کویہ ایذائیں غربیوں نے سہی تھیں
اونٹوں پہ بندھے ہاتھوں سے سر پیٹ رہی تھی
اس طرف اہل حرم ناچار سر پیٹ رہے تھے۔ اور اس طرف اشقیا ناہنجار نے اس معصوم سے حبیب کا سر لے لیا۔اور وہ روتا پیٹتا رہ گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
صدقہ حبیب اپنے کا یا شاہ کربلا
اب ہند سے وزیر کو روضے پہ لو بلا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھا۔
کلثوم پکاری کہ میرے جان برادر
اس چہرہ انور کے میں قربان برادر
Thursday, September 23, 2010
Thursday, September 2, 2010
گیارہویں مجلس حضرت حر ان کے بھائی اور غلام کی شہادت
گیارہویں مجلس حضرت حر ان کے بھائی اور غلام کی شہادت
کوئی مظلوم پہ اب رحم نہیں کھاتا ہے
رن سے امداد کو شبیر کی حر آتا ہے
سبحان اللہ کیا بندہ پروری ہے خدا وند عالم کی کہ ہم ایسے گنہگاروں کی نجات کے لئے کیسے کیسے وسیلے مقرر کیے ہیں۔اگر بندہ ذرا بھی اس کی جانب رجوع ہوتا ہے۔ تو وہ معبود حقیقی جس کا نام ستار العیوب ہے۔ اس کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جس وقت حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلواة والسلام بوجہ ترک اولی یعنی درخت ممنوعہ سے کھانے کی وجہ سےبہشت عنبر سرشت سے روئے زمین پر بھیجے گئے۔ اور فراق حضرت حوا میں مبتلا ہو کر مدتوں رویا کیے۔ آخر جب بواسطہ رسول مقبول وآئمہ اطہار دعا کرنا شروع کی۔ تو حضرت حوا علیہ سلام سے ملاقات ہوئی۔ اور آپ کے اولاد ہونا شروع ہوئی۔ اور آپ کو معلوم ہوا کہ اب رب کریم کی عنایات عمیم ہے۔ اور میری اولاد سے دنیا قائم ہو گی۔ اس وقت آپ نے رونا شروع کیا۔ پس حضرت جبرائیل علیہ سلام نازل ہوئے اور بعد سلام کے دریافت کیا کہ اے آدم یہ محل خوشی کا ہے۔ نہ رونے کا۔ آپ نے جواب دیااے جبرائیل میں اس واسطے روتا ہوں۔کہ جس وقت میرا جسم نور سے منور تھا۔اس وقت ابلیس نے مجھے دھوکا دیا۔اور مجھ سے ترک اولیٰ واقع ہوا۔جس کے باعث مورد عتاب الہیٰ ہوا۔ لیکن میری اولاد جن کی پرورش مٹی، پانی، آگ اور ہوا سے ہے۔ یہ تو بدرجہ غایت اس ملعون کے بہکانے سے گناہوں کی مرتکب ہو ں گی۔ اور ان کی عمریں بھی تھوڑی تھوڑی سی ہوں گی۔ سور اس قلیل عمر میں ان کو کامل تجربہ بھی نہ ہو سکے گا۔ اور اس دار فنا سے گناہوں کا بار لیے ہوئے جائیں گے۔کیونکہ ابلیس قیامت تک میری اولاد پر مسلط رہے گا۔ یہ ہے وہ غم جو خوشی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یہ سن کر حضرت جبرائیل نے بحکم رب جلیل کہا کہ اے آدم خدا وند عالمیان فرماتا ہے کہ تیری اولاد سے کوئی گنہگار توبہ کرے گا تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے۔ یہ سن کر حضرت آدم خوش ہو گئے،اور فرمایا کہ اب مجھے اطمینان ہوا۔ لہذا مومنین ہمیں لازم ہے کہ ہر وقت درگاہ خدا میں استغفار کرتے رہیں۔ امید ہے کیسا ہی گنہگار ہو۔ وہ مالک دوجہان اپنے رحم وکرم سے بخش دے گا۔ چنانچہ ایک ایسے گنہگار کے حالات عرض کرتا ہوں۔جس کی بخشش کی امید نہ تھی۔ اور توبہ کرنے اور گناہ اور اعتراف قصور کے سبب جہنم کی طرف جاتا ہوا بہشت بریں کی طرف بھیج دیا گیا۔ وہ گنہگار کون تھا۔ مومنین پر ظاہر ہے۔ جس وقت ابو عبد اللہ الحسین مدینہ منورہ سے سمت کربلا روانہ ہو کر منزل زبالہ میں پہنچے۔اور خبر شہادت حضرت مسلم معلوم ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ اہل کوفہ پر دغا ہیں۔ اور اپنے ہمراہیوں سے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ میرے شیعہ ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ وہ منحرف ہو گئے ہیں۔ اب تم لوگ جہاں چاہو چلے جاو۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ بہت سے ہمراہی اس مظلوم کے جو بغرض حصول دنیا آئے تھے۔ چلے گئے۔ صرف چند اصحاب باوفا جن کا نام محضر شہادت میں درج تھا۔ آپ کے ہمراہ رہ گئے۔ادھر ابن زیاد لعین بد نہاد کو معلوم ہوا کہ امام حسین عازم کوفہ ہیں۔تو اس نے ہزار سوار حر کے ہمراہ روانہ کرکے تاکید کی کہ حسین کو گھیر کر ایسے جنگل میں لے جا کہ جہاں پر سایہ درخت کا نہ ملے۔ اور مجھے خبر دے۔ چنانچہ بموجب حکم ابن زیاد بد نہاد حر مع سواروں کے روانہ ہوئے۔ نظم
اس دن
مسافروں کی جو منزل کا تھا مقام
قصر بنی مقاتل اسے کہتے ہیں عوام
اترے وہاں امام دو عالم قریب شام
کچھ ہٹ کے فوج حر بھی فروکش ہوئی تمام
راحت نہ پائی فاطمہ کے نور عین نے
پچھلے پہر کو کوچ کیا پھر حسین نے
کیوں حضرات حر کا گناہ اس سے زیادہ اور کیا ہوگا ،کہ مظلوم کربلا کو گھیر کر لے جانے کا باعث ہوئے۔مگر انجام توبہ کرکے جناب امام حسین علیہ سلام کی مدد کرنے کے سبب سے جو کچھ ہوا،مومنین پر ظاہر ہے۔ نظم
تائب ہوا حر تو باغ رضواں پایا
گمراہ تھا شب کو صبح کو ایماں پایا
حضرت کے لئے جو گنج وزر کو چھوڑا
جب قتل ہوا گنج شہداں پایا
الغرض جب قصر بنی مقاتل سے امام علیہ سلام نے کوچ فرمایا،اس وقت نظم
آنے لگی امام کو ہاتف کی یہ صدا
منزل بھی اب قریب ہے اے کل کے مقتدا
رستہ ہوا تمام سفر ختم ہو چکا
مقتل کے متصل تجھے لائی تیری قضا
خنجر سے یاں دہم کو کٹے گا گلو تیرا
آیا وہ دشت جس میں بہے گا لہو تیرا
جناب امام حسین علیہ سلام یہ آواز سنتے جاتے تھے۔ کہ وقت صبح قریب آیا۔ آپ نے گھوڑے سے اتر کر نماز ادا فرمائی۔اور سوار ہو کر آگے روانہ ہوئے۔ جس وقت اس مقام پر پہنچے جسے کربلا کہتے ہیں ۔بیت
رتبہ پہ اپنے فخر کیا ارض پاک نے
گھوڑے کے پاوں تھام لیے واں کی خاک نے
دریافت سے جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ زمین نینوا ہے۔ تو ہمراہیوں سے ارشاد فرمایا ۔ نظم
ہاں سالکان راہ خدا روک لو فرس
آپہنچا ابن فاطمہ مقتل پہ اپنے بس
خیمہ بپا کرو اسی صحرا میں پیش وپس
تھی مجھ کو بچپنے سے اسی خاک کی ہوس
چھوڑا وطن کو اب نہیں بستی بسائیں گے
ہر جا سے لوگ یاں کی زیارت کو آئیں گے
امام کا یہ ارشاد سنتے ہی ہر ایک سوار نے گھوڑوں کو روک لیا۔ اس دشت پر آشوب کی وحشت دیکھ کر حضرت زینب بے تاب ہو گئیں۔اور فرمانے لگیں کہ اے بھائی یہ جنگل مجھے خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ کانوں میں گریہ وبکا کی آوازیں آرہی ہیں۔ بہتر ہے کہ یہاں سے کوس دو کوس دور مقام فرمائیں۔ نظم
بولے قریب آکے یہ شبیر خوش خصال
بڑھنا اب اس زمین سے بہن ہے بہت محال
ہر چند یہ زمیں ہے مقام غم وملال
لیکن یہیں رہے گا رسول خدا کا لال
روو نہ تم کہ پاک ومطہر زمین ہے
ہم جس کو ڈھونڈتے تھے وہی سرزمین ہے
الغرض بحکم امام دارین خیمے برپا ہوئے۔ اور اصحاب وانصار جا بجا فروکش ہوئے۔ یہ ماجرا اکثر مورخین نے دوسری تاریخ کا لکھا ہے۔ اور تیسری تاریخ سے فوج یزید پلید کا آنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ تاریخ ہفتم سے فوج یزید لعین نے دریائے فرات پر پہرے بٹھا دیئے۔ اور امام کے خیموں میں پانی کا جانا بند کر دیا۔ آٹھویں تاریخ بھی اسی عالم تشنگی میں گزر گئی۔ راوی لکھتا ہے ۔نظم
روز نہم سکینہ کو تھا سخت اضطراب
بےدم تڑپ کے خاک پہ کہتی تھی آب آب
اصغر کو فرط غش سے ہمکنے کی تھی نہ تاب
پانی تھا غم سے خون جگر بند بوتراب
کچھ منہ سے غیر شکر خدا کہہ نہ سکتے تھے
پیاسے صغیر آنکھوں کے آگے سسکتے تھے
آخر ہوا وہ دن بھی اور آئی دہم کی رات
وہ رات صبح حشر کو جس نے کیا تھا مات
بزم عزا تھا خانہ سردار کائنات
تھے آپ محو طاعت معبود پاک ذات
اشکوں سے چادروں کو بھگوتے تھے اہل بیت
منہ اپنا ڈھانپ ڈھانپ کے روتے تھے اہل بیت
جناب زینب صحن خیمہ میں سر برہنہ دعا فرماتی تھیں،اور کہتی تھیں کہ الٰہی صبح ہونے سے پہلے مجھے اٹھا لے۔ بیت
سارا جہاں سیاہ ہے چشم پر آب میں
سر ننگے میں نے دیکھا ہے اماں کو خواب میں
اللہ اللہ کیا مرتبہ حضرت حر کا ہوا ہے۔ کہ ادھر تو حضرت زینب نے یہ خواب ملاحظہ فرمایا۔اور ادھر حضرت حر نے دیکھا کہ میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک صحرائے ناپید کنار میں گیا ہوں۔ جس وقت وہاں پہنچا تو ایک نعل میرے گھوڑے کا گر گیا۔ میں وہاں پر بہت ہراساں ہوا۔ اس وقت ایک شخص پارسا نے ایک سمت جانے کو اشارہ کیا۔ جب میں اس سمت گیا تو مشاہدہ کیا کہ ایک خیمہ سیاہ استادہ ہے۔ اور ایک عورت با لباس سیاہ میرے پاس آئی اور کہا کہ اے حر خوشا نصیب تیرے کہ تجھ کو جناب فاطمہ زہرا نے یاد فرمایا ہے۔ میں فورا اس کے ساتھ در خیمہ پر پہنچا اور وہ بی بی اندر گئی۔
نظم
بعد اک لحظہ کے وہ صاحب عظمت نکلی
ہاتھ میں اپنے لیے ایک کتابت نکلی
بولی زہرا نے کیا ہے یہ عنایت تجھ کو
پڑھ لے کھل جائے گی سب اس کی حقیقت تجھ کو
اس میں لکھا تھا کہ ہم نے دیا جنت تجھ کو
حر ہے دکھلائیں گے نہ دوزخ کی صورت تجھ کو
پڑھ رہا تھا میں ابھی فخر ومباہات سے خط
لے گیا طائر سبز آکےمرے ہاتھ سے خط
یہ خواب حر نے غوث سے بیان کیا اور کہا
نظم
جب سے اےغوث عجب طرح کی تشویش میں ہوں
کون سا دیکھا مکاں کس سے میں یہ خواب کہوں
میرا انجام ہے کیا،کیا میں کروں کیا نہ کروں
جاوں شبیر کے لشکر میں کہ اس سمت رہوں
یاں کا انجام تو دوزخ ہے ملا زر تو کیا
واں کا انجام ہے فردوس کٹا سر تو کیا
کبھی زوجہ کبھی بیٹے کا خیال آتا ہے
بھائی کا اور غلاموں کا ملال آتا ہے
واں چلا جاوں تو گھر پر بھی زوال آتا ہے
اپنا جب دھیان میں انجام ومآل آتا ہے
قلب واعضائے بدن خوف سے تھراتے ہیں
خود بخود پاوں کچھ اس سمت اٹھے جاتے ہیں
وہ اسی شش وپنج میں کروٹیں بدلتا تھا۔ اور اپنے دل میں سوچ سوچ کر رہ جاتا تھا۔ عجب حیص وبیص کے عالم میں پڑا ہوا تھا۔ نظم
متغیر،متردد،متفکر،بے چین
یہ دعا تھی کہ بچے فاطمہ کا نور العین
تھر تھرا جاتا تھا کرتی تھیں جو سیدانیاں بین
طپش دل کا تقا ضا تھا کہ چل سوئے حسین
صبح اعدا میں نہ شاہ شہدا گھر جائیں
شب کو مل جائے جو خورشید تو دن پھر جائیں
کبھی اٹھا کبھی بیٹھا کبھی ٹہلا وہ جری
گرم آہیں کبھی کیں کبھی کیں سرد کبھی آہ بھری
قلب میں تھی کبھی سوزش کبھی سوز جگری
سخن یاس کبھی لب پہ کبھی نوحہ گری
آل احمد کی بکا سن کے تڑپ جاتا تھا
دم بدم خیمہ سے گھبرا کے نکل جاتا تھا
اس طرف خیمہ میں حر کا یہ حال تھا۔ادھر فوج اعدا کا ہر سپاہی اس کوشش میں تھا کہ کوئی پیاسا لشکر حسین کا دریا پر نہ آنے پائے۔ حضرت حر ان بدشعاروں کے اس انہماک کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہتے تھے کہ کاش حسین کو میں گھیر کر نہ لاتا۔ اسی اثناء میں برادر حر نے بھائی کا یہ حال دیکھ کر عرض کی کہ اے برادر بزرگوار صبح میدان کار زار گرم ہوگا۔ آج آپ نے کچھ آرام نہیں کیا۔ اس کا کیا باعث ہے۔ حضرت حر نے فرمایا کہ نیند آنے کا کون سا محل ہے۔ اہلبیت نبی میں بھوک اور پیاس کی شدت کے سبب تلاطم برپا ہے۔ نظم
وائے غربت عجب آفت میں نبی زادہ ہے
دیکھتا ہوں جسے وہ قتل پہ آمادہ ہے
کیا خبر تجھ کو نہیں کون ہے یہ فیض مآب
پیاس میں جس نے مع فوج پلایا مجھے آب
دشمنوں پر بھی کیا لطف وکرم مثل سحاب
لب پہ جاری تھا پئیں سب کے یہ ہے کار ثواب
آپ پیاسا رہے غیروں کے لئے مشکل ہے
واہ کیا لخت دل فاطمہ دریا دل ہے
کیونکر مجھ کو تردد وتشویش نہ ہو۔ جب پانی پانی کا شور سنتا ہوں۔ غم کھاتا ہوں۔ اور باگ پکڑنا یاد کرکے شرماتا ہوں۔اپنی نادانی پر پچھتاتا ہوں۔مجھے یقین نہ تھا کہ بعوض دعوت کے عداوت ہوگی۔ یہ سن کر برادر حر نے یہ تو سمجھا کہ بھائی کی نیت امام مظلوم کی خدمت میں بار یابی کی معلوم ہوتی ہے۔ مگر صاف صاف نہ سمجھا۔اس واسطے نظم
عرض کی بھائی نے پھر آپ کو کیا ہے منظور
حر نے فرمایا کہ مرنا شہ والا کے حضور
حلہ ء خل دبریں ساغرصہبائے طہور
وصلت حور جناں رحمت حق عفو قصور
تجھ پہ کھل جائے گا اب صبح بھی کچھ دور نہیں
آتش قہر میں جلنا مجھے منظور نہیں
سن کے یہ بھائی سے کہا بھائی نے بسم اللہ
ہم بھی ہمراہ ہیں گر آپ کو سوجھی ہے یہ راہ
اٹھ کے بولا یہ پسر اے پدر عالی جاہ
ایسا مرنا تو حیات ابدی ہے واللہ
عمو عباس دلاور پہ فدا ہوئیں گے
ہم جناب علی اکبر پہ فدا ہوئیں گے
جس وقت کہ حضرت حر ان کے بھائی اور بیٹے میں یہ باتیں ہوئیں۔ غلام نے سوچا کہ میں راہ ضلالت میں فرقہ ناہنجار کے ہمراہ کیوں رہ جاوں ،پھر نظم
جوڑ کر ہاتھ کیا خادم حر نے یہ کلام
صدقہ ہوئے گا غلام شہ والا پہ غلام
سب کا منہ دیکھ کے بولا یہ حر نیک انجام
رہیو اس قول پہ قائم کہ یہ عقبیٰ کا ہے کام
گر وہ چاہے گا تو منزل پہ بہم ہوئیں گے
آج دوزخ میں ہیں کل خلد میں ہم ہوئیں گے
الغرض تمام رات ان چاروں پنجتنی میں یہی مذکور رہا۔ نہ کوئی سویا نہ کھایا پیا۔ ناگہاں اسی ذکر میں آثار صبح نمایاں ہوئے۔ بیت
چرخ پر صبح کی نوبت کی صدا جانے لگی
فوج اسلام سے اذاں کی آواز آنے لگی
نور پھیلا ہوا وہ صبح کا وہ سرد ہوا
بہتے دریا کی وہ لہریں وہ بیاباں وہ فضا
بلبلوں کے چہکنے کی خوش آئند صدا
کہ نسیم آئی دبے پاوں کبھی باد صبا
حکم تھا دونوں کو سبزے کی ہوا داری کا
فرش تھا چاروں طرف مخمل زنگاری کا
باغ زہرا ومحمد کی ادھرتھی خوشبو
گل سے رخ سرد سے قد سنبل تر سے گیسو
آنکھیں نرگس کے کٹورے در شبنم آنسو
سبزہ آغاز کسی کا تو کوئی آئینہ رو
یاں کی خوشبو جو گزر جاتی ہے گلزاروں سے
بلبلیں پھول گرا دیتی ہیں منقاروں سے
گل کہاں اور کہاں نکہت بستان رسول
مختصر بھی جو عرض کروں تو ہو جائے گا طول
دیکھ کر راستی تازہ نہالان بتول
فاختہ سرو سے شمشاد سے قمری ہو ملول
باغ زہرا میں جو دم بھر بھی رسائی ہو جائے
تا قیامت گل وبلبل میں رسائی ہو جائے
وقت وہ ہے کہ شگفتہ ہیں گل راز ونیاز
صبح صادق ہے قضا ہو نہ کہیں وقت نماز
لائے سجادے پہ تشریف شہنشاہ حجاز
عقب شاہ صفیں باندھ کے آئے جانباز
طالب خواب اجل رات کے جاگے ہوں گے
ابھی پیچھے ہیں لڑائی میں سب آگے ہوں گے
الغرض بعد فراغت نماز ہر ایک جرار نے دیکھا کہ پردہ ہائے حجاب نظروں سے اٹھ گئے ہیں۔ اور اپنے اپنے مقام بہشت عنبر سرشت میں ملاحظہ کیے۔اور حوران بہشتی غرفوں سے جھانکتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ اور آب کوثر کی نہریں سامنے لہریں مارتی ہوئیں معائنہ کیں۔ پس روایت ہے نظم
خوش تھے سب دیکھ کے جنت کے درختوں کی بہار
پھول دیکھے تو خوشی سے ہوئے چہرے گلنار
ہاتھ اٹھ جاتے تھے جھکتی تھیں جو شاخیں ہر بار
جان شیریں تھی ٹپکتے ہوئے میووں پہ نثار
شربت قند مکرر کا مزہ پاتے تھے
دور سے دیکھ کے لب بند ہوئے جاتے تھے
مسکرا کر شہ والا نے کہا کیا دیکھا
سب پکارے ثمر الفت مولا دیکھا
جیتے جی گلشن فردوس کا جلوہ دیکھا
اپنے گھر دیکھ لیے سایہ طوبیٰ دیکھا
دیر ہے کس لئے مرنے میں ہمارے مولا
جان ودل لے گئے حوروں کے نظارے مولا
یہ سن کر جناب امام مظلوم مصلے سے اٹھے اور فرمایا کہ تم لوگ تیار ہو جاو۔ میں بھی خیمہ میں جا کر پوشاک تبدیل کر آوں۔ اپنے آقا کے ارشاد کے مطابق اس طرف ہر ایک یاور وناصر اپنے تئیں مسلح کرنے لگا۔ اور جناب امام حسین علیہ سلام خیمہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ جناب زینب علیہ سلام جائے نماز سے اٹھ کر سر برہنہ درگاہ خدا وندی میں باگریہ وزاری دعا کرتی ہیں۔کہ اے رب الارباب میرے بھائی کو سلامت رکھنا۔پنجتن میں اب صرف ایک حسین کا دم ہے۔ جس وقت جناب امام حسین نے جناب زینب کو نہایت مضطر وبےقرار دیکھا نظم
چھاتی سے بس بہن کو لگا کر کہی یہ بات
زینب مجھے خبر ہے کہ روئی ہو ساری رات
حاصل ہے اس سے کیا کہ یہ دنیا ہے بے ثبات
موت آئے گی ضرور اسے جو ہے ذی حیات
ماں کو پدر کو بھائی کو ہاتھوں سے کھو چکیں
تم تو کئی بزرگوں کو اس گھر میں رو چکیں
سر کو پٹک پٹک کر نہ ہر دم ہو نوحہ گر
مر جاوگی تو اور بھی برباد ہو گا گھر
تھامے کون روئیں گے بچے جو بے پدر
بیٹھے کون ماتمی صف پر برہنہ سر
ذی رتبہ ہو بتول کی نازوں کی پالی ہو
تم ہم سے بے کسوں کی بہن رونے والی ہو
آہ حضرات جس وقت یہ کلمات حسرت ویاس کے حضرت زینب نے زبان مبارک جناب امام حسین علیہ سلام سے سماعت فرمائے تو آپ دعا فرما رہی تھیں نظم
زینب سر اپنا پیٹ کے بولی یہ ایک بار
واحسرتا کہ مر نہ گئی میں جگر فگار
میرے ہی تھا نصیب میں ہے ہے یہ کاروبار
ماتم میں سب کی رووں بنوں سب کی سوگ وار
غربت میں جب سفر میرا دنیا سے ہووئے گا
رونا تو اس کا ہے کہ مجھے کون روئے گا
سن کر یہ حال روتے تھے شبیر زار زار
منہ پیٹتی تھی سامنے بانوئے دل فگار
سمجھاتے تھے حسین کہ اے میری غمگسار
رخصت یہ آخری نہیں پیٹو نہ بار بار
لاشیں اٹھا اٹھا کے عزیزوں کی لائیں گے
خیمہ میں ہم ابھی تو کئی بار آئیں گے
فرما کے یہ سکینہ کے چہرے پہ کی نگاہ
بولے کہ آ گلے سے لگ اے میری رشک ماہ
لپٹی جو آکے باپ سے بیٹی بااشک وآہ
منہ رکھ کے منہ پہ رونے لگے شاہ دیں پناہ
فرماتے تھے نہ پیاس میں تو اشک بار ہو
ان سوکھے سوکھے ہونٹوں پہ بابا نثار ہو
بولی زبان خشک دکھا کر وہ تشنہ لب
بابا ہمارا پیاس سے ہونٹوں پہ دم ہے اب
اتنا تو مجھ سے کہیئے کہ پانی ملے کب
فرمایا شہ نے خلد میں ہم جا چکیں گے جب
رکھیو خیال فاطمہ کے نور عین کا
تم پانی پیجیئو فاتحہ دے کر حسین کا
یہ فرما کر بچشم تر بیٹی کو خاک پر بٹھا دیا۔ اور عمامہ رسول خدا سر پر باندھا عبائے حیدر کرار پہن کر اسلحہ جنگ آراستہ کیا۔ اور بھائی، بھتیجے اور بھانجوں کے ہمراہ خیمہ سے باہر تشریف لائے۔
حال یہ دیکھ کر غش کھا کے گری زینب زار
واحسینا کی ہوئی آل محمد میں پکار
پس جناب امام حسین علیہ سلام نے حضرت زینب کو تشفی ودلاسہ دیا اور فرمایا کہ اے بہن تم صابرہ کی بیٹی ہو۔ تم کو صبر کرنا چاہیئے۔ نظم
اشک خوں چشم مبارک سے گرے بہہ بہہ کر
بس چلے آپ خدا حافظ وناصر کہہ کر
دیر سے تھی دردولت پہ سواری موجود
بڑھ کے گھوڑے پہ چڑھے جلد امام ذی جود
غل شہنشاہ سلامت کا ہوا شور ورود
وہ سواری کا تحمل وہ جوانوں کی نمود
تا بہ میداں جفا ظل خدا میں پہنچے
نکہت گل کی طرح دشت وغا میں پہنچے
آگیا جوش وغا شاہ کے غم خواروں کو
سینہ تن تن کے رکھا دوش پہ تلواروں کو
غیظ سے تکنے لگے سرداروں کو
سب نے چاہا کہ بڑھا دیجیئے راہواروں کو
پاس ادب سے ہر صاحب شمشیر رکے
سامنے آگئے عباس تووہ شیر رکے
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے اس قلیل لشکر کو آراستہ کیا۔لشکر خدا کا علمدار حضرت عباس کو مقرر فرمایا۔میمنہ کا سردار پسران حضرت مسلم کو مقرر فرمایا۔اور میسرہ حبیب ابن مظاہر کو عنایت فرمایا۔ اسی دوران پسران حضرت مسلم نے صف راست سے گھوڑے بڑھا کر اجازت جنگ چاہی۔ اور عرض کی کہ اے عم بزرگوار ہمارے پدر نامدار سب سے پہلے آپ پر نثار ہوئے۔غلاموں کی خواہش بھی یہی ہے کہ اس میدان کارزار میں ہم بھی سب سے پہلے اپنی جانیں حضور کے قدموں پر نثار کریں۔ تاکہ امام کے ہراول لشکر مشہور ہوں۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ میں تمہارے باپ کی شہادت سے شرمندہ ہوں۔ اب مجھ کو زیادہ محجوب نہ کرو۔ اے نور دیدگان یہ عہدہ ہراولی باقی نہیں رہا۔ اس عہدے پر میری مادر گرامی فاطمہ زہرا نے اور پدر بزرگوار علی مرتضیٰ نے ایک شخص کو مقرر فرمادیا ہے۔ جو عنقریب داخل لشکر ہونے والا ہے۔ یہ سن کر تمام اصحاب باوفا،عزیز ورفقا متحیر ہوئے۔اس طرف تو یہ حال تھا۔اور اس طرف عمر سعد لعین نے اپنے لشکر کی صفیں جما کر تمام اہل کوفہ کو علیحدہ کیا۔اور ان کی حفاظت کے لئے اشعث بن موصلی کو مقرر کیا۔اور میمنہ لشکر ضلالت اثر کا اپنے بیٹے حفص کو جو اس شریر کا وزیر تھا۔مع تیس ہزار شامیان زرہ پوش کے سپرد کیا۔ اور ضحاک ابن قیس وسعد بن عبداللہ وغیرہ سرداروں کو بتیس ہزار سوار کے ساتھ میسرہ پر مقرر کیا۔ اور باقی ملاعین کو قلب لشکر میں ترتیب سے باقاعدہ کھڑا کرکے اپنے غلام ولید کو ان سب کا نگران مقرر کیا۔اور شمر ذی الجوشن کو نقیب کرکے مستعد کارزار ہوا۔ اس وقت نظم
چاوش صدا دینے لگے فرج میں اکبار
ہاں غازیو شاباش رہو رزم میں تیار
ثابت قدموں گھاٹ سے دریا کے خبردار
دو دن سے ہے پیاسا خلف حیدر کرار
یہ آب محمد کے نواسے کو نہ پہنچے
اس نہر کا پانی کسی پیاسے کو نہ پہنچے
جب اس طرح صفیں لشکر کی آراستہ وپیراستہ ہو چکیں نظم
بولا کمان کشوں سے ابن سعد بے ادب
برساو شہ پہ تیر ستم دیر کیا ہے اب
کج باز لیس ہوگئے خونریزیوں پہ سب
چلایا حر یہ پیٹ کے زانو کو ہے غضب
ظلم اے امیر روح رسالت پناہ پر
کرتا ہے خون سبط نبی کس گناہ پر
تیروں کا رخ جدھر ہے نبی کا ہے یہ پسر
جس کو ہدف بنایا ہے زہرا کا ہے جگر
بجلی گرے نہ تجھ پہ کہیں قہر حق سے ڈر
ہٹ جاوں میں تو پیاسے سے لڑنا ابھی ٹہر
آگے مرے نہ ظلم ہو اس تشنہ کام پر
دیکھوں نہ تیر پڑتے ہوئے میں امام پر
ابھی ابن سعد اور حر نیک نام میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ جناب امام حسین لشکر ظفر پیکر سے ذوالجناح کو مہمیز فرما کر اعدائے بد شعار کی جانب روانہ ہوئے۔اس وقت جمیع اصحاب وانصار مضطربانہ دوڑ کر قدوم میمنت لزوم پر گرے۔ اور عرض کی کہ یا مولا کیا آپ نے اس واسطے ہراول لشکر مقرر فرمایا تھا کہ سب سے پہلے جنگ کا ارادہ آپ فرمائیں۔ ہم لوگ فردائے قیامت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول خدا اور علی مرتضےٰ اور فاطمہ زہرا اور حسن مجتبیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اور کس دن کام آئیں گے۔ بیت
شہ نے فرمایا کہ جاتا نہیں میں کرنے جدال
مجھ کو لازم ہے کہ مہماں کا کروں استقبال
یہ سن کر تمام انصار خاموش ہو گئے۔اور امام مظلوم بمقابلہ صفوف لشکر ناہنجار مع حضرت عباس تشریف لا کر اس طرح زبان فیض ترجمان سے گویا ہوئے۔ کہ اے لشکر یزید تم میں سے وہ کون شخص ہے کہ شب کو عالم رویا میں بہشت عنبر سرشت کی سیر کی۔اور سبزہ ہائے بہشت سے آب نوشی کا وعدہ کیا ہے۔ آنحضرت کا یہ کلام سن کر جناب حر نے اپنے بھائی اور غلام کو دیکھا اور ارشاد کیا کہ دیکھو فرزند رسول رات کا حال گویا چشم دید بیان کر رہے ہیں۔ نظم
سن کے
کانپا تن حر اور پکارا واللہ
جس کو مرنا ہو وہ اس دم مرے آئے ہمراہ
اک غلام ایک پسر ایک برادر ذی جاہ
چاروں نے باگیں اٹھائیں طرف لشکر شاہ
غل ہوا حر طرف لشکر دیں جاتا ہے
بولا ہاتف کہ سوئے خلد بریں جاتا ہے
جس وقت حضرت حر لشکر ناری سے نکل کر دریائے نور کی طرف روانہ ہوئے۔ نظمحر
کا لشکر سے نکلنا تھا کہ چلنے لگے تیر
اک تلاطم ہوا اس طرح بڑھی فوج کثیر
نہ رکے پر کہیں شیدائے جناب شبیر
گر پڑا وہ جسے چمکا کے دکھائی شمشیر
ہاتھ آئے نہ شریروں کے سوئے خیر گئے
دم میں فولاد کے دریا کو جری پیر گئے
جس وقت کہ امام مظلوم نے حر کو مع اس کے بھائی ،بیٹے اور غلام کے آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا، حضرت عباس سے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی جلد آگے بڑھو ایسا نہ ہو کہ میرا مہمان راستے میں مجروح ہو۔ نظم
سن کے فرمان گل گلشن شہ لولاک
یاں سے عباس چلے واں ہوا پیدل حر پاک
ڈاب میں تیغ دو دم رکھ کےگریبان کیا چاک
ننگے سر ہوگیا اور منہ پہ ملی دشت کی خاک
باندھ کر ہاتھ کہا قابل آزادی ہوں
رحم فرمایئے مولا کہ میں فریادی ہوں
ہاتھ پھیلا کے بڑھے جلد جناب عباس
ہنس کے فرمایا کہ آ ہم سے مل اے قدر شناس
تھرتھراتا ہے یہ کیوں اب تجھے کیا ہے وسواس
وہ جواں جوڑے ہوئے دست ادب آیا پاس
سرنگوں پائے مبارک پہ جو پایا اس کو
بازوئے شاہ نے چھاتی سے لگایا اس کو
پھر یہ فرمایا بصد لطف کہ اے مرد سعید
تیرے آنے کی عجب سبط پیمبر کو ہے عید
وہ خوش ہیں تو بے شبہ خوش رب مجید
تجھ سے منہ موڑے رہیں رحمت مولا سے بعید
چل قدم بوس ہو الحاح کر اور زاری کر
قافلہ چلنے پہ ہے کوچ کی تیاری کر
عرض کی حر نے کہ ہاں آپ اگر چاہیں گے
اوج بلبل کا نہ کیوں کر گل تر ہوجائیں گے
وہی ہوگا جو شہ جن وبشر چاہیں گے
وہی لے جائیں گے محشر میں جدھر چاہیئں گے
اب تو میں بندہ بے دام مدام ان کا ہوں
خلد میں جاوں کہ دوزخ میں غلام ان کا ہوں
یہ تو فرمایئے سن کر میرے آنے کی خبر
سب سے فرماتے تھے کیا بادشاہ جن وبشر
کہا عباس نے تاکید ہے یہ ہر اک پر
کوئی روکے نہ کہ آتا ہے میرا دوست ادھر
تم اسے پاس شہنشاہ امم کے لاو
مجھ کو بھیجا ہے کہ سایہ میں علم کے لاو
یہ خبر فرحت اثر سن کر حر مسکرائے اور اپنے بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ دیکھو پسر حیدر کرار محمد کا نور عین کیسا با شرف ہے ،کہ ہنوز ہم نے خدمت میں پہنچ کر عفو تقصیر نہیں کرائی،اور یہ اعزاز کونین بخشا نظم
میں کہاں اور کہاں ابر کرم کا سایہ
مجھ سے خاطی پہ محمد کے علم کا سایہ
کہہ کے یہ فوج خدا میں حر جرار آیا
جنس آمرزش عصیاں کا طلب گار آیا
دی صدا اے میرے مولا یہ سیہ کار آیا
باگ کو ہاتھ لگانے کا گنہگار آیا
جس کی دست درازی اسے کم کر ڈالے
کہیئے خادم سے میرے ہاتھ قلم کر ڈالے
دے سزا مجھ کو میں حاضر ہوں شہنشاہ میرے
ساتھ ہیں حضرت عباس فلک جاہ میرے
توبہ کرتا ہوں گناہ بخشیئے للہ میرے
اب میں گمراہ نہیں اے خضر راہ میرے
جس نے خدمت میں کمی کی ہے وہی خادم ہوں
چار آنکھیں نہ کروں گا بہت نادم ہوں
مومنین ابتدا میں جو میں نے عرض کیا ہے کہ توبہ کرنے سے گناہان گزشتہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ملاحظہ ہو حر کی گزارش کے ساتھ ہی نظم
بولے حضرت کہ ید اللہ کو پیارے ہیں یہ ہاتھ
جب ہوا قوت بازو تو ہمارے ہیں یہ ہاتھ
اے برادر ید قدرت کے سنوارے ہیں یہ ہاتھ
تونے افسوس سے زانو پہ جو مارے ہیں یہ ہاتھ
اب سردست یہ عقدے تجھے کھل جائیں گے
جام کوثر کے ابھی دست بدست آئیں گے
یہ فرما کر جناب امام حسین علیہ سلام نے آگے بڑھ کر حضرت حر کو چھاتی سے لگایا۔اور حر کے بیٹے کو حضرت علی اکبر نے گلے سے لپٹا لیا۔ اس وقت حر نے قدوم میمنت لزوم پر شاہ کے سر جھکا دیا اور بیٹے نے نعلین حضرت علی اکبر پر بوسہ دیا۔ پھر حضرت امام حسین علیہ سلام نے دعا فرمائی کہ پالنے والے اس کو بخش دے، بیت
قابل نار جہنم گل شاداب نہیں
حر ہے یہ آگ میں جلنے کی اسے تاب نہیں
یہ سن کر حضرت حر خنداں وشاداں دست بستہ عرض کرنے لگے کہ اے آقا میدان کار زار کی اجازت دیجیئے۔ بیت
تازہ خادم ہوں رضا دیجیئے ممتاز ہوں میں
جلد خلعت شہادت سے سرفراز ہوں میں
حضرت حر رخصت کی اجازت لے رہے تھے کہ حضرت زینب نے فضہ کو بھیج کر خیمہ کے قریب بلایا اور فرمایا کہ اے حر رحمت خدا تجھ پر کہ تونے میرے بھائی کی پاس داری کی۔ تو ہمارا مہمان ہے مگر نظم
تجھ پہ مخفی نہیں ہفتم سے جو کچھ ہے میرا حال
راہیں ہر سمت کی روکے ہوئے ہیں بد افعال
قحط پانی کا ہے اس دشت میں ہے مجھ کو ملال
نان جو کا بھی ہے ملنا کسی قریہ میں محال
ہم کو ایذا عوض آب وغذا ملتی ہے
دودھ اصغر کو نہ عابد کو دوا ملتی ہے
پھر کہا اس سے کہ دشوار ہے فرقت تیر ی
مجھ کو مر کر بھی نہ بھولے گی محبت تیری
وا دریغا ہوئی کچھ مجھ سے نہ خدمت تیری
خیر ہو جائے گی فردوس میں دعوت تیری
آج رتبہ تیرا خیل شہدا میں ہو گا
شب کو تو صحبت محبوب خدا میں ہوگا
حر نے گزارش کی کہ اے فضہ میری شاہزادی کی خدمت میں میری جانب سے عرض کرو،کہ میں نے آپ کی جناب سے ایمان پایا۔اعزاز پایا ۔دعوت کیا چیز ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ مجھ کو بہشت عنبر سرشت عطا کر چکی ہیں۔ نظم
یہ نہ فرمایئے ہوتی ہے خجالت مجھ کو
آج دعوت میں ملی نعمت جنت مجھ کو
بعد ازاں عرض کی شبیر سے یا سبط نبی
اذن دیجیئے کہ فدا ہونے کو جائے فدوی
شہ نے فرمایا کہ مہماں ہے مرا ٹھہرا ابھی
اور جائے گا کوئی یاں سے نہ کر تو جلدی
عرض کی اس نے اجازت دو کہ بے کل ہوں میں
دوستی پہلے کروں دشمن اول ہوں میں
الغرض جب حر کا اصرار حد سے زیادہ ہوا،ناچار سید ابرار نے اجازت میدان عطا فرمائی۔ بعد حصول اذن پیکار حر نامدار گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ کے ہمراہ نظم
نیزے تانے ہوئے گھوڑوں پہ ادھر بھائی پسر
اور غلام حبشی مرکب مشکی پہ ادھر
سایہ کی طرح عقب میں تھا کبھی نیک سیر
سامنے تھا کبھی سردار کے مانند سیر
دل میں کہتا تھا کہ ٹکڑے ہوں میں شمشیروں سے
میرا آقا کہیں مجروح نہ ہو تیروں سے
تھم کے بھائی سے کہا حر نے علم کر تلوار
جا سوئے میمنہ فوج اڑا کر رہوار
حکم پیکار کا خادم کو دیا سوئے یسار
کہا بیٹے سے تو قلب میں جا اے دلدار
مضطرب ہوں میں کہ نرغہ ہے میرے سرور پر
میں نے قربان کیا تجھ کو علی اکبر پر
یہ سن کر وہ تینوں جرار برائے پیکار بڑھے۔اور بہت سے اشقیا کو شمشیر آبدار سے فی النار کیا۔ یہ لڑائی دیکھ کر حضرت عباس اور علی اکبر تحسین وآفرین فرماتے تھے۔ اور حضرت حر اپنے غلام سے آفرین کہتے تھے۔ نظممر گئے
فوج سے لڑ بھڑ کے جو وہ نیک سیر
غم سے خوں ہو گیا اس دم حر غازی کا جگر
لاش بیٹے کی جو دیکھی تو کہا رو رو کر
سہل اس راہ میں ہے جو ہو مصیبت مجھ پر
اپنے محسن کا فراموش نہ احساں کرتا
سو پسر ایسے جو ہوتے تو میں قرباں کرتا
جناب امام حسین علیہ سلام نے چند قدم بڑھ کر فرمایا کہ اے میرے مہمان وفاداری کا حق خوب ادا کیا۔ لیکن برائے خدا ضبط نہ کر۔لاش پسر پر رو رو کر بخار دل نکال لے۔ نظم
ہو گا ہر طرح وہ تقدیر میں جو ہونا ہے
ہم کو بھی لاشہ اکبر پہ یونہی رونا ہے
تونے جس طرح سہا اپنے جواں بھائی کا غم
ہم کو بھی ہوگا اسی طرح برادر کا الم
عرض کی حر دلاور نے بادیدہ نم
حق وہ ساعت نہ دکھائے مجھے یا شاہ امم
صدقے ہو جاوں میں اس میں ہے سعادت میری
اب دعا کیجیئے کہ ہو جلد شہادت میری
حر یہ گزارش کرکے لشکر گمراہ سے لڑتے بھڑتے خیمہ عمر سعد میں پہنچے۔یہ حال دیکھ کر عمر سعد خیمے میں چھپ گیا۔ اور تمام فوج تہہ وبالا ہو کر دہائی حسین کی دینے لگی۔ آقا نامدار کا اسم گرامی سنتے ہی: ابیات
مڑ کر یہ شاہ دیں کو پکارا وہ نیک نام
ہوتا ہے اب غلام کو کیا حکم یا امام
برہم ہوئی صفیں سپہ پر غرور کی
دیتے ہیں اب یہ لوگ دہائی حضور کی
امام حسین علیہ سلام نے بڑھ کر آواز دی کہ مرحبا اے حر اب ہاتھ روک لے۔ بھاگے ہووں کا مارنا شیر کا کام نہیں،یہ دنیا جائے آرام نہیں۔ شیر خدا تیری راہ دیکھتے ہیں۔ تشنگی سے تیرے حواس معطل ہیں۔ اب جام شہادت نوش کر،شیر خدا سے جا کر کوثر کا جام لے۔ حضرت حر ابھی آقا نامدار کا یہ ارشاد سن رہے تھے کہ آہ واویلا نظم
دل پہ نیزہ کسی خون خوار نے بڑھ کر مارا
ایک نے سر پہ تبر ایک نے خنجر مارا
نیزہ اک حلق پہ مارا کہ رکا سینہ میں دم
بند آنکھیں ہوئیں منہ کھل گیا گردن ہوئی خم
رکھ دیا ہرنے پہ سر نکلے رکابوں سے قدم
خاک پہ گر کے پکارا وہ کہ یا شاہ امم
آیئے جلد کہ سر تن سے جدا ہوتا ہے
آپ کا بندہ آزاد فدا ہوتا ہے
گوش فرزند نبی میں جو یہ آواز آئی
رو کے عباس کو چلائے کہ دوڑو بھائی
جاں بلب ہے پسر فاطمہ کا شیدائی
کہہ دو اکبر سے کہ مہماں نے شہادت پائی
حق ادا کر گیا غازی میری غم خواری کا
اب چلو وقت ہے حر کی مدد گاری کا
یہ سن کر حضرت امام حسین علیہ سلام حضرت حر کی طرف پا پیادہ دوڑے۔ اور حضرت عباس بھی اس شہید کے پاس پہنچے،بیتخوں
بھری آنکھوں میں دم حر کا اٹکتے دیکھا
پہنچے شبیر تو مہماں کو سسکتے دیکھا
دیکھ یہ زانوئے اقدس پہ رکھا سر اس کا
اپنے رومال سے پونچھا رخ انور اس کا
واہ رے مرتبہ اللہ رے مقدر اس کا
عرش اعلےٰ سے بھی پایہ ہوا برتر اس کا
دار فانی سے گزرنا ہو تو ایسے ہووئے
بعد جینے کے جو مرنا ہو تو ایسے ہووئے
عالم غش میں جو آنکھ اس نے نہ کھولی تا دیر
رکھ کے منہ ماتھے پہ چلائے یہ عباس دلیر
آ ذرا ہوش میں اے صاحب شمشیر اے شیر
رہبر دیں پہ نظر کر ابھی آنکھوں کو نہ پھیر
منزلیں طے یہ اسی آن ہوئی جاتی ہیں
سب تیری مشکلیں آسان ہوئی جاتی ہیں
مرحبا اے حر تیرے سرہانے سردار جناں کھڑے ہیں۔ اب نار جہنم کا کیا ڈر؟
اسی اثنا ء میں چہرے مبارک سے پسینے کے قطرے رخ حر پر ٹپکے۔ فورا آنکھیں کھول دیں۔ اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے مہمان نیم جان کیا حال ہے۔ اس نے عرض کی ،نظم
کیا شرف پائے ہیں اے بادشاہ جن وبشر
آپ زانوئے مبارک پہ لیے ہیں میرا سر
یہ محمد یہ علی ہیں یہ جناب شبر
مجھ سے اک حر یہ فرماتی ہے بادیدہ تر
ناقہ نور وہ آیا وہ عماری آئی
بند کر آنکھوں کو کہ زہرا کی سواری آئی
کیوں عزادارو ہوا جس بی بی کا یہ عزو وقار
بیٹیاں اس کی کھلے سر ہوں میان بازار
تخت پر فخر سے بیٹھا ہو یزید غدار
بے ردا سامنے ہو آل رسول مختار
تپ میں محبوس بلا عابد دل خستہ ہو
دختر فاطمہ بلوئے میں رسن بستہ ہو
الغرض حضرت حر کو غش آگیا،اور تھرتھرا کر آنکھ کھول دی۔ ملک الموت قریب جسم مطہر آئے، حر ہچکیاں لینے لگے۔ جناب امام حسین نے فرمایا کہ اے ملک الموت یہ میرا مہمان ہے۔ اس پر موت کی سختی نہ ہونے پائے۔ مجھ کو صدمہ جانکاہ ہے۔ یہ سن کر حر نے عرض کی کہ مولا اسی طرح بوقت سوال منکر نکیر مدد فرمایئے۔ یہ سن کر جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا نظم
کچھ نکرین کا ڈر تجھ کو نہ کچھ خوف عذاب
ہم بتائیں گے تجھے ان کے سوالوں کے جواب
جتنے عصیاں ہیں تیرے ہوں گے مبدل بہ ثواب
قبر میں دامن مادر کی طرح کیجیئو خواب
حشر کے روز بھی چھٹنے کا نہیں ساتھ تیرا
دیکھنا ہو گا مرے ہاتھ میں واں ہاتھ ترا
ابھی روتے تھے یہ فرما کے امام دوجہاں
ناگہاں کھنچ کے تن حر سے نکلنے لگی جاں
یا حسین ابن علی کہہ کے کراہا وہ جواں
آنکھیں پتھرا گئیں آنسو ہوئے چہرے پہ رواں
بس کہ صدمہ تھا جدائی کا دل مضطر پر
مر گیا رکھ کے وہ منہ کو قدم سرور پر
لاش پر اپنی عبا ڈال کے رونے لگے شاہ
روح زہرا کی صدا آئی کہ انا للہ
مر گیا عاشق فرزند رسول ذی جاہ
اس وفا دار کا ماتم کرو با نالہ وآہ
اپنے فرزند کے غم خوار کی غم خوار ہوں میں
مجھ کو پرسا دو کہ مہماں کی عزادار ہوں میں
اہلبیت نبوت سے کوئی کہہ دے جا کر
مر گیا میرا پسر روو اسے پیٹ کے سر
بیبیو خاک اڑاتی ہوں میں لاشہ پہ ادھر
بے کفن دیکھ کے مظلوم کو پھٹتا ہے جگر
جان دی اس نے مرے غنچہ دہن کے بدلے
دوں گی میں حلہ فردوس کفن کے بدلے
در خیمہ سے یہ دی شاہ کو صدا فضہ نے
لاش حر ڈیوڑھی پہ لے آیئے یا شاہ ہدا
حرم پاک میں ہے دیر سے سامان عزا
اپنے سر کھولے ہوئے بیبیاں کرتی ہیں بکا
اس طرح خواہر سلطان زمن پیٹتی ہیں
جس طرح بھائی کے ماتم میں بہن پیٹتی ہے
آقا سے اب وزیر کی ہر دم ہے یہ دعا
حر کر دے مجھ کو نار سے جس طرح حر ہوا
کوئی مظلوم پہ اب رحم نہیں کھاتا ہے
رن سے امداد کو شبیر کی حر آتا ہے
سبحان اللہ کیا بندہ پروری ہے خدا وند عالم کی کہ ہم ایسے گنہگاروں کی نجات کے لئے کیسے کیسے وسیلے مقرر کیے ہیں۔اگر بندہ ذرا بھی اس کی جانب رجوع ہوتا ہے۔ تو وہ معبود حقیقی جس کا نام ستار العیوب ہے۔ اس کے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے۔ چنانچہ روایت ہے کہ جس وقت حضرت آدم علی نبینا وعلیہ الصلواة والسلام بوجہ ترک اولی یعنی درخت ممنوعہ سے کھانے کی وجہ سےبہشت عنبر سرشت سے روئے زمین پر بھیجے گئے۔ اور فراق حضرت حوا میں مبتلا ہو کر مدتوں رویا کیے۔ آخر جب بواسطہ رسول مقبول وآئمہ اطہار دعا کرنا شروع کی۔ تو حضرت حوا علیہ سلام سے ملاقات ہوئی۔ اور آپ کے اولاد ہونا شروع ہوئی۔ اور آپ کو معلوم ہوا کہ اب رب کریم کی عنایات عمیم ہے۔ اور میری اولاد سے دنیا قائم ہو گی۔ اس وقت آپ نے رونا شروع کیا۔ پس حضرت جبرائیل علیہ سلام نازل ہوئے اور بعد سلام کے دریافت کیا کہ اے آدم یہ محل خوشی کا ہے۔ نہ رونے کا۔ آپ نے جواب دیااے جبرائیل میں اس واسطے روتا ہوں۔کہ جس وقت میرا جسم نور سے منور تھا۔اس وقت ابلیس نے مجھے دھوکا دیا۔اور مجھ سے ترک اولیٰ واقع ہوا۔جس کے باعث مورد عتاب الہیٰ ہوا۔ لیکن میری اولاد جن کی پرورش مٹی، پانی، آگ اور ہوا سے ہے۔ یہ تو بدرجہ غایت اس ملعون کے بہکانے سے گناہوں کی مرتکب ہو ں گی۔ اور ان کی عمریں بھی تھوڑی تھوڑی سی ہوں گی۔ سور اس قلیل عمر میں ان کو کامل تجربہ بھی نہ ہو سکے گا۔ اور اس دار فنا سے گناہوں کا بار لیے ہوئے جائیں گے۔کیونکہ ابلیس قیامت تک میری اولاد پر مسلط رہے گا۔ یہ ہے وہ غم جو خوشی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ یہ سن کر حضرت جبرائیل نے بحکم رب جلیل کہا کہ اے آدم خدا وند عالمیان فرماتا ہے کہ تیری اولاد سے کوئی گنہگار توبہ کرے گا تو اس کے گناہ بخشے جائیں گے۔ یہ سن کر حضرت آدم خوش ہو گئے،اور فرمایا کہ اب مجھے اطمینان ہوا۔ لہذا مومنین ہمیں لازم ہے کہ ہر وقت درگاہ خدا میں استغفار کرتے رہیں۔ امید ہے کیسا ہی گنہگار ہو۔ وہ مالک دوجہان اپنے رحم وکرم سے بخش دے گا۔ چنانچہ ایک ایسے گنہگار کے حالات عرض کرتا ہوں۔جس کی بخشش کی امید نہ تھی۔ اور توبہ کرنے اور گناہ اور اعتراف قصور کے سبب جہنم کی طرف جاتا ہوا بہشت بریں کی طرف بھیج دیا گیا۔ وہ گنہگار کون تھا۔ مومنین پر ظاہر ہے۔ جس وقت ابو عبد اللہ الحسین مدینہ منورہ سے سمت کربلا روانہ ہو کر منزل زبالہ میں پہنچے۔اور خبر شہادت حضرت مسلم معلوم ہوئی۔ اس وقت آپ نے فرمایا کہ اہل کوفہ پر دغا ہیں۔ اور اپنے ہمراہیوں سے فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ میرے شیعہ ہونے کا دم بھرتے ہیں۔ وہ منحرف ہو گئے ہیں۔ اب تم لوگ جہاں چاہو چلے جاو۔ شیخ مفید علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ بہت سے ہمراہی اس مظلوم کے جو بغرض حصول دنیا آئے تھے۔ چلے گئے۔ صرف چند اصحاب باوفا جن کا نام محضر شہادت میں درج تھا۔ آپ کے ہمراہ رہ گئے۔ادھر ابن زیاد لعین بد نہاد کو معلوم ہوا کہ امام حسین عازم کوفہ ہیں۔تو اس نے ہزار سوار حر کے ہمراہ روانہ کرکے تاکید کی کہ حسین کو گھیر کر ایسے جنگل میں لے جا کہ جہاں پر سایہ درخت کا نہ ملے۔ اور مجھے خبر دے۔ چنانچہ بموجب حکم ابن زیاد بد نہاد حر مع سواروں کے روانہ ہوئے۔ نظم
اس دن
مسافروں کی جو منزل کا تھا مقام
قصر بنی مقاتل اسے کہتے ہیں عوام
اترے وہاں امام دو عالم قریب شام
کچھ ہٹ کے فوج حر بھی فروکش ہوئی تمام
راحت نہ پائی فاطمہ کے نور عین نے
پچھلے پہر کو کوچ کیا پھر حسین نے
کیوں حضرات حر کا گناہ اس سے زیادہ اور کیا ہوگا ،کہ مظلوم کربلا کو گھیر کر لے جانے کا باعث ہوئے۔مگر انجام توبہ کرکے جناب امام حسین علیہ سلام کی مدد کرنے کے سبب سے جو کچھ ہوا،مومنین پر ظاہر ہے۔ نظم
تائب ہوا حر تو باغ رضواں پایا
گمراہ تھا شب کو صبح کو ایماں پایا
حضرت کے لئے جو گنج وزر کو چھوڑا
جب قتل ہوا گنج شہداں پایا
الغرض جب قصر بنی مقاتل سے امام علیہ سلام نے کوچ فرمایا،اس وقت نظم
آنے لگی امام کو ہاتف کی یہ صدا
منزل بھی اب قریب ہے اے کل کے مقتدا
رستہ ہوا تمام سفر ختم ہو چکا
مقتل کے متصل تجھے لائی تیری قضا
خنجر سے یاں دہم کو کٹے گا گلو تیرا
آیا وہ دشت جس میں بہے گا لہو تیرا
جناب امام حسین علیہ سلام یہ آواز سنتے جاتے تھے۔ کہ وقت صبح قریب آیا۔ آپ نے گھوڑے سے اتر کر نماز ادا فرمائی۔اور سوار ہو کر آگے روانہ ہوئے۔ جس وقت اس مقام پر پہنچے جسے کربلا کہتے ہیں ۔بیت
رتبہ پہ اپنے فخر کیا ارض پاک نے
گھوڑے کے پاوں تھام لیے واں کی خاک نے
دریافت سے جب آپ کو معلوم ہوا کہ یہ زمین نینوا ہے۔ تو ہمراہیوں سے ارشاد فرمایا ۔ نظم
ہاں سالکان راہ خدا روک لو فرس
آپہنچا ابن فاطمہ مقتل پہ اپنے بس
خیمہ بپا کرو اسی صحرا میں پیش وپس
تھی مجھ کو بچپنے سے اسی خاک کی ہوس
چھوڑا وطن کو اب نہیں بستی بسائیں گے
ہر جا سے لوگ یاں کی زیارت کو آئیں گے
امام کا یہ ارشاد سنتے ہی ہر ایک سوار نے گھوڑوں کو روک لیا۔ اس دشت پر آشوب کی وحشت دیکھ کر حضرت زینب بے تاب ہو گئیں۔اور فرمانے لگیں کہ اے بھائی یہ جنگل مجھے خوفناک معلوم ہوتا ہے۔ کانوں میں گریہ وبکا کی آوازیں آرہی ہیں۔ بہتر ہے کہ یہاں سے کوس دو کوس دور مقام فرمائیں۔ نظم
بولے قریب آکے یہ شبیر خوش خصال
بڑھنا اب اس زمین سے بہن ہے بہت محال
ہر چند یہ زمیں ہے مقام غم وملال
لیکن یہیں رہے گا رسول خدا کا لال
روو نہ تم کہ پاک ومطہر زمین ہے
ہم جس کو ڈھونڈتے تھے وہی سرزمین ہے
الغرض بحکم امام دارین خیمے برپا ہوئے۔ اور اصحاب وانصار جا بجا فروکش ہوئے۔ یہ ماجرا اکثر مورخین نے دوسری تاریخ کا لکھا ہے۔ اور تیسری تاریخ سے فوج یزید پلید کا آنا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ تاریخ ہفتم سے فوج یزید لعین نے دریائے فرات پر پہرے بٹھا دیئے۔ اور امام کے خیموں میں پانی کا جانا بند کر دیا۔ آٹھویں تاریخ بھی اسی عالم تشنگی میں گزر گئی۔ راوی لکھتا ہے ۔نظم
روز نہم سکینہ کو تھا سخت اضطراب
بےدم تڑپ کے خاک پہ کہتی تھی آب آب
اصغر کو فرط غش سے ہمکنے کی تھی نہ تاب
پانی تھا غم سے خون جگر بند بوتراب
کچھ منہ سے غیر شکر خدا کہہ نہ سکتے تھے
پیاسے صغیر آنکھوں کے آگے سسکتے تھے
آخر ہوا وہ دن بھی اور آئی دہم کی رات
وہ رات صبح حشر کو جس نے کیا تھا مات
بزم عزا تھا خانہ سردار کائنات
تھے آپ محو طاعت معبود پاک ذات
اشکوں سے چادروں کو بھگوتے تھے اہل بیت
منہ اپنا ڈھانپ ڈھانپ کے روتے تھے اہل بیت
جناب زینب صحن خیمہ میں سر برہنہ دعا فرماتی تھیں،اور کہتی تھیں کہ الٰہی صبح ہونے سے پہلے مجھے اٹھا لے۔ بیت
سارا جہاں سیاہ ہے چشم پر آب میں
سر ننگے میں نے دیکھا ہے اماں کو خواب میں
اللہ اللہ کیا مرتبہ حضرت حر کا ہوا ہے۔ کہ ادھر تو حضرت زینب نے یہ خواب ملاحظہ فرمایا۔اور ادھر حضرت حر نے دیکھا کہ میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ایک صحرائے ناپید کنار میں گیا ہوں۔ جس وقت وہاں پہنچا تو ایک نعل میرے گھوڑے کا گر گیا۔ میں وہاں پر بہت ہراساں ہوا۔ اس وقت ایک شخص پارسا نے ایک سمت جانے کو اشارہ کیا۔ جب میں اس سمت گیا تو مشاہدہ کیا کہ ایک خیمہ سیاہ استادہ ہے۔ اور ایک عورت با لباس سیاہ میرے پاس آئی اور کہا کہ اے حر خوشا نصیب تیرے کہ تجھ کو جناب فاطمہ زہرا نے یاد فرمایا ہے۔ میں فورا اس کے ساتھ در خیمہ پر پہنچا اور وہ بی بی اندر گئی۔
نظم
بعد اک لحظہ کے وہ صاحب عظمت نکلی
ہاتھ میں اپنے لیے ایک کتابت نکلی
بولی زہرا نے کیا ہے یہ عنایت تجھ کو
پڑھ لے کھل جائے گی سب اس کی حقیقت تجھ کو
اس میں لکھا تھا کہ ہم نے دیا جنت تجھ کو
حر ہے دکھلائیں گے نہ دوزخ کی صورت تجھ کو
پڑھ رہا تھا میں ابھی فخر ومباہات سے خط
لے گیا طائر سبز آکےمرے ہاتھ سے خط
یہ خواب حر نے غوث سے بیان کیا اور کہا
نظم
جب سے اےغوث عجب طرح کی تشویش میں ہوں
کون سا دیکھا مکاں کس سے میں یہ خواب کہوں
میرا انجام ہے کیا،کیا میں کروں کیا نہ کروں
جاوں شبیر کے لشکر میں کہ اس سمت رہوں
یاں کا انجام تو دوزخ ہے ملا زر تو کیا
واں کا انجام ہے فردوس کٹا سر تو کیا
کبھی زوجہ کبھی بیٹے کا خیال آتا ہے
بھائی کا اور غلاموں کا ملال آتا ہے
واں چلا جاوں تو گھر پر بھی زوال آتا ہے
اپنا جب دھیان میں انجام ومآل آتا ہے
قلب واعضائے بدن خوف سے تھراتے ہیں
خود بخود پاوں کچھ اس سمت اٹھے جاتے ہیں
وہ اسی شش وپنج میں کروٹیں بدلتا تھا۔ اور اپنے دل میں سوچ سوچ کر رہ جاتا تھا۔ عجب حیص وبیص کے عالم میں پڑا ہوا تھا۔ نظم
متغیر،متردد،متفکر،بے چین
یہ دعا تھی کہ بچے فاطمہ کا نور العین
تھر تھرا جاتا تھا کرتی تھیں جو سیدانیاں بین
طپش دل کا تقا ضا تھا کہ چل سوئے حسین
صبح اعدا میں نہ شاہ شہدا گھر جائیں
شب کو مل جائے جو خورشید تو دن پھر جائیں
کبھی اٹھا کبھی بیٹھا کبھی ٹہلا وہ جری
گرم آہیں کبھی کیں کبھی کیں سرد کبھی آہ بھری
قلب میں تھی کبھی سوزش کبھی سوز جگری
سخن یاس کبھی لب پہ کبھی نوحہ گری
آل احمد کی بکا سن کے تڑپ جاتا تھا
دم بدم خیمہ سے گھبرا کے نکل جاتا تھا
اس طرف خیمہ میں حر کا یہ حال تھا۔ادھر فوج اعدا کا ہر سپاہی اس کوشش میں تھا کہ کوئی پیاسا لشکر حسین کا دریا پر نہ آنے پائے۔ حضرت حر ان بدشعاروں کے اس انہماک کو دیکھ کر دل ہی دل میں کہتے تھے کہ کاش حسین کو میں گھیر کر نہ لاتا۔ اسی اثناء میں برادر حر نے بھائی کا یہ حال دیکھ کر عرض کی کہ اے برادر بزرگوار صبح میدان کار زار گرم ہوگا۔ آج آپ نے کچھ آرام نہیں کیا۔ اس کا کیا باعث ہے۔ حضرت حر نے فرمایا کہ نیند آنے کا کون سا محل ہے۔ اہلبیت نبی میں بھوک اور پیاس کی شدت کے سبب تلاطم برپا ہے۔ نظم
وائے غربت عجب آفت میں نبی زادہ ہے
دیکھتا ہوں جسے وہ قتل پہ آمادہ ہے
کیا خبر تجھ کو نہیں کون ہے یہ فیض مآب
پیاس میں جس نے مع فوج پلایا مجھے آب
دشمنوں پر بھی کیا لطف وکرم مثل سحاب
لب پہ جاری تھا پئیں سب کے یہ ہے کار ثواب
آپ پیاسا رہے غیروں کے لئے مشکل ہے
واہ کیا لخت دل فاطمہ دریا دل ہے
کیونکر مجھ کو تردد وتشویش نہ ہو۔ جب پانی پانی کا شور سنتا ہوں۔ غم کھاتا ہوں۔ اور باگ پکڑنا یاد کرکے شرماتا ہوں۔اپنی نادانی پر پچھتاتا ہوں۔مجھے یقین نہ تھا کہ بعوض دعوت کے عداوت ہوگی۔ یہ سن کر برادر حر نے یہ تو سمجھا کہ بھائی کی نیت امام مظلوم کی خدمت میں بار یابی کی معلوم ہوتی ہے۔ مگر صاف صاف نہ سمجھا۔اس واسطے نظم
عرض کی بھائی نے پھر آپ کو کیا ہے منظور
حر نے فرمایا کہ مرنا شہ والا کے حضور
حلہ ء خل دبریں ساغرصہبائے طہور
وصلت حور جناں رحمت حق عفو قصور
تجھ پہ کھل جائے گا اب صبح بھی کچھ دور نہیں
آتش قہر میں جلنا مجھے منظور نہیں
سن کے یہ بھائی سے کہا بھائی نے بسم اللہ
ہم بھی ہمراہ ہیں گر آپ کو سوجھی ہے یہ راہ
اٹھ کے بولا یہ پسر اے پدر عالی جاہ
ایسا مرنا تو حیات ابدی ہے واللہ
عمو عباس دلاور پہ فدا ہوئیں گے
ہم جناب علی اکبر پہ فدا ہوئیں گے
جس وقت کہ حضرت حر ان کے بھائی اور بیٹے میں یہ باتیں ہوئیں۔ غلام نے سوچا کہ میں راہ ضلالت میں فرقہ ناہنجار کے ہمراہ کیوں رہ جاوں ،پھر نظم
جوڑ کر ہاتھ کیا خادم حر نے یہ کلام
صدقہ ہوئے گا غلام شہ والا پہ غلام
سب کا منہ دیکھ کے بولا یہ حر نیک انجام
رہیو اس قول پہ قائم کہ یہ عقبیٰ کا ہے کام
گر وہ چاہے گا تو منزل پہ بہم ہوئیں گے
آج دوزخ میں ہیں کل خلد میں ہم ہوئیں گے
الغرض تمام رات ان چاروں پنجتنی میں یہی مذکور رہا۔ نہ کوئی سویا نہ کھایا پیا۔ ناگہاں اسی ذکر میں آثار صبح نمایاں ہوئے۔ بیت
چرخ پر صبح کی نوبت کی صدا جانے لگی
فوج اسلام سے اذاں کی آواز آنے لگی
نور پھیلا ہوا وہ صبح کا وہ سرد ہوا
بہتے دریا کی وہ لہریں وہ بیاباں وہ فضا
بلبلوں کے چہکنے کی خوش آئند صدا
کہ نسیم آئی دبے پاوں کبھی باد صبا
حکم تھا دونوں کو سبزے کی ہوا داری کا
فرش تھا چاروں طرف مخمل زنگاری کا
باغ زہرا ومحمد کی ادھرتھی خوشبو
گل سے رخ سرد سے قد سنبل تر سے گیسو
آنکھیں نرگس کے کٹورے در شبنم آنسو
سبزہ آغاز کسی کا تو کوئی آئینہ رو
یاں کی خوشبو جو گزر جاتی ہے گلزاروں سے
بلبلیں پھول گرا دیتی ہیں منقاروں سے
گل کہاں اور کہاں نکہت بستان رسول
مختصر بھی جو عرض کروں تو ہو جائے گا طول
دیکھ کر راستی تازہ نہالان بتول
فاختہ سرو سے شمشاد سے قمری ہو ملول
باغ زہرا میں جو دم بھر بھی رسائی ہو جائے
تا قیامت گل وبلبل میں رسائی ہو جائے
وقت وہ ہے کہ شگفتہ ہیں گل راز ونیاز
صبح صادق ہے قضا ہو نہ کہیں وقت نماز
لائے سجادے پہ تشریف شہنشاہ حجاز
عقب شاہ صفیں باندھ کے آئے جانباز
طالب خواب اجل رات کے جاگے ہوں گے
ابھی پیچھے ہیں لڑائی میں سب آگے ہوں گے
الغرض بعد فراغت نماز ہر ایک جرار نے دیکھا کہ پردہ ہائے حجاب نظروں سے اٹھ گئے ہیں۔ اور اپنے اپنے مقام بہشت عنبر سرشت میں ملاحظہ کیے۔اور حوران بہشتی غرفوں سے جھانکتی ہوئی نظر آنے لگیں۔ اور آب کوثر کی نہریں سامنے لہریں مارتی ہوئیں معائنہ کیں۔ پس روایت ہے نظم
خوش تھے سب دیکھ کے جنت کے درختوں کی بہار
پھول دیکھے تو خوشی سے ہوئے چہرے گلنار
ہاتھ اٹھ جاتے تھے جھکتی تھیں جو شاخیں ہر بار
جان شیریں تھی ٹپکتے ہوئے میووں پہ نثار
شربت قند مکرر کا مزہ پاتے تھے
دور سے دیکھ کے لب بند ہوئے جاتے تھے
مسکرا کر شہ والا نے کہا کیا دیکھا
سب پکارے ثمر الفت مولا دیکھا
جیتے جی گلشن فردوس کا جلوہ دیکھا
اپنے گھر دیکھ لیے سایہ طوبیٰ دیکھا
دیر ہے کس لئے مرنے میں ہمارے مولا
جان ودل لے گئے حوروں کے نظارے مولا
یہ سن کر جناب امام مظلوم مصلے سے اٹھے اور فرمایا کہ تم لوگ تیار ہو جاو۔ میں بھی خیمہ میں جا کر پوشاک تبدیل کر آوں۔ اپنے آقا کے ارشاد کے مطابق اس طرف ہر ایک یاور وناصر اپنے تئیں مسلح کرنے لگا۔ اور جناب امام حسین علیہ سلام خیمہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ جناب زینب علیہ سلام جائے نماز سے اٹھ کر سر برہنہ درگاہ خدا وندی میں باگریہ وزاری دعا کرتی ہیں۔کہ اے رب الارباب میرے بھائی کو سلامت رکھنا۔پنجتن میں اب صرف ایک حسین کا دم ہے۔ جس وقت جناب امام حسین نے جناب زینب کو نہایت مضطر وبےقرار دیکھا نظم
چھاتی سے بس بہن کو لگا کر کہی یہ بات
زینب مجھے خبر ہے کہ روئی ہو ساری رات
حاصل ہے اس سے کیا کہ یہ دنیا ہے بے ثبات
موت آئے گی ضرور اسے جو ہے ذی حیات
ماں کو پدر کو بھائی کو ہاتھوں سے کھو چکیں
تم تو کئی بزرگوں کو اس گھر میں رو چکیں
سر کو پٹک پٹک کر نہ ہر دم ہو نوحہ گر
مر جاوگی تو اور بھی برباد ہو گا گھر
تھامے کون روئیں گے بچے جو بے پدر
بیٹھے کون ماتمی صف پر برہنہ سر
ذی رتبہ ہو بتول کی نازوں کی پالی ہو
تم ہم سے بے کسوں کی بہن رونے والی ہو
آہ حضرات جس وقت یہ کلمات حسرت ویاس کے حضرت زینب نے زبان مبارک جناب امام حسین علیہ سلام سے سماعت فرمائے تو آپ دعا فرما رہی تھیں نظم
زینب سر اپنا پیٹ کے بولی یہ ایک بار
واحسرتا کہ مر نہ گئی میں جگر فگار
میرے ہی تھا نصیب میں ہے ہے یہ کاروبار
ماتم میں سب کی رووں بنوں سب کی سوگ وار
غربت میں جب سفر میرا دنیا سے ہووئے گا
رونا تو اس کا ہے کہ مجھے کون روئے گا
سن کر یہ حال روتے تھے شبیر زار زار
منہ پیٹتی تھی سامنے بانوئے دل فگار
سمجھاتے تھے حسین کہ اے میری غمگسار
رخصت یہ آخری نہیں پیٹو نہ بار بار
لاشیں اٹھا اٹھا کے عزیزوں کی لائیں گے
خیمہ میں ہم ابھی تو کئی بار آئیں گے
فرما کے یہ سکینہ کے چہرے پہ کی نگاہ
بولے کہ آ گلے سے لگ اے میری رشک ماہ
لپٹی جو آکے باپ سے بیٹی بااشک وآہ
منہ رکھ کے منہ پہ رونے لگے شاہ دیں پناہ
فرماتے تھے نہ پیاس میں تو اشک بار ہو
ان سوکھے سوکھے ہونٹوں پہ بابا نثار ہو
بولی زبان خشک دکھا کر وہ تشنہ لب
بابا ہمارا پیاس سے ہونٹوں پہ دم ہے اب
اتنا تو مجھ سے کہیئے کہ پانی ملے کب
فرمایا شہ نے خلد میں ہم جا چکیں گے جب
رکھیو خیال فاطمہ کے نور عین کا
تم پانی پیجیئو فاتحہ دے کر حسین کا
یہ فرما کر بچشم تر بیٹی کو خاک پر بٹھا دیا۔ اور عمامہ رسول خدا سر پر باندھا عبائے حیدر کرار پہن کر اسلحہ جنگ آراستہ کیا۔ اور بھائی، بھتیجے اور بھانجوں کے ہمراہ خیمہ سے باہر تشریف لائے۔
حال یہ دیکھ کر غش کھا کے گری زینب زار
واحسینا کی ہوئی آل محمد میں پکار
پس جناب امام حسین علیہ سلام نے حضرت زینب کو تشفی ودلاسہ دیا اور فرمایا کہ اے بہن تم صابرہ کی بیٹی ہو۔ تم کو صبر کرنا چاہیئے۔ نظم
اشک خوں چشم مبارک سے گرے بہہ بہہ کر
بس چلے آپ خدا حافظ وناصر کہہ کر
دیر سے تھی دردولت پہ سواری موجود
بڑھ کے گھوڑے پہ چڑھے جلد امام ذی جود
غل شہنشاہ سلامت کا ہوا شور ورود
وہ سواری کا تحمل وہ جوانوں کی نمود
تا بہ میداں جفا ظل خدا میں پہنچے
نکہت گل کی طرح دشت وغا میں پہنچے
آگیا جوش وغا شاہ کے غم خواروں کو
سینہ تن تن کے رکھا دوش پہ تلواروں کو
غیظ سے تکنے لگے سرداروں کو
سب نے چاہا کہ بڑھا دیجیئے راہواروں کو
پاس ادب سے ہر صاحب شمشیر رکے
سامنے آگئے عباس تووہ شیر رکے
اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے اس قلیل لشکر کو آراستہ کیا۔لشکر خدا کا علمدار حضرت عباس کو مقرر فرمایا۔میمنہ کا سردار پسران حضرت مسلم کو مقرر فرمایا۔اور میسرہ حبیب ابن مظاہر کو عنایت فرمایا۔ اسی دوران پسران حضرت مسلم نے صف راست سے گھوڑے بڑھا کر اجازت جنگ چاہی۔ اور عرض کی کہ اے عم بزرگوار ہمارے پدر نامدار سب سے پہلے آپ پر نثار ہوئے۔غلاموں کی خواہش بھی یہی ہے کہ اس میدان کارزار میں ہم بھی سب سے پہلے اپنی جانیں حضور کے قدموں پر نثار کریں۔ تاکہ امام کے ہراول لشکر مشہور ہوں۔ یہ سن کر حضرت نے فرمایا کہ میں تمہارے باپ کی شہادت سے شرمندہ ہوں۔ اب مجھ کو زیادہ محجوب نہ کرو۔ اے نور دیدگان یہ عہدہ ہراولی باقی نہیں رہا۔ اس عہدے پر میری مادر گرامی فاطمہ زہرا نے اور پدر بزرگوار علی مرتضیٰ نے ایک شخص کو مقرر فرمادیا ہے۔ جو عنقریب داخل لشکر ہونے والا ہے۔ یہ سن کر تمام اصحاب باوفا،عزیز ورفقا متحیر ہوئے۔اس طرف تو یہ حال تھا۔اور اس طرف عمر سعد لعین نے اپنے لشکر کی صفیں جما کر تمام اہل کوفہ کو علیحدہ کیا۔اور ان کی حفاظت کے لئے اشعث بن موصلی کو مقرر کیا۔اور میمنہ لشکر ضلالت اثر کا اپنے بیٹے حفص کو جو اس شریر کا وزیر تھا۔مع تیس ہزار شامیان زرہ پوش کے سپرد کیا۔ اور ضحاک ابن قیس وسعد بن عبداللہ وغیرہ سرداروں کو بتیس ہزار سوار کے ساتھ میسرہ پر مقرر کیا۔ اور باقی ملاعین کو قلب لشکر میں ترتیب سے باقاعدہ کھڑا کرکے اپنے غلام ولید کو ان سب کا نگران مقرر کیا۔اور شمر ذی الجوشن کو نقیب کرکے مستعد کارزار ہوا۔ اس وقت نظم
چاوش صدا دینے لگے فرج میں اکبار
ہاں غازیو شاباش رہو رزم میں تیار
ثابت قدموں گھاٹ سے دریا کے خبردار
دو دن سے ہے پیاسا خلف حیدر کرار
یہ آب محمد کے نواسے کو نہ پہنچے
اس نہر کا پانی کسی پیاسے کو نہ پہنچے
جب اس طرح صفیں لشکر کی آراستہ وپیراستہ ہو چکیں نظم
بولا کمان کشوں سے ابن سعد بے ادب
برساو شہ پہ تیر ستم دیر کیا ہے اب
کج باز لیس ہوگئے خونریزیوں پہ سب
چلایا حر یہ پیٹ کے زانو کو ہے غضب
ظلم اے امیر روح رسالت پناہ پر
کرتا ہے خون سبط نبی کس گناہ پر
تیروں کا رخ جدھر ہے نبی کا ہے یہ پسر
جس کو ہدف بنایا ہے زہرا کا ہے جگر
بجلی گرے نہ تجھ پہ کہیں قہر حق سے ڈر
ہٹ جاوں میں تو پیاسے سے لڑنا ابھی ٹہر
آگے مرے نہ ظلم ہو اس تشنہ کام پر
دیکھوں نہ تیر پڑتے ہوئے میں امام پر
ابھی ابن سعد اور حر نیک نام میں یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ جناب امام حسین لشکر ظفر پیکر سے ذوالجناح کو مہمیز فرما کر اعدائے بد شعار کی جانب روانہ ہوئے۔اس وقت جمیع اصحاب وانصار مضطربانہ دوڑ کر قدوم میمنت لزوم پر گرے۔ اور عرض کی کہ یا مولا کیا آپ نے اس واسطے ہراول لشکر مقرر فرمایا تھا کہ سب سے پہلے جنگ کا ارادہ آپ فرمائیں۔ ہم لوگ فردائے قیامت۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رسول خدا اور علی مرتضےٰ اور فاطمہ زہرا اور حسن مجتبیٰ کو کیا منہ دکھائیں گے۔ اور کس دن کام آئیں گے۔ بیت
شہ نے فرمایا کہ جاتا نہیں میں کرنے جدال
مجھ کو لازم ہے کہ مہماں کا کروں استقبال
یہ سن کر تمام انصار خاموش ہو گئے۔اور امام مظلوم بمقابلہ صفوف لشکر ناہنجار مع حضرت عباس تشریف لا کر اس طرح زبان فیض ترجمان سے گویا ہوئے۔ کہ اے لشکر یزید تم میں سے وہ کون شخص ہے کہ شب کو عالم رویا میں بہشت عنبر سرشت کی سیر کی۔اور سبزہ ہائے بہشت سے آب نوشی کا وعدہ کیا ہے۔ آنحضرت کا یہ کلام سن کر جناب حر نے اپنے بھائی اور غلام کو دیکھا اور ارشاد کیا کہ دیکھو فرزند رسول رات کا حال گویا چشم دید بیان کر رہے ہیں۔ نظم
سن کے
کانپا تن حر اور پکارا واللہ
جس کو مرنا ہو وہ اس دم مرے آئے ہمراہ
اک غلام ایک پسر ایک برادر ذی جاہ
چاروں نے باگیں اٹھائیں طرف لشکر شاہ
غل ہوا حر طرف لشکر دیں جاتا ہے
بولا ہاتف کہ سوئے خلد بریں جاتا ہے
جس وقت حضرت حر لشکر ناری سے نکل کر دریائے نور کی طرف روانہ ہوئے۔ نظمحر
کا لشکر سے نکلنا تھا کہ چلنے لگے تیر
اک تلاطم ہوا اس طرح بڑھی فوج کثیر
نہ رکے پر کہیں شیدائے جناب شبیر
گر پڑا وہ جسے چمکا کے دکھائی شمشیر
ہاتھ آئے نہ شریروں کے سوئے خیر گئے
دم میں فولاد کے دریا کو جری پیر گئے
جس وقت کہ امام مظلوم نے حر کو مع اس کے بھائی ،بیٹے اور غلام کے آتے ہوئے ملاحظہ فرمایا، حضرت عباس سے ارشاد فرمایا کہ اے بھائی جلد آگے بڑھو ایسا نہ ہو کہ میرا مہمان راستے میں مجروح ہو۔ نظم
سن کے فرمان گل گلشن شہ لولاک
یاں سے عباس چلے واں ہوا پیدل حر پاک
ڈاب میں تیغ دو دم رکھ کےگریبان کیا چاک
ننگے سر ہوگیا اور منہ پہ ملی دشت کی خاک
باندھ کر ہاتھ کہا قابل آزادی ہوں
رحم فرمایئے مولا کہ میں فریادی ہوں
ہاتھ پھیلا کے بڑھے جلد جناب عباس
ہنس کے فرمایا کہ آ ہم سے مل اے قدر شناس
تھرتھراتا ہے یہ کیوں اب تجھے کیا ہے وسواس
وہ جواں جوڑے ہوئے دست ادب آیا پاس
سرنگوں پائے مبارک پہ جو پایا اس کو
بازوئے شاہ نے چھاتی سے لگایا اس کو
پھر یہ فرمایا بصد لطف کہ اے مرد سعید
تیرے آنے کی عجب سبط پیمبر کو ہے عید
وہ خوش ہیں تو بے شبہ خوش رب مجید
تجھ سے منہ موڑے رہیں رحمت مولا سے بعید
چل قدم بوس ہو الحاح کر اور زاری کر
قافلہ چلنے پہ ہے کوچ کی تیاری کر
عرض کی حر نے کہ ہاں آپ اگر چاہیں گے
اوج بلبل کا نہ کیوں کر گل تر ہوجائیں گے
وہی ہوگا جو شہ جن وبشر چاہیں گے
وہی لے جائیں گے محشر میں جدھر چاہیئں گے
اب تو میں بندہ بے دام مدام ان کا ہوں
خلد میں جاوں کہ دوزخ میں غلام ان کا ہوں
یہ تو فرمایئے سن کر میرے آنے کی خبر
سب سے فرماتے تھے کیا بادشاہ جن وبشر
کہا عباس نے تاکید ہے یہ ہر اک پر
کوئی روکے نہ کہ آتا ہے میرا دوست ادھر
تم اسے پاس شہنشاہ امم کے لاو
مجھ کو بھیجا ہے کہ سایہ میں علم کے لاو
یہ خبر فرحت اثر سن کر حر مسکرائے اور اپنے بھائی کی طرف دیکھ کر کہنے لگے کہ دیکھو پسر حیدر کرار محمد کا نور عین کیسا با شرف ہے ،کہ ہنوز ہم نے خدمت میں پہنچ کر عفو تقصیر نہیں کرائی،اور یہ اعزاز کونین بخشا نظم
میں کہاں اور کہاں ابر کرم کا سایہ
مجھ سے خاطی پہ محمد کے علم کا سایہ
کہہ کے یہ فوج خدا میں حر جرار آیا
جنس آمرزش عصیاں کا طلب گار آیا
دی صدا اے میرے مولا یہ سیہ کار آیا
باگ کو ہاتھ لگانے کا گنہگار آیا
جس کی دست درازی اسے کم کر ڈالے
کہیئے خادم سے میرے ہاتھ قلم کر ڈالے
دے سزا مجھ کو میں حاضر ہوں شہنشاہ میرے
ساتھ ہیں حضرت عباس فلک جاہ میرے
توبہ کرتا ہوں گناہ بخشیئے للہ میرے
اب میں گمراہ نہیں اے خضر راہ میرے
جس نے خدمت میں کمی کی ہے وہی خادم ہوں
چار آنکھیں نہ کروں گا بہت نادم ہوں
مومنین ابتدا میں جو میں نے عرض کیا ہے کہ توبہ کرنے سے گناہان گزشتہ بخش دیئے جاتے ہیں۔ملاحظہ ہو حر کی گزارش کے ساتھ ہی نظم
بولے حضرت کہ ید اللہ کو پیارے ہیں یہ ہاتھ
جب ہوا قوت بازو تو ہمارے ہیں یہ ہاتھ
اے برادر ید قدرت کے سنوارے ہیں یہ ہاتھ
تونے افسوس سے زانو پہ جو مارے ہیں یہ ہاتھ
اب سردست یہ عقدے تجھے کھل جائیں گے
جام کوثر کے ابھی دست بدست آئیں گے
یہ فرما کر جناب امام حسین علیہ سلام نے آگے بڑھ کر حضرت حر کو چھاتی سے لگایا۔اور حر کے بیٹے کو حضرت علی اکبر نے گلے سے لپٹا لیا۔ اس وقت حر نے قدوم میمنت لزوم پر شاہ کے سر جھکا دیا اور بیٹے نے نعلین حضرت علی اکبر پر بوسہ دیا۔ پھر حضرت امام حسین علیہ سلام نے دعا فرمائی کہ پالنے والے اس کو بخش دے، بیت
قابل نار جہنم گل شاداب نہیں
حر ہے یہ آگ میں جلنے کی اسے تاب نہیں
یہ سن کر حضرت حر خنداں وشاداں دست بستہ عرض کرنے لگے کہ اے آقا میدان کار زار کی اجازت دیجیئے۔ بیت
تازہ خادم ہوں رضا دیجیئے ممتاز ہوں میں
جلد خلعت شہادت سے سرفراز ہوں میں
حضرت حر رخصت کی اجازت لے رہے تھے کہ حضرت زینب نے فضہ کو بھیج کر خیمہ کے قریب بلایا اور فرمایا کہ اے حر رحمت خدا تجھ پر کہ تونے میرے بھائی کی پاس داری کی۔ تو ہمارا مہمان ہے مگر نظم
تجھ پہ مخفی نہیں ہفتم سے جو کچھ ہے میرا حال
راہیں ہر سمت کی روکے ہوئے ہیں بد افعال
قحط پانی کا ہے اس دشت میں ہے مجھ کو ملال
نان جو کا بھی ہے ملنا کسی قریہ میں محال
ہم کو ایذا عوض آب وغذا ملتی ہے
دودھ اصغر کو نہ عابد کو دوا ملتی ہے
پھر کہا اس سے کہ دشوار ہے فرقت تیر ی
مجھ کو مر کر بھی نہ بھولے گی محبت تیری
وا دریغا ہوئی کچھ مجھ سے نہ خدمت تیری
خیر ہو جائے گی فردوس میں دعوت تیری
آج رتبہ تیرا خیل شہدا میں ہو گا
شب کو تو صحبت محبوب خدا میں ہوگا
حر نے گزارش کی کہ اے فضہ میری شاہزادی کی خدمت میں میری جانب سے عرض کرو،کہ میں نے آپ کی جناب سے ایمان پایا۔اعزاز پایا ۔دعوت کیا چیز ہے۔آپ کی والدہ ماجدہ مجھ کو بہشت عنبر سرشت عطا کر چکی ہیں۔ نظم
یہ نہ فرمایئے ہوتی ہے خجالت مجھ کو
آج دعوت میں ملی نعمت جنت مجھ کو
بعد ازاں عرض کی شبیر سے یا سبط نبی
اذن دیجیئے کہ فدا ہونے کو جائے فدوی
شہ نے فرمایا کہ مہماں ہے مرا ٹھہرا ابھی
اور جائے گا کوئی یاں سے نہ کر تو جلدی
عرض کی اس نے اجازت دو کہ بے کل ہوں میں
دوستی پہلے کروں دشمن اول ہوں میں
الغرض جب حر کا اصرار حد سے زیادہ ہوا،ناچار سید ابرار نے اجازت میدان عطا فرمائی۔ بعد حصول اذن پیکار حر نامدار گھوڑے پر سوار ہوئے اور آپ کے ہمراہ نظم
نیزے تانے ہوئے گھوڑوں پہ ادھر بھائی پسر
اور غلام حبشی مرکب مشکی پہ ادھر
سایہ کی طرح عقب میں تھا کبھی نیک سیر
سامنے تھا کبھی سردار کے مانند سیر
دل میں کہتا تھا کہ ٹکڑے ہوں میں شمشیروں سے
میرا آقا کہیں مجروح نہ ہو تیروں سے
تھم کے بھائی سے کہا حر نے علم کر تلوار
جا سوئے میمنہ فوج اڑا کر رہوار
حکم پیکار کا خادم کو دیا سوئے یسار
کہا بیٹے سے تو قلب میں جا اے دلدار
مضطرب ہوں میں کہ نرغہ ہے میرے سرور پر
میں نے قربان کیا تجھ کو علی اکبر پر
یہ سن کر وہ تینوں جرار برائے پیکار بڑھے۔اور بہت سے اشقیا کو شمشیر آبدار سے فی النار کیا۔ یہ لڑائی دیکھ کر حضرت عباس اور علی اکبر تحسین وآفرین فرماتے تھے۔ اور حضرت حر اپنے غلام سے آفرین کہتے تھے۔ نظممر گئے
فوج سے لڑ بھڑ کے جو وہ نیک سیر
غم سے خوں ہو گیا اس دم حر غازی کا جگر
لاش بیٹے کی جو دیکھی تو کہا رو رو کر
سہل اس راہ میں ہے جو ہو مصیبت مجھ پر
اپنے محسن کا فراموش نہ احساں کرتا
سو پسر ایسے جو ہوتے تو میں قرباں کرتا
جناب امام حسین علیہ سلام نے چند قدم بڑھ کر فرمایا کہ اے میرے مہمان وفاداری کا حق خوب ادا کیا۔ لیکن برائے خدا ضبط نہ کر۔لاش پسر پر رو رو کر بخار دل نکال لے۔ نظم
ہو گا ہر طرح وہ تقدیر میں جو ہونا ہے
ہم کو بھی لاشہ اکبر پہ یونہی رونا ہے
تونے جس طرح سہا اپنے جواں بھائی کا غم
ہم کو بھی ہوگا اسی طرح برادر کا الم
عرض کی حر دلاور نے بادیدہ نم
حق وہ ساعت نہ دکھائے مجھے یا شاہ امم
صدقے ہو جاوں میں اس میں ہے سعادت میری
اب دعا کیجیئے کہ ہو جلد شہادت میری
حر یہ گزارش کرکے لشکر گمراہ سے لڑتے بھڑتے خیمہ عمر سعد میں پہنچے۔یہ حال دیکھ کر عمر سعد خیمے میں چھپ گیا۔ اور تمام فوج تہہ وبالا ہو کر دہائی حسین کی دینے لگی۔ آقا نامدار کا اسم گرامی سنتے ہی: ابیات
مڑ کر یہ شاہ دیں کو پکارا وہ نیک نام
ہوتا ہے اب غلام کو کیا حکم یا امام
برہم ہوئی صفیں سپہ پر غرور کی
دیتے ہیں اب یہ لوگ دہائی حضور کی
امام حسین علیہ سلام نے بڑھ کر آواز دی کہ مرحبا اے حر اب ہاتھ روک لے۔ بھاگے ہووں کا مارنا شیر کا کام نہیں،یہ دنیا جائے آرام نہیں۔ شیر خدا تیری راہ دیکھتے ہیں۔ تشنگی سے تیرے حواس معطل ہیں۔ اب جام شہادت نوش کر،شیر خدا سے جا کر کوثر کا جام لے۔ حضرت حر ابھی آقا نامدار کا یہ ارشاد سن رہے تھے کہ آہ واویلا نظم
دل پہ نیزہ کسی خون خوار نے بڑھ کر مارا
ایک نے سر پہ تبر ایک نے خنجر مارا
نیزہ اک حلق پہ مارا کہ رکا سینہ میں دم
بند آنکھیں ہوئیں منہ کھل گیا گردن ہوئی خم
رکھ دیا ہرنے پہ سر نکلے رکابوں سے قدم
خاک پہ گر کے پکارا وہ کہ یا شاہ امم
آیئے جلد کہ سر تن سے جدا ہوتا ہے
آپ کا بندہ آزاد فدا ہوتا ہے
گوش فرزند نبی میں جو یہ آواز آئی
رو کے عباس کو چلائے کہ دوڑو بھائی
جاں بلب ہے پسر فاطمہ کا شیدائی
کہہ دو اکبر سے کہ مہماں نے شہادت پائی
حق ادا کر گیا غازی میری غم خواری کا
اب چلو وقت ہے حر کی مدد گاری کا
یہ سن کر حضرت امام حسین علیہ سلام حضرت حر کی طرف پا پیادہ دوڑے۔ اور حضرت عباس بھی اس شہید کے پاس پہنچے،بیتخوں
بھری آنکھوں میں دم حر کا اٹکتے دیکھا
پہنچے شبیر تو مہماں کو سسکتے دیکھا
دیکھ یہ زانوئے اقدس پہ رکھا سر اس کا
اپنے رومال سے پونچھا رخ انور اس کا
واہ رے مرتبہ اللہ رے مقدر اس کا
عرش اعلےٰ سے بھی پایہ ہوا برتر اس کا
دار فانی سے گزرنا ہو تو ایسے ہووئے
بعد جینے کے جو مرنا ہو تو ایسے ہووئے
عالم غش میں جو آنکھ اس نے نہ کھولی تا دیر
رکھ کے منہ ماتھے پہ چلائے یہ عباس دلیر
آ ذرا ہوش میں اے صاحب شمشیر اے شیر
رہبر دیں پہ نظر کر ابھی آنکھوں کو نہ پھیر
منزلیں طے یہ اسی آن ہوئی جاتی ہیں
سب تیری مشکلیں آسان ہوئی جاتی ہیں
مرحبا اے حر تیرے سرہانے سردار جناں کھڑے ہیں۔ اب نار جہنم کا کیا ڈر؟
اسی اثنا ء میں چہرے مبارک سے پسینے کے قطرے رخ حر پر ٹپکے۔ فورا آنکھیں کھول دیں۔ اس وقت جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا کہ اے مہمان نیم جان کیا حال ہے۔ اس نے عرض کی ،نظم
کیا شرف پائے ہیں اے بادشاہ جن وبشر
آپ زانوئے مبارک پہ لیے ہیں میرا سر
یہ محمد یہ علی ہیں یہ جناب شبر
مجھ سے اک حر یہ فرماتی ہے بادیدہ تر
ناقہ نور وہ آیا وہ عماری آئی
بند کر آنکھوں کو کہ زہرا کی سواری آئی
کیوں عزادارو ہوا جس بی بی کا یہ عزو وقار
بیٹیاں اس کی کھلے سر ہوں میان بازار
تخت پر فخر سے بیٹھا ہو یزید غدار
بے ردا سامنے ہو آل رسول مختار
تپ میں محبوس بلا عابد دل خستہ ہو
دختر فاطمہ بلوئے میں رسن بستہ ہو
الغرض حضرت حر کو غش آگیا،اور تھرتھرا کر آنکھ کھول دی۔ ملک الموت قریب جسم مطہر آئے، حر ہچکیاں لینے لگے۔ جناب امام حسین نے فرمایا کہ اے ملک الموت یہ میرا مہمان ہے۔ اس پر موت کی سختی نہ ہونے پائے۔ مجھ کو صدمہ جانکاہ ہے۔ یہ سن کر حر نے عرض کی کہ مولا اسی طرح بوقت سوال منکر نکیر مدد فرمایئے۔ یہ سن کر جناب امام حسین علیہ سلام نے فرمایا نظم
کچھ نکرین کا ڈر تجھ کو نہ کچھ خوف عذاب
ہم بتائیں گے تجھے ان کے سوالوں کے جواب
جتنے عصیاں ہیں تیرے ہوں گے مبدل بہ ثواب
قبر میں دامن مادر کی طرح کیجیئو خواب
حشر کے روز بھی چھٹنے کا نہیں ساتھ تیرا
دیکھنا ہو گا مرے ہاتھ میں واں ہاتھ ترا
ابھی روتے تھے یہ فرما کے امام دوجہاں
ناگہاں کھنچ کے تن حر سے نکلنے لگی جاں
یا حسین ابن علی کہہ کے کراہا وہ جواں
آنکھیں پتھرا گئیں آنسو ہوئے چہرے پہ رواں
بس کہ صدمہ تھا جدائی کا دل مضطر پر
مر گیا رکھ کے وہ منہ کو قدم سرور پر
لاش پر اپنی عبا ڈال کے رونے لگے شاہ
روح زہرا کی صدا آئی کہ انا للہ
مر گیا عاشق فرزند رسول ذی جاہ
اس وفا دار کا ماتم کرو با نالہ وآہ
اپنے فرزند کے غم خوار کی غم خوار ہوں میں
مجھ کو پرسا دو کہ مہماں کی عزادار ہوں میں
اہلبیت نبوت سے کوئی کہہ دے جا کر
مر گیا میرا پسر روو اسے پیٹ کے سر
بیبیو خاک اڑاتی ہوں میں لاشہ پہ ادھر
بے کفن دیکھ کے مظلوم کو پھٹتا ہے جگر
جان دی اس نے مرے غنچہ دہن کے بدلے
دوں گی میں حلہ فردوس کفن کے بدلے
در خیمہ سے یہ دی شاہ کو صدا فضہ نے
لاش حر ڈیوڑھی پہ لے آیئے یا شاہ ہدا
حرم پاک میں ہے دیر سے سامان عزا
اپنے سر کھولے ہوئے بیبیاں کرتی ہیں بکا
اس طرح خواہر سلطان زمن پیٹتی ہیں
جس طرح بھائی کے ماتم میں بہن پیٹتی ہے
آقا سے اب وزیر کی ہر دم ہے یہ دعا
حر کر دے مجھ کو نار سے جس طرح حر ہوا
Subscribe to:
Posts (Atom)