Saturday, June 26, 2010

چند اشعار

یا رب یہ سادات کا گھر تیرے حوالے
رانڈیں ہیں کئی خستہ جگر تیرے حوالے
مظوم کا بے کس کا پسر تیرے حوالے
سب مر گئے دریا کے گہر تیرے حوالے
امام عالی مقام فوج یزید سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں
نازاں نہ ہو جور پر اے بانی ستم وجور
مٹ جاتا ہے ای گردش افلاک میں یہ دور
تو آج جو حاکم ہے تو کل ہوگا کوئی اور
کیا ہو گئی کر دولت قارون پہ ذرا غور
نمرود نہیں حشمت ضحاک نہیں ہے
ڈھونڈو جو خزانوں میں تو اج خاک نہیں ہے۔
مجھ سا اگر کوئی اور ہو تم لوگوں کا رہبر
بہتر پھرا دو میرے اس حلق پہ خنجر
امت کے جو کام آئے تو حاضر ہے میرا سر
پر میرے سوا کوئی نہیں سبط پیعمبر
کھو کر مجھے ڈھونڈو گے تو فریاد کرو گے
جب میں نہ ملوں گا تو بہت یاد کرو گے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انقلاب تند خوں جس وقت اٹھائے گا نظر
وقت کی پیرانہ سالی سے بھڑک اٹھے گا سر
موت کے سیلاب میں ہر خشک وتر بہہ جائے گا
ہاں مگر نام حسین ابن علی رہ جائے گا
کون جو ہستی کے دھوکے میں نہ آیا وہ حسین
جس نے اپنے خون سے دنیا کو دھویا وہ حسین
جو جواں بیٹے کی میت پہ نہ رویا وہ حسین
کانپتی ہے جس کی پیری کو جوانی دیکھ کر
ہنس دیا وہ تیغ قاتل کی روانی دیکھ کر
ہاں نگاہ غور سے دیکھیں گروہ مومینین
جا رہا ہے کربلا خیر البشر کا جانشین
آسماں ہے لرزہ بر اندام جنبش میں زمیں
زد میں آکے کوئی یہ بچ جائے یہ ممکن نہیں
لو حسین ابن علی نے وہ چڑھائی آستین

ذائقہ ماتم

سفر کربلا

سفر کربلا
جانے والے کربلا کے کربلا لے چل مجھے
روضہ شبیر علیہ سلام پہ دوں گی دعا لے چل مجھے

یہ شعر سنتے تو دل میں عقیدتوں کا سمندر ٹھا ٹیں مارنے لگتا۔ یہ خیال ہی بہت خوش کن اور روح پرور تھا کہ کبھی میں بھی کربلا معلی کی زیارات کروں گی ۔آخر وہ خوب صورت لمحہ آ ہی گیا کہ میں کربلا معلی کی زیارات سے مشرف ہو گئی۔ ہوا یوں کہ ندائے آل عمران میں اشتہار دیکھا کہ شاہد اقبال کچھی خان کا قافلہ اپریل کے آخری ہفتے جانے کو تیا ہر۔ فورا ٹیلی فون کرکے معلومات حاصل کیں۔
اور اپنے دونوں بیٹوں سے بات کی کہ میں کربلا جانا چاہتی ہوں۔ انہیں بھلا کیا اعتراض ہونا تھا۔ چھوٹے بیٹے حسن کو لے کر مسلم ٹاون کچھی صاحب کے آفس گئی۔ اس سے پہلے بیٹے نے ٹیلی فون پر معلومات حاصل کر لی تھیں۔ ان سے بات کی ،انہوں نے کہا کہ بائی روڈ صرف شام کا سفر بائی پلین کروانے کا چھیاسی ہزار روپیہ اور اگر واپسی بائی ایر کروانی ہے۔ تو بیس ہزار روپے اور دینے پڑیں گے۔ دونوں بیٹوں نے کہا کہ آپ واپسی پر بہت تھک گئی ہوں گی ۔اس لئے واپسی بائی ایر بہت مناسب ہے۔ اس لئے ایک لاکھ تین ہزار پر بات مکمل ہوئی۔اور تیس ہزار کا چیک حسن نے اسی وقت کاٹ کر دے دیا۔ باقی پیسے تین ہفتے بعد دینے تھے۔ تین ہفتے بعد ٹیلی فون کرکے گئے ۔ اور باقی پیسے بھی دے آئے۔ روانگی تین مئی کو دوپہر دو بجے تھی۔ گرمئی تو بہت سخت تھی۔ لیکن عشرہ محرم اور چالیسویں پر کربلا معلیٰ میں بہت رش ہوتا ہے۔ اس لئے میں نے یہی موسم منتخب کیا کہ زیارات تو اچھی طرح ہو سکیں۔ یہ نہ ہو کہ اتنی دور جا کر بھی انسان رش کی وجہ سے زیادہ اچھی طرح زیارات نہ کر سکے۔ تمام رشتہ داروں کو اطلاع دے دی گئی
کہ میں زیارات کربلا معلی ،نجف شام ،سامرہ کاظمین ،قم اور مشہد مقدس جانے والی ہوں۔ اتوار کو سب لوگ مجھے خدا حافظ کرنے آئے۔ کچھ کو کھانا کھلایا گیا۔ اور باقی رشتے دا روں کو
بوتلیں اور زردہ کھلایا گیا۔ بسکٹ وغیرہ بھی کھلائے گئے۔ یوں اتوار کی شا م کو رات گئے ہم اس کام سے فارغ ہوئے۔ پیر کو صبح اٹھ کر غسل کیا۔ نیلے رنگ کا پرنٹڈ سوٹ پہنا نوافل ادا کیے۔ اور اپنی تیاری کرتی رہی۔ دوپہر ایک بجے گھر سے جوہر ٹاون روانہ ہوئے۔
کیونکہ کہ قافلہ سالار کی کوٹھی میں انتظام تھا۔ وہاں سے قافلہ آگے روانہ ہونا تھا۔ تقریبا ایک گھنٹہ میں قافلہ سالار شاہد اقبال کی کوٹھی پہنچے۔ وہاں وسیع پیمانے پر انتظام تھا۔ شادی کا سماں لگتا تھا۔ مرغا روسٹ اور نان اور پلاو پکایا ہوا تھا۔ ہاں ساتھ میں نہایت ہی اعلیٰ قسم کا حلوہ تھا۔ پہلے بوتلیں پلائی گئیں۔ پھر کھانا کھلایا گیا۔ ظہر کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو بسیں تیار تھیں۔
بسوں میں بیٹھ کر سیالکوٹ ایر پورٹ کی طرف روانہ ہوئے،تین بجے بسیں روانہ ہوئی تھیں، ہم دوگھنٹے میں سیالکوٹ ایر پورٹ پہنچ گئے۔ وہاں گرمی اور رش بہت زیادہ تھا۔ پاس پورٹ پر مہریں لگوانا تھیں۔ کافی دیر کھڑے رہے۔آخر خدا خدا کرکے باری آئی اور ہم نے پاس پورٹ مکمل کروائے ،تصویریں وغیرہ پاس پورٹ آفس والوں نے کھنچیں۔ اور آدھ گھنٹے بعد پاسپورٹ والوں نے فارغ کر دیا۔ ایک دوگھنٹہ انتظار کرنے کے بعد ہم سب لوگ ہوائی جہاز میں بیٹھ گئے۔ ہمارا تقریبا ایک سو چھ کا قافلہ تھا۔ جہاز نے پرواز کیا۔ اور ہم دو گھنٹے میں شارجہ ایر پورٹ پہنچ گئے۔ رات کے دو بجے کا وقت تھا۔ ہم نیچے اترے اور سامان حاصل کیا۔ شام یعنی سوریہ کا جہاز صبح سات بجے جانا تھا۔ نیند نہیں آرہی تھی۔ بس شارجہ کے بہت خوبصورت ایر پورٹ کی سیر کرتے رہے۔ یہاں پاکستان کی نسبت بہت مہنگائی ہے۔ اور ایر پورٹ پر تو اور بھی چاندی ہے۔ کھانے کی مختلف چیزیں مل رہی تھیں۔
لیکن ہمارے پاس پاکستانی کرنسی تھی۔ ایک دوکان دار پاکستانی کرنسی لینے پر راضی تھا۔ اس سے مینرل واٹر کی بوتل،بسکٹ اور سیون اپ کی بوتل لی۔ ایک نئی زائرہ سہیلی جس کا نام نسبت بتول تھا۔ نے اور میں نے مل کر کھائے۔ بہت زیادہ خوش اور پرجوش تھے۔ پھر کچھ دیر آرام کیا۔ صبح اذانوں کے وقت آنکھ کھل گئی۔ باتھ روم گئے۔ صابن سے منہ ہاتھ دھویا دانت صاف کیے وضو کیا۔ نمازیں پڑھیں اور دیر تک تعقیبات پڑھتے رہے۔
جہاز لیٹ تھا۔ باقر شاہ چونکہ دبئی میں تھا۔ اس سے رابطہ کی بہت کوشش کی۔ ایک شارجہ کی لڑکی سے فون بھی کروایا۔ لیکن نہ ہوسکا۔ صبح آٹھ بجے جہاز میں سوار ہوئے۔ اور جہاز نو بجے روانہ ہوا۔ اور تین گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم دوپہر بارہ بجے پاکستانی وقت کے مطابق دمشق ایر پورٹ پر تھے۔ جہاز سے نیچے اترے۔اور کچھ دیر بعد سامان حاصل کرنے کے لئے برقی سیڑھیوں کے پاس پہنچ گئے۔جہاں سامان خود بخود چلتا ہوا آرہا تھا۔ ہم نے اپنا سامان اتارا۔
ایک بیگ ایک ٹرالی اور ایک شاپر تھا۔ جس میں کھانے پینے کا سامان اور پانی کی بوتل تھی۔ کھانا ہمیں جہاز میں ہی کھلایا گیا تھا۔ شاہین ایرلائن ہے۔ جس پلین میں ہم سوار تھے۔باہر نکلے اپنا سامان خود اٹھاتے ہوئے کافی دیر پیدل چلنے کے بعد بس سٹاپ آیا۔ خدا کا شکر ادا کیا۔ ٹرالی نے یہاں کافی کام کیا۔ اور دوسری بس میں سوار ہو گئے۔ تقریبا ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بس نے ہمیں ٹرمینل پر اتار دیا۔ اب پھر ہم تھے اور ہمارا سامان تھا۔ قافلہ والوں نے مل کر ریڑھی کا انتظام کیا۔
پانچ پانچ زائروں نے اپنا سامان ریڑھی پر لادا ۔ اور ہر فرد نے پندرہ سولیرے یعنی پاکستانی دوسو روپے اداکیے۔ اور سامان کے ساتھ بھری دوپہر میں پیدل چلتے ہوئے کوئی دیڑھ کلو میٹر کا فاصلہ طے کرکے ہوٹل پہنچے ۔یہ ہمارا پہلا پیدل سفر تھا۔ بہت مشکل لگا۔اس کے بعد عادی ہوگئے۔ ہوٹل جاکر بھائی جان کھچی نے کمرے الاٹ کیے۔ اور میں چابی لے کر اپنے کمرے میں آئی۔سامان رکھا۔ پنکھے وغیرہ چلائے۔اور سکون کا سانس لیا۔ کچھ دیر بعد عطیہ اور اس کی والدہ بھی آگئیں۔
ہم تینوں کے لئے ایک ہی کمرہ الاٹ ہوا تھا۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ کچھ دیر آرام کیا۔ دوپہر کا کھانا کھایا۔ جو شاید قافلے والوں نےریڈی میڈ ہی منگوایا تھا۔ پھر نہا دھو کر صاف کپڑے پہن کر بی بی زینب سلام اللہ علیہ کے روضہ مبارک پر گئے۔ جو ہوٹل سے بالکل قریب تھا۔ بہت ہی شان دار روضہ بنا ہوا تھا۔ بڑے بڑے صحن۔اندر داخل ہوئے.اذن دخول پڑھا۔
پھر بڑے بورڈ پر لکھی ہوئی زیارت پڑھی۔ حرم میں داخل ہوئے دو رکعت نماز اذن دخول پڑھی۔ دو رکعت نماز تہیہ مسجد پڑھی۔ پھر روضہ مبارک کے قریب گئے ۔ خوب گریہ کیا اور بی بی پاک کو ان کے بھائی کا پرسہ دیا۔ جو بھی نوحے آتے تھے۔ یاد آگئے اور خوب پڑھے۔پھر نوافل ادا کیے۔ کتاب زیارت پڑھی۔ دعا توسل پڑھی۔ نماز عصر پڑھ کر کچھ دیر روضہ مبارک کو دیکھتے رہے۔
خالص سونے کی بنی ہوئی ضریع مبارک اور شیشے کا کام کاسونے کے کام سے امتزاج عجیب بہار دکھلاتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ لائٹنگ کہاں سے ہورہی ہے۔ بی بی پاک کے روضہ مبارک پر پڑی ہوئی چادر سچے موتیوں اور کام سے اتنی زیادہ بھری ہوئی ہے کہ کپڑا نظر نہیں آتا۔ درود شریف کی تسبیح پڑھی اور ہوٹل واپس آگئے۔ آتے ہی سوگئے۔ دوگھنٹے بعد اٹھے
نیچے ہوٹل کے پاس ہی موبائل کی سیمیں تھیں۔عطیہ دونوں موبائل لے کر گئی اور سمیں ڈلوالائی۔ اور ساتھ ہی موبائل بھی سیٹ کروا لائی۔ میرا نمبر چینج ہوگیا تھا۔ گھر والوں کو ٹیلی فون کرکے اپنی خیریت کی اطلاع دی۔ اور نمبر لکھوایا۔ تین کالیں کیں۔ تھوڑی تھوڑی بات کی۔ لیکن بیلنس اڑنچھو ہوگیا۔ دوسرے دن ذرا محتاط ہوئے اور بیلنس ڈلوا کر گھر والوں کو میسج کرنے کو کہا۔ گھر والے تو میسج کر دیتے۔ لیکن مجھے میسج کرنا نہیں آتا تھا۔ میری طرف سے عطیہ ہی جواب دیتی۔ گھر والوں کے میسج بھی آتے اور فون بھی۔نماز مغرب کا وقت ہونے کو تھا۔فورا وضو کیا اور نماز پڑھنے کے لئے حرم روانہ ہوگئے۔ جلد ہی حرم پہنچ گئے۔یقین ہی نہیں آتا کہ ہم شام میں بی بی پاک کے روضہ پر کھڑے ہیں۔ اور دعائیں مانگ رہے ہیں۔ یہاں ہر انسان دعا ومناجات میں مشغول نظر آتا ہے۔خوب خضوع وخشوع سے اپنے لئے اور اپنے گھر والوں کے لئے بلکہ تمام رشتے داروں کے لئے دعائیں کیں۔ حاضر غیر حاضر سب مومنین کے لئے دعائیں کیں۔ نوافل پڑھے اور گھر واپس آگئے۔ پھر بوسہ دینے کی سعادت حاصل کی۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ بہت اچھی طرح زیارت ہوئی۔ گھر آکر سوگئے۔
مورخہ چھ مئی کو بسوں میں بیٹھ کر شام کے علاقے کی زیارات کو گئے۔
سب سے پہلےصحابی مولا علی علیہ سلام کے مزار پر گئے۔ جس کو مولا علی علیہ
سلام کی محبت میں زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔ حجر بن عدی کے مزار پرگئے۔ نوافل ادا کیے۔خوب دعائیں مانگیں۔ پھر حضرت آدم کے بیٹے ہابیل کی قبر پر گئے۔خوب بڑی سی قبر ہے۔ جس سے ان کے قدو قامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ وہاں بھی نفل ادا کیے۔ اس کے بعد حضرت سکینہ بنت علی علیہ سلام کے مزار پر گئے۔ وہاں سو روپے نذر کے ڈالے۔ دعائیں مانگیں اور خوب گریہ کیا۔ باہر آکر ایک شخص سے دو سو روپے میں تصاویر کی دو البم خریدیں۔ اور ایک سو روپے کی سی ڈی خریدی۔ جو کہ بہت اچھی ثابت ہوئیں۔ مزار سے باہر آکر صحن میں بیٹھ کر ہم نے آلو گوشت اور روٹیاں کھائیں۔ خوب بھوک لگی تھی۔ کسی مومن نے بوتلوں کا تبرک دیا۔ نمازیں پڑھیں ،پھر گورستان غریباں گئے۔ بہت ہی بڑا قبرستان ہے۔ سب سے پہلے ام المومنین بی بی ام سلمیٰ اور بی بی ام حبیبہ کی قبر مبارک پر گئے۔ اس کے بعد بہت سی قبروں سے ہوتے ہوئے اماں فضہ علیہ سلام کے مزار پر آئے۔ سو شامی لیرے یعنی دوسو روپے پاکستانی نذر کے طور پر ڈالے۔ خوب دعائیں مانگیں ،گریہ کیا بی بی زینب سلام اللہ کا پرسہ دیا۔ اس کے بعد حضرت بلال حبشی کا مزار
خوب بڑی سی قبر ہے۔ ہر جگہ زیارات پڑھیں۔ روضہ بہت خوب صورت بنا ہوا ہے۔ دوپہر کا وقت تھا۔ اور گرمی بھی خوب تھی۔ مگر یہ چیزیں عاشقوں کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں۔ اس کے بعد بی بی صغرا علیہ سلام کے مزار مبارک پر گئے۔ خوب گریہ کیا۔ نوحے پڑھے۔نیچے سیڑھیاں اتر کر بی بی سکینہ علیہ سلام کے مزار پر گئے۔ بہت ہی زیادہ رقت طاری ہوئی۔ خوب نوحے پڑھے ،

ماتم کیا۔ قافلے والوں میں سے ایک ذاکر نے مجلس پڑھی۔ نوافل ادا کیے۔ اور پانچ سو روپے پاکستانی نذر کیے۔ وہ تنور بھی دیکھا جہاں مولا حسین علیہ سلام کا سر اقدس رکھا گیا تھا۔ دوتین دفعہ زیارت کی ،خوب گریہ کیا اور سو روپے نذر کیے۔ حجر اسود کی طرح جگہ بنائی گئی ہے۔ وہاں بوسہ دیا۔ وہ جگہ دیکھی ۔جہاں تمام شہدا کے سر مبارک رکھے گئے تھے۔ سبز رنگ کے عماموں کو سروں کی شکل دے کر تلے سے یعنی سفید گوٹے سے اوپر ہر شہدا کا نام لکھا ہوا ہے۔ مومنوں کے لئے تو قیامت ہے۔ خوب گریہ وزاری کی۔ اور سر ہائے مبارک کا صدقہ اتارا۔ سو روپے۔ اس کے بعد بی بی ام کلثوم کے مزار پر گئے۔ خوب ماتم کیے۔ سو روپے نیاز کے چڑھائے ،نوافل ادا کیے۔
سامنے ہی سیکنہ بنت الحسین علیہ سلام کا مزار دیکھا۔ وہاں پر پھر پانچ سوروپے نذر کیے۔ ضریع مبارک پر ذاکروں نے خوب نوحے پڑھے۔سرائیکی ذاکروں نے بھی پڑھا۔ عالم نے مجلس پڑھی۔خوب گریہ کیا۔ ماتم کیا۔ زیارات پڑھیں۔ سامنے ہی بی بی سکینہ بنت الحسین کا مزار ہے۔ وہاں پر ذاکروں اور توقیر اور شیرازی وغیرہ نے خوب اچھی طرح مجلس پڑھی۔ پانچ سوروپے بی بی سکینہ کے مزار پر نذر کیے۔ اس کے بعد ایک عالم نے مجلس پڑھی۔ ماتم کیا اور خوب گریہ کیا۔ پھر ہم حضرت رقیہ کے مزار پر آئے۔ بہت ہی خوبصورت مزار بنا ہوا ہے۔ سچے موتیوں سے ضریع مبارک کی چادر بھری ہوئی ہے۔ کپڑا بالکل نظر نہیں آتا۔ زیادہ تر ایک ہی قسم کے نہایت خوبصورت مزار ہے۔ چادریں مبارک بھی ملتی جلتی ہیں۔ خوب نوحے ماتم کیا۔ دوسو روپے دوعورتوں کو ادھار دیے۔ جو بعد میں انہوں نے واپس کر دیئے۔ زیارت پڑھی۔ نوافل ادا کیے۔ نوحے اور مجلس سے بی بی پاک کو پرسہ دیا گیا۔ پھر کسی مومن نے بوتلوں کا تبرک دیا۔ رات کھانا بھی ڈوگر فیملی نے دیا تھا۔ مرغے کا گوشت بہت اچھی طرح پکا ہوا تھا۔ روٹیاں ،بوتلیں اور نہایت مزے دار قسم کا حلوہ تھا۔ دوپہر کا کھانا بھی ڈوگر فیملی نے دیا تھا۔ مزار کے باہر بیٹھ کر کھایا۔ پھر بس میں بیٹھ کا شام کے بازار حمیدیہ میں گئے۔
انار کلی کی طرح بہت بڑا چھتا ہوا بازار ہے۔ لیکن کھڑکیاں اب بھی وہی ہیں۔ جہاں سے اہل بیت پر پتھر برسائے جاتے تھے۔ سارا قافلہ ماتم اور گریہ وزاری کرتا ہوا گزر رہا تھا۔ عورتوں نے بین کرتے روتے پیٹتے بازار عبور کیا۔ مردوں نے خوب ہاتھ کا ماتم کیا۔ اس طرح بی بی پاک کو پرسہ دیا۔ شام کے لوگ اب بھی اس طرح مذاق کرتے ہیں۔ جیسے ہم پاگل ہیں۔ خدا ایسے بے شرموں کو سزا دے۔ دائیں بائیں بازار میں بہت زیادہ کھڑکیاں
جہاں سے سادات پر پتھر برسائے گئے تھے۔ دیکھنے سے یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ خدا ایرانیوں کا بھلا کرے جنہوں نے یہ جگہ خرید کر وقف کر دی ہے۔ پھر مسجد اموی دیکھی۔وہاں حضرت یحیٰ علیہ سلام کا مزار ہے۔ وہ جگہ بھی دیکھی جہاں حضرت یحیٰ کا سرمبارک رکھا گیا تھا۔ حضرت امام زین العابدین کا محراب عبادت دیکھا۔
جہاں آپ عبادت کرتے تھے۔ وہ جگہ بھی دیکھی جہاں بیبیاں پاک کھڑی تھیں۔ یزید پلید کا دربار دیکھا۔ جہاں تخت تھا۔ نیچے سیڑھیاں ہیں۔ جہاں مولا دوجہاں کا سر مبارک رکھا گیا تھا۔ بہت گریہ کیا۔ ویران محل کے کھنڈرات دیکھے۔ باہر نکل کر کافی آگے حضرت بی بی رقیہ بنت الحسین کا مزار دیکھا۔ ایرانیوں نے بہت ہی بڑا حرم اور بہت خوب صورت مزار بنایا ہوا ہے۔ اس کے بعد چھوٹے اور تنگ بازاروں سے ہو کر شارٹ کٹ کرتے ہوئے باہر سڑک پر آئے۔ اور کچھی بھائی نے فون کرکے بس والوں کو ادھر ہی بلا لیا۔ کیونکہ بہت زیادہ تھک گئے تھے۔ بسوں میں بیٹھ کر ہوٹل آگئے۔ اگلا سارا دن آرام کیا۔
صرف حرم میں جاکر نمازیں اور دعائیں پڑھتے رہے۔ ہر جگہ آسانی سے زیارات کی مفصل کتاب مل جاتی ہے۔ جس میں اذن دخول سے لے کر وداع تک کی حتی کی زیارت امین، اور زیارت عاشورا بھی بڑی والی درج ہوتی ہے۔ نو مئی دو ہزار دس کو رات گیارہ بجے حلب اور رقعہ کے لئے روانہ ہوئے۔
جو شام سے چار سوستر کلو میٹر دور ہے۔ ساری رات کا سفر کرکے صبح آٹھ بجے حضرت عمار یاسر اور حضرت اویس قرنی کے مزار پر پہنچے۔ باتھ روم گئے۔ وضو کیا۔ نوافل ادا کیے۔ اور رات کا ٹھنڈا کھانا کھایا۔ روٹیاں بہت سخت تھیں۔ خوب زیارات کیں۔ نوافل ادا کیے۔ یہاں سے گیارہ بجے روانہ ہوئے
اور کافی سفر کرکے حلب پہنچے۔ وہاں ایک جگہ راس الحسین علیہ سلام ہے۔ وہ ایک پتھر ہے۔ جس پر مولا کا سر مبارک رکھا گیا تھا۔ ابھی بھی تازہ نشان ہے۔ ایک جگہ سے خون نکلتا ہے۔ پتھر کے اوپر ایک جگہ پر چار انچ مربع جگہ پر تازہ خون نکلتا ہے۔ خوب گریہ وزاری وماتم کیا۔ پھر بس میں سوار ہوئے اور کافی دور جا کر حضرت ذکریا علیہ سلام کا مزار دیکھا۔ فاتحہ پڑھی،نوافل ادا کیے۔ اور چار سوستر میل کا سفر کرکے رات دس بجے واپس ہوٹل پہنچے۔ پاوں،ٹانگیں ،انگلیاں خوب سوجھی ہوئی تھیں ،رات بس میں پیر لٹکانے کی وجہ سے۔ کھانا کھا کر نمازیں پڑھیں اور سوگئے۔ صبح فریش تھے۔ پیر وغیرہ بھی بالکل ٹھیک ہو گئے تھے۔ والٹران وغیرہ مل کر سوجاتی ہوں۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ صبح حرم جا کر نمازیں پڑھی۔ زیارات پڑھیں۔ دوتین گھنٹے عبادت کی۔واپس گھر آکر کپڑے دھوئے، ناشتہ کیا کھانا کھایا ،تھوڑی دیر آرام کیا، حرم چلے گئے ،کل دس مئی بروز پیر کربلا معلیٰ جانا ہے۔
دس مئی بسوں میں بیٹھ کر کربلا روانہ ہوئے۔کوئی آٹھ گھنٹے کے سفر کے بعد چیک پوسٹ آگئی۔ چیک پوسٹیں تو کئی تھیں۔ لیکن یہاں بہت ٹائم لگا ،سامان بھی چیک ہوا۔ کیونکہ عراق کا بارڈر تھا۔ اور یہاں خود کش بم دھماکوں کا خطرہ رہتا۔ ہمیں بھی اچھی طرح چیک کیا۔ ہماری بس کو بھی چیک کیا۔ اور کافی دیر کھڑا کرنے کے بعد پاس پورٹ پر مہریں لگائی گئیں۔ رات اسی کام میں گزر گئی۔سخت گرمئی تھی۔ پھر بسوں میں سوار ہوئے لگتا تھا کہ بسوں کے اے سی خراب ہیں۔ اور کوئی آٹھ گھنٹے کا سفر کرکے کربلا معلیٰ پہنچے۔ سارا علاقہ ویران اور برباد ہے۔ امریکیوں نے بم باری کرکر کے کچھ نہیں چھوڑا لگتا ہے۔ کہ کبھی کربلا نہیں آئے گی۔ لوگوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ بہت ہی زیادہ غربت ہے۔ راستے میں کوئی دس دفعہ چیکنگ ہوئی اور آخر کار بسوں نے ہمیں بھری دوپہر میں ہوٹل سے دو میل دور اتار دیا۔ ان کا قانون ہے۔ سیکیورٹی رسک کے پیش نظر،لیکن یہ چیز زائرین کو بہت مہنگی پڑتی ہے۔ یہ راستہ سامان کے ساتھ پیدل طے کرنا ہوتا ہے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے مدد کی اور ٹرالیوں میں سامان رکھ کر ہوٹل پہنچ گئے۔ وہاں پر قافلہ سالار شاہد اقبال بھائی نے کمرے الاٹ کیے۔ اور ہم اپنا سامان خود اٹھا کر تیسری منزل پر پہنچے کہ لفٹ خراب تھی۔ اور بجلی کا نظام بھی بہت خراب تھا۔ سامان رکھا۔ قافلہ سالار نے خود جا کر بجلی ٹھیک کروائی۔ لیکن وہ لوگ ایک کمرے کی ٹھیک کرتے ہیں تو دوسرے کی خراب کر دیتے ہیں۔ نلکوں میں پانی کافی گرم آرہا تھا۔ خیر غسل کیا کپڑے تبدیل کیے۔ کھانا کھایا اور مولا حسین کے روضے پر آگئے۔
روضہ مبارک بہت ہی خوب صورت بنایا ہوا ہے۔ ہوٹل تو حرم کے بالکل پاس ہے۔ لیکن ماشا اللہ حرم بھی بہت بڑا ہے۔ یہاں بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔ ایک طرف مولا حسین علیہ سلام معہ شہزادہ علی اصغر اور شہزادہ علی اکبر کے ساتھ بہت ہی خوبصورت مزار بنا ہوا ہے۔ وہاں سے تھوڑی ہی دور گنج شہیداں ہے۔ جہاں تمام شہدا کا ایک اجتماعی مزار ہے۔
دونوں بہت ہی زیادہ خوب صورت ہیں۔ دل کھول کر گریہ کیا مولا کو پرسہ دیا۔ بوسہ دیا۔ بہت اچھی طرح زیارت کی۔ پھر گنج شہیداں آئے۔ اور یہاں بھی مولا کو خوب رورو کر پرسہ دیا۔ دس دس ہزار عراقی دینار دونوں جگہ چڑھائے۔ تقریبا پاکستانی سولہ سو روپے نذر کیے۔ سارے خاندان خصوصا والدہ کے لئے بہت دعائیں کیں۔نوافل ادا کیے۔
بارہ مئی کو دوبارہ حرم پاک گئے۔ نمازیں پڑھیں۔ زیارات کی پوری کتابیں پڑھیں ،نوافل ادا کیے۔ پاکستانی قافلے کے ساتھ نوحے پڑھ کر مولا اور بی بی پاک کو پرسہ دیا۔ شام کو چار بجے قافلہ سالار کے ساتھ ٹلہ زینبیہ پر گئے۔اچھی طرح اندر جا کر زیارت کی۔ پھر نہر فرات ،نہر علقمہ اور مقام شہزادہ علی اکبر اور مقام شہزادہ علی اصغر دیکھا۔ مسجد امام زمانہ دیکھی۔ ہمارے ہوٹل کی بیسمنٹ میں ایک امام بارگاہ ہے۔ وہاں مجالس ہوتی ہیں۔ وہاں پر دو چیزیں دیکھیں۔ ایک تو وہ جگہ جہاں شہزادہ علی اکبر کو مولا نے لا کر لٹایا تھا۔ ان کی کوئی کوئی سانسیں باقی تھیں اور بیبیوں سے کہا تھا کہ آکر زیارت کر لیں۔ دوسرے ٹائلوں سے ایک تصویر بنائی ہوئی تھی۔ جس میں ایک زخمی ذوالجناح دکھایا گیا تھا۔ اور اس کے آگے مستورات بیٹھی رو رہی ہیں ۔خاص کر ایک بی بی زینب سلام اللہ علیہا اور ان کی کمر کے ساتھ ایک بچی بال بکھرائے رو رہی ہے۔ سب زیارات کیں۔ خیام حسینی کی زیارت کیں۔ مقام شہزادہ قاسم اور مقام شہزادہ علی اکبر دیکھا۔ مقتل گاہ دیکھی۔ جہاں ہر شہزادہ علی اصغر کو تیر لگا تھا۔ وہ جگہ بھی دیکھی اور جہاں پر شہزادہ علی اکبر کو برچھی لگی تھی۔ وہ جگہ بھی دیکھی۔ وہ جگہ بھی دیکھی جہاں مولا حسین کو نیزہ لگا تھا۔ اور آپ رہوار کی پشت پر سنبھل نہیں سکے تھے۔
نیزہ مارنے والے صالح بن وہب پر بہت زیادہ لعنت کی۔ پھر وہاں سے غازی عباس مولا کے مزار پر آگئے۔ دونوں بھائیوں کے مزار آمنے سامنے ہیں۔ اور شان وشوکت میں تقریبا ایک جیسے ہیں۔ درمیان میں راستہ ہے۔ وہاں گئے۔ گریہ کیا۔ بی بی کو پرسہ دیا۔ بہت ہی زیادہ ٹھنڈ ہے۔ سردی لگنے لگ جاتی ہے۔ جے کدی سین تیرا غازی بھرا نہ مردا۔ نہ کوئی خیمہ جل دا نہ لیٹیندا تیرا پردا۔ قطع یدین جہاں مولا کے دونوں بازو قلم ہوئے تھے۔ وہ جگہ دیکھی۔ شیر فضہ دیکھا۔ جو کافی آگے جا کر تقریباہر روز مولا کے روضے پر زیارت کے لئے جاتے رہے۔ ایک دن میں اور نسبہ گئے۔ رش بالکل نہیں تھا۔ ہم دونوں نے دل کھول کر زیارت کی۔ اور رقعے لکھ کر ڈالے۔ دوسرے دن گھر سے سب گھر والوں کے رقعے چھانٹ کر لائی ۔اور یہاں ڈالے۔ مولا
کے روضہ مبارک پر بہت رش تھا۔ اس لئے تھیلی سمیت رقعے ڈال دیے۔ تاکہ کسی کا رہ نہ جائے ۔ یا گر نہ جائے۔ دوسرے دن مولا حسین کے روضہ مبارک پر پاس پورٹ جمع کروائے۔ دونوں جگہ سے لنگر ملتا ہے۔ لیکن ایک زائر کو ایک ہی جگہ سے لینا ہوتا ہے۔ ہمارے آدھے قافلے نے ادھر اور آدھے نے مولا غازی کے روضہ پر پاس پورٹ جمع کروائے۔ انہوں نے جلد ہی چٹیں دے دیں اور پاس پورٹ بھی واپس کر دیئے۔ دوپہر چاول اور بکرے کے گوشت کا سالن تھا۔ ساتھ میں کیلا بھی تھا۔ اور رائیتہ بھی ۔خوب مزے سے دونوں وقت کھایا۔ ایک رات مولا حسین اور غازی عباس مولا کے روضے پر بسر کی۔ میں نے عطیہ اور اس کی امی نے
دوسرے دن قافلے والے ہمیں مسیب لے گئے۔ مسیب میں امیر مسلم کے بچوں کے روضے دیکھے۔ خوب نوحے پڑھے اور گریہ کیا۔ پھر بی بی زینب سلام علیہا کے چھوٹے بچے جناب محمد کا مزار دیکھا۔ بہت ہی زیادہ گریہ کیا۔ معصوم بچے کی شہادت پر۔ مسیب سے کجھوریں بھی خریدیں۔ میں نے کربلا میں اپنے گھر کے پاس ایک دکان دار سے بھی پانچ کلو کجھوریں خریدیں ہیں۔ موسمی کا جوس پیا ۔مزے دار تھا۔ دو پیکیٹ اور بھی جوس کے پیے۔ کربلا معلی میں بہت زیادہ زیارات ہیں۔
گھر آکر دودھ پیا اور سوگئی۔ روزانہ پانچ سو عراقی دینار کی روٹیاں لاتی ہوں ۔ سارا دن گزر جاتا ہے۔ کسی کو بھی دے دیتی ہوں۔ اتوار سولہ مئی کو مسجد کوفہ پہنچے۔ حضرت خدیجہ بنت علی کا روضہ دیکھا۔ امیر مختار کا روضہ دیکھا۔ مسجد حنانہ دیکھی ۔ اس وقت مسجد کی چھت نہیں تھی۔ جس میں یزیدی کافروں نے سر مبارک شہدا پھینکے تھے۔ تاکہ رات گزر جائے ۔اور صبح آگے روانہ ہوں۔ مسجد کوفہ میں منبر سلونی اور مقام جناب امیر دیکھا۔ جہاں مولا علی علیہ سلام کو ضربت لگی تھی۔ وہ جگہ دیکھی۔ مولا علی کو جہاں نہلایا گیا تھا۔ وہ کنواں بھی دیکھا۔ جہاں مولا علی کو کفن پہنایا گیا تھا۔ خوب گریہ کیا ۔ ذاکروں نے مجلس پڑھی۔وہ جگہ بھی
دیکھی۔ مختلف مصلوں پر نمازیں پڑھیں۔
جو تقریبا چھیالیس تھے۔ روضہ میثیم تیمار دیکھا۔ جھنگ کے ذاکرین بھی اچھا پڑھتے ہیں۔ کل شام کو غسل کرکے کپڑے تبدیل کرکے مولا علی علیہ سلام کے حرم گئے۔ مغرب عشا پڑھی۔ دل کھول کر زیارت کی۔ آسانی سے زیارت ہو گئی۔ ایک تو رش کم ہے۔ دوسرے عراقی خواتین کا انتظام بہت اچھا تھا۔ لائن بنوا کر سب کو زیارت کا موقعہ دیتی ہیں۔ یہ بہت ہی اچھا ہے۔ کاش کربلا معلیٰ اور مشہد مقدس میں بھی یہ انتظام ہو جائے۔ کیونکہ سعودیہ میں روضہ نبی پاک پر اس سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ لیکن خدام حرم بڑے اچھے طریقے سے ہر ایک کو موقعہ دیتی ہیں۔ گھر والوں کی عرضیاں روضہ مبارک کے اندر ڈالیں۔ تاکہ مقبول ہو جائیں۔ پانچ ہزار عراقی دینار مولا کی نذر کیے۔ چار جگہ دوسو پچاس دینار ڈالے۔ یعنی ایک ہزار عراقی دینار۔ ایک جگہ پندرہ سودینار چڑھائے۔ ۱۲۰۰ دینار کا پاکستانی سو بنتا ہے۔ کربلا میں رش کی وجہ سے پسلی دب گئی تھی۔ کافی درد ہو رہا ہے۔ وہاں کے ڈاکٹر سے دوائی لی۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سانس ہی نہیں آتا آسانی سے۔ اپنی دوائیں اور پین کلر ملی ہے۔ مجھے الرجی کی وجہ سے نزلہ زکام ہو گیا ہے۔ ٹانگیں پاوں سب سوجھے ہوئے ہیں۔ اپنی دوائیں استعمال کر رہی ہوں۔ روضہ پاک پر جا کر دعا مانگی اور منٹوں میں ٹھیک ہو گئی۔ بہر حال خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ کہ شام ،کربلا اور نجف میں بہت زیادہ زیارات کیں۔ ریڑھیوں میں سامان رکھوایا۔ایک ہزار دینار کرایہ دینا پڑا ،لیکن اٹھانے سے بہت بہتر ہے۔ ایک اور بس میں سوار ہوئے۔اور تھوڑا سا پیدل چل کر ہوٹل پہنچے۔ پانچ سودینار ویگن کا کرایہ دیا۔ سامان بہت بھاری تھا۔ ایک عراقی لڑکا اوپر سامان چھوڑ آیا۔ اس کو حق زحمت پانچ سودینار دیے۔ خوش ہو گیا۔ راستے میں کھانے کو بریانی ملی تھی۔ لیکن زیادہ نہیں کھائی گئی۔ گرمی بہت زیادہ ہے ۔اور ہوٹل میں بجلی بھی نہیں۔ بلڈ پریشر ہو رہا ہے۔
بازار گئی ۔ پاکستانی ہزار روپے دے کر عراقی دینار لیے۔ اور دوکان دار سے دودھ ،دہی اور سیون اپ کی بوتل لے کر گھر آئی ۔لیکن مصیبت یہ ہے کہ مجھے سیون اپ بھی موافق نہیں۔ خیر خدا کا شکر ہے گزارا کیا۔ کل حرم گئی ۔ توقیر کہیں سے بہت زیادہ کفن خرید کر لایا۔ قافلے کا ایک لڑکا ہے۔ بڑا مودب بچہ ہے۔
اور تعاون بھی کرتا ہے۔ اس سے پندرہ سو عراقی دینار کے دو کفن خریدے معہ زیور اور خاک شفا کے۔ مولا حسین کے روضہ مبارک اور غازی عباس مولا کے روضے سے خوب مس کیا۔ ایک اپنے لئے اور دوسرا والدہ کے لئے خریدا۔ کھول کر مس کیے ہیں۔اور اسی طرح نجف میں مس کروں گی۔ کربلا معلیٰ میں بہت زیادہ رش تھا۔ لیکن پھر بھی ہر روز زیارت ہو جاتی ہے۔ اچھی طرح میں باقی لوگوں کی طرح کھپ نہیں ڈالتی۔ اور نہ ہی عراقی لوگوں کی برائیاں کرتی ہوں ،بس چپ رہتی ہوں اور درود شریف پڑھتی رہتی ہوں۔ اس طرح خود بخود زیارت ہو جاتی ہے۔
چار ہزار دینار کی تیس تسبحیاں اور ایک ہزار دینار کی دس تسبیحاں خریدیں۔ پانچ کلو کجھوریں پانچ ہزار عراقی دینار کی خریدیں۔ لیکن وزن بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ لگتا ہے مشکل ہی لاہور پہنچیں گی ۔یہاں قافلہ والوں میں بانٹ دی گئی ہیں۔ دو کلو حرم میں بانٹ دیں ۔یہ بھی بہت اچھا ہوا ہے۔ آج ایک جگہ حضرت عبداللہ محض کا مزار دیکھا۔ یہاں دو مجلسیں سنیں۔ہوٹل کی بیسمنٹ میں جو زیارات ہیں۔ وہ کیں۔ ایک ذاکر نے شہادت حضرت قاسم بہت اچھے انداز میں پڑھی۔ بہت گریہ ہوا۔ شام اور کربلا دونوں جگہ ہمارا قافلہ مجلس کرتا ہے۔ اب کاظمین روانہ ہونے والے ہیں۔ یہاں سے سامرہ بھی جائیں گے۔ امیر مسلم اور ہانی بن عروہ کے مزارات کی زیارت کیں۔ کمیل ابن زیاد دعائے کمیل والے کے روضہ کی زیارات کیں۔ ہر جگہ پانچ سو دینار نذر کیے۔ کل امام زمانہ کے چاہ کے پاس دوپچاس دینار رکھے۔ کل وادی اسلام میں چالیس مومنوں کی قبریں بھی بنائیں۔ وادی اسلام اور روضہ امام حسین علیہ سلام ہمارے ہو ٹل سے بالکل قریب ہے۔ اپنے سارے خاندان کی قبریں بنائیں۔
صبح چار بجے گھر سے روانہ ہوئے ۔رات تین بجے ہوٹل سے حرم مبارک پہنچے۔ نمازیں اور نوافل ادا کیے۔ وداع ہوئے۔ دعائے وداع پڑھی۔ اور ہوٹل آکر سامان نیچے اتارا ۔ سامان ریڑھیوں میں لاد کر خود پیدل روانہ ہوئے۔ چونکہ صبح کا وقت ہے۔
اور تازہ دم بھی ہیں۔ اس لئے آسانی سے بس سٹاپ پہنچ گئے۔ بسوں میں بیٹھ کر کاظمین کی طرف روانہ ہوئے۔ کاظمین میں امام موسیٰ کاظم علیہ سلام اور امام تقی علیہ سلام معروف بہ امام جواد علیہ سلام کے روضہ مبارک کی زیارات کیں۔ زیادہ رش نہیں تھا۔
چادریں ،تسبیحیں اور ساوے کا سبز کپڑا اچھی طرح مس کیا۔ امام موسیٰ کا ظم کے مزار پر پانچ ہزار عراقی دینار اور امام جواد کے مزار پر ایک ہزار عراقی دینار نذر کیے۔ اس کے بعد بس میں بیٹھ کر اور کا فی سفر کرکے سامرہ پہنچے۔ یہاں امام حسن عسکری کے مزار مبارک کی زیارت کی۔ امریکی کافروں نے سارا مزار ہی شہید کر دیا ہوا ہے۔ دوبارہ تعمیر جا ری ہے۔ سا مرہ کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ ہمیں بس سٹاپ سے لانے کے لئے بسیں فری بھیجیں۔ اچھا کھانا بھی کھلایا۔ امام حسن عسکری کے لنگر سے اور منرل واٹر کی ٹھنڈی بوتلیں بھی دیں۔
دوسرے دن قافلہ والوں نے دور کی زیارات کا پروگرام بنایا۔ بس سٹاپ پر پیدل گئے۔
کوئی ایک یا ڈیڑھ کلو میٹر چل کر پھر بسوں میں بیٹھے اور روانہ ہوگئے۔
انیس مئی بروز بدھ صبح چار بجے نجف سے نکلے۔سامان ٹرالیوں پر لادا اور خود ہم پیدل بس سٹاپ تک آئے۔ بس میں سوار ہوئے اور دن بارہ بجے سامرہ امام حسن عسکری علیہ سلام کے مزار پر پہنچے۔ یہاں ہی امام زمانہ کی والدہ بی بی نرجس خاتون کا مزار اور امام زمانہ کا غیبت کی جگہ ہے۔ امریکی مردود کی بم باری سے سارا روضہ مبارک شہید ہو گیا ہوا۔ کروڑں بلکہ اربوں کا مالی نقصان الگ اور مومنین کی دل آزاری الگ۔ دوبارہ تعمیر ہورہا ہے۔ نماز ظہر عصر ادا کی۔ نوافل ادا کیے۔ گریہ زاری کی طواف کیا۔اور دوہزار عراقی دینار امام حسن عسکری کے مزار پر ڈالے اور ایک ہزار امام زمانہ کے سرداب خانے میں ڈالے۔سیڑھیاں اتر کر نیچے گئے۔ امام زمانہ کی غیبت کبری کی جگہ دیکھی۔نوافل ادا کیے۔اس کے بعد بلد میں امام تقی علیہ سلام معروف بہ امام جواد علیہ سلام کے مزار پر آئے۔ آٹھ نوافل ادا کیے۔ پانچ سو روپے پاکستانی نذر امام کیے۔
کل صبح چار بجے کاظمین سے روانہ ہوئے۔ سامان تو ریڑھیوں پر لادا گیا اور خود ہم پیدل ہی بس سٹاپ کی طرف چل پڑے۔ سامان بس میں لوڈ کروا کر بسوں میں بیٹھ گئے۔ گیارہ بجے دن عراق کے بارڈر پر پہنچے۔ خروج کی مہریں لگوا کر اندر داخل ہوئے۔ پھر ریڑھیوں پر سامان لاد کر چلے۔ اور ایران کے بارڈر سے دخول کی مہریں لگوائیں۔ اور سامان وغیرہ چیک کروا کر بارڈر کی بنی ہوئی عمارت میں زمین پر سامان رکھ کر بیٹھ گئے۔ قافلے والوں نے دال روٹی پکا کر کھانا کھلایا۔ پھر سامان ریڑھیوں پر لادا گیا۔ اور ایران کی سرحد کے اندر بس سٹاپ تک آئے۔ بس پانچ بجے شام روانہ ہوئی ۔ ساری رات سفر کرنے کے بعد صبح آٹھ بجے قم شریف پہنچے۔ پھر ریڑھیوں میں سامان بھر کر بس سٹاپ پہنچے۔ اور دوسری بس میں بیٹھ کر ہوٹل مہمان پذیر آگئے۔ یہ ہوٹل کا نام ہے۔ دوسری منزل پر کمرہ الاٹ ہوا۔ سامان دوسری منزل پر خود چڑھایا ۔اور کمرے میں جا کر قیام کیا۔قم میں ہمارا قیام تین تھا۔ سکون ہوا۔ سارا شہر بھی صاف ستھرا ہے۔ بی بی معصومہ قم کے روضہ مبارک پر حاضری دی۔ روایت ہے کہ کسی نے چودہ معصومین کی زیارت کرنی ہو تو وہ بی بی معصومہ قم کے مزار پر حاضری دے۔ یہ بی بی امام رضا علیہ سلام کی بڑی لاڈلی بہن ہیں۔ اور اپنے بھائی کی محبت میں جنگلوں ،پہاڑوں کا سفر کرتی ہوئی معہ اپنے چار بھائیوں اور قافلے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مدینہ سے روانہ ہوئی تھیں۔راستے میں کسی نے بادشاہ کو غلط مخبری کر دی کہ یہ معظمہ اس سے لڑنے آرہی ہیں۔ اس نے اپنی فوج بھیجی جس نے قافلہ پر حملہ کر دیا۔ اور آپ کے چار بھائی اس حملے میں اور قافلے کے دوسرے لوگ بھی شہید ہو گئے۔ صرف آپ اور ایک نوکرانی بچی۔ بی بی نے ایک بہت بڑے مومن موسیٰ خزرجی کو پیغام بھیجا۔ وہ خود بی بی کے استقبال کو آیا۔ اور ساتھ میں پینتیس محمل تیار کروائے۔ سترہ محمل بی بی پاک کی سواری کے آگے۔ اور سترہ محمل سواری کے پیچھے چلتے۔ آخر کار آپ موسیٰ خزرجی کے گھر پہنچیں۔ راستے ہی میں آپ کو زہر دے دیا گیا تھا۔ آپ نے سترہ روز موسیٰ خزرجی کے گھر قیام کیا۔ اور دعا وعبادات میں مشغول رہیں۔ کہ آپ کو آپ کے بھائی امام رضا کی شہادت کی خبر ملی۔ جسے سن کر آپ برداشت نہ کر سکیں۔ کیونکہ جس بھائی سے ملنے کے لئے اتنا لمبا سفر کیا تھا۔ اور چار دوسرے بھائیوں کی قربانی دی تھی۔ اس سے نہ مل سکیں اور پھر اسی صدمہ سے وفات پا گئیں۔ بی بی کا روضہ پاک علم وعرفان کا مرکز ہے۔ جہاں سے ہزاروں تشنگان علم پیاس بجھاتے ہیں۔ اور علم حاصل کرتے رہیں گے۔ حوزہ علمیہ قم دنیا کی بہترین علمی یونیورسٹی ہے۔ جہاں سے آیت اللہ اور حجت اللہ علم حاصل کرتے ہیں۔ قم شہر کی دوسرے سن ساری زیارات کیں۔ مقنے وغیرہ خریدے۔ اور اپنی بیٹی کی درگاہ کے لئے دو بہت ہی خوب صورت چادریں خریدیں۔ کالی فلیٹ کی ہیں اور اوپر بہت ہی خوب صورت یا ابا عبد اللہ الحسین اور آیات لکھی ہوئی ہیں۔ اور دوسری پر یا زہرا لکھا ہوا ہے۔ گول دائرے میں اور قرانی آیات لکھی ہوئی ہیں۔قم کے راستے مشہد آتے ہوئے راستے میں بہت سی زیارات کیں۔ سب سے پہلے امام خیمنی کے مزار پر گئے۔ بہت بڑا مزار ہے۔ نیچے اترے وضو کیا۔ نوافل ادا کیے۔ پھر شاہ عبد العظیم کے مزار پر گئے۔ ہر مزار دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے بعد امام زین العابدین کے بیٹوں شہزادہ طاہر اور شہزادہ حمزہ کے مزار پر گئے۔ پھر بس میں بیٹھے۔ اور ایک گھنٹہ سفر کرنے کے بعد بی بی شہر بانو کے مزار پر پہنچے۔ بی بی کا مزار پہاڑی کے اوپر ہے۔ اور چڑھتے ہوئے سانس پھولتا ہے۔ خیر خدا نے مدد کی اور ہم پہاڑی پر چڑھ کر گئے۔ اور بی بی پاک کو پرسا دے کر آئے۔ وہاں سے واپسی پر ایک دکان سے بسکٹ اور منرل واٹر کی بوتل خریدی۔ وہاں سے آکر بس میں بیٹھے۔ اور ساری رات کا سفر کرنے کے بعد صبح نیشا پور قدم گاہ امام رضا علیہ سلام پہنچے۔ وہاں پہاڑی کے اوپر آپ کے قدموں کے نشان مبارک دیکھے۔ جہاں سے چشمہ پھوٹتا ہے۔ وہاں سے لوگوں نے پانی بھرا کین خرید کر میں نے تو صرف پانی پیا۔ پانی بہت ٹھنڈا اور میٹھا ہے۔ تصاویر کا البم خریدا ، جس میں اس تمام مقام کے مناظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔وہاں سے پھر بس میں بیٹھے اور دن گیارہ بجے کے قریب مشہد میں داخل ہوئے۔ہوٹل میں قیام کیا۔ ہمارا ہوٹل مولا کے روضے سے اتنا قریب ہے۔ کہ ہمارے ہوٹل کے کمرے سے مولا کے گنبد بالکل صاف اور قریب نظر آتے ہیں۔ کھڑکی کھولتے ہی دل خوش ہو گیا۔ بالکل سیدھا جا کر دو منٹ کی مسافت پر باب طبرسی ہے۔ اندر داخل ہوں تو برآمدے سے ہوتے ہوئے سیدھے، کفش داریوں تک آتے ہیں۔ جوتے اتار کر اور جامہ تلاشی دے کے سیدھے مولا رضا کے حرم کے پاس پہنچے۔
خوب دل کھول کر سلام پیش کیا۔ بوسہ لیا۔ اور اپنے مولا کے قدموں میں سر کو جھکا دیا۔ اذن دخول پڑھا۔ زیارت پڑھی۔ بالکل پورا زیارت نامہ بڑے والا ختم کیا۔ جو کہ ایک کتاب کی صورت میں ہے۔ مولا کے روضے پر چار ہزار جمع پندرہ سو ایرانی تومان نذر کیے۔ تاکہ مولا ہمیں بہت زیادہ رزق سے نوازیں۔یہاں ہمارا قیام پانچ دن کا ہے۔ کل آس پاس کی زیارات بھی کریں گے۔ اور شاپنگ بھی۔ یہاں سے ہی بچوں کے لئے کجھوریں اور چنوں کا ملا جلا تبرک خریدا۔ سب کے لئے نمازی رومال اور سجدے گاہیں خریدیں۔ بچوں کے لئے سکارف اور زہرا ردا کے لئے چادریں خریدیں۔ شہر بانو ،انجم اور تلمیذ کی چادریں میں شام سے ہی خرید کر مس کرتی ہوئی لائی ہوں۔ کوئی چھ ہزار روپے پاکستانی کے نگ یعنی یاقوت ،فیروزے عقیق وغیرہ خریدے۔ باقر شاہ کی درگاہ کے لئے ایک بارہ گز مخمل کا کپڑا خریدا۔
جس پر مولا حسین کے روضہ مبارک کی کئی تصاویر بنی ہوئی ہیں۔ ایک ملنگنی کو پچاس روپے پاکستانی دیے۔ باورچی کو پندرہ سو روپے ایرانی دیے۔ اب میرے پاس صرف دوسو روپے پاکستانی ہیں۔ چونتیس ہزار روپے میں سے۔ آج تیس تاریخ ہے۔ تمام زیارات مکمل ہو گئی ہیں۔ ہمیں بذریعہ ایرو پلین مشہد سے لاہور پہنچنا ہے۔ سامان وغیرہ رات ہی باندھ لیا تھا۔ صبح آٹھ بجے ہوٹل سے نیچے سامان اتارا ۔ اور آکر بیٹھ گئے۔ کل بتیس لوگ ہیں۔ جو ہوائی جہاز کے ذریعے جائیں گے۔ باقی بائی روڈ آئیں گے اور تین تاریخ کو اپنے گھروں کو پہنچیں گے۔ ساڑھے نو بجے بس آئی سامان رکھوایا اور بیٹھ گئے۔ راستے میں روتی رہی اور اپنے مولا سے جدا ہوتی رہی۔ اور دعائیں مانگتی رہی۔ دس بجے ایر پورٹ پہنچے۔ کل قافلے کی ایک عورت کو ہارٹ اٹیک ہو گیا تھا۔ ساری رات اس نے ہسپتال میں گزاری ہے۔ صبح سیدھی ایر پورٹ پہنچے گی۔ دونوں میاں بیوی ہیں۔ عطیہ مریضہ کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔
کیونکہ قافلہ سالار نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے۔ ایک بجے دن شاہد اقبال بھائی جو قافلہ سالار ہیں آئے اسی مریضہ کو لیے ہوئے اور سب لوگوں میں پاس پورٹ اور ٹکٹیں بانٹیں۔ اور تاکید کی کہ سامان اکھٹے وزن کر والیں۔ تاکہ کوئی مسلہ نہ ہو۔دن ڈھائی بجے جہاز روانہ ہوا۔راستے میں کھانا کھلایا جو چنے والے چاول رایتہ اور گوشت کے سالن کے ساتھ تھا۔ ساتھ ہی کیک پیس اور چائے کا سامان تھا۔ بوتلیں پہلے پلائی تھیں۔ بھوک لگی ہوئی تھی۔ کافی مزہ آیا۔اور دو گھنٹہ دس منٹ کی پرواز کرکے جو آٹھا ئیس ہزار فٹ کی بلندی پر تھی۔ علامہ اقبال انٹر نینشل ایر پورٹ لاہور پہنچا۔ دونوں بیٹے استقبال کے لئے آئے ہوئے تھے۔ سامان اٹھا یا اور اپنی گاڑی میں رکھا۔ اور گھر آگئے۔ گھر کے سب لوگ بہت خوش تھے۔ خوب گلے لگ کر ملے۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے مجھے تمام زیارات کرنے کا شرف بخشا۔
منجانب ثریا بانو ریلوے کالونی مغل پورہ۔